امیر المومنین فی الحدیث امام شعبہ بن الحجاج(﷫)

امیر المومنین فی الحدیث  امام شعبہ بن الحجاج(﷫)

امیر المومنین فی الحدیث امام شعبہ بن الحجاج(﷫)

مصنف: مفتی محمد صدیق خان قادری جنوری 2023

تعارف:

آپ کا نام شعبہ ،کنیت ابوبسطام اور نسب نامہ کچھ اس طرح ہے شعبہ بن الحجاج بن الورد العتکی الازدی -[1]

آپ کی ولادت سنہ 83ھ میں شہر واسط میں ہوئی بعض تذکرہ نگاروں نے لکھاہے کہ اُن کی ولادت واسط کے قریب بستی نہر ناب میں ہوئی -

ولادت کے بارے ایک قول 82ھ کا بھی ملتاہے -[2]

اُن کی نسبت العتکی اور الازدی کے بارے علامہ ابن اثیر جزری  فرماتے ہیں :

’’ھذہ النسبۃ الی عتیک وھوبطن من الازد وھوعتیک بن النصر[3]

’’عتیک کی طرف نسبت ہونے کی وجہ سے اُن کو عتکی کہاجاتاہے ، یہ قبیلہ ازدکی ایک شاخ تھی ،جو عتیک بن النضر کا خاندان تھا تو اسی نسبت کی وجہ سے آپ کو العتکی اور الازدی کہاجاتاہے‘‘ -

آپ اصل میں شہر واسط کے رہنے والے تھے پھر آپ بصرہ منتقل ہوگئے اور وہیں بودباش اختیار کرلی -

بعض اصحاب سِیَرنے آپ کو تبع تابعین کی فہرست میں شمار کیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ تابعین میں سے ہیں کیونکہ دو صحابہ حضرت انس بن مالک اور حضرت عمر و بن سلمہ (رض ) کی زیارت کی ہے-[4]

تحصیل علم: 

آپ نے ابتدائی زندگی شہر واسط میں گزاری-  شہر واسط علم و فن کا مرکز تھا تو شروع ہی سے اُن کو ایک علمی ماحول میسر آیا تو انہوں نے اپنی علمی زندگی کا آغاز شعر و ادب سے کیا اور اس فن میں اتنی مہارت حاصل کی کہ علامہ اصمعی فرماتے ہیں:

’’ لم نراحد اقط اعلم باالشعرمن شعبۃ‘‘[5]

’’ہم نے شعر و شاعری میں امام شعبہ سے زیادہ کسی ماہر کونہیں دیکھا ‘‘-

اس کے بعد امام شعبہ علم الحدیث کی طرف راغب ہوئے علم حدیث کی طرف مائل ہونے کی وجہ خود بیان کرتے ہیں  کہ:

’’ میں زیادہ تر طرماح (ایک مشہور شاعر) کے پاس بیٹھتا تھا اور اُس سے زیادہ تر شعر و شاعری کے متعلق پوچھتا رہتاتھا ایک دن میں مشہور محدث حکم بن عتیبہ کی مجلس درس سے گزرا تو وہ بڑے پیارے لب ولہجہ میں حدیث پاک کی سند پڑھ رہے تھے جب حدیث پاک کے الفاظ میرے کانوں میں پڑے تو مجھے بہت اچھے لگے-  میں نے سوچا کہ حدیث نبوی(ﷺ) کی طلب بہ نسبت شعر و شاعری کی طلب سے بدرجہابہترہے تو اُس دن سے ہی میں حدیث کی طلب میں مصروف ہوگیا -[6]

اس طرح بڑے شوق و ذوق اور تسلسل کے ساتھ عظیم محدث حکم بن عتیبہ کی مجلس درس میں جانے لگے، اور پھر انہوں نے حکم بن عتیبہ کی احادیث میں وہ کمال حاصل کیا کہ امام احمد بن حنبل فرماتے تھے:

’’شعبۃ اثبت فی الحکم من اعمش واعلم بحدیث الحکم ولو لا شعبۃ ذھب حدیث الحکم‘‘[7]

امام شعبہ امام اعمش سے زیادہ حکم بن عتیبہ کی احادیث کے محافظ اور علم رکھنے والے تھے اگر شعبہ نہ ہوتے تو امام حکم کی روایت شدہ احادیث ضائع ہوجاتیں-

امام حکم کے علاوہ بھی انہوں نے اُس وقت کے نامور علماء و محد ثین سے تحصیل علم کیا -

اساتذہ :

آپ نے اپنے وقت کے جید اور نامور آئمہ فن سے اکتساب علم کیا- اصحاب سیر نے لکھا ہے کہ آپ کے اساتذہ حدیث میں چار سو تابعین شامل ہیں -

حافظ ابن حجر عسقلانی نے تہذیب التہذیب میں اُن کے تین سو شیوخ کا تذکرہ کیا ہے اس کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ :

’’امام شعبہ نے کوفہ کے اُن تیس شیوخ حدیث سے روایت لی ہے جن سے امام سفیان ثوری بھی روایت نہ لے سکے ‘‘-[8]

انہوں نے جن علماء و محد ثین سے اکتساب فیض کیا ہے اُن میں سے چند درج ذیل ہیں:

قتادۃ، یونس بن عبید، عبدالملک بن عمیر، ابو اسحاق السبیعی، طلحۃ بن مصرف، عمر و بن مرۃ، منصور بن المعتمر، سلمۃ بن کھیل، اسماعیل بن ابی خالد، سلیمان الاعمش، حبیب بن ابی ثابت، حکم بن عتیہ، عمروبن دینار، سعد بن ابراہیم،  یحٰی بن ابی کثیر، انس بن سیرین، اسماعیل بن رجاء، ایوب سختیانی، عدی بن ثابت، زبید بن حارث الیامی (رح)-[9]

تلامذہ :

آپ سے اکتساب علم کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اُن میں سے چند مشہور درج ذیل ہیں :

امام سفیان ثوری، شریک بن عبداللہ، سفیان بن عیینہ، یحٰی بن سعید، عبدالرحمٰن بن مھدی، محمد بن جعفر، عبداللہ بن مبارک یزید بن زریع، خالد بن حارث، بشربن المفضل، وھب بن جریر، امام وکیع، یزید بن ھارون، روح بن عبادۃ، بھزبن اسد، زائدہ بن قدامہ، ابراھیم بن طھمان، عبد السلام بن حرب، علی بن عاصم، عبداللہ بن داؤد الخریبی، ابوداؤدطیالسی، امام ابویوسف، اسد بن موسیٰ، محمدبن عدی، مسلم بن ابراہیم (رح)-[10]

امام شعبہ اور آئمہ فن کی تعدیل و توثیق :

آپ علیہ الرحمہ کے اساتذہ اور شاگردوں کی فہرست دیکھ لینے کے بعد کسی توثیق کی حاجت تو نہیں رہ جاتی ۔ لیکن ذوقِ علمی و سند کیلئے اتنا جان لینا چاہئے کہ امام شعبہ کی علم الحدیث میں انفرادیت کی وجہ سے اصحاب سیر اُن کو الحجۃ، الحافظ،شیخ الاسلام، امیرالمؤمنین فی الحدیث جیسے القابات سے یاد کرتے ہیں - اُن کی اسی علمی شان و کمال کی وجہ سے علماء و محد ثین اور آئمہ فن نے مختلف انداز میں اُن کی تعدیل و توثیق کی ہے کہ جس سے علِم حدیث میں اُن کا مقام و مرتبہ نکھر کر سامنے آ جاتا ہے -

امام سفیان ثوری اُن کی تعدیل وتوثیق بیان کرتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں

’’شعبۃ امیر المؤمنین فی الحدیث‘‘[11]

’’امام شعبہ امیر المؤمنین فی الحدیث ہیں ‘‘-

امام شافعی اُن کی علمی شان کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتےہیں :

’’ لولا شعبۃ ماعرف الحدیث باالعراق ‘‘[12]

’’اگر امام شعبہ نہ ہوتے تو عراق میں حدیث اتنی زیادہ معروف نہ ہوتی ‘‘-

امام ابن سعد اُن کی ثقاہت کو اس انداز میں بیان کرتے ہیں:

’’ثقۃ مامونا ثبتا صاحب حدیث حجۃ‘‘[13]

’’امام شعبہ ثقہ، مامون، فن حدیث میں مضبوط اور صاحب حجت امام تھے ‘‘-

امام احمد بن حنبل جیسا عظیم محدث اُن کی علمی شان کو کچھ اس انداز میں بیان فرماتے ہیں :

’’لم یکن فی زمن شعبۃ مثلہ فی الحدیث و لا احسن حدیثامنہ‘‘[14]

’’امام شعبہ کے زمانے میں فن حدیث میں آپ جیسا عالم اور روایت حدیث میں آپ جیسا بہترین محدث نہیں تھا‘‘-

امام عجلی فرماتےہیں :

’’ثقۃ ثبت فی الحدیث‘‘[15]

’’وہ ثقہ اور حدیث میں مضبوط تھے‘‘-

علامہ ابو عبداللہ فرماتے ہیں :

’’کان شعبۃ من اوثق الناس ‘‘[16]

’’امام شعبہ علماء میں سے اوثق تھے ‘‘-

امام ذہبی ’’سیراعلام النبلاء‘‘ میں امام صاحب کی علمی وجاہت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’الامام الحافظ امیر المؤمنین فی الحدیث ‘‘[17]

’’وہ امام، حافظ اور حدیث میں امیر المؤمنین تھے‘‘-

علامہ یحٰی بن سعید فرماتے ہیں:

’’لیس احد احب الی من شعبۃ ولا یعد لہ احد عندی‘‘[18]

’’امام شعبہ سے بڑھ کر مجھے کوئی محبوب نہیں اور میرے نزدیک کوئی بھی اُن کے برابر نہیں ‘‘-

امام جلال الدین سیوطی طبقات الحفاظ میں فرماتے ہیں:

’’ الحافظ العلم احد ائمۃ الاسلام ‘‘[19]

’’آپ حدیث کے حافظ اور آئمہ اسلام میں سے تھے ‘‘-

حفظ و ضبط اور روایت ِحدیث میں احتیاط:

امام صاحب حفظ و ضبط کی نعمت سے مالا مال تھے اللہ تعالیٰ نے قوت حافظہ کی نعمت کا ایک وافر حصہ انکوعطافرمایا تھا، آ پ طویل احادیث مبارکہ کوبھی ازبر یاد رکھتے تھے، ایک دفعہ علامہ ابن المدینی نے امام یحٰی بن القطان سے پوچھا کہ امام سفیان ثوری اور امام شعبہ میں سے کون طویل احادیث مبارکہ کو یاد رکھتا ہے تو امام یحٰی نے جو اب دیا کہ امام شعبہ اس میدان میں اُن سے بہت آگے تھے-[20]

علامہ ابن جوزی فرماتے ہیں :

’’وکان عالما حافظا للحدیث صدوقا‘‘[21]

’’وہ عالم ،صدوق اور حدیث کے حافظ تھے‘‘-

علامہ ابن حبان اُن کے حفظ و ضبط کو بیان کرتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں :

’’وکان من سادات اھل زمانہ حفظا‘‘[22]

’’وہ حفظ کے اعتبار سے اپنے زمانے والوں کے سردار تھے‘‘-

حفظ و ضبط میں کامل ہونے کے باوجود روایت حدیث میں بڑی احتیاط سے کام لیتے تھے ، چنانچہ جب تک کسی حدیث کو کئی بار نہ سن لیتے اُسے آگے نقل نہیں فرمایا کرتے تھے-

 امام سفیان ثوری فرماتے ہیں :

’’مارایت احدااورع فی الحدیث من شعبۃ یشک فی الحدیث الجید فیتر کہ ‘‘[23]

’’میں نےحدیث مبارکہ میں شعبہ سے زیادہ احتیاط کرنے والانہیں دیکھا اُن کو اگر جید حدیث میں بھی شک ہوجاتا تواس کو چھوڑ دیتے تھے ‘‘-

اسی احتیا ط کی بنا پر آپ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے یہ تو پسند ہے کہ میرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے جائیں مگر یہ پسند نہیں کہ میں نے کسی حدیث کو سنابھی نہ ہو اور میں کہوں کہ سمعتُ یعنی میں نے سنا ہے -

حدیث میں احتیاط وہ اپنے تک محدود نہیں رکھتے تھے بلکہ دوسرں کو بھی اس کا پابند بناتے، چنانچہ جب کسی نا اہل شخص کو حدیث کی روایت کرتے سنتے تو اُس کے پاس جاتے اور اُسے تنبیہ کرتے کہ تم حدیث مبارکہ کی روایت کرنا چھوڑدو ورنہ میں حاکم وقت کے ہاں تیری شکایت کروں گا-[24]

فن جرح و تعدیل میں اولیت و امامت :

خلافت راشدہ کے ادوار میں جب وضع حدیث کا فتنہ سر اُٹھانے لگا اور خاص طور پر خلافت راشدہ کے آخری دور میں تو یہ زور پکڑ گیا تو صحابہ کرام اور تابعین حدیث پاک کی روایت و قبول میں بڑی احتیاط سے کام لیتے تھے اور پوری چھان بین کرتے تھے- لیکن ضرورت اس امر کی تھی کہ ایک ایسا مستقل طریقہ اختیار کیا جائے کہ جس  سے نہ صرف احادیث نبوی (ﷺ) کی حفاظت ہوجائے بلکہ جو اس فن میں مجروح اور متکلم فیہ ہیں اُن کی نشاندہی بھی ہوجائے تاکہ اُن کی روایات سے بچا جا سکے- اس لیے سوائے فن اسماء الرجال کے اور کوئی راستہ نہیں تھا، یعنی راویان حدیث کے مکمل حالات و واقعات قلمبند کیے جائیں۔چنانچہ باقاعدہ طور  پر اس فن کی تدوین کا سہرہ امام شعبہ بن حجاج کے سر ہے، چنانچہ امام ابن حبان اپنی تصنیف الثقات میں فرماتے ہیں:

’’ھواول من فتش باالعراق عن امر المحدثین و جانب الضعفاء و المتر وکین حتی صار علما یقتدی بہ ثم تبعہ علیہ بعدہ اھل العراق ‘‘[25]

’’وہ پہلے محدث ہیں کہ جنہوں نے عراق میں راویان حدیث کے بارے چھان بین کی اور اُن کے حالات کا بنظر عمیق جائزہ لیا اور ضعیف اور متر وکین کو علیحٰدہ کیا حتی کہ آپ ایک عظیم مقتدیٰ بن گئے اِس کے بعد اہل عراق اس فن میں اُن کی پیروی کرنے لگے ‘‘-

امام نووی ’’تہذیب الاسماء‘‘ میں صالح بن محمد کا قول نقل کرتے ہیں :

’’اول من تکلم فی الرجال شعبۃ ثم یحٰی بن سعید القطان ثم بعدہ احمد بن حنبل و یحٰی بن معین ‘‘[26]

’’وہ پہلے ہیں کہ جنہوں نے رجال کی چھان بین میں کلام کیا پھر اس کے بعد یحٰی بن ،سعید نے اِس فن میں اُنکی پیروی کی اِس کے بعد امام احمد بن حنبل اور یحٰی بن معین اُنکے نقش قدم پر چلے ‘‘-

یہی وجہ ہے کہ امام احمد بن حنبل اُن کی اس فن میں مہارت بیان کرتے ہُوئے ارشاد فرماتےہیں:

’’کان شعبۃ امۃ وحدہ فی ھذالشان یعنی الرجال و بصرہ فی الحدیث و تثبتہ و تنقیتۃ للرجال ‘‘[27]

’’امام شعبہ علم الرجال میں اور حدیث مبارکہ کے فہم و بصیرت میں اور راویانِ حدیث کی جانچ پڑتال میں یکتا و بے مثال تھے‘‘-

امام ابو حاتم الرازی فرماتے ہیں :

’’وکان شعبۃ ابصر باالحدیث و بالرجال‘‘[28]

’’امام شعبہ حدیث مبارکہ اور علم الرجال کے بارے بہت زیادہ بصیرت رکھتے تھے ‘‘-

اما م یحٰی بن سعید القطان فرماتے ہیں:

’’وکان اعلم باالرجال ‘‘[29]

’’وہ علم الرجال کے سب سے زیادہ عالم تھے ‘‘-

امام شعبہ کا فقہی مسلک :

اکثر اصحاب سیرنے اُن کےفقہی مسلک کی صراحت تو نہیں کی لیکن بعض حضرات نے جو اُن کے بارے رائے قائم کی ہے اُس سے اُن کا حنفی المذہب ہوناثابت ہوتاہے - محمد بن محمد بن شہاب الکردی نے اپنی کتاب مناقب الامام الا عظم میں اُن کو امام اعظم کے تلامذہ میں ذکر کیا ہے-[30]

علامہ محمد بن یوسف الصالحی الشامی نے امام ابوحنیفہ سے روایت کرنے والوں کا تذکرہ کیاہے اور اُن میں امام شعبہ بن الحجاج کا بھی ذکر کیاہے -[31]

امام خطیب بغدادی صالح بن سلمان کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں :

’’کان شعبۃ بصر یا مولی الازد، مولدہ ومنشوہ واسط وعلمہ کوفی ‘‘ [32]

’’امام شعبہ بصری تھے وہ قبیلہ ازد کے مولیٰ اُن کی ولادت اور نشوونما واسط میں ہوئی اور اُن کا علم کوفی تھا‘‘-

امام احمد بن عدی نے الکامل میں اور امام ذہبی نے میزان الاعتدال میں بڑی وضاحت کے ساتھ لکھاہے :

’’کان شعبۃ رایہ رای الکوفیین‘‘[33]

’’امام شعبہ کوفیین کی رائے پر تھے یعنی کوفیین کے مسلک پر تھے ‘‘-

یہی وجہ ہے کہ امام شعبہ امام اعظم کا تذکرہ بڑے ادب و احترام کے ساتھ کرتے تھے -

اُن کیلئے ہمیشہ دُعا کرتے تھے - ابو عبد اللہ الصمیری الحنفی علامہ ابو الولید کے حوالے سے ذکر فرماتے ہیں:

’’کان شعبۃ حسن الذکرلابی حنیفۃ کثیر الدعاء لہ ماسمعتہ قط یذکر بین ید یہ الادعالہ‘‘ [34]

’’امام شعبہ امام ابوحنیفہ کا تذکرہ بڑے احسن الفاظ میں فرماتے تھے ‘‘-

مزید فرماتے ہیں کہ وہ اُن کیلئے کثرت کے ساتھ دُعا کرتے تھے ،میں نے کبھی بھی نہیں سنا کہ آپ کے سامنے امام ابوحنیفہ کا ذکر کیا گیا ہو اور انہوں نے ان کیلئے دُعا نہ کی ہو-

زہد و تقوٰی :

امام شعبہ کی زندگی علم وعمل اور زہدو تقویٰ کا پیکر تھی، آپ زہد و تقویٰ کے اُس درجہ کمال پر تھے کہ اُن کو امام المتقین کے لقب سے یاد کیا جاتاتھا-

آپ اتنی کثر ت کے ساتھ عبادت و ریاضت میں مصروف رہتے کہ یہاں تک کہ آپ کمزور اور نحیف ہوگئے تھے،  علامہ ابوبکر البکراوی اُن کی کثرت عبادت کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :

’’مارایت احد اعبد للہ من شعبۃ لقد عبد اللہ حتی جف جلدہ علی ظھرہ‘‘[35]

’’میں نے امام شعبہ سے بڑھ کر کسی کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہُوئے نہیں دیکھا عبادت اتنی کثرت کے ساتھ کی کہ اُن کی جلد اُن کی ہڈیوں پر خشک ہوگی تھی‘‘-

نماز اتنی خشوع و خضوع کے ساتھ ادافرماتے کہ علامہ ابو قطن فرماتے ہیں-کہ امام شعبہ جب رکوع و سجود فرماتے تو مجھے گمان ہونے لگتا کہ شاید آپ بھول گئے ہیں اس لیے اتنی دیر ہورہی ہے-[36]

آپ کی دنیا سے بے رغبتی کا عالم یہ تھا کہ وہ فرمایا کر تے تھے:

’’اذا کان عندی دقیق وقصب ماابالی مافا تنی من الدنیا‘‘[37]

’’اگر میرے پاس آٹا اور پانی پینے کا برتن ہوتو مجھے کسی اور دنیا کی چیز نہ ہونے کی کوئی پرواہ نہیں ہے‘‘-

امام اصفہانی علامہ ابوقطن کے حوالہ سے نقل فرماتے ہیں

’’و کان کثیرالصلوۃ و کثیر الصیام و سخی النفس ‘‘[38]

’’وہ کثرت کے ساتھ نماز اداکرنے والے اور روزے رکھنے والے تھے اور سخی دل والے تھے‘‘-

تصنیفات :

امام صاحب ایک مایہ ناز مصنف بھی تھے علماء نے اُن کی درج ذیل دوکتابوں کا ذکر کیا ہے :

v    تفسیر القرآن الکریم

v    کتاب الغرائب فی الحدیث [39]

وفات :

آپ کا وصال 160ھ میں بصرہ میں ہُوا - [40]

٭٭٭



[1](تاریخ بغداد، جز:9، ص:255)

[2](معجم الشیوخ الکبیر للذھبی، جز:1، ص:407)

[3](اللباب فی تہذیب الانساب، جز:2، ص:322)

[4](تذکرۃ الحفاظ، جز:1، ص:145)

[5](المنتظم فی تاریخ الامم و الملوک ، جز:8، ص:244)

[6](تاریخ بغداد، جز:10، ص:353)

[7](الجرح و التعدیل، جز:1، ص:128)

[8](تہذیب التہذیب، جز:4، ص:344)

[9](تاریخ بغداد، جز:10، ص:353)

[10](سیر اعلام النبلاء، جز:7، ص:204)

[11](تذکرۃ الحفاظ، جز:1، ص:144)

[12](سیر اعلام النبلاء، جز:7، ص:206)

[13](تہذیب التہذیب، جز:4، ص:345)

[14](تہذیب الکمال فی اسماء الرجال، جز:12، ص:490)

[15](الثقات للعجلی، جز:1، ص:87)

[16](موسوعۃ اقوال الامام احمد بن حنبل فی رجال الحدیث و عللہ، جز:2، ص:153)

[17](سیر اعلام النبلاء، جز:7، ص:202)

[18](الجرح و التعدیل، جز:1، ص:63)

[19](طبقات الحفاظ، جز:1، ص:90)

[20](تہذیب التہذیب، جز:4، ص:345)

[21](المنتظم فی تاریخ الامم و الملوک ،جز:8، ص:243)

[22](الثقات لابن حبان، جز:6، ص:446)

[23](تاریخ بغداد، جز:10، ص:353)

[24](سیر اعلام النبلاء، جز:6، ص:611)

[25](الثقات لابن حبان، جز:6، ص:446)

[26](تہذیب الاسماءو للغات، جز:1، ص:246)

[27](تہذیب الاسماء و اللغات، جز:1، ص:245)

[28](الجرح و التعدیل لابن ابی حاتم، جز:1، ص:128)

[29](الجرح و التعدیل، جز:4، ص:369)

[30](مناقب الامام الاعظم الکردی، جز:2، ص:229)

[31](عقود الجمان فی مناقب الامام الاعظم ابی حنیفۃ النعمان، ص:139)

[32](تاریخ بغداد، جز:10، ص:353)

[33](میزان الاعتدال، جز:1، ص:593)،

(الکامل ،جز :3 ،ص:44)

[34](اخبار ابی حنیفہ و اصحابہ، جز:1، ص:80)

[35](تذکرۃ الحفاظ، جز:1، ص:144)

[36](سیر السلف الصالحین، جز:1، ص:1013)

[37](تاریخ بغداد، جز:10، ص:353)

[38](سیر السلف الصالحین، جز:1، ص:1014)

[39](معجم المؤلفین، جز:4، ص:301)

( الاعلام ،جز:3 ص:164)

[40](تاریخ بغداد، جز:10، ص:353)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر