مسئلہ فلسطین اور عالمی دنیا کا ردِعمل

مسئلہ فلسطین اور عالمی دنیا کا ردِعمل

مسئلہ فلسطین اور عالمی دنیا کا ردِعمل

مصنف: محمد محبوب دسمبر 2023

 ابتدائیہ:

دو عظیم عالمی جنگوں کے اختتام پر اقوام متحدہ کا قیام عمل میں اس لئے لایا گیا تھا کہ یہ ادارہ نہ صرف مستقبل میں دو ممالک کے مابین کسی بھی بڑی جنگ کو روکنے کے لئے اہم کردار ادا کرے گا بلکہ دنیا میں سلامتی اور قیام امن کو یقینی بنائے گا- اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق محکوم اقوام کو حق خود ارادیت دینے اور بازور طاقت کسی سامراج یا غاصب کو ان مظلوموں کی زمین ہتھیانے پر پابندی عائد کی گئی- اس لئے ایک ملک کی طرف سے کسی کمزور ریاست پر جارحیت (Aggressions ) کے ارتکاب کو عالمی قوانین کی روشنی میں ممنوع قرار دیا گیا- پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانیہ کی پشت پناہی اور مینڈیٹ سے فلسطینیوں کی سر زمین پر ریاست اسرائیل کے قیام کا آغاز ہوا- دنیا بھرمیں محکوم اور مظلوم یہودیوں کے نام پر صہیونیت پرستوں کو مہاجرین بنا کر فلسطینیوں کی سرزمین میں بسایا گیا- اسی طرح اقوام متحدہ کے قیام کےفوراً بعد ہی 1948ء میں اسی پلیٹ فارم کے ذریعے فلسطینیوں کی سر زمین کو تقسیم کر کے اسرائیل کے قیام کو باقاعدہ عمل میں لایا گیا-اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کے دوہرے معیارات اسی دوران ہی واضح ہو جاتے ہیں جب پوری تیاری کے ساتھ ریاست اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا اور فلسطینیوں کو حق خودارادیت اور دو ریاستی حل کے نام پر صیہونیوں کے رحم و کرم پرچھوڑ دیا گیا- اس سارے عمل کا نتیجہ یہ نکلا کہ جن کی زمین تھی وہ دنیا بھر میں دھکے کھا رہے ہیں جبکہ عالمی طاقتوں کی پشت پناہی سے قابضین اس زمین کے مالک بن بیٹھے ہیں- فلسطینی جب بھی قانونی طریقے سے اپنی آواز کو بلند کرتے ہیں تو انہیں دِلاسے دلا کرخاموش کر دیا جاتا ہے- یہی فلسطینی جب اسرائیلیوں کے مظالم اور عالمی اداروں اور دنیا کی بے بسی کو دیکھ کر جدوجہد کا راستہ اپناتے ہیں تو اسرائیل ان پر بمباری کرنا شروع کر دیتا ہے- جس کا شکار معصوم بچے، عورتیں اور عام شہری بنتے ہیں- زیر نظر مضمون میں ہم حالیہ انہی تاریخی کڑیوں سے جڑے فلسطینیوں کے ردعمل کے نتیجے میں اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیوں کا ذکر کریں گے-ان وحشیانہ کارروائیوں پر عالمی دنیا اور خصوصاً وہاں کی عوام کا ردعمل جاننے کی کوشش کریں گے-

عالمی دنیا کا ردعمل:

تا دم تحریر 20 نومبر 2023ء تک غزہ میں مظلوم فلسطینیوں پر اسرائیلی جارحیت اور بمباری کے نتیجے میں 30 ہزار افراد زخمی اور 13 ہزار سے زیادہ افراد بشمول 5500 بچے اور 3500 خواتین شہید ہو چکی ہیں-تقریباً 1.5 ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں- اسرائیل یہ بمباری عالمی انسانی قوانین کے برعکس سکولوں ، ہسپتالوں ، شہری آبادیوں اور عام افراد پر کر رہا ہے- غزہ میں لاپتہ افراد کی تعداد 6000 سے تجاوز کر گئی ہے، جن میں سے زیادہ تر کے گرنے والی عمارتوں کے ملبے تلے دبے ہونے کا شبہ ہے- اس کے علاوہ مکمل طور پر تباہ ہونے والی مساجد کی تعداد 83 ہے جبکہ ان میں سے 166 کو نقصان پہنچا- 3 گرجا گھروں کو بھی نشانہ بنایا گیا- 43000 سے زائد ہاؤسنگ یونٹس مکمل طور پر منہدم ہو چکے ہیں، جبکہ 225000 کو نقصان پہنچا ہے- اندازے کے مطابق غزہ کی پٹی میں 60 فیصد رہائشی یونٹ بمباری سے متاثر ہوئے- حملوں کے آغاز کے بعد سے 25 ہسپتال اور 52 صحت مراکز بھی سروس سے باہر ہو چکے ہیں- اسرائیلی فورسز نے 55 ایمبولینسوں کو بھی نشانہ بنایا جبکہ درجنوں ایمبولینسیں ایندھن  کی کمی کے باعث بند ہیں- فلسطینی وزارت صحت کی جانب سے 6 نومبر کو جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اب تک اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں اوسط ہر 10منٹ میں ایک بچے کی شہادت ہو رہی ہے-اسرائیل کے قیام سے لے کر حالیہ کھلے عام غزہ پر وحشیانہ بمباری کی- اگر وجہ معلوم کی جائے تو وہ عالمی برادری کی بے حسی اور مجرمانہ خاموشی سے تعبیر کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا- حالیہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیلی جارحیت کو رکوانے کی بات تو دور محض مذمتی قرارداد بھی پاس نہیں ہوسکی- عالمی برادری بشمول اسلامی دنیا کے بیشتر ممالک سیاسی اور معاشی مفادات کی خاطر اسرائیلی اقدامات اور جارحیت پر عملی اقدامات اٹھانےسےقاصر ہیں- حکمرانوں کی اپنی مجبوریاں ہو سکتی ہیں لیکن کراچی سے لے کر نیو یارک، پیرس اور لندن تک عام عوام فلسطینیوں کے حق میں زبردست ریلیوں اور احتجاجی مظاہروں کا انعقاد کیا گیا- ان مظاہروں نے حکمرانوں پر دباؤ بڑھایا کہ وہ اسرائیل کو مظلوم فلسطینیوں پر وحشیانہ کارروائیوں اور جارحیت کو روک سکے- تا دم تحریر اسرائیلی جارحیت جاری ہے اور مزید شہادتوں کا خطرہ لاحق ہے جو ایک انسانی بحران کی شکل اختیار کر رہا ہے-

حالیہ غزہ کی صورتحال پر اقوام متحدہ اور یورپی یونین کا ردعمل:

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیلی وحشیانہ حملوں اور زمینی حملوں کے تیاریوں کے درمیان روس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ کی ’’انسانی بنیادوں پر جنگ بندی‘‘ کی قرار داد پیش کی تھی لیکن امریکہ کی جانب سے ویٹو کرنے کے بعد قرارداد پاس نہ ہوسکی- برازیل کی جانب سے بھی سلامتی کونسل میں قرارداد پیش کی گئی لیکن قرارداد کو 15 میں سے 12 ووٹ ملے- اس قرارداد کو بھی امریکہ نے ویٹو کر دیا- اس کے علاوہ چین اور روس نے امریکہ کی طرف سے پیش کردہ قرارداد کو ویٹو کیا-[1]

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 28 اکتوبر2023ء کو عرب گروپ کی پیش کردہ فوری جنگ بندی کی قرارداد منظور کرلی جس میں اسرائیل اور فلسطین دونوں کی جانب سے شہریوں کے خلاف تشدد کی کارروائیوں کی مذمت کی گئی ہے- جنرل اسمبلی کے ہنگامی اجلاس میں اردن کی جانب سے 22 عرب ممالک کی نمائندگی کرتے ہوئے غزہ کی صورتحال سے متعلق پیش کی گئی قرارداد کی 195میں سے فرانس سمیت 120 ارکان نے حمایت کی-اسرائیل، امریکہ اور آسٹریا سمیت  14 اراکین نے قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دیا جبکہ 45 ارکان بشمول جرمنی، اٹلی اور برطانیہ غیر حاضر رہے- اگرچہ جنرل اسمبلی کی قرارداد کااطلاق  Non-Binding ہوتا ہے لیکن ان کی اخلاقی حیثیت ہوتی ہے-[2] اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گٹیرس نے کہا کہ میں غزہ میں شہریوں کے قتل کی مذمت کرتا ہوں اور مجھے ان خبروں سے مایوسی ہوئی ہے کہ جاں بحق ہونے والوں میں دو تہائی خواتین اور بچے ہیں- میں اقوام متحدہ کے ان ساتھیوں کا سوگ اور احترام کرتا ہوں جو گزشتہ تین ہفتوں کے دوران غزہ پر بمباری میں المناک طور پر مارے گئے ہیں-

غزہ پر اسرائیلی جارحیت کا تذکرہ کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گٹیرس نے کہا کہ ’’بچوں کے لیے قبرستان بنتا جا رہا ہے‘‘-[3]

غزہ میں ڈراؤنا خواب ایک انسانی بحران سے زیادہ ہے- یہ انسانیت کا بحران ہے- انہوں نے مزید کہا کہ جنگ بندی کی ضرورت ’ہر گزرتے گھنٹے کے ساتھ زیادہ ضروری‘ ہوتی جا رہی ہے-

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے سربراہ ٹیڈروس اذانوم گیبریئسس نے سلامتی کونسل میں کہا کہ غزہ میں ’’کہیں اور کوئی بھی محفوظ نہیں‘‘- اس لئے (فلسطینیوں) کی جانیں بچانے اور بہت زیادہ ضروری امداد کی فراہمی کو تیز کرنے کے لیے جنگ بندی کا مطالبہ کیا-

یورپی یونین بطور ادارہ اور متعدد ممالک اسرائیل کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں- لیکن عوامی سطح پر شدید احتجاج کے باعث، غزہ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ’’جنگ میں تعطل‘‘ پر اعلیٰ نمائندے نے کہا کہ ’’یورپی یونین کو غزہ میں گہرے ہوتے انسانی بحران پر شدید تشویش ہے- یونین فوری طور پر جنگ میں توقف کرنے اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر راہداریوں جس میں بشمول سرحدی گزرگاہوں کی صلاحیت میں اضافہ اور ایک وقف شدہ سمندری راستے کے کھولنے کا مطالبہ کرتی ہے، تاکہ انسانی امداد غزہ کی آبادی تک محفوظ طریقے سے پہنچ سکے‘‘-[4]

امریکہ میں حکومتی اور عوامی ردعمل:

مغربی دنیا میں حکومتی سطح پر خصوصاً امریکی قیادت کا واضح طور پر اس بات کا اظہار کیا گیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں-امریکی صدر جو بائیڈن اور امریکی وزیر خارجہ اینتھونی بلنکن نے خود اسرائیل کے دورے کئے-سینئر امریکی سفارتی اور دفاعی حکام بھی اسرائیل کے دورے کر چکے ہیں- حتی کہ اپنے دورے کے دوران بلنکن نے واضح طور پر اعلان کیا کہ وہ اسرائیل میں بطور وزیر خارجہ نہیں بلکہ ایک یہودی کے طور پر آئے ہیں-[5] جبکہ امریکہ کے صدر نے اسرائیل کے ساتھ امریکہ کی دہائیوں پرانی حمایت کا ایک بار پھر اظہار کیا اور کہا کہ بحران کی اس گھڑی میں امریکہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے- جو بائیڈن نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے ساتھ مل کر 18 اکتوبر 2023 ءکو تل ابیب میں اسرائیل کی جنگی کابینہ کے اجلاس میں شرکت کی-امریکہ نے اسرائیلی حمایت میں طیارہ بردار بحری جہاز یو ایس ایس جیرالڈ فورڈ اور یو ایس ایس ڈوائٹ آئزن ہاور جنگی کشتیوں کے گروپوں کو بھی خطے میں تعینات کیا ہے-[6]امریکہ کی مختلف ریاستوں میں فلسطینیوں کے حق میں زبردست احتجاجی مظاہرے ہوئے- مختلف علاقوں میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف مظاہرے کرنے والے یہودیوں سمیت مختلف افراد کو گرفتار بھی کیا گیا-[7]

واشنگٹن اور نیویارک سمیت متعدد علاقوں میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے ہوئے-امریکہ میں حکومتی سطح پر اسرائیل کی حمایت کے باوجود ہزاروں افراد فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور ان کے حق میں آواز بلند کرنے کے لیے سڑکوں پر جمع ہوئے- نیویارک کے ٹائمز اسکوائر پر ہزاروں افراد نے مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے ریلی نکالی جبکہ سٹی یونیورسٹی نیویارک کے طلباء بھی فلسطینیوں کی حمایت میں نکلے اور ریلی کے شرکاء نے ’’فری فلسطین‘‘ کے نعرے لگائے- بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے اسرائیل کی حمایت اور غزہ میں اس کی مسلسل فوجی مہم کے خلاف ہزاروں افراد ملک کے دارالحکومت میں جمع ہوئے- دوران مظاہرے یہ نعرے بلند ہوئے ’’فلسطین آزاد ہو گا‘‘- مظاہرین نے ایک بہت بڑا فلسطینی پرچم علامت کے طور پر اٹھایا ہوا تھا- امریکہ کا پینسلوینیا ایونیو مظاہرین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا-

لاطینی امریکہ میں فلسطینیوں سے یکجہتی:

لاطینی امریکہ میں نہ صرف متعدد ممالک بلکہ ان ممالک کی عوام نے فلسطینیوں کے ساتھ کھل کر اظہار یکجہتی کیا- (1) اس خطے کے اہم ملک بولیویا نے غزہ پر اسرائیلی حملوں کے بعد تعلقات منقطع کرتے ہوئے ان حملوں کو جارحانہ اور غیر متناسب قرار دیا- اس کے علاوہ غزہ میں نسل کشی کے خلاف (2)کولمبیا، (3) ہنڈراس اور (4)چلی نے اپنے سفراء کو اسرائیل سے واپس بلوایا- چلی نے اسرائیلی اقدامات کو ’’بین الاقوامی انسانی قانون کی ناقابلِ قبول خلاف ورزیاں‘‘ قرار دیا-چلی کے صدر نے ایکس پر لکھتے ہوئے کہا کہ :

’’چلی اس کی مذمت کرتا ہے اور اس طرح کے فوجی آپریشن کو انتہائی تشویش کے ساتھ دیکھتا ہے، جو اس وقت غزہ میں شہری آبادی کے لیے اجتماعی سزا ہے- یہ بین الاقوامی قانون کے بنیادی اصولوں کا احترام نہیں کرتے جس کی وجہ سے 8 ہزار سے زیادہ شہری ہلاک ہوئے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں‘‘-[8]

چلی کے دارالحکومت سینٹیاگو میں ہزاروں لوگوں نے فلسطینیوں کے حق میں ایک مارچ میں شرکت کی-

کولمبیا کے صدر گستاو پیٹرو نے اسرائیلی جارحانہ کارروائیوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’ ہم نسل کشی کی حمایت نہیں کرتے‘‘-سوشل میڈیا پلیٹ فارم X پر جاری پیغام میں انہوں نے کہا کہ ’’اگر اسرائیل، فلسطینیوں کا قتل عام نہیں روکتا تو ہم بھی وہاں (اسرائیل) نہیں رہ سکتے ہیں‘‘[9] (5) برازیل میں عوامی سطح پر غزہ میں اسرائیل کی جارحیت روکنے کے حق میں احتجاجی مظاہرے ہوئے- برازیل کے صدر لولا دا سلوا نے اسرائیلی جارحانہ کارروائیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل جو کچھ کر رہا ہے’’ یہ جنگ نہیں بلکہ نسل کشی ہے جس میں تقریباً 2000 بچوں کو شہید کر دیا ہے جن کا اس جنگ سے کوئی تعلق نہیں ہے‘‘-[10] انہوں نے واضح کیا کہ اسرائیل کے خلاف فلسطینی عسکریت پسندوں کا حملہ غزہ میں لاکھوں بے گناہوں کے قتل کا جواز نہیں ہو سکتا-

(6) ارجنٹینا کی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ اسرائیلی بمباری ’’بین الاقوامی انسانی قوانین کی خلاف ورزی کا کوئی جواز پیش نہیں کرتی ہے‘‘- (7) میکسیکو نے بھی غزہ کی صورتحال کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے فوری جنگ بندی کی اپیل کی ہے- میکسیکو کی سفارت کار ایلیسیا بوینروسٹرو نے غزہ پر اقوام متحدہ کے ہنگامی خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے دو ریاستی حل کی دلیل دیتے ہوئے اسرائیلی ’’قابض طاقت‘‘ سے فلسطینی علاقوں پر اپنا دعویٰ ختم کرنے کا مطالبہ کیا- اس کے علاوہ ہزاروں لوگ بیونس آئرس، میکسیکو سٹی، ساؤ پالو، سینٹیاگو، بوگوٹا اور دیگر لاطینی امریکی شہروں کی سڑکوں پر نکل کر غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی کے خلاف احتجاج کیا- دوران احتجاج انہوں نے جنگ بندی اور سفارتی تعلقات کومنقطع کرنے کا مطالبہ کیا-

افریقہ اور افریقی یونین کا اسرائیلی جارحیت پر ردعمل:

افریقہ کا خطہ جہاں مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب پر عمل کرنے والوں کی بھی اکثریت ہے کی تنظیم افریقن یونین، جس میں 55 ممالک شامل ہیں، نے 7 اکتوبر 2023ء کو فلسطین کی حمایت میں ایک بیان جاری کیا- انہوں نے کہا کہ:

“The Chairperson wishes to recall that denial of the fundamental rights of the Palestinian people, particularly that of an independent and sovereign State, is the main cause of the permanent Israeli-Palestinian tension”.[11]

’’فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق، خاص طور پر ایک آزاد اور خودمختار ریاست کے قیام سے انکار، اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مستقل کشیدگی کی بنیادی وجہ ہے‘‘-

افریقہ کے اکثر ممالک نے اسرائیلی اقدامات پر سخت ردعمل دیا- جنوبی افریقی حکومت نے غزہ کی صورتحال کے باعث اپنے تمام سفارتکاروں کو اسرائیل سے واپس بلایا ہے- جنوبی افریقی وزیر خارجہ Naledi Pandor نے کہا کہ ہمیں غزہ میں معصوم بچوں اور شہریوں کی شہادتوں پر بہت زیادہ تشویش ہے اور ہمارا ماننا ہے کہ اسرائیلی رویہ اجتماعی سزا دینے کے مترادف ہے- غزہ میں جاری وحشیانہ کارروائیوں پر اسرائیلی وزیراعظم کی گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہوئے جنوبی افریقی وزیر خارجہ Naledi Pandor نے کہا کہ انہیں توقع ہے کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کی جانب سے اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا جائے گا- [12] 23 اکتوبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ’’فوری، پائیدار اور پائیدار انسانی ہمدردی کی جنگ بندی‘‘ کا مطالبہ کرنے والی اردن کی قرارداد جنرل اسمبلی میں 120 ووٹوں سے پاس ہوئی- مراکش اور سوڈان سمیت 35 افریقی ریاستوں نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا- جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن سمیت پورے خطے میں فلسطینیوں کے حق میں ہزاروں افراد نے احتجاجی مظاہرے کئے-

ایشیائی ممالک میں فلسطینیوں کے حق  میں رد عمل :

دنیا کی دوسری بڑی ابھرتی ہوئی معیشت چائنہ نے ہمیشہ سے فلسطینیوں کے حق میں اپنا ردعمل دیا ہے- چین نے حالیہ تناظر میں کہا کہ :’’تنازع سے نکلنے کا راستہ دو ریاستی حل پر عمل درآمد اور فلسطین کی ایک آزاد ریاست کے قیام میں مضمر ہے‘‘-[13]

اسرائیلی جارحیت پر تنقید کرتے ہوئے چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے کہا کہ غزہ میں اسرائیل کی کارروائیاں ’’اپنے دفاع کے دائرہ کار سے تجاوز کر گئی ہیں‘‘ اور اسرائیلی حکومت کو ’’غزہ کے لوگوں پر اپنی اجتماعی سزا بند کرنا پڑے گی‘‘- روسی صدرپیوٹن نے بھی کہا کہ دو ریاستی حل کے بغیر مشرق وسطی میں قیام امن ناممکن ہے- ملائیشیا، انڈونیشیا اور برونائی نے مقبوضہ علاقے میں اسرائیل کی ’’غیر انسانی، نوآبادیاتی اور Apartheid‘‘ پالیسی کی مذمت کی- بھارت نے حالیہ تنازع میں اسرائیل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ’’انڈیا کے لوگ اس مشکل گھڑی میں مضبوطی سے اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں ‘‘- بھارت کی یہ پالیسی ان بے بصیرت عرب حکمرانوں کے منہ پہ طمانچہ ہے جو مسئلہ کشمیر پر بھارت کی حمایت اس لئے کرتے تھے کہ شاید بھارت بھی فلسطین کی حمایت کرے گا ۔ بھارت کے کثیر علاقوں میں فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کرنے والوں کی گرفتاریاں بھی عمل میں لائی گئیں ہیں- اپوزیشن جماعتوں نے فلسطین کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کیا ہے-بھارتی سرکاری مؤقف کے باوجود بھارتی عوام نے مظلوم فلسطینیوں کے حق میں احتجاجی مظاہرے کئے- ہندوستان کی ریاست کیرالہ کے طول و عرض میں سینکڑوں مقامات پر فلسطینیوں کی حمایت میں احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں-[14] ضلع مالاپورم میں مظاہروں کو منظم کرنے والی ایک وکیل راہنا سبینہ نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’’کیرالہ میں ہم نے ریاست گیر احتجاج کیا اور یہ 300 مراکز میں ہوا- ہم فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کیلئے مضبوطی سے کھڑے ہیں-فلسطینی عوام کو عشروں سے انصاف نہیں ملا ہے- اسرائیل سامراجی طاقتوں کی مدد سے فلسطین پر قبضہ کر رہا ہے- ہم کسی بھی ملک کے کسی بھی سرزمین پر قبضے کی مخالفت کرتے ہیں‘‘- اس کے علاوہ دہلی ، چنائی ، مقبوضہ جموں و کشمیر، کولکاتہ، بنگلورو اور ممبئی سمیت متعدد شہروں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے-

یورپی ممالک کا حکومتی اور مقامی سطح پر ردعمل:

متعدد یورپی ممالک ہمیشہ کی طرح مظلوم فلسطینیوں کی حمایت کے برعکس اسرائیل کے ساتھ کھڑے نظر آئے- برطانیہ کے وزیر اعظم نے اسرائیل کا دورہ کرتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو اپنی حمایت کا یقین دلایا- یورپ کے دیگر ممالک اٹلی، سپین، فرانس،جرمنی اور بشمول یورپی یونین اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں- کئی یورپی ممالک میں فلسطینیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیلئے جمع ہونے کے خواہاں مظاہرین کو ممانعت، پابندیوں، پولیس کی مداخلت اور حراست کے اقدامات کا سامنا کرنا پڑا- مثلاً لندن ، پیرس، اسٹراسبرگ، لیون،  مارسیلیا، برلن، فرینکفرٹ، ایمسٹرڈیم، باسیل اور زیورخ وغیرہ مظاہرین کو زیر حراست لیا گیا اور اکثر مظاہرین پر گیس اور پانی استعمال کیا گیا- حکومتی سطح پر اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہونے کے باوجود یورپی ممالک کے اہم دارالحکومتوں میں حالیہ ہفتوں میں رکاوٹوں اور حراست میں لیے جانے کے باوجود لاکھوں افراد نے فلسطینیوں کے حق میں مظاہروں میں شرکت کی اور جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے- برلن، مانچسٹر، پیرس، میلان اور کوپن ہیگن سمیت یورپ کے کئی شہروں میں اسرائیلی حکومت کی غزہ پر مسلسل بمباری کے خلاف ہزاروں افراد فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے- ان کا مطالبہ تھا کہ غزہ کے عوام کے خلاف اسرائیلی حکومت کی غیر مساوی جنگ کو ختم کیا جائے-سب سے بڑے مظاہروں میں سے ایک کا انعقاد لندن میں کیا گیا تھا جس میں لاکھوں مظاہرین نے برطانوی دارالحکومت میں مارچ کیا اور وزیر اعظم رشی سنک کی حکومت سے تنازع کو روکنے کا مطالبہ کیا- اس کے علاوہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں بھی فلسطین میں اسرائیلی بمباری کے خلاف احتجاج کیا گیا جس میں تمام رنگ و نسل کے ہزاروں افراد نے شرکت کی اور فلسطین پر ہونے والے ظلم کے خلاف اپنی آواز اٹھائی- برلن میں مظاہرین نے فلسطینی پرچم اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر ’’نسل کشی بند کرو‘‘، ’’غزہ کو بچاؤ‘‘ اور ’’جنگ بندی‘‘ کے نعرے درج تھے-[15]

اسرائیل جارحیت کے اسلامی دنیا اور او آئی سی کا ردعمل:

فلسطین میں بسنے والوں خصوصاً غزہ اور مغربی کنارے میں مقیم فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم اور جنگی جرائم کے خلاف ہمیشہ سے اسلامی دنیا میں غم و غصہ رہا ہے مگر افسوس کہ یہ غم و غصہ کبھی یکجہتی اور مشترکہ لائحہ عمل میں تبدیل نہیں ہوا - اسلامی دنیا نے ’’فلسطین کاز‘‘ کو اپنی غیر متزلزل حمایت فراہم کی ہے- مفاد پرست حکمرانوں کی اپنی سیاسی مجبوریاں ہو سکتی ہیں لیکن اسلامی دنیا کی عوام یعنی مسلمانوں کے دل فلسطینیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں- اسلامی دنیا کے حکمران محض لفظی کلامی کے علاوہ اسرائیل کے خلاف کوئی ٹھوس اقدامات اٹھانے سے قاصر رہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کچھ کر سکتے نہیں تھے بلکہ المیہ یہ ہے کہ انہوں نے کیا کچھ نہیں - 26 اکتوبر 2023ء کو متحدہ عرب امارات، اردن، بحرین، سعودی عرب، عمان، قطر، کویت، مصر اور مراکش کے وزرائے خارجہ نے بیک آواز ’غزہ میں شہریوں کو نشانہ بنانے اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی‘ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’’اپنے دفاع کا حق قانون شکنی اور فلسطینیوں کے حقوق کو نظر انداز کرنے کا جواز نہیں بنتا‘‘-

پاکستانی عوام ہمیشہ فلسطینیوں کے شانہ بشانہ کھڑی رہی ہے- حکومتی سطح پر پاکستان نے واضح پوزیشن لیتے ہوئے کہا کہ پاکستان غزہ میں اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتا ہے، غزہ میں شہری آبادی کو نشانہ بنایا گیا اور ان حملوں میں خواتین اور بچے بھی شہید ہوئے، نہتے فلسطینیوں پر زمین تنگ کی جارہی ہے- اس لئے اقوام متحدہ غزہ میں سیز فائر کی بھرپور کوشش کرے، غذائی اشیاء روکنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے- او آئی سی اور عرب لیگ کا مشترکہ غیر معمولی اجلاس 11 نومبر بروز ہفتہ کو سعودی دارالحکومت ریاض میں منعقد ہوا- اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اور عرب لیگ کے اس مشترکہ غیر معمولی ہنگامی سربراہی اجلاس میں پاکستان سمیت پوری اسلامی دنیا کے سربراہان جمع ہوئے- اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اجلاس نہ صرف اسرائیل کے حق ِ دفاع کے دعوے بلکہ غزہ کو مغربی کنارے سے الگ کرنے کے کسی بھی سیاسی حل کو مسترد کرتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ اسرائیلی قابض حکومت کی جارحیت اور غزہ کا محاصرہ ختم کیا جائے اور صیہونی ریاست کو ہتھیاروں کی فروخت روکنے کے ساتھ ساتھ غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی یقینی بنائی جائے-اجلاس میں اسرائیل کے جنگی جرائم اور غیر انسانی قتل عام کی شدید مذمت کی گئی-[16]

اختتامیہ:

جیسا کہ اس مضمون میں مختلف ممالک کا مظلوم فلسطینیوں خصوصاً غزہ میں بسنے والے بچوں، عورتوں اور بزرگوں پر اسرائیلی وحشیانہ کارروائیوں اور جارحیت کا سرکاری اور عوامی سطح پر ردعمل دیکھنے کا موقع ملا وہیں یہ معلوم ہوتا ہے طاقت اور قوت کے سامنے بین الاقوامی برادری، عالمی قوانین اور اصول بے بس نظر آتے ہیں- ہسپتالوں، رہائش گاہوں اور معصوم بچوں اور عورتوں پر بمباری کو ہر مذہب، قوم اور اصول و ضوابط منافی قرار دیتے ہیں لیکن اسرائیلی جارحیت رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے- طاقتور ترین اقوام متحدہ کا ادارہ سلامتی کونسل اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے سے قاصر ہے، صہیونی اسرائیل وحشی بنا ہوا ہے، اسلامی دنیا تقسیم ہے اور غزہ میں معصوم بچے اور عورتیں قیامت کبریٰ کا منظر دیکھ رہے ہیں-اس کے لئے ضروری ہے جس ادارہ اور ملک کی جو زمہ داری ہے وہ اس کا ادراک کرتے ہوئے اسرائیلی جارحیت کو لگام دے کر اپنے فرائض کی سرانجامی دیں ورنہ تاریخ کے اوراق میں سب کچھ درج ہو رہا ہے-

٭٭٭


[1]Aljazeera. “Two more resolutions to halt Israel-Gaza war fail at UN Security Council”. October 26, 2023.

https://www.aljazeera.com/news/2023/10/26/two-more-resolutions-to-end-gaza-violence-fail-at-un-security-council

[2]UN News. UN General Assembly adopts Gaza resolution calling for immediate and sustained ‘humanitarian truce. October 26, 2023.  https://news.un.org/en/story/2023/10/1142847

[3]Nidal Al-Mughrabi. Gaza death toll tops 10,000; UN calls it a children's graveyard. Reuters November 7, 2023. https://www.reuters.com/world/middle-east/pressure-israel-over-civilians-steps-up-ceasefire-calls-rebuffed-2023-11-06/

[4]Council of the EU, Press release. November, 12 2023.

https://www.consilium.europa.eu/en/press/press-releases/2023/11/12/statement-by-the-high-representative-on-behalf-of-the-european-union-on-humanitarian-pauses-in-gaza/#:~:text=

[5]Anthony Blinken. October 13, 2023. X.

https://twitter.com/SecBlinken/status/1712602105049977196?t=8NvVDNhv7srYcTDzvis-ng&s=19

[6]Forbes. U.S. Sending More Missile Systems To Middle East As It Prepares Additional Troops To Deploy. October 22, 2023.

https://www.forbes.com/sites/maryroeloffs/2023/10/22/us-sending-more-missile-systems-to-middle-east-as-it-prepares-additional-troops-to-deploy/

[7]Aljazeera. Jewish activists arrested at US Congress anti-Israel protest amid Gaza war. October 19, 2023.

https://www.aljazeera.com/news/2023/10/19/jewish-activists-arrested-at-us-congress-sit-in-calling-for-gaza-ceasefire

[8]Xinhua. Chile recalls Israel ambassador after Gaza attacks. November 1, 2023.

https://english.news.cn/20231101/61500980beb8438eb6e7e0e5b59f28f9/c.html

[9]Aljazeera. ‘Genocide’, Colombia says as Latin American states condemn Israel over Gaza. November 2, 2023.

https://www.aljazeera.com/news/2023/11/2/genocide-colombia-says-as-latin-american-states-condemn-israel-over-gaz

[10]BBC. November 8, 2023. https://www.bbc.com/urdu/articles/c72q9jxpl5zo

[11] Africa Union. Communiqué of the Chairperson of the AUC regarding the Israeli-Palestinian war. October 7, 2023.

https://au.int/en/pressreleases/20231007/communique-chairperson-regarding-israeli-palestinian-war

[12]Muhammad Awais Raza. South Africa demands arrest of Israeli PM Netanyahu immediately. November 12, 2023.

https://minutemirror.com.pk/south-africa-demands-to-arrest-israeli-pm-netanyahu-immediately-144940/

[13]Foreign Ministry Spokesperson’s Remarks on the Escalation of Tensions Between Palestine and Israel. October 8, 2023.

https://www.fmprc.gov.cn/mfa_eng/xwfw_665399/s2510_665401/2535_665405/202310/t20231008_11157299.html.

[14]The Times of India. Muslim League Holds Massive Pro-Palestine Rally In Kerala, Calls Israel A Terror State. October 27, 2023.

https://timesofindia.indiatimes.com/city/kozhikode/iuml-holds-massive-pro-palestine-rally-thangal-calls-israel-a-terror-state/articleshow/104741890.cms

[15]Reuters. Protesters march in major cities to demand Gaza ceasefire.

https://www.reuters.com/world/pro-palestinian-protesters-demand-gaza-ceasefire-european-marches-2023-11-04/November 5, 2023

[16]OIC, Joint Arab and Islamic Summit Concludes and Demands End to Israeli Aggression, Breaking of Israeli Siege on the Gaza Strip and Prosecution of Israel for its Crimes, November 13, 2023. https://www.oic-oci.org/topic/.

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر