دینی درسگاہیں اور تصوف کی تدریس

دینی درسگاہیں اور تصوف کی تدریس

دینی درسگاہیں اور تصوف کی تدریس

مصنف: مفتی محمد صدیق خان قادری دسمبر 2022

اسلام کی تعلیمات اور اُس کے تربیتی نصاب میں ایک ایسا نظام بھی موجود ہے جو انسان کے عقائد و ایمانیات کے حقائق اور اُس کے محسوس نتائج سامنے لاتا ہے اور یہ نظام روحانی تجربات و مشاہدات پر مبنی تصوف ہے- اس نظام کے تجربے کار اور ماہر صوفیاء عظام کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں- تصوف ایک ایسی حقیقت ہے جو اسلامی تعلیمات اور روحانی کیفیات کا عملی روحانی تجربہ ہے یہی باطنی مشاہدہ کا وہ نظام ہے کہ ایمان بالغیب جب اُس کے تدریجی مرحلوں سے گزرتا ہے  تو ایقان میں بدل جاتا ہے تصوف ایمان کے لطائف کا وہ سلسلہ ہے جس سے عقائد کی کیفیات کا باطنی مشاہدہ ہوتا ہے تصوف ہی وہ علم ہے جو عقیدہ اور ایمان کی عملی تصدیق کرتا ہے- یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ یہ تمام باطنی مشاہدات اور عقیدہ اور ایمان کی عملی تصدیقات بندے کو اُس وقت نصیب ہوتی ہیں کہ جب وہ اپنے باطن کو تمام کدورتوں،آلائشوں اور ہر قسم کے گناہ سے پاک کر لیتا ہے اور اسی چیز کا نام تصوف ہے-کیونکہ تصوف اپنے باطن کو پاک و صاف کرنے کا نام ہے- حضرت علی ہجویری داتا گنج بخشؒ اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’کشف المحجوب ‘‘میں فرماتے ہیں:

’’التصوف صفاء السرمن کدورة المخالفة‘‘

’’باطن کو مخالفت حق کی کدورت اور سیاہی سے پاک و صاف کر دینے کا نام تصوف ہے ‘‘-

گویا کہ تصوف کا نقطہ آغاز تقاضا کرتا ہے کے نفس انسانی کذب و دروغ گوئی سے پاک ہو جائے، ریا کاری اور منافقت جیسے رزائل دور ہو جائیں، کبر و نخوت اور غرور تکبر کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے، حسد و کینہ اور بغض و عناد کا خاتمہ ہوجائے، دنیا کی محبت اور لالچ سے انسانی قلب پاک ہو جائے اور ان رزائل کی جگہ عجز و انکسار خشوع وخضوع تذلل و تواضع، فیض رسانی،فہم و ذکاء اور جود و سخا اور محبت الٰہی جیسے فضائل انسان کےقلب و باطن کو منور کر دیں- جب نفس انسانی گناہ کی آلائشوں، آلودگیوں اور رزائل اخلاق سے پاک ہو جاتا ہے تو اس طہارت کے اثرات انسان کے قلب و باطن پر مرتب ہونا شروع ہو جاتے ہیں-انسان کی شخصیت جذبہ رحم اور عفو و درگزر سے معمور ہو جاتی ہے انسان کے اندر سے لالچ اور حرص کی گھٹیا جذبات کا خاتمہ ہو جاتا ہے تو انسان میں ماسوا اللہ سے بے نیازی پیدا ہو جاتی ہے جو محبت الٰہی کا پیش خیمہ ہوتی ہے -پھر جوں جوں یہ بے نیازی بڑھتی چلی جاتی ہے درِ محبوب سے نیاز مندی میں شدت پیدا ہو جاتی ہے اور دل کی دنیا بدل جاتی ہے- یہ سب کچھ علم تصوف سے ہی ممکن ہوتا ہے-

تصوف دین اسلام کا ایک اہم شعبہ اور باطنی پہلو ہے جس کو طریقت بھی کہا جاتا ہے یہ ایک نئی اور الگ چیز نہیں ہے اس چیز کی رہنمائی ہمیں قرآن و حدیث سے ملتی ہے-اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

’’قَدْ  اَفْلَحَ  مَنْ  زَکّٰىہَا، وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىہَا‘‘[1]

’’وہ شخص کامیاب ہُوا جس نے خود کو پاک کیا اور وہ شخص ناکام ہُوا جس نے اسے آلودہ کیا ‘‘-

اس آیت کی تفسیر میں امام حسن بصری فرماتے ہیں:

’’قد افلح من زکی نفسه و اصلح وحملھا علی طاعة اللہ‘‘

’’وہ شخص کامیاب ہوگیا جس نے اپنے نفس کو پاک کر لیا اور اس کی اصلاح کر لی اس کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر آمادہ کرلیا ‘‘-

تصوف کا بھی یہی مفہوم و مقصود ہے کہ انسان اپنے نفس کا تزکیہ اور اصلاح کرے اور اُس کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کیلئے تیار کرے- اگر غور کیا جائے تو تزکیہ جو کہ تصوف کا مفہوم ومقصود ہے یہ آپ (ﷺ) کے فرائض نبوت میں شامل ہے-اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے محبوب کریم (ﷺ) کی شان بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْہِمْ وَ یُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ ‘‘[2]

’’آپ ان پر اللہ کی آیات تلاوت کرتے ہیں اور اُن کے نفوس کا تزکیہ کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں ‘‘-

ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کریم (ﷺ)  کی شان بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :

’’وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ ‘‘[3]

’’اور وہ تمہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں اور وہ کچھ سکھاتے ہیں جو تم نہیں جانتے‘‘ -

اس آیت مبارکہ میں فعل کا تکرار ہے اور اس نکتہ کی قاضی ثناء اللہ پانی پتی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’تکرار الفعل یدل علی ان ھذا التعلیم من جنس اخرو ولعل المراد به العلم الدنی‘‘[4]

’’ یُعَلِّمُکُمْ فعل کا تکرار اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ تعلیم دوسری قسم کی ہے اور شاید اس سے مراد علم لدنی ہے‘‘-

اگر ہم احادیث مبارکہ میں غور کریں تو علم تصوف کے بارے میں ان سے بھی رہنمائی ملتی ہے اس پر حدیث جبرائیل شاہد ہے کہ جبرائیل امین نے آپ (ﷺ) کی بارگاہ میں حاضر ہو کر پہلا سوال کیا کہ ایمان کیا ہے تو اس کے جواب میں آپ نےعقائد کو بیان کیا-

پھر دوسرا سوال کیا کہ اسلام کیا ہے تو اس کے جواب میں آپ نے اعمال کو بیان کیا-اب عقلاً دیکھا جائے تو جب عقیدہ بھی آگیا اور اعمال بھی آگئے تو تیسرا سوال نہ ہوتا تو سوچنے کا مقام ہے کہ کیا صرف یہی دو باتیں دین ہیں -اگر یہی دو باتیں یعنی عقیدہ اور اعمال کامل دین ہوتیں تو تیسرا سوال نہ ہوتا توسائل کا تیسرا سوال کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ ابھی دین مکمل نہیں ہُوا تھا تو سائل نے عرض کی:

’’ماالاحسان‘‘          احسان کیا ہے-

 آقا کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’الاحسان ان تعبد اللہ کانك تراہ فان لم تکن تراہ فانه براك‘‘

’’احسان یہ ہے کہ تو الله تعالیٰ کی عبادت اس طرح کر کہ گویا کہ تو خدا کو دیکھ رہا ہے پس اگر تو خدا کو نہ دیکھ سکے تو وہ تو تجھے دیکھ رہا ہے‘‘-

اب یہ جو مرتبہ احسان ہے اسی کا دوسرا نام تصوف اور علم باطن ہے- شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ مرتبہ ٔاحسان ہی کو تصوف و سلوک اور طریقت کا نام دیتے ہیں -

مزید علم تصوف کے بارے رہنمائی حضرت ابو ہریرہ (رض) کی حدیث مبارکہ سے بھی ملتی ہے آپ (رض) ارشاد  فرماتے ہیں :

’’حفظت من رسول الله (ﷺ) وعائین فاما احد ھما فبثثته واما الاخر فلو بثثته قطع ھذا البلعوم ‘‘[5]

’’میں نے آپ(ﷺ) سے دو علوم سیکھے ہیں پہلا علم میں نے تم پر بیان کر دیا ہے اگر دوسرا بیان کردوں تو یہ گردن اڑا دی جائے‘‘-

مُلا علی قاری حدیث مذکورہ کی شرح بیان فرماتے ہیں:

’’قد یحمل الاول علی علم الظاھر والثانی علی علم الباطن ‘‘[6]

’’ تحقیق پہلے کو علم ظاہر پر اور دوسرے کو علم باطن پر محمول کیا جاتا ہے ‘‘-

الغرض قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں یہ بات اپنے پایۂ ثبوت تک پہنچ گئی کہ تصوف، طریقت، روحانیت اور علم باطن کوئی نئی اور تیسری چیز نہیں ہے بلکہ یہ بھی ہمارے دین کا اہم ترین جز اور حصہ ہے-

یہی وجہ ہے کہ امام ابن عابدین شامی (﷫) شریعت و طریقت کا آپس میں تعلق بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :

’’و ھی الطریقۃ و الشریعۃ متلازمۃ لان الطریق الی اللہ لہا ظاہر و باطن فظاھرھا الشریعۃ و الطريقۃ و باطنھا الحقیقۃ‘‘[7]

’’شریعت اور طریقت باہم لازم و ملزوم ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ کی طرف جانے کا ایک ظاہری حصہ ہے اور ایک باطنی ظاہری حصہ شریعت و طریقت ہے اور باطنی حصہ حقیقت ہے‘‘ -

اسی طرح شیخ ابو طالب مکّی ’’قوت القلوب‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’ہما علمان اصلبان لا یستغنی احدھما عن الاخر بمنزلۃ السلام و الایمان مرتبط کل منہما باالاخر کا الجسم و القلب لا ینفک احد من صاحبہ‘‘[8]

’’وہ دونوں یعنی شریعت و طریقت ایسے علوم ہیں جن میں سے کوئی ایک دوسرے سے مستغنی نہیں ہو سکتا جیسے اسلام اور ایمان ان میں سے ہر ایک دوسرے کے ساتھ جڑا ہوا ہے یا جیسے جسم اور قلب کاتعلق ہے کہ ان میں سے کوئی ایک دوسرے سے الگ نہیں ہو سکتا‘‘-

چونکہ علم تصوف و طریقت دین کا ایک اہم اور لازمی جز تھا اور اس کے بغیر انسان کامل نہیں ہو سکتا اس لیے ہمارے اکابرین، آئمہ، فقہاء نے نہ صرف اس دین کے اہم جز کو حاصل کیا بلکہ اس کے حصول کی ترغیب بھی دلائی-

ابو علی ثقفی فرماتے ہیں کہ:

’’ اگر کوئی شخص تمام علوم کا جامع ہو جائے اور ہر قسم کے لوگوں کی صحبت اختیار کرے پھر بھی وہ اس وقت تک کاملین کے مقام کو نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ شیخ مربی ناصح سے مجاہدانہ تربیت نہ پائے‘‘-[9]

شارح مشکوٰۃ محدث طیبی فرماتے ہیں کہ:

’’ کوئی عالم علم میں کتنا ہی متبحراور یکتائے زمانہ ہو اس کیلئے صرف اپنے علم پر قناعت کرنا اور اسے کافی سمجھنا مناسب نہیں بلکہ اس پر واجب ہے کہ اہل طریقت کی مصاحبت اختیار کرے تا کہ وہ اس کی راہ حق کی طرف رہنمائی کریں اور اس کا تزکیہ فرمائیں تاکہ وہ ان لوگوں میں سے ہو جائے جو صفائے باطن کے باعث خلوتوں میں الہامات سے نوازے جاتے ہیں ‘‘-[10]

امام ابو حامد غزالی فرماتے ہیں کہ:

’’میں ابتداء میں صوفیاء کے احوال اور عارفین کے مقامات کا منکر تھا حتی کہ مجھے حضرت یوسف نساج کی صحبت نصیب ہوئی وہ مسلسل مجاہدات سے میرے ظاہر و باطن کا تزکیہ فرمانے لگے یہاں تک کہ مجھے واردات روحانیہ کا وافر حصہ نصیب ہوا‘‘ -[11]

علامہ بلخی شرح اربعین میں فرماتے ہیں:

’’و اخذ التصوف کثیر من الثقات کابی حنیفۃ من جعفر صادق و الشافعی من ہبیرۃ البصری و الامام احمد بن حنبل من بشر الحافی و الاما م محمد بن الحسن الشیبانی من داؤد الطائی و الامام ابو یوسف من حاتم الاصم کذافی جواہر الغیبی [صفحہ ۲۳۲] و اخذ التصوف الامام غزالی و الجامی و النا بلسی و الشعرانی و الرافعی و الدمیاطی و سید الشریف الجرجانی و الشیخ عبد الحق دہلوی و العلامہ علی قاری المکی و خلائق اعلام لایحصون من زمن النبی (ﷺ) الا الان با التواتر الغیر المنقطع ‘‘[12]

’’علم تصوف بہت سے بزرگان دین نے حاصل کیا جیسے امام ابو حنیفہ نے امام جعفر صادق سے اور امام شافعی نے ہبیرہ بصری سے امام احمد بن حنبل نے بشر حافی سے اور امام محمد بن حسن شیبانی نے داؤد طائی سے اور امام ابو یوسف نے حاتم اصم سے علم تصوف حاصل کیا -جیسا کہ جواہرالغیبی کے صفحہ 232 پر مذکور ہے اور امام غزالی، مولانا عبد الرحمٰن جامی، علامہ شیخ عبد الغنی نابلسی،امام شعرانی،امام رافعی،امام دمیاطی،سید شریف جرجانی،شیخ عبد الحق محدث دہلوی، علامہ ملا علی قاری مکی اور دیگر عالی مرتبت لوگوں نے علم تصوف حاصل کیا یہ معاملہ حضور نبی کریم (ﷺ)کے زمانہ اقدس سے لے کرآج تک مسلسل اور بغیر انقطاع کے جاری ہے‘‘-

الغرض! ہمارے سلف صالحین صرف دین کے ظاہری پہلو پر ہی نہ کھڑے رہے بلکہ انہوں نے دین کے اہم اور ضروری باطنی پہلو یعنی علم تصوف کو بھی حاصل کیا -جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ لوگ نہ صرف دین میں کامل ہوئے بلکہ انہوں نے اپنے علم اور عمل اور حسن کردار سے اصلاح معاشرہ میں اہم کردار ادا کیا ان کاوجود منبع فیض تھا-لوگ ان کی بارگاہ سے فیضیاب ہوتے تھے کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ معاشرے کی تعلیم و تربیت کے لیے مدارس کا بڑا اہم کردار رہا ہے انہیں مدارس سے فارغ التحصیل افراد منبر و محراب کی زینت بنتے ہیں اور معاشرے کی تقدیر انہیں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے -

ایک عرصہ دراز تک تو علماء معاشرے میں اعتدال و اخلاق اور محبت و اُلفت کی خوشبو بانٹتے رہے کیونکہ انہیں مدارس میں باقاعدہ طور پر علم تصوف کی تعلیم دی جاتی تھی جس کی وجہ سے اُن کے دل میں برکاتِ اخلاقِ مصطفوی (ﷺ) اور تجلیاتِ انوارِ الٰہی کا سمندر موجزن رہتا تھا- لیکن جوں جوں مغربی استعماری قوتیں دنیائے اسلام پہ غالب ہوتی گئیں تو ایسی ایسی فرقہ وارانہ تشدد آمیزیوں نے جنم لیا کہ ورثۂ اسلاف محفوظ نہ رہ سکا-اس سارے کھیل میں بالخصوص اولیائے کرام اور صوفیائے عظام کی تعلیمات اُمتِ اسلامی کی ترجیحات میں بہت نیچے رہ گئیں، جس کا نتیجہ آج امت کے مجموعی اخلاقی انحطاط و زوال کی صورت میں سامنے ہے جس کے سلجھنے کی کوئی ترکیب حکمرانوں اور دانشوروں کے ہاتھ نہیں لگ رہی -

اگر فرقہ واریت کے بہت زیادہ بڑھ جانے اور  اخلاقی زوال کے اسباب میں غور کیا جائے   تو معلوم ہوتا ہے کہ علم تصوف کی کتابیں شامل نصاب بھی نہ رہیں اور مدارس سے فراغت پانے والوں کی صورتحال  بھی اس طرح ہو گئی جیسا کہ علامہ اقبال نےفرمایا :

واعظ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی
برق طبعی نہ رہی شعلہ مقالی نہ رہی
رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقینِ غزالی نہ رہی

یہی وجہ ہے کہ موجودہ مدارس سے فارغ التحصیل افراد معاشرے کی اصلاح و تربیت میں وہ کردار ادا نہ کرسکے جو ہمارے سلف و صالحین نے ادا کیا-لہٰذا اب ضرورت اس امر کی ہے کہ مدارس میں صوفیاء کی کتب کو شامل نصاب کیا جائے تا کہ مدارس کے طلباء صوفیاء کے کشف و احوال اور علم تصوف سے واقف ہوں، اخلاقِ اسلاف کے پیکر ہوں  اور ان میں بھی دین اسلام کے باطنی پہلو کو حاصل کرنے کا جذبہ پیدا ہو اور دین میں کامل ہو کر یہ بھی ایک اچھا اور مثالی معاشرہ تشکیل دینے میں ایک مثالی کردار ادا کریں -

اسی چیز کے پیشِ نظرکہ جب علمِ تصوف نہ صرف مدارس میں ختم ہوگیا تھا بلکہ معاشرے کے افراد بھی اس کے فیوض و برکات اور ثمرات سے محروم ہوچکے تھےتو سلطان الفقر بانی اصلاحی جماعت حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی ؒ نے اس خلا کو پُر کرنے کیلئے ایک ایساحسین قدم اٹھایاکہ جس سے ایک قسم کی معاشرے میں جو محرومی پائی جاتی تھی وہ نہ صرف ختم ہوئی بلکہ وہ معاشرہ اولیائےکاملین کے کشف و احوال،  فیوض و برکات اور اُن کی تعلیمات سے سیراب ہونے لگا-آپؒ نے اس خلا کو پرکرنے کیلئے’اصلاحی جماعت‘ کے نام سے موسوم ایک جماعت اور ’جامعہ غوثیہ عزیزیہ انوارِحق باھو سلطانؒ‘ کےنام سےموسوم مدارس کا قیام فرمایا جن کا مقصد یہی تھا کہ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں صوفیاء کرام کی تعلیمات کو عوام الناس اور مدارس میں اجاگر کیا جائے-سلطان الفقر حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب ؒ نے جس طرح اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کے مبلغین کی روحانی تعلیم و تربیت کا بندوبست کیا اور انہیں تفاسیر، احادیث مبارکہ اور سیرتِ طیبہ کی کتب کے ساتھ ساتھ صوفیاء کرام کی کتب کا مطالعہ کرنے کی ترغیب دلائی تو اسی طرح آپ نےاپنے آستانہ عالیہ سے وابستہ مدارس میں پڑھنے والے طلباء کی روحانی اور باطنی تعلیم و تربیت کا بھی خصوصی انتظام فرمایا-آپؒ نے مدارس میں درسِ نظامی کی کتب کے علاوہ اولوالعزم اور مُسلّم صوفیاء کرام کی کتب کو بطورنصاب شامل کرنے پر نہ صرف بھر پور زوردیا بلکہ سبقاً سبقاً پڑھانے کا حکم فرمایا-آپؒ کے مدارس میں صوفیاء کرام کی جو کتب بطور نصاب شامل ہیں ان میں سے چند ایک یہ ہیں:

v    تذکرۃ الاؤلیاء ازشیخ فرید الدین عطارؒ

v    مثنوی شریف از مولانا رومؒ

v    سرّالاسرار از حضور غوث اعظمؒ

v    عوارف المعارف ازشیخ شہاب الدین سہروردیؒ

v    کتاب اللمع از امام ابو نصر سراج الطوسیؒ

v    حکایاتِ حضرت سلطان باھوؒ

v    اسرارِ خودی از ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ

v    کتاب  التوحید  ازابو  منصور ماتریدیؒ

v    احیاء علوم الدین از امام غزالیؒ

v    رسالہ قشیریہ از مام قشیریؒ

v    قوت القلوب از شیخ ابو طالب مکیؒ

v    التصرف لمذھب اھل التصوف از محمد بن اسحاق الکلابازی

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان مدارس کے طلباء مذکورہ کتب کے مطالعہ کی وجہ سے صوفیاء کرام کے احوال و واقعات اور علم ِ تصوف کی حقیقت اور اس کے لازوال ثمرات سے آشنا ہوئے جس سے طلباء میں، تزکیۂ نفس، صفاء قلب اور بیداری روح کا جذبہ پیدا ہوا اور وہ دینِ اسلام کے صرف ظاہری پہلو تک محدود نہ رہے بلکہ دین کے باطنی پہلو کی طرف بھی متوجہ ہوئے-یہی وجہ ہے کہ آپؒ کے مدارس سے فارغ التحصیل طلباء بغیر کسی لالچ و طمع اور دنیاوی غرض کے پورے اخلاص کے ساتھ دین متین کی خدمت اور اصلاحِ معاشرہ میں مصروفِ عمل ہیں-ہم پر امید ہیں کہ مستقبل میں بھی حضور سلطان الفقربانی اصلاحی جماعتؒ  کا اٹھایا ہوا یہ نورانی و فکری قدم مزید برکتیں اور خوشبوئیں پھیلائے گا اور ہر طرف کچھ یوں سماں ہوگا-

شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے

٭٭٭



[1](الشمس:9-10)

[2](آلِ عمران :164)

[3](البقرہ :151)

[4](تفسیر مظہری ، ج:1، ص:149)

[5](صحیح بخاری ،ج:2، ص:23)

[6](مرقاۃ شرح مشکوٰة ، ج:1، ص:256)

[7]( رد المحتار،ج:6، ص 289)

[8](مرقاۃ شرح مشکوٰة ، ج:1، ص:256)

[9]( حقائق عن التصوف، ص:37)

[10](حقائق عن التصوف، ص: 30)

[11]( حقائق عن التصوف، ص: 31)

[12](شرح اربعین للبلخی،ص:10-12)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر