فکرسُلطان الفقرسیمینار رپورٹ

فکرسُلطان الفقرسیمینار رپورٹ

فکرسُلطان الفقرسیمینار رپورٹ

مصنف: ادارہ اکتوبر 2014

صدارت:  (Chair of the Seminar)

 صاحبزادہ سلطان احمد علی (چیئرمین مسلم انسٹی ٹیوٹ،چیف ایڈیٹر ماہنامہ مرأۃ العارفین، جنرل سیکرٹری اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین)

مہمانانِ گرامی:  (Panelists)

طارق اسمٰعیل ساگر(ناول نگار، صحافی، تجزیہ نگار)

میاں محمد ضیاء الدین(مرکزی صدر اصلاحی جماعت و عالم تنظیم العارفین- اولادِ حضرت سُلطان باھُو سے باہر حضور بانیٔ اِصلاحی جماعت کے واحد خلافت یافتہ جنہیں حضور بانیٔ اِصلاحی جماعت نے بیعت کرنے یا ذِکر اسم اللہ ذات عطا کرنے کی اِجازت فرمائی )

الحاج محمد نواز قادری(ناظم اعلیٰ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین)

ڈاکٹر رفاقت سلطان وٹو (ذاتی مُعالج ، حضور بانیٔ اِصلاحی جماعت و مرکزی رہنما اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین)

رانا تجمل حسین( رہنما مسلم لیگ و ممبر پنجاب اسمبلی )

 محمد عامر طفیل(معاونِ ناظمِ اعلیٰ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین)

ماڈریٹر:

مفتی محمد شیرالقادری (ریسرچ سکالر ماہنامہ مرأ ۃ العارفین)

اوپننگ ریمارکس صاحبزادہ سلطان احمد علی:

نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ وَنُسَلِّمُ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِo اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ o  بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ o

اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اﷲُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَo (فصلت  :۳۰)

 اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یَاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہٖ وَسَلِّمُوْا  تَسْلِیْمًا،اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا سَیِّدِیْ یَا حَبِیْبَ اللّٰہِ،وَعَلٰی اَلِکَ وَاَصْحَابِکَ یَا سَیِّدِیْ یَا مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہo

قابل احترام جناب رانا تجمل حسین صاحب ، عزت مآب جناب طارق اسمٰعیل ساگرصاحب ، جناب ڈاکٹر رفاقت سلطان وٹو صاحب ، جناب میاں محمد ضیاء الدین صاحب ، الحاج محمد نواز قادری صاحب ، میاں عامر طفیل صاحب اور تمام معزز و محترم ساتھیو اور دوستو ! السلام علیکم و رحمۃ اللہ

مَیں اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کے لاہور برانچ کے تمام ساتھیوں کو دِلی مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ انہوں اتنی خوبصورت ، پُروقار ، پُرمغز تقریب کا انعقاد کیا ہے-اس کا مقصد بانی ٔاصلاحی جماعت سلطان الفقر ششم حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب کی شخصیت ، آپ کی فکر اور حیات کے حوالے سے ایک فکری نشست کا اہتمام کرنا ہے ، فکری نوعیت کی ڈیبیٹ سے استفادہ کرنا ہے- میرا خیال ہے اس سے خوبصورت انداز ٹریبیوٹ پیش کرنے کا نہیں ہوسکتاکہ آپ رحمۃ اللہ کی فکر کو ایک مدبرانہ انداز میں ڈسکس کیا جائے-میں تمام ساتھیوں کومبارکباد پیش کرتا ہوں کہ انہوں بڑی خوبصورتی سے اس تقریب کا اہتمام کیا ہے-

مَیں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ یہ مغربی طرزِ مباحثہ ہے جس میں آپ اس شخصیت کے متعلق مختصر گفتگو کرتے ہیں اس کے بعد اس کے متعلق سوال و جواب ہوتے ہیں - اس میں مَیں عرض کرتا چلوں کہ شروع میں ہمارے مہمان جو یہاں تشریف فرما ہیں وہ اپنی اپنی گفتگو فرمائیں گے - اس کے بعد مختصرا ًجو ان کے اپنے تجربات ہیں ان کی روشنی میں حضور سلطان الفقر کی شخصیت ، آپ کی فکر اور آپ کی تحریک کا جائزہ لیا جائے گا جس کا مقصد ہماری تربیت اور اصلاح ہے کیونکہ اس طرح کی جو شخصیات ہیں تاریخ میں جب ان کے لیے واحد کا صیغہ استعمال کرتے ہیں تو انہیں مصلح کہتے ہیں اور جمع کے صیغے میں مصلحین کہتے ہیں- اس طرح کی شخصیات کا جب دُنیا میں ظہور ہوتا ہے تو اس کا مقصد عامۃ الناس کی اصلاح ہوتا ہے- معاشرے میں جو معاشرتی اور رُوحانی طور پر خرابیاں پیدا ہو چکی ہوتی ہیں یہ وہ حکیم ہوتے ہیں جو ان امراض کی تشخیص کرکے اس کا علاج تجویز کرتے ہیں اور معاشرے کو اس علاج کی سمت لانے کے لیے ایک شعور، آگاہی، آگہی پیدا کرتے ہیں- آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر جو کام کیا وہ گذشتہ دو اڑھائی سو سال کی خانقاہی تاریخ کے اندر اتنا بڑا مصلحانہ کردار شاید ہی کسی اور شخصیت نے ادا کیا ہو جو سلطان الفقر ششم ،بانی ٔاصلاحی جماعت حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ادا فرمایا کہ یہاں پر معاشرہ جس طرح کے تنزل کا شکار تھا بالخصوص جو اس معاشرے کا سب سے بڑا سانحہ تھا کہ شریعت کو ملائوں نے جامد اور ساکت ظاہر کیا اور اس کے نتیجے میں معاشرے کا جدید دماغ کا نوجوان ،اس مذہبی روایت کا جو قدامت پرستی پر سختی کے ساتھ کاربند تھی اس کے ساتھ ، اس کے ساتھ اس کا ٹکرائو ہوا اس کے نتیجے میں اس معاشرے میں الحاد اور سیکولرازم جیسے گھٹیا نظریے پھیلے جس کی وجہ سے ہماری نوجوان نسل گمراہی اور تباہی کے دہانے پر جا پہنچی - آپ نے اس میں ایک سخت گیر مؤقف اختیار کیے بغیر ایک مصلحانہ انداز جو ہمیشہ صوفیا ء کا رہا ہے اُس انداز کو اختیار کرتے ہوئے نوجوان نسل کی تربیت فرمائی اور وہ لوگ اپنے آپ کو ایک رسمی روایتی مرید سمجھتے تھے آپ نے ان کو یہ پیغام دیا کہ ایک رسمی روایتی مرید کی بجائے اپنے آپ کو اللہ کا ایک مجاہد اور اس تحریک کا ایک کارکن سمجھنا چاہیے جو تحریک یہاں پر صوفیاء کرام نے چلائی-

آپ دیکھیں کہ یہاں پر صوفیاء کرام کا کتنا بڑا کنٹری بیوشن تھا - میں اگر مختصراً عرض کروں تو جو چیلنج ہندوستان کے مُبلّغ صوفی کو در پیش تھا یہ چیلنج دُنیا کے کسی اور خطے کے مُبلّغ صوفی کو در پیش نہیں تھا - اب تو ایک گلوبل ویلج بن گیا ہے اور دُنیا میں مذہبی طور پہ مُتنوّع (Religiously divers) بہت سے ممالک معرضِ وجود میں آ چکے ہیں لیکن اس وقت جو یہ برِّصغیر پاک و ہِند (Indo-Pak Sub-Continent) تھا یہ پوری دُنیا کے اندر مذہبی طور پہ سب زیادہ متنوُّع (Religiously most divers) مُلک تھا جہاں پر دُنیا کے بیشتر مذاہب آباد تھے - سب سے بڑا مذہب ہندومت تھا، یہاں پر عیسائی تھے ، بدھ مت کے ماننے والے تھے ، پارسی تھے ، ایک قلیل تعداد یہاں پر یہودیوں کی آباد تھی ، مسلمان یہاں پر آباد تھے ، سکھ یہاں پر آباد تھے اس کے علاوہ بے شمار چھوٹے چھوٹے قبائل کی صورت میں مذہب آباد تھا جس طرح ’’کیلاش ‘‘میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک قبیلہ ہے جس کے اپنے رسم و رواج ہیں اس طرح اور بھی چھوٹے چھوٹے بیشمار قبائل تھے جن کے اپنے مذاہب تھے یہاں پر اِسلام کی تبلیغ کرنا اور اس معاشرے کو انتشار اور ٹوٹنے سے بچانا ، یہ صوفیا ء کا عظیم ترین کارنامہ ہے جس کی آپ کو مثال نہیں ملتی - آج بتیس کروڑ مسلمان ہندوستان میں آباد ہیں ، بائیس کروڑ مسلمان بنگلہ دیش میں آباد ہیں ، اٹھارہ کروڑ مسلمان پاکستان میں آباد ہیں تو یہ کروڑوں مسلمان نہ تو سارے سنٹرل ایشیاء سے ہجرت کرکے آئے ہیں ، نہ ہی عرب سے ہجرت کرکے آئے ہیں یہ وہ مقامی قبائل ہیں جو صوفیاء کی اعلیٰ اخلاقیات ، ان کی فکر و عمل اور ان کی رُوحانی تصرف اور وسعتِ قلبی کی اعلیٰ روایت سے مسلمان ہوئے ہیں کہ جو بھی اس معاشرے میں رویا ہے انہوں نے اس کے آنسو پونچھے ، جو بھی پریشان تھا انہوں نے اس کی دلجوئی کی ، جو بھی غمگین اور دُکھی تھا انہوں نے ان کا غم بانٹا اور جو بھی ہنسا اس کے ساتھ مسکرائے - صوفیا ء کا یہ وہ طریقِ تبلیغ تھا جس نے انہیں یہاں پر مقبول کیا - آج بھی اگر آپ حضرت معین الدین اجمیری کی خانقاہ پر چلے جائیں تو آپ کو اتنی بڑی تعداد میں مسلمان نظر نہیں آئیں گے جتنی بڑی تعداد میں غیر مسلم اپنا نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں تو یہ صوفیاء کا ایک مصلحانہ انداز تھا جس نے لوگوں کے دِل جیتے - ڈنڈے سوٹے ، بندوق کی نالی کے زور پر، خنجر ، تلوار اور تیر کے زور پر انہوں نے تبلیغ نہیں کی بلکہ انہوں نے اپنے اندر کی قوت سے ، اپنے رُوحانی تصرف سے معاشرے میں اِصلاح لائی ہے - جہاں تک بات ہے جہاد بالسیف کی تو جہاں پر صوفیاء نے عملی طور پر جہاد کیا وہاں پر بھی آپ دیکھیں کہ جب سلطان صلاح الدین ایوبی یروشلم ، بیت المقدس کو فتح کرتے ہیں تو وہاں پر باب القادریہ جو سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا مدرسہ تھا وہاں کے چار ہزار طلباء سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوج میں شامل تھے ، اس کے لشکر کے قائدین اور سالاروں میں وہ شامل تھے اور جب بیت المقدس آزاد ہوا تو وہ راستے جن پر باب القادریہ کے علاوہ دیگر مجاہدین متعین تھے انہوں نے وہاں پر شدید قسم کی قتل و غارت کی لیکن وہ یہودی قبائل اور عیسائی قبائل جو ان راستوں پر نکلے جن پر باب القادریہ کے فارغ التحصیل لوگ تھے انہوں نے ان کی جان مال عزت اور آبرو کو بحفاظت وہاں سے نکلنے دیا جس کے نتیجے میں ان کے راہب، ان کے پریسٹ نے اپنی تاریخی مقدس کتابوں میں اس بات کو شامل کیا کہ سیدعبدالقادر جیلانی کے تربیت یافتہ لوگ جہاں پر متعین تھے وہاں پر ہماری نسل کشی نہیںکی گئی ہے - آپ بغداد کے کسی قادری سے مل کر اس کی تصدیق کر سکتے ہیں کہ جو مصری یہودی ہیں وہ سیدنا عبدالقادر جیلانی کے مزار پر اس اعترافِ تربیت اور اعترافِ خدمت کی حاضری دینے آتے ہیں کہ آپ کی تربیت کی وجہ سے ، آپ کی دی ہوئی رُوحانی اصلاح کی وجہ سے ہماری نسلیں اور قبائل نسل کشی سے محفوظ رہے ہیں- صوفیاء نے اگر عملی طور پر بھی جہاد کیا ہے تو اس میں بھی جو اصلاح کا پہلو ہے ، تربیت کا پہلو ہے اس کو انہوں نے کبھی نہیں جانے دیا-

سلطان الفقر حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت اور آپ کی فکر کے حوالے سے اس طرح کی گفتگو جب ہم کرتے ہیں تو ہمارے پیشِ نظر ان کی شخصیت کا جائزہ تو ہے ہی ہے ، ان کی فکر تجزیہ ہے بھی ہے ، ان کے رُوحانی کمالات اور ان کے فیوض و برکات کا ذکر کرنا تو ہے ہی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ اس طرح کی محفل میں ہمارے لئے سب سے اہم چیز اپنی اصلاح حاصل کرنا ہے، اپنی تربیت حاصل کرنا ہے اور یہ راہنمائی حاصل کرنا ہے کہ ہم ان کی فکر سے کیا استفادہ کر سکتے ہیں ؟ اور کس طرح ان کی راہنمائی میں آگے جاسکتے ہیں؟

آپ کے جتنے بھی پینلسٹ سے سوال ہوں وہ آپ اپنا نام لے کر ، جن سے آپ کا سوال ہے ان سے وہ سوال کرسکتے ہیں اور زیادہ موزوں یہ ہے کہ آپ صرف تربیتی اور اصلاحی نوعیت کے سوالات پر اپنی توجہ کو مرکوز کریں- یہ گفتگو بھی زیادہ تر اسی حوالے سے ہوگی کہ ہمارا ان کی فکر سے کیا رشتہ ہے ؟ اور ان کی فکر کس حد تک اور کیا راہنمائی فراہم کرتی ہے؟ آپ کی شخصیت کا جائزہ اس خوبصورت ڈاکیومنٹری میں بھی پیش کیا گیا ہے - ۱۰ ،اگست کو جس کی لندن میں تقریبِ رُونمائی (Launching ceremony) کی گئی ہے - دو سال قبل اس کا اُردو وَرژن آیا تھا اب اس کا انگلش وَرژن ریلیز کیا گیا ہے- اس کا ٹرکش وَرژن بھی تیّاری کے مراحل میں ہے عنقریب استنبول ،ترکی میں اس کی لانچنگ ہوگی - دیگر زبانوں میں بھی آپ کی فکر اور حیاتِ مبارکہ کے حوالے سے کام جاری ہے -

مَیں آخر میں ایک بار پھر اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین لاہور کے تمام ساتھیوں اور کارکنان کو مبارکباد دیتا ہوں - ماہنامہ مرأۃ العارفین کی تمام ٹیم کو دلی مبارکباد دیتا ہوں کہ اس خوبصورت تقریب کا اہتمام کیا - آپ سب کا بھی میں دلی طور پر مشکور ہوں کہ آپ وقت نکال کر آج اس تقریب میں شریک ہوئے-آپ سب کا بہت شکریہ-

ماڈریٹر:

جناب صدر صاحب بہت شکریہ - اب میں گذارش کروں گا معروف صحافی ، نامور تجزیہ نگار ، ہر دلعزیز ناول نگار عزت مآب جناب طارق اسمٰعیل ساگر صاحب سے کہ سلطان الفقر ششم حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب کے حوالے سے منعقدہ اس فکری نشست میں صرف چار منٹس میں اپنے ریمارکس پیش فرمائیں-

طارق اسمٰعیل ساگر:

جناب محترم صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب مد ظلکم العالیہ ، مہمانان گرامی اور حاضرینِ مقدس!

میری کیا اوقات اور کیا مجال کہ میں ایک ایسے نابغہ روزگار کے حوالے سے گفتگو کروں جن کے قدموں کی خاک تک بھی میری پہنچ شاید نہ ہو-میں بنیادی طور پر کہانیاں لکھنے والا ایک صحافی ہوں ، ناول نگار ہوں ، ڈرامے فلمیں لکھتا ہوں لیکن میری زندگی کا ایک خوبصورت حادثہ تھا جب میری مُلاقات حضرت سُلطان محمد اصغر علی رحمۃ اللہ علیہ سے ہوئی میرے بڑے محترم رانا تجمل حسین صاحب مجھے اس عظیم شخصیت کی خدمت میں لے گئے-ایک عام انسان کی حیثیت سے ، ایک دنیا دار صحافی اور ایک ناول نگار کی حیثیت سے ہمارے نزدیک شخصیات کو پرکھنے کا کوئی پیمانہ عجیب طرح کا نہیں ہوتا ، نہ ہی میری سلوک و تصوف میں ایسی کوئی پہنچ تھی ، نہ رہنمائی تھی لیکن مجھے زندگی میں پہلی مرتبہ وہ جو

؎ نگاہِ عشق ومستی میں وہی اوّل وہی آخر

اور

؎فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا

اور وہ جو نگاہِ مردِ مومن، اور وہ جو ایک بات میں شروع سے حضرت علامہ اقبال کے کلام میں پڑھا کرتا تھا کہ یہ جو تربیت ہوتی ہے یہ نگاہ سے ہوتی ہے جو آپ کی طرف مرشد کی آنکھ اٹھنے سے پہلے آپ کے دل پر اس کی شخصیت ، اس کی تربیت اور اس کے تمام کمالات کو نقش کر دیتی ہے اس کا عملی مظاہرہ میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ دیکھا- میں یہ بات بلا مبالغہ کہہ سکتا ہوں کہ آپ کی شخصیت ایک رُوحانی نعمتِ خُداداد (Spiritual blessing) تھی- اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں ’’تھی‘‘ کا لفظ بھی غلط سمجھتا ہوں - میں سمجھتا ہوں کہ ان کا سلسلۂ فیوض آج تک جاری و ساری ہے اور انشاء اللہ قیامت تک رہے گا- اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کے ایسے بندے کی زندگی کو تو اللہ تعالیٰ بیس سال، پچاس سال، ستر سال دنیاوی لحاظ سے دکھاتا ہے لیکن اصل میں یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو انبیاء کے مشن کو مکمل کر رہے ہوتے ہیں اس راستے کے مسافر ہوتے ہیں اور اس راستے کے سفر میں کوئی قسمت والا ان سے مل جائے تو وہ فیض بھی پا لیتا ہے - میں یہ سمجھتا ہوں کہ آج عالمِ اسلام کو جتنی ضرورت حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب جیسے بزرگانِ دین کی ہے شاید کبھی بھی نہیں تھی-آج آپ دیکھیے کہ شام سے لیبیا تک کوئی ایک مسلمان ملک ایسا دکھائی نہیں دے گا جسے آپ یہ کہہ سکیں کہ یہ ایک سٹیبل ملک ہے اب بد قسمتی سے سارے وبائی امراض پاکستان میں بھی منتقل ہونا شروع ہو گئے ہیں-کتنے دکھ اور تکلیف کی بات ہے یہ میں عجیب و غریب بات نہیں کہہ رہا یہ سب ریکارڈ پر آ چکی ہے آپ دیکھیے کہ غزہ میں جو کچھ ہوا اس میں غزہ کے ہمسایہ ممالک کا بھی ایک کردار ہے- یہ جو اللہ کے بندے تھے یہ مسلمانوں کو اتحاد کا، محبت کا ، سلوک کا اور ایک دوسرے کے لیے مر مٹنے کا درس دیا کرتے تھے آج وہ ہم میں نہیں رہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ان کی تعلیمات اور ان کی بلیسنگ ان کے رُوحانی جانشین کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے-

ماڈریٹر:

بہت شکریہ جناب طارق اسمٰعیل ساگر صاحب -اب میں گزارش کروں گا مرکزی صدر اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین عزت مآب جناب میاں ضیاء الدین صاحب سے کہ سلطان الفقر ششم حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب کی ذات پر اس فکری نشست کے حوالے سے چار منٹس میں اپنے ریمارکس پیش فرمائیں-

صاحبزادہ میاںمحمد ضیاء الدین:

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم oو قل جاء الحق و زھق الباطل oصدق اللّٰہ العظیم

انتہائی واجب الاکرام سیدی و مرشدی ، چیئرمین مسلم انسٹی ٹیوٹ ، جنرل سیکرٹری اصلاحی جماعت و عالمی تنظم العارفین ، چیف ایڈیٹر ماہنامہ مرآۃ العارفین و دیگر معزز مہمانان گرامی ! السلام علیکم

میرے مرشد کریم سلطان الفقر ششم ، سیدی و مرشدی حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی حیاتِ طیبہ اور آپ کی زندگی مبارک پر جتنا بھی لکھا جائے ، بولا جائے ، تحقیق کیا جائے وہ میری ناقص رائے کے مطابق کم ہے کیونکہ آپ صرف مرشدِ کامل نہیں بلکہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی نسبتِ خاص سے ، محبوب علیہ الصلوۃ والسلام کے فقرِ محمدی کی وجہ سے آپ ایک مردِ اکمل بھی ہیں ، مرشدِ اکمل بھی ہیں ، مرشدِ نور الھدیٰ بھی ہیں-آپ نے صرف نگاہ کے ذریعے فیض عطا نہیں فرمایا بلکہ عالَمِ دُنیا میں جو بھی جہاں بھی ہے :

جسے چاہا در پہ بلا لیا جسے چاہا اپنا بنا لیا

یہ بڑے کرم کے فیصلے یہ بڑے نصیب کی بات ہے

آپ نے ہم جیسے گناہ گاروں کو بلایا اور اپنی بارگاہ میں نگاہ کے ذریعے ، عمل کے ذریعے قرآن و سنت کی جو تعلیم عطا فرمائی وہ ہم سب کے سامنے ہے کہ ہزاروں لوگوں کو قرآن و سنت کی ترویج و اشاعت میں جو عملی نمونہ نصیب ہوا وہ آج اِصلاحی جماعت کا پلیٹ فارم ہمارے سامنے ہے - آپ کی ذاتِ قدسیہ کے جس پہلو کو دیکھا جائے ، آپ کی حیاتِ طیبہ کا جو سلسلہ بھی دیکھا جائے اس میں سمندر کی طرح ایک گہرائی بھی ہے ، سورج کی طرح پوری کائنات کو جلا بخشنے والی روشنی بھی ہے اور چاند کی طرح اس میں ٹھنڈک بھی ہے- سب سے بڑی چیز خلقِ محمدی ﷺ کا نمونہ ہے جو آپ نے اس نمونہ میں اپنے خادمین کی تربیت فرمائی اور اس تربیت کا اثر آج بھی اگر آپ دیکھیں ، آپ کی صحبت میں جو لوگ زیادہ رہے ہیں اس کو حضور نے کس طرح شریعت محمدی  ﷺ کا نمونہ بنایا اور اس میں مہربانی فرما کر کرم کیا اور ہمیں حق کی رمق،حق کی صداقت جانشینِ سلطان الفقر کی صورت میں عطا فرمائی-اللہ تعالیٰ ہم سب کواصلاحی جماعت کے اس پلیٹ فارم پر قرآن و سنت پر عمل کرنے کی اور مرشدِ اکمل کی نگرانی میں رہنے کی توفیق عطا فرمائے-

رانا تجمل حسین:

میرے مرشد پاک حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب کی ذات کے متعلق نہ تو میرے پاس الفاظ ہیںکہ مَیں ان کی شخصیت کا احاطہ کر سکوں لیکن چندایسی باتیں جومَیںنے اس بارگاہ کے علاوہ کہیں نہیں دیکھیں وہ مَیں آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہوں گا - ہم نے یہ کتابوں میں پڑھا تھا کہ آج سے چودہ سو سال پہلے مکہ کی بستی میں حضور نبی پاک ﷺ نے نور کی ایک شمع روشن کی ، وہاں کے بکریاں چرانے والے ، وہاں کی قتل و غارت گری میں مصروف اور بچیوں کو زندہ گاڑ دینے والے لوگ ان کی جب آقاﷺ کی بارگاہ میں حاضری ہوئی اور جب وہ لوگ آقا پاک ﷺ کی صحبت میں آئے تو تاریخِ عالم اس بات کی گواہ ہے اور اس فلک نے دیکھا کہ وہ بکریاں چرانے والے چرواہے ، وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑ مر جانے والے لوگ، وہ اپنی بچیوں کو زندہ دفن کر دینے والے جب آقاﷺ کی بارگاہ میں پہنچے تو پھر انہی میں سے کوئی ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بنا ، کوئی عمر فاروق رضی اللہ عنہ بنا ، کوئی عثمان غنی رضی اللہ عنہ بنا اور کوئی حیدرِ کرار رضی اللہ عنہ بنا - تاریخِ عالم گواہ ہے کہ آقا پاک ﷺ کے تربیت یافتہ لوگ ، وہ بدر کے تین سو تیرہ مجاہد ، جب تک وہ اس کائنات میں رہے اور دُنیا کے جس کارزار کی طرف اُنہوں نے رُخ کیا ، وہ تاجر بنے ، وہ اُستاد بنے ، وہ جرنیل بنے ، اُنہوں نے زندگی کا کوئی شعبہ اپنایا ، مگر جس شعبہ میں وہ گئے انہوں نے ایک تاریخ رقم کر دی - اگر کوئی مبلغ بن کر گیا تو اس کی مثال کوئی نہیں ملتی ، اگر کوئی ایمبیسڈر بن کر گیا ، جعفر طیار کی مثال لے لیں ، تو اس کی مثال نہیں ملتی ، اگر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی مثال لے لیں تو آج بھی دُنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں جہاں عسکری تربیت دی جاتی ہے جب تک حضرت خالد بن ولید کے باب کو شامل نہ کیا جائے ، ان کی حکمتِ عملیوں کو شامل نہ کیا جائے تو کوئی عسکری تربیت کسی یونیورسٹی میں مکمل نہیںہوتی اور دیگر بھی جو شعبہ زندگی ہے اس میں انہوں نے جس طرح بنیادیں فراہم کیں وہ آج بھی ایک مثال ہیں - اس کے بعد میں نے اپنی زندگی میں ، ہم نے بطور ایک سیاسی کارکن ، سٹوڈنٹس لائف سے ، کالجوں سے سفر شروع کیا تو ایک شوق کے حوالے سے ،لگن کے حوالے سے پاکستان کے طول و عرض میں کسی راہبر اور لیڈر کی تلاش میں سفر کیا جو کچھ ہم نے کتابوں میں پڑھا تھا وہ کہیں نظر نہ آیا بڑے بڑے پیروں آستانوں پہ گئے، کسی ایسی شخصیت کی تلاش میں جو نظروں سے تربیت کرتا ہو ، جو نگاہ سے تربیت کرتا ہو ، جونگاہ سے تقدیریں بدلتا ہو ، تو مَیں احسان مند ہوں اپنے ساتھیوں کا بالخصوص اصلاحی جماعت لاہور کے صدر غلام رسول صاحب کا جن کی وساطت سے مجھے اس بارگاہ کی چوکھٹ تک رسائی ہوئی اور مَیں وہاں پہنچا تو مَیں ایک سیدھا سادھا دُنیا دار سا آدمی تھا مگر میرے مالک نے اتنا کرم کیا ، اتنی مہربانی کہ میں سمجھتا ہوں کہ بہت ساری چیزیں جن کے لیے انسان اس دُنیا میں مارا مارا پھرتا ہے - شہرت ، دولت ، اقتداراور اپنی جان ، وہ میرے مالک نے اتنی کرم نوازی کی کہ میں آج بھی اور اس وقت بھی اپنے مالک کے ایک اشارے پر اپنی جان ، مال ، عزت ، آبرو ہر چیز قربان کرنے کے لیے تیار ہوں اور اس نگاہ کا ہی یہ اثر ہے کہ وہ اس لیول پر لوگوں کو تیارکردیتی تھی ، اس لیول پر لوگوں کو لے آتی تھی جو شاید مدرسوں اور درسگاہوں کے کئی سال اس منزل تک نہ پہنچ سکتے ہوں جو میرے آقا پاک کی چند لمحوں کی صحبت لے کر جاتی تھی- ایک پکے دُنیادار کی حیثیت سے خانقاہوں کے بڑے نظارے کئے تھے اور مایوس ہو چکے تھے کہ اب جیسا کہ اقبال نے کہا تھا کہ ’’صُوفیوں کے مٹکے شراب سے خالی ہوتے جا رہے ہیں‘‘ - میں جب اپنے مرشد پاک سے ملنے پہلی بار آرہا تھا تو بھی یہی خیال ذہن میں تھا کہ اِس سے پہلے جو نتیجے نکلے ہیں شاید یہاں بھی وہی نتیجہ نکلے گا اور ایک نگاہِ کامل کا منتظر دِل ہمیشہ کی طرح ایک پتھر ہی کی کیفیت میں واپس جائے گا - مگر - میرے مرشد پاک نے بغیر لفظوں کے بغیر بولے بغیر کچھ فرمائی صرف کلامِ نظر سے وہ کچھ عطا کر دیا جِس کی آرزُو دِل میں لئے میں نے پاکستان کے طول و عرض کی خاک چھانی حضور مرشد پاک کے چہرے کی زیارت کی ایک ہی جھلک نے دِل کو تسکین بخش دی تھی -

الحاج محمد نواز قادری:

نحمدہ و نصلی و نسلم

{قل بفضل اللّٰہ و برحمتہ  فبذلک فلیفرحوا}

نہایت ہی واجب القدر، واجب الاحترام ، حضور حضرت صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب و دیگر معزز و محترم سامعین کرام السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!

معزز سامعین جس طرح آپ کو معلوم ہے کہ آج سلطان الفقر ششم کے حوالے سے ڈسکشن کا انعقاد کیا جا رہا ہے ، سب سے بڑا ہم پر یہ کرم ہو ا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے مطابق کہ

’’جب تمہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت اور فضل ملے تو خوشیاں منائو ‘‘-

آج ہمارے لیے انتہائی خوشی کا دن ہے کہ حضور ﷺ کے صدقے جو تربیت حضور ﷺ نے پیارے صحابہ کرام کی فرمائی اسی سنت کے مطابق کیونکہ

طیبہ سے منگائی جاتی ہے سینوں میں چھپائی جاتی ہے

توحید کی مئے ساگر سے نہیں نظروں سے پلائی جاتی ہے

آج ہمارے سامنے موجود ہے کہ اَن پڑھوں کو نگاہِ کرم سے نوازا اور علمِ قرآن و حدیث عطا فرمایا ، یہ کس کا کمال ہے؟ یہ سب مہربانی ہے ، وہی فیض ہے جو آقا پاک نے صحابہ کرام کو عطا فرمایا اُسی سُنّت مُبارکہ کو زِندہ کرتے ہوئے مرشدِ کامل بانی اصلاحی جماعت نے اصلاحی جماعت بنا کر پوری دنیا پر احسانِ عظیم فرمایا کہ یہ فیض جو کئی پردوں میں اوجھل ہو چکا تھا ، انسانیت کا درد ، انسانیت کی اصلاح ، فرقہ واریت تو آچکی ہے ،

فرقہ بندی ہے کہیں تو کہیں ذاتیں ہیں

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

تو اس چیز کو ختم کرنے کے لیے بلکہ تمام اُمتِ مسلمہ کو ایک کرنے کے لیے آپ نے یہ بہت بڑا احسانِ عظیم فرمایا کہ اصلاحی جماعت بنائی اور ہم ان پڑھوں کو قرآن و حدیث کا علم عطا فرما کر آگے بیان کرنے کے قابل بنا دیا - میں ایک واقعہ عرض کرکے اجازت چاہوں گا - ایک مرتبہ میں بانی ٔاصلاحی جماعت کے ساتھ اُچھالی سے واپس دربار شریف پر آرہے تھے تو راستے میں خالق آباد آتا ہے وہاں آپ کچھ دیر کے لیے رکے-وہاں آپ کے مریدین تھے ایک مرید نے عرض کیا کہ حضور آپ بیان نہیں فرماتے جبکہ آپ کے بھائی صاحبان حضرت سلطان محمد فاروق صاحب اور حضرت سُلطان محمد معظم علی صاحب بیان فرماتے ہیں آپ بیان کیوں نہیں فرماتے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ ہمارے لیے حکم نہیں ہے - یہ بات فرمانے کے بعد فرمایا کہ ہاں اتنا ضرور ہے کہ ہمارے لیے یہ حکم ضرور ہے کہ ’’ہونویں سونا تے سڈاویں سکہ ‘‘پھر فرمایا کہ ہماری ڈیوٹی بولنے والے بنا نا ہے میں یہی گذارش پیش کرنا چاہوں گا کہ آپ کا سب سے بڑا کمال یہی ہے کہ جس طرح آقا پاک نے صحابہ کرامؓ کی تربیت فرمائی اورہدایت کا سرچشمہ بنا کر دُنیا میں بھیجا ، آج اصلاحی جماعت کی صورت میں آپ دیکھ لیں کہ کوئی آپ کو زیادہ پڑھا لکھا نہیں ملے گے لیکن جو بولے گا تو سننے والا حیران ہو جائے گا کہ قرآن و حدیث کا یہ علم کہاں سے آرہا ہے جب کہ بظاہر کسی مدرسے سے نہیں پڑھے ہوئے تو یہ وہی نگاہِ فیض ہے جو بانی ٔاصلاحی جماعت نے ہم سب پر کرم فرمایا اور آج ہم خوشیاں منا رہے ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ وہ وقت دور نہیں کہ آپ کی نگاہ کے فیض سے پوری دُنیا میں یہ مشن پھیلے گا اور انسانیت اُجاگر ہوگی اور ہم سب ایک ہو ں گے -

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے

نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاکِ کاشغر

اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے-

ڈاکٹر رفاقت سلطان وٹو:

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم

جنابِ صدر، جناب معززین اور میرے عظیم ساتھیو! گذشتہ تیس سال بحیثیت فزیشن اور ڈاکٹر کے مجھے دس لاکھ سے زیادہ مریضوں کو ملنے ، ان کی سائیکی پڑھنے اور ان کو جاننے کا موقعہ ملا ہے اور پورے دعوے سے کہہ سکتا ہوں اور آپ بھی اس سے متفق ہوں گے کہ جتنی شفقت اور محبت حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب میں تھی اور کسی شخصیت میں مَیں نے نہیں پائی - آپ بہت زیادہ برداشت کرنے والے ، صبر کرنے والے ،خلیق اور دوسرے کی بات بہت غور سے سننے والے تھے جیسا کہ آپ نے ایک واقعہ سنا ہوگا کہ حضور پاک ﷺ کو ملنے کے لیے ایک عورت آئی وہ کچھ فاتر العقل تھی تو اس نے بات بہت لمبی کردی تو صحابہ کرام کو اس پر تھوڑی سی ناراضگی اور تکلیف محسوس ہوئی تو حضور پاک ﷺ نے فرمایا کہ اس کی بات میں نہ سنوں تو اور کون سنے گا - یہی خلقِ محمدی ، ہماری ہزاروں ملاقاتیں اپنے مرشد حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب سے ہوئیں تو یہی خلقِ محمدی آپ میں بدرجہ اَتم پایا- جو۱۹۸۹ء میں اصلاحی جماعت قائم کی گئی تو آپ دیکھتے ہیں کہ دُنیا میں جو ایک ٹریجڈی ہے ، جس چیز کی کمی ہے وہ یہ ہے کہ لوگوں کے ظاہر اور باطن میں فرق ہے اور دُنیا سے شدید محبت ہے تو آپ نے یہ جماعت قائم کر کے بہت کامیابی سے اور اب بھی وہ سلسلہ کامیابی سے جاری ہے کہ ہم اپنے آپ کو پہچانیں اور انسان کے ظاہر اور باطن میں فرق ختم ہو اور دُنیا کی محبت کی بجائے اللہ اور اس کے رسول کی محبت ہو - مَیں اپنے نوجوان ساتھیوں سے اس موقعہ پر یہ عرض کروں گا کہ جب بار بار آپ یہ سنیں گے کہ ظاہر اور باطن میں فرق ختم ہونا چاہیے اور انسان کا دل زندہ ہونا چاہیے اور اپنے آپ کو پہچاننا چاہیے اور اپنے آپ کو جس نے پہچان لیا اس نے اپنے اللہ کو پہچان لیا وغیرہ، اگر کسی مردِ کامل سے ہماری ملاقات ہوجائے تو یہ باتیں بہت آسان ہیں- اس موقعہ پر اپنی ایک آبزرویشن ہے کہ جب ہم حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب سے ملتے تھے تو آپ باری باری تمام لوگوں سے ان کا حال پوچھتے اور توجہ ، شفقت اور پیار سے ان کو دیکھتے تھے تو واضح طور پر محسوس ہوتا تھا کہ آپ کی آنکھوں سے کوئی ایسی پیار بھری، نور بھری کوئی شعاعیں نکلتی ہیں کہ انسان کے دل پر اثر کرتی ہیں تو آپ سے میرا یہ مشورہ ہے کہ آپ کی اپنی جو پڑھائی ہے یا کوئی پروفیشن ہے یا کوئی ڈیوٹی ہے وہ آپ پورے زور و شور سے جاری رکھیں لیکن ساتھ ہی ساتھ کوشش کریں کہ کوئی ایسا مردِ کامل تلاش کریں جس کی آنکھوں میں وہی شعاعیں ہوں کیونکہ باقی ہر بات میں تو غلطی ہوسکتی ہے لیکن جب آپ کو کوئی ایسا مردِ کامل ملے گا جو آپ کی طرف دیکھے گا تو آپ کا دل مطمئن ہو جائے گا کہ یہ تو وہی شعاعیں ہیں جن کی مَیں تلاش میں تھا-تو یہ وہ فیضِ نظر جس کو کہتے ہیں کہ فیضِ نظر سے بھی تقدیر تبدیل ہو سکتی ہے - جب آپ اس مردِ کامل کو ملیں گے تو آپ کا دل مطمئن ہوجائے گا اور یہ ساری چیزیں آپ کے لیے آسان ہو جائے گیں-میں اُمید کرتا ہوں کہ آپ اس کی کوشش کریں گے اور اس مردِ کامل کو تلاش کرنے کی ضرور تگ و دو کریں گے- بہت شکریہ

محمد عامر طفیل صاحب:

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم

سب سے پہلے میں اِصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین لاہور برانچ اور ماہنامہ مرأۃ العارفین کی ٹیم کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ جنہوں نے سلطان الفقر ششم حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ذاتِ اقدس کے حوالے سے ایک فکری نشست کا اہتمام کیا - مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ وقت کی اہم ضرورت ہے - مَیں جب اپنے آپ کو دیکھتا ہوں کہ جب سلطان الفقر ششم کی جماعت کا میسج ہمیں ملا اور پھر حضور کی بارگاہ کی حاضری نصیب ہوئی اور جس احسن طریقے سے مرشد کریم نے ظاہر اور باطن کے حوالے سے تربیت فرمائی یقینا کلمہ طیبہ پڑھ لینے کے بعد بندہ دائرہ اسلام میں داخل ہو جاتا ہے اور یقینا وہ مسلمان ہے لیکن اس کلمہ کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے جیسا کہ اقبال نے فرمایا ہے:

مٹا دیا میرے ’’ساقی نے‘‘ عالَمِ من و تو

پلا کے مجھ کو مئے لا الہ الا ھُو

اس کی عملی تفسیر مرشد کریم کی بارگاہ سے نصیب ہوئی ہے اس طرح سے باقی تنظیموں ، تحریکوں کے مبلغین کو مبلغ کہا جاتا ہے لیکن سلطان الفقر ششم نے جو اصلاحی جماعت کا مبلغ ہوتا ہے اس کے لیے لفظِ صدر تجویز فرمایا - اس صدر کی شرح کیا ہے؟ کہ جس کا سینہ خالصتا ًاسلام کے لیے کھول دیا جائے ، جس کا سینہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے عرفان کے لیے ، اللہ کی معرفت کے لیے کھول دیا جاتا ہے اس کو آپ صدر فرماتے ہیں - اس پُرفتن دور میں اگر میرے مرشد کریم اصلاحی جماعت کا پرچم بلند نہ فرماتے توپتہ نہیں ہمارا کیا حال ہوتا ؟ ہمارا نام و نشان بھی اس دُنیا میں باقی نہ رہتا - جس طرح آپ حضرات اپنے گردو پیش دیکھتے ہیں کہ ہر سمت مادیت کی یلغار ہے ، فحاشی عریانی کس طرح عروج پر ہے ؟ انسانی اقدار کس طرح پامال ہو رہی ہیں تو جب تک ایسی شخصیت کے قدموں میں بیٹھنا نصیب نہ ہوکہ جس کی نگاہ سے دلوں کے اندر وہ نور پیدا ہوتا ہے ، وہ روشنی پیدا ہوتی ہے، حقیقی اِسلام کو سمجھنے کی وسعت پیدا ہوتی ہے -میں سمجھتا ہوں کہ اس کا ساری زندگی ایک سجدہ میں اللہ تعالیٰ کی ذات کا شکر ادا کرتا رہوں تو شاید میں اس ایک نگاہ کا شکر ادا نہیں کرسکتا جو میرے مرشدِ کریم نے اس گنہگار پر اپنی شفقت بھری نظر فرمائی اور اس کا عملی ثبوت یہ ہے کہ اس پُرفتن دور میں حضور کی توفیق نصیب ہے اور ہم اسی دُنیا میں رہ کر حضور کے نظریے پر چل رہے ہیں وہ نظریہ جوحضور رسالتمآب ﷺ نے اپنے صحابہ کرام کو عطا فرمایا تھا - وہی فکر جو فکرِ جبریل کہلاتی ہے اسی فکر کو لے کر الحمد للہ آگے چلنا ہے ، بڑھنا ہے اور انشاء اللہ ہم اس فکری نشست کے حوالے سے یہ تجدید عہد بھی کرتے ہیں کہ ہم آپ کی فکر کو اپنے حلقۂ احباب حتیٰ کہ پوری دُنیا میں لے کر چلیں گے-

صاحبزادہ سلطان احمد علی:

پینلسٹس کی گفتگو کا پہلا مرحلہ اپنے اختتام کو پہنچا ہے- اس کے بعد سوال و جواب کا سیشن ہوگا - پہلے کچھ سوال ہمارے ماڈریٹر صاحب فرمائیں گے اس کے بعد حاضرین سے سوالات لیے جائیں گے - اس ساری گفتگو کو کنکلیوڈ کرتے ہوئے مَیں حاجی محمد نواز صاحب کی ایک بات پر تبصرہ کرنا چاہوں گا - حاجی صاحب نے فرمایا کہ سلطان الفقرششم سے سوال کیا گیا کہ آپ کے دوسرے بھائی سلطان محمد فاروق صاحب، سلطان محمد معظم علی صاحب وہ تو لوگوں سے گفتگو اور خطاب کرتے ہیں آپ خطاب کیوں نہیں کرتے تو آپ نے فرمایا کہ ہمیں اس کی اجازت نہیں ہے - پاکستان کے ایک بہت بڑے سیاسی راہنما سے میری ملاقات ہوئی تو مَیں نے انہیں جماعت کا ، بانی ٔجماعت کا تعارف کروایا اور جماعت کے نظریے کا تعارف کروایا - جماعت پاک کے نظریے میںجو طاقت اور قوت ہے وہ نظریے کی صداقت کی وجہ سے بولتی ہے جسے عمومی طور پر صحافیانہ لفظوں میں کہا جاتا ہے کہ اس کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے - یہ نظریہ بالکل پاکیزہ ، تمام قسم کی سیاسی ڈرامہ بازیوں اور تفرقہ پرستانہ فسادات سے مبرا اور پاک ہے ، اُن سے مَیں نے کارکنوں کے حوالے سے بھی تعارف کروایا کہ پاکستان میں اتنے کارکن ہیں وہ خود ہمارے پروگرام میں ایک مرتبہ تشریف لے کر آئے، جب انہوں نے وہاں پر کارکنوں کا ڈسپلن دیکھا ، وہاں جو گفتگو کی گئی اس گفتگو کو سنا ، چند لوگوں سے انہوں نے جو سوالات کیے ان لوگوں کے چہروں پر جو طمانیت، اطمینان مسکراہٹ اور تبسم کو دیکھا ، ان کی جو کمٹمنٹ تھی، ان کی آڈیالوجیکل کلیرٹی جو تھی اس کو جب انہوں نے دیکھا تو بہت زیادہ متأثر ہوکر وہ اس پروگرام سے واپس گئے جب میں اظہارِ تشکر کے لیے دوبارہ ان سے ملاقات کے لیے گیا تو وہ مجھے یہ کہنے لگے کہ

’’صاحبزادہ صاحب مجھے حضرت صاحب ( حضور بانی اصلاحی جماعت) کی کوئی تحریرپڑھنے کے لیے مل سکتی ہے ؟‘‘

تو میں نے کہا کہ ’’حضرت صاحب نے کوئی تحریر نہیں لکھی‘‘-

پھر کہنے لگے کہ ’’مجھے حضرت صاحب کی کوئی تقریر مل سکتی ہے؟ جو میں دیکھ سکوں یا اس کی آڈیو ہو تو میں سن سکوں‘‘ -

تو میں نے کہا کہ ’’حضرت صاحب نے کبھی تقریر نہیں فرمائی تھی‘‘ -

وہ بالکل ورطۂ حیرت میں چلے گئے اور بڑی حیرت سے مجھے کہنے لگے :

’’تو پھر کارکنوں میں اتنی کمٹمنٹ کیسے ہے؟ قائدین یا تو تقریر کے ذریعے اس طرح کی سحر انگیزی ان میں پیدا کرتے ہیں ، ان کی فکر کو پختہ کرتے ہیں ، یا تو تحریر لکھتے ہیں ، یا وہ تقریر کرتے ہیں اور اکثر دونوں کام کرتے ہیں تو یہ کیسے قائد ہیں ، کیسے بانی تھے ، یہ کیسے داعی تھے جنہوں نے نہ تو تقریر کی ، نہ تو تحریر لکھی اور میں اور حیران ہو گیا ہوں کہ لوگوں میں یہ اتنی کمٹمنٹ انہوں نے کیسے پیدا کر دی ہے؟‘‘

یہ وہ بات ہے جو ساگر صاحب نے فرمائی کہ یہ نگاہ کی بات ہے جسے علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ

یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی

 سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی

حضرت اسماعیل علیہ السلام کسی مکتب میں تو نہیں گئے تھے، وہ حضرت ابراھیم علیہ السلام کی نگاہ سے تیار ہوئے تھے- علامہ اقبال رسول پاکﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ یارسول اللہﷺ!

مرا درسِ حکیماں دردِ سرِ داد

کہ من پروردۂ فیضِ نگاہم

’’یارسول اللہ ﷺ یہ فلسفیوں کی باتیں سن سن کر میرے سر میں درد شروع ہو جاتی ہے اس لیے کہ میں آپ کی نگاہ کے فیض سے تیار کیا گیا ہوں - ‘‘

تو جو لوگ نگاہ سے تربیت پاتے ہیں - آپ لاہور سے سب نوجوان ساتھی بیٹھے ہیں ، مختلف یونیورسٹیز اور کالجز سے ، آپ وہاں پڑھ رہے ہیں ، آپ وہاں سیاسی تحریکوں کو دیکھ رہے ہیں ، آپ مذہبی تحریکوں کو دیکھ رہے ہیں ، آپ ان ساری چیزوں کو دیکھ رہے ہیں ، آپ اس تحریک کا تجزیہ اس تناظر میں بھی کر سکتے ہیں کہ جو نگاہ کا فیض ہوتا ہے اور جو دیگر لفاظی کا فیض ہوتا ہے ، جو سطروں کا فیض ہوتا ہے ، اس میں ایک بڑا بنیادی فرق ہوتا ہے - جو نگاہ سے تیار کیے جائیں ان کی بڑی کمٹمنٹ ہوتی ہے ، ان کی آڈیالوجیکل کلیرٹی ہوتی ہے اور جس استقامت سے وہ کھڑے ہوتے ہیں جو میں نے ابتداء میں آیتِ کریمہ عرض کی کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ

{اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اﷲُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَo }

جن لوگوں نے مان لیا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور وہ اس پر استقامت پر کھڑے ہوگئے اللہ تعالیٰ اپنے ملائکہ کے ذریعے ان کے دلوںمیں سکینہ نازل فرماتا ہے، ان کی نصرت فرماتا ہے ، ان کی مدد فرماتا ہے-

حاجی صاحب کی اس گفتگو پر مَیں یہ گذارش کرنا چاہتا تھا کہ نہ آپ نے کوئی تقریر فرمائی ، نہ آپ نے کوئی تحریر فرمائی اس کے باوجود اتنی بڑی تحریک اور اس تحریک میں اس نظریے، وژن پر اتنی زیادہ کلیرٹی یہ اس نگاہ کا ہی کمال ہوسکتا ہے جو بغیر بولے ، بغیر لفظوں کے لوگوں کے دل کی دُنیا کو تبدیل کردیتے ہیں -

سوال:-

آپ نے ہمیشہ جاسوسی ناول ، صحافتی مضامین لکھے ، کبھی تصوف پر اس سے پہلے کوئی باضاطہ تصنیف نہیں لکھی لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ آپ نے اس تسلسل میں ’’صاحبِ لولاک‘‘ جیسی شاہکار کتاب تصنیف کی ہے - دُنیا بھر میں آپ کے چاہنے والے اور آپ کی تخلیقی صلاحتیوں کے مداح یہ جاننا چاہتے ہیں کہ دیگر کتب لکھتے ہوئے اور ’’صاحبِ لولاک‘‘ لکھتے ہوئے آپ نے اپنی کیا کیفیت محسوس کی ہے ، کیا فرق پایا ہے ؟

جواب:-

طارق اسمٰعیل ساگر صاحب:-

یہ آپ نے ایسا سوال کردیا جس کے جواب میں کوئی فصاحت و بلاغت تو پیش نہیں کرسکتاحالانکہ الفاظ سے کھیلنا تو میرا پیشہ ہے لیکن شاعری میں ایک چیز آمد اور آورد ، دو الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں- یہ کتاب میں نے لکھی تو نہیں یہ مجھ سے لکھوائی گئی تھی یہ آمد ہے - آپ یقین فرمائیں میں نے اس میں جو ٹرمنالوجی تصوف کی لکھیں واللہ مجھے اس سے پہلے نہیں پتا تھا - میں چونکہ نوائے وقت کا پچیس سال ایڈیٹر رہا ہوں تو تصوف کے مضامین بڑے لکھے پڑھے ہوں گے لیکن تصوف سے میرا دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا- میں سمجھتا ہوں کہ ایسے نفوسِ قدسیہ دنیا میں آتے ہی اس لیے ہیں کہ ہم جیسے بدراہ لوگوں سے کوئی ایسا کام کروا جائیں جو ان کے لیے توشۂ آخرت بن جائے- میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اللہ نے یہ بخشش کے بہانے بنائے ہوتے ہیں وہ ان نفوسِ قدسیہ کے ذریعے بنائے ہوتے ہیں - مجھ سے وہ کتاب لکھوائی گئی- اس کتاب کا جو نام تھا، جو اس کا ٹائٹل ہے آپ یقین کیجئے کہ دور دور تک میرے گمان میں نہیں تھا ، میں نے ایسے علامہ کا یہ شعر پڑھا تو یہ مجھ پر کلک ہوا اور میں نے یہ اس کا نام رکھ دیا - میری ان سے زندگی میں دو یا تین نشستیں ہوئی ہیں - جس طرح کہ حضرت نے فرمایا کہ آپ نہ تو بولتے تھے نہ لکھتے تھے لیکن آپ کا حکم تھا ، آپ کے پاس یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ جو آدمی بھی آپ کے پاس بیٹھتا تھا وہ کچھ لے کر نہ اٹھے کوئی بد قسمت ہی ایسا ہوگا میرے خیال میں- میں تو سمجھتا ہوں کہ یہ ان کا فیض تھا جس نے مجھ سے یہ لکھوایا - اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ میں نے ستر کے قریب کتابیں لکھی ہیں ، میرا شمار اس میں ملک میں بکنے والے بڑے رائٹرز میں ہوتا ہے اس میں بڑائی نہیں مگر ایسی کتاب خود سے نہیں لکھی جاتی- یہ میری کیا مثال انہوں نے تو لوگوں سے فارسی لکھوا دی ، عربی لکھوادی کیاآپ لوگوں نے سید امیر خان نیازی کا کام نہیں دیکھا؟ یہ تو پھر بھی اردو میں کتاب تھی - یہ ان کا فیض تھا-

 سوال:-

 سلطان الفقر بانی ٔاصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کی بارگاہ اقدس میں ہر فرقے کے لوگ حاضر ہوتے تھے - آپ ان کے ساتھ کیسا سلوک فرماتے تھے؟

جواب:-

صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب:

میں نے جیسے اپنے افتتاحی کلمات میں یہ گذارش کی کہ جو ہندوستان برصغیر کا معاشرہ تھا مذہبی طور پر اس میں بہت زیادہ تنوع تھا - بے شمار مذاہب اور ان مذاہب کے بے شمار فرقے اس میں شامل تھے لیکن جب بھی کوئی ان کے پاس آیا ہے انہوں نے لوگوں سے اتنی محبت اتنی شفقت کی کہ کسی کو اجنبیت محسوس نہیں ہونے دی-ہم دیکھتے تھے آپ کی خدمت میں تقریبا تمام مکاتب فکر سے لوگ آتے تھے- حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ پاکستان ہی نہیں اس خطے کے مشائخ میں سے وہ واحد ہستی تھے ، وہ واحد شخصیت تھے جن کے مریدین میں بریلوی، شیعہ اور دیوبند مکتبہ فکر کے لوگ بھی ہیں جو بھی آئے آپ نے انہیں قبول کیا، ان کی اصلاح کی - لوگ جب بیعت ہوتے تھے تو لوگ اپنی فقہ کے مطابق سوال کرتے تھے کہ حضرت صاحب ہماری فقہ تو آپ سے نہیں ملتی ہے ہم کیسے اس کو آگے چلائیں گے؟ تو آپ فرماتے کہ چار پانچ چیزوں میں کبھی مت پڑھنا اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ تمہارے سب گناہ معاف فرمائے گا- شرک سے آپ منع فرماتے تھے بلکہ جب آپ بیعت فرماتے تھے توگناہوں سے توبہ کرواتے ہوئے سب سے پہلے آپ شرک سے توبہ کرواتے تھے کیونکہ شرک وہ گناہِ عظیم ہے کہ گناہ زمین و آسمان جتنے بھی ہوں وہ معاف کر دیے جائیں گے شرک کبھی معاف نہیں کیا جائے گا-پھر آپ فرماتے تھے کہ انبیاء کرام علیھم السلام بالخصوص حضور نبی پاک ﷺ کی گستاخی نہ ہو، حضور کے اہلِ بیت اطہار کی گستاخی نہ ہو، حضور کے صحابہ کرام ، جمیع صحابہ کرام کسی کی بھی گستاخی نہ ہو، پھر جنتے بھی سلاسل کے صوفیاء ہیں ان کی گستاخی نہ کرو اور یہ کہ پھر ان کی خدمت میں توہین آمیز کلمات نہ کہے جائیں اس کے علاوہ آپ اپنا فقہ یا عقیدہ رکھتے ہیں اس میں آپ اللہ تعالیٰ کو جوابدہ ہیں وہ گناہ معاف ہوسکتے ہیں لیکن یہ ایسے گناہ ہیں چاہے وہ انبیاء کرام ، چاہے وہ حضور کے اہلِ بیت ہوں ،چاہیے وہ صحابہ کرام ہوں ، چاہے وہ اولیاء اللہ ہوں ان میں سے کسی ایک سے متعلق بھی توہین آمیز کلمہ لانا ، توہین آمیز بات کرنا یہ بندہ کو ایمان سے خارج کر دیتی تھی ، یہ ایک بائونڈری تھی آپ فرماتے تھے اس کے بعد تم آزاد ہو- جیسا کہ اقبال فرماتے ہیں کہ

صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے! پا بہ گل بھی ہے!

انہی پابندیوں سے حاصل آزادی کو تو کر لے

صنوبر کے پودے کو باغ میں پوری آزادی ہے لیکن ایک شرط ہے کہ اپنی جڑوں کو زمین میں پیوست رکھے اگر وہ اپنی جڑیں زمین میں نہ رکھے تو جتنی بلندی میں وہ جارہا ہوتا ہے اتنے دھڑام سے وہ زمین پر گرتا ہے - اپنی جڑیں زمین میں رکھ کر آپ جتنی بلندی پر چلے جائیں آپ پر کوئی روک ٹوک نہیں ہے لیکن اگر آپ اپنی بنیادوں سے نکل جاتے ہیں تو آدمیت کی عمارت توگرتی ہی گرتی ہے آدمی کے ایمان اور یقین کی عمارت بھی گر جاتی ہے-آپ کی خدمت میں جس مکتبۂ فکر سے لوگ آتے تھے تو آپ بڑی شفقت فرماتے تھے اور کسی کو بھی اجنبیت محسوس نہیں ہوتی تھی جو بھی آکر بیٹھتا تھا آپ کسی سے یہ نہیں پوچھتے تھے کہ تمہارا مسلک کیا ہے ؟، تم کس مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہو بلکہ جو بھی آتا تھا آپ اس سے ایک اجتماعی اور عالمگیر گفتگو کرتے تھے- یہ کوئی حیران کن بات نہیں ہوتی ، آپ سمجھ رہے ہوں کہ یہ بڑی حیران کن بات ہے کہ وہ ایک خاص مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے تھے تو لوگ ا س فکر سے اختلاف بھی رکھتے ہیں اور یہ کیسے آپ اس طرح کی اجتماعی بات کرتے تھے ؟ - عالمگیر نظریّہ (Universal Ideology) کی تشریح ہی یہ ہے کہ پوری کائنات / یونیورس کا احاطہ کرتی ہے اور جو کوئی بھی اس میں آنا چاہتا ہے یہ اس کو اکاموڈیٹ کرتی ہے-اور جو یونیورسل آڈیالوجی کے صحیح پیروکار ہوتے ہیں ، یا جو اس کے رنگ میں رنگے جاتے ہیں جن کا اندر اور باہر اسی یونیورسل آڈیالوجی کی ہی تفسیر ہوتا ہے آپ اس شخصیت کے پاس چلے جائیں ، سوال کیا گیا کہ فرقوں کے لوگ ، مَیں سمجھتا ہوں مختلف مذاہب کے لوگ بھی اتنی بڑی شخصیت کے پاس آکر بیٹھ جائیں وہ بھی محروم نہیں اٹھیں گے وہ بھی اپنے دامن میں کچھ لے کر جائیں گے - اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عالمگیر شخصیّات (Universal personalities) ہوتی ہیں ، وہ ہردلعزیز ہوتی ہیں ، وہ سب سے پیار کرتی ہیں کیونکہ ان کے پیارکرنے کے معیارات (Criteria/Standards) نسانیت ہے ، ان کے پیار کرنے کا معیار یہ ہوتا ہے کہ یہ میرے مالک ، خالق کی مخلوق ہے جس نے مجھے پیدا کیا ، جس نے مجھے سانسیںدیں ، جس نے مجھے یہ مقام و مرتبہ دیا ، جس نے مجھے اس فکر پر گامزن کیا تو میں اس کی وہ مخلوق جو میری خِدمت میں آئے میں اپنی خدمت میں دل آزاری کر کے انہیں یہاں سے بھیجوں، ان کی دل شکنی کرکے بھیجوں تو وہ یہ کبھی قبول نہیں کرتے- اس پر قرآن و حدیث کی بے شمار مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں -مَیں صرف اتنا کہوں گا کہ جو یونیورسل پرسنیلٹیز ہوتی ہیں ان کے پاس کسی بھی فکر ، مکتب ، مذہب کا آدمی آجائے ان کے پاس سب کو دینے کے لیے فیض موجود ہوتا ہے آگے لینے والے کی استطاعت ہے کہ اس کا ظرف کتنا بڑا تھا وہ اپنے ظرف میں کتنا سمیٹ کر گیا ہے-

سوال:-

سلطان الفقر ششم کی تنظیمی اور تحریکی خدمات کیا ہیں ؟ اس پر روشنی ڈالیں-

جواب:

میاں محمد ضیاء الدین صاحب:-

دلیل صبحِ روشن ہے ستاروں کی تنک تابی

افق سے آفتاب ابھرا گیا دور گراں خوابی

دراصل میرے مرشد کریم سلطان الفقر ششم رحمۃ اللہ علیہ کی تحریک اور تنظیم کا مطالعہ کریں تو آپ نے ساری زندگی قرآن و سنت کے احیاء کے لیے گزاری-تنظیم کا مطلب منظم ہونا ہے تو آپ کی تعلیمات اور گفتگو کا جو عملی سسٹم تھا ، آپ کی بارگاہ میں کوئی مورخ آیا، عالم ، یا امیر و غریب آیا تو آپ سب سے پہلے یہ تلقین فرماتے کہ تمہاری زبان اور دل ایک بن جائے-جب یہ دونوں اکٹھے ہوں گے تو جو دل میں بات ہے وہی زبان پر ہوگی کیونکہ اسلام بھی یہی کہتا ہے کہ ہماری زبان اور دل ایک ہو جائے کہ زبان اگر لا الہ کہہ رہی ہے تو دل بھی اسے ماننے والا ہو کہ معبود کون ہے اللہ کی ذات ہے- تو قرآن و سنت کے مطابق آپ نے یہ تلقین فرمائی کہ ہمارے زبان و دل ایک ہوجائیں-

سلطان الفقر ششم چاہے سفرمیں ہوئے یا حضر میں روزانہ قرآن پاک کادرس ہوتا- عالمی شُہرت یافتہ قاری غُلام رسول صاحب (مرحوم) کی آواز میں قرآن پاک آپ سُنتے اور اُس کی تشریح اپنے مجلس نشینوں سے اِرشاد فرماتے تو اسی طرح جہاں بھی آپ تشریف لے جاتے وہاں قرآن و حدیث کی بات ہوتی، چاہے وہ خوشی ہو یا تعزیت -اور اس کا عملی نمونہ ہمیں عطا فرمایا ، آج سب سے بڑا فقدان عمل کی کمی ہے ، قرآن پاک کو سمجھنے کی کمی ہے - آپ نے اپنے ہر ایک رکن کو قرآن میں تدبر کرنے کا Visionعطا فرمایا اور یہ ساری چیزیں آپ نے نگاہ سے عطا فرمائیں - شیخوپورہ کے ایک ساتھی کا واقعہ ہے کہ اس کے گھر اس کا دوست آیا تو سلطان الفقر ششم وہاں تشریف فرما تھے تو آپ جہاں بھی جاتے لوگوں کا جم گھٹا ہوجاتاتھا - تو وہ مہمان کہنے لگا کہ آپ کے گھر میں آج بڑا رش ہے آپ نے بتایا نہیں تو اس نے بتایا کہ میرے گھر میں آج میرے مرشد پاک آئے ہوئے ہیں تو وہ مہمان کہنے لگا چلو ٹھیک ہے مَیں چلتا ہوں تو گھر والا کہنے لگا نہیں بھئی آجائو ، آپ بھی ملاقات کر لو، تو چونکہ وہ(دوست) اولیائے کرام سے مناسبت نہیں رکھتا تھابلکہ تھوڑا سا شدید رویَّہ رَکھتا تھا اس لئے اُس نے کہا مَیں نہیں آئوں گا ، پھر اس کے بار بار اصرار پر اس نے کہا کہ چلو ایک مرتبہ زیارت کرلیں تو وہ آدمی جہاں آپ کمرے میں تشریف فرماتھے لوگوں میں سب سے پیچھے آکر کھڑا ہوگیا اس وقت سلطان الفقر ششم گفتگو فرما رہے تھے ، قرآن و حدیث اور تصور اسم اللہ ذات کی گفتگو سنتا رہا اور آہستہ آہستہ آپ کے قریب ہوتا چلا گیا جب گفتگو ختم ہوئی تو اس وقت وہ مہمان آپ کے قدموں میں موجود تھا ، دست بوسی کی اور عرض کی کہ حضور سب سے پہلے مجھے ذکرِ الٰہی کا طریقہ عطا فرمائیں-تو یہ آپ کا تحریکی نظام تھا ، جیسے آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام آپ نے دعا فرمائی تھی سیدنا فاروقِ اعظم گھر سے نکلے تھے اور آقا کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو اُس نگاہِ کرم نے ان کے اندر تبدیلی پیدا کردی ، یہاں بھی ہم نے ہزاروں لوگوں کو دیکھا کہ جب وہ حضور مرشد پاک کی بارگاہ میں آئے اور آپ نے نگاہِ کرم فرمائی تو اُن کے وجود میں تبدیلی آگئی -اور فاروقِ اعظم ؓ کے وجود میں تبدیلی یہ آئی کہ وہ حق کے لئے میدان میں آگئے تھے ، ترویج و اشاعتِ اسلام اور اسلام کی اذان کو بلند کرنے کیلئے میدان میں آگئے تھے اور سلطان الفقر ششم نے بھی جس پر نگاہ فرمائی اس کے اندر قرآن و حدیث کی تاثیر، شریعت مطہرہ کی تاثیر اور آقا علیہ السلام کی سنت مبارک پر عمل کرنے کی تاثیر اُجاگر ہوگئی اس طرح اس کے وجود میں وہ تڑپ وہ طلب باقی رہ گئی تو اسی طرح علامہ اقبال بھی کہتے ہیں :

گمان مبرکہ نصیبِ تو نیست جلوۂ دوست

درون سینہ ٔ ہنوز آرزوئے تُوخام است

کہ تُو یہ بات نہ کہے کہ تیرے نصیب میں جلوۂ دوست نہیں ہے ، وہ جلوۂ دوست تیرے نصیب میں ہے اگر تیرے وجود میں آرزو خام نہیں-

جو بھی آ پ کی محفل میں آتا اُس کے اندر آقا علیہ السلام کے نقشِ قدم پر چلنے اور قرآن و حدیث پر عمل کرنے کی آرزو پیدا ہوجاتی اور وہ آٹومیٹکلی قرآن و سنت پر عمل کرنے کیلئے تیار ہوجاتا اور اس کیلئے آپ ملک کے کونے کونے میں تشریف لے گئے وہاں اراکین کو تبلیغ بھی فرمائی اور تلقین بھی کی اور پھر اس تحریک کو اصلاحی جماعت کی صورت میں ضلع،تحصیل اور یونٹ کے سطح پر آرگنائز کیا اور جتنے بھی خادمین آپ کے پاس آتے ان سے ہاتھ بھی ملاتے اور ان سے احوال بھی دریافت فرماتے اور ان کے مسائل بھی سنتے اور وہی چیز آج بھی پروگرامز میں جانشین سلطان الفقر آنے والے تمام لوگوں سے مصافحہ بھی کرتے ہیں اور مرشد پاک کی سنت پر عمل پیرا ہوکر اصلاحی جماعت کا پروگرام اس طرح چل رہا ہے -اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں سلطان الفقر ششم کی اس قرآن و احادیث کی ترتیب کو اِصلاحی جماعت کے پلیٹ فارم سے مزید پوری کائنات کے لوگوں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے ، آپ نے ہمیں جو یہ تحریک عطا فرمائی اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر صحیح چلنے کی توفیق عطا فرمائے -

سوال:-

سلطان الفقر ششم کی بارگاہ میں آپ کی پہلی حاضری کس طرح او ر کب ہوئی نیز آپ نے ملاقات کے وقت کیا محسوس کیا؟

رانا تجمل حسین صاحب:-

دسمبر 1998ء ماہِ رمضان تھا اپنے بھائی غلام رسول صاحب کی قیادت میں چند ساتھیوں کے ہمراہ دربار شریف پہنچے - ہم ذاتی طور پر کسی اور سلسلے سے گئے تھے جب پہنچے تو پتہ چلا آپ آرام کیلئے تشریف لے گئے ہیں تو اب صبح ملاقات ہوگی ، تو میرے ساتھ جو ساتھی تھے انہوںنے کہا کہ اب واپس چلتے ہیں مگر مَیں نے وہاں فیصلہ کیا کہ اب آئے ہیں تو حضور سے ملاقات کے بعد ہی جائیں گے، دوستوں کے ساتھ بیٹھا یہ مشورہ کررہے تھے کہ ہم یہ سوال پوچھیں گے ، چیک کریں گے ہم نے سنا ہوا تھا کہ کسی اللہ کے ولی کو پہچاننا ہو تو یہ طریقہ ہوتا ہے وہ طریقہ ہوتا ہے اس کی ہم Planingکرتے رہے اور صبح جب پتہ چلا کہ حضو ر ابھی تک تشریف نہیں لائے تو عصر کے وقت ہمیں اچانک اطلاع ملی کہ حضور تشریف لارہے ہیں مَیںنے زیارت کی جب آپ اپنے گھر سے تشریف لا رہے تھے تو جب آپ کے چہرہ پر نظر پڑی تو پھر نہ کوئی سوال یاد رہا اور نہ کوئی جواب یاد رہااور یہی کوشش تھی کہ جلد سے جلد بیعت ہو جائیں تو اسی وقت بیعت نصیب ہوگئی-

جو باتیں میں نے اپنی گفتگو کے ابتدائی حصہ میں کہیں میں سمجھتا ہوں کہ غلام رسول صاحب میرے محلّہ دار بھی تھے اور میرے معاملات سے بھی واقف تھے کہ مجھ میں مذہبی تنقید بھی بہت زیادہ تھی چونکہ میں نے سٹوڈنٹ سیاست سے اپنی جوانی کا آغاز کیا تو چاہتے نہ چاہتے مذہبی سیاست کی بہت سی دورنگیوں کو قریب سے دیکھا سب لوگوں کا طریقۂ واردات ہمیں معلوم تھا پھر دُنیاداری کی وہ ساری حرکتیں بھی ہم میں موجود تھیں جو گناہ ثواب کے چکر میں پڑے بغیر دُنیا داری میں سٹیٹس سمبل سمجھی جاتی ہیں سارے فرقوں کا باری باری چکر کاٹتا رہا تھا کہ کہاں سے تسکین مِل جائے مگر ایک تو میرے اندر تنقید بہت تھی اِس نے کسی کدھے نہیں چڑھنے دیا دوسرا شاید مالک نے اپنے نام کیلئے چُن لیا تھا - یارو! میں آج بھی سوچتا ہوں تو حیران رِہ جاتا ہوں کہ جب میری مرشد پاک سے ملاقات ہوئی تو کیا میں وہی تجمل تھا ؟ میرے سارے سوالات کہاں بکھر گئے ؟ میرے ذہن کے سارے طنز کس نگری میں کھو گئے ؟ میری اندر کی تنقید مجھے کچھ بھی بولنے پہ کچھ بھی پوچھنے پہ سوال کرنے پہ کیوں مجبور نہ کر سکی ؟

اِن ساری باتوں کا میں ایک ہی جواب پاتا ہوں کہ ڈاکٹر وٹو صاحب نے جو کہا کہ وہ شعاعیں بندے پر منعکس ہوتی تھیں تو یہ کچھ ایسی ہی بات تھی میرے مرشد پاک کے چہرے کے نور کی تاب ایسی تھی اور چمک ، کہ جس نے میرے ویران دِل کو ایک نئی زندگی عطا کردی تھی - آپ نے سوال کیا کہ میں نے مُلاقات میں کیا محسُوس کیا ؟ تو میں مُختصراً یہ بتاؤں گا کہ میں نے محسوس کیا ’’جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے‘‘-

جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے بادِ نسیم

جیسے بیمار کو بے وجہِ قرار آجائے

میں نے اُس وقت بھی یہ سوچا تھا کہ اگر میرے جیسے دُنیا دار ایک نگاہ کی تربیّت سے اِصلاح پا سکتے ہیں تو جِن کے اَندر واقعتاً طلبِ مولیٰ ہے یا اللہ پاک کے دین کی خِدمت کا جذبہ ہے اُن کے لئے اِس دور میں اِس سے زیادہ بڑی رہنمائی اور کوئی نہیں دے سکتا -

سوال:-

اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین سے پہلے بھی کئی جماعتیں کام کر رہی تھیں سلطان الفقر ششم کو اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

جواب:-

الحاج محمد نواز صاحب،مرکزی ناظمِ اعلیٰ اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین:-

گزارش یہ ہے کہ جماعتیں تو واقعی بہت کام کر رہی ہیں آپ ذرا غور کریں کہ جتنی بھی جماعتیںکام کر رہی ہیں وہ جماعتیں کس کی دعوت دے رہی ہیں ؟کہ دُنیا بھی سنور جائے اور آخرت بھی سنور جائے گی اس سے بڑھ کر دعوت کسی کی نہیں - اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین کی معرضِ وجود میں آنے کی مین وجہ صر ف ایک ہی ہے جیسا کہ ایک حدیث پاک آپ نے سنی ہوگی کہ {العلم نقطۃ}کہ علم ایک نکتہ ہے کہ کائنات کا مالک ، خالق ،رازق اللہ پاک ہے ، کبھی کسی نے غور نہیں کیا ، معلوم ہونے کے باوجود بھی کسی نے توجہ نہیں دی کہ اللہ تعالیٰ نے جس مقصد کیلئے یہ ساری کائنات بنائی اُس مقصد کو اُجاگر کرنے کیلئے اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین بنائی گئی - وہ مقصد کیا ہے ؟ کیا اللہ تعالیٰ نے محبوب کے صدقے انسان سے یہ خطاب نہیں فرمایا کہ

’’ اے ابن آدم ایک تیری چاہت ہے اور ایک میری چاہت ہے ، ہوگا وہی جو میری چاہت ہے ، تُو اپنی چاہت میرے سپرد کردے تو تجھے دوں گا تیری چاہت بھی ورنہ مَیں تیری چاہت میں تجھے تھکادوں گا اور پھر ہوگا وہی جو میری چاہت ہے‘‘-

اور چاہت کیا ہے؟

{کنت کنزا مخفیا فاحببت ان اعرف فخلقت الخلق لا عرف}

مَیں چھپا ہو اخزانہ تھا ، مَیں نے چاہا کہ مَیں پہچانا جائوں -

تو اللہ تعالیٰ کی چاہت ہے کہ مَیں پہچانا جائوںاور جو پہچان لے گا وہ عارف باللہ بن جائے گا-اور دوسرا مقصدِ حیات کیا ہے؟

{وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون}

اور تیسرا

{طلب العلم فریضہ علی مسلم ومسلمہ}

کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مر د عورت پر فرض ہے -

حضور غوث پاک اپنی کتاب ’’ سرالاسرار‘‘ میں فرماتے ہیں :

{والمراد منہ علم المعرفت والقربت}

اور وہ جو علم حاصل کرنا فرض ہے وہ معرفت اور قربِ الٰہی والا ہے-

اس لیے اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین بنائی گئی کہ زندگی کا مقصد معرفت الٰہی ہے ، علم حاصل کرنا فرض ہے معرفت الٰہی والا،اوراللہ کی چاہت کہ مَیں پہچاناجائوں - تو یہ تعلیم پہلے نہیں چل رہی تھی ، اللہ تعالیٰ کی اس چاہت کو پورا کرنے کیلئے اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین بنائی گئی لیکن یہ پوری کب ہوگی؟ پہلے شریعت

ہر مراتب از شریعت یافتم

پیشوائے خود شریعت ساختم

پہلے شریعت پھر طریقت، پہلے علم پھر معرفت،پہلے نماز پھر ذکر،تو یہ ساری چیزیں اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین کی طرف سے پیش کی جاتی ہیں تو بانی ٔ اصلاحی جماعت نے یہ بہت بڑا احسانِ عظیم فرمایا -جب چاہت سامنے نہ ہو تو جیسا آپ دیکھتے ہیں کہ لوگ عبادت ریاضت کر کے تھک جاتے ہیں پھر بھی اطمینان نہیں ہوتا-

سے روزے سے نفل نمازاں سے سجدے کر کر تھکے ھُو

سے واری حج مکے وی گزاری پر دل دی دوڑ نہ مکے ھُو

دل کی یہ دوڑ تب ہی ختم ہوگی جب اسے معرفت نصیب ہوگی-

سوال:-

سلطان الفقر ششم کا طریقۂ تربیت اور طریقۂ ارشاد کیا تھا؟

ڈاکٹر رفاقت سلطان وٹو:-

اس سے پہلے کافی بات ہوچکی ہے پھر بھی مختصر یہ ہے کہ آپ کا طریقِ تبلیغ آڈیو ، ویڈیو نہیں تھا ، یا تصنیف و تالیف یا تقریر کے ذریعے نہیں تھا بلکہ نظر کے ذریعے دل کی دنیا آباد کرنا تھا تو ہم کئی سالوں سے اس جماعت کے ساتھ چل رہے ہیں اور دیکھا بھی ہے کہ ہزاروں لاکھوں دوستوں کی دل کی دنیا آباد ہوچکی ہے-تو یہ طریقہ اب بھی جاری ہے اور اس پہ مَیں اتنا تبصرہ کروں گا کہ آج کل نوجوان دوستوں میںیہ شکایت ہے کہ آج کل کی تبلیغ بے اثر ہے تو ظاہری ذریعے جو تبلیغ کے ہیں اُ س میں لوگوں کو ماحو ل میں رکھ کر تربیت کی جاتی ہے تو اس کا اثر بھی ہوتا ہے لیکن وہ دیرپا نہیں ہوتا تو جب آدمی اُس ماحول سے نکل جاتا ہے تو پھر اپنے پرانے ڈگر پر واپس آجاتا ہے تو جویہ طریقہ ہے صاحبِ نظر اپنی نظر کے ذریعے دل کی دنیا کو آباد کرتا ہے یہ پھر مستقل اور پائیدار ہے اور بہت اثر پذیر ہے مَیں آپ کو بھی یہی دعوت دیتا ہوں کہ آپ بھی اسی میں شامل ہوں اور اللہ تعالیٰ آپ کو بھی توفیق دے کہ آپ کی دل کی دنیا اس طریقے سے آباد ہو-

سوال:-

رسول اللہ ہمیشہ مساکین اور غرباء کو پسند فرماتے ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو قرآن پاک میں یہ تاکید فرمائی کہ آپ مساکین کی محبت اختیار کیے رکھیں تو رسول اللہ کی سنت کو تمام اتقیاء اور صوفیا ء نے اختیار فرمایا ، آپ نے سلطان الفقر ششم کو بہت قریب سے دیکھا ہے اور آپ کی بارگاہ میں زندگی کا کافی حصہ گزارا ہے - یہ سنتِ عظیم غریب پروری اور مساکین پروری کا عملی جوہر آ پ نے سلطان الفقر ششم کی زندگی میں کیا دیکھا ہے؟

جواب:-

عامر طفیل صاحب:-

بند ہ ناچیز نے جو وقت سلطان الفقر ششم کی بارگاہ میں گزارا ہے - مَیں نے بہت قریب سے دیکھا کہ سلطان الفقر ششم کا حضور رسالت مآب ﷺ کے اسوۂ حسنہ کے عین مطابق تھا - ایک میرے برادرِ محترم اسی محفل میں تشریف رکھتے ہیں - ۱۹۹۴ء کی بات ہے سلطان الفقر ششم ان کے گھر تشریف لے گئے لیکن ان کی غربت ، افلاس کی حالت یہ تھی کہ گھر میں صرف ایک کمرہ تھا اور مرشد پاک کے شایانِ شان بٹھانے کی جگہ نہ تھی تو وہ ساتھی ایک طرف تو بہت خوش تھا کہ مرشد پاک گھر تشریف لے آئے تو دوسری طرف سے اندر سے بے چارہ ٹوٹ چکا تھا کہ اب میں کہاں بٹھائوں اپنے مرشد پاک کو -کوئی ایسی جگہ ہی نہیں اسی طرف محبت سے اس کی آنکھوں سے چھلکا تو حضور نے فرمایا ’’ نہیں بیٹا نہیں  ایہہ اساڈا اپنا گھر ہے‘‘ کرسی پر تشریف فرمائے اور دعائے خیر فرمائی -

Dv3,Startکچھ ٹائم ہی بعد حضور نے اس ساتھی کا وہ گھر اپنی شفقت سے خود آپ نے تعمیر کروایا اس کے علاوہ زیادہ تر مساکین، غربا ء میں وقت گزارتے ، حضور کیساتھ سفر کرنے کا اتفاق ہوا غالبا اسلام آباد سے واپس آرہے تھے تو ایک معذورشخص سڑک کنارے مانگ رہا تھا ، گاڑی تیزی سے اس شخص کے پاس سے گزر گئی تو آپ کی نظر مبارک جب اس شخص پر پڑی تو آپ نے ڈرائیور کو حکم دیا کہ گاڑی پیچھے لے جائو اس کے پاس جاکر ۳ ہزار روپے اس معذور شخص کو آپ نے عطا فرمایا اس کے علاوہ حضرت سلطان باھُو کے مزار مبارک پر جب تشریف لے جاتے تو منگتے آپ کا انتظار کر رہے ہوتے حاضر ی سے واپسی پر ان کی ایک لائن لگ جاتی تو آپ کے پاس جتنی بھی رقم ہوتی وہ اُن سائلین میں تقسیم فرمادیتے تو جس کو دریا دلی کہتے یہ مَیں نے سلطان الفقر ششم کی بارگاہ میں رہ کر دیکھا ہے اس کے علاوہ شہبازِ عارفاں حضرت سلطان محمد عبدالعزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ آپ کی نسبت والے لوگ خود یا ان کی اولاد میں کوئی بھی حاضری دیتے تو ان کے طلب کیے بغیر حضور ان کو خالی ہاتھ نہیں بھیجتے تھے بلکہ اکثر وہ خاندان جن کا دادا حضور کی معیت میں وقت گزرا ان کی مکمل کفالت فرماتے - اور تنظیم میں موجود تمام مستحق ساتھیوں کو بڑی رازداری سے نوازتے- اور ہماری خوش نصیبی ہے کہ یہ سلسلہ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب نے الحمدللہ اب تک  جاری و ساری رکھا ہواہے -

سوال:-

جناب صاحبِ صدر سے گزارش ہے کہ سلطان الفقر ششم کی تحقیق اشاعت کے حوالے سے کیا خدما ت ہیں اس پر روشنی ڈالیں؟

صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب:-

تحقیق اور اشاعت کسی بھی تحریک کی جان کی حیثیت رکھتا ہے ، ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتاہے ، کوئی بھی نظریہ ہمیشہ اپنے بنیادی لٹریچر پر قوت اور بنیاد پکڑتا ہے مثلاً دنیا بھر کے مسلمانوں کا جو بنیادی ماخذ ہے وہ قرآن اور سنتِ رسول ﷺ ہے جو ان کو چھوڑ کر پیچھے ہٹتا ہے اُس کے پلے کچھ نہیں رہ جاتا ، لوگوں کے اندر بنیادی کام قرآن و سنت کو راسخ کرناہے ، سلطان الفقر ششم اکثر یہ بیان فرماتے تھے قرآن و سنت کا عملی جو ہر اُن لوگوں نے اختیار کیا جو قرآن کے اندر غوطہ زنی کا ہنر جانتے تھے جیسے علامہ اقبال نے مسلمانوں سے بار بار شکوہ اس بات کا کیا ہے کہ تم قرآن خوان ہو قرآن دان نہیں ہو وہ اس لیے بار بار کہتے ہیں کہ

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلمان

اللہ کرے تجھ کو عطا جدتِ کردار

خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کردے

کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں

تجھے کتاب سے ممکن نہیں فروغ کہ تو

کتاب خواں ہے مگر صاحبِ کتاب نہیں

قرآن کے اند ر جو نہیں اترتا اُس کے فلسفیانہ موضوعات سے بڑھ کر جو مقصودِ قرآن ہے جو اُس تک رسائی حاصل نہیں کرتا ، علامہ اقبال ایسے مسلمان پر نوحہ کناں ہیں تو ان لوگوں کی جنہوں نے زندگی کی عملی گہرائیوں سے قرآن کو دیکھا جن کو صوفیاء، اہلِ تقویٰ، اہلِ یقین بھی کہتے ہیں انہوں نے قرآن کی جو تفاسیر  لکھی ہیں آپ فرماتے تھے کہ یہ ملت اسلامیہ میں وہ رُوح پھونک سکتی ہے جو اس وقت ہمارے درمیان بد عملی ، بے عملی کی فضا قائم ہے وہ اس جمود کو توڑ سکتی ہے ، تعطل کو توڑ سکتی ہے سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو کی کتب ‘ جو کہ قرآن کی وہ تفسیر ہے جو انسان کو اس کے باطن کی گہرائیوں تک آشنائی عطا کرتی ہے ، اس کیلئے آپ نے ملک بھر میں جہاں بھی جماعت قائم کی ان کتب کے درس کو مروج کیا اور آپ دیکھیے کہ جرمنی میں کانٹ نہیں مرا اس کی کیا وجہ ہے ؟اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی یونیورسٹیز میں ، ان کے تعلیمی اداروں میں بتکرار اس کو پڑھایا جاتا ہے ، آج بھی افلاطون اور ارسطو زندہ ہیں وہ کسی نے کہا تھا :

اُس پیالہ میں زہر تھا ہی نہیں

ورنہ سقراط مر گیا ہوتا

سقراط اس لیے زندہ ہے کہ اہل علم اور اہلِ فلسفہ نے بتکرار سقراطی نظریہ کو پیش کیا لیکن آج جو وہ Deserveکرتے ہیں وہ نہیں ہورہا ہے بحرحال پہاڑ اور گلہری سہی ،پرندہ اور جگنو ہی سہی، ماں کی فریاد سہی،ایک مکھڑا اور مکھی ہی سہی،بحرحال کہیں نہ کہیں اقبال کو پڑھا ضرور جا رہا ہے ، اقبال اس سوسائٹی میں موجود ہے ، اقبال کا رواج یہاں سے نکالا نہیں جاسکتا اسی طرح جو بھی دانشور چاہے وہ مذہبی ، سیاسی ، سماجی یا کسی بھی موضوع کا دانشور ہے جب تک اس کو بتکرار پڑھایا نہیں جاتا ا س وقت تک اس کی فکر کی آشنائی اور اس کے نظریہ کی ترویج اس معاشرے میں نہیں ہوسکتی اگر ہم یہاں یہ چاہتے ہیں سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو کا معاشرہ قائم ہو،وہ کس معاشرہ کا تصور دیتے ہیں وہ کہتے ہیں ؟

نال کوسنگی سنگ نہ کریئے کل نوں لاج نہ لائیے ھُو

تُمے کدی تربوز نہیں ہوندے توڑے توڑ مکے لے جائیے ھُو

کانواں دے بچے ہنس نہیں ہوندے بھانویں موتی چوگ چگائیے ھُو

کوڑے کھوہ نہیں مٹھے ہوندے باھُو بھانویں سے مناں گھنڈ پائیے ھُو

وہ یہ چاہتے ہیں کہ معاشرے میں کوئی کوسنگی نہ ہو ، وہ یہ چاہتے ہیں کہ معاشرے سے تموں کی فصل ختم کر دی جائے گی ، و ہ یہ چاہتے ہیں فضا میں کووں کا نہیں ہنسوں کا راج ہو، اور اس معاشرے کے جو کنویں کڑوے ہو چکے ہو ان کو میٹھا کیا جائے یا ان کو بند کرکے میٹھے کنوئوںکی تلاش کی جائے-یہ آئیڈیل سوسائٹی حضرت سلطان باھُو کا نظرمیںیہ ہے-اب یہ کس طرح Achieveکر سکتے ہیں جب تک تعلیمات ِ حضرت سلطان باھُو سے آشنائی نہ ہو-تو آپ نے جماعت دفاتر میں کتب حضرت سلطان باھُو اور سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی کتب کے درُوس شروع کروائے اور اس سے پہلے آپ جانتے ہیں کہ جو حضرت سلطان باھُو کی کتب تھیں یا تو مریدین نے ، جس طرح اللہ تعالیٰ نے امانت کو پاک پردوں میں لپیٹ کر انسا ن کے دل میں رکھ دی ہے تو اُن خلفاء نے ان کو پاک سنہری غلافوں میں لپیٹ کر صندوقوں کی تہوں میں رکھ دیاکہ یہ مقدس چیز ہے اگر اس کو باہر نکالیں گے خدا جانے بے ادبی ہوجائے گی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک سو چالیس میں صرف ۳۲ کتب دستیاب ہیں ، حضرت سلطان باھُو کی ۱۰۸ کتب ناپید ہیں ، وہ کہاں گئیں ؟ کسی کو معلوم ہی نہیں-ان کے اسماء، موضوعات، مباحث کیا تھے معلوم ہی نہیں ،خدا بھلا کرے میاں چنن دین کا جس نے اللہ والے کی قومی دکان سے حضرت سلطان باھُو کی جو خاص کتب اس نیک بخت کو ملیں ، وہ چاہے ناقص ترین ترجمے تھے لیکن اس نے دھڑا دھڑا مارکیٹ میں شائع کیے جس سے اہلِ علم لوگوں میں ایک چرچا ہوا کہ حضرت سلطان باھُو نے فارسی کتابیں بھی لکھی ہیں لیکن ان کے اند ر کیا بات تھی عامۃ الناس کو اُس کا پتہ ہی نہیں -تو سلطان الفقر ششم رحمۃ اللہ علیہ نے یہ کام کیا کہ یہ جوان نسل ہے اُس کو کتب حضرت سلطان باھُو کی تفہیم کیلئے آپ نے مبلغین تیار کیے، اس کا درس ہوتا تھا اور قرآن و سنت کی تعلیمات کو لوگوں کے باطن کو بیدار کرنے کیلئے پیش کیا ، پھر آپ نے ماہنامہ مرأۃ العارفین کو شرو ع کیا ، ابتدا میں تو یہ بڑی مخدوش حالت میں رہا سرپرست اعلیٰ اصلاحی جماعت نے خصوصی مہربانی فرمائی ، مَیں اسے اپنا Honourسمجھتا ہوں ، فخر سمجھتا ہوں او ریہ میری زندگی کا اعزاز ہے کہ مَیں اس رسالہ میں بطورِ خادم اور ورکر کام کر رہاہوں - اِس کے ایڈیٹر جناب طارق اسمٰعیل ساگر صاحب ہیں - مَیں بڑے وثوق سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ سب سے بڑا مذہبی مجلہ ہے اور تقریبا ً بعض مہینے یہ 89,000اور بعض مہینے 91,000تک کے سرکل میں یہ پرنٹ ہورہا ہے -یعنی تقریباً کم و بیش90,000پرنٹ ہوتا ہے- خدا جھوٹ نہ بلوائے ، مارکیٹ سے اس کی تصدیق کی جاسکتی ہے ، جہاں سے اس کا پیپر آتا ہے، پرنٹنگ ہوتی ہے - اگر آپ ماہنامہ کو دیکھیں میں نے گزارش کی تھی کہ جو عالمگیریت ہوتی ہے ، اس کو کسی سیاسی جماعت کا کارکن اٹھا کر پڑھ لے ، کسی کی دل آزاری بھی نہیں ہوگی  بلکہ اس کیلئے اِس میں درس ہوگا-اِس کو کسی مکتبہ فکر کا آدمی پڑھ لے کسی کی دل آزاری بھی نہیں ہوگی اور سب کیلئے کوئی نہ کوئی پیغام ہوگا-اس کو کسی مذہب کا آدمی پڑھ لے ، اُس کی دل آزاری بھی نہیں ہوگی اور اُس کیلئے سبق بھی ہوگا-اس لیے جب حضرت سلطان محمد علی صاحب نے اِس کا ریوائیول فرمایا تو اس کا سلوگن یہ تھا ’’ ہر طبقہ زندگی کیلئے اور ہر مکتبہ فکر کیلئے‘‘ چاہے کوئی کسی سماجی ،، سیاسی، مذہبی نقطہ نظر سے تعلق رکھتا ہے اس کے اندر کوئی Discrimination نہیں کی گئی یہ اُس وقت وہ مصلحانہ کردار ہے جو پوری سوسائٹی کو جوڑ رہا ہے - یہ وہ چند چھوٹی چھوٹی مثالیں ہیں جو حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب نے تحقیق و اشاعت کیلئے فرمائیں -اور تحقیق کے ضمن میں ایک آخری گزارش کروں جو حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کی کتب کے قلمی نسخہ جات ہیں ، حضرت سُلطان باھُو کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک نسخہ بھی موجود نہیں ہے ، جتنے بھی نسخہ جات ہیں وہ کم از کم حضرت سلطان باھُو کے انتقال کے اڑھائی سو سال بعد لکھے گئے ہیں تو اس کی صحت پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ، وہ پروفیشنل کاتبوں کے تو لکھے ہوئے نہیں ہیں وہ میرے جیسے فقیروں ، درویشوں کے لکھے ہوئے ہیں کوئی کتاب ملی بیٹھ کر لکھ لی چلو میں گھر لے جائوں گا،تو آپ نے فرمایا جب تک متن صحت مند نہیں ہے تو اس کا ترجمہ کیسے صحت مند ہوسکتا ہے ، اُس کیلئے جیسے ساگر صاحب نے کہا جو لوگ عربی اور فارسی بھی نہیں جانتے تھے آپ نے اُن سے عربی اور فارسی کا کام لیا - سید امیر خان نیازی اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے او ر کروٹ کروٹ ان پر رحمتیں نازل فرمائے وہ کیمسٹری کے طالب علم تھے انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ۱۹۶۰ ء میں ماسٹرز کیا تھا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے سید امیر خان نیازی صاحب کو اپنی خدمت میں رکھا اور فارسی زبان پر ان کی تربیت فرمائی اور فرمایا کوئی بھی ناتواں نسخہ سامنے رکھ آپ نے ترجمہ نہیں کرنا - کم از کم جس کتاب کے چار نسخہ جات آپ کے پاس موجود ہوں اس کتاب کا آپ نے ترجمہ کرنا ہے اور نیازی صاحب کس کرب سے گزرے،ان نسخہ جات کو ڈھونڈتے ہوئے ، موازنہ کرتے ہوئے ایک محقق ہی اس کرب کو سمجھ سکتا ہے کہ جہاں لوگوں نے اس کی کنجیاں گم کردیں اس لئے کوئی ان کتب کے نسخہ جات نہ لے لے وہ اُس خزانہ پر ناگ بن کر بیٹھ گئے نیازی صاحب نے ا ن سے وہ نسخہ جات نکلوائے ان کو سامنے رکھ کر متن تحقیق کیا اور صحت مندترجمہ کیا - مَیں بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ حضرت سلطان باھُو کے وصال کے تین سو سال بعد صحیح کام ان کتب پر شروع کیا وہ اصلاحی جماعت کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد ہی کیا گیا اور یہ تصوف میں اتنی بڑی خدمت ہے کہ بانی ٔ اصلاحی جماعت نے سید امیر خان نیازی صاحب سے لی - مَیں سمجھتاہوں کہ یہ ہمارے ذمہ ہے کہ ہم اس فکر کو آگے لے کر بڑھیں اوراُس تحقیق سے ہم استفادہ کریں -

خرد نے کہہ بھی دیا لا الٰہ تو کیا حاصل

دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں

ہم اپنے دل و نگاہ کو اُ س کاعامل بنائیں وہ صرف پڑھنے پڑھانے تک نہیں بلکہ اس سلسلہ کو آگے لے کر جانا چاہیے تاکہ اس خدمت کو Tributeپیش کیا جائے اور کسی بھی اہلِ ذکر سے آپ پوچھ لیں کہ اہلِ ذکر کو Tributeپیش کرنے کا کیا طریقہ ہے ؟ اہلِ مراتب کو Tribute پیش کرنے کا کیا طریقہ ہے ؟ وہ آپ کو یہی کہیں گے کہ اُن کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوجائیں -ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوجائیںاُن کو اِس سے بڑا خراجِ تحسین پیش ہی نہیں کیا جاسکتا کہ آپ اپنے آپ کو اُن کے نقشِ قدم پر لے کے آئے ہیں باقی آپ اگر کوئی تقریب منعقد کر لیں ، اُن کو یاد کرنے کا کوئی اور اہتمام کر لیں اُس کا اجر اور ثواب ضرور ہوگا لیکن مَیں اُسے خراجِ تحسین نہیں مان سکتا-خراجِ تحسین ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ہے -

طارق اسماعیل ساگر:-

حضور مَیں آپ کی اجازت سے دو فقروں کا اضافہ کرنا چاہوں گا-

آپ نے فرمایا کہ ماہنامہ مرأ ۃ العارفین ایک مذہبی جریدہ ہے مَیں سمجھتاہوں کہ اس سے بڑافکری ، سیاسی ، صحافتی اس وقت اتنی تعداد میں کوئی نہیں چھپ رہا، دیکھیے ہم نے جو سلطان العارفین نمبر شائع کیا ہے پنجاب یونیورسٹی بلکہ کسی بھی یونیورسٹی میں اِس لیول کا کام نہیں ہوا        ، کشمیر پر ہم نے جو کام کیا، اب فلسطین پر جو کام ہورہا ہے اس طرح جتنے بھی انٹرنیشنل مسلمانوں کے مسائل ہوتے ہیں آپ خصوصی طور پر اس پہ کام کروانے کا حکم دیتے ہیں اور اُس میں بہت خاص بات وہ یہ ہے کہ دنیا کا واحد یہ اردو جریدہ ہے جس میں ایک بھی فقرہ ایسا نہیں ہوتا جس پر کوئی مکتبۂ فکر اعتراض کر سکے -

سوال:-

میاں ضیاء الدین صاحب سے یہ جاننا چاہوں گا کہ سلطان الفقر ششم نے اپنی اولاد کی تربیت کیسے اور کیسی فرمائی؟

میاں محمد ضیاء الدین:-

ویسے تو آپ کے زندگی مبارک کے جتنے بھی ایام ہیں وہ سفر مبارک میں گزرے ہیں ، تحریکی ، تنظیمی کاموں میں ہی گزری ہے ، رات کے کافی حصہ شب بیداری میں گزارتے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنی اولاد کریم کی تربیت بھی فرمائی اور اُس تربیت کا رنگ کیسا تھا؟ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے حضور کی اس تربیت کے فیض کو دیکھ کر فرمایا

یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی

سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی

بچپن میں اولاد کا اپنے والد سے ایک لاڈ ، پیار ہوتاہے لیکن حضور کے تینوں شہزادگان صرف والد کی حیثیت سے ہی نہیں بلکہ مرشد کی حیثیت سے یہ بھی ہمارے لیے ایک رہنمائی تھی ، سفر مبارک پر جاتے تو اپنے شہزادگان کو ہمراہ لے جاتے ، اور سب سے پہلے آپ نے شہزادگان کو قرآن پاک کی تعلیم دی اور قاری نُور محمد صاحب بتاتے ہیں کہ سلطان الفقر ششم جب سفر مبارک سے واپس تشریف لاتے تو مجھ سے پوچھتے کہ آپ کے شاگردوں نے کتنا قرآن پاک پڑھ لیا ہے اس کے بعد قرآن کو سمجھنے کیلئے صرف و نحو، اصولِ فقہ ، اصولِ دین ، اصولِ حدیث کے قواعد و ضوابط پڑھانے کیلئے بہت ہی کم عمری میں ایک مشہور درسگاہ میں بھیجا -وہاں آپ نے دینی تعلیم مکمل کی -اصل یہ نگاہِ کرم کے فیصلے تھے

ذرے کو دیکھا تو زر کردیا

قطرے کو دیکھا تو دُر کردیا

آپ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی {یتلو علیھم اٰیتہ ویزکیھمویعلمھم الکتاب والحکمۃ}یہ چیز پوری کائنات کے ہر ہر فرد کو جو جتنا قریب ہوا آپ نے عطا فرمائی لیکن اپنی ذات کے اُس مشن کو ، اپنے اُس خلقِ محمدی ﷺ کے انعام کو ، فقرِ محمدیﷺ  کی امانت کو جس انداز میں اس کی تربیت کی اور اُس فقرِ محمدی میں ڈھالنے کے بعد اپنی زندگی کے آخری سال مبارک میں اپنے وصال سے  ۸ ماہ اور ۱۲ دن پہلے ۱۴ اپریل ۲۰۰۳ء کو سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کے مزار مبارک پر ، اپنے شہزادے ، محبوب طالب، محبوب مرید حضرت سلطان محمد علی صاحب کو لے جا کر وہ امانتِ فقر عطا فرمائی اور اُس سے واپسی پر یہ جملہ مبارک فرمائے کہ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ سے جو سینہ بہ سینہ جو امانتِ فقرِ محمدی ﷺ  میرے مرشد کریم شہبازِ عارفاں حضرت سلطان محمد عبدالعزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے عطافرمائی تھی وہ اب مَیں حضرت سلطان محمد علی صاحب کومنتقل کرتا ہوں اور ساتھ ہی یہ ارشاد فرمایا کہ اصلاحی جماعت ، آستانہ مبارک اور آستانہ مبارک کہ جملہ امور اور گھوڑوں کے انتظام و انصرام کی ڈیوٹی یا مرأ ۃ العارفین یا دیگر جتنے بھی امور ہیں ان تمام کی ذمہ داری حضرت سلطان محمدعلی صاحب کے سپرد کرتا ہوں - اور سب کو حکم ِ عام فرمایا کہ آج کے بعد حضرت سُلطان محمد علی صاحب کو بالکل اُسی طرح سمجھنا ہے جیسے میں خود ہوں ، اِن کا حکم میرا حکم ہوگا اور ان کی بیعت میری بیعت ہوگی اِن کا کہیں جانا میرا جانا ہوگا اِن کی نافرمانی میری نافرمانی ہو گی -

اور میں سمجھتاہوں کہ آپ کے سامنے یہ کیفیات ہیں کہ ۲۰۰۳ء کے بعد جہاں پر میرے مرشد کریم نے جو آرگنائزیشن فرمائی تھی اُس کو جانشینِ سلطان الفقر نے اس طرح لیا کہ جیسے وہ لوگ جو سال بعد آتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہاں پورا سسٹم تبدیل ہوگیا ہے آپ نے دن رات محنت کر کے حالانکہ آپ کا لڑکپن تھا لیکن اُس تربیت کا رنگ ، اُس فقرِ محمدی ﷺ  کا جمال اس طرح ظہور پذیر ہوا کہ آپ دیکھ لیں صرف ملکِ پاکستان ہی نہیں دنیا کے تقریباً اٹھارہ ممالک میں اصلاحی جماعت کام کر رہی ہے تو یہ سب سلطان الفقر ششم نے اپنے شہزادگان کی جو تربیت فرمائی ، ان کو فقرِ محمدی ﷺ  کی امانت عطا فرمائی اس امانت فقرِ الٰہی کا یہ ثبوت ہے آج ہمارے درمیان جانشین سلطان الفقر کی یہ کوشش ، یہ نگاہِ کرم اُسی طرح جاری ہے بلکہ انشاء اللہ یقینِ محکم ہے میرے محبوب کریم کی وہ حدیث مبارک مکمل ہوگی کہ ’’ کائنات کے اندر کوئی ایسا مکان ، کوئی جگہ نہ ہوگی جہاں کلمۃ رسول کی صدا نہیں پہنچے گی ‘‘ بلکہ مرشد کامل کی مہربانی سے

زبانی کلمہ ہر کوئی پڑھدا دل دا پڑھدا کوئی ھُو

دل دا مینوں مرشد پڑھایا باھُو مَیں سدا سہاگن ہوئی ھُو

تو میں اپنے تمام احباب سے یہ اپیل کروں گا کہ آج ہم پھر اس نوائے فقر کے ذریعے قرآن و سنت پر عمل کرنے کیلئے جانشین سلطان الفقر کی قیادت میں اپنا ہر لمحہ گزاریںتاکہ ہمارا وجود قرآن و سنت کے مطابق عمل پیرا بھی ہو سکے- اللہ تعالیٰ ہمیں جانشین سلطان الفقر کی غلامی میں خدا اور اُس کے رسول ﷺ اور سلطان الفقر ششم کے احکامات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے-

سوال:-

 سلطان الفقر ششم بیماری کی حالت میں ہوتے تو ضروری بات ہے کہ لوگ بیمار پُرسی کے لئے حاضر ہوتے تو اُن لوگوں کیساتھ کیسی گفتگو فرماتے تھے؟

ڈاکٹر رفاقت سلطان وٹو:-

چونکہ آپ کا رویہ ہر معاملہ میں ایک ’’سپر ہیومین‘‘ کا تھا اور عام لوگوں سے بالکل مختلف تھا تو جب ظاہری طور پر تکلیف میں ہوتے اور لوگ عیادت کیلئے حاضر ہوتے تو آپ کی طبیعت مبارک سے ، گفتگو سے قطعاً کوئی تکلیف کااظہار نہیں ہوتا بلکہ اسی طریقہ سے لوگوں کی تسلی اور تشفیع فرماتے اور اسم اللہ ذات کی گفتگو اور مشن جاری رکھتے-تو بطورِ معالج میری یہ ڈیوٹی لگائی گئی ہے کہ عام طور پر مریض شکایت کرنے میں ، دوائی کو ناقص کہنے میں اور معالج کی مخالفت کرنے میں بہت جلدی کرتے ہیں تو آپ چونکہ ہر لحاظ سے شکر گزار تھے تو جتنی بھی آپ کو تکلیف ہوتی پھر بھی آپ ایسی پریشانی ظاہر نہ کرتے بلکہ مکمل صبر سے اس کو برداشت کرتے -

صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب :

مَیں اِس میں ایک گزارش کردوں ساگر صاحب نے صاحبِ لولاک میں اس بات کو لکھا ہے کہ ۲۶ دسمبر ۲۰۰۳ء کو ڈیرہ اسما عیل خان کے سول ڈسٹرکٹ ہسپتال میں آپ کا انتقال ہوا تو اسی رات کو وہاں کچھ لوگ ملاقات کیلئے آئے تو آپ نے ان کیساتھ مختصر سی گفتگو فرمائی یعنی ICUوارڈ میں ایک مریض کتنی گفتگو کرسکتا ہے ، اس مختصر گفتگو کے نتیجے میں اُس شخص نے تصورِ اسم اللہ ذات کی طلب کی جس کی آپ نے تلقین فرمائی ہے - زندگی کی آخری رات میں ICU  وارڈ میں اس آدمی کو تصورِ اسم اللہ ذات کا طریقہ عطا فرمایا- اس بات سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ چاہے آپ حالتِ بیماری میں تھے ، حالت سفر میں ہیں ، خوشی میں ہیں ، غم میں ہیں ، جس بھی کیفیت میں ، جہاں بھی اور جیسے بھی ہیں آپ نے اس بنیادی پیغام کو استقامت کے ساتھ جاری رکھا اور تصور اسم اللہ ذات کی دعوت ہر ایک کو بلا تخصیص فرماتے تھے-

سوال:-

سلطان الفقر ششم نے اپنی پوری زندگی میں سب سے زیادہ کس چیز پر زور دیا ہے؟

الحاج محمد نواز صاحب:

الحمد للہ جب سے یہ جماعت بنی ہے تب سے مجھے خدمت کا موقع نصیب ہے اس سے پہلے جب میں پہلی مرتبہ دربار حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ پر شہبازِ عارفاں حضرت سلطان محمد عبدالعزیز صاحب کی بارگاہ میں صرف زیارت کیلئے آیا تھاتو پہلے ہی دن آپ سرکار نے اسم اللہ ذات عطا فرمایا - چونکہ آپ سلطان الفقر ششم زیادہ تر سفر میں ہی رہتے ، جہاں جاتے ، جہاں بیٹھتے وہاں حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات کے حوالے سے گفتگو ہوتی اور آنے والے ہر ساتھی کو اسمِ اعظم عطا فرماتے -

ایک دفعہ ایک ایسا آدمی جو آپ کا مرید نہیں تھا جب وہ آیا تو آپ نے پوچھا کیسے آنا ہوا؟تو کہنے لگا بس جی زیارت کیلئے آیا ہوں ، فرمایا اچھا آپ زیارت کیلئے آئے ہیں تو ہماری طرف سے حضرت سلطان باھُو کا تحفہ (اسم اللہ ذات)لے جائیںتو آپ نے اس شخص کو بغیر مانگے اسم اعظم عطا کیا -

اسی طرح ایک دفعہ آپ بیمار تھے اور لاہور کے ایک ہسپتال (CMH) میں تقریبا ایک ہفتہ زیرِ علاج رہے تو جب ڈسچارج ہوئے تو وہ ڈاکٹر صاحب جو آپ کے معالج تھے وہ ملنے کیلئے آئے تو آپ نے تقریبا ایک گھنٹہ اسم اللہ ذات کے حوالے سے ان سے گفتگو فرمائی- آپ اکثر فرماتے کہ مرشد کامل کا کام بھی یہی ہے کہ وہ اپنے طالب کو اسمِ اعظم عطا کرے ‘‘ تو مجھے جماعت میں رہتے ہوئے یہی سمجھ آئی کہ اسم اعظم اور انسان کا آپس میں کتنا گہرا تعلق ہے ؟ جس طرح گاڑی اور چابی کا آپس میں کیا تعلق ہے؟کہ چابی کے بغیر گاڑی سٹارٹ نہیں ہوتی ، دودھ اور جاگ کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ کہ جاگ کے بغیر دہی حاصل نہیں ہوسکتی ، اسی طرح انسان اور اسمِ اعظم لازم ملزوم ہیں - آپ کی بارگاہ میں کوئی بھی آیا چاہے وہ مرید تھا یا نہیں آپ کی بارگاہ سے اسم اللہ ذات ضرور لے کر گیا-آپ نے ساری زندگی اللہ کے نام کا ذکر بتانے میں گزاری-

سوال:-

سلطان الفقر ششم کی حیاتِ مبارکہ میں دورِ حاضر کے نوجوانوں کیلئے کیا پیغام ہے؟

رانا تجمل حسین صاحب:

میں نے اپنے مرشد پاک کی سحر انگیز شخصیت کو دیکھا اور محسوس کیا مَیں سمجھتا ہوں کہ مرشد پاک نوجوانوں میں وہ لگن اور تڑپ دیکھنا چاہتے تھے جس سے وہ اللہ اور اس کے رسول کے بتائے طریقے کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھال کر اور اقبال کے شاہین بن کر وہ پرواز کریں جس سے فکرِ اقبال میں ڈوب کر اپنے آپ کو اقبال کے شاہین ثابت کریں اورا سلام کو ایک عالمگیر مذہب ہونے کے ناطے ، اس ملک ،قوم اور پیارے وطن پاکستان کو عظیم سے عظیم تر بنانے کیلئے اپنی جوانیاں اور طاقت صَرف کریںاور پاکستان کو اس کی منزل تک لے کر جائیں چونکہ پاکستان مدینہ ثانی ریاست ہے اور اس کو تاقیامت قائم رہنا ہے ، اس کے نوجوانوں کے کندھوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے اس وطن کی تعمیر کیلئے اپنی سوچ، فکر اور ذہن کو پاک و مبرأ رکھیں کہ انہیں منزل تک پہنچنے میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے اور یہی سلطان الفقر ششم کی خواہش تھی-

سوال:-

سلطان الفقر ششم کے مریدین کی امتیازی خصوصیت کیا ہے؟

جواب:-

صاحبز ادہ سلطان احمد علی صاحب:-

حاجی صاحب نے اس سے پہلے جو جواب دیا تھا کہ جماعت کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ تو اس میں انہوں نے یہ بتایا کہ لوگ دنیا و آخرت کی دعوت تو دیتے ہیں لیکن جو مقصدِ حیات ہے ، اللہ تعالیٰ کی ذات کو پانا اُس کی دعوت بالکل مفقود تھی تو آپ نے اس دعوتِ کے پیشِ نظر اس جماعت کو قائم کیا اور آپ کے مریدین کی بہت سی امتیازی خصوصیات ہیں

(۱) ایک خصوصیت یہ ہے کہ آ پ نے اُن کو طالبِ مولیٰ بنایا -

(۲) د وسری خصوصیت جب تنظیم العارفین کا نام رکھا جارہا تھا تو تجاویز پیش کی جارہی تھیں تو آپ نے فرمایا ’’ عارفین‘‘ کا لفظ ضرور آنا چاہیے اِس سے آگے یا پیچھے جو مرضی لگا دیں چونکہ اللہ کے ولی کا کوئی بھی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا یہ ایک محاورہ ہے اور اس محاورہ کی اگر آپ شرح دیکھنا چاہیں تو آپ سورۃ الکھف میں حضرت خضر علیہ السلام کے عمل کو دیکھیں قرآن کے یہ الفاظ ہیں کہ جو اللہ کے خاص بندے ہوتے ہیں اس کا کوئی بھی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا - اب آپ کے اس کام کی حکمت کیا تھی؟طالب مولیٰ مریدین کو ترقی دیتے ہوئے {من طلبنی فقد وجدنی}جو اللہ تعالیٰ کی طلب کرتا ہے وہ اس کو پالیتا ہے {وجدنی عرفنی }جو اس کو پالیتا ہے وہ اس کو پہچان لیتا ہے - یعنی ان کو مقامِ معرفت نصیب تھا گویا وہ عارف تھے یعنی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ عارفِ مولیٰ تھے-

(۳) اور تیسری خصوصیت یہ ہے کہ آپ کے مریدین میں جمود و تعطل نہیں ہے - یہ ہمارے ہاں جو خاص قسم کا تصوف رائج تھا جس میں جمودو تعطل تھا،جس کی ترجمانی ہمارے ہاں اردو اور فارسی شاعری میں بھی کی گئی غالب نے بھی کہا کہ

٭غم ہستی کا اسدؔ کس سے ہو جز مرگ علاج

شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک

٭ڈھانپا کفن نے داغِ عُیُوبِ برہنگی

مَیں ورنہ ہر لباس میں ننگِ وجود تھا

٭قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں

موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں

٭میں چاہا تھا کہ اَندُوہِ وَفا سے چھُوٹوں

وہ ستم گر مِرے مَرنے پہ بھی راضی نہ ہوا

تو یہ کیوں اپنی عافیت کفن میں سمجھتا ہے؟ وہ کیوں اپنی موت میں عافیت سمجھتا ہے؟کیا موت کے علاوہ انسان کے پاس کوئی چارہ نہیں؟اقبال اس لیے کہتے ہیں:

گریز کشمکشِ زندگی کی مردوں سے

اگر شکست نہیں ہے تو اور کیا ہے شکست!

کشمکشِ زندگی سے نہ ٹکرانا اقبال کے نزدیک یہ موت ہے اور کشمکشِ زندگی سے ٹکرانا یہ اقبال کے نزدیک زندگی ہے اقبال کا ایک شعر ہے اقبال کے کسی مجموعۂ کلام میں شامل نہیں اس کو جسٹس اقبال نے زندہ رُود میں شامل کیا ہے-کہ حضرت اقبال سلطان ٹیپو کے مزار پر حاضری دے کر باہر نکلے، آپ کو یہ علم ہونا چاہیے کہ علامہ اقبال صاحبِ حضور ی عارف باللہ تھے اور جس بھی زندہ مزار پر جاتے وہاں ان کے ساتھ دعوت و مراقبے کے ذریعے کلام فرماتے اب وقت بہت کم ہے پھر کبھی انشاء اللہ پوری گزارش کروں گا ،تو رُوحانی طور پہ اقبال بہت کم سالاروں اور جرنیلوں سے متأثر ہوئے ہیں جتنے وہ رُوحانی طور پر سلطان ٹیپو سے متأثر ہوئے اور اقبال کی ایک نظم ’’ سلطان ٹیپو کی وصیت‘‘ مجھے کہیں سے کوئی مؤرخ یا محقق ثابت کر کے دے دے کہ سلطان ٹیپو کی وہ وصیت ان کے کسی خط یا کسی اور جگہ موجود ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ

تُو رہ نوردِ شوق ہے منزل نہ کر قبول

لیلیٰ بھی ہمنشیں ہو تو محمل نہ کر قبول

کھویا نہ جا صنم کدۂ کائنات میں

محفل گداز ، گرمی ٔ محفل نہ کر قبول

باطل دوئی پسند ہے حق لا شریک ہے

شرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول

صبح ازل یہ مجھ سے کہا جبرائیل نے

جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول

آپ مجھے بتائیں کہ یہ کس طرح سے ہندوستان کے جرنیل کی شاعری یا وصیت لگتی ہے بلکہ یہ ایک مردِ خود آگا ہ کی وصیت ہے اور ٹیپو سلطان صرف جرنیل نہیں بلکہ مردِ خود آگاہ تھا اور اقبال جب ان کی قبر پر حاضر ہوئے تو انہوںنے مراقبہ کیا اور باہر جب آئے تو اقبال بڑی کیفیت میں تھے تو لوگوں نے ان سے پوچھا کہ سلطان ٹیپو سے آپ کا کیا مکالمہ ہوا تو اقبال نے فارسی کے کچھ اشعار کہے جس کا ایک شعر یہ ہے جو اختتامیہ تھا کہ ٹیپو سلطان نے مجھے یہ کہا ہے کہ

در جہاں نتواں اگر مردانہ زیست

ہمچوں مرداں جاں سپردن زندگیست

کہ دنیا میں اگر مردوں کی طرح زندہ رہنا ممکن نہیں ہے پھر مردوں کی طرح لڑتے ہوئے مرجا نا زندگی ہے-

تو بانی ٔ اصلاحی جماعت کے مریدین کی جو خصوصیت ہے جو ان کا طرۂ امتیا ز ہے ، جو ان کی امتیازی حیثیت ہے وہ یہ ہے کہ وہ کشمکشِ زندگی سے جو ہندوستانی تصوف تھا اس کے تحت وہ حالات سے سمجھوتہ نہیں کرتے وہ اس کشمکش زندگی سے گریز نہیں کرتے بلکہ وہ اُس پرچم کو تھامے ہوئے ہیں اور اپنے آپ کو اللہ کا مجاہد تصور کرتے ہیں اور یہ ڈاکیومینٹری میں بھی بتایا گیا ہے کہ جو پیری مریدی یہ نفس کیلئے آسان اور تسکین بخش ہے اور جو راہِ فقرِ محمدی ہے یہ آزمائشوں سے بھرا ہواہے- تیسری خصوصیت کو سمرائز کرتے ہوئے یہ کہنا چاہوں گا کہ مریدینِ سُلطان الفقر ششّم اللہ کے مجاہد ہیں -

(۴) اور چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ اپنے اندر وہ ایک تڑپ رکھتے ہیں وہ اعلیٰ سطح کی فکر اور سوچ رکھتے ہیں جسے اقبال نے کہا تھا کہ

؎فقر کا مقصود ہے عفتِ قلب و نگاہ

سلطان الفقر ششم کے مریدین عفت قلب و نگاہ پر خود بھی عمل پیرا ہیں اور لوگوں کو بھی اس کی دعوت دیتے ہیں یعنی داعی الی اللہ ہیں -یہ وہ خصوصیات مجھے نظر آتی ہیں یعنی (۱) طالبِ مولیٰ ، (۲) عارف با اللہ ، (۳) مجاہد فی سبیل اللہ اور (۴) داعی الی اللہ - جو اس وقت ہندوستان تو کیا دنیا بھر کے خانقاہی نظام کے اندر آپ کو تربیت کا ایسا ماڈل نظر نہیں آئے گا جو بانی ٔ اصلاحی جماعت نے قائم فرمایا ہے -

سوال:-

 سلطان الفقر ششم کے آستانہ عالیہ پر ایک شاندار مسجد تعمیر کی گئی ہے جو آپ رحمۃ اللہ علیہ کے جمالیاتی ذوق کا منہ بولتا ثبوت ہے آپ ایک تعمیری اور تکنیکی حوالے سے کیسے دیکھتے ہیں ؟

جواب:-

میاں ضیاء الدین صاحب:-

 سلطان الفقر ششم کی حیات مبارکہ کے ایک ایک پہلو میں ہزاروں اَسرار و رموز چھپے ہوئے ہیں تو مسجد کی تعمیر بھی ایک بہت بڑا موضوع ہے بڑی بڑی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں ، مسجد کی تعمیر کیلئے تمام میٹریل پر بڑی خصوصی نگرانی فرماتے حتیٰ کہ کچھ پتھر مبارک خریدنے کیلئے آپ کراچی تشریف لے گئے اور مارکیٹ Visitکر کے خود خرید کر لائے، اسی طرح دومینار مبارک جو آپ کو پسند نہیں تھے جن پر خطیر رقم خر چ ہوچکی تھی اس کو نہ دیکھا بلکہ مسجد کے ساتھ، اللہ کے گھر کے ساتھ محبت کا جو تقاضا تھا اس کو غالب کر کے مینار شہید کرواکر دوبارہ تعمیر کروائے- اکثر انجنینئرز اوردانشور لوگ جب آتے ہیں تو مسجد کی زیب و آرائش اور تعمیر کو دیکھ کر ورطۂ حیرت میں ڈوب جاتے ہیں ، لاہور کے ایک ریٹائرڈ سول انجینئر جب وہاں تشریف لائے تو وہ سَر پکڑ کر بیٹھ گئے کہ اس مسجد کو ڈیزائن کس نے کیا ہے؟اس کی ایک ایک چیز کمال کی بنی ہوئی ہے تو ہم نے اسے بتایا کہ یہ کسی آرکیٹیکچر نے نہیں بلکہ سلطان الفقر ششم نے خود ہی ڈیزائن فرمائی ہے - مرشد اکمل ہونے کی حیثیت سے دیکھیں تو آپ اپنی مثال آپ ہیں یا پھر وہی رنگ جانشین سلطان الفقر میں موجود ہے -اگر ہمارے سے کوئی ایک اینٹ بھی ادھر اُدھر لگ جائے تو ہم اس کے جوابدہ ہوتے ہیں ، جانشین سلطان الفقر خود مسجد کا Visitفرما کر ہمیں اس کی ایسی رہنمائی فرماتے ہیں کہ آرکیٹیکچر بھی حیران ہوجاتے ہیں یعنی آج بھی وہ جمالیاتی رنگ دیکھنے کے لئے موجود ہے جس کو سلطان الفقر ششم اللہ کے گھر کا جمالیاتی رنگ دیکھنا چاہتے تھے-ایک اور انفرادی حیثیت یہ بھی ہے کہ مسجد کی تعمیر میں کہیں بھی اینٹوں کو استعمال نہیں کیا گیا بلکہ پتھر سے تیار کی گئی ہے -کیونکہ اینٹ کی ایک لائف ہے اور پتھر کسی بھی موسمی اثرات ، پانی وغیرہ سے ڈسٹرب نہیں ہوتا اورمسجد کی تعمیر کیلئے پتھر بھی وادی سون کی ایک خاص جگہ سے Selectکیا گیا ہے اور اس پتھر میں آج سے تین سو سال پہلے حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ کا ایک رنگ بھی موجود ہے غالباً اس لیے اس پتھر کو Selectکیا گیا ، اسی طرح اس کی بنیادیں اور ہائٹ کو اس طرح سے رکھاکیا جس کی مثال نہیں ملتی - آرمی کے ایک کرنل صاحب وہاں تشریف لائے تو جب انہوں نے مسجد کی ہئیت کو دیکھا تو وہ ہم سے لڑنے لگ گئے کہ آپ حضرت صاحب کی اتنی زیادہ رقم مسجد کی تعمیر پر ضائع کر رہے ہیں کہ اس کو آپ نے ۲۰ منزلہ تیار کرنا ہے کہ اتنی بھاری بنیاد بنا رہے ہیں کہ نہیں جناب ہمیں جو پہلے حکم ہوا تھا وہ اس سے بھی زیادہ ہے کہ آپ دیکھیں کہ نیچے پتھر کی بہت بڑی دیوار جس کو زمین میں کافی گہرائی تک لے جایا گیا ہے اور اس کی منزل ایک ہی ہوگی-ہمیں اس بات کا کوئی علم نہیں کہ یہ اتنی مضبوط کیوں بنائی جارہی ہے - یہ ساری سلطان الفقر ششم نے Deciedفرمائی ہیں جو کہ آج آرکیٹیکچرز کیلئے ایک نمونہ ہے اگر اس کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اس میں ہزاروں اسرار تعمیرات کے حوالے سے مخفی ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں ان کو سمجھنے کی توفیق دے-اور آپ کے اس جمالیاتی رنگ میں ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے -اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہ مسجد کی تعمیر میں آپ نے خود بھی حصہ لیا اور ہمیں بھی اس میں شامل ہونا چاہیے-

سوال:-

ڈاکٹر صاحب آپ سلطان الفقر ششم کی شخصیت میں بطورِ معالج کیا دیکھتے ہیں جو آپ کو دیگر لوگوں میں نظر نہیں آتا؟

جواب:-

ڈاکٹر رفاقت سلطان وٹو:-

عام لوگ بے صبرے ہوجاتے ہیں لیکن حضرت صاحب ایک صبر شکر کا ایک نمونہ تھے جو ہمارے لیے بھی ایک نمونہ ہے - اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس پہلو میں آپ کی متابعت کرنے کی توفیق دے- 

ٓٓٓٓٓآڈئینس سے لئے گئے سوالات اور جوابات:

طارق اسمٰعیل ساگر صاحب سے سوال ہے کہ آج سے ۳۰ ، ۴۰ سال پہلے علم کا اتنا عروج نہیں تھا ، دینی اور دنیاوی دونوں علوم بہت کم تھے او ر آج جبکہ ان دونوں علوم میں بہت ترقی ہے لیکن اس وقت برائی بہت کم تھی اور آج بہت زیادہ ہے اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے-؟

جواب:-

بنیادی طور پر تو یہ سوال صاحبِ صدر سے کرنا چاہیے تھا میری تواتنی اوقات نہیں پھر بھی اپنی عقل کے مطابق جواب دیتا ہوں کہ آج کل علم تو نہیں بلکہ انفارمیشن کا دور ہے وہ جو علم تھا وہ ایک نالج تھا جیسا کہ حضور فرما رہے تھے کہ حضرت سلطان باھُو کی ۱۰۸ کتب دنیا میں موجود ہی نہیں ہیں - آج کل ایک لفظ استعمال کیا جاتا ہے Exclusiveیعنی کوئی تحقیق نہیں بلکہ ہر چیز کا فالو اپ نکال کر اس کو بیان کردینا - اور دوسری بات کہ برائی بہت کم تھی تو اس کی وجہ یہ ہے لوگ اللہ والوں کی صحبت سے فیض حاصل کرتے تھے ، لوگ اولیاء اللہ کی خدمت میں بیٹھ کر ان سے سیکھتے تھے ،بر صغیر میں بہت بڑا خانقاہی نظام تھا -تو اب جو علم دینے والے ہیں مَیں معافی چاہتاہوں اگر آپ سٹوڈنٹ ہیں تو آپ کو بھی پتہ ہوگا اور مَیں تو بہتر طریقے سے جانتا ہوں کہ یہاں پی ایچ ڈی کیسے ہوتی ہے یا ایم فل کیسے ہوتے ہیں ؟کیونکہ مَیں خود ماسک کمیونیکشن میں پڑھاتا رہاہوں تو اس لیے یہ ایک نام نہاد علم ہے - کئی ایسی چیزیں ہیں جس کو ہم نے اپنے دماغ سے عجیب و غریب قسم کا رنگ دے دیا ہے ، یعنی ان کو اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق حل کرنا چاہتے ہیں علم تو بہت پیچھے رہ جاتا ہے یہ تو ہماری خواہشات ہیں جنہوں نے ہمیں بے چینی میں مبتلا کردیا ہے - یہ جو سلطان الفقر کی تعلیمات ہیں ، انسان کا تعلق اللہ سے جوڑنے کی با ت کرتے ہیں -ان تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر ایک اچھا معاشرہ تعمیر کیا جاسکتا ہے جس سے برائی کا جڑ سے خاتمہ ممکن ہے-

صاحب صدر سے سوال ہے کہ سلطان الفقر کیا ہے اور فقر اور سلطان الفقر میں کیا فرق ہے؟

جواب:-

 فقر ایک بادشاہت ہے سلطان الفقر اس بادشاہت کا بادشاہ ہے جو فقر ہے ایک اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے وہ تحفہ ہے نبوت کے بعد جس کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے رسول اللہ ﷺ  آپ کی ذات گرامی کے مقامات ہیں ایک حضورکا مقام نبوت اور ایک حضور کا مقام فقر ہے جو نبوت کا دروازہ ہے وہ رسول اللہ پہ بند ہو گیا حضور کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا جو فقر کا دروازہ وہ رسول اللہ سے کھلا آپ فراتے ہیں{ الفقر و فخری والفقر منی }فقر میرا فخر ہے کیوں فقر مجھ سے ہے فقر میرے اندر کا نور ہے تو علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ بھی فقر کے متعلق رسول پاک ﷺ کی ذات گرامی کو مخاطب کر کے یہ گزارش کرتے ہیں کہ

فقرِ تو سرمایۂ ایں کائنات

از تُو بالا پایۂ ایں کائنات

کہ آپ کا جو فقر ہے وہ اس پوری کائنات کا سرمایہ ہے، آپ کے فقر کی وجہ سے اس کائنات کاجو پایا ہے وہ قائم ہے یہ کائنات اپنی جگہ پہ قائم ہے اور جو فقر ہے یہ ایک اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک روحانیت کا وہ مقام آخری ہے کہ جس کو مقام فقرنصیب ہے جاتا ہے وہ اپنی زندگی کے تمام تر منازل طے کر جاتا ہے اور سلطان الفقر ہے اس کی جو تشکیل ہے وہ حضرت سلطان باھُونے اپنی تصنیف مبارک رسالہ روحی میں فرمائی ہے کہ سلطان الفقر کی تخلیق کس طرح سے ہوئی ہے اور کس طرح سے ہوتی ہے تو سلطان الفقرأ دنیا میں سات تشریف لانے ہیں -اس میں دوسری گزارش یہ ہے کہ جو مقاصد فقر ہیں ، جو بھی سلطان الفقر دنیا میں آیا ہے ، فقر کو آپ سمجھ لیں کہ یہ کلیم اللہی کا مقام ہے اور جو سلطان الفقر ہوتا ہے وہ کلیم ہوتا ہے جس کے ہاتھ میں اللہ تعالیٰ اُس وقت کی عصابھی عطا فرماتے ہیں ، جو اُس وقت کے سامریوں کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے - جسے اقبال نے کہا تھا کہ

نہ ستیزہ گاہِ جہاں نئی نہ حریفِ پنجہ فگن نئے

وہی فطرتِ اسد اللہی وہی سنتری وہی منتری

نہ تو یہ میدان نیا ہے نہ اس میں بر سرِ پیکار باہم دگر و متحارب و متصادم قوتیں نئی ہیں ، یہاں دشمن بھی وہی ہیں اور بر سرِ پیکار قوتیں بھی وہی ہیں تو جو صاحبِ وقت ہوتا ہے وہ اُس وقت کے اُن سامریوں کے سامنے وہ عصائے موسیٰ لے کر کھڑا ہوتا ہے جسے اقبال کہتے ہیں کہ

؎ عصا نہ ہو تو کلیمی ہے بے کارِ بنیاد

تو اس طرح کی جو تحریکیں ہوتی ہیں وہ اُس فقر کے اندر سے اٹھتی ہیں تو یہ فقر اور سلطان الفقر کا باہمی تعلق ہے اور حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتب میں اِس کی بڑی وضاحت فرمائی ہے جس کی ایک لمبی تفصیل ہے ، مَیں مختصراً آپ کو یہ عرض کر دوں کہ سلطان الفقر کی جو اصطلاح ہے یہ حضرت سلطان باھُو کے علاوہ کسی بھی اور صوفی نے استعمال نہیں کی ، دیگر صوفیاء نے اِس کو سلطان الولایت کا نام دیا ہے ، اِس طرح اور اصلاحات ایجاد کی ہیں جو سلطان الفقر کی اصطلاح یہ صرف حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ نے استعمال کی ہے -

 میرا نام حسن رضا ہے ، آرکیٹیکچر کا سٹوڈنٹ ہوں میرا سوال میاں ضیاء الدین صاحب سے ہے کہ حضور سلطان الفقر کی آرکیٹیکچر کے حوالے سے جو گفتگو ہوئی ہے، ہم سٹوڈنٹس کیلئے جو کچھ انگریزوں نے لکھا ہے ہم وہی پڑھ رہے ہیں ، کیا اس طرح کی چیزوں کا بھی اہتمام کیا گیا ہے کہ تعمیرات کے حوالے سے ہمارا جو وِرثہ ہے ہم اس کو حاصل کر سکیں؟

جواب:-

صاحبزادہ سُلطان احمد علی صاحب :-

میاں صاحب کی اجازت سے اس کا جواب عرض کرنا چاہوں گا- مختصراً عرض کروں گا کہ جدید دُنیا میں اس کا کافی کام ہوا ہے ، مَیں یا میری ٹیم میں سے کوئی بھی اس میں ٹیکنیکل نہیں ہے جو اس پر کوئی چیز لکھ سکے ، اس میں ہم چاہیں گے کہ آپ جیسے نوجوان آگے آئیں اور اس آرکیٹیکچر پر باقاعدہ تھیسز لکھے جانے چاہییں ، اس چیز کی بڑی ضرورت ہے لیکن اس میں جو بہت خوبصورت کام ہے وہ ’’ اسلامک ٹیکسٹ سوسائٹی آف کیمرج نے کیا ہے جہاں مارٹن لنکس موجود تھے انہوں نے اس پر بہت خوبصورت کام کیا اور انہوں نے اس پر ایک ڈاکیومینٹری بنائی ہے جس میں چار حصوں میں انہوںنے اسلام کا تعارف کروایا ہے ، عقیدہ کا، آرکیٹیکچر کا، فنونِ لطیفہ کا اور علوم کا - یہاں پر اقبال اکیڈمی نے اس کا اُردو میں ترجمہ کیا ہے میرا خیال ہے کہ اُس میں اسلامک آرکیٹیکچر کو اس کے خدو خال کے جس خوبصورتی سے انہوں نے بیان کیا ہے اس میں انہوں نے ہمارے پورے تاریخی ضابطے کو بیان کیا ہے ، وہ اسلامک آرکیٹیکچر کو سمجھنے کیلئے بڑی مفید ثابت ہوسکتی ہے اور جو سلطان الفقر کے آرکیٹیکچر کے حوالے سے بات ہے مَیں یہ گزارش کروں گا آپ یا جس طرح اور بھی حضرت سلطان باھُو کی خانقاہ ہے ، حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب نے آرکیٹیکچر کے حوالے سے جو خوبصورت کام فرمایا ہے اس پر بڑا ایک تحقیقی کام کیا جاسکتا ہے اور آپ جیسے ٹیکنیکل لوگ زیادہ بہتر طریقے سے دوسرے لوگوں کو Explainکر سکتے ہیں اور میرا خیال ہے کہ آئندہ اگر اس پر ڈیبیٹ ہوگی تو مجھے بڑ ا یقین ہے کہ حسن رضا پینل میں ہوں گے جو تعمیرات سے متعلّق سوالات کا جواب دیں گے-

سوال:-

سوال کے دو حصے ہیں ایک تو یہ کہ لوگ تصوف پر اعتراض کرتے ہیں اور دوسرا یہ کہ لوگوں کو ہم تصوف کی طرف کس طرح لاسکتے ہیں؟

جواب:-

صاحبزادہ سُلطان احمد علی صاحب : -

جہاں تک تصوف پر اعتراض کی بات ہے تو میرے ذہن میں اس میں کوئی کنفیوژن نہیں ، آپ کے ذہن میں بھی اس حوالے سے کوئی کنفیوژن نہیں ہونی چاہیے کہ مارکیٹ میں جو تصوف بیچا جا رہا ہے یہ باکل وہی بات ہے جیسے اقبال نے لوگوں سے قرآن کے مختلف فتوے اور مسئلے سنے تو ایک فارسی کی ایک رباعی میں اس کا جواب دیا وہ ارمغانِ حجاز کی رباعی ہے :

زِ من بر صُوفی و مُلّا سلامے

کہ پیغامِ خُدا گُفتند مارا

ولے تاویلِ شاں در حیرت اَنداخت

خُدا و جبرائیل و مُصطفیٰ را

اگر اِس رُباعی کا لفظی کے بجائے مُرادی ترجمہ کیا جائے تو یوں ہو گا کہ اقبال کہتے ہیں کہ مَیں نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا کہ یہ واعظ جو کل قرآن کی تاویلات بیان کر رہا تھایہ تُو نے کس طرح کا قرآن اتارا ہے تو اللہ تعالیٰ نے کہا مَیں نے نہیں اتارا-مَیں نے رسول اللہﷺ سے پوچھاکہ یا رسول اللہﷺ آپ پر یہ کس طرح کا قرآن آیا ہے کہ مُلاں جو بیان کر رہا تھا یہ قرآن مجھ پر نہیں آیا، مَیں نے جبریل سے کہا پھر یہ تُو لایا ہوگا جبریل نے کہا مَیں بھی نہیں لایا - تو جس طرح کا تصوف مارکیٹ میں بیچا جارہا ہے ،مَیں اگر نام لوں تو اچھا نہیں ہے ، یہ بابے ننگے پتہ نہیں کس کس طرح بیٹھے ہوئے ہیں اور درباروں پر نام لکھے ہوئے ہیں کہ دربار حضرت ننگی سرکار ، یعنی آپ اندازہ لگائیں کہ اس سے بڑھ کر کیا تنزل ہوگا ؟ اس سے بڑھ کر ذلتِ تصوف کیا ہوسکتی ہے ؟ یہ نہ دین میں ہے ، نہ اسلام میں ہے ، نہ تصوف میں اور نہ ہی فقر میں ہے ، اس کی کوئی Justificationہے ہی نہیں اور جو دیتا ہے وہ بے وقوف ہے-اقبال نے تصوف کی خوبصورت تشریح کی ہے -

پس طریقت چیست اے والا صفات

شرع را دیدن بہ اعماقِ حیات

اے نوجوان تجھے معلوم ہے کہ طریقت کیا ہے ؟ طریقت شریعت کو زندگی کی عملی گہرائیوں سے دیکھنے کا نام ہے-

جو تصوف محافظِ شریعت نہیں ہے وہ تصوف نہیں بلکہ فسق و فجور ہے - آپ معترضین کے اعتراضات پڑھیں وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم تصوف پر قائل ہوجاتے ہیں جب ہمیں جنید بغدادی، سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی، حضرت سلطان باھُو اور امام غزالی جیسی شخصیات نظر آتی ہیں لیکن وہ نام لے کر کہتے ہیں کہ جب اس طرح کے ڈبے جعلی اور دو نمبر پیر اُنہی مسندوں پر بیٹھے نظر آتے ہیں تو پھر ہمیں تصوف پر اعتراض اٹھتا ہے -انہیں تصوف پر اعتراض تو ہوگا وہ ایک فکری اور نظری بات ہے وہ ایک لمبی بحث ہے لیکن اس وقت جو عمومی اعتراض اٹھایا جاتا ہے وہ اِن ناقص ، جعلی ، ڈبے متصوفین پر سوال اٹھایاجاتا ہے ، حضرت داتا صاحب نے کشف المحجوب میں تصوف سے متعلق لوگوں کی تین باتیں بیان کی ہیں ایک ہوتا ہے صوفی،ایک ہوتا متصوف اور ایک ہوتا ہے مستصوف- صوفی تصوف کو اپناتا اور اختیار کرتا ہے ، متصوف وہ ہوتا ہے جو تصوف کا علم جانتا ہے اور اُس سے محبت رکھتا ہے اور مستصوف وہ ہے جو تصوف کا لبادہ اوڑھ کر لوگوں کو بے وقوف بناتا ہے اس وقت جو معاشرے میں موجود ہیں وہ بکثرت مستصوف ہیں -

دوسری بات کہ تصوف کو کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے؟تو ایم اے انگلش کے سٹوڈنٹ ہیں آپ کسی بھی ایسے آدمی کے پاس چلے جائیں جس نے اردو میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے اور انگلش نہیں جانتا کیا وہ آپ کو ایم اے انگلش میں اچھے نمبر دلا سکتا ہے ؟ اسی طرح جو فزکس کے سٹوڈنٹ ہیں وہ کسی قاری صاحب کے پاس چلے جائیں اورانہیں کہیں کہ ہمیں فزکس پڑھائیں تو کیا وہ قاری صاحب جو خود فزکس نہیں پڑھے ہوئے تو آپ کو پڑھا سکتے ہیں؟اسی طرح آپ کوئی بھی علم پڑھنا چاہتے ہیںتو آپ کو اُس علم کے ماہر کے پاس جانا پڑے گا - جب آپ تصوف کو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو اہلِ تصوف کی تلاش کرنا پڑے گی جو تصوف کو اُس کی عملی گہرائیوں کے ساتھ جانتے ہیں ، جو تصوف کے نشیب و فراز سے واقف ہے وہ ہماری رہنمائی کرسکتا ہے کہ تصوف کیا ہے اور وہ ہمیں بتا سکتا ہے کہ تصوف کو کس طریقے سے ہم اپنی عملی زندگی میں حاصل کر سکتے ہیں-

سلطان الفقر ششم کی یومِ پیدائش ۱۴ اگست ہے تو ایک تعلق سا بن جاتا ہے قیام پاکستان کے ساتھ تو بتائیے گا کہ سلطان الفقر ششم کی پاکستان کے متعلق کیا سوچ تھی اور پاکستان کو کس مقام پر دیکھتے تھے اور اصلاحی جماعت کے کارکنان کو موجودہ کرائسس سے نمٹنے کیلئے کیا رہنمائی فرماتے تھے؟

جواب:-

آپ کا یومِ پیدائش ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء یہ محض اتفاق نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ جو پوشیدہ بشارتیں عطا فرماتے ہیں یہ ان بشارتوں میں سے ایک بشارت ہے اور پاکستان کے رُوحانی وجود کی جس طرح کہ بعض بزرگوں سے یہ روایت منسوب کی جاتی ہے واصف علی واصف نے یہ فرمایا تھا کہ

’’ پاکستان ایک سلسلہ تصوف ہے او رجس کے پاس گرین پاسپورٹ ہے وہ اِس سلسلہ تصوف کا بیعت ہے ‘‘-

تو اِس لحاظ سے پاکستان خالصتا ً ایک رُوحانی وجود رکھتا ہے جو سلطان الفقر ششم رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات تھیں ، جو بنیادی تجربہ تھا آپ کو پاکستانی سوسائٹی سے متعلق تھا جس طرح رسول اللہ ﷺ کا بنیادی تجربہ جو تھا ۴۰ برس نبوت سے قبل کا وہ اس عرب معاشر ے کے متعلق تھا اس لیے قرآن بھی حضور کی اس زبان میں آیا جس کو حضور ﷺ نے دیکھا تھا اور جس معاشرے اور زبان سے حضور تعلق رکھتے تھے-تو وہ معاشرہ اُس وقت دنیا بھر کے حالات کی عکاسی کر رہا تھا ، اس وقت دنیا کے کیا حالات ہیں؟اسی طرح کہیں پر عوام جھوٹ بولتی ہے اور کہیں پر اشرافیہ جھوٹ بولتا ہے- لیکن جھوٹ ہر معاشرے میںچاہے دنیا کی جتنی بھی صادق ، سچی اور صدیق قومیں اس وقت صدیق ہونے کی دعویدار ہیں کہ جھوٹ ان کی مورائلٹی کا حصہ ہے کہ جو آدمی جھوٹا وہ بہت گِرا ہوا ہے اور ہماری سوسائٹی میں جو زیادہ جھوٹا ہے اُس کو بڑا لیڈر سمجھا جاتا ہے - اُن کے ہاں بھی اگر دیکھیں تو جھوٹ اُن کی پولیٹیکل ہیپو کریسی میں ، گلوبل پالیسی میں واضح طور پر نظر آتا ہے تو اسی طرح ہمارے معاشرے کے اور اس طرح کے جو ناسور ہیں ان کا آپ اپنے مرشد پاک حضرت سلطان محمد عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت میں رہ کر۱۹۸۱ء تک جو تجزیہ کیا تھا ۱۹۸۱ء سے لیکر ۱۹۸۷ ء تک آپ کا Thoughtپروسس تھا جس میں آپ نے فیصلے فرمائے کہ اس طرح کی تنظیم اور جماعت چاہیے جو ہمارے ملک کے جوانوں کی تربیت کر سکے پھر آپ یہ دیکھیں کہ کیمرہ کے سامنے آف دی ریکارڈ تو کچھ نہیں رہتا تو میں آپ کو عرض کردیتا ہوں ۱۹۹۹ ء میں آپ نے ’’ عالمی تنظیم العارفین‘‘ بنائی تھی تو اُس کے بنانے کا بنیادی مقصد بھی یہ تھا کہ اس وقت پاکستان کو اور ملتِ اسلامیہ کو فکری محاذ پر ،سیاسی محاذ پر اور عسکری محاذ پر جو چیلنجز درپیش ہیں اُن سے نبرد آزما ہوا جائے اور اس کیلئے ہمارے وہ جانثار ساتھی انہوں نے اپنے آپ کو پیش کیا اور عملی طور پر اِس وقت عالمِ اسلام کی جو تحریکیں ہیں اُن میں سے بڑی تحریک کا وہ حصہ رہے لیکن جب یہاں پر ایک انٹر نیشنل گیم شروع ہوئی تو ہم تو اس وقت اس ماحول کو نہیں سمجھتے تھے ، ہمارے سامنے سے یہ چیزیں اوجھل تھیںاُس وقت آپ نے فرمایا کہ ہمارے یہ بچے اِس جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے اور رانا تجمل حسین صاحب کی ڈیوٹی اُسی وِنگ میں تھی اور ہمارے سینئر ز اس چیز کو بخوبی جانتے ہیں - مرشد کی ذات کے متعلق یہ لفظ نہیں کہنا چاہیے لیکن عملاً یہ ایک جھگڑے کی صورت میں داخل ہوگئے تھے کہ آپ نے کیوں اس چیز کو منع فرمایالیکن آج ہم اُس گریٹ گیم کو جب پاکستان میں دیکھتے ہیں اور اُن صحیح سچے اور صادق لوگوں کو جس طرح سے پاکستان کے طول و عرض میں ذلیل و رُسوا کیا گیا ،ذبح کیا گیا ہمیں آج یہ یقین ہو گیا ہے وہ بصیرت جسے ہم نہیں سمجھ پا رہے تھے وہ ایک اہلِ نظر ، اہلِ بصیرت کی نظر تھی جو آنے والے کل پر نگاہ رکھتے ہیں - رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

{اتقوا فراست المؤمن انہ ینظر بنورا للّٰہ تعالیٰ}

’’مومن کی دور اندیشی سے ڈرو کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے-‘‘

تو آپ نے اس وقت پاکستان کے متعلق یہ فیصلہ فرمایا تھا اور اپنے کارکنوں کو آپ یہ فرماتے تھے جب ہمارے کچھ ساتھی فزیکل ٹریننگ کرتے تھے آپ فرماتے تھے کہ میرا بھی جی کرتا ہے کہ اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر اِس ٹریننگ کا حصہ بنوں کل اگر پاکستان میں مشکل وقت آتا ہے اپنا نام لے کر بارہا مرتبہ یہ فرماتے تھے کہ اگر کوئی گولی محمد اصغر علی کے سینے پر لگ جائے تو مَیں حضور کی بارگاہ میں سر خرو ہو کر پیش ہو جائوں گا-حاجی صاحب، میاں صاحب، رانا تجمل حسین صاحب، اور متعدد بار آپ نے یہ الفاظ اپنے بارے میں فرمائے اور پاکستان سے جو آپ کی محبت تھی ، پاکستان کو آپ جس مقام و منزل پر دیکھنا چاہتے تھے وہ منزل یہ تھی کہ یہ پاکستان مسلمانانِ عالم کی اُمید ہے اور پاکستان کو مسلمانانِ عالم کی راہبری کا فریضہ سر انجام دینا چاہیے مَیں دیکھ رہا تھا جب غزہ پر اٹیک ہوئے ہیں -بڑے بڑے جلوس عالمِ عرب میں نکالے گئے جو پاکستانی پرچم لہرا کر پاکستانی فوج کو مدد کیلئے پکار رہے تھے کہ پاکستان کی فوج آئے اور ہمیں اِس صیہونی ظلم و بربریت سے نجات دلائے- تو دنیا آ ج بھی پاکستان کو اُس نگاہ سے دیکھتی ہے - اسرائیل کے پہلے وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریان کی پاکستان اسرائیل کے تعلقات پر جوسٹیٹمنٹ ہے اگر اُس کو آپ دیکھیں تو آپ کو واضح اندازہ ہوجائے گا جیسے اقبال نے کہا تھا کہ ابلیس اپنی مجلسِ شوریٰ کو مخاطب کر کے کہتا ہے :

ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اُس اُمت سے ہے

جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرارِ آرزو

خال خال اس قوم میں ابتک نظر آتے ہیں وہ

کرتے ہیں اشکِ سحر گاہی سے جو ظالم وضو

جانتا ہے، جس پہ روشن باطنِ ایام ہے

مزدکیت فتنۂ فردا نہیں، اِسلام ہے

ابلیس کے نزدیک جو فتنۂ فردا ہے وہ عالمِ اسلام ہے اور عالمِ اسلام کے اندر وہ ملک جو کلمہ طیبہ {لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ} کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آیا ہے اور اُس پاکستان میں وہ قوم جو کلمہ طیبہ کو اپنی زبان سے نہیں اپنے دل سے پڑھنے کی خواہش مند ہے، جس کی خاطر وہ مشقِ وجودیہ کرتی ہے، جس کی خاطر وہ تصورِ اسم ذات کرتی ہے کہ کلمہ کی یہ تاثیر ہمارے باطن کی گہرائیوں تک اتر جائے- آپ میں سے میرے بہت سے ساتھی ۵ فروری کو اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین کے زیرِ اہتمام جو مرکزی اجتماع ضلع لاہور کے تحت جو یہاں ہوتا ہے وہاں پر یہی گفتگو بندہ ناچیز نے پوری تحقیق کے ساتھ محدثین، مفسرین، مجتہدین اور تاریخِ اسلام کے مستند حوالوں سے ثابت کی تھی ،دلائل اس پر پیش کیے تھے کہ اِسلام کی ہر وہ تحریک کامیاب ہوئی ہے جس کے پیچھے صاحبِ تزکیہ قوتیں تھیںاور ہر وہ تحریک کسی نہ کسی ظلم ، بربریت اور بھیانک انجام کا پیش خیمہ بنی ہے جس کی قیادت کرنے والے باطن سے اندھے تھے - دورِ حاضر سے اِس کی بے شمار مثالیں دے سکتا ہوں -

سوال:-

میرا آپ سے تین سوال ہیں کہ کسی ملک کے لیے تہذیبی طور پر اور علمی طور پر دونوں میں سے شکست کون سی زیادہ خطرناک ہے؟

سلطان العارفین نے ۱۴۰ کتابیں لکھی جو ساری طالبِ مولیٰ کیلئے ہیں اس کے علاوہ بہت سی ایسی تاریخی کتب موجود ہوں گی جو ہماری رہنمائی کیلئے کافی اچھی ہیںلیکن وہ جو تعلیمی خلاء ہے کس طرح ہمارا دور کیا جا سکتا ہے تاریخ جو مسخ ہوچکی ہے وہ خلا ء کس طرح دور کیا جاسکتا ہے ؟

اور تیسرا سوال یہ ہے کہ کسی ملک سے محبت کیلئے طالب عالم کا اس سے کیا معیار ہونا چاہیے، میرا آنکھوں دیکھا واقعہ ہے کہ چھوٹے بچے کو ہم سکھاتے ہیں کہ یہ جو کاغذ آپ پھینک رہے ہوں اس کی پراپر جگہ باسکٹ ہے جبکہ ہم روڈ پر جاتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ ایک بچہ اپنی ماں کی گودی میں بیٹھا ہوا ہے وہ اگر کوئی چیز کھا رہاہے تو خالی پیکٹ روڈ پر پھینک دیتا ہے تو کیا ملک ہمارا اپنا گھر ہے تو یہ سوچ ہمارے اندر کیوں پیدا نہیں ہوتی-؟

جواب:-

جو پہلا سوال ہے تعلیم یا تہذیب؟ ہر قوم کی تعلیم اُس کی تہذیب کی آئینہ دار ہوتی ہے ، اقبال نے تین بنیادی باتیں دی ہیں جو ہر فلسفہ کا بنیادی موضوع ہے فلسفۂ یونان سے لے کر ہر جدید فلسفہ تک جیسا کہ سٹیفن ہاکنگ کہتا ہے کہ Philosphy is almost Dead.، Science is lying Know- لیکن امرِ واقعہ یہ ہے کہ سائنس بھی انہی تین سوالات کے گرد گھومتی ہے - اقبال نے تین بتائیں ہیں -

چیست عالَم،چیست آدم ، چیست حق؟

جہان کیا ہے یعنی Universکیا ہے، Human beingکیا ہے یعنی انسان کیا ہے اور خدا کیا ہے؟

اب جو مغرب کی تعلیم ہے وہ چونکہ ایک ایسے مذہب کے پیروکار تھے جو مذہب سیاست اور معیشت کو اپنے اندر Accomodateنہیں کر سکتا لہٰذا اُن کا نظریہ کائنات ، نظریہ انسان اور نظریہ ٔ خدابھی مختلف ہے ہمارا جو مذہب ہے ، ہمارا رب رب العالمین ہے ،ہمارے رسول رحمۃ اللعالمین ہیں اور کتاب ذکر اللعالمین ہے - کہ ہماری جو یونیورس کی Definationہے وہ بھی مختلف ہے ، ہماری جو خدا کی Definationہے وہ ان سے مختلف ہے ، اس بحث کا اتنا وقت نہیں ہے مختصر بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بعض صفات ہیں ، حاکم ، منصف، مقسط، عادل ، ذوالجلال والاکرام، اگر آپ اللہ تعالیٰ کو پوری صفت کے ساتھ نہیں مانتے تو آپ کا عقیدۂ توحید ادھورا ہے- { لا المقسط الا اللّٰہ ، لا الحاکم الا اللّٰہ ، لا الحکم الا اللّٰہ} ، اُس کے علاوہ کوئی حاکم نہیں ہے ، اُس کے علاوہ کوئی انصاف کرنے والا نہیں ہے ، اُس کے علاوہ کوئی قانون بنانے والا نہیں ہے ، اُس کے علاوہ کسی کو اقتدارِ اعلیٰ کا اختیار نہیں ہے یہ وہ بنیادی تصو ر ہے اسلام کا جس کی بنیاد پر ہماری ساری کی ساری عمارت کھڑی ہے تو ان کی جو تعلیم ہم آج دیکھ رہے ہیں کہ وہ تعلیم اُن کی تہذیب کی آئینہ دار ہے وہ سمجھتی ہے کہ خدا کو اقتدارِ اعلیٰ کا اختیار نہیں ہے اقتدارِ اعلیٰ کا اختیار انسان کے پاس ہے انسان خلیفۃ اللہ نہیں ہے یہ اللہ تعالیٰ کو جواب دہی سے گزر چکا ہے اس کا ایک عیسوی تصوّر ہے جس کی تفصیل میں مَیں نہیں جاتاوہ اس ساری چیزوں کو ماورا سمجھتے ہیں بلکہ اب تو ایتھی ازم نے ان ساری چیزوں کی نفی کر کے سائنس جو ہے یہ ایتھی ازم کے اس تہذیب کی آئینہ دار ہے تو مَیں یہ سمجھتاہوں کہ تعلیم ہر تہذیب کی آئینہ دار ہوتی ہے - ہمیں کیا نظامِ تعلیم بنانا چاہیے جو ہماری تہذیب کا آئینہ دار ہو ، جو ہماری تہذیب کی نشاندہی کرتا ہو ،اقبال کا نظریۂ تعلیم یہی ہے کہ اسلامی ثقافت اور اسلامی تہذیب پر مبنی تعلیم ہو - تو تعلیمی انحطاط کا مطلب ہے تہذیبی انحطاط اور تہذیبی انحطاط کا مطلب ہے تعلیمی انحطاط-ان کو آپس سے الگ تو نہیں کر سکتے لیکن اوّلیت تہذیب کی ہے جیسا مَیں نے ابتدا میں کہا کہ جس زمین سے آپ جُڑے ہوتے ہیں وہ ہماری تہذیب ہے اُس تہذیب سے جُڑے رہیں تعلیم جہاں مرضی جائے گی وہ آپ کی جڑوں سے ہٹ کر نہیں جائے گی -

اور دوسرا سوال کہ تعلیم اوران چیزوں کا زوال کس طرح ختم کیا جاسکتا ہے ؟

اس کو وسعتِ مطالعہ اور رُوحانی بالیدگی سے ختم کیا جاسکتا ہے آپ پوچھیں کہ کیسے ؟ وہ ایسے کہ دُنیا میں ہر اُس قوم نے عروج کیا جس کے پاس تحقیق اور اُس کی تخلیق تھی یونان دنیا بھر پر کب حاکم بنا جب وہاں ارسطو تھا - ہمارا ورلڈ آرڈر دنیا پر کب رہا جب ہمارے پاس بڑے بڑے سائینٹسٹ تھے اور یہ عظیم لوگ ہمارے پاس موجود تھے آج مغرب عروج پر ہے اس کی وجہ ہے کہ اُن کے پاس علمی اور تحقیقی ترقی ہے ہم پی ایچ ڈی کر لیتے ہیں فقط اس لیے کہ یونیورسٹی میں لیکچرر بھرتی ہوجائیں گے ، ہم ماسٹر ز کر لیتے ہیں کہ ڈی سی آفس میں کلرک یا ٹائپسٹ بھرتی ہوجائیں گے -علامہ اقبال کہتے ہیں کہ

وہ علم نہیں زہر ہے احرار کے حق میں

جس علم کا حاصل ہے جہاں میںدو کفِ جَو

تو یہ تعلیم ہمیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتی جب تک کہ تعلیم کو مقاصد میں بلند نہ کیا جائے -

؎رفعت میں مقاصد کو ہمدوشِ ثریا کر

مقاصد کو اونچا لے کر آئیں ، سلطان الفقر نے عباد ت کے تصورمیں جووسعت دی ہے آج تک ہم اپنے علماء ، واعظین سے تو یہی سنتے آئے ہیںکہ جہنم سے بچ جائیں اور جنت نصیب ہوجائے گی، آپ نے کہا کہ جنت میں پہنچ جانا کیا یہ مومن کی منزل ہے؟جہنم سے بچ جانا کیا یہ مومن کی منزل ہے؟بلکہ یہ راستے کے انعامات ہیںجو ایک سپاہی جنگ لڑتا ہے ، نشانِ حیدریا تمغہ بسالت، ستارہ جرأت یا ہلالِ امتیاز وہ اُس کی منزل نہیں ہے وہ اُس کی کارکردگی کا انعام ہے اس کی منزل

؎شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن

اور اس پاک سرزمین کی سرحدوں کی دفاع ایک سپاہی کی منزل ہے یہ دیگر جتنے بھی تمغے ہیں یہ اُس کے انعامات ہیں ، مومن کی منزل وصالِ الٰہی ہے، قربِ الٰہی ہے،مومن کی منزل معرفتِ الٰہی ہے جہنم سے بچ جانا یہ تمغہ بسالت ہے اور جنت میں پہنچ جانا یہ ستارۂ جرأت ہے ، یہ راستے کے انعامات ہیں تو مقاصدِ عبادت کو رفعت ملی ، تو اسی طرح جب تک ہمارے مقاصد تعلیم کو رفعت نہیں ملتی ہم اس وقت تک اس تعلیمی انحطاط سے نہیں نکل سکتے جب تک ہم اپنے آپ کو کلرک ، لیکچرر یا پروفیسر بھرتی ہونے یا انجینئر کی ملازمت مل جانے سے یا ایک سی ایس پی آفیسر بن جانے سے آگے بڑھا کر ایک تخلیقی کارنامہ سر انجام دینے کا اس قوم کیلئے ، ملت کیلئے نہیں کرتے تب تک اس تعلیمی زوال سے نکلنا ممکن نہیں - اپنی جگہ پر میری ذمہ داری ہے اور آپ کی جگہ پر آپ کی ذمہ داری ہے

اور تیسری بات یہ ہے کہ ہم سڑکوں کو گندہ کر دیتے ہیں اور گھر کو صاف رکھتے ہیں مجھے آج سے دس بارہ برس قبل جب ساگر صاحب سے میری نیاز مندی شروع ہوئی تھی جیسے کسی نے کہا تھا کہ

؎مرا زپیر صحافت نصیحتے یاد است

ساگر صاحب نے نصیحت یہ فرمائی کہ کیا آپ اپنی خانقاہ پر اپنے مریدوں کو یہ تلقین کر سکتے ہیں وہ چلتے ہوئے راستے پر تھوک نہ پھینکیں، ساگر صاحب نے گُردواروں کی مثالیں دیں ، مندروںکی مثالیں دیں کہ کس قدر وہاں پر صفائی کا اہتمام ہوتا ہے لیکن سب سے گندہ راستہ ہمارے محلوں میں وہ ہوتا ہے جو مسجد کو جا رہا ہوتا ہے کہ ہر نکلتا ہوا وہاں بہت کچھ پھینک دیتا ہے ، ہمیں صفائی کا بہت زیادہ خیال رکھنا چاہیے میرا خیال ہے کہ ان سے بھی یہ سیکھنا چاہیے کہ وہ یہ درد رکھتے ہیں تو انہوں نے یہ سوال کیا ہے ، یہ فکر رکھتے ہیں تو انہوں نے یہ سوال کیا ہے- مَیں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اپنے اپنے طور پر خود یہ کوشش کرنی چاہیے، بحر کیف میں نے یہ جواب تو دے دیے کہ انہوں نے میری طرف Directکر دیے تھے- اگر آپ کے ذہن میں کوئی سوال ہو تو میرے خیال میں بہتر یہی ہوگا کہ ہم یہاں سلطان الفقر کی فکر کے لیے یہاں بیٹھے ہیں تو یہ بھی ساری باتیں فکر ہی کا حصہ ہیں -اگر کوئی Specificسوال ہو تو یہ زیادہ بہتر ہے-

سوال:-

جناب صاحبِ صدر!بانی ٔ اصلاحی جماعت کے وصال کے بعد جانشین سلطان الفقر اتنی بڑی ذمہ داری کس طرح سنبھالی اور دوسرا سوال یہ کہ جس طرح دوسری جماعتوں کے ٹی وی چینل ہیں اُس پر ان کے مختلف پروگرام دکھائے جاتے ہیں تو آپ نے چینل کیوں نہیں بنایا؟

جواب:-

اگر آپ محسوس نہ فرمائیں اور کسی کی دل آزاری کیے بغیر میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ چینل شروع کرنا اتنا آسان کام نہیں ہے جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہمارے پیچھے نہ تو کوئی ایران ہے، نہ کوئی قطر ہے اور نہ ہی کوئی سعودی عرب ہے ، یہ جماعت یہ تحریک اپنی مدد آپ کے تحت محدود وسائل میں رہتے ہوئے ہم کام کرتے ہیں اور چینل کو چلانے کیلئے ایک اچھا خاصا بجٹ چاہیے اور اُس بجٹ کے ساتھ ہی وہ چل سکتا ہے اور انشاء اللہ اللہ تعالیٰ اگر ہمت،توفیق اور اتنے وسائل بھی عطا فرمائے تو اس پر یہ شروع کیا جاسکتا ہے - لیکن مَیں نے اس کا متبادل نظریہ ایجاد کیا ہے وہ یہ ہے کہ جب تک ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں ، جب تک ہم ان ضروریات پر پورا نہیں اتر سکتے اس وقت تک ہمارا ہر ایک کارکن اپنی اپنی جگہ پر چلتا پھرتا ٹیلی وژن بن جائے جو لوگوں کی اصلاح کررہا ہے تو یہ ٹیلی وژن سے بڑا مؤثر اور لوگوں کی بڑی اصلاح و تربیت کر سکتا ہے ، دوسری گزارش یہ ہے کہ ان ذمہ داریوں کو سلطان محمد علی صاحب نے کس طرح اور کیسے سنبھالا کہ جن کو جب منتخب کردیا جاتا ہے -

؎خدا جب حسن دیتا ہے نزاکت آہی جاتی ہے

جن کو اس کام کیلئے منتخب کردیتا ہے وہ انہیں بادشاہی کے گُر بھی سکھا دیتا ہے ، وہ انہیں اُس حکمرانی کا طریقہ بھی عطا کردیتا ہے اور ان کے اندر وہ بادشاہانہ صفات بھی پیدا فرما دیتا ہے جو ایک حاکم کو اپنی ریاست چلانے کیلئے درکار ہوتی ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ، اللہ تعالیٰ ہی یہ سارے فیصلے فرماتا ہے ، وقت کا تعین بھی وہی فرماتا ہے اور بندوں کا انتخاب بھی وہ اپنی بارگاہ سے خود کرتا ہے تو حضرت سلطان محمد علی صاحب کا جب انتخاب کیا گیا ،مَیں ایک واقعہ عرض کردوں کہ ہمیں کسی کو علم نہیں تھا ۱۴ اپریل ۲۰۰۳ ء کو جب یہ فیصلہ کیا گیا لیکن ۲۶ دسمبر سے قبل اس کے کچھ آثار اور نشانیاں ظاہر ہوئی تھیں جن سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا لیکن حضور کی حیاتِ مبارک میں ایسا سوچنا بھی ہمارے لیے جرم اور گناہ تھا -

اوچھالی شریف میں سلطان الفقر ششم تشریف فرما تھے ،ہمارے بہت ہی محترم ساتھی جناب حاجی امیر بخش صاحب (مرحوم)وہ بھی موجود تھے مجھے آپ نے فرمایا کہ

’’ بیٹا محل پاک آلے سڈیندے ہن‘‘ یعنی محل پاک والے بلاتے ہیں ‘‘

تو مَیں نے فوری طور پر عرض کی کہ ’’جب حضور کی دلیل بنے تو گاڑیاں اسی وقت تیار کروا لیں گے اور حاضری کے لیے چلے چلیں گے‘‘- آپ خاموش ہوگئے تھوڑی دیر بعد آپ نے پھر فرمایا کہ

’’ بیٹا تہاڈا دادا سائیں سڈیندن‘‘ (یعنی بیٹا آپ کے دادا سائیں بُلاتے ہیں )

مجھے پھر بھی سمجھ نہیں آئی مَیں نے کہا کہ ’’جیسے حضور کی دلیل ہو اسی وقت چلے جائیں گے ، ساتھی بھی سارے تیار ہیں ‘‘ - اس کے بعد فوراً فرمایا

’’ نہیں اوہ محل پاک دے اندر سڈیندن‘‘(نہیں ، وہ محل پاک کے اندر آنے کیلئے بلاتے ہیں )

تو مَیں نے عرض کی کہ ’’حضور مجھے پھر پہلے بھیج دیں کیونکہ جب آپ وہاں تشریف لائیں تو ہم آپ کا استقبال کریں‘‘- اب ظاہر ہے اس کے علاوہ میرے پاس نہ کوئی الفاظ تھے اور نہ ہی کوئی عرض کیے جاسکتے تھے ، حضور پاک نے دعا فرمائی کہ

’’اللہ تعالیٰ آپ کو زندگی دے ، حیاتی فرمائے‘‘-

مَیں نے عرض کی کہ ’’آپ کی ذات کے بغیر تو زندگی کا تصور ہی گناہ ہے ، یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ آپ ہم سے اِس اَمر کی اجازت چاہیں گے ‘‘- جو میں عرض کی حالانکہ یہ کوئی ایسی بات نہیں تھی جس پر جلال آتا لیکن آپ بستر مبارک پرنیم دراز تھے آپ اٹھ کر آلتی پالتی لگا کر بیٹھ گئے بڑے جلال کے عالم میں مجھے فرمایا:

’’ نہ ایہہ محل پاک دیوچ اساں جیڑی پگ رکھی اے ایہنوں تساں نا ؤ منیندے ایہہ ساری پکھنڈ بازی اے ، نہ او مَیں جو رکھی ایہہ کیا اوہ اوہی نہیں‘‘ (یہ جو محل پاک (حضرت سُلطان باھُو) کے اندر ہم نے جو دستار (سُلطان محمد علی صاحب کو) بندھوائی ہے کیا آپ اُسے نہیں مانتے؟ (جو کچھ آپ کو مشاہدہ کروایا گیا ہے ) کیا یہ ساری ’’پکھنڈ بازی ہے‘‘؟ جسے مَیں نے عطا کی ہے کیا وہ وہی نہیں جو مَیں ہوں ؟ )

تو اس کے بعد آپ نے خاموشی اختیار فرمالی اور میرے پاس اس بات کا نہ کوئی سوال تھا اورنہ کوئی جواب -لیکن اس دن سے حضور کے وصال سے قبل ایک خلش دل میں ضرور پیدا ہو گئی تھی کہ فیصلہ کیا ہونے والا ہے ؟ اور یہ یقین بھی مجھے ہو گیا تھا کہ جو یہ فیصلہ ہوا ہے آپ نے یہ بھی بتا دیا ہے کہ اس کے بعد یہ دولتِ فقر کس کو عطا کی گئی ہے اور آپ نے جب دستار مبارک محل شریف میں رکھی تھی ا س وقت بھی بندہ ناچیز محل شریف میں بالکل مزار کے پیچھے پہلی لائن میں جو لوگ تھے سید امیر خان نیازی صاحب تھے ،بندہ ناچیز تھاآپ نے یہ فرمایا تھا کہ جو سینہ بہ سینہ مجھ تک یہ دستار پہنچی ہے یہ دستار حضرت سلطان محمد علی صاحب کو منتقل کر رہا ہوں اور حضور پیر بہادر شاہ صاحب رحمۃاللہ علیہ کے دربار عالیہ جب آپ نے بیعت فرمایا تو ویڈیو بھی ساری منظر عام پہ آ چکی ہے آپ میں سے کچھ ساتھیوں نے دیکھی ہو گی حضرت سلطان محمدعلی صاحب کے بارے میں آپ نے یہی الفاظ فرمائے جو یہاںبھی بار بار وہ الفاظ کی ٹرانسمیشن میں رپیٹ ہو رہے ہیں تو مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ فقر بھی وہی ہے ،اندر کی قوت اور اندر کا نور بھی وہی ہے ،اسی قوت سے یہ تحریک چل رہی ہے- حضور کے ایک خادم ہیں جووقت آخر تک ساتھ رہے ہیں ’’غلام باھو‘‘ ان کا نام ہے ان کا ہم نے انٹرویو میگزین میں بھی شائع کیا ہے اس انٹرویومیں انہوں نے یہ کہا کہ بہت سے ایسے فیصلے گھر کے متعلق ،تنظیم کے متعلق ڈیرے کے متعلق دوست احباب کے متعلق جو حضرت صاحب فرمالیتے تھے جب آپ سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو رحمۃاللہ علیہ کے در بار میں حاضری کے لئے جاتے وہاں سے باہر آتے تو آپ اکثر وہ فیصلہ تبدیل فرمادیتے تھے اور آپ فرماتے تھے کہ’’ محل پاک آلے ا یدے بارے انجیہ فرمایا‘‘اور جب جماعت بنی تو میرے سامنے آپ نے متعدد بار یہ فرمایا یہ جماعت ہم نے’’ محل پاک اور روضے پاک آلیاں دے حکم نال شروع کیتی ہے‘‘ تو جتنے بھی فیصلے ہیں وہ ایک انسانی عقل سے ماورا ہیں مثلاََ آپ یہ توکل کا فیصلہ دیکھ لیں کہ جو صدور صاحبان جماعت میں چلتے ہیں ان کے لئے کیا حکم تھا ؟وہ مانگ کر نہیں کھائیں گے - اصلاحی جماعت کی جو پہلی پہلی جماعت چلی تھی الحاج محمد نواز قادری اس میں شامل تھے حاجی صاحب اگرآپ یہ شرائط گنوا دیں مَیں بقیہ گفتگو کرتا ہوں کہ کیا شرائط تھی جماعت میں چلنے کی -

حاجی محمد نواز صاحب:-

یعنی توکل پہ چلنا ہے کسی سے کھانے کے متعلق کچھ بات نہیں کرنی نہ ہی مسجد میں سونا ہے ، ہم نے بطور تجربہ دیکھا کہ کہیں نہیں بتایا ،تین تین گھروں سے کھانا آتا تھا اور لوگ بہت عزت احترام کرتے تھے کہ دربار پاک سے جماعت آئی ہے اور یہ معرفت الٰہی کی گفتگو ہو رہی ہے پہلے تو یہ سننے میں نہیں آئی- علمائے کرام تو ظاہری شریعت کی باتیں بتاتے تھے لیکن اس میں جو توکل والا سسٹم تھا، کسی سے کہنا نہیں اور نہ ہی ہوٹل وغیرہ سے کھانا کھانا تو اس کے لئے الحمدللہ دیکھا پھر نظارہ مالک کے کرم سے آج تک اتنا عرصہ ہو چکا ہے بلکہ مَیں تو قرآن پاک کے حوالے سے ساتھیوں کو بتاتا ہوں کہ

’’ اورجو اللہ کے راستے میں نکلتا ہے اللہ تعالیٰ اسے مرغن غذائیں کثرت سے دیتا ہے‘‘

 تو الحمدللہ جماعت میں چل کے سب کچھ دیکھا ہے اور آج تک دیکھ رہے ہیں کہ جہاں جاتے ہیں بستر بھی ملتا ہے کھانا بھی ملتا ہے تو یہ ساری مالک کی شفقت اور مہربانی ہے- 

صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب :

مَیں یہ عرض کر رہا تھا کہ یہ جیسا حاجی صاحب بتا رہے ہیں کہ مانگ کر نہیں کھانا ،خرید کر نہیں کھانا ،کسی سرائے میں یا ہوٹل میں نہیں ٹھہرنااور کسی کو کہہ کر بھی کسی کے گھر میں نہیںٹھہرنا لیکن یہ جب عملی طورپر لوگ چلے تو انہوں نے نہ تو کسی سے مانگانہ خریدا اور بھوکھے بھی نہیں رہے نہ ہوٹل اور سرائے میں قیام کیا نہ ہی کسی کو کہا کہ ہمیں رہائش چاہے مسجد میں بھی نہیں سوئے یہ انتظام وہ خود کرتا ہے یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ جو ہمارے راستے میں چلتے ہیں ہم ان کے لئے اپنے تمام راستے کھول دیتے ہیں تو اس لئے آپ نے تو کل کو جماعت میں شروع کیا یہ توکل کے فیصلے انسانی محدود عقل سے ماورا ہوتے ہیں -

لازم ہے دل کے پاس رہے پاسبانِ عقل

لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے

دل جب اس تنہائی میں جاتا ہے، خلوت پھر اسے وہ جلوت ملتی ہے یہاں اب فیصلوں کو مستحکم کرتا ہے، صحیح معنو ںمیں اتباع کرتا ہے-

حضرت سلطان محمد علی صاحب کی جو قیادت میںاس وقت یہ تنظیم چل رہی ہے اور جس طرح آپ نے اس کو سنبھالا ہے یہ قوتِ فقر سے چل رہی ہے اور اس شمشیر فقر سے چل رہی ہے جسے اقبال مومن کی آرزو اور مومن کی تمنا قرار دیتے ہیں -

سوال:-

پہلا سوال صاحبِ صدر!آپ نے فرمایا کہ سلطان العارفین نے ایک سو چالیس۱۴۰کتابیں لکھیں اور ان میںبتیس۳۲ کاترجمہ ہو گیا اور باقی ناپید ہو گئی ہیں ایک طرف آپ نے یہ بھی فرمایا رسالہ ماہنامہ مرأۃ العارفین میرے خیال سے یہ سب کچھ ہے لیکن ایک طرف یہ بھی بات ہے کہ محفل سجانا ہی خراج تحسین نہیں ہے -108 books how he can continiue  This Type of research .

دوسرا سوال ناظمِ اعلیٰ صاحب سے یہ کہ مَیں نے کافی دفعہ یہ ٹاپک سنا ،انڈر سٹینڈ نہیں کر پایا کہ سلطان الفقر حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب بیان نہیں کرتے -آپ نے فرمایا کہ مجھے حکم نہیں ہے اس پہ تھوڑی سی روشنی ڈالیں؟

اور تیسرا سوال جناب عامر طفیل صاحب سے کہ(انہوں نے جو اپنی ابتدائی گفتگو میں کہاوہ ) فکرجبرائیل کیا ہے ؟

جواب:-

صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب :-

پہلا سوال آپ کا کتب کے متعلق ہے ،مَیں اس پہ عرض کرتا ہوں ،اس پہ کافی تحقیق ہوئی ہے اور ان کتب کے شواہد ہیں جن پہ ایک تو بے پناہ وسائل کی ضرورت ہے- ڈیڈی کیٹیڈ کام کی ضرورت ہے ،کام ہو بھی رہا ہے الحمدللہ جیسے ساگر صاحب نے حضرت سلطان باھُو نمبر کا ریفرنس دیا ،ہندوستان کے بعض کتب خانوں میں وہ کتب موجود ہو سکتی ہیں ممکنہ طور پہ خاص کر حیدر آباد دکن کی طرف جہاں فارسی بھی مروج تھی اور بڑی تعداد میں دِلی کے اندر بھی مریدین حضرت سلطان باھُو بھی پارٹیشن سے پہلے موجود تھے لیکن آج تک وہاں اس طرح کا تحقیقی کام نہیں ہوا، یہ لوگ نہیں گئے - ہم نے ایک دو سال قبل حضرت سلطان باھُو کانفرنس کی تھی ،اُس میں افغانستان سے ایک صاحب تشریف لائے تھے انہوں نے بھی اپنی تحقیق حضرت سلطان باھُو پہ پیش کی تھی تو ان سے ہم نے عرض کی تھی کی آپ کا تعارف حضرت سلطان باھُو سے کیسے ہوا تو انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں تو اکثر حضرت سلطان باھُو کا کلام پڑھا جاتا ہے اور حضرت کا بہت تعارف ہے وہاں پہ اور جو دیوانِ باھُو فارسی ہے وہ انہوں نے کابل سے خریدا تھا تو اس کا مطلب ہے کہ وہاں بھی ان چیزوں کے آثار پائے جاتے ہیں -مناقب سلطانی جو آپ کی ذات پہ لکھی جانے والی پہلی اور مستند ترین تصنیف ہے اس کے مطابق آپ نے مصر ،شام، عراق، حجاز کے سفر، ایران کے سفر کئے ،افغانستان کے سفر کئے افغانستان تک تو ہمارے آبائواجدادیہ ابھی پاکستان سے بکثرت تشریف لے جاتے تھے لوگ وہاں سے آتے تھے دلی ،دکن ہندوستان کے جنوبی ہند سے لوگ آتے تھے تو یہ سارا کھوج لگانے کے لئے اس پہ اچھی خاصی ضرورت ہے اور حضرت سلطان باھُو کی جو پنجابی شاعری پہ پہلا کام ہوا ہے وہ ایک سکھ خاتون تھی انہوں نے پہلا کام حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ پہ کیا تھا تو وہاں سے بھی ان چیزوں کو تلاش کیا جاسکتا ہے -یہاں سے بہت سے قلمی نسخہ جات تھے- وہ برطانیہ والے لے کے گئے تھے وہاں پر بھی جو ان کی لائبریریز ہیں اس پہ مختلف ان میں مینوسکرپٹس کو تلاش کیا جاسکتا ہے -

جو آپ کا ناظم اعلیٰ سے سوال ہے مَیں ناظم اعلیٰ کیاجازت سے اس کی مختصر عرض کرنا چاہوں گا کہ ’’ہمیں حکم نہیں ہے‘‘- تووہ میں نے یہی عرض کیا ہے کہ اس سے پہلے جو میں گزارش کر رہا تھا کہ وہ باطنی احکامات ہوتے ہیں ،اقبال جس کی طرف کہتے ہیں کہ

؎ افلاک آتاہے نالوں کا جواب آخر

غُلام باھُو کے حوالے سے جو بات ناچیز نے عرض کی تو یہ حکم سے مراد سُلطان العارفین حضرت سُلطان باھُو کا باطنی حُکم ہے اور تاجدارِ مدینہ شہہِ لولاک حضرت محمد الرسول اللہ ﷺ کا حکم ہے - تو وہ ایک ترتیب فقر کی ہوتی ہے جس کے تحت ہر فقیراس ترتیب کا پابند ہو تا ہے جس طرح سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی نے اپنے بارے میں فرماتے ہیں :

مَیں جب عراق میں آیا تو کئی بار مجھے حکم ہواکہ آپ ان لوگوں کو خطاب کریں توآپ چونکہ گیلان سے تھے جو ایران میں ہے جہاں فارسی بولی جاتی تھی تو آپ کی بنیادی زبان فارسی تھی آپ نے دو تین بار احکامات سننے کے باوجود وہاں پہ تبلیغ نہ فرمائی تو رسول اللہ ﷺ خواب میں تشریف لائے اورفرمایا اے عبدالقادر !تم ان لوگو ں کو وَعظ کیوں نہیں کرتے ؟تو آپ نے عرض کی یا رسول اللہﷺ  مَیںعجمی ہوں یہاں اکثریت عربی ہے تو یہ عربی لوگ عجمی کا وَعظ کس طرح سنیں گے ؟ آپ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ اپنا منہ کھولو،مَیں نے منہ کھولا تو رسول اللہﷺ نے اپنا لعابِ دہن میرے منہ میں ڈال دیا اور فرمایا کہ جائو ہم نے تمہاری زبان کی رکاوٹ کو دور کر دیا ہے- تو اس کے اس اگلے دن مَیں نے ان عربیوں کو وَعظ کرنا شروع کیا اس کے بعد کسی کو مجال نہیں ہوئی کہ حضور کی فصاحت اور بلاغت پر حرف اٹھانے کی- تو یہ اس حکم کو اگر آپ سمجھ سکیں تو میرا خیال ہے اس سے بہتر واقعہ اور کوئی نہیں ہو سکتا-

 آپ کا عامر طفیل صاحب سے سوال ہے عامر صاحب اگر آپ اجازت فرمائیں تو میں یہ عرض کر دوں کہ فکر جبریل یہ الگ پوری مجلس کی متقاضی ہے اس پہ تحقیقات وقتاََفوقتاََ مرأۃ العارفین میں بھی شائع ہوتی رہتی ہیں - ابلیس نے آدم علیہ السلام کوسجدے کاانکار کیا تھا اور جبرائیل امین فرشتوں میں سب سے پہلے فرشتے تھے جنہوں نے سب سے پہلے سر جھکایا تھا تو ابلیس نے آدم کے ظاہری وجود کو دیکھا اور اس نے سجدے سے انکار کر تے ہوئے کہا کہ {انا خیر منہ} یہ فکرابلیس ہے- جبرائیل نے صرف آدم کے ظاہری وجود کو نہیں بلکہ حکمِ الٰہی کو بھی دیکھا اور وجود ِآدم میں قلب اور قلب میں فواد اور فواد میں چھپے اس جوہر ِرُوح کو دیکھااور انہوں نے آ دم کے خاکی وجود سے آگے آدم کے نوری وجود کو دیکھ کر بھی سجدے میں سر جھکایا تو اسے فکر جبرائیل کہتے ہیں فکر ابلیس یہ ہے کہ اس مادہ پرستانہ وجود پر اکتفا کردیا جائے اور فکر جبرائیل یہ ہے کہ اس مادہ وجود سے آگے اس کے نورانی جوہر کی جو تخلیق اور تشکیل ہے اس کو دریافت کیا جائے اور وہی عظمت انسان ہے جسے اقبال کہتے ہیں کہ

آدمیّت احترام آدمی

باخبر شو از مقام آدمی

ہم الحاج محمد نواز قادری سے جاننا چاہیں گے کہ آپ اتنا عرصہ حضور بانی ٔاصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین کی خدمت اقدس میں گذارا سوال یہ کہ آج ہر کوئی یہ کہتا ہے کہ مَیں حق پر ہونے کے دلائل دیتا ہوں، ہمارے نوجوان یہ فیصلہ نہیں کر پارہے کہ کون حق پر ہے آپ اس کی وضاحت فرما دیںکہ حق پر کون ہے ؟

الحاج محمدنوازقادری :

گزارش یہ ہے کہ ۱۹۹۶ء میں پہلی مرتبہ حضور مرشدپاک بانی اصلاحی جماعت کے ساتھ عمرے پاک کی سعادت نصیب ہوئی تو جب وہاں ہم پہنچے تو میزبان ایک ساتھی نے کہا کہ میرا ایک دوست ہے یہاں پہ جو بولتاہے کسی اہلِ تصوف کو بولنے نہیں دیتا تو کیا کروں اجازت ہو تو صبح لائوں -مَیں نے کہا ٹھیک ہے بلائو جب وہ آیا ملاقات ہوئی تو حال احوال پوچھنے کے بعد مَیںنے اس سے سوال کیا کہ آپ ماشاء اللہ پڑے لکھے آدمی ہیں کیا حضور پاکﷺ کی اس حدیث شریف کو آپ نے پڑھا ہے کہ میری اُمت کے تہتر فرقے بنیں گے ہاں پڑھاہے ،مَیںنے کہا وہ ایک فرقہ جو کامیاب ہے، نجات والا ہے، وہ کونسا ہے؟ لیکن شرط میری یہ کہ جواب قرآن سے باہر نہ ہو-مَیں نے پہلے شرط رکھ دی تو جب وہ جواب دینے لگا تو صاف ظاہر ہے اس نے کوئی اور دلائل دینے شروع کر دیے،مَیں نے اسے روک دیا کہ جواب قرآن سے چاہیے ،پھر اِدھر اُدھر کی بات کرنے لگا، علمائے کرام کے حوالے دینے لگا ،مَیں نے کہا کہ نہیں قرآن سے جواب چاہیے تیسری مرتبہ اس نے کہا کہ نہیں میرے پاس جواب نہیں ہے قرآن سے ثابت نہیں کر سکتا آپ بتائیے ،مَیںنے کہا کہ یہ تہتر فرقے جو حضور پاکﷺ نے کہا بنیں گے ایک نجات والا ہوگا وہ معمولی سا ہوگا اس کی کوئی اہمیت نہیں ہو گی ذرا ایک مثال سنیے پھر جواب دیتاہوں- ایک مقابلہ ہو رہا ہے جس میں تہتر آدمی دوڑنے والے ہیں جب تہتر آدمی دوڑنے والے ہیں توکیا اس مقابلے کا اہتمام کے لئے سپیکر بھی لگے گا اور تماش بین ہوں گے پھردوڑ شروع ہو گی سپیکر پر بتائے گا جب کامیابی ہو گی ایک فرسٹ آئے گا پھر اسے انعام بھی دیا جائے گا کہا بالکل ٹھیک ہے اب اس مثال کو سامنے لائو کہ تہتر فرقے مسلمان دوڑنے والے ہیں تماش بین غیر مسلم ہیں سپیکر قرآن ہے ،قرآن بتا رہا ہے آئیے پوچھتے ہیں قرآن سے جب حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا کہ ایک نجات والا ہو گا ،بہتر گمراہ ہوں گے تو کبھی کسی نے غورکیا کہ قرآن پاک کی شان ہے ’’ نہیں کوئی خشکی نہیں کوئی تری جس کا ذکر قرآن میںنہ ہو-‘‘  ’’ نہیں کوئی چھوٹی شے نہیں کوئی بڑی شے جس کا ذکر قرآن میں نہ ہو ‘‘تواس فرقے کا ذکر قرآن میں نہیں ہو گا ،قرآن سے پوچھتے ہیں قرآن پاک کو کبھی اس طرح بھی پڑھ کے دیکھا جائے ،سوال کیا جائے قرآن سے جیسے ہم موبائل سے باتیں کرتے ہیں موبائل ہمیں جواب دیتا ہے قرآن پاک اس سے بڑھ کر ہے کم نہیں ہے -

تو جب سوال کیا یا اللہ تیرے پیارے محبوب نے فرمایا کہ ایک فرقہ نجات والااوربہتر گمراہ ہوں گے تو سوال اسی وقت ہو گیا تھا کہ وہ کونسا ہو گا فرمایا {مانا علیہ واصحابی} جس میں اور میرے صحابہ ہیں تو اب سوال شروع ہوتاہے کہ یا اللہ تیرے پیارے محبوب نے فرمایا ہے کہ جس پر میں ہوںاور میرے صحابہ ہیں وہ فرقہ وہ جماعت کونسی ہے اسکا نام کیا ہے تو قرآن پاک شاہد ہے اللہ تعالیٰ نے واضح فرمادیا ہے کہ میرے محبوب کا راستہ کونسا ہے { یٰسین والقران الحکیم انک لمن المرسلین علیٰ ٰ صراط مستقیم}قرآن بتا رہا ہے محبوب کا راستہ کون سا ہے صراط مستقیم پھر صحابہ کرام کا کونسا ہوا صراط مستقیم تو ہم ہر روز اڑتالیس مرتبہ کیا مانگتے ہیں{ اھدناالصراط المستقیم}تو یہ کلئیر ہو گیا کہ صراطِ مستقیم وہ راستہ ہے اس سے بڑھ کر قرآن پاک سے پوچھیں {ان ربی علیٰ صراط مستقیم }بیشک میرا رب بھی صراط مستقیم پر ہے یعنی ملتا ہے جوصراط مستقیم پہ آجاتا ہے، ملتا ہے تو کل قیامت کے دن دیکھ لیجئے کہ جب سارے اکٹھے ہوں گے، جب مجرموںکو الگ کر دیا جائے گا اس وقت اللہ تعالی ٰ ارشاد فرمائیں گے تو یہ ریزلٹ سامنے آیا کہ صراط مستقیم وہ راستہ ہے جو تہتر میں سے ایک ہے اور آخر میںگزارش پیش کرنا چاہتا ہوں وہ ہے کیا ؟کیسے ملتا ہے جوتہترمیں ایک ہے ؟ اب وہ کیسے ملے گا تہتر میں سے ایک ہے آسان تونہیں ہے تو اس کی میں ایک مثال دیتا ہوں کوئی ڈاکٹر بننا چاہے اس کے لئے شرط ہے پہلے وہ ایف ایس سی سائنس کے ساتھ اونچے نمبروں سے کرے تو پھر داخلہ ملے گا تو صراط مستقیم کا داخلہ آسان ہے، قرآن سے پوچھتے ہیں کہ یا اللہ صراط مستقیم کسے ملے گا اللہ نے فیصلہ فرمایا کہ {ومن یعتصم باللّٰہ }پہلی شرط ہے جو اللہ کو پکڑے گا { فقد ھدی الیٰ صراط مستقیم} اسے ہدایت نصیب ہو گی صراط مستقیم کی- تو اللہ کو کیسے پکڑیں گے اس کا پھر بانی ٔاصلاحی جماعت نے بھی یہی طریقہ کار فرمایا کہ اللہ کو پکڑنے کا واحد راستہ ذکراللہ ہے { فاذکرونی }تو یہی ساری زندگی آپ نے گزاری یہی صراط مستقیم عطا کیااصلاحی جماعت کی بیس بھی صراط مستقیم پر بنی ہے اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطافرمائے -

 اختتامی کلمات جناب صاحبِ صدر:

صاحبزادہ سلطان احمدعلی صاحب :

مَیں آپ دوستوں کا تمام ساتھیو ں کا تہہ دل سے مشکور ہوں کہ آپ آج اس فکری نشست میں تشریف لے کے آ ئے اور آپ نے اس میںشرکت کی اوربالخصوص مَیں برادرم رانا تجمل صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ ہر سال چودہ اگست حضور بانی اصلاحی جماعت کی ولادت اور چھبیس دسمبر حضور بانیٔ اصلاحی جماعت کی یوم وفات پہ تقریب منعقد کرتے ہیں اور ہمیشہ مختلف انداز میں ہوتی ہے اور اس بار ایک خوبصورت اس تقریب کا اہتمام کیا - ضلع لاہور کے تمام ساتھیوں اور ماہنامہ مرأۃ العارفین کی تمام ٹیم کا شکریہ ادا کرتاہوں کہ اُنہوں نے اس کا اتنا خوبصورت Arrangmentکیا- بالخصوص طارق اسمٰعیل ساگر کا بہت مشکور ہوں ، آپ کے ایک بہت قریبی عزیز جن کا  بچہ بڑا سیریس ایکسیڈنٹ کی وجہ سے ہسپتال میں ایڈمٹ تھا تو ساگر صاحب ان کے ساتھ ہسپتال میں تھے، چونکہ اس پروگرام کے ساتھ کٹمنٹ تھی اس لیے اُن کو چھوڑ کر اس تقریب میں تشریف لائے -اور ان کا خاصا وقت ہم نے لیا ،مَیں ان کا بہت مشکور ہوں-ڈاکٹر رفاقت سلطان وٹو صاحب ہمارے بہت ہی معزز اور سینئر ترین ساتھی ہیں ، سلطان الفقر ششم کی خدمت میں بھی رہے اور تنظیم العارفین کی جب تشکیل ہوئی تو اُس میں بھی ڈاکٹر صاحب کا بہت بھرپورمشاورتی حصہ ہے ، اور خاص طور پر ڈاکٹر صاحب آج کی اس تقریب کیلئے اپنی تمام تر مصروفیات اورہسپتال وغیرہ کو ترک کر کے یہاں تشریف لائے ہیں، شاید آپ یہ نہیں جانتے کہ(صاحبزادہ صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا) ایک پیر کا خانقاہ سے اور ڈاکٹر کا ہسپتال سے اُٹھ کر آجانا خاصا مشکل کام ہوتا ہے ،مَیں ان کا بہت مشکور ہوں - میاں ضیاء الدین صاحب اور حاجی محمد نواز صاحب کی بہت سی تنظیمی مصروفیات ہوتی ہیں لیکن انہوںنے مہربانی فرمائی کہ اس تقریب میں تشریف لائے ،آپ تمام نوجوان ساتھیوں کا شکر گزار ہوں آپ تمام اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوتے ہیں اور خاص کر کافی دنوں بعد لاہور آزاد ہوا ہے ،آپ نے بھی سکھ کا سانس لیا ہے اللہ تعالیٰ اہلِ اسلام آباد کو بھی اس سے نجات دلائے،آج کے اس پروگرام میں تشریف لائے اور اپنی Input دی-مَیں یہ یقین کرتاہوں کہ جو گفتگو ہم نے سنی ہے اسے ہم یہاں پر نہیں چھوڑیں گے بلکہ آگے لے کر بڑھنا چاہیے- مَیں نے جو بات ’’حسن رضا ، آرکیٹکچر‘‘ کے لیے کہی وہ آپ سب کے لیے بھی یہی کہوں گا کہ صرف ایک موضوع نہیں ہے، ہمیں تحقیق ، تدریس، تعلیم اور تحریک میں ہر محاذپر بہت بڑی جنگ کا سامنا ہے اور اِس پر ہم سب کو Contribute کرنے کی ضرورت ہے- میری سب ساتھیوں سے گزارش ہے کہ اس فکر کو جس بھی طریقے سے ہو آگے لے کر بڑھنا چاہیے اور اس تحرک ، کشمکشِ زندگی اور توانائی کو اپنے اندر بیدار رکھنا چاہیے، جہاں پر بھی ہوں ہمیں اِس نظریے کو Representکرنا چاہیے اور اس بنیادی تصور کی ہمیں ترویج کرنی چاہیے جس سے یہ انسانیت، ملتِ اسلامیہ اور پاکستان مستحکم ہوسکتا ہے، اور یہی وہ فکر ہے جس نے صدیوں اِس خطے کا دفاع کیا ہے اور اب بھی اس خطے کا دفاع کرسکتی ہے-ہوٹل مینجمنٹ کا بہت مشکور ہوں ہمارا ٹائم کافیExceed  کر گیا ہے تو انہوں نے اِس پروگرام کو کامیاب بنانے کیلئے تعاون کیا-

مَیں آخر میں آپ تمام ساتھیوں کیلئے ایک پیغام ضرور عرض کرنا چاہوں گا-آپ سب نوجوان ہیں اور سوشل میڈیا سے بھی آپ کا تعلق رہتا ہے- اس وقت اپنے پیغام کو آگے بڑھانے کیلئے یہ بہت بڑا ٹول ہے، Govermental levalہمارے اختیار میں نہیںکہ ہم اپنے ملی اور عالمی مسائل کیلئے گو مینٹل چینل کو استعمال کریں، ہمارے ہاتھ میں انفرادی کاوش ہے وہ انفرادی کاوش اپنے گملے ، گاڑیاں توڑے بغیر ہمیں سر انجام دینی چاہیئں- اور اِس وقت فلسطین خاص کر غزہ جس انداز میں اس نام نہاد مہذب دنیا کے سامنے وہاں کا سماں انسان سے دیکھا نہیں جاتااُس ظلم و بربریت کے خلاف ہمیں ایک مناسب طریقے سے اپنے اُن مظلوم بھائی، بہن، مائوں، بیٹوں کی مدد کرنی چاہیے اور جو کچھ ہم کر سکتے ہیں اگر کوئی پروفیسر ہے ، لیکچرار ہے تو اُسے کم ازکم دو یا تین لیکچر فلسطین اور غزہ کیلئے Dedicateکرنے چاہیئں، بینک میں بیٹھے ہر آدمی کو اپنے کسٹمر کے اندر یہ درد اجاگر کرنا چاہیے، اپنے گھر والوں کے ساتھ Dedicatedنشَست کریںان کے ساتھ غزہ کے مظلوم بہن بھائیوں کی پکار Share کریں اگر آپ Studentہیں تو اپنے پروفیسر سے یہ مطالبہ کریں کہ وہ اپنے لیکچر کو غزہ پر Dedicate کریں اور اُس کے علاوہ ان کے مسائل پر جتنی ریسرچ ہوسکتی ہیں کریں-انفارمیشن کے اِس دور میںجو کچھ وہاں ہورہا ہے اس کو ہم یہاں دیکھ رہے ہیں کہ وہاں کس طرح سے یہ بربریت جاری رکھی جارہی ہے- ہم سب کی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اِس قابل بنائے ، یہ تو فیق دے کہ ہم صرف لفظی کلامی نہیں بلکہ ان مظلوموں کی عملی مدد کر سکیں - ایک جیتی جاگتی دُنیا میں ، دو تین ہفتوں میں دو ، اڑھائی ہزار لوگوں کو لقمۂ اجل بنا دینا یہ کوئی مذاق ہے!-ایسی بربریت تاریخ نے نہیں دیکھی - یہ ایک محصور سا علاقہ ہے جس میں یہ سارا کچھ کیاگیا،انسانی سب سے بڑی جیل ہے، غزہ کا رقبہ صرف 400 مربع کلومیٹر ہے جس میں 1.8ملین لوگ رہتے ہیں اور تقریباً ایک مربع میٹر میں چار آدمی زندگی گزار رہے ہیں - اسی ایک مربع میٹر میں ان کی گلیاں ، سڑکیں ، پٹرول پمپس، ہوٹل ، ریسٹورینٹ،ہسپتال ، کالج ، یونیورسٹیاں، مساجد ، قبرستان یہ سارا کچھ اسی ایک مربع میٹر میں ہے-دنیا کا سب سے زیادہ گنجان آباد علاقہ ہے وہاں پر F16تو چھوڑیں اگر ٹماٹر، سیب اور مالٹے بھی برسائیں تو اُن سے اموات ہونا شروع ہو جائیں گی چہ جائیکہ F16آکر کارپٹ بمباری کرے اور گھروں کا ملیا میٹ کر دے- تو ہمارا یہ انسانی، اخلاقی اور اِسلامی فرض ہے اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اُن بہن بھائیوں کی عملی طور پر مدد کرسکیں-آخر میں اجتماعی طور پر آپ سب کا مشکور ہوں -اللہ تعالیٰ ہمیں اس فکر پر کاربند رہنے اور اِس پرچم کو تھامے رکھنے کی ، اس کی حفاظت کرنے کی اور آگے بڑھانے کی توفیق عطا فرمائے -آپ سب کی توجہ کا بے حد شکریہ-پروگرام کے اختتام پر صاحبزادہ میاں محمد ضیاء الدین صاحب نے دعا فرمائی-

٭٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر