اقبال کی شاعری اور فلسفہ میں بصیرت(مابعد الطبعیات اور کوانٹم فزکس کے تناظرمیں)

اقبال کی شاعری اور فلسفہ میں بصیرت(مابعد الطبعیات اور کوانٹم فزکس کے تناظرمیں)

اقبال کی شاعری اور فلسفہ میں بصیرت(مابعد الطبعیات اور کوانٹم فزکس کے تناظرمیں)

مصنف: سبینہ عمر نومبر 2025

اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا

میٹا فزکس/مابعد الطبیعات کیا ہے؟

میٹا فزکس فلسفہ کی ایک اہم شاخ ہے اس میں ایسے سوالات زیر بحث آتے ہیں جیسے کائنات کا اولین محرک؟ موت کے بعد شعور کا معاملہ؟ وقت کی حقیقت ؟ ذہن، دماغ اور شعور میں ربط؟ کائنات کا مقصد؟ اور ان جیسے بے شمار موضوعات کہ جن کی جستجو میں سائنس مسلسل ترقی و تگ ودو کر رہی ہے, لیکن ان کے شافی جواب تا حال سامنے نہیں آ سکے- اگرچہ تجرباتی و حسی مشاہدات کی سطح پہ ان میں سے بہت سے سوالات کے جوابات سائنسی مضامین بہت احسن انداز میں دیتے ہیں تاہم ان حقائق کو کما حقہ بیان کرنا ابھی بہت دور نظر آتا ہے اور ان میں کچھ سوالات سائنس کی ڈومین یعنی دائرے سے ہی باہر قرار دیئے جاتے ہیں -

بصیرت:

’’بصیرت عربی لغت میں قلبی عقیدہ، شناخت، یقین، ہوشیاری اور عبرت کے معنوں میں آتا ہے‘‘-[1]بصیرت لغت میں علم کے معنی میں بھی ا ٓتا ہے لیکن یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ ہر علم بصیرت نہیں لاسکتا اور اسی طرح، ہر عالم کو صاحب بصیرت نہیں کہا جاسکتا-محض علم و آگاہی انسان کو بصیر نہیں بناتی بلکہ وہ علم و آگاہی جو انسان کے شعور کو بالیدگی بخش کے حق و باطل میں فرق اور حقیقت کوسمجھنے کی صلاحیت عطا کرے، وہ شعور و ذکاوت، بصیرت کے زمرے میں آتی ہے اور ایسی شناخت کی صلاحیت کے حامل انسان کو بصیر کہا جائے گا-ارشاد ربانی ہے:

’’وَ لَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ ز صلے لَہُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَہُوْنَ بِہَا ز وَ لَہُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِہَا ز وَلَہُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِہَا ط اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ ط اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَ‘‘[2]

’’ اور یقینا ہم نے انسان و جنات کی ایک کثیر تعداد کو گویا جہنم کیلئے پیدا کیا ہے کہ ان کے پاس دل ہیں مگر سمجھتے نہیں ہیں اور آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں ہیں اور کان ہیں مگر سنتے نہیں ہیں، یہ چوپایوں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں اور یہی لوگ اصل میں غافل ہیں‘‘-

ارشاد ربانی ہے:

’’اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَتَکُوْنَ لَہُمْ قُلُوْبٌ یَّعْقِلُوْنَ بِہَآ اَوْ اٰذَانٌ یَّسْمَعُوْنَ بِہَا ۚ فَاِنَّہَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَلٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ‘‘[3]

”کیا وہ لوگ زمین میں چلتے پھرتے نہیں تو ان کے ایسے دل ہوتے جن سے سمجھتے اور ایسے کان ہوتے جن سے سنتے، پس بیشک آنکھیں نہیں اندھی ہوتی ہیں بلکہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں پائے جاتے ہیں‘‘-

یعنی یہ اندھا پن جو انسان کو الوہی ہدایت سے دور رکھتا ہے، درحقیقت یہ حق کی بابت قلب کا اندھا پن ہے، جیسے بصارت کا اندھا مرئیات کا مشاہدہ نہیں کرسکتا اسی طرح بصیرت کا اندھا حق کا مشاہدہ کرنے سے عاری رہتاہے - اقبال کا فلسفہ بصیرت کے کلام اور فلسفیانہ افکارمیں ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے- بصیرت کو اقبال نے ایک ایسی روحانی قوت کے طور پر پیش کیا جو انسان کو کائنات کی حقیقتوں اور خالق تک رسائی فراہم کرتی ہے، جو صرف حسی یا عقلی تجربات سے ممکن نہیں- اقبال کے اس فلسفے کو اگر مابعد الطبیعات اور جدید کوانٹم فزکس کے تناظر میں سمجھا جائے تو ایک جدید اور عمیق فکری میدان سامنے آتا ہے-مفروضہ جات اور نظریات کا تعقل کے عمل میں بہت اہم کردار ہے- ان کی بنیاد پر انسانی عقل کسی شے کی حقیقت یا اس کے طرزِ عمل پر ایک رائے قائم کرتی ہے اور تمام تر مشاہدات کے بعد وہ کوئی ایک نتیجہ اخذ کرنے کے اہل ہوتی ہے- اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عقل اپنی جستجو کا آغاز عموماً نا معلوم سے کرتی ہے اور اسے معلوم بنانے کیلئے طرح طرح کے علوم پیدا کرتی ہے-

نظریات و عقائد کی تشریح میں تعقل کا بھی ایک اہم کردار ہے- عقائد کی روشنی میں انسانی عقل اپنی ایک رائے رکھتی ہے جو کہ تمام تر تھیوریز کے پریکٹیکل کے بعد ایک نتیجہ اخذ کرنے کی اہل ہوتی ہے-چنانچہ عقائد کی روشنی اور پھر عقل کا استعمال انسان کو درست راستے پہ گامزن رکھتا ہے-

 مابعد الطبیعات،بصیرت اور عقل:

عصر حاضر میں جدید ترین ٹیکنالوجی، سائنس، اختراعات یہ سب انسانی تعقل کی غماز ہیں-فلسفہ کی شاخوں میں مابعد الطبیعات (Metaphysics) ایک اہم شاخ ہے- یہ عالم کے داخلی و غیر مادی امور سے بحث کرتی ہے-اس کی ذیلی شاخوں میں الہٰیات و کونیات اور وجودیت کو شامل بحث کیا جاتا ہے- خدا، غایت، علت، وقت اور ممکنات جیسے اہم موضوعات اس کا اہم جز ہیں- ہستی و وجود کے ہونےکی وجہ اور فہم و ادراک کے مسائل میں الجھ کر کون (being) کی تلاش اس کے خاص موضوعات ہیں-

اقبال کے فلسفہ میں بصیرت اور عقل کے درمیان ایک واضح فرق موجود ہے- عقل کا دائرہ محدود ہے جبکہ بصیرت وہ روحانی طاقت ہے جو انسان کو مابعد الطبیعاتی (Metaphysical) اور روحانی حقائق تک رسائی دیتی ہے- یعنی ایسے حقائق جو مادی دنیا اور حسی و عقلی علوم کے ادراک سے باہر ہیں اور جو خالق، روح اور کائنات کے بنیادی اصولوں کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں-اقبال نے اپنی کتاب ’’Reconstruction of Religious Thought in Islam‘‘ میں اس بات پر زور دیا کہ بذریعہ عقل ہمیں مادی دنیا کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے، لیکن چشم بصیرت وہ طاقت ہے جو مابعد الطبیعاتی و روحانی حقائق کے ادراک کا ذریعہ ہے- کوانٹم فزکس کے تناظر میں اس کی اہمیت مزید اجاگر ہو تی ہے، کیونکہ جدید فزکس کے اصول بھی مادی دنیا سے آگے کے حقائق کا اشارہ دیتے ہیں- مثلاً، کوانٹم فزکس کی Wave-Particle Duality اور Quantum Entanglement جیسے نظریات ہمیں اس فہم سےا ٓشنا کرتے ہیں کہ کائنات ایک پیچیدہ اور ایسی حقیقتوں کا مجموعہ ہے جن کا مکمل ادراک ابھی سائنس حاصل نہیں کر سکی-بقول اقبال:

’’زمانی اعتبار سے دیکھا جائے تو ہمارے محسوسات و مدرکات میں ماده، حیات ، نفس اور شعوراور علی الترتیب طبیعیات،حیاتیات اور نفسیات کا موضوعات شامل ہوتے ہیں- جدید طبیعیات کو صحیح سمت میں سمجھنے کیلئے یہ جان لینا ضروری ہے کہ ماده کیا ہے؟ چونکہ طبیعیات ایک اختیاری علم ہے اور اس کا تعلق موجودات خارجی یعنی ان حقائق کے مطالعے سے جن کا ادراک ہم اپنے حواس کے ذریعے کرتے ہیں - گویا یہ محسوس مظاہر جن کی ابتدا اور اختتام مطالعہ پر آکر رک جاتی ہے - ماورا علمائے طبیعیات کے پاس اپنے نظریوں کی تائید کا کوئی ذریعہ ہےاور نہ ہی تصدیق کا- انہیں یہ حق تو پہنچتا ہے کہ بعض غير مدرک اشيا مثلاً جواہر کا وجود تسلیم کر لیں مگر اس لیے کہ مدرکات  جس کی توجیہ ہو سکے -لہذا طبیعیات میں ہم مادی دنیا کا مطالعہ کرتے ہیں تو صرف اس حیثیت سے جس حیثیت سے حواس کی بدولت اس کا انکشاف ہوتا ہے‘‘-[4]

 کوانٹم فزکس کا غیر مادی پہلو:

کوانٹم فزکس نے مادی دنیا کے بارے میں ہمارے روایتی انداز فہم کو تبدیل کیا- اس نظریے کے مطابق، ذرات (particles) مختلف ممکنات کی حالتوں میں ہو سکتے ہیں، جو اس بات پر منحصر ہوتی ہیں کہ انہیں کیسے مشاہدہ کیا جاتا ہے- کوانٹم فزکس کے بنیادی نظریات جیسے کہ سپرپوزیشن اور انٹینگلمنٹ ظاہر کرتے ہیں کہ کائنات میں موجود particles کے درمیان غیر مرئی تعلقات موجود ہیں، جو فاصلے اور وقت سے آزاد ہوتے ہیں-جیسا کہ ہائزنبرگ (1958) نے اپنی کتاب Physics and Philosophy میں بیان کیا، ’’کوانٹم نظریات کے تحت، مادہ کی حالتیں مادی مشاہدے کے بغیر غیر متعین اور غیر مادی رہتی ہیں‘‘-

اسی پہلو کواقبال کا فلسفہ عیاں کرتا ہے کہ انسان کی خودی مادی کائنات کے اصولوں سے بالاتر ہے اور وہ اپنے شعور اور ارادے سے کائنات کو تشکیل دینے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے-فلسفہ اقبال نے نہ صرف اسلامی دنیا بلکہ عالمی سطح پر بھی اہم اثرات مرتب کیے ہیں- آپ کی شاعری میں یہ پیغام بارہا ملتا ہے کہ انسان کو غیر یقینی اور ان دیکھے امکانات کو اپنانا چاہیے -آپ کے کلام میں انسان کے روحانی ارتقاء اور کائنات کی روحانی تعبیر کا تصور بار بار ابھرتا ہے، جو آپ کی فکری بنیادوں کا اہم جز ہے-

 20ویں صدی کے اوائل میں کوانٹم فزکس کا ظہور ایک اہم سائنسی انقلاب تھا، جس نے مادے کی روایتی تفہیم کو چیلنج کیا -کوانٹم فزکس کائنات کی غیر متعین حالتوں کو اہمیت دیتی ہے- دونوں فلسفے غیر مرئی حقیقتوں کی موجودگی پر زور دیتے ہیں- کائنات چونکہ ایک غیر مادی حقیقت کا مظہر ہے، جسے انسان اپنے شعور کے ذریعے دریافت کرتا ہے- علامہ اقبال کے کائناتی تصور اور کوانٹم فزکس کے نظریات کے درمیان مماثلت اور ہم آہنگی آپ کے فلسفے سے واضح ہوتی ہے-

بصیرت، خودی اور کوانٹم فزکس:

اقبال کے فلسفہ خودی میں بصیرت کی ایک کلیدی حیثیت ہے- اقبال کی نظر میں خودی وہ مرکز ہے جہاں انسان کی حقیقت پوشیدہ ہوتی ہے اور بصیرت ہی وہ طاقت ہے جو انسان کو اس خودی کا ادراک عطا کرنے کی اہل ہوتی ہے- خودی کا یہ تصور بھی کوانٹم فزکس کے حوالے سےمشاہدے اور شعور کے درمیان ایک اہم ربط کو عیاں کرتا ہے-کوانٹم فزکس میں، Observer Effect کے مطابق، کسی بھی نظام کا مشاہدہ یا اسے جاننے کی کوشش اپنے نتائج پر اثر انداز ہوتی ہے، تاہم یہ ابھی تک غیر واضح ہے کہ آیا مشاہدہ کرنے والی کی موجودگی (quantum state)کوانٹم سٹیٹ میں تبدیلی کا باعث بنتی ہے یا کوانٹم سسٹم بذات خود شعور رکھتا ہے؟ اکثر طبیعات دان اس بحث سے کتراتے بھی نظر آتے ہیں کیونکہ ان کے بقول اس سوال سے تجربات کے نتائج پہ فرق نہیں پڑتا- تاہم کائنات کی فطرت کو جاننے کے حوالے سے یہ سوالات اہمیت کے حامل ہیں جن کا قابل تشفی جواب ابھی تک نہیں مل پایا-علامہ اقبال کا فلسفہ خودی انسانی شعور کی طاقت کو کائنات کے حقائق پر اثر انداز ہونے کا ذریعہ سمجھتا ہے- ان کی شاعری میں بصیرت کو وہ شعوری طاقت کے طور پر بیان کرتے ہیں جو کائنات کی گہرائیوں کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے:

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے

غور کرنے پر معلوم ہوگا کہ یہاں بصیرت اور خودی کا ربط کوانٹم فزکس کے Observer اور حقیقت کے درمیان تعلق سے جوڑا جا سکتا ہے- کیونکہ فکرِ اقبال میں انسان اپنی بصیرت کے ذریعے اپنی حقیقت کو سمجھتا ہےاور کائنات پہ اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے-

 عشق، بصیرت اور کوانٹم فزکس کی غیر متعینیت:

اقبال کے فلسفے میں عشق کو بصیرت کا لازمی جزو قرار دیا گیا ہے نیز عشق کو عقل پر فوقیت دی گئی ہے- اقبال عشق کو وہ روحانی قوت سمجھتے ہیں جو انسان کو کائنات کے حقیقی اسرار تک پہنچانے کا وسیلہ ہے-یوں تو محبّت کے ہزاروں مقام اور ہزاروں رنگ ہیں لیکن تکمیل خودی میں محبت کا جو عنصر غالب آتا ہے وہ کسی ایک کامل کی محبت اور اس کے ساتھ عشق ہے تاکہ سیرت اور کردار اس کے سانچے میں ڈھل جائے-

کوانٹم فزکس میں Heisenberg Uncertainty Principle کے مطابق، کسی بھی ذرے کی رفتار اور مقام کو بیک وقت درست طور پر معلوم کرنا ممکن نہیں ، جو ایک خاص حد میں کائنات کی غیر متعینیت کی طرف اشارہ کرتا ہے-اقبال کا عشق کا تصور بھی سائنسی پیرائے میں کائنات کی اس غیر متعینیت کو سمجھنے کی جانب رہنمائی فراہم کرتا ہے- تاہم وہ اس بات پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ انسان کی عقل محدود ہے اور کائنات کی پیچیدگیوں کو مکمل طور پر سمجھنے کے قابل نہیں، جبکہ عشق اور بصیرت وہ ذرائع ہیں جو انسان کو ان غیر متعین حقائق کا ادراک مہیا کرتے ہیں-

عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ

یہاں اقبال عشق سے حاصل کردہ بصیرت کو وہ قوت سمجھتے ہیں جو انسان کو ان غیر متعین اور پیچیدہ حقائق کی طرف لے جاتی ہے، جن کو عقل نہیں سمجھ سکتی-

اقبال کا تصور کائنات:

اقبال کی شاعری میں کائنات کی غیر مادی اور لامحدودیت کے حوالے سے گہری فلسفیانہ بصیرت ملتی ہے -اقبال کے مطابق کائنات صرف مادے تک محدود نہیں، بلکہ روحانی اور ماورائی حقیقتوں سے مزین ہے-بقول اقبال:

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں

یہ شعر اس امر کا اظہار کرتا ہے کہ کائنات محض مادی اجسام تک محدود نہیں بلکہ اس کے آگے لامحدود امکانات اور غیر مادی حقیقتیں موجود ہیں، جنہیں انسان شعور کے ذریعے دریافت کرسکتا ہے-اقبال کا نظریہ ثابت کرتا ہےکہ انسان محض ایک جسمانی وجود نہیں، بلکہ ایک شعوری اور روحانی طاقت بھی رکھتاہے جو کائنات کی حقیقت کو اپنے شعور اور ارادے کے ذریعے تشکیل دینےکی اہلیت رکھتا ہے-

 بصیرت، مذہبی تجربہ اور کائنات کی وحدت:

فلسفہ اقبال میں مذہبی تجربہ ایک اعلیٰ درجہ کی حیثیت رکھتا ہے- وہ مذہبی تجربہ ہو یا اس سے حاصل شدہ چشم بصیرت کو کائنات کے حقائق اور خدا کی وحدانیت تک رسائی کا ذریعہ سمجھتے ہیں- یہ بات کوانٹم فزکس کے اس نظریے سے بھی بیان ہو سکتی ہے کہ کائنات ایک وحدت (ایک ہی سائنسی اصول) سے جڑی ہے اور اسی طرح تمام ذرات ایک دوسرے سے مربوط بھی ہیں، جیسے Quantum Entanglement کا نظریہ بتاتا ہے کہ دو ذرات دوری کے باوجود ایک دوسرے سے فطری طور پر جڑے ہوتے ہیں-اقبال کی شاعری بھی ایسی وحدت کی طرف اشارہ کرتی ہے، جہاں انسان اور کائنات کے درمیان ایک ربط موجود ہے جسے وہ روحانی ربط قرار دیتے ہیں- ان کی نظم ’’اسرارِ خودی‘‘میں وہ کہتے ہیں:

یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
 کہ آ رہی ہے دما دم صدائے کن فیکون

یہ شعر اس بات کا اظہار ہے کہ کائنات مسلسل ارتقاء پذیر ہے-ہمارے داخل اور باطن میں کوئی چیز بھی ساکن نہیں- جو کچھ ہے ایک مسلسل حرکت، کیفیات کا ایک رد و بدل، ایک دوامی بہاؤ، جس کی کوئی منزل ہے نہ مقام- لیکن مسلسل تغیر کے اس تصور میں چونکہ زمانے کا اثبات لازم آتا ہے-[5]

علامہ اقبال لکھتے ہیں کہ پروفیسر وائٹ ہیڈ کے نزدیک کائنات کوئی ساکن وجود نہیں، بلکہ حوادث کی ایک ترکیب ہے جس کی نوعیت ایک مسلسل اور تخلیقی روانی کی ہے-[6]

 علامہ اقبال کا فلسفہ ایک گہری روحانی اور فکری بنیاد فراہم کرتا ہے جو نہ صرف مابعد الطبیعاتی حقائق کے ادراک میں مدد دیتا ہے، بلکہ کوانٹم فزکس کے جدید نظریات کے ساتھ بھی ہم آہنگ نظر آتا ہے- چشم بصیرت اقبال کے نزدیک، انسان کی روحانی ترقی اور کائنات کی حقیقتوں کو سمجھنے کا ایک لازمی جزہے- بصیرت اور کوانٹم فزکس کے درمیان پائے جانے والے متوازی تصورات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال کی فکری دنیا جدید سائنس کے نظریات کے ساتھ بھی ایک گہری مطابقت رکھتی ہے جو انسان کیلئے ایک نئی راہنمائی مہیا کرتی ہے، جس میں بذریعہ بصیرت مابعد الطبیعات اور کائنات کی غیر متعین حقیقتیں واضح ہوتی ہیں-

٭٭٭


[1](لسان العرب، ابن منظور، محمد بن مكرم‏، ناشر: دار صادر، : 1414ھ. ق‏، ج‏:4، ص:64)

[2](الاعراف:179)

[3](الحج:46)

[4](تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، ص:48)

[5](تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، ص:72)

[6](تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، ص:70)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر