کلام ِ اقبال : انتخاب از غزلیات

کلام ِ اقبال : انتخاب از غزلیات

کلام ِ اقبال : انتخاب از غزلیات

مصنف: نومبر 2025

 

نہ تُو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے، تُو نہیں جہاں کے لیے

یہ عقل و دِل ہیں شرر شُعلۂ محبّت کے
وہ خار و خَس کے لیے ہے، یہ نیستاں کے لیے

مقامِ پروَرشِ آہ و نالہ ہے یہ چمن
نہ سیرِ گُل کے لیے ہے نہ آشیاں کے لیے

رہے گا راوی و نیل و فرات میں کب تک
ترا سفینہ کہ ہے بحرِ بے کراں کے لیے!

نشانِ راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو
ترس گئے ہیں کسی مردِ راہ‌داں کے لیے

نِگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پُرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے

ذرا سی بات تھی، اندیشۂ عجم نے اسے
بڑھا دیا ہے فقط زیبِ داستاں کے لیے

مِرے گُلو میں ہے اک نغمہ جبرئیل آشوب
سنبھال کر جسے رکھّا ہے لامکاں کے لیے

 

 

نگاہِ فقر میں شانِ سکندری کیا ہے​
خراج کی جو گدا ہو، وہ قیصری کیا ہے!​

بُتوں سے تجھ کو امیدیں، خدا سے نومیدی​
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے!​

فلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنھیں​
خبر نہیں روشِ بندہ پروری کیا ہے​

فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا​
نہ ہو نگاہ میں شوخی تو دلبری کیا ہے​

اسی خطا سے عتابِ ملوک ہے مجھ پر​
کہ جانتا ہوں مآلِ سکندری کیا ہے​

کسے نہیں ہے تمنائے سروری، لیکن​
خودی کی موت ہو جس میں وہ سروری کیا ہے!​

​خوش آگئی ہے جہاں کو قلندری میری​
وگرنہ شعر مرا کیا ہے، شاعری کیا ہے!​

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر