مولانا الطاف حسین حالی 1837ء میں پانی پت میں پیدا ہوئے اور 1914ء میں وہیں وفات پائی- وہ ایک عبقری شاعر، نثر نگار اور مصلح تھے جنہوں نے زوال پذیر مسلم معاشرے میں بیداری کی آواز بلند کی- مولانا حالی نے مرزا غالب، نوح ناروی اور مولانا محمد حسین آزاد سے استفادہ کیا، لیکن سب سے گہرا اثر ان پر مرزا غالب کا تھا- ان کا عہد انگریزی استعمار، 1857 کی جنگِ آزادی اور مسلم زوال کا دور تھا، جس نے ان کے فکری و شعری رجحانات پر گہرا اثر ڈالا- ان کی عظیم ادبی یادگاروں میں ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ اور ’’مد و جزرِ اسلام‘‘ نمایاں ہیں (آخر الذکر کی زیادہ شہرت ’’مسدّسِ حالی‘‘ کے نام سے ہے) - حالی کی نعت گوئی عشقِ رسول (ﷺ) کی سادگی، سچائی اور عقیدت کا آئینہ ہے- انہوں نے نعت کو محض مدح سے بلند کر کے اسلامی معاشرے کیلئے ایک فکری اور اصلاحی پیغام کا ذریعہ بنایا -
ڈاکٹر سید تقی عابدی کی تحقیق کے مطابق حالی کے ہاں تین نعتیہ رباعیات ،ایک نعتیہ غزل اور ایک نعتیہ قصیدہ ہے- عرض حال نعتیہ کلام 63 اشعار پرمشتمل ہے- مسدس حالی میں 42 بند ایسے ہیں جن میں نعتیہ موضوعات موجود ہیں- غالب کی نعتیہ غزل اور نعت پر بھی حالی نے تخمیس کی ہے- 13 فردیات ایسے ہیں جو نعت پر مشتمل ہیں اور ٹوٹل نعتیہ اشعار 372بنتے ہیں-
مولانا حالی کے ایک قصیدہ ’’بنے ہیں مدحت سلطان دو جہاں کے لیے‘‘ میں 33 اشعار ہیں- قصیدے کے مضامین میں حضور نبی اکرم (ﷺ) کی شان مقدسہ کا خوبصورت اور دلکش بیان ہے- حضور نبی کریم (ﷺ) کی ذات مقدسہ کی خوبیاں بین السطور موجود ہیں- نعتیہ اشعار میں معراج نبوی (ﷺ) کا ذکر بھی موجود ہے-
مولانا حالی کے ہاں مناجات میں دعا اور عشق کا رنگ غالب ہے ان کے اشعار میں گہرا کرب نظر آتا ہے- امت مسلمہ کی پریشانیوں اور مسائل کی درد مندانہ گفتگو ان کے ہاں مناجات میں بین السطور موجود ہے- حالی کی شاعری کا یہ رنگ یکسر منفرد ہے- نماز میں دعاؤں میں ہر کیفیت میں آپ کا وجود امن و سلامتی سے لبریز تھا-حالی کی نعت میں مدح سرائی کا عجز ہے- جس طرح غالب اور دیگر شعراء نے کیا ہے- حالی کی خواہش ہے کہ تا عمر سانسیں اور زبان حضور نبی اکرم (ﷺ) کی شان مقدسہ بیان کرتے رہیں- حضور نبی اکرم (ﷺ) کی آمد مبارک سے ہی دنیا میں ظلمتوں کا اختتام ہوا اور روشنی کا دور دورہ ہوا- حالی کہتے ہیں حضور نبی کریم (ﷺ) کا گھر کوئی عام گھر نہیں ہے بلکہ یہ وہ گھر ہے جہاں جبرائیل وحی لے کے آتے ہیں اور قرآن کا نزول ہوتا ہے- حضور نبی کریم (ﷺ) کا رویہ اپنوں کے ساتھ تو کرم سے بھرپور ہوتا ہی تھا اگر آپ کی بارگاہ میں مخالفین اور دشمن بھی آ جاتے تو ان کے ساتھ بھی آپ کا سلوک نہایت مشفقانہ اور رحمت سے بھرپور ہوتا تھا- حضور نبی کریم (ﷺ) کائنات میں سب سے اول تخلیق ہوئے لیکن خاتم النبیین ہیں- حالی کے نزدیک اب امت مسلمہ کا قافلہ اس لیے نہیں بھٹک سکتا کیونکہ اب اس کی کمان حضور نبی کریم (ﷺ) کے ہاتھ میں ہے اور بروز محشر حضور نبی کریم (ﷺ) امت کی شفاعت فرمائیں گے- حضور نبی کریم (ﷺ) کا دین ہمیشہ زندہ و جاوید رہنے والا ہے- اس گلشن میں ہمیشہ بہار رہے گی- اس کے بعد ایک بہت خوبصورت بات حالی نے کی ہے وہ یہ ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) کی محبت سے دل کا امتحان ہوتا ہے اگر دل کو پرکھنا ہو تو حضور نبی کریم (ﷺ)کی محبت سے پرکھ لو- حالیؔ حضور نبی کریم (ﷺ) کی بارگاہ میں التجا کرتے ہیں اور دیارِ مدینہ میں مرنے کی آرزو رکھتے ہیں اور یہ ہر مومن مسلمان کا خواب خواہش اور آرزو ہوتی ہے- حالی کے نعتیہ قصیدہ کے ان اشعار میں عشق و محبت کی کیفیت کا انداز ملاحظہ ہو-
بنے ہیں مدحت سلطان دو جہاں کیلئے |
حالی کی ایک نعتیہ غزل 25 اشعار پر مشتمل ہے- اس کلام میں بھی حضور سرور کونین (ﷺ) کی ذات مقدسہ کی شان مبارکہ کا منفرد اور عمدہ بیان ہے-حالی لکھتے ہیں کہ حضور نبی کریم (ﷺ) کی پیدائش کائنات کے لیے طراوت بخش اور آپ کی بعثت مخلوق کے لیے حیات بخش ہے- یعنی آپ (ﷺ) کی آمد مبارک کائنات کی سوکھی اور خشک کھیتی پر رحمت اور برکتوں کا سامان لے کر آئی اور آپ کی نبوت نے اس مخلوق کو نئی حیات بخشی-اے ملکوتی صفات اور انسانی قابلیت رکھنے والے آپ کی ذات مقدسہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ تمام مخلوقات کے سردار ہیں- یہ اشعار دیکھئے :
تجھ سے ہوئی زندہ خلق جیسے کہ باراں سے خاک |
مسدس حالی کے نعتیہ بند زبان زد عام ہوئے- مولانا حالی کا یہ کلام اگر یوں کہا جائے کہ ان کے سب سے مشہور اشعار میں سے ایک ہے تو یہ قطعاً غلط نہ ہوگا- مولانا حالی کے نعتیہ اشعار محافل میں علمائے کرام اور ثنا خوان مصطفےٰ عقیدت اور محبت کے رنگ میں ڈوب کر پڑھتے ہیں- مسدس کے نعتیہ اشعار میں حضور سرور کونین (ﷺ) کی ولادت با سعادت کا ذکر ہے- حضور نبی کریم (ﷺ) کی ولادت کا تذکرہ حالی نے بہت خوبصورت طریقے سے کیا ہے- حضور سرور کونین (ﷺ) کے احسانات کا ذکر ہے جو اس کائنات پہ آپ (ﷺ) نے فرمائے- اس کائنات پہ آپ کی آمد اور آپ کی شخصیت کا ظہور کسی نعمت عظمیٰ سے کم نہیں ہے-آقا کریم (ﷺ) نے انسانیت اور انسانی اقدار کو جس انداز میں متعارف فرمایا اس کی نظیر تاریخ عالم میں کہیں موجود نہیں- انسان کو شریعت کے سبق پڑھائے- عبادات کے معمولات سے آگاہی دی- کائنات کے وہ سربستہ راز بھی منکشف ہوئے جو اس سے قبل عیاں نہ تھے- آقا کریم (ﷺ)نے روز ازل کے عہد و پیمان یاد دلائے ، درس توحید پڑھایا اور اللہ کریم کی ذات پہ توکل سکھایا کیونکہ انسان کے لیے توکل اور اللہ رب العزت کی ذات پر حق الیقین بے حد ضروری ہے-
مسدس حالی کے یہ نعتیہ اشعار اپنی مثال آپ ہیں-
یکایک ہوئی غیرتِ حق کو حرکت |
مسدس حالی کے بارے میں ڈاکٹر انور سدید کا تجزیہ کچھ ان الفاظ میں ہے:
’’حالی نے اپنی عقیدت کو طغیانِ جذبات کے حوالے نہیں کیا ،بلکہ نرم، رسیلے اور سادہ الفاظ میں حضور (ﷺ) کی سیرت کے کچھ ایسے نقوش ابھار دیے ہیں کہ ان کا اثر دیرپا اور کیف وسرور لافانی ہوگیا ہے‘‘-[1]
حالی کی نعتیہ نظم عرض حال جو کہ مناجات کے رنگ میں ہے اور 63 اشعار پر مشتمل ہے- ان اشعار میں حالی کا باطنی کرب ایک الگ انداز میں نظر آتا ہے- یوں محسوس ہوتا ہے کہ حالی اس نظم کی تکمیل کے دوران آنسوؤں سے بارگاہ رسالت میں ہدیہ عقیدت پیش کر رہے ہیں- ایک ایک شعر امت مسلمہ کی تباہی بدحالی اور مفلوج الحالی کی واضح اور درد بھری تصویر ہے- امت کی حالت زار کا تذکرہ کرتے ہوئے حالی نوحہ کناں ہیں کہ وہ دین جس کی روشنی اور کرنوں نے جہان بھر کو فیضان دیا اور جس دین نے انسانیت کے اسرار و رموز منکشف کیے آج وہ دین غریب الغرباء ہے- وجہ صرف یہ ہے کہ اسلام کی درخشندہ اور روشن روایات کو ترک کیا گیا جن کا احیا از سر نو لازم و ملزوم ہے- وہ دین جس کی شان و شوکت کا یہ عالم تھا کہ قیصر و کسری جیسے حکمران بھی اسلام کی طاقت سے خوفزدہ تھے آخر ایسا کیا ہوا اور وقت نے کیسا پلٹا کھایا کہ حالات یکسر تبدیل ہو گئے اور دنیا کے بیشتر حصے پہ حکومت کرنے والی مسلمان قوم دنیا بھر میں محکوم و مجبور ہو کر رہ گئی- یہ دین اسلام ہی کی روشنی تھی جس سے پوری کائنات میں امن و سکون اور امن و آشتی کا دور دورہ ہوا- دین اسلام ہی میں وہ صداقت تھی کہ شرک و کفر کی جڑیں ہلا کر رکھ دی گئیں- دین اسلام نے قوموں سے تفرقے مٹائے اور رنگ و نسل کی تفریق ختم کر کے انہیں ایک شناخت میں ضم کر دیا- ان کی شخصیت، ان کا مزاج اور ان کا کردار ایسا عالیشان بنا دیا کہ ایک دوسرے کی جان کے دشمن ایک دوسرے کے جان و مال کی حفاظت کرنے والے بن گئے- دین اسلام کا آفاقی پیغام ایسا پرنور اور مبنی برحق تھا کہ اپنے تو اپنے غیروں کے دلوں پر بھی اسلام کا پیغام نقش ہو گیا اور غیر بھی دین کی صداقت پر قربان ہونے والے بن گئے- دین اسلام نے ہمدردی اور انسان سے محبت کا پیغام دیا-
اب یہ حال ہے کہ امت کے افراد تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں- شفقت و محبت کے درس ان کی زندگیوں سے رخصت ہو گئے ہیں اسلام سے دوری کا نتیجہ یہ نکلا کہ دولت و عزت دونوں رخصت ہو گئیں- وہ قوم جو مقام و مرتبے میں فلک کی مانند تھی اب ظلمتوں اور پریشانیوں کی گہری کھائیوں میں گر چکی ہے- اے امت کی کشتی کے نگہبان یہ فریاد اور آرزو ہے کہ ہماری فریاد کو سن لے اور رحم و کرم فرما- امت کی اس ہچکولے کھاتی کشتی کو اپنے کرم اور عطا سے منزل تک پہنچا- حالیؔ کے نعتیہ اشعار میں اہل بیت اطہار کا تذکرہ بھی موجود ہے- نعتیہ اشعار میں عاجزی کا رنگ بھی غالب ہے وہ اس ضمن میں یوں اظہار کرتے ہیں کہ اے خاتم المرسلین ہم جیسے ہیں جس حال میں ہیں آخر آپ کے ہیں ہماری غلطیوں کوتاہیوں کو درگزر کیا جائے فیضانِ نور اور کرم کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو اور عالم اسلام کو اپنی کھوئی ہوئی میراث واپس مل سکے اور پریشانی و غم کے گھٹا ٹوپ اندھیرے چھٹ جائیں- یہ اشعار حالی کی کیفیت باطن کا بہترین اظہار ہیں-
اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے |
مولانا الطاف حسین حالی کی چھ مصرعوں کے بند میں کہی گئی بے نظیر نظم ’’مد و جزرِ اسلام‘‘ جسے عُرفِ عام میں مسدسِ حالی کہتے ہیں ، پڑھے بغیر جدید دنیائے اسلام کی نفسیاتی ، علمی ، تزویراتی و اجتماعی جہات کو نہیں سمجھا جس سکتا - اسی طرح ’’عرضِ حال بہ جناب سرورِ کائنات (ﷺ)‘‘بھی نہ صرف عقیدت سے معمور ہے بلکہ اس میں اسلام اور مسلمانوں کی حیاتِ اجتماعی سمجھنے کا بھی پورا پورا اہتمام موجود ہے -
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو حالی کا نعتیہ کلام اردو زبان میں نعتیہ ادب کی روایت میں خوبصورت اور عمدہ اضافہ ہے-
٭٭٭
[1]انورسدید، اردو میں نعت نگاری- ایک جائزہ1975ء تک، مشمولہ اردو نعت کی شعری روایت،ص:233