فسادات ، ہجرت اور مہاجرین کی بحالی میں صوفیا کی خدمات کا جائزہ

فسادات ، ہجرت اور مہاجرین کی بحالی میں صوفیا کی خدمات کا جائزہ

فسادات ، ہجرت اور مہاجرین کی بحالی میں صوفیا کی خدمات کا جائزہ

مصنف: مدثر ایوب اگست 2021

برطانوی سامراج کے زیرِ سایہ پروان چڑھنے والے نظریہ قومیت کے درخت نے برصغیر کے تکثیری رنگ کو سیاسی و سماجی، مذہبی اور نسلی و لسانی تفریقوں سے داغدار کر دیا ہے-[1] یہ تفریقیں برصغیر کے معاشرے کی ایسی دراڑیں ثابت ہوئیں کہ برصغیر کے مسلم حکمرانوں نے ہزار سال تک جو ملٹی کلچرل ازم اور بین المذاہب ہم آہنگی کا معاشرہ تشکیل دیا برطانوی سامراج اور ہندوتوا  ذہنیت کی وجہ سے قائم نہ رہ سکا جس کے نتیجے میں ناصرف تقسیمِ ہند کے نتیجے میں دو ممالک وجود میں آئے بلکہ ان تفریقوں کے نتیجے میں پُر تشدد فسادات، قتل ِعام اور انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت جیسے واقعات نے آزادی کی خوشی کو دکھ میں تبدیل کردیا -[2] تقسیمِ ہند کے بعد دونوں ممالک نے مہاجرین کی بحالی اور ان کی رہائش کی کوشش کی-

تقسیم ہندکوئی ایک اکیلا واقعہ نہیں تھا جو اچانک وقوع پذیر ہوا ہو لیکن یہ واقعات کا ایک ایساسلسلہ تھا جس میں سیاسی و سماجی اورمعاشی و معاشرتی اور مذہبی عوامل شامل تھے-[3] جیساکہ پنجاب کی برطانوی قیادت پر یہ بات واضع تھی کہ پنجاب کی تقسیم کے نتیجے میں مسلمانوں، سکھوں اور ہندوؤں کے درمیان پر تشدد واقعات شروع ہو سکتے ہیں[4] اس لیے یہ ان کا پہلا فرض تھا کہ وہ ان غیر انسانی پرتشدد واقعات کو روکنے کے لیے اقدامات کریں جن میں دو لاکھ سے زیادہ لوگ شہید ہوئے اور ایک بہت بڑی تعداد بے گھر ہوئی- ان علاقوں کی انتظامیہ کے علاوہ بعض مختلف سماجی اور علاقائی گروہوں نے ان پرتشدد واقعات کا ساتھ دیا اور بعض نے ان پرتشدد واقعات کو روکنے کی کوشش کی-

جیسا کہ یہ واضح ہے کہ حکومتی و سیاسی انتظامیہ کے علاوہ صوفیاء اور ان کی خانقاہیں ایسا سماجی گروہ ہیں جن کا معاشرے میں اثر و رسوخ اور ان کی پیروی کرنے والوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا- صوفیاء اپنی محبت،عزت، بردباری اور انسانیت دوستی پر مبنی بغیر کسی مذہبی اور سماجی تفریق پر مبنی سلوک کی وجہ سے جانے جاتے ہیں یہ تاریخی طور پر واضح اور تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ برصغیر کے معاشرے میں صوفیاء کی وسیع پیمانے پر پیروی اور ان کے اثر  و رسوخ کی وجہ سے ایک ہزار سال تک مسلمانوں نے ایسے معاشرے کو پروان چڑھایا جس کی بنیاد انسانیت پر رکھی گئی تھی اور اس معاشرے میں بسنے والے تمام لوگ چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب، گروہ، نظریہ یا فکر سے تھا انہیں انسانیت کی بنیاد پر تمام شہریوں کی طرح برابر حقوق حاصل تھے - ان صوفیاء نے انفرادی و اجتماعی حیثیت میں سیاسی و سماجی اور اصلاحی تحریکوں میں کلیدی کردار ادا کیا ہے-تحریک آزادی ان واقعات میں سے ایک ہے جس میں صوفیاء نے ناصرف اپنے مریدین  اور عقیدت مندوں کو مسلم لیگ کا ساتھ دینے کی اپیل کی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے بنفسِ نفیس تحریک ِ پاکستان میں کردار ادا کیا-

سید عظمت علی شاہ (پیدائش 1932ء) جن کا تعلق ملتان سے تھا، مسلم لیگ کے بہت سرگرم رکن تھے ان کا تعلق ملتان کے بہت بااثر سید گھرانے سے تھا-جدوجہد ِ آزادی کے دوران انہوں نے ملتان کنٹونمنٹ کے علاقے میں واقع اپنی دوکان وقف کر کے اسے مسلم لیگ کا دفتر بنا دیا- تقسیم ہند کے وقت بہت سارے ہندو جو ملتان ریلوے سٹیشن پر پناہ کی تلاش میں تھے بلکہ سٹیشن پر موجود لوگوں کو اپیل کی کہ ان سے سخت رویہ نا اپنایا جائے - ہجرت کے وقت ان کی یہ دوکان ایک مہاجرین کے پناہ گزین کیمپ میں تبدیل ہو گئی جہاں پر ریل گاڑی کے ذریعے آنے والے کو خوش آمدید کہا جاتا تھا-کیمپ میں موجود مہاجرین کو بنیادی انسانی ضروریات مہیا کرنا ان کی ذمہ داری ہوتی تھی انہوں نے اپنے مریدین  اور پیروکاروں کے ذریعے مہاجرین کی دیکھ بھال کے لیے انتھک محنت کی- [5]

میاں محمد بخش قادری چشتی (پیدائش1921ء) کا تعلق جھنگ کے ایک بااثر مذہبی خاندان سے تھا-ان کے بہت سارے مرید اور عقیدت مند تھے اور اپنے علاقے میں ان کا خاصہ اثر و رسوخ تھا-انہوں نے جدوجہدِ آزادی میں بھرپور کردار ادا کیا-تقسیمِ ہند کے وقت مہاجرین کی بہت بڑی تعداد نے جھنگ اور اس کے گرد و نواح میں ہجرت کر کے آئے-میاں محمد بخش قادری چشتی نے مہاجرین کی آباد کاری اور بحالی میں ایک ذمہ دار کی حیثیت سے کام کیا-انہوں نے اپنے مریدین  اور عقیدت مندوں کو حکم دیا کہ وہ مہاجرین کو خوش دلی سے خوش آمدید کہیں-انہوں نے اپنے مریدین  کو مہاجرین کی خدمت اور مدد کیلیے متوجہ کرنے کیلیے حضورِاکرم (ﷺ) کی ہجرت کا حوالہ دیا-انہوں نے اپنے گھر کے کھانے سے مہاجرین کی دیکھ بھال کی جو کہ ہر وقت لنگر کی صورت میں موجود ہوتا تھا انہوں نے بحالی کے کاموں میں مقامی حکومت کے ساتھ مل کر کام کیا- [6]

مولانا محمد شفیع اوکاڑوی (پیدائش 1930ء) کا تعلق مشرقی پنجاب کے علاقے کھیم کرن سے تھا وہ حضرت میاں غلام اللہ شرقپوری کے مرید تھے اور انہیں اپنے مرشد سے مسندِ ارشاد کی اجازت ملی- تقسیم ہند کے وقت انہوں نے بھی اپنے خاندان اور مریدین  کی بڑی تعداد کے ساتھ پاکستان کی طرف ہجرت کی-جب وہ لاہور کے مہاجرین کے کیمپ میں پہنچے انہوں نے کئی ہفتوں تک اپنے مریدین  کے ساتھ مل کر مہاجرین کے کیمپ کے انتظامی معاملات میں خدمات سرانجام دیں اس کے بعد وہ اپنے مریدین  کے ساتھ اوکاڑہ میں رہائش پذیر ہوگئے انہوں نے اوکاڑہ میں ایک مسجد قائم کی اور وہاں سے مہاجرین کی بحالی میں کردار ادا کیا اس لیے وہ مسجد جامع مسجد مہاجرین کے نام سے مشہور ہو گئی-کیونکہ وہ خود ایک مہاجر تھے اور ہجرت کی مشکلات اور مسائل سے بخوبی واقف تھے اس لیے انہوں نے مقامی انتظامیہ کے ساتھ مل کے عملی بنیادوں پر بحالی اور رہائش کے کاموں میں شرکت کی- [7]

سید سلیم گیلانی (پیدائش1928ء) کا تعلق اجنالہ امرتسر سے تھا وہ مسلم لیگ کے بہت سرگرم رکن تھے-تقسیم کے وقت پرتشدد فسادات کے دوران انہوں نے اپنے مریدین  کو جمع کرکے ان کو ’’رضا کاروں‘‘کے طور پر منظم کیا اور انہیں فسادات کے دوران عورتوں بچوں اور بزرگوں کی حفاظت کی ذمہ داری دی- سید سلیم گیلانی نے اپنے علاقے کے مسلمانوں کی ہجرت کی خود سربراہی کی- جنرل عبد الرحمٰن بھی رضاکاروں میں شامل تھے جب انہوں نے اپنے مریدین  اور خاندانوں کی بڑی تعداد کے ساتھ پاکستان کی طرف ہجرت کی تو انہوں نے بہت سے حملوں کا سامنا کیا-ہجرت کے دوران ان کے دادا کا انتقال ہوگیا-جب وہ لاہور کے والٹن مہاجرین کیمپ میں پہنچے تو انہوں نے اپنے رضا کاروں کے ساتھ مل کر بہت دلجوئی اور محنت سے مہاجرین کی خدمت میں کیمپ کی انتظامیہ کے ساتھ کام کیا ان کی مہاجرین کی غیرمعمولی خدمات کے اعتراف میں لاہور کی انتظامیہ کی طرف سے انہیں اعزازی ڈگری سے نوازا گیا- [8]

سید نیاز الحق شاہ علیگ (پیدائش 1923ء) یوپی کے علاقے فرخ آباد سے تعلق تھا-وہ تحریکِ آزادی کے سرگرم رکن تھے-تقسیمِ ہند کے وقت پُرتشدد واقعات کے دوران انہوں نے اپنے مریدین  اور عقیدت مندوں کو اپیل کی کہ وہ پر امن رہیں اور کسی بھی قسم کی پرتشدد واقعات میں شامل نہ ہوں اور بغیر کسی مذہبی تفریق کے ایک دوسرے کا خیال رکھیں- انہوں نے اپنے مریدین  کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ سندھ کے علاقوں میں ہجرت کی- جہاں ان کے رشتہ دار رہتے تھے اور وہاں اپنے رشتہ داروں کی مدد سے مہاجرین کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا- [9]

سید محی الدین قادری محیط (پیدائش 1910ء) کا تعلق حیدر آباد دکن سے تھا وہ تحریکِ پاکستان کے سرگرم رکن تھے- ہجرت کے دوران انہوں نے اپنے مریدین  اور عقیدت مندوں کے ساتھ ہرنائی کے علاقے میں ہجرت کی انہوں نے مہاجرین کی رہائش اور بحالی کیلئے مقامی انتظامیہ سے مل کر کام کیا اور بہت سارے مہاجرین کی مدد کی-[10]

سید غلام محمد شاہ (پیدائش 1912ء) کا تعلق جھنگ سے تھا-ان کا تعلق ایک مشہور سید گھرانے سے تھا جن کا اپنے علاقے میں بہت سیاسی اثر و رسوخ تھا-ہجرت کرنے والے ہندوؤں اور سکھوں کی جان و مال و آبرو کی حفاظت میں ساتھ دیا اور تب تک ان کے ساتھ رہے جب تک ان کو ٹرین پر بٹھا کر روانہ نہیں کردیا-انہوں نے اپنے سیاسی اثر و رسوخ کو استعمال کیا اور مہاجرین کی رہائش کے لیے انہیں زمینیں الاٹ کروا کر دیں اور اپنے مریدین  کو حکم دیا کہ وہ مہاجرین کی تمام بنیادی ضروریات کا خصوصی خیال رکھیں- [11]

صوبیدار پیر محمد شہید (پیدائش 1894ء) کا تعلق ریاست کپورتھلہ سے تھا-وہ ریاست میں بہت زیادہ اثر و رسوخ رکھنے والے انسان تھے اس لیے انہیں ریاست کپورتھلہ میں نیشن گارڈز کی سالاری کی پیش کی گئی- انہوں نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے تحریک آزادی میں بھرپور کردار ادا کیا- تقسیم ہند کے وقت ریاست میں پرتشدد واقعات شروع ہو گئے پیر محمد شہید نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے عوام کو پرامن رکھنے کی کوشش کی لیکن حالات گھمبیر ہوگئے-انہوں نے 9 ستمبر کو ٹرین پر پاکستان کی طرف سفر شروع کیا تو جب ٹرین کھوجے والے سٹیشن پہنچی تو ٹرین کو زبردستی روک لیا گیا اور سکھوں کے مسلح گروہوں نے ٹرین پر حملہ کر کے لوگوں کو کاٹنا شروع کردیا اس حملے میں پیر محمد شہید اپنے دو ساتھیوں اور اپنے خاندانوں سمیت شہید کردیے اور چند لوگ بچ کر لاہور پہنچے- [12]

پیر سید حیدر شاہ گیلانی جو کہ پیر آف چورہ شریف کے نام سے مشہور ہیں ،ان کے بہت بڑی تعداد میں مریدین اور عقیدت مند ہیں، لاہور میں بھی خاصہ حلقہ اثر تھا -جب پرتشدد واقعات شروع ہوئے اور پیر صاحب نے دربار کے اردگرد علاقوں میں رہنے والے ہندوؤں اور سکھوں کو یہ پیغام بھیجا کہ اگر وہ کسی قسم کی مشکل میں ہیں تو دربار پر آکر پناہ لے سکتے ہیں اور پیر صاحب نے اپنے مریدین  اور عقیدت مندوں کو حکم دیا کہ وہ پرامن رہیں اور کسی پر کسی بھی قسم کی سختی یا تشدد کا حصہ نہ بنیں-چونکہ لاہور میں آنے والے مہاجرین کی تعدا د سب سے زیادہ تھی تو پیر سید حیدر شاہ گیلانی نے مہاجرین کو بڑے کھلے دل سے خوش آمدید کہا اور انہیں اپنے دربار میں رہائش کھانا پینا اور بنیادی ضروریات مہیا کیں اور ان کا درباری مسافر خانہ مہاجرین کے پناہ گزین کیمپ کی شکل اختیار کرگیا اور یہ مہاجرین تب تک دربار کے مسافر خانے میں رہے جب تک انتظامیہ کی طرف سے انہیں کوئی معقول رہائشی جگہ الاٹ نہیں ہوگئی- [13]

پیر صلاح الدین کا تعلق امرتسر سے تھا، وہ اپنی روحانی خدمات کی وجہ سے اپنے علاقے میں بڑی بااثر شخصیت سمجھے جاتے تھے-وہ تحریک ِ پاکستان کے بڑے سرگرم رکن تھے-تقسیم ہند کے وقت انہوں نے اپنے خاندان اور مریدین  کی ایک بہت بڑی تعداد کے ساتھ لاہور کی طرف ہجرت کی اور نسبت روڈ پر آکر آباد ہوئے انہوں نے بڑے جذبے سے مہاجرین کی بحالی اور ان کی رہائش کے کاموں میں حصہ لیا-کیونکہ وہ ایک بااثر شخصیت تھے تو مہاجرین ان کے پاس حاضر ہوتے تھے کہ وہ ان کے رہائش کے مسائل حل کروائیں-پیر صلاح الدین ان مسائل کے حل کے لیے طالب علموں کے ایک گروہ کے ساتھ وزیر اعظم نواب زادہ لیاقت علی خان سے ملے اور انہیں مہاجرین کے مسائل کے حوالے سے آگاہ کیا اور انہیں درخواست کی کہ مہاجرین کے مسائل کو جلد سے جلد حل کیا  جائے- [14]

پیر بڈھن شاہ (پیدائش 1905ء) کا تعلق ملتان سے تھا-وہ تحریک ِ پاکستان کے بڑے سرگرم رکن تھے- 1946ء کے انتخابات میں وہMLAمنتخب ہوئے -وہ اپنی سیاسی اور روحانی خدمات کی وجہ سے اپنے علاقے میں بہت اثر و رسوخ رکھتے تھے-تقسیمِ ہند کے بعد انہوں نے مہاجرین کی بحالی کے لیے بہت محنت کی انہوں نے خود عملی طور پر اس کام میں حصہ لیتے ہوئے اشیائے خورد و نوش مہاجرین کے کیمپوں میں مہیا کرتے رہے-انہوں نے اپنا سیاسی اثر ورسوخ استعمال کرتے ہوئےحکومت کی زرعی اراضی کو آپریٹ فارمنگ پروگرام کے تحت مہاجرین کو الاٹ کروا کر دی یہ زمین چک 15 ایل ،10 آر اور ڈبلیو بی خانیوال اور وہاڑی کے علاقوں میں الاٹ کی گئیں- انہوں نے مہاجرین کو سرکاری ملازمتیں دلانے کے لیے بھی بہت کام کیا- [15]

سید لئیق حسین شاہ (پیدائش 1926ء) کا تعلق کرنال سے تھا-وہ تحریک پاکستان کے ایک سرگرم رکن تھے-ان کا تعلق اپنے علاقے کے ایک بااثر سید خاندان سے تھا-ان کے اس اثر و رسوخ اور روحانی خدمات کی وجہ سے انہیں کرنا ل کے علاقے میں نیشنل گارڈز کے سالارِ اعلیٰ کے عہدے کی پیشکش کی گئی-تقسیم ِ ہند کے وقت جب فسادات شروع ہوئے تو انہوں نے اپنے ماتحت لوگوں اور مریدین کو پرامن رہنے اور کسی قسم کی پرتشدد کاروائی کا حصہ نہ بننے کو کہا-انہوں نے 200 سے زیادہ مہاجرین کو اپنے پاس پناہ دی اور ان کےساتھ پاکستان کی طرف ہجرت کی-جب کرنال سے پہلی ٹرین مہاجرین کو لے کر روانہ ہوئی تو اس وقت انہوں نے بہت سارے نیشنل گارڈز کے ذریعے ٹرین کو محفوظ بنانے کے لیے ٹرین پر سوار ہوئے - اس ٹرین پر راستے میں تین دفعہ مسلح سکھوں اور ہندوؤں نے حملہ کیا اور بہت سارے لوگ شہید ہو گئے - جب وہ لاہور پہنچے تو مہاجرین کیمپ میں انتظامیہ کے ساتھ مل کے کام کیا- [16]

سید وزارت حسین نقوی (پیدائش 1928ء) کاتعلق سہارن پور سے تھا-وہ اپنے سید خاندان کےسربراہ تھے وہ تحریکِ  پاکستان کے بہت سرگرم رکن تھے اور جب مہاجرین کی ریل گاڑیاں سہارن پور سے گزرتی تھیں تو وہ اپنے مریدین اور عقیدت مندوں کی مدد سے مہاجرین کو کھانا پینا اور دوسری بنیادی اشیاء فراہم کرتے تھے- ا نہیں اس کام سے روکنے کے لیے سکھوں اور ہندوؤں کی طرف سے تین دفعہ حملہ کیا گیا-حتیٰ کہ انہیں مارنےوالے کے لیے انعام کا اعلان کردیا گیا- اس کے بعد انہوں نے ہجرت کا فیصلہ کیا اور بریلی سے آنے والی ریل گاڑی پر سوار ہوکر پاکستان کے لیے روانہ ہوگئے -[17]

سید شمشاد الحق بخاری کا تعلق دہلی سے تھا- ان کا خاندان دہلی کا ایک بااثر سید خاندان تھا اور ان کے بہت سارے مریدین اور عقیدت مند تھے-انہوں نے اپنے خاندان اور مریدین  کی بڑی تعداد کے ساتھ پاکستان کی طرف ہجرت کی اور جب وہ والٹن کیمپ لاہور میں پہنچے تو انہیں نے اپنے مریدین  سمیت کیمپ کی انتظامیہ کے ساتھ مل کر مہاجرین کی خدمت میں ساتھ دیا- [18]

سید محمد صادق شاہ (پیدائش 1918ء) کا تعلق امرتسر سے تھا-ان کی روحانی خدمات اور عوامی پیروی اور مریدین  کی وجہ سے اپنے علاقے کے بااثر لوگوں میں شمار ہوتے تھے-فسادات کے دوران انہوں نے عوام کو پرامن رہنے کی اپیل کی اور ہندوؤں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا کہ وہ کسی بھی حالت میں ایک دوسرے پر حملہ نہیں کریں گے اور پرامن رہیں گے لیکن اگلے ہی دن انہوں نے معاہدہ توڑ دیا اور مسلمانوں پر حملہ آور ہو گئے اور ان کے گھروں کو آگ لگادی -انہوں نے زخمیوں کی تیمارداری کی اور شہید ہونے والے لوگوں کو دفن کیا جیسے ہی علاقے کی امن وامان کی صورتحال مخدوش ہوئی تو انہوں نے اپنے مریدین کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ لاہور کی طرف ہجرت کی اور مہاجرین کیمپ میں تب تک اپنے مریدین  کے ساتھ دن رات کام کیا جب تک کہ انہیں رہائش کے لیے کوئی مستقل جگہ الاٹ نہیں ہوگئی- [19]

سلطان محمد عبدالعزیز (پیدائش 1909ء) کا تعلق حضرت سلطان باھو ؒ کے خانوادے سے تھا جن کا مزار جھنگ میں ہے-انہوں نے تحریکِ پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا -انہوں نے اپنے مریدین  اور عقیدت مندوں کو تحریک پاکستان کے لیے تیار کیا اور آپؒ خود مسلم لیگ کی مالی خدمت کرنے کے لیے مسلم لیگ کے دفتر جاتے تھے-

سید سجاد حیدر شاہ (پیدائش 1925ء) کا تعلق مشرقی پنجاب کے علاقے ہوشیار پور کے ایک بااثر سید گھرانے سے تھا-وہ تحریک پاکستان کے بہت سرگرم رکن تھے - ان کے بہت سارے مرید اور عقیدت مند تھے جنہوں نے تحریکِ پاکستان میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا- جب انہوں نے اپنے مریدین  اور اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت کی تو لاہور والٹن کیمپ پہنچنے پر انتظامیہ کی طرف سے انہیں مہاجرین کے اعداد و شمار اور باقی تفصیلات درج کرنے کا کام سونپا گیا جسے انہوں نے احسن طریقے سے سر انجام دیا-ان کا خاندان سرگودھا مہاجرین کیمپ میں پہنچا - سرگودھا پہنچ کر انہوں نے اپنے خاندان سے مل کر مہاجرین کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا- انہوں نے مہاجرین کے مسائل مقامی انتظامیہ اور حکومت تک پنچانے کے لیے ’’انجمن مہاجرین ِ سرگودھا‘‘ کی بنیاد رکھی اور خود اس کے سیکریٹری کی حیثیت سےخدمات انجام دیں -انہوں نے اس انجمن کے تحت حکومتی ارکان کو بہت سارے خطوط لکھے[20] جس میں انہوں نے مہاجرین کے مسائل کی طرف حکومتی ارکان کی توجہ دلائی- [21]

پیر زادہ عبدالحمید جالندھری کا تعلق جالندھر سے تھا- ان کا تعلق ایک روحانی خدمات کی وجہ سے مشہور خاندان سے تھا- ان کے خاندان کے بہت سارے مریدین اور عقیدت مند تھے-تقسیم کے وقت جب پرتشدد واقعات شروع ہوئے تو حکومتی نمائندوں کی طرف سے انہیں پیشکش کی گئی کہ آپ کو ہوائی راستے سے پاکستان پہنچا دیتے ہیں لیکن انہوں نے اس بات پر انکار کردیا کہ میں اپنے مریدین اور عقیدت مندوں کو چھوڑ کر نہیں جاؤں گا-انہوں نے اعلان کیا کہ مَیں تب تک پاکستان ہجرت نہیں کروں گا جب تک ان کے علاقے کے تمام مسلمان ہجرت نہیں کر جاتے اور میں ان سب کے بعد آخر میں ہجرت کروں گا- [22]

سید رضا محمد شہید کا تعلق ریاست پٹیالہ سے تھا-ان کا تعلق پٹیالہ کے ایک بااثر سید گھرانے سے تھا-ان کے بہت سارے مریدین اور عقیدت مند تھے -بہت سارے لوگ جو پر تشدد واقعات میں زخمی ہوئے انہوں نے سید رضا محمد شہید کے پاس پناہ لی جہاں ان کی دیکھ بھال کی گئی-ان کو ایک سازش کے ذریعے شہید کیا گیا- انہیں سکھوں اور ہندوؤں کی طرف سے بات چیت کے لیے بلایا گیا اور ان کے علاقے سے دور جا کر انہیں شہد کردیا گیا اور ان کا جسدِ خاکی ان کے گھر والوں کو بھیج دیا گیا-[23] ان کا ذکر پٹیالہ سٹیٹ گزٹ میں بھی موجود ہے -[24]

ابوالحسنات سید محمد احمد قادری کا تعلق الوَر راجھستان سے تھاانہوں نے لاہور میں حسنات العلوم کے نام سے مدرسہ قائم کیا - انہوں نے اس مدرسے میں بہت سارے مہاجرین کو پناہ دی اور ان کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھا اور وہ تب تک یہاں رہے جب تک انتظامیہ کی طرف سے انہیں باقاعدہ رہائش کے لیے جگہ الاٹ نہیں ہو گئی- [25]

پیر سید غلام محی الدین گیلانی (پیدائش 1920ء) جو بابوجی سرکار کے نام سے مشہور تھےان کا تعلق اسلام آباد میں واقع گولڑہ شریف دربار سے تھا-ان کے مریدین اور عقیدت مندوں کی تعداد بہت زیادہ ہے-تقسیمِ ہند کے وقت انہوں نے بنفسِ نفیس مہاجرین کی ہجرت اور پاکستان آنے والے مہاجرین کو خوش آمدید کہنے کے کام میں شرکت کی اور خود جا کر ریلوے سٹیشن پر مہاجرین کو خوش آمدید کہا-انہوں نے بہت بڑی مقدار میں اشیاء خورد و نوش اور کپڑوں کا انتظام کیا اور مہاجرین کو دیے-انہوں نے پاکستان سے ہجرت کرنے والے لوگوں کے تحفظ دینے کے لیے اپنے مریدین  کو حکم دیا کہ وہ اپنی نگرانی میں مہاجرین کو ٹرین پر بٹھا کر آئیں- اُن کی ان خدمات کی وجہ سے اقلیتی لوگ انہیں ’’جگت پیر‘‘ کہتے تھے جس کا مطلب ہے پورے ملک (جگ) کا پیر- [26]

برصغیر میں اسلام صوفیاء کی تعلیم و تلقین اور ان کے انسانیت پر مبنی پیغام کی وجہ سے پھیلا جس میں امن، محبت، بھائی چارہ ، خدمت اور باہمی عزت و وقار کے ساتھ ہر شخص کو اپنے سے بہتر سمجھنے اور عملی طور پر دوسروں کے کام آنے کے پیغام نے برصغیر کے ہندو معاشرے جس کی بنیاد ذات پات اور سماجی و معاشرتی تفریق پر مبنی تھی، میں انقلاب برپا کردیا اور  صوفیاء ہر دور میں اس خطے کاسوادِ اعظم رہے ہیں اور تاریخ شاہد ہے کہ اس خطے میں اسلامی شناخت اور تہذیب و تمدن اور اسلام کی عملی تحریک کو کسی بھی دور میں کوئی بھی چیلنچ درپیش آیا تو صوفیاء نے ہراول دستے کے طور پر سب سے پہلے اس کے محرکات کا قلعہ قمع کرکے اسلام کو نئی طاقت بخشی چاہے وہ حضرت مجدد الف ثانی ؒ ہوں، سید عثمان علی ہجویری المعروف داتاگنج بخش ؒ،حضرت سلطان باھوؒ ہوں- تمام بزرگ اپنے دور کے کسی نہ کسی لادینیت کے بت کو توڑ کر اسلام کا احیا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں-

جدوجہد ِ آزادی کے نتیجے میں پاکستان معرض وجود میں آیا تو اس وقت برطانوی نوآبادیاتی حکمرانوں نے اپنی ذمہ داری سے صرف نظر کرتے ہوئے کسی بھی حوالے سے تقسیم سے متعلق کوئی پیپر ورک نہیں کیا تھا، نہ مقامی اور علاقائی انتظامیہ کو اس حوالے سے کسی قسم کی کوئی ہدایات جاری کی گئیں کہ تقسیم کے لیے کون کون سے بنیادی چیلنچز ہیں اور ان کی تیاری کیسے کرنی ہے پنجاب کی تقسیم کے حوالے سے سکھوں نے پہلے ہی اس حوالے سے خبردار کردیا تھا کہ وہ کسی بھی صورت میں پنجاب کی تقسیم نہیں ہونے دیں گے اور پس پردہ وہ پنجاب کی تقسیم کی مزاحمت کے لیے بھی تیاری کررہے تھے - اس وقت کے پنجاب کے گورنر نے اپنی رپورٹس میں واضع طور پر ماؤنٹ بیٹن کو لکھا کہ یہاں تصادم اور پرتشدد فسادات کے امکانات ہیں لیکن کسی قسم کی کوئی تیاری نہیں کی گئی اور نا مقامی سطح پر عوام کو پرامن رہنے کے لیے کوئی لائحہ عمل تشکیل دیا گیا-

جیسے ہی تقسیم کا اعلان ہوا تو ہر طرف پرتشدد فسادات شروع ہوگئے اور ان فسادات میں وقت کے ساتھ ساتھ شدت آتی گئی تو اس وقت کے ماحول میں واحد صوفیاء ہی تھے جنہوں نے آگے بڑھ کر ناصرف عوام کو پرامن رکھنے کی کوشش کی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اپنے حلقۂ اثر اور مریدین کو کسی بھی قسم کی پرتشدد سرگرمی کا حصہ بننے سے منع کیا بلکہ بنفس ِ نفیس شامل ہو کر ناصرف لوگوں کو پرامن طریقے سے ان کے مقامات تک پہنچایا اور ان کے لیے اپنے گھروں اور خانقاہوں کے دروازے کھول دیے-

صوفیاء کے اس کردار کا تجزیہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ جس طرح انہوں نے قیامِ پاکستان کیلئے تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر عملی کردار ادا کیا اسی طرح جب فسادات شروع ہوئے تو بھی انہوں نے اپنے حلقہ احباب، مریدین اور عقیدت مندوں کو پُر امن رہنے کی اپیل کی اور انہیں کسی بھی قسم کی پرتشدد سرگرمی کا حصہ نہیں بننے دیا -اس کے بعد جب ہجرت کا وقت آیا تو تب بھی صوفیا ء نے اپنا کردار اپنے پیغام کے مطابق کسی بھی قسم کی مذہبی تفریق یا تعصب سے دور رہ کر بلا تفریقِ رنگ ونسل لوگوں کو اپنی خانقاہوں اور گھروں میں پناہ دی اور اس وقت تک ان کا ساتھ دیا جب تک کہ وہ صحیح سلامت اپنی منزلِ مقصود تک نہیں پہنچ گئے اور اس مقصد میں بیسیوں مشائخ صوفیا نے اپنی جان کی بھی پرواہ  نہ کی اور لوگوں کو بچاتے ہوئے اپنی چان قربان کردی - صوفیاء بارڈر کے دونوں طرف اسی قسم کا کردار ادا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں چاہے وہ پاکستان سے ہجرت کرکے جانے والے لوگ تھے تو یہاں موجود صوفیاء نے ان کی ہر حوالے سے حفاظت کی اور انہیں آخری حد تک محفوظ طریقے سے ٹرین تک پہنچایا- اسی طرح سرحد کے دوسری طرف جو صوفیاء تھے چونکہ وہاں مسلمان اکثریت میں نہیں تھے تو وہاں پر بھی مسلمانوں نے ان خانقاہوں میں پناہ لی تو اس حالت میں صوفیاء نے بڑے منظم طریقے سے ان کو بلوائیوں کے حملوں سے بچا کر پاکستان روانہ کیا اور خود آخر میں پاکستان آئے اور جب وہ پاکستان میں پہنچے تو ان کے ساتھ چونکہ اپنے مریدین اور عقیدت مندوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہوتی تھی تو انہوں نے مہاجرین کیمپوں میں انتظامیہ کی بہت مدد کی چاہے وہ لاہور کا والٹن کیمپ یا سرگودھا کا مہاجرین کیمپ یا ملک کے طول و عرض میں دیگر مہاجر کیمپ تھے-

ہجرت کے بعد سب سے بڑا چیلنج رہائش اور بحالی کا تھا تو صوفیاء نے بڑی دلجمعی سے اپنے مریدین اور عقیدت مندوں کے ساتھ ملک کر مہاجرین کیمپوں میں بھی اور اس کے علاوہ جہاں جہاں وہ آباد ہوئے وہاں پر مہاجرین کا پور ا پورا ساتھ دیا اور انہیں آباد ہونے اور بحالی میں مدد کی -اس کے علاوہ بعض علاقوں مثلاً سرگودھا اور ملتان اور ملک بھر میں جگہ جگہ صوفیاء نے مہاجرین کی انجمنیں بنائیں اور ان انجمنوں اور کمیٹیوں کے ذریعے انتظامیہ اور حکومتی عہدیداروں کی توجہ مہاجرین کے مسائل کی طرف دلائی اور جب تک ان کے مسائل حل نہیں ہوگئے انہیں ناصرف اپنے پاس اپنی خانقاہوں میں پناہ دی بلکہ ان کی تمام بنیادی ضروریات کا بھی خیال رکھا-حتیٰ کہ بہت سے ایسے لوگ تھے جن کے خاندان شہید ہوگئے یا لاپتہ ہوگئے تو انہوں نے صوفیاء کے اس حسنِ سلوک سے متاثر ہوکر خانقاہ سے اپنے دامن کے وابستہ کرلیا-تو یہ صوفیاء کا وہ کردار ہے جو ابھی تک ماضی کی دھندلاہٹ میں چھپا ہوا ہے اس کو ناصرف دریافت کرنے کی ضرورت ہے بلکہ صوفیاء کے اس کردار کو آج کے اس پرفتن اور تشدد کے دور میں عام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ واحد تریاق ہے جو آج کل کے دور میں معاشرے میں عام ہونے والے تشدد اور عدم برداشت کے زہر کو ختم کرکے ہمارے معاشرے کو پھر سے امن، محبت، بھائی چارہ اور بین المذاہب ہم آہنگی کی وہ منزل حاصل ہوجائے جس کے حصول کے لیے بانیانِ پاکستان نے محنت کی اور لاکھوں لوگوں نے قربانیاں پیش کیں-

٭٭٭


[1]Michael Gottlob, “India’s Unity in Diversity as Question of Historical Perspective,” Economic and Political Weekly,

[2]Paul R. Brass, “The Partition of India and Retributive Genocide in the Punjab, 1946-47: means, methods and purposes,” Journal of the Genocide Research,

[3]David Gilmartin, “Partition, Pakistan and South Asian History: In Search of a Narrative”, Journal of South Asian Studies,

[4]Farah Gul Baqai, “Sir Evan Jenkins and the 1947 Partition of the Punjab”, Pakistan Journal of History and Culture,

[5]سید عظمت علی شاہ، تحریکِ پاکستان میں کردار، ایوانِ کارکنان تحریکِ پاکستان  لاہور ،غیر مطبوعہ فائلز(ملتان)، 1947ء، فائل نمبر: 853

[6]میاں محمد بخش قادری چشتی، تحریکِ پاکستان میں کردار، ایوانِ کارکنان تحریکِ پاکستان  لاہور ،غیر مطبوعہ فائلز(جھنگ)، 1947ء، فائل نمبر: 621

[7]مولانا شفیع اوکاڑوی ، تحریکِ پاکستان میں کردار، ایوانِ کارکنان تحریکِ پاکستان  لاہور ،غیر مطبوعہ فائلز(اوکاڑہ)، 1947ء، فائل نمبردرج نہیں۔

[8]سید سلیم گیلانی ، تحریکِ پاکستان میں کردار، ایوانِ کارکنان تحریکِ پاکستان  لاہور ،غیر مطبوعہ فائلز(لاہور)، 1947ء، فائل نمبر:355

[9]سید نیاز الحق  شاہ، تحریکِ پاکستان میں کردار، ایوانِ کارکنان تحریکِ پاکستان  لاہور ،غیر مطبوعہ فائلز(کراچی )، 1947ء، فائل نمبر: 456

[10]سیدمحی الدین قادری محیط ، تحریکِ پاکستان میں کردار، ایوانِ کارکنان تحریکِ پاکستان  لاہور ،غیر مطبوعہ فائلز(کراچی )، 1947ء، فائل نمبر:53

[11]سیدغلام محمد  شاہ، تحریکِ پاکستان میں کردار، ایوانِ کارکنان تحریکِ پاکستان  لاہور ،غیر مطبوعہ فائلز(جھنگ)، 1947ء، فائل نمبر:445

[12]صوبیدار پیر محمد شہید  ، تحریکِ پاکستان میں کردار، ایوانِ کارکنان تحریکِ پاکستان  لاہور ،غیر مطبوعہ فائلز(لاہور )، 1947ء، فائل نمبر: 04  

[13]پیر سید حیدر شاہ گیلانی ، تحریکِ پاکستان میں کردار، ایوانِ کارکنان تحریکِ پاکستان  لاہور ،غیر مطبوعہ فائلز(ملتان)، 1947ء، فائل نمبر: 853

[14]پیر صلاح الدین، تحریکِ پاکستان میں کردار، ایوانِ کارکنان تحریکِ پاکستان  لاہور ،غیر مطبوعہ فائلز(گجرات)، 1947ء، فائل نمبر:429

[15]پیر بڈھن شاہ ، تحریکِ پاکستان میں کردار، ایوانِ کارکنان تحریکِ پاکستان  لاہور ،غیر مطبوعہ فائلز(ملتان)، 1947ءجی ایم 2003/330 ، فائل نمبر:2915

[16]سید لئیق حسین شاہ، تحریکِ پاکستان میں کردار، ایوانِ کارکنان تحریکِ پاکستان  لاہور ،غیر مطبوعہ فائلز(سرگودھا )، 1947ء، فائل نمبر:220

[17]سید وزارت حسین نقوی  ، تحریکِ پاکستان میں کردار، ایوانِ کارکنان تحریکِ پاکستان  لاہور ،غیر مطبوعہ فائلز(بھکر)، 1947ء، جی ایم 2000/35  فائل نمبر:2566

[18]سیدشمشاد الحق بخاری، تحریکِ پاکستان میں کردار، ایوانِ کارکنان تحریکِ پاکستان  لاہور ،غیر مطبوعہ فائلز(لاہور)، 1947ء، جی ایم1997/133  فائل نمبر:133

[19]سیدمحمد صادق شاہ ، تحریکِ پاکستان میں کردار، ایوانِ کارکنان تحریکِ پاکستان  لاہور ،غیر مطبوعہ فائلز(لاہور)، 1947ء، جی ایم 1997/2116  فائل نمبر:2116

[20]حوالہ خطوط لف فائل سید سجاد حیدر شاہ ، تحریکِ پاکستان میں کردار، ایوانِ کارکنان تحریکِ پاکستان  لاہور ،غیر مطبوعہ فائلز(بھکر)،1948ء، 81،  فائل نمبر:1931

[21]سید سجاد حیدر شاہ ،  تحریکِ پاکستان میں کردار، ایوانِ کارکنان تحریکِ پاکستان  لاہور ،غیر مطبوعہ فائلز(بھکر)، 1947ء،فائل نمبر:1931

[22]پیر زادہ عبدالحمید جالندھری ، تحریکِ پاکستان میں کردار، ایوانِ کارکنان تحریکِ پاکستان  لاہور ،غیر مطبوعہ فائلز(لاہور)، 1947ء، جی ایم 1991/825فائل نمبر:825

[23]سید رضا محمد شہید   ، تحریکِ پاکستان میں کردار، ایوانِ کارکنان تحریکِ پاکستان  لاہور ،غیر مطبوعہ فائلز(لاہور)، 1947ء، جی ایم1991/3191 فائل نمبر:3191

[24]Patiala State Gazzette, Part B, p. 72-74

[25]ابوالحسنات سید محمد احمد قادری ، تحریکِ پاکستان میں کردار، ایوانِ کارکنان تحریکِ پاکستان  لاہور ،غیر مطبوعہ فائلز(لاہور)، 1947ء، جی ایم 1990/1831  فائل نمبر:1831

[26]M Ismail Sethi, The living truth: Babu Jee ... Syed Ghulam Mohy-ud-Din, Translation: Prof. Muhammad Essa Khan, Islamabad: Aiwan e Mehr Ali Shah, Islamabad, 2002, p. 108

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر