فلسطین : اُردو ادب میں

فلسطین : اُردو ادب میں

انتظار حسین کے افسانے’’ شرم الحرم‘‘ کے مرکزی کردار کی نیند اُڑ گئی ہے - وہ آنکھیں بند کرتا ہے تو اسے یوں لگتا ہے جیسے وہ بیت المقدس میں ہے اور لڑرہا ہے - انتظار حسین کا یہ کردار ہماری قوم کا ضمیر ہے - ہماری قوم جو گزشتہ نصف صدی سے بیت المقدس میں ہے اور لڑ رہی ہے اقبالؔ اس محاذ کے مجاہد ِ اوّل تھے - وہ آزادیٔ فلسطین کے محاذ پر عربوں سے بھی پہلے پہنچے- اقبالؔنے اس جنگ کو اپنی قومی آزادی کی جنگ کا اٹوٹ سمجھا اور اس کی تہہ در رتہہ معنویت کو آشکار کیا - ان کے نزدیک فلسطین کی آزادی اتنی اہمیت رکھتی تھی کہ دسمبر ۱۹۳۱ء میں وہ عالمِ اسلام کے نمائندوں کی کانفرنس میں شرکت کی خاطر لندن میں ہندی مسلمانوں کی آزادی کے مذاکرات کو ادھوڑا چھوڑ کر بیت المقدس جا پہنچے تھے-

اقبالؔنے اقوام مشرق کو اس جہان پیر کی موت کی بشارت ہی نہ دی تھی جسے فرنگ نے قمار خانہ بنا رکھا تھا بلکہ آزادی کی منزل سَر کرتے ہوئے مشرق کو مغرب کے نو آبادیاتی اور سامراجی عظائم سے خبردار بھی کیا تھا-اقبالؔکی زندگی کا نصف آخر مشرق اور بالخصوص اسلامی مشرق کو مغرب کی تہذیبی اور سیاسی استعمار سے نجات کی راہیں سمجھانے اور اپنی خودی کی پرورش کی ترغیب دینے میں صَرف ہوا-اپنی زندگی کے آخری چند برسوں میں اقبال کو تقسیمِ فلسطین کے تصوّر نے مسلسل بے چین رکھا - اقبالؔنے اُس وقت سے ہی فکری اور عملی پیش بندیاں شروع کردی تھیں جب برطانوی سامراج ابھی مسئلہ فلسطین ایجاد کرنے میں کوشاں تھا- اس محاذ پر بھی اقبال نے اپنی سیاسی فکر اور اپنے فنی اعجاز ہر دو سے کام لیا مگر برطانیہ اور دنیائے عرب میں رائے عامہ کی بیداری اور کل ہند مسلم لیگ کی عملی جدو جہد کے باوجود برطانوی سامراج اپنے ارادوں پر قائم رہا اور بالآخر فلسطین کی تقسیم کا فیصلہ نافذ ہوکے رہا-

اقبالؔکے خیال میں یہ مسئلہ یہودیوں کے لیے وطن کی تلاش کی خاطر ایجاد نہیں کیا گیا بلکہ در حقیقت یہ مشرق کے دروازے پر مغربی سامراج کے فوجی اڈے کی تعمیر کا شاخسانہ ہے - وہ اسے عالمِ اسلام کے قلب میں ایک ناسور سے تعبیر کرتے ہیں:-

رندانِ فرانسیس کا مے خانہ سلامت

پُر ہے مئے گلرنگ سے ہر شیشہ حلب کا

ہے خاکِ فلسطین پہ یہودی کا اگر حق

ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عرب کا؟

مقصد ہے ملوکیتِ انگلیس کا کچھ اور

قصہ نہیں نارنج کا یا شہد و رَطَبْ کا!

رائل کمیشن کی رپورٹ میں تقسیمِ فلسطین کی تجویز نے اقبالؔکو اس قدر مضطرب کیا کہ رپورٹ کے شائع ہوتے ہی اقبالؔنے لاہور کے موچی دروازے میں ایک احتجاجی جلسہ عام کا اہتمام کروایا - اس اجتماع میں اقبال کا جو بیان پڑھا گیا ، وہ سیاسی بصیرت اور پیش بینی کی بدولت دُنیائے اسلام کی جدید سیاسی فکر میں ایک اہم سنگِ میل ہے - اس بیان میں اقبال نے مغربی سامراج کے مذموم عزائم کو بے نقاب کرنے کے ساتھ ساتھ دُنیائے اِسلام کو خود احتسابی کا درس بھی دیا ہے وہ اس اَلمیے کو دو بڑی عبرتوں کا آئینہ دار بتاتے ہیں - اوّل یہ کہ دُنیائے اِسلام کی سیاسی ہستی کی بقا کا راز عربوں اور ترکوں… عرب و عجم کے اتحاد میں مضمر ہے اور دوم یہ کہ:

’’ عربوں کو چاہیے کہ اپنے قومی مسائل پر غور و فکر کرتے ہوئے عرب ممالک کے بادشاہوں کے مشوروں پر اعتماد نہ کریں کیونکہ بحالاتِ موجودہ ان بادشاہوں کی حیثیت ہر گز اس قابل نہیں ہے کہ وہ محض اپنے ضمیر و ایمان کی روشنی میں فلسطین کے متعلق کسی فیصلے یا کسی صائب نتیجے پر پہنچ سکیں-‘‘

اقبالؔکا یہ بیان تحریک آزادیٔ فلسطین کو عرب بادشاہوں کی مسنداقتدار سے متصادم دیکھتا ہے اور قرار دیتا ہے کہ مسئلہ فلسطین مسلمانوں کو موجودہ عالمی اداروں سے برگشتہ کر کے بالآخر اپنی علیحدہ جمعیت اقوام کے قیام کے امکانات پر غور کرنے پر مجبور کر دے گا:

تہران ہو اگر عالمِ مشرق کا جنیوا

شاید کرۂ اَرض کی تقدیر سنور جائے

اقبالؔنے عرب عوام کو عرب بادشاہوں سے بیزاری کا درس صرف اپنی سیاسی تحریروں میں ہی نہیں دیا بلکہ جمالِ فن سے بھی اس درس کو دل نشین بنایا ہے:

یہی شیخِ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے

گلیم بوذر و دلقِ اویس و چادرِ زہرا

پیر حرم تو حفظِ حرم کے تقاضوں کو پسِ پشت ڈال چکا ہے ، اس لیے اب اقبالؔکی آخری امید عرب عوام ہیں جن سے اقبال یوں مخاطب ہیں:

زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ

مَیں جانتاہوں وہ آتش ترے وجود میں ہے

تری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں

فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے

سنا ہے میں نے غلامی سے اُمتوں کی نجات

خودی کی پرورش و لذت نمود میں ہے

مگر اقبالؔکی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوئی اور ہماری طرح دُنیائے عرب بھی اپنی خودی کی پرورش سے کہیں زیادہ غیر کے دست و بازو پر ناز کرتی رہی - نتیجہ یہ کہ فروری ۱۹۴۹ء کی پسپائی نے اسرائیل کے قدموں تلے روند ڈالنے اور صفحۂ ہستی سے مٹا کر دم لینے کے نعروں کا طلسم توڑ کر رکھ دیا- اس شکست نے مصر میں شہنشاہیت کے خلاف فوجی انقلاب کو ممکن بنا یا اور صدر ناصر کی زیرِ قیادت تمام عرب دنیا میں انقلاب کی صدائیں گونجنے لگیں- برطانیہ اور فرانس کی مشترکہ یلغار کے مقابلے میں مصر کی ثابت قدمی اور کامرانی نے غریب عوام کو وہ اعتمادِ ذات اور غرورِ نفس بخشا جو ، ن م، راشد کی نظم ’’ دل مرے صحرا نوردِ پیر دل‘‘ میں جلوہ گر ہے - ریگِ صحرا میں تمنائوں کے بے پایاں الائو کے قریب بیٹھ کر راشد اپنے ہم نفسوں سے یوں مخاطب ہیں:

سالکو، فیروز بختو،آنے والے قافلو!

شہر سے لوٹو گے تم تو پائو گے

ریت کی سرحد پہ جو روحِ ابد خوابیدہ تھی

جاگ اٹھی ہے ’’ شکوہ ہائے نے‘‘ سے وہ

ریت کی تہہ میں جو شرمیلی سحر روئیدہ تھی

جاگ اٹھی ہے حریت کی لے سے وہ

ریگ شب بیدار، سنتی ہے ہر جابر کی چاپ

ریگ شب بیدار ہے، نگراں ہے مانند نقیب

دیکھتی ہے سایۂ آمر کی چاپ!

ریگ ہر عیار غارت گر موت کی!

ریگ استبدار کے طغیا کے شوروشر کی موت

ریگ جب اٹھتی ہے، اڑ جاتی ہے ہر فاتح کی نیند

ریگ کے نیزوں سے زخمی سب شہنشاہوں کے خواب

ریگ، اے صحرا کی ریگ

ان اپنے جاگتے ذروں کے خوابوں کی نئی تعبیر دے

یہ ستم ظریفی بھی تاریخ میں یادگار رہے گی کہ ’’ جاگتے ذروں کے خوابوں کی نئی تعبیر‘‘ اُس عالمی قوت کو بھی خوش نہ آئی جو ’’انقلاب ‘‘ برآمد کرنے کی خوگر ہے چنانچہ الجزائر میں سامراجی نقطۂ نظر سے بروقت فوجی بغاوت سے لے کر ۱۹۶۷ء کی عرب اسرائیل جنگ تک جب مغرب کے سرمایہ پرست اور روس کے ترمیم پسند ایک ہی مقامِ دل و جاں پر کھڑے نظر آئے تو احمد ندیم قاسمی نے اپنے کرب کو اس سوال میں ڈھالا:

اب کہاں جائو گے؟ اے دیدہ ورو!

اب تو اس سمت بھی ظلمت ہے

جہاں شب کے الائو میں نہا کر

مرے سورج کو نکلنا تھا

 گجر بجنے تھے

اب تو مشرق پہ بھی مغرب کا گماں ہوتا ہے

اب تو ذکر کرو نور سحر کا

تو بلک اٹھتی ہے دنیا کہ کہاں ہوتا ہے؟

اب تو اُس شب کی سیاہی نے ہمیں گھیر لیا ہے

کہ جہاں چاند تو کیا…کوئی ستارہ بھی نہیں جی سکتا

اب کہاں جائو گے؟… اے دیدہ ورو!

صرف ایک سمت کے ماتھے پہ لرزتی ہے اُجالے کی لکیر

اور یہ سمت گزرتی ہے ہمارے ہی گھروں اور ہمارے ہی دلوں سے

یہ ہے وہ سمت کہ جس پر مرے ٹیپو کے نشانِ کفِ پا

چاند تاروں کی طرح روشن ہیں

خود شناسی اور خود انحصاری کی یہ رو ہمیں جون ۶۷ء کی شکست سے پھوٹنے والی ہر یادگار نظم میں ملتی ہے-’’ دوستوں‘‘ کی قوتِ بازو پر بھروسا کرنے کا چلن ہر جگہ مرقعِ عبرت ہے - ادا جعفری مامتا بھری برہمی کے ساتھ سرزنش کرتی ہیں:

نامناسب تو نہ تھا شعلہ بیاں بھی ہوتے

تم مگر شعلہ بہ دل شعلہ بہ جاں بھی ہوتے

کس کی جانب نگراں تھے کہ لگی ہے ٹھوکر

تم تو خود اپنے مقدر کی عناں تھامے تھے

تو ابنِ انشاؔ یوں بلند آواز میں سوچتے ہیں:

اپنے دشمن تو ملعون و ناخوب ہیں

ہم تو یاروں کی یاری سے محجوب ہیں

جن سے دل کو وفا کی امیدیں بہت

جن کے وعدے بہت تھے وعیدیں بہت

بیٹھے لفظوں کا راکٹ چلایا کیے

یا بیانوں کے بم آزمایا کیے

دھمکیوں کے میزائل اڑایا کیے

کوئی گرتوں کو آیا مگر تھامنے

بیٹھے یاروں کے دیکھا کیے سامنے

اپنی طویل نظم ’’ دیوارِ گریہ‘‘ میں ابنِ انشا اگر ایک طرف عرب حکمرانوں کی عیاشی اور اوباشی کو طنز و تضحیک کا نشانہ بناتے ہیں تو دوسری طرف عرب عوام کو عزت کی زندگی کا راستہ بھی دکھاتے ہیں:

یا اخی! یا اخی!

آ دکھائیں تجھے تیری دلجوئی کو

دور مشرق میں احرارِ ہنوائی کو

ان کا دشمن شکستوں سے بے حال ہے

ان کو لڑتے ہوئے بیسواں سال ہے

یہ بھی ملحوظ رکھ تو جو دل تنگ ہے

یہ بھی اُن کی ہے، وہ بھی تری جنگ ہے

جنگ میں گام دوگام ہٹتے بھی ہیں

آگے بڑھنے کو پیچھے پلٹتے بھی ہیں

سوئز کے بحران کے گردو پیش عرب بیداری کی بلند لہر سے وابستہ توقعات کے پس منظر میں جون ۶۷ء کی جنگ عربوں کی آناً فاناً شکست نے ہمارے تخلیقی فن کار کی انا کو شدید چوٹ لگائی اور وہ منظور عارف کا ہم زباں ہوکر چیخ اٹھا:

مَیں نے دیکھا نہیں محسوس کیا ہے

پھر بھی اک درد کی شدت ہے میرے سینے میں

شکل کیا دیکھوں کئی داغ ہیں آئینے میں (آئینے کے داغ)

اپنے داغ داغ چہرے اور اپنی زخم زخم ہستی کا اند مال اُسے اسلام کی انقلابی روح کی بازیافت میں نظر آیا اور یوں اس کی انسان دوستی کا رخ نمایاں طور پر اسلامی ہوگیا - اس کے ذہن کی گہرائیوں میں ہلچل مچانے والے سوال کو ابنِ انشاؔ نے یوں لب گویا عطا کیا:

’’ آدھی دُنیا سوشلسٹ ہوچکی ہے اور باقی آدھی آزاد اور خود مختار…اور یہ سب مل کر اقوام ِ متحدہ کے ایوانوں پر حاوی- لیکن ان کی مجموعی مادی اور اخلاقی قوت اسرائیل کی جارحیت کے معاملے میں صرف ایک بڑے اور امیر ملک کے ویٹو اور دھونس کی وجہ سے بے کار ہو کر رہ گئی ہے- بیروت کے تل زعتر کیمپ سے خاک و خون میں لتھڑے ہوئی عرب کی فغاں اٹھ رہی ہے اور کوئی سننے اور دست گیری کرنے والا نہیں-‘‘

اس ظلم پر ضمیر عالم خاموش کیوں ہے؟ انسان دوستی اور امن پسندی کے علم بردار دانشور مسلمانوں کو انسان کیوں نہیں سمجھتے ہو؟ اور خود مسلمان ویت نامی حریت پسندوں کا طرزِ عمل کیوں نہیں اپناتے؟ بیچارگی، تنہائی اور بے عملی کے اس صحرا میں ہمارے ادب نے اسلامی تاریخ سے توانائی اخذ کرنے کی ٹھانی :

رن سے آتے تھے تو با طبل ظفر آتے تھے

ورنہ نیزوں پہ سجائے ہوئے سَر آتے تھے

خار زاروں کو کسی آبلہ پا کی ہے تلاش

آج رحمتِ یزداں کا سزا وار آئے

وادیٔ گل سے ببولوں کا خریدار آئے

دلق پوش آئے، غلاموں کا جہاں دار آئے

پا پیادہ کوئی پھر قافلہ سالار آئے

ریگ زاروں میں کوئی تشنہ دہن آجائے

ہوش والو! کوئی تلقین جنوں فرمائے

(مسجدِ اقصیٰ - ادا جعفری)

ایک بار اور بھی یثرب سے فلسطین میں آ

راستہ تکتی ہے پھر مسجدِ اقصیٰ تیرا

(احمد ندیم قاسمی)

کشت افسوس بونے والے زیاں پرستوں کے نوحہ و ماتم سے الگ، اسلامی تاریخ و تہذیب سے پھوٹنے والے حریت کے اس لحن میں تخلیق کی جانے والی شاعری کا نکتۂ کمال ’’ سرِ وادیٔ سینا‘‘ہے- فیض احمدصحرائے سینا میں گرم معرکہ کار زار میں خدا کا جلوہ دیکھتے ہیں اور حریت پسندوں کی سرفروشی اور جاں سپاری کو قرآنی اور صوفیانہ استعاروں میں بیان کرتے ہیں:-

 آ پھر برقِ فروزاں ہے سر وادیٔ سینا

پھر رنگ پہ ہے شعلۂ رخسارِ حقیقت

پیغامِ اجل دعوتِ دیدارِ حقیقت

اے دیدۂ بینا

اب وقت ہے دیدار کا دم ہے کہ نہیں ہے

اب قاتلِ جاں چارہ گرِ کُلفَتِ غم ہے!

گلزارِ قرم پرتوِ صحرائے عدم ہے

پندارِ جنوں

حوصلہ راہِ عدم ہے کہ نہیں ہے!

پھر برقِ فروزاںہے سر وادیٔ سینا ، اے دیدۂ بینا

آزمائش و ابتلا کی اس گھڑی میں فیضؔ اہلِ ایمان کے پندارِ جنوں کو پکارتے ہیں:-

پھر دل کو مصفا کرو، اس لوح پہ شاید

مابین من و تو نیا پیماں کوئی اترے

اب رسمِ ستم حکمتِ خاصانِ زمیں ہے

تائید ستم مصلحتِ مفتی دیں ہے

اب صدیوں کے اقرارِ اطاعت کو بدلنے

لازم ہے کہ انکار کا فرماں کوئی اترے

٭

ہر اک اولی الامر کو صدا دو

کہ اپنی فردِ عمل سنبھالے

اُٹھے گا جب جمِ سرفروشاں

پڑیں گے دار و رَسن کے لالے

کوئی نہ ہوگا کہ جو بچا لے

یہ رجائیت اُس رومانی انقلابیت سے پھوٹی ہے ، جس کی جڑیں حقیقت کی سرزمین میں زیادہ گہری نہیں ہیں اور جس پر مجھے فلسطینی شاعرہ فَدویٰ طوقان کی ڈائری کا ایک ورق یاد آتا ہے:-

’’ عرب رجعت پسندی روز بروز قوت پکڑ رہی ہے - اس کی وجہ وہ دولت ہے جو ریگ زاروں سے پھوٹ نکلی ہے … اور عرب ترقی پسندی ہنوزِ عالمِ طفلی میں ہے اس کی عقل ابھی خام ہے لیکن اس کی زبان کافی دراز ہے-‘‘

عرب ترقی پسندی کے باب میں ہماری رومانی تصوریت کو حقیقت آشنا کرنے کا فریضہ تنقید، تراجم اور سفر ناموں نے سر انجام دیا ہے - جدید عربی اور ہم عصر فلسطینی ادب کے تنقید و تجزیہ اور ترجمہ و تعارف کا کام محمد کاظم نے جس دِقَّتِ نظر اور جس جرأت فکر کے ساتھ سر انجام دیا ہے ، وہ اپنی مثال آپ ہے - محمد کاظم کے زیرِ اثر ادیبوں کا ایک پورا گروہ فلسطینی ادب کے تراجم میں مصروف ہے اور احمد ندیم قاسمی ، امجد اسلام امجد ، محمود شام ، منو بھائی، کشور ناہیداور اظہر سہیل وغیرہ کے تراجم نے اردو میں مزاحمتی ادب کا ایک نیا دبستان کھول دیا ہے - اس دبستان کی بدولت نغمۂ حریت کی لے ہمارے دلوں کو گرما رہی ہے اور ہمارے ذہنوں کو فلسطینی طرز فکر و احساس سے آشنا کر رہی ہے- یہ طرز فکر و احساس جس مخصوص گردو پیش اور جس خاص نفسیاتی فضا میں تشکیل پا رہا ہے ، اس کا جیتا جاگتا احساس فیض کی یاسر عرفات سے ملاقات اور ظہیر محسن کے ماتم کا بیان پڑھ کر ہوتا ہے- فلسطینی فدائین کو قدرت نے نانِ جویں کے ساتھ ساتھ کس طرح بازوئے حیدرؓ بھی عطا کر رکھا ہے ، شہید لہو کے ہر قطرے سے کیوں کر ایک نیا حریت پسند جنم لے رہا ہے اور شہید کا جنازہ گریہ و زاری کی بجائے کیسے عزم و ہمت کے جشن کا منظر پیش کرتا ہے یہ صداقتیں ہم پر سفر ناموں کے ذریعے منکشف ہورہی ہیں - مستنصر حسین تارڑ کا سفر نامہ’’ خانہ بدوش‘‘ اور مظہر الاسلام کا افسانہ ’’ زمین کا اغوا‘‘ پڑھنے کے بعد ابن انشا کا یہ سوال اور زیادہ شدت کے ساتھ ذہن کو تہہ و بالا کرنے لگتا ہے:-

’’ … اور اہلِ عرب

جن کے اجداد نے

شرق سے غرب تک

شہسواری بھی کی، تاجداری بھی

شہر و صحرا میں آوارۂ بے وطن ہیں

حیفہؔ و جافہؔ و ناصرہؔ کے مکیں

سالہا سال سے بے مکاں سر فشاں

دشت بھی غیر کا ، شہر بھی غیر کا

بحر بھی غیر کا

اے خداوندِ افلاکیاں خاکیاں

کیا عرب کو بھی آوارہ ہونا پڑے گا

یعنی صدیوں تلک

یوں ہی دیوار گریہ پہ رونا پڑے گا؟

(دیوارِ گریہ)

یہ تو ہے اس المیے کی انسانی سطح مگر اس بربادی کی ایک اس سے بھی بر تر سطح ہے - یہ سطح اس ظلم کی اسلامی معنویت سے عبارت ہے- اس معنویت کو انتظار حسین نے اپنی کہانیوں میں معجزۂ فن بنایا ہے-’’ کانا دجال‘‘ کے کردار بیت المقدس کے سقوط کی سناونی سن کر یاد کرتے ہیں کہ:

’’ آنحضور دریائوں، پہاڑوں، صحرائوں سے گزرتے چلے گئے، مسجدِ اقصیٰ میں جاکر قیام کیا، حضرت جبرئیل ؑ نے عرض کیا کہ یا حضرت تشریف لے چلیے ، آپ نے پوچھا کہاں؟ بولے کہ یا حضرت زمین کا سفر تمام ہوا، یہ منزل آخر تھی ، اب عالمِ بالا کا سفر درپیش ہے ، تب حضور بلند ہوتے چلے گئے ، پہلا آسمان ، دوسرا آسمان ، تیسرا، چوتھا وہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے مصافحہ کیا پھر آپ اور بلند ہوئے اور آخر عرشِ معلی کے قریب جا پہنچے اور قوسین کا فاصلہ رہ گیا-‘‘

ابا جان کا سر جھک گیا ، وہ اُن کا جھکا ہوا سر دیکھتا رہا، پھر انہوں نے ٹھنڈا سانس بھرا ، بولے’’ جہاں ہمارے حضور بلند ہوئے تھے، وہاں ہم پست ہوگئے- پھر انہوںنے ٹھنڈا سانس بھرا، بولے ’’ جہاں ہمارے حضور بلند ہوئے تھے ..... وہاں ہم پست ہوگئے- پھر چپ ہوگئے…‘‘

اس مقامِ نظر سے دیکھیں تو مسجدِ اقصیٰ کا چھن جانا ایک تاریخی مقام سے محرومی نہیں بلکہ روحانی سیڑھی کا گرجانا ہے جو ہماری زمین کو ہمارے آسمان سے ملاتی تھی - جن قوموں کے پائوں تلے دھڑکتی زمین کا سر پر تنے ہوئے آسمان سے رابطہ کٹ جائے ، وہ زوال کرتے کرتے بالآخر ڈھور ڈنگروں کی سطح پر آگرتی ہیں - ذرا سوچیے تو کہیں ہمارے ساتھ بھی یہی واردات تو نہیں گزر گئی؟

****

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر