ابیات باھوؒ

ابیات باھوؒ

جے رب ناتیاں دھوتیاں ملدا تاں ملدا ڈڈواں مچھیاں ھُو

جے رب لمیاں والاں ملدا تاں ملدا بھیڈاں سسیاں ھُو

جے رب راتیں جاگیاں ملدا تاں ملدا کال کڑچھیاں ھُو

جے رب جتیاں ستیاں ملدا تاں ملدا ڈانداں خصیاں ھُو

انہاں گلاں رب حاصل ناہیں باھُو رب ملدا دِلیاں ہچھیاں ھُو

 

Jay Rabb natia'N dhotia'N milda taa'N milda DaDu'waN machiaa'N Hoo

Jay Rabb lamia'N walaa'N milda taa'N milda bhaiDa'N sasia'N Hoo

Jay Rabb rateeN jagia'N milda taa'N milda kaal kaRichia'N Hoo

Jay Rabb jatia'N satia'N milda taa'N milda daanda'N Khasia'N Hoo

Inha'N gala'N Rabb hasil naheeN Bahoo Rabb milda dilya'N hachia'N Hoo

 

If Lord is accessed being bathed than frogs and fishes would have accessed Hoo

If Lord accessed with long hairs than gray sheep would have accessed Hoo

If Lord accessed by night vigil than bats would have accessed Hoo

If Lord accessed by remaining in celibacy than castrated bullocks would have accessed Hoo

With those factors, Lord not accessed "Bahoo" with true intentions Lord accessed Hoo

تشریح:

﴿۱﴾ اسباب از خود مقاصد نہیں ہوتے البتہ نیت و ارادہ اِن کو اختیار کرکے حصولِ منزل کے لیے کارگر ہوتا ہے- جب ذہن میں منزل کاتعین نہ ہو تو راستے اور اسباب و وسائل لایعنی و بے فیض ہو جاتے ہیں- بعینہٰ فقیری و درویشی متصوفانہ لبادہ و ساز و سامان اور صوفیانہ رُوپ و ڈھنگ اپنانے تک محدود نہیں ہے- حضرت سلطان باھُورحمۃ اللہ علیہ نے اِنہی بے مقصد اُمور کوایک ایک کرکے بیان فرمایا ہے- راہِ معرفت میں جسمانی پاکیزگی کی بڑی اہمیت ہے- پاک پانی کے استعمال سے انسان اپنی جسمانی ناپاکی دُور کرتا ہے- لیکن اگر کوئی ناقص العقل یہ خیال کرے کہ پانی کے استعمال سے جو طہارت نصیب ہوتی ہے محض اُسی سے راہِ معرفت ہاتھ آجائے گی تو یہ اُس کی خام خیالی ہے- محض پانی سے اگرپاکیٔ جان حاصل ہوسکتی تو ہمیشہ پانی میں رہنے والے حیوانات سب سے زیادہ پاکیزہ و مطہر ہوتے- پانی سے وضو کرکے بلاشبہ انسان پاک ہو جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ اُسے باطنی وضو ﴿پاکی﴾ کی ضرورت بھی ہوتی ہے اور باطنی وضو نفسانی خواہشات کا خون کرکے اُن کے لہوسے کیا جاتا ہے اور حقیقی وضو محبت الٰہی اور خشیت اِلٰہی کے باعث آنکھوں سے جو اشکوں کی جھڑی رواں ہوتی ہے اُس سے کیا جاتا ہے-

ہے یہی میری نماز،ہے یہی میرا وضو

میری نوائوں میں ہے میرے جگر کا لہو

خال خال اِس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ

کرتے ہیں اشکِ سحر گاہی سے جو ظالم وضو

﴿۲﴾ اِسی طرح عام لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ درویشی لمبی لمبی زلفیں رکھنے، میلے کچلے ملبوسات پہننے اور ویرانیوں میں جائے سکونت اختیار کرنے میں ہے- اگر اہلِ تصوف کا یہی معیار ہے تو بھیڑوں بکریوں کو بھی ان میں نمایاں مقام ملتا-

﴿۳﴾ اگر ذکرِ الٰہی اور حقیقی تفکر کے بغیر صرف راتوں میں بیدار رہنے سے راہِ حقیقت کھلتی تو اپنی فطرت کے مطابق رات بھر چیخنے و چلانے والے پرندے راہِ حق کے نامور راہی ہوتے- حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ نے لاحاصل و بے فیض شب بیدار ی کے بارے میں ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:- ’’کی ہویا جے گھگّو جاگے جہڑا لیندا ساہ اُپٹھے ھو ‘‘ یعنی گھگو جو کہ اُلٹے سانس لیتا ہے اگر رات بھر جاگتا رہے ، تو اس کے بیدار رہنے سے کیا حاصل ہے؟

﴿۴﴾ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ خدائے واحد کو پانے کے لیے جنسی جبلت سے کنارہ کشی ضروری ہے اور مجرد رہنے سے ہی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ملتی ہے- حالانکہ شریعت میں بنا کسی خاص شرعی عُذر کے کنوارہ رہنا گناہ اور گمراہی میں شمار ہوتا ہے- اگر کنوارے پن سے معرفت کا کوئی انمول گوہر مل سکتا تو اُن حیوانات کو نصیب ہوتا جنہیں کسی وجہ سے تولیدی صلاحیت سے محروم کر دیا جاتا ہے- یا پھر جسمانی طور پہ مخنث حضرات ﴿خسرے﴾ اس لحاظ سے عارفانِ خدا ہوتے-

﴿۵﴾ آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مذکورہ عوامل و اُمور سے قربِ خداوندی نصیب نہیں ہوتا البتہ اخلاص نیت، تصفیۂ قلب اور تزکیۂ نفس کی بنا پہ لقائے حق کے امکانات روشن ہوتے ہیں اور وِصالِ الٰہی کی اُمید بر آتی ہے- آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ :-حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کا فرمان ہے-: ’’بے شک اللہ تعالیٰ نہ تو تمہاری صورتوں کو دیکھتا ہے اور نہ ہی تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے بلکہ وہ تمہارے دلوں اور تمہاری نیتوں کو دیکھتا ہے-‘‘ ﴿عین الفقر:۹۵﴾

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر