"اِنحطاط کے دور میں اجتہاد سے تقلید بہتر ہے"(فارسی نظم)

"اِنحطاط کے دور میں اجتہاد سے تقلید بہتر ہے"(فارسی نظم)

مصنف: علامہ محمد اقبالؒ جون 2023

 

عہدحاضر فتنہ ہا زیرِ سر است
 طبع نا پروائے او آفت گر است

موجودہ دور اپنے اندر بہت سے فتنے رکھتا ہے اس کی بے باک طبیعت سراپا آفت ہے-

بزم اقوام کہن برھم ازو
 شاخسارِ زندگی بے نم ازو

عہد حاضرنے گذشتہ اقوام کی بزم کو برہم کر دیا اور زندگی کی شاخوں کونمی سے محروم کر دیا-

جلوہ اش ما را ز ما بیگانہ کرد
 سازِ ما را از نوا بیگانہ کرد

دور جدید کے جلوؤں نے ہمیں اپنا آپ بھلا دیا ہے اور ہمارے سازِ زندگی کو نغمہ سے محروم کردیاہے-

از دلِ ما آتشِ دیرینہ بُرد
 نور و نارِ لا الہ از سینہ برد

 اس نے ہمارے دل سے عشق کی قدیم آگ چھین لی ہے اور ہمارے سینوں سے لاالٰہ کے نُور اور گرمی کو نکال دیا ہے(ان دو اشعار کی مناسبت آگے چل کر "عقلِ آبایت" والے شعر سے قائم ہوتی ہے ) -

مضمحل گردد چو تقویمِ حیات
 ملت از تقلید می گیرد ثبات

 جب زندگی کی ساخت کمزور پڑ جاتی ہے تو اس وقت قوم تقلید ہی سے استحکام پاتی ہے-

راہِ آبا رو کہ این جمعیت است
 معنی تقلید ضبطِ ملت است

 اپنے آباء کے راستے پر چل کہ اسی میں جمعیت ہے، تقلید کا مطلب ملت کو ایک ضبط کے تحت لانا ہے-

در خزان اے بے نصیب از برگ و بار
از شجر مگسل بامیدِ بہار

 اگر خزاں کے دوران درخت پھل پھول سے محروم ہو تو بہار کی امید میں اسے اپنا تعلق منقطع نہ کرلے-

بحر گم کردی، زیان اندیش باش
 حافظ جوے کم آبِ خویش باش

ا گرتو  بحر گم کر چکاہے تواپنے نقصان کا احساس کر کم از کم اپنی کم آب ندی کا تو تحفظ کرلے-

شاید از سیل قہستان برخوری
 باز در آغوش طوفان پروری

ہوسکتاہے کہ اس ندی کے اندر دوبارہ کوہسار کا سیل آجائے اور وہ اپنی آغوش میں نئے طوفان کی پرورش کرلے-

پیکرت دارد اگر جانِ بصیر
 عبرت از احوالِ اسرائیل گیر

 اگر تیرے بدن میں بصیرت کی حامل روح موجود ہے تو بنی اسرائیل کے احوال سے عبرت حاصل کر -

گرم و سرد روزگار او نگر
 سختیٔ جان نزارِ او نگر

 اس کے حالات کی سختی ونرمی پر غورکر اور پھر دیکھ اس کی کمزور جان نے اسے کس ہمت سے برداشت کیا ہے-

خوں گران سیر است در رگہاے او
 سنگِ صد دہلیز و یک سیماے او

 اس کی رگوں میں خون کی گردش سست پڑ چکی ہے اس کی پیشانی سینکڑوں دہلیزوں پر سجدہ ریز ہے –

پنجۂ  گردون چو انگورش فشرد
 یادگارِ موسیٰ و ہارون نمرد

 آسمان کے پنجے نے اسے انگور کی طر ح نچوڑ ڈالا مگر یہ قوم  جو موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) کی یادگار ہے، مٹ نہ سکی-

از نواے آتشینش رفت سوز
 لیکن اندر سینہ دم دارد ہنوز

 اس کی نوائے آتشیں سے سوز جاتا رہا لیکن اس کے سینے میں ابھی تک دم موجود ہے-

زانکہ چون جمعیتش از ہم شکست
 جز براہِ رفتگان محمل نہ بست

 اس کی وجہ یہ ہے کہ جب اس کی جمعیت ختم ہوگئی تو اس نے بزرگوں کی راہ نہ چھوڑی-

اے پریشان محفل دیرینہ ات
 مُرد شمعِ زندگی در سینہ ات

اے مسلمان تیری قدیم محفل پریشان ہو چکی ہے، تیرے سینے کے اندر زندگی کی شمع بجھ چکی ہے-

نقش بر دل معنیٔ توحید کن
 چارۂ کارےِ خود از تقلید کن

تو اپنے دل پر دوبارہ توحید کا نقش کندہ کر اور اپنے اَسلاف کی تقلید سے اپنی مشکلات کی چاره سازی کر-

اجتہاد اندر زمانِ انحطاط
 قوم را برہم ہمی پیچد بساط

زوال و انحطاط کے زمانے میں اجتہاد قوم کا شیرازہ بکھیر دیتا ہے اور اس کی بساط لپیٹ دیتا ہے-

از اجتہادِ عالمانِ کم نظر
 اقتدا بر رفتگان محفوظ تر

کوتاہ نظر (بے بصیرت) عالموں کے اجتہاد کی بجائے اسلاف کی پیروی (تقلید) خطرات سے زیادہ محفوظ ہے-

عقلِ آبایت ہوس فرسودہ نیست
 کارِ پاکان از غرض آلودہ نیست

 تیرے آباء و اجداد کی عقل ہوس کا شکار نہیں تھی (یعنی کسی دوسری تہذیب کی نفسیاتی غلام نہیں تھی)-پاک بازوں کے کام خود غرضی سے آلودہ نہیں ہوتے –

فکرِ شاں ریسد ہمی باریک تر
 ورعِ شاں با مصطفےٰؐ نزدیک تر

ان کی فکر نے بڑی باریکیاں پیدا کیں-ان کا تقوٰی حضور نبی کریم (ﷺ) کے قریب تر تھا-

ذوقِ جعفرؓ کاوش رازیؒ نماند
 آبروئے ملتِ تازی نماند

 اب امام جعفرؒ کا ذوق و شوق اور امام رازیؒ کی کاوش باقی نہیں رہی- نہ ملتِ حجازی کی وہ شان و شوکت ہے -

تنگ بر ما رہگذار دین شد است
 ہر لئیمے راز دار دین شد است

ہم پر دین کا راستہ تنگ ہو چکا ہے ہر بیوقوف (فرد)  مایۂ دین کے راز جاننے کا دعویدار (بنا بیٹھا) ہے-

اے کہ از اسرارِ دیں بیگانۂٖ
 با یک آئیں ساز اگر فرزانۂٖ

تو جواسرارِ دین سے نا آشنا ہے، اگر تو سمجھ رکھتا ہے تو ایک آئین کی پابندی (یعنی تقلید) اختیار کر-

من شنیدستم ز نباضِ حیات
 اختلافِ تست مقراضِ حیات

میں نے نباضِ حیات سے سُنا ہے کہ اختلافات زندگی کے لیے قینچی کی طرح ہیں-

از یک آئینی مسلمان زندہ است
 پیکرِ مّلت ز قرآں زندہ است

مسلمان وحدتِ آئین ہی سے زندہ ہے ، مِلت کا وجود قرآن پاک سے زندہ ہے -

ما ھمہ خاک و دلِ آگاہ اوست
اعتصامش کن کہ حبل اللہ اوست

ہم سب خاک ہیں اور ہمارے دلوں کو بصیرت دینے والا قرآن پاک ہے اسے مضبوطی سے پکڑ لے کہ یہی حبل اللہ  (اللہ کی رسی ) ہے-

چوں گہر در رشتۂ او سفتہ شو
 ورنہ مانند غبار آشفتہ شو

اپنے آپ کو موتیوں کی مانند قرآن پاک کے رشتہ میں پرو لے اگر تو نے ایسا نہ کیا تو غبارِ راہ کی طرح بکھر جائے گا-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر