|
نہ تُو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے یہ عقل و دِل ہیں شرر شُعلۂ محبّت کے مقامِ پروَرشِ آہ و نالہ ہے یہ چمن رہے گا راوی و نیل و فرات میں کب تک نشانِ راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو نِگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پُرسوز ذرا سی بات تھی، اندیشۂ عجم نے اسے مِرے گُلو میں ہے اک نغمہ جبرئیل آشوب
|
|
نگاہِ فقر میں شانِ سکندری کیا ہے بُتوں سے تجھ کو امیدیں، خدا سے نومیدی فلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنھیں فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا اسی خطا سے عتابِ ملوک ہے مجھ پر کسے نہیں ہے تمنائے سروری، لیکن خوش آگئی ہے جہاں کو قلندری میری |