امیرالکونین (قسط56)

امیرالکونین (قسط56)

عارف باللہ وہ ہے جو ہمیشہ اِس قسم کی دعوت پڑھے اور دنیا و آخرت کی تمام دولت سے لایحتاج ہو جائے- یہ دعوت اُس کی انتہا کو ابتدا سے ملا دے اور وہ اِس سے ابتدا و انتہا کا سارا سبق ایک ہی سبق میں پڑھ لے- ابتدا اللہ کا نور ہے اور انتہا مراتب ِفنا فی محمدرسول اللہ (ﷺ)کی حضوری ہے-اکثر بعض لوگوں کی یہ حالت ہوتی ہے کہ ماضی حال و مستقبل کی حقیقت اُن پر کھل جاتی ہے یا مؤکل فرشتے اُنہیں آواز دیتے ہیں یا اُنہیں جن آوازدیتے ہیں یا وہ علمِ قال سے یا علمِ رمل سے کچھ مراتب حاصل کر لیتے ہیں یا علمِ دانش و عقل و شعور سے ہر کام کی تحقیق کر لیتے ہیں یا علمِ بروج سے نیک و بد اور سعد و نحس ایام و ماہ و سال معلوم کر لیتے ہیں لیکن صاحب ِقرب اہل ِحضور فقیر وہ ہے جو بے نصیب کو اللہ تعالیٰ سے نصیب دلوا دے اور ایامِ نحس و کم بختی کو ایامِ سعد و نیک بختی میں تبدیل کروا دے اور مردہ دل و بے شعور طالب کو اپنی توجہ سے حضوری میں پہنچا دے - اِس قسم کا صاحب ِقوت ناظر فقیر ہمیشہ مشاہدۂ حضوری میں غرق رہتا ہے -وہ لوحِ محفوظ کی طرف نہیں دیکھتا -

ابیات :(1)’’ جسے دائم حضوری حاصل ہو وہ ہر وقت معیت ِالٰہی میں اللہ تعالیٰ سے ہم کلام رہتا ہے‘‘-

(2) ’’ اُس کی نظر نگاہِ الٰہی سے متصل رہتی ہے اور وہ دیدار ِالٰہی میں غرق رہتا ہے ، یہ ہے راہ اہل ِلقا ناظروں کی‘‘-

یہ فقیر کے ابتدائی مراتب ہیں- 

ابیات :(1)’’  مَیں کامل بھی ہوں اور عامل بھی ہوں ، میری نظر مشاہدۂ باطن پہ ہوتی ہے - مَیں لائق ِتلقین و تعلیم راہنما ہوں‘‘-

(2)’’ اِس شرافت کا شرف اُمت ِمصطفےٰ  علیہ الصلوٰۃ و السلام کو حاصل ہے کہ اِس اُمت کے فقیر اسرار ِالٰہی سے واقف ہیں‘‘-

پہلے وجود میں وارداتِ تصنیف کا علم پیدا ہوتا ہے جس سے غلباتِ تحریر پیدا ہوتے ہیں جو ہر رسمی رواجی علم پر غالب ہوتے ہیں، اِس کے بعد علمِ حیُّ قیوم جمعیت بخشتا ہے -اِس کا انحصار شریعت ِمحمدی (ﷺ) کے مراتب پر ہے-

بیت:’’  مراتب ِذکر گئے ، مراتب ِفکر گئے، مراتب ِمذکور حضور بھی گئے اور مَیں غرق فی التوحید ہو کر نورِمطلق کے مراتب تک جا پہنچا‘‘-

نہایت (انتہا) اُمیدوار ِبدایت (ابتدا) ہے، یہ مطلق ہدایت کا مرتبہ ہے –

 فرمانِ حق تعالیٰ ہے :’’ اور سلام ہے اُس پرجو ہدایت کی راہ چلا‘‘-

ابیات :(1) ’’ جس نے اپنی ہستی کو فنا کردیا وہ صاحب ِنظر ہو گیا اور مثل ِ خضر(علیہ السلام) لوگوں کا راہنما بن گیا‘‘-

(2)’’ اگر تُوغرق فی التوحید ہو جائے تو باقی وحدتِ توحید ہو گی کہ جیسے بلبلہ جب پانی میں غرق ہوتا ہے تو وحدتِ آب رہ جاتی ہے‘‘-

اگر طالب ِصادق مراتب ِطلب میں ثابت قدم ہو کر جان فدا کرنے پر تیار ہو جائے تو مرشد ِکامل کو اُسے معرفت ِحضور ربانی میں پہنچانا آسان ہو جاتا ہے -اِنسانِ کامل ایسے طالب ِصادق کو ایک دم کے لئے بھی مشاہدۂ دیدار ِپروردگار سے باہر نہیں رہنے دیتا -یہ ہیں مراتب ِجمعیت -                                                                              (جاری ہے)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر