فکرِ سلطان الفقر سیمینار

فکرِ سلطان الفقر سیمینار

فکرِ سلطان الفقر سیمینار

مصنف: ادارہ اکتوبر 2018

صدارت: صاحبزادہ سُلطان احمد علی

(چیئرمین ’’مسلم انسٹیٹیوٹ‘‘،چیف ایڈیٹر ’’ماہنامہ مرأة العارفین انٹرنیشنل‘‘، مرکزی سیکریٹری جنرل ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘)

مہمانانِ گرامی: (Panelists)

مفتی احمد فرید قادری :( دیرینہ تحریکی ساتھی ،لودھراں)

عثمان حسن: ( سینئر ریسرچ سائنٹسٹ این سی ایف، ریسرچ سکالر مسلم انسٹیٹیوٹ، اسلام آباد)

میجر (ر) منیر ملک:

ماڈریٹر: (Moderator)

آصف تنویر اعوان ایڈووکیٹ:(ریسرچ ایسوسی ایٹ ، مسلم انسٹیٹیوٹ، اسلام آباد)

 

 ابتدائیہ کلمات:ازصاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

واجب الاحترام بھائیو، بزرگو، نوجوان ساتھیو ! انتہائی قابل احترام پینل کے ممبران السلام ُعلیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!

ہم سب کو پاکستان کا 71 یوم آزادی اور حضور مرشدکریم سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی صاحب (قدس اللہ سرّہٗ) کا 71 یوم ولادت دلی طور پر مبارک ہو- میں ایک بار پھر اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین برانچ لاہور کے ساتھیوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اس خوبصورت تقریب کا انعقاد کیا اور آپ تمام ساتھیوں، نوجوانوں، بھائیوں اور بزرگوں کوشر کت کی دعوت دی-تمہیدی طور پر بہت کچھ اس موقع پر کہا جاسکتا ہے اور اس سے پہلے بھی کہا جا چکا ہے لیکن آج ہماری کوشش ہوگی کہ ہم اپنے قابل احترام مقررین کے خیالات سے استفادہ کریں-لیکن ایک مختصر سی بات عرض کرنا چاہوں گا کہ اس مختصر اور پُروقار محفل کا مقصد اپنے آپ کو اس عظیم تاریخ سے وابستہ رکھنا ہے جس کے دھارے میں ہم سب کو بہنا نصیب ہوا-مجھےاس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ ہم سب کا اس تاریخ کے لئے انتخاب ہماری خوش قسمتی کی بہت بڑی دلیل ہے-یہ ایک ایسا چناؤ تھا جس نے ہمیں ایک نصب العین دیا وگرنہ ہماری زندگی دنیا کے اس بہتے ہوئے دریا میں عام انسان کی طرح ہوتی جو بے مقصد جیتا ہے اور بے مقصد گزر جاتا ہے-

آپ کبھی انسانی تہذیب کے ارتقاء پر غور کریں کہ انسانی تمدن جس کے بانی ابو البشر سیدنا آدم علیہ السلام تھے-آپ علیہ السلام کے اس دنیا میں آنے سے لے کر آج تک انسان نے جو ایجادات کی ان سب کا تسلسل آپ کو بنیادی طور پر یہ بتاتا ہے کہ ایک عظیم انسان وہ ہے جس نے اپنی زندگی پیش رفت (progress) کے لئے گزاری ہے- جس کے وجودسے کوئی پیش رفت (progress) نہیں ہوئی اس کی زندگی اس دنیا میں اگرچہ ’’بے معنی‘‘تو نہیں ہوتی لیکن اس کی زندگی سے کوئی ’’بڑا معنی‘‘ بھی نہیں نکالا جاسکتا-اس لئے ترقی وہی لوگ کرتے ہیں جو کسی نظریہ سے وابستہ ہوتے ہیں، جن کی زندگی کا کوئی مشن و مقصد ہوتا ہے-دنیا میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کی روئیدادِ حیات سن کر تعجب ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں جن کو ’’achievement‘‘ کہتے ہیں کیا واقعتا اس کو کوئی ’’کامیابی‘‘کہا جاسکتا ہے کہ نہیں کیونکہ کامیابی ایک بہت بڑا لفظ ہے-لیکن ہمارے ہاں پاکستان میں جس طریق سے سماج تشکیل پایا اور جس طریق سے سماج میں تبدیلیاں رونما ہوتی رہیں ان سے یہ اشارے ملتے ہیں کہ ہمارے سماج میں اعلیٰ مقاصد کی جستجو ہی ختم ہو چکی ہے-اس لئے سلطان الفقر ششم حضرت سلطان محمد اصغر علی قدس اللہ سرّہٗ کا ہم پر ایک احسان عظیم ہے کہ آپؒ نے ہماری زندگی میں ایک جستجو و آرزو کو پیدا کرکے ایک اعلیٰ ترین مقصد دیا- اکثر میرےذہن میں اقبال کے وہ چند سوالات گھومتے رہتے ہیں جنہیں میں ہمیشہ ایک تحریکی نکتہ نظر سے دیکھتا ہوں کیونکہ وہ مجھے اپنے اوپر اس تناظر میں صادر ہوتے دکھائی دیتے ہیں کہ جیسے ان کا مخاطب مَیں ہی ہوں- جیسے اقبال کہتے ہیں کہ:

درون سینۂ ما سوز آرزو ز کجاست؟ سبو ز ماست، ولے بادہ در سبو ز کجاست؟ [1]

’’ہمارے سینوں میں آپ کی محبت کا سوز کہاں سے آیا؟ بدن تو ہمارا ہے، لیکن اس مٹی میں عشقِ الٰہی کی شراب کہاں سے آگئی؟‘‘

یعنی ہمارے سینوں میں ایک اعلیٰ ترین مقصد حیات کی تڑپ کہاں سے پیدا ہوئی ہے؟ سبو (جام)تو میرا ہے،یعنی دل تو میرا ہے مگر سوال یہ ہے کہ اس دل میں شراب معرفت کس نے انڈیلی ہے؟ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ ہماری تمام تر جدو جہد کا محرک اور راغب کنندہ سلطان الفقر ششم قدس اللہ سرّہٗ کی وہ تربیت ہے جو ہمارے سینوں سے طلوع ہوکر سامنے آتی ہے-دوسری بات کہ اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ایک شخصیت ہے جس کو اقبال اپنے کلام میں دیدہ ور کہتے ہیں، جہاں اس کلام کو خود علامہ اقبال، مولانا رومی، قائد اعظم محمد علی جناح اور کئی بڑی بڑی شخصیات پر منطبق کیا گیا وہی پر اسی کلام کو ہر عام شخصیت کے ساتھ بھی منسوب کیا گیا کہ:

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا[2]

 

کیاآپ کو معلوم ہے کہ ’’دیدہ ور‘‘کس کو کہتے ہیں؟ دید آنکھ کو کہتے ہیں اور دیدہ ور جو آنکھ والا ہو-لیکن دیدہ ور کی کچھ اپنی خصوصیات ہیں اگر آپ ان خصوصیات کو سمجھ لیں تو آپ میری پوری بات کا مفہوم سمجھ جائیں گےکیونکہ اقبال نےدیدہ ورکی ایک خوبصورت انداز میں شرح کی ہے کہ:

دو صد دانا دریں محفل سخن گفت سخن نازک تر از برگِ سمن گفت
ولے با من بگو آں دیدہ ور کیست؟ کہ خاری دید و احوالِ چمن گفت![3]

’’اس محفل میں سینکڑوں دانا آئے جنہوں نے پھول کی پتی سے بھی نازک تر باتیں کہیں لیکن مجھے یہ بتاؤ وہ دیدہ ور کون تھا جس نے کانٹا دیکھ کر چمن کا پورا حال بیان کردیا ‘‘-

یعنی پھول کی پتیاں بھی اتنی نازک نہیں ہوتیں جتنی ان دانشوروں کی باتیں تھیں- لیکن افسوس! جب میں نے اس کے مترجم کو پڑھا تو مجھے بہت دکھ ہوا کیونکہ بقول اقبال:

گلہ تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا کہاں سے آئے صدا ’’لا الہ الا اللہ‘‘[4]

مترجم پر مجھے دکھ ہوا کہ مترجم نے بقول نظیری نیشا پوری:

چوبِ ہر نخل منبر نشود دار کنم ’جس درخت کی لکڑی منبر بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی میں اسے سولی بنادیتا ہوں‘‘-

یعنی مترجم نے فقط ملی حوالہ سے کہا کہ اقبال نے ملت کے اجڑے ہوئے اس چمن کا حال صرف ہندوستان کو دیکھ کر بیان کردیا -ایک دوسرے مترجم صاحب نے تو شعر کا اور مسلمان قوم کی تشبیہ کا بیڑا ہی غرق کر دیا انہوں نے مسلمانوں کو کانٹے سے تشبیہ دی ہے-حالانکہ اس کلام میں خار اور چمن کے فرق کو بیان کیا گیا ہے کہ خار کیا ہے اور چمن کیا ہے؟ تمام عظیم تر فارسی شاعر جن میں فرید الدین عطار، غزنوی سنائی، رومی اور دیگر تمام شعرا ہیں ان سے اقبال یہ تصور اخذ کرتے ہیں کہ خار سے مرادانسان کا مادی وجود ہے جو اس دنیا میں پروان چڑھا ہے جبکہ چمن سے مراد چمن وحدت ہے جہاں سے اس کی روح اس دنیا میں آئی ہے اور جہاں اس کی روح نے واپس لوٹ کر جانا ہے-اس لئے دیدہ ور وہ ہوتا ہے جویہاں انسان کا وجود دیکھتا ہے اور اس کی روح کا حال معلوم کرلیتا ہے کہ اس کی روح کا چمنِ وحدت کے ساتھ کیا تعلق ہے-

ہمارے مرشد کریم نے اعلیٰ ترین انسانی مقصد اجاگر کیا جو انسان کے وجود سے دنیا کی غفلت کو ختم کرے-اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ ہم میں سے ہر ایک کی زندگی کا یہ اولین مقصد ہونا چاہیے کہ جو مشن و پیغام مرشد کریم بانی اصلاحی جماعت(قدس اللہ سرّہٗ) نے ہمارے سپرد کیا ہےوہ ہمارے کردار سے ہماری زندگی کے ایک ایک دن میں جھلکتا ہوا نظر آنا چاہیے کیونکہ اگر اس کی تاثیر نظر نہیں آتی تو میں سمجھتا ہوں کہ ہم اس کی تسبیح کے دانے کہلوانے کے قابل نہیں ہیں-حضور مرشد کریم کاوہ قول یاد کریں کہ’’جس دن آپ ایک نئے آدمی تک اپنا پیغام نہیں پہنچاتے آپ اپنے اوپر کھانا ممنوع کر لیں ‘‘-یہ آپؒ کی تحریکی زندگی تھی اور آپ کے سفر کی وہ روایت تھی جو میں نے آپ تمام نوجوان ساتھیوں کو عرض کی-اس لئے آپ بھی اپنی زندگی کی دیگر مشاغل اور مصروفیا ت میں سے کچھ وقت نکال کراس مشن کی ترویج کریں- میرے خیال میں کوئی پختون،سندھی، کشمیری، پنجابی،بلوچی، مہاجر یا جو بھی ہے اگر ان سب کی پاکستان سے وفاداری استوار ہوسکتی ہے تو اس کی بہترین تشریح وہی ہے جو حضور مرشد کریم بانی اصلاحی جماعت قدس اللہ سرّہٗ نے ہمیں عطا کی ہے اوروہ پاکستان کا روحانی تصور ہے جو پاکستان کو متحد رکھ سکتا ہے-

آج کا یہ سیمینار بھی حضور مرشد کریم سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی (قدس اللہ سرّہٗ) کی ذاتِ گرامی کی شخصیت اور فکر کےمتعلق ہے - اس لئے آپ (قدس اللہ سرّہٗ) کی جو روحانی کرم فرمائی ہے اس کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالنے کے لئے بہت ہی معزز و محترم شخصیات ہمارے درمیان تشریف فرما ہیں جن میں معزز و محترم مفتی احمد فرید صاحب جو کہ ہمارےابتداء کے مفتیان کرام میں سے ہیں-ان کے برادرِ بزرگ حضرت مفتی صالح محمد صاحب اور ان کی اپنی جماعت کے لئے جو علمی فکری خدمات ہیں وہ کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں اور ان کے گھر کی ایسی داستانیں ہیں جن پر جتنا فخر و ناز کیا جائے وہ کم ہے- مفتی صاحب 1990ء سے سلسلہ تدریس کےساتھ وابستہ ہیں اور بڑے بڑے دینی مدارس میں تدریس کے فرائض بھی سر انجام دیتے رہے ہیں- میں ان کا صرف ایک دلچسپ واقعہ عرض کرنا چاہوں گا کہ:

’’مرشد کریم بانی اصلاحی جماعت قدس اللہ سرّہ ان کے برادرِ بزرگ مفتی صالح محمد صاحب کی دعوت پر گھوڑے لے کر ان کے گاؤں میں گئے- مفتی صاحب نے کہاکہ یہاں گھوڑوں سے کوئی رقص کروایا جائے تو حضور مرشد کریم نے فرمایا کہ مفتی صاحب گھوڑوں کے رقص کے لئے ڈھول ضروری ہوتا ہے تو آپ کی چونکہ مذہبی شناخت ہے اس لئے میں نے ساتھیوں کو منع کیا ہے کہ کوئی ساتھی یہاں پر ڈھول نہ بجائے-لیکن مرشد کریم سے ان کے عشق و محبت کا جو والہانہ انداز تھا کہ،مفتی صاحب جامع میں مدرس ہیں اور ان کے سینکڑوں طلباء ان کے ساتھ وہاں موجود ہیں تو مفتی صاحب نے ڈھول اپنے گلے میں ڈال لیا اور بجاتے ہوئے وہاں میدان میں آگئے- یہ بات درست ہے کیونکہ یہ ثقافت و روایت ہے اور اسلام ثقافت کی نفی نہیں کرتا ‘‘-

ان کے ساتھ برادرم عثمان حسن صاحب تشریف فرما ہیں جو کہ ایک طویل عرصہ سے روحانی طور پہ حضور مرشد کریم کی ذاتِ گرامی سے وابستہ ہیں اور مسلم انسٹیٹیوٹ کی ابتداء ہی سے بہت اہم ذمہ داریوں پر مامور ہیں خاص کر جتنی بھی ریسرچ کوآرڈنیشن اور ریسرچ کوالٹی ہے اس کو سپروائز کرتے ہیں-پیشہ کے اعتبار سے یہ سائنٹسٹ ہیں اور نیشنل سنٹر فار فزکس میں تدریس و تحقیق کی خدمات سر انجام دیتے ہیں-ان کے ساتھ میجر منیر ملک صاحب تشریف فرما ہیں جن کا تعلق میانوالی سے ہے-بہت اوائل ہی سے ان کو حضور مرشد کریم کے قرب کی وابستگی نصیب رہی ہےاس لئے آج ہم ان کی خوبصورت گفتگو سے استفادہ کریں گے-

ماڈریٹر:

صاحبِ صدر نے نہایت خوبصورت گفتگو فرماتے ہوئے فصاحت و بلاغت سے نشست کے اغراض و مقاصد بیان فرما ئےاور ہمیں ایک وژن و مقصد بتایا ہے کہ جس کے مطابق ہم اپنی پوری زندگی گزار سکتے ہیں- اب مہمانانِ گرامی جن کا تعارف ہو چکا ، اُن میں سے جناب علامہ مفتی احمد فرید صاحب کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ اپنے خیالات سے حاضرین کوآگاہ کریں-

علامہ مفتی احمد فرید صاحب:

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

یوم سلطان الفقر اور یوم آزادی کے اس عظیم دن کے حوالہ سے مَیں صدر محفل صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب، مقررین مہمان گرامی اور تمام شرکاء کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کیونکہ یہ ہم سب کے لئے بہت بڑی سعادت اور خوش قسمتی کا دن ہے-جناب صدر محفل صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب نے مجھے میرا ماضی یاد کروایا ہے جو میں بھول گیا تھا-میں اپنی داستان عرض کرنا چاہوں گا کہ میری مرشد کریم سے کس طرح ملاقات ہوئی:

’’مَیں کراچی میں آرمی کا خطیب تھا تو شیخ الحدیث حضرت سلطان محمد معظم علی صاحب(دامت برکاتکم العالیہ) وہاں تشریف لے گئے-اس وقت تک میں حضور مرشد کریم کے اسم گرامی سے بھی واقف نہیں تھا- مجھے میرے بڑے بھائی جان مفتی محمد صالح صاحب نے حکم فرمایا کہ دربار سلطان باھو سے حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ) کی اولاد پاک میں سے صاحبزادہ صاحب آرہے ہیں-آپ وہاں جاؤ وہاں حاجی محمد نواز صاحب ہیں جو یہاں کے رہنے والے ہیں آپ ان سے ملاقات کر کے عرض کریں وہ آپ کی حضرت صاحب سے ملاقات کروادیں گے- لیکن جب وہاں پہنچا تو صوفی اللہ دتہ صاحب سے ملاقات ہوئی تو صوفی صاحب نے مجھے پہچان لیا اور کہا کہ آپ مفتی صالح محمد صاحب کے بھائی ہو تومیں نے کہا کہ جی-انہوں نے فرمایا کہ آپ یہاں بیٹھیں میں آپ کی حضرت صاحب سے ملاقات کرواتا ہوں - تھوڑی دیر کے بعد حاجی محمد نواز صاحب تشریف لے آئے -اس کے کچھ دیر بعد میری سلطان محمد معظم علی صاحب سے ملاقات ہوئی تو اس دن ہم رات اڑھائی بجے تک نشست میں بیٹھے رہےاور اس دوران انہوں نے جو مرشد کریم کی مجھ سے باتیں کی تب سے دل میں ان سے ملاقات کا شوق پیدا ہوا-پھر میں نے سوچا کہ میں ان سے ملاقات کرنے سے پہلے ایک خط لکھوں کہ آپ کے بھائی جان سے میری ملاقات ہوئی ہے میں بھی کبھی آپ سے ملاقات کروں گا کیونکہ اس وقت میں آرمی کا خطیب تھا اور اس دور میں خطیب ہونے کی ایک بہت قدر تھی-اس حوالہ سے میں نے آپؒ کی ذات کے لئے خط لکھا اس کو پڑھا اور پڑھ کر یہ خیال آیا کہ شاید خط میں جو میرے الفاظ ہیں وہ آپؒ کی شایان شان نہ ہوں، میں نے وہ خط پھاڑ دیا اور دوبارہ لکھا-دوسری بار پھر لکھا اور پھریہ بات ذہن میں آئی کہ یہ آپؒ کی شایان شان نہ ہو؛اسے بھی پھاڑ دیا،ا س دن میں نے 5 مرتبہ خط لکھا لیکن وہ پانچوں خط میں نے پھاڑ دیے اس خیال سے کہ آپ کی شایان شان نہ ہوں-اس لئے سوچا کہ خود ہی جاکر ان سے ملاقات کرلوں گا-پھر جب وقتِ ملاقات آیا اور بندہ ناچیز کو ان کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع ملا تو حضور مرشد کریم ایک کمرہ میں تشریف فرما تھے تو جب ان کی پہلی ہی نظر مجھ پر پڑی تو انہوں نے فرمایا کہ آئیے مفتی صاحب، اس دن سے یہ لفظ میرے لئے ایسا استعمال ہوا کہ اکثر دوستوں کو میرا نام تک بھی یاد نہیں تھا مجھے دیکھتے ہی مفتی صاحب کے نام سے مجھے پکارتےتھے:

نظر ان سے ملی نظر ان کی ہوگئی یہ ایک عجیب حادثہ نظر کا نظر سے تھا

 تقریبا زندگی کے23 سال میں نےمدارس میں گزارے ہیں جس میں پڑھتا اور پڑھاتا رہا ہوں لیکن23 سال میں مَیں نے وہ کچھ نہیں پایا جو مَیں نے ایک نگاہ سے پایا-جب سے آپ نے لفظ مفتی میرے لئے فرمایا تب سے اب تک مجھے اسی لفظ سے یاد کیا جاتا ہے اور امید ہے کہ بعد از موت بھی اسی لفظ سے یا د کیا جائے گا‘‘-

یہ آپ کی خِدمت میں میری پہلی قبولیّت تھی اُس دِن سے آج تک میں خود اور میرا سارا کچھ اُنہی کے نام ہے-اُس دِن سے میں نے یہ تہیّہ کیا کہ اگر زندگی کسی کے نام کرنی ہے تو اُس کیلئے حضرت سُلطان محمد اصغر علی صاحب سے بڑھ کر کوئی اور نہیں ہو سکتا-کامل ہونے کا جو معیار سالہا سال سے کتابوں میں پڑھتا آیا تھا اُس کی عملی تصویر اگر کہیں ملی تو آپ ہی کی ذاتِ گرامی میں ملی -دل کا یہ سودا ان سے کسی گفتگو کے نتیجے میں نہیں بلکہ اُن کی پہلی نگاہ کے نتیجے میں ہوا- آپ قدس اللہ سرّہٗ کی ذات اقدس کے حوالہ سے ایک مختصر سا واقعہ عرض کرنا چاہوں گا کہ:

’’میں دربار شریف پر حاضر ہوا تو معلوم ہواکہ حضور مرشد کریم شکار کیلئے سرگودھا کے ایک علاقہ میں جانا چاہ رہے ہیں-مَیں نے دوڑکر ملاقات کی اور عرض کی کہ حضور مَیں بھی شکار کے لئے آنا چاہتا ہوں اور دیکھنا چاہتا ہوں کیونکہ اس سے قبل مَیں نے کبھی شکار نہیں دیکھا تھا -آپ نے فرمایا کہ ’’اچھا ٹھیک ہے‘‘ اتنا فرماکر آپ چلے گئے-مَیں سوچ رہا تھا کہ آپ نجانے کہاں تشریف لے جائیں مجھے تو راستوں کابھی بالکل نہیں پتا کیسے پہنچوں گا-تقریبًا آدھے گھنٹے کے بعد بابا نظام خان آئے پوچھا کہ مفتی صاحب کہاں ہیں؟ اور انہوں نے بتا یا کہ حضور مرشد کریم نے مجھے فرمایا ہے کہ شکار کے لئے آپ کو ساتھ لے کر آنا ہے-ہم چلے گئے، جب شام ہوئی اور لالا خدا بخش صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آپ کو مرشد کریم یاد فرمارہے ہیں-مَیں جب آپؒ کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو آپؒ نے کافی ساری گفتگو کرنے کے بعد فرمایا کہ مفتی صاحب ہم اس لئے شکار نہیں کرتے کہ کسی جانور کو تکلیف دیں یا اپنے لئے کوئی کھیل تماشا بنائیں-بلکہ جب ہم شکار کے لیے چلتے ہیں تو غسل کرکے اسم اعظم پڑھتے ہیں اور پھر سارادن وہ اسم اعظم ہمارے سامنے رہتا ہے،اس لئے آپ کل آئیں تو تازہ غسل کرکے آنا-جب آپؒ نے یہ فرمایا تو میرے دل میں سوال اٹھا کہ عموماً شکار میں تو یہی ہوتا ہے کہ شکار کو پکڑ کر تکلیف دی جاتی ہے،آپؒ کے غلاموں کے پاس جو دو تین مختلف شکاری کتے ہوتے تھے وہ ان کو پکڑتے ہیں اور ان کو مار کر تکلیف دیتے ہیں لیکن آپؒ فرما رہے ہیں کہ ہم اسم اعظم کا تصور کرتے ہیں اور اسم اعظم سارا دن ہمارے سامنے رہتا ہے؟ابھی یہ خیال ہی آیا تھا کہ فوراً آپؒ نے فرمایا کہ مفتی صاحب اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ :

’’سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ ‘‘[5]                                         ’’زمین میں سیر کرو‘‘-

’’فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللہِ‘‘[6]   ’’زمین میں منتشر ہوجاؤ اور (پھر) اللہ کا فضل (یعنی رزق) تلاش کرنے لگو ‘‘-

ہم تو اللہ تعالیٰ کے فضل کو تلاش کرتے ہیں- پھر میرے دل میں خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ کا فضل تو یہی ہے کہ وہ جانوروں کو پکڑتے ہیں، اس کو ذبح کرکے پکاتے ہیں یہی تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہے؛تو فوراًآپؒ نے فرمایا کہ جانوروں کو پکڑنا اللہ تعالیٰ کا فضل نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کے مظاہر جو کائنات میں رکھے ہیں ان چیزوں کا مشاہدہ کرنا یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس کی تلاش کے لئےہم جاتے ہیں ‘‘-

حضور مرشد کریم کی ذات اقدس کےتقویٰ و پاکیزگی متعلق ایک واقعہ عرض کرنا چاہوں گا کہ حضور مرشد کریم کی ذات اقدس میں جو تقوی و پاکیزگی کا معیارتھا مَیں نے آج تک دنیا میں نہیں دیکھا:-

’’ایک مرتبہ بانی اصلاحی جماعت قدس اللہ سرّہٗ علامہ عنایت اللہ قادری صاحب (مرحوم)کے گھر (کڑی خیسور میں) تشریف فرما تھےا ور بندہ ناچیز بھی آپ کے ساتھ تھا- آپؒ نے غسل فرماکر کپڑے تبدیل فرمائے- کپڑے پہننے کے پانچ سے دس منٹ کے بعد آپ کو باہر جانے کی ضرورت ہوئی تو میں دیکھتا ہوں کہ جب آپ باہر آتے ہیں تو آپؒ فرماتے ہیں کہ مجھے کپڑوں کا شک پڑ گیا ہے لہذا مجھے اور کپڑے دیے جائیں-ایسی بات میں نے دنیا میں کسی اور شخصیت میں نہیں دیکھی حالانکہ بہت سارے بزرگوں اور علماء کرام کے ساتھ میرا بیٹھنا ہوا اور بہت سارے لوگوں کےساتھ اس قسم کا معاملہ بھی پیش آیا-لہذا آپ کے وجود میں اس قدر تقویٰ و پرہیز گاری تھی جس کی حقیقت بھی یہی تھی کہ آپ طالبان مولیٰ کے لئے ایک اکمل وجامع رہبر تھے‘‘-

اس واقعہ کی ایک مثال بھی ایک واقعہ سے عرض کرنا چاہوں گا کہ:

’’میرے بڑے بھائی جان مفتی صالح محمد صاحب جب مدرسہ میں پڑھاتے تھے تو مدرسہ میں یہ شیڈول ہوتا تھاکہ 15شعبان سے پورا رمضان المبارک چھٹیاں ہوتی تھیں- ان چھٹیوں میں ان کا شیڈول یہ ہوتا تھا کہ وہ پنجاب کے جتنےبھی اکابر صُوفی بزرگ تھے ہر ایک کے مزار پر ایک رات گزارتے-وہ اس پورے معمول کا شیڈول مجھے دے کر جاتے تھے کہ فلاں فلاں دن میں فلاں فلاں مزار پر ہوں گا اگر کوئی اہم بات ہوتی تو مجھے ان کو بتانے کا حکم تھا-آپ نے جب مجھے یہ شیڈول دیا اور مجھے بتایا کہ میں یہاں سےجارہا ہوں،پہلےقاسم آباد شہاز عارفاں حضرت سخی سلطان محمد بہادر علی شاہ صاحب (قدس اللہ سرّہٗ) کے مزار پر جاؤں گا اس کے بعد میں قصور حضرت بابا بلھے شاہ صاحبؒ کے مزار پرجاؤں گا پھر اس کے بعدداتا صاحب اور اس کے بعدگولڑہ شریف-وہ مجھے یہ شیڈول دے کر خانیوال سے روانہ ہوگئے- بڑے بھائی چونکہ ہرجمعرات کو خواجہ قطب الدین صاحب کےپاس تصوف سبقاً سبقاً پڑھنےکیلئے جایا کرتے تھے تو ’’تحفہ مرسلا شریف‘‘ اور ’’لوائح جامی شریف‘‘ ان کے بیگ میں ہوتی تھی-وہاں سے ان کو خلافت بھی ملی اور بیعت کرنے کا حکم ملا تھا-ایک دفعہ والد صاحب کے بار بار اصرار پر انہوں نے ایک آدمی کو بیعت بھی کیا تھا لیکن حضور مرشد پاک سے ملاقات کے بہت عرصہ بعد وہ کہتے تھے کہ میں اس قابل نہیں ہوں کہ میں بیعت کروں کیونکہ میں اپنی حقیقت سے آشنا ہوں-تقریبا چار دن کے بعد مجھے اطلاع ہوئی کہ حضور مرشد کریم قاسم آباد تشریف لائے ہیں-رمضان شریف کا موقع تھا تو میں زیارت کےلئے قاسم آباد گیا- میں وہاں پہنچا اور دیکھتا ہوں کہ بڑے بھائی مسجد میں بیٹھ کر ’’حزب البحر ‘‘ پڑھ رہے ہیں-میں نے پوچھا کہ بھائی جان آپ جو مجھے شیڈول دے کر گئے تھے اس کے مطابق تو آپ کو داتا صاحب ہونا چاہیے تھا لیکن آپ یہاں کیسے؟ وہ وہاں اتنا کچھ پڑھتے تھے میں جب وہاں گیا تو وہ وہاں بیٹھے تھے تو آپ نے اپنی زبان سرائیکی میں فرمایا:

’’غلام فرید کہیں مولوی کوں ذبح کرنا آسان کَم نئیں اے - گرمیکوں ذبح کیتے تاں حضور سلطان محمد اصغر علیؒ صاحب کیتے‘‘-(یعنی کسی مولوی کو ذبح کرنا آسان کام نہیں ہے (لیکن ) اگر کسی نے مجھے ذبح کیا ہے تو وہ حضرت سُلطان محمد اصغر علی صاحب ؒ نے کیا ہے )

اس وقت یہ آپ کے کلمات تھے لیکن آپ ’’حزب البحر‘‘پڑھ رہے تھے جو اہل عشق کی سب سے انتہائی منزل کا وظیفہ ہے-میں حیران ہوا کہ ادھر یہ کلمات فرما رہے ہیں اور دوسری طرف حزب البحر پڑھ رہے ہیں تو میں نے اور کوئی بات نہیں کی میں واپس آگیا-دو دن بعد جب بھائی گھر تشریف لائے تو ان کاچہرہ شدید جلال کی وجہ سے سرخ تھااور وہ کسی کو ساتھ بیٹھنے نہیں دیتے تھے- ایک دن میں نے پوچھا بھائی جان یہ کیا معاملہ ہے آپ کا چہرہ اتنا جلالی کیوں ہے انہوں نے بتایا کہ معاملہ تم نے اس دن دیکھ لیا اور اب یہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کا کرم ہو گیا ہوا ہے جس کا کہ میں متلاشی تھا‘‘-

آپؒ نے اصلاحی جماعت کی جو بنیاد رکھی وہ میرے نزدیک بہت بڑی بات ہے کیونکہ ہمارے علاقے میں اکثر سوال کیے جاتے ہیں کہ اصلاحی جماعت کب سے ہے؟ کس نے بنائی ہے؟ اس کا مشن و مقصد کیا ہے؟ تو اس کے جواب میں اصلاحی جماعت کی تاریخی حیثیت عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اصلاحی جماعت کی تاریخی حیثیت کیا ہے؟ کچھ دوست احباب یہ سمجھتے ہیں کہ حضور مرشد کریم سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی صاحب کے دورسے یہ کام شروع ہوا ، یہ درست ہے کہ ایک خاص مدتِ زمانی میں آپ نے وقت کے تقاضوں کے مطابق اس کا نام یہ رکھا لیکن میری تحقیق کے مطابق اصلاح کی جماعت کی بنیادآپ کے دور سے نہیں بلکہ آپ نے اصلاحی جماعت کو دوبارہ نئی زندگی بخشی ہے-کیونکہ اگر آپ تاریخ کے اوراق میں دیکھیں جتنے بھی بزرگان دین ہیں انہوں نے امت کی اصلاح کا ہی کام کیا تھا- بزرگان دین سے پہلے انبیاء (علیھم السلام)، اسی طرح آقا کریم (ﷺ)کی ذات اقدس تک چلے جائیں تو بات امت کی اصلاح کی ہی سامنے آتی ہے جس کا ثبوت ہمیں قرآن مجید کی ان آیات مبارکہ سے ملتا ہے:

’’لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِہٖ فَقَالَ یٰـقَوْمِ اعْبُدُو اللہَ مَالَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ‘‘[7]

’’بے شک ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا سو انہوں نے کہا: اے میری قوم (کے لوگو!) تم اﷲ کی عبادت کیا کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں‘‘-

’’وَ اِلیٰ عَادٍ اَخَاھُمْ ھُوْدًاط قَالَ یٰـقَوْمِ اعْبُدُو اللہَ مَالَکُمْ مِّنْ اِلٰـہٍ غَیْرُہٗ‘‘[8]

’’اور ہم نے (قومِ) عاد کی طرف ان کے (قومی) بھائی ہُود (علیہ السلام) کو (بھیجا) انہوں نے کہا: اے میری قوم! تم اﷲ کی عبادت کیا کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں‘‘-

’’وَ اِلٰی ثَمُوْدَ اَخَاہُمْ صٰلِحًام قَالَ یٰـقَوْمِ اعْبُدُواللہَ مَالَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ‘‘[9]

’’اور (قومِ) ثمود کی طرف ان کے (قومی) بھائی صالح (علیہ السلام) کو (بھیجا) انہوں نے کہا: اے میری قوم! اﷲ کی عبادت کیا کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں‘‘-

یہاں عبادت تو ہوتی تھی مگر مقصود عبادت تصور خداوندی نہ تھا- جب کبھی بھی گمراہی کا دور دورہ شروع ہوا تو اللہ تعالیٰ نے مصلحین کوبھیجا یعنی جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی بارگاہ سے نبی یا رسول ہونے کا اعزاز بخشا-اسی طرح آقا کریم (ﷺ) کی ختمِ نبوت کے بعد یہی کام اولیائے کاملین کے ذمہ لگایا گیا جس کے لئے آقا کریم (ﷺ) نے بھی ارشاد فرمایا:’’میری امت کے اولیاء بنی اسرائیل کے انبیاء کی طرح ہیں‘‘-ان اولیاء کاملین کا کام لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف راستہ دکھانا تھا-آج بانی اصلاحی جماعت نے ہمیں بھی وہی اللہ تعالیٰ کی ڈائریکشن عطا کی ہےکیونکہ اللہ تعالیٰ کا نام فقط زبان تک تھا لیکن دل کے اندر تصور وخیال نہیں تھا-اس لئے آپؒ نے تصور اسم اللہ ذات کے ذریعے لوگوں کو وہ خزانہ عطا فرمایا جس سے نُورِ یقین دل میں پیدا ہوتا ہے اور نُورِ یقین وہ دولت ہے جو انبیاء کرام (علیھم السلام) اور اولیائے کاملین شروع سے عطا فرماتے تھے-کیونکہ مشکوۃ شریف کی ایک حدیث مبارکہ ہےکہ:

’’اتبعو السواد الاعظم فانہ من شذ شذ فی النار‘‘[10]

’’بڑی جماعت کی پیروی کروپس جو اس(بڑی جماعت) سے علیحدہ ہوا وہ دوزخ میں گیا‘‘-

بعض لوگ اس حدیث پاک میں بڑی جماعت سے مراد وہ جماعت لیتے ہیں جس کی افرادی قوت زیادہ ہو-لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ کسی بھی جماعت کی طرف توجہ کرلیں وہ جماعتیں وقت، زمانہ اور علاقہ کے لحاظ سے محدود ہیں-اصل میں بڑی جماعت وہ کہلاتی ہے جو وقت، زمانہ اور علاقہ کے ساتھ محدود نہیں نہ ہو بلکہ اس کا نظریہ بہت اعلیٰ اور دیر پا ہو- اس حوالہ سے آپ دیکھیں کہ جو دور تک سب سے بڑا وژن جاتا ہے وہ ایک ہی جاتا ہے جسے کہاجاتا ہے طالبان مولیٰ- یہ طالبان مولیٰ آپ کے دورمیں یا حضور شہنشاہ بغداد (قدس اللہ سرّہٗ)کے زمانہ میں پیدا نہیں ہوئے اور نہ ہی یہ طالب آقا کریم (ﷺ) کے زمانہ سے ہیں بلکہ یہ طالب تو اس سےبھی بہت پہلے کے ہیں جس طرح حضرت موسی علیہ السلام طالبِ مولیٰ تھے، تمام انبیاء کرام طالبِ مولیٰ تھے - اس لئے اللہ تعالیٰ کی ذات سے ملاقات کایہ جو وژن ہے یہ بہت قدیم ہے جو کہ تمام انبیاء کرام (علیھم السلام)سے چلا آتا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ سب سے بڑی جماعت وہ جماعت کہلائے گی کہ جس کا وژن اللہ تعالیٰ کی ذات کا قرب ہو-اس لئے حضور نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا کہ بڑی جماعت کی پیروی کرو کیونکہ جو اس جماعت میں شامل ہوا وہ کامیاب ہوا اور جس نے اس جماعت سے علیحدگی اختیار کی تو وہ پھر علیحدہ جہنم میں جا گرا-

یہاں اسی بات کا ایک حوالہ دینا چاہوں گا کہ مفتی احمد یار خان نعیمی صاحب نے بھی یہاں بیان کیا ہے کہ بڑی جماعت وقت یا علاقہ کے ساتھ محدود نہیں اگر کسی زمانہ میں کسی علاقہ میں بڑی جماعت ہو اور اس جماعت کا صرف ایک فرد اس کے وژن سے واقف ہو اور باقی سارا علاقہ اس وژن سے بے خبر ہو تو اس پورے علاقے میں اس وقت ایک ہی شخص بڑی جماعت ہے، اسی ایک شخص کی تابعدادی کرنا سواد اعظم کی تابعداری کرنا ہے- وہ ایک شخص اوّلاً صحیح معنوں میں طالب مولی ہے اور حضور مرشد کریم نے بھی یہی کام سر انجا م دیا ہے کہ طالبان مولیٰ کی اس جماعت کو از سرنو پھر کھڑا کیا اور وہ ازل والا مشن عطا کر کے طالبانِ مولیٰ کو ان کی چاہت تصور اسم اعظم عطا فرماکر منزل مقصود تک پہنچانے کا فریضہ سرانجام دیا جو کہ ایک بہت بڑی جماعت کی علامت ہے-

ماڈریٹر:

اب ہمارے اگلے مقرر حضور مرشد کریم بانیٔ اصلاحی جماعت کے دیرینہ اور معتمد ترین ساتھی ہیں میری مراد جناب میجر منیر ملک صاحب ہیں-نہایت ادب سے ملتمس ہوں کہ جناب اپنے خیالات کا اظہار فرمائیں!

میجر منیر ملک:

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

سب سے پہلے تو مَیں صدرِ محفل جناب چیئر مین مسلم انسٹیٹیوٹ صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب اور انتظامیہ کا مشکور ہوں کہ انہوں نے مجھ جیسے ناچیز کو اس محفل میں اظہارِ خیال کے لئے بُلایا-لیکن عرض کرتا چلوں کہ سلطان الفقر ششم صاحبزادہ سلطان محمد اصغر علی(قدس اللہ سرّہٗ) کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرنا شاید میرے بس میں نہیں ہے-آج سے پہلے، ابھی تک اور آئندہ کے لئے بھی آپ کی ذاتِ گرامی اور مشن کے حوالہ سے مستقبل کے بارے میں بہت کچھ کہا جاچکا ہے، بہت کچھ کہا جارہا ہے اور کہاجاتا رہے گا کیونکہ بہت سی کتب و رسائل اور صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب کے خطابات میسر ہیں-میں صرف یہ کہنا چاہوں گا کہ پیشہ کے لحاظ سے میں ایک سادہ سا فوجی ہوں؛ میں شاید اتنی طویل و خوبصورت گفتگو نہ کرسکوں جس طرح میرے محترم برادرم مجھ سے پہلے فرما رہے تھے-لیکن کوشش کروں گا کہ اپنے خیالات کو بہتر انداز سے آپ سب سے ساتھ شیئر کروں- میری کوشش ہو گی کہ میں اس بات کو ایکسپریس کر سکوں کہ حضور مرشد کریم کی صُحبت اور ان کے پاس بیٹھنے کا میرے جیسے عام آدمی پہ کیا اثر تھا اور ہم نے ان سےکیا سیکھا-

مجھے جب سے حضور مرشد کریم کی صحبت نصیب ہے اور جو کچھ میں نے اس دورانیہ میں محسوس کیا ہے اگر میں بھی بیان کرنے لگ جاؤں تو ایک زمانہ لگ جائے لیکن آپؒ کا تذکرہ کبھی ختم نہ ہو-1993ء کی بات ہےجب میں لیفٹیننٹ ہوتا تھا ،مجھے امام غزالیؒ کی ایک کتاب کیمیائے سعادت پڑھنے کا موقع ملا جس سے میرے اندرحقیقت کو تلاش کرنے کا جذبہ پیدا ہوا-حالانکہ آپ سب بخوبی جانتے ہیں کہ میں ایک سادہ سا آدمی ہوں اور سادہ ساآدمی کا اسلام سے کیا رشتہ ہوتاہے؟ وہی جو بچپن میں والدین اور مسجد کے مولوی سے سنااور دینیات کی کتابوں میں پڑھا-یہ وہ پہلی کتاب تھی جس کو پڑھنے کے بعد مجھے ایک نئی جہت ملی اور پہلی دفعہ میں نے پڑھا کہ انسان کی زندگی میں مرشد کی اہمیت و ضرورت کیا ہے ؟ 1993ء سے 1998ء تک کا سفر یہ تھا کہ میں جب کبھی بھی نماز پڑھتا تو امام غزالی کی نصیحتوں کو یاد کرتے ہوئے دعا میں ایک سچے مرشد کو ضرور مانگتا اور لوگوں میں حقیقت کو تلاش کرنے کی کوشش بھی کرتا کہ کہیں یہ تو نہیں ہے، کہیں یہ تو نہیں ہے!- پھر وقتِ قبولیت آیا کہ مجھے بانیٔ اصلاحی جماعت قدس اللہ سرّہٗ کی ذات گرامی کا تعارف ہوا؛ وہ واقعہ عرض کرنا چاہوں گا کہ:

’’1998ء یا 1999ء کی بات ہے جب کارگل کا واقعہ ہوا تھا اور ہم پاک فوج اس کی تیاریوں میں مشغول تھے- میری ڈیوٹی وہاں بارڈر پر لائن آف کنڑول پر ہوتی تھی اور مجھے ان دنوں مطالعہ کے لئے کافی وقت مل جاتا تھا اور میں قرآن مجید کو ترجمہ کے ساتھ پڑھتا رہتا اور کوئی دیگر کتب کا مطالعہ کر لیتا تھا-ان دنوں میری ملاقات ایک اور کپتان صاحب سے ہوئی،جب وہ میرے پاس تشریف لائےتو ان کے پاس حضرت سلطان باھو قدس اللہ سرّہٗ کی کتاب ’’کلید التوحید خورد‘‘اور سلطان الفقر ششم ؒکی تصویر مبارک تھی-چونکہ ان دنوں میں مطالعہ کرتا تھا امام غزالی ؒ کی کتاب ’’کیمیائے سعادت‘‘ پڑھی ہوئی تھی اور میں سمجھتا تھا میرے پاس بھی کافی علم ہےلیکن جب کپتان صاحب نے مجھ سےمعرفتِ الٰہی پر گفتگو فرمائی تو ان کے سامنے میں خود کو ایک چھوٹا بچہ محسوس کررہا تھا جس کو کچھ بھی پتا نہیں ہوتا،شاید اس لئے کہ یہ گفتگو میں نے زندگی میں پہلی بار سنی تھی-گفتگو کے بعد وہ کتاب اور تصویر مبارک مجھے تحفے کے طور پر دے گئے اور جب وہ مجھے یہ تحفہ دے رہے تھے تو انہوں نے میرے سامنے تصویر کو عقیدت کے انداز میں بوسہ دیا-جس کے بعد مَیں نے بھی وہ عادت بنالی کہ جب میں اس تصویر کو دیکھتا تو ویسے ہی بوسہ لیتا اور وہ کتاب پڑھتا رہتا- اس وقت وہ کتاب پڑھنے کے بعد مجھے اپنی سمجھ کے مطابق معلوم ہوا کہ مرشد کی ذات کیاہوتی ہےکیونکہ اس کتاب میں حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ) جیسی ہستی نے اپنے احوال بیان کئے ہوئے تھے اس لئےان تک پہنچنا یا سمجھنا میرے بس سے باہر تھا- پھرجب میں چھٹی پر گھر آیا تو ان ہی کے گھر اوچھالی شریف میں میلاد پاک کا پروگرام تھا جہاں پر مجھے مدعو کیا گیاتھا کیونکہ ان کے گھر سلطان الفقر ششم سلطان محمد اصغر علی صاحب (قدس اللہ سرّہٗ) تشریف فرما تھے- وہاں پر حضور مرشد کریم سےمیری پہلی ملاقات ہوئی اور آپؒ نے مجھے اسم اعظم اپنے ہاتھوں سے عطا فرمایا اور مجھے بیٹا بھی کہا-مجھے بہت کچھ آپؒ کی بارگاہ سے نصیب ہوا ،اگر اس کو ایک لفظ میں بیان کروں تو وہ یہ ہے کہ مجھے آپ قدس اللہ سرّہٗ کی بارگاہ سے بہت زیادہ ’’لاڈ‘‘ میسرآیا-اس لئے میں نے نہ کبھی اس لاڈ سے باہر نکلنے کی کوشش کی، نہ کچھ جاننےکی کوشش کی اور نہ کچھ سمیٹنے کی کوشش کی کیونکہ آپؒ کی اس آغوش میں مجھ پر اتنی لطف و عنایت ہے کہ میں اسی آغوش میں رہنا چاہتا ہوں اور بالکل بھی باہر نہیں آنا چاہتا ‘‘-

حضور مرشد کریم کی صحبت میں بیٹھنے کی وجہ سے اور آپؒ کی گفتگو سننے کے بعد اس لاڈ کے علاوہ جو پریکٹیکل چیز میرے وجود میں پیدا ہوئی وہ تصوف کی زبان میں توکل کہی جاتی جاتی ہے-یہ توکل میرا بہت بڑا سرمایہ ہے ، میں کہتا ہوں کہ ایک بچہ اگر اپنے باپ پہ یہ سمجھ کر بھروسہ رکھتا ہے کہ باپ نے مجھے جنا ہے تو میری مانگی ہوئی چیز بھی مجھے ضرور دے گا تو کم از کم ایک بندے کو بھی اپنے اللہ پاک پہ یہ یقین رکھنا چاہیے کہ اگر میں اُس پہ بھروسہ کروں گا اور کچھ مانگوں گا تو مجھے وہ خالی نہیں لوٹائے گا ، میری ہر مشکل کے حل کیلئے کوئی نہ کوئی سبب ضرور پیدا کر دے گا-یہ چیز حضور مرشد پاک کی صحبت میں بیٹھنے سے پہلے میرے اندر موجود نہیں تھی لیکن آپ کی صحبت میں بیٹھنے نے پیدا کر دی-اس بات کو ثابت کرنے کے لئے میں دو چھوٹے چھوٹے واقعات بتانا چاہوں گا کہ مجھ پر نظر شفقت ہر وقت کیسے رہتی ہے:

’’حضور مرشد کریم کے زمانہ میں ایک دفعہ میں چھٹی گیا ہوا تھا اور مجھے اکثر گیسٹرک کا مسئلہ رہتا تھا اور ہمارے شہر میانوالی سے تقریباً 65 کلو میڑ کی دوری پرایک گاؤں میں ایک مشہور حکیم تھا اور اللہ نے ان کے ہاتھ میں واقعی شفا دی تھی کیونکہ ان کے والد صاحب ایک نیک شخص تھےاور وہ بھی حکیم تھےاس کے علاوہ میں ایک دو بار ان سے دوائی بھی لایا تھا اور مجھے آرام بھی آگیا تھا- عید کا دوسرا دن تھا اور عموماً عید کےدوسرے دن سب بازار بند ہوتے ہیں تومیں اور میرا کزن موٹر سائیکل پر ان کی طرف روانہ ہوئے تو میرا کزن مجھے بار بار کہتا رہا کہ یا ر اتنا لمباسفر ہے، راستہ میں موٹر سائیکل خراب ہوگیا یا ٹائر پنکچر ہوگیا تو کیا کریں گے-اس وقت میری نگاہ مرشد کریم کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے سبب بنانے پر تھی میں نے اس سےکہا کہ بھائی کچھ نہیں ہوتا چلتے ہیں- ایک جگہ پہنچے تو موٹر سائیکل پنکچر ہوگیا اور میرا کزن مجھے جو سنا سکتا تھا اس نے سنائیں، ہم تھوڑا سا آگے گئے اور دیکھتے ہیں کہ ایک پٹرول پمپ پر اتفاق سے ایک چھوٹی سی دکان کھلی ہوئی تھی میں نے اس بندے کو کہا کہ یار موٹر سائیکل پنکچر ہوگیا ہے آپ لگادیں-اس نے پنکچر لگایا اور ہم چلے گئے-پھر واپسی پر جب ہم ایک سیم زدہ علاقہ یعنی کہ بالکل سنسان وویران جگہ سے گزر رہے تھے تو موٹر سائیکل دوبارہ پنکچر ہوگیا -اب میرا کزن جو پہلے ہی بہت مجھ پرغصہ تھا، پھر دوبارہ مجھ پر آگ بگولا ہونے لگا- ہم نے آہستہ آہستہ چلنا شروع کیابمشکل 100 یارڈ ز چلے ہوں گے تھوڑا سا آگے بائیں جانب سامنے ایک کمرے کا دروزاہ کھلا ہوا نظر آیا جس کے باہر ایک موٹر سائیکل کھڑا تھا-ہم اس دکان کی جانب بڑھے تو وہ بندہ دکان بندکررہا تھا جیسے میں نے کہااسلام علیکم! اس نےمیری طرف دیکھ کر کہا وعلیکم السلام-میں نے کہا کہ ہم مسافر ہیں موٹر سائیکل پنکچر ہوگیا ہے آپ مہربانی کر کے پنکچرلگادیں-اس بندے نے ایک منٹ کے لئے میری شکل کی طرف غور سےدیکھا- جب وہ پنکچر لگارہا تھا تو اس نے مجھےکہاکہ:

ایک بات کہوں میں نے کہاجی کہیے! کہتا ہے یار مجھے لگتا ہے کہ میں یہاں گھر سے صرف آپ کی موٹر سائیکل کا پنکچر لگانے ہی آیا ہوں-مَیں نے کہا کہ کیسے اس نے کہا کہ آج عید کا دوسرا دن ہے، چھٹی تھی، گھر میں کوئی کام نہیں تھا، میرے کچھ کاغذ دوکان پر پڑے تھے لیکن جیسے ہی میں کاغذ اٹھا کر واپس جانےلگا ہوں تو آپ سامنے سے آگئے تو مجھے اس وقت خیال آیا کہ شاید میں آپ کے لئے ہی آیا ہوں‘‘-

اسی طرح کا ایک اور واقعہ ہے کہ :

’’میری ڈیوٹی کشمیر کے علاقہ میں تھی، میں چھٹی گیا ہوا تھااب ڈیوٹی پر واپس جانا تھا-میں نے میر پور کے علاقے سے ایک کوچ میں سوارہوا، اس نے مجھے راستہ میں ڈراپ کردیا-میں رات کے وقت میر پورپہنچا، ٹکٹ لیا لیکن تھوڑی دیر کے بعد اعلان ہوا کہ جو لاہور سے کوچ آنی تھی وہ نہیں آرہی وہاں کچھ مسئلہ ہے اس لئے کوئی گاڑی وہاں نہیں جائے گی- میرےساتھ دوسرے یونٹ کا ایک کپتان اور سپاہی تھا اورہمیں تو صبح 8 بجے لازمی ڈیوٹی پر پہنچنا تھا-اب وہ دونوں سخت پریشان تھے کہ کیسے پہنچیں گےجبکہ میری نگاہ کہیں اور تھی اور مجھے پتا تھا کہ ان شاء اللہ کوئی نہ کوئی سبب بن جائے گا- ہم نے کسی گاڑی والے سے لفٹ مانگی اس نے ہمیں لفٹ دے کر ہمیں پہاڑوں کے درمیان کسی جگہ پر اتارا اور کہا کہ آگے سے میرا راستہ تبدیل ہے آپ لوگ کوئی اپنا بندو بست کرلیں- یہ تقریباً رات کے اڑھائی یا پونے تین بجے کا وقت ہوگا جب اس نے ہمیں وہاں اتارا-وہاں نہ کوئی بندہ نہ بندے کی ذات ہر جگہ اندھیرا-ہمیں ایک پٹرول پمپ نظر آیا وہاں کچھ چارپائیاں پڑی ہوئیں تھیں اور دکانیں بند تھیں-میں چارپائی پر ہر قسم کے غم و فکر سے آزاد ہوکر لیٹ گیا- تقریباً 15 منٹ کہ بعد پٹرول پمپ کے ساتھ ایک گھر سےایک بندہ نکلا، اس نے پٹرول پمپ پرکھڑی ایک گاڑی سٹارٹ کی اور جیسے وہ گاڑی لے کر آیا، آگے ہم کھڑے تھے، ہم نے تعارف کروایا اور اسے بتایا کہ ہم نے فلاں جگہ پر جانا ہےتو اس نے کہا کہ آجاؤ بیٹھ جاؤ-اب جب ہم گاڑی پر بیٹھ گئے اور جب وہاں سے چلے ہیں تو اس ڈرائیور نے مجھے کہا کہ :

’’ایک بات کہوں میں نے کہاجی کہیے! کہتا ہے مجھے لگتا ہے کہ میں آپ لوگوں کو آپ کی منزل پر پہنچانے کے لئے گھر سے آیا ہوں-میں نے کہا کہ کیسے؟ اس نے کہا کہ میں رات کو سویا ہوا تھا، اچانک میری آنکھ کھلی، اس کے بعد سونے کی بہت کوشش کی لیکن مجھے نیند نہیں آئی- میرے ذہن میں آیا کہ کیو ں نہ میں ابھی ہی چلا جاؤں اور میں صبح سویرے پہنچ جاؤں گا اور واپسی پر سواریوں کو بٹھا کر واپس وقت پر پہنچ جاؤں گا‘‘-

میں ان واقعات کو لے کر کئی بار سوچتا ہوں کہ یہ ’’توکل‘‘حضور مرشد کریم کی زیارت سے پہلے میرے وجود میں نہیں تھی کہ نیّت پختہ کرلو نیک کام کی تو سبب بنانا اللہ پاک کی قدرت سے باہر نہیں، یہ چیز میرے اندر اس نسبت کے بعد ہی پیدا ہوئی بلکہ اِسے نسبت سے زیادہ تربیّت کہنا چاہئے صرف نسبت کافی نہیں بلکہ تربیّت بھی ضروری ہوتی ہے جو ہمیں حضور مرشد پاک نے عطا فرمائی-میں اکثر ملاقات میں عرض کرتا تھا کہ ’’حضور اپنی نگاہ میں رکھنا‘‘مقصد ہوتا تھا کہ آپ کے ہاتھ میں ہاتھ دیا ہے تو اب نگہبانی بھی آپ نے کرنی ہے تو آپ جواباً بڑے ہی پیار اور شفقت بھرے انداز میں فرماتے ’’بیٹا ! اللہ پاک خیر فرماسی‘‘- اس پہ اپنا ایک خود بیتا واقعہ عرض کرنا چاہوں گا کہ:

’’ 2001ءمیں میری ڈیوٹی پاکستان اور انڈیا کے بارڈر پر تھی جب وہاں جنگی حالات پیدا ہوچکے تھے-دونوں ملک اپنی اپنی تیاری میں تھے کہ اگر انڈیا حملہ کرتا ہے تو پاکستان بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دے گا-اکثر میرے ساتھ سفر میں حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ) کی کوئی نہ کوئی کتاب مطالعہ میں رہتی ہے تو وہاں پر بھی روزانہ یہی ہوتا تھا کہ کچھ افسران میرے پاس آکر بیٹھتے تھے اور میں ان کو کتاب سے کچھ نہ کچھ پڑھ کر سناتا تھا- ہمارے ساتھ ایک اور یونٹ کے کرنل صاحب تھے جو کہ صوفیائے کرام کی تعلیمات کے قائل نہیں تھے وہ میری اس عادت کو بہت ناپسند کرتے تھےاور میرے بارے میں یہ خیال کرتے تھے کہ منیر ساتھیوں کو گمراہ کر رہا ہے- پھر ایک ایسا وقت آیا کہ اس نے تمام یونٹ کے سامنے مجھ پر ایک انتہائی سنگین الزام لگایا اور ساتھیوں سے کہا کہ یہ بندہ مجھے ہندوستانی ایجنٹ لگ رہا ہے تو آپ اس سے دور رہا کریں-اس سے میں بہت پریشان ہوا- ٹھیک دودن کے بعد میں گھر آیا، میرے ساتھ آصف تنویر اعوان ایڈووکیٹ جو کہ اس وقت ایک کم سن بچہ تھا ہم گھر سے اوچھالی گئے -جب مرشد کریم سے ملاقات ہوئی تو میں نے عرض کی کہ حضور اس طرح کچھ لوگ آپ کی معرفت و حکمت والی تعلیمات کے پرچار کی وجہ سے میرے خلاف ہوگئے ہیں اور مجھ پر اس طرح کے جھوٹے سنگین الزامات لگارہے ہیں- آپؒ نے اپنے وہی نہایت ہی شگفتہ انداز میں فرمایاکہ’’بیٹا جی تساں اپنا کام کرو جی تساں چھوڑو جی اس نوں‘‘-یہ پیار بھرے اور لاڈ بھرے لفظ سن کر مجھے پوری طرح تسلی ہوگئی کہ اب وہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے  اور میں اگلے ہی دن اپنی ڈیوٹی پرواپس آگیا- جیسے ہی میں اپنے کیمپ پرگیا تو ایک کیپٹن صاحب آئے اور انہوں نے مجھے کہا کہ سر آپ کو پتا ہے کہ کیا معاملہ ہوا ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں- انہوں نے اسی کرنل صاحب کا نام لیا اور کہا کہ اس کی ٹیم میں جو کپتان تھا وہ انڈیا کا ایجنٹ نکلا،اس کو تو ISI اٹھا کر لے گئی ہے-یعنی وہ کرنل جو مجھ پر الزام لگا رہا تھا اس کا اپنے سٹاف کا افسر اسی الزام کا ملزم نکلا-اس کے بعد میرے اور باقی افسران جن سے میری گفتگو ہوتی تھی ان کے ایمان کو مزید پختگی نصیب ہوئی اور کرنل صاحب کے تعصب کی زبان بھی بند ہو گئی‘‘-

گفتگو کو اختتام کی طرف لاتے ہوئے یہ کہنا چاہوں گا کہ 14 اگست جو کہ سلطان الفقر ششم کی ولادت باسعادت اور پاکستان کے وجود میں آنے کا دن ہے؛مَیں ان دونوں کی نسبت کو لازم و ملزوم سمجھتا ہوں کہ پاکستان اللہ تعالیٰ کی عطا ہے کیونکہ اسی دن ایک سلطان الفقر روح عالمِ ارواح سے آشیانہ کثرت میں ظہور ہوئی ہے-کیونکہ ہماری زندگی کا کوئی مشن نہیں تھا وہی مولویوں والے جنت و دوزخ کے تصور سے حوروں کی خواہش میں زندگی گزار رہے تھے- لیکن ہمیں زندگی کا اصل نصب العین یعنی اللہ پاک کے قرب اور رضا کی طلب سلطان الفقر ششم کے ذریعے ہی نصیب ہوا ہے-کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح تکمیل پاکستان اور آپؒ کی ذات اقدس سے یہ کڑیاں ملتی ہیں ا?

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر