حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحبؒ: اخلاق و معمولات

حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحبؒ: اخلاق و معمولات

حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحبؒ: اخلاق و معمولات

مصنف: مفتی محمد اسماعیل خان نیازی دسمبر 2021

جب ہر طرف مادیت اپنے پنجے مضبوطی سے گاڑھ لیتی ہے اور اس سے نکلنے کا بظاہر کوئی ر استہ نہیں ہوتا تو اللہ عزوجل اپنی خصوصی شفقت اور فضل سے ایسی ’ہستی مبارک‘ کا انتخاب فرماتا ہے جس کے وجود مسعود سے نہ صرف صدیوں کا خلا پُر ہوتا ہے بلکہ آئندہ آنے والے لوگوں کو کامیاب زندگی گزارنے کا ایک طریق بھی عطا ہوتا ہے- موجودہ  دور اور زمانہ قریب میں جب ہم غورکرتے ہیں تو یہ شرف و امتیاز حضور سلطان الفقر  سیدنا سلطان محمداصغر علی صاحب (قدس اللہ سرّہٗ) کو حاصل ہے-

بلاشبہ کسی بھی عظیم شخصیت کے شب و روز کا احاطہ کرنے کے لیے کئی کتب درکارہوتی ہیں اور پھر بھی یہ سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہوتا ہے-یہاں محض دارین کی سعادتوں کے حصول کی خاطر سلطان الفقر بانیٔ اصلاحی جماعت  ؒ کی حیات مبارک کے چند پہلوؤں کو زیب قرطاس کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں -

نسب نامہ :

سلطان الفقر سُلطان محمد اصغر علی بن شہبازِ عارفاں سلطان محمد عبد العزیز بن سلطان فتح محمد بن سلطان غلام رسول بن سلطان غلام میراں بن سلطان ولی محمد بن سلطان نور محمد بن سلطان محمد حسین بن سلطان ولی محمد بن سلطان العارفین حضرت سلطان باھو ‘‘ [1]

ولادت باسعادت وتعارف:

حضور سلطان الفقر، مخزن بحرِ حقیقت، قُلزم اسرارِ طریقت و معرفت ،جگر گوشہ حضرت سخی سلطان باھوؒ حضرت سخی سلطان محمداصغر علی صاحب ؒکی ولادت باسعادت 27رمضان المبارک بروز جمعۃ المبارک بمطابق 14 اگست 1947ء کو ہوئی-جیسا کہ تاجدارِ کائنات سیدی رسول اللہ (ﷺ) کی ولادت باسعادت کے وقت خانہ کعبہ میں رکھے ہوئے نہ صر ف تمام بت گر گئے بلکہ قیصر وکسرٰی کے محلات کے کنگرے بھی گرگئے اور آتش کدہ فارس بھی بجھ گیا-یہ سید الانبیاء  (ﷺ) کے فقر کی امانت کا فیض ہے کہ حضرت سخی سلطان باھو ؒ کی نویں (9th) پشت مبارک میں  حضرت سلطان محمد اصغر علی ؒ کی ولادت مبارک پہ برطانیہ کی 100 سالہ حکومت کا نہ صرف خاتمہ ہوا بلکہ مسلمانان ِ ہند کو بھی آزادی نصیب ہوئی -آپؒ مذہباً حنفی ،مشرباً قادری سروری اور نسباً اعوان ہیں- آپ ؒ کا شجرہ نسب نویں پشت پہ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو ؒ سے جاکر ملتا ہے جن کا نسب مبار ک شیر ِ خدا حضرت علی المرتضیؓ سے جا ملتا ہے- شہنشاہ بغداد، سیدی حضرت الشیخ عبد القادر جیلانیؓ کے بعد حضرت سلطان  باھو ؒ کا شمار سب سے بڑی روحانی ہستیوں میں ہوتاہے- [2]

بچپن وابتدائی تعلیم:

آپ ؒ نے دریائے چناب کے ساحل پہ واقع بستی ’’سمندری‘‘ ضلع جھنگ میں پرورش پائی،آپ ؒ نے رائج الوقت نصاب کے مطابق سکول کی تعلیم بھی حاصل کی، لیکن آپ ؒ نے اپنے مرشد کریم شہباز عارفاں حضرت سخی سلطان عبد العزیز ؒ کی خدمت میں رہ کر دینی و عرفانی تعلیم حاصل کی  اور آپؒ کے بتائے ہوئے اوراد اور تصور اسم اللہ ذات کو زیادہ ترجیح دیتے اور اسی میں محو رہتے- شہباز عارفاں حضرت سخی سلطان محمد عبد العزیز ؒ بھی آپؒ کی تربیت کا خاص خیال رکھتے اور اکثر سفر وحضر میں اپنے ساتھ رکھتے - [3]

والدہ ماجدہ سے محبت وعقیدت:

صاحبزادہ حضرت سلطان احمد علی صاحب، سلطان الفقرششم ؒ کی اپنی والدہ ماجدہ سے محبت وعقیدت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’حضور سلطان الفقر  ؒ کی عمر مبارک ابھی چھوٹی تھی، جب آپ ؒ کی والدہ ماجدہؒ کا انتقال ہوا تو آپؒ 23 رمضان المبارک کو اپنی والدہ ماجدہ کے ایصال ثواب کیلئے ختم پاک کا اہتمام فرماتے اور کوشش فرماتے کہ 23 رمضان المبارک دربار شریف پر آئے-مجھے یاد ہے کہ آخری سال سے کچھ ایک دوسال پہلے جب 23 رمضان المبارک دورانِ شکار آیا تو آپؒ  نے ارشادفرمایا کہ میر ی والدہ ماجدہ کاختم ہے مَیں شکار چھوڑکر وہاں ختم پہ جاؤں گا،حالانکہ آپ شکار چھوڑ کر کہیں تشریف نہیں لے جاتے تھے-آپؒ 23رمضان المبارک کو وہاں تشریف لائے- آپ  ؒ اکثر ایک بات فرمایاکرتے تھے کہ میری والدہ کو یہ شرف نصیب ہے کہ وہ ایک بڑے شیخ ِ کامل کی زوجہ تھیں اور دوسرا شرف انہیں یہ نصیب ہے کہ انہوں نے جتنے بھی بچوں کو جنم دیا ہے ان میں کوئی بھی تارکِ شریعت نہیں ہے اورتیسری بات آپ ؒ یہ فرماتے تھے کہ جن بچوں کوانہوں نے جنم دیا ہے ان میں کسی کے کردار پربھی شک نہیں ہے ‘‘-[4]

خدمت و محبتِ مرشد:

حضور سلطان الفقر  ؒ نے جس انداز میں اپنے مرشد کریم کی خدمت کو اپنا معمول بنایا وہ اپنی مثال آپ ہے اور ہرطالب مولیٰ کے لیے لائق تقلید ہے -اس کا اظہار کرتے ہوئے صاحبزادہ سلطان احمدعلی صاحب  نےفرمایا:

’’شہباز عارفاں ،حضرت سخی سلطان محمدعبدالعزیز ؒ جب تہجد پڑھ کرتشریف لاتے تو چائے فورًا آتی اور اگر تاخیر ہوجاتی تو آپ ؒ نہیں پیتے تھے-ایک فقیر تھا بہرحال وہ فقیر اس ڈیوٹی میں ایک دو دن سے کوتاہی کررہا تھا اورآپ ؒ نے چائے نوش نہ فرمائی تو پھر حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی صاحب ؒ نے آکر عرض کی کہ حضور کرم فرمائیں تو یہ ڈیوٹی مجھے سونپ دیں-12سال تک آپ ؒ رات کو جاگتے رہے اور جیسے ہی شہباز ِ عارفاں ؒ تہجدادا فرمانے تشریف لے جاتے تو حضور سلطان الفقر  ؒ چائے چولہے پر رکھ دیتے جیسے ہی آپ ؒ آکر چارپائی مبارک پہ بیٹھتے توساتھ ہی آپ ؒ ٹیبل پہ چائے رکھ دیتے، مجھے شہبازِ عارفاں ؒ کے بڑے دیرینہ فقیروں میں سے، یعنی جو حضرت سخی سلطان محمد عبد العزیز ؒ کے عالمِ شباب کے وقت مریدین تھے ان میں سے میاں محمد علی جنجوعہ ضلع جھنگ سے تھے خود ان سے مَیں نے اس کی تصدیق کی کہ جب حضرت سلطان محمدعبد العزیز ؒ آرام فرماتے تھے تو چھوٹا دیا یا لالٹین کمرے میں روشن ہوتی تھی، حضرت سلطان محمد اصغر علی ؒ جاکرسو نہیں جاتے تھے بلکہ چارپائی کے قدموں کی طرف آپ ؒ حالتِ قیام میں کھڑے ہوکر پوری پوری رات اپنے مرشد پاک کے چہرے مبارک کی زیارت کرتے رہتے‘‘- [5]

آداب ِ مُرشد:

آپ ؒ کا ا پنے مرشد کریم شہبازِ عارفاں ،سُلطان الاولیآء حضرت سخی سُلطان محمدعبدالعزیز صاحب ؒ سے محبت ،عقیدت اور ادب کا تعلق تھا وہ نہ صرف مثالی بلکہ تمام طالبان ِمولیٰ کیلئے ایک عملی سبق ہے جس کو سید امیرخان نیازی صاحب ؒ ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں:

’’1972ء تا1981ءتک میں نے حضرت سخی سُلطان محمد عبدالعزیزؒاور حضرت سُلطان محمداصغرعلی ؒ میں جوتعلق دیکھا وہ طالبانِ مولیٰ کیلئے درخشاں مثال ہے میں حیران ہوتا ہوں کہ آپؒ  نے حضرت صاحب  ؒ کو والد صاحب کبھی نہیں کہا تھا حضور پاک کہہ کر پکارتے تھے، جب آتے تھے تو جوتے باہر اتارکر ،ہاتھ باندھ کر اور سَر جھکا کر ملاقات کے بعد بھی کھڑے  رہتے تھے، جب تک حضرت صاحبؒ  حکم نہ فرماتے اور جب واپس جاناہوتاتھا تورُخ آپ ؒ کی طرف یعنی پچھلے پاؤں جاتے تھے، مَیں نے تقریباً 9سال حضرت سخی سُلطان محمدعبدالعزیز صاحب ؒ کے ساتھ گزارے کبھی بھی آپ ؒ کو اس طرح نہیں دیکھا کہ مَیں صاحبزادہ ہوں یا پیر ہوں بلکہ خلافت عطا ہونے کے بعد بھی پیر کا رویہ نہیں اپنایا حالانکہ حضرت سخی سُلطان محمد عبدالعزیز صاحب ؒ نے میر ے سامنےآپ ؒ کو حُکم فرمایا کہ بیعت کرو اور آپ ؒ نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے حضرت سخی سُلطان محمد عبدالعزیز صاحب ؒ کے سامنے بیعت فرمایا لیکن اس کے باوجود آپ ؒ حضرت صاحب  ؒ کے سامنے ہمیشہ طالب ِ مولیٰ رہے ‘‘-[6]

فنافی الشیخ :

بلاشبہ آپ ؒ کا اپنے مرشد کریم شہبازعارفاں حضرت سخی سلطان محمد عبدالعزیز ؒسے تعلق محبّ ومَحبوب والا تھا ،دیکھنے والوں کو یہ اندازہ لگانامشکل تھا کہ محبّ کون اور محبوب کون ہے؟ آپ ؒ کا اپنے مرشد سے جو عشق،محبت اور عقیدت تھی ،ا س کا نتیجہ فنافی الشیخ کی صورت میں سامنے آیا،جس کو بیان کرتے ہوئے سید امیر خان نیازی  ؒ فرماتے ہیں:

’’مرشد جس پہ مہربانی کرتاہے اس کی ہر حالت مرشد کی حالت کے ساتھ ملے تو سمجھو کہ طالب فنافی الشیخ ہے، 24 سال کی عمر مبارک میں سلطان محمد اصغر علی ؒ کا ایک ایک فعل مرشد کے فعل کے تابع ہو بہو تھا، (حضرت سخی سلطان محمد عبدالعزیز ؒ کے) وصال مبارک کے بعد بھی حضور سلطان الفقر  ؒ کا لہجہ بعینہ ٖ سلطان محمد عبدالعزیز صاحب ؒ کے ساتھ ملتا تھا، اگر کوئی دیوار کی اوٹ میں کان لگا کر آپؒ  کی آواز کوسنتا تو یوں محسو س ہوتا تھا کہ سلطان محمد عبدالعزیز صاحب ؒ تشریف لائے ہوئے ہیں- وصال مبارک سے تین روز پہلےڈیرہ اسمٰعیل خان میں لٹی خان (فضل کریم خان کنڈی مرحوم) کے ڈیرے پر ہمارا قیام تھا، حضور سلطان الفقر  ؒ نے غور سے میرے چہرے کی طرف دیکھا اور ارشاد فرمایا کہ نیازی صاحب میرے ناخن تو تراش دو، میں نےعرض کی جی میں تراشوں؟ تو آپ ؒ نےارشادفرمایا کہ نیازی صاحب اورکون تراشے گا؟جس طریقے سے آپ ؒ نے فرمایا تو فوراً مجھے وہ واقعہ یاد آگیا کہ میں نے حضور پیرصاحب ؒ کے دربار کے دروازے پر حضرت سلطان محمد عبدالعزیز صاحب ؒ کے ناخن تراشے تھے، یعنی جیسے ہی آپ ؒ محل سے باہرتشریف لائے تو آپ ؒ نےسامنے چٹائی پر بیٹھ کر فرمایا کہ خان صاحب کسی نائی کوبلوائیں جومیرے ناخن تراشے-میں نے عرض کی کہ حضور! آپ تشریف رکھیں کہ میں تراشتا ہوں -تو آپ ؒ نے ارشادفرمایا کہ تم کیسے تراشو گے؟ اس وقت نئے نئے ناخن تراش (نیل کٹر) آئے تھے، وہ میری جیب میں تھا، مَیں نے عرض کی، حضور !تشریف رکھیں -میں نے اس نیل کٹر سے ناخن تراشے تو آپ ؒ دیکھ کر خوش ہوتے رہے اور فرمایا واہ خان صاحب واہ بڑا مزہ آیا -حالانکہ اس وقت سلطان محمد اصغر علیؒ ساتھ بھی نہیں تھےکہ انہوں نے مجھے ناخن تراشتے دیکھاہو،جب میں نے نیل کٹر سے سلطان الفقرششم ؒ کے ناخن بھی کاٹے تو آپ ؒ نے ارشادفرمایا کہ نیازی صاحب اب ٹھیک ہے ناں، میں نے عرض کی کہ بالکل ٹھیک ہے، گویا آپ ؒ نے اپنے مرشد کی کوئی ایسی سنت نہیں چھوڑی جو آپ ؒ کی سنت ہو اور آپ ؒ نے نہ اپنائی ہو‘‘-[7]

بلاشبہ آپ ؒ فنافی الشیخ کے اعلی ٰ ترین مرتبے پہ فائز تھے جس کی شہادت  ملک نور حیات خان ان الفاظ میں دیتے ہیں:

’’حضرت سخی سُلطان محمد اصغر علی ؒ اپنے گھوڑوں کے ساتھ ہمارے علاقے تشریف لائے، آپ ؒ کی آمد کی اطلاع ملی تو مَیں حاضر ی کے لیے روانہ ہو گیا، آپ ؒایک ہوا دار جگہ پر پلنگ مبارک پہ تشریف فرما تھے ،آپ ؒ کے پاس چندلوگ چٹائی  پہ بیٹھے تھے،مَیں نے دُور سے ہی آپ ؒ کو دیکھ کر احتراماً گاڑی کھڑی کردی اور آپ ؒ کی طرف چل پڑا، میر ی حیرانی کی کوئی انتہانہ رہی کہ جب مَیں آپ ؒ کی طرف نگاہ ڈالتا تو مجھے سُلطان محمد عبدالعزیز ؒ تشریف فرما نظر آتے اور جب دوبارہ دیکھتا تو حضرت سخی سُلطان محمد اصغر علی ؒ نظر آتے، یہ دیکھتے ہی میری آنکھوں سے آنسو روانہ ہوگئے اور مَیں روتے ہوئے آپ ؒ کے قدموں میں گر گیا ،آپ ؒ نے کما ل شفقت فرماتے ہوئے مجھے اُٹھا کر گلے لگایا ،کافی دیر تک مَیں نے اُس پرتوجمال حقیقی اورعشق الہٰی کے پُرسوز تصویر ِ مجسم کے انواروتجلیات کا مشاہدہ کرتا رہا اور آپ ؒ کے بے پایاں محبت ،بے مثل خلوص اور عمیق عنایات نے میرے آزردہ دل کو جو سکون بخشا وہ ناقابل فراموش ہے ‘‘-[8]

شخصیت مبارک وشمائل مبارکہ:

سیدی رسول اللہ (ﷺ) کے فرمان مبارک’’الَّذِينَ إِذَا رُؤُوْا، ذُكِرَ اللهُ تَعَالیٰ‘‘ [9]کے مصداق سلطان الفقر ششم ؒ جاذب و پر کشش شخصیت کے مالک تھے، آپ ؒ  کی بارگاہ اقدس کے منظورِ نظر علامہ عنایت اللہ القادری ؒ آپ ؒ کی شخصیت مبارک کے آنکھوں دیکھے خدوخال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’حضور سلطان الفقر  ؒ کی شخصیت با وقار، پُرکشش اور سدا بہار تھی، خوبصورت جسم مبارک سراپا نور تھا، آپ ؒ اپنی نگاہیں ہمیشہ نیچی رکھتے تھے اور جمالیت کی نگاہ سے جب محفل مبارک میں سَر اُٹھاتے تو چہرہ پُرنُور اور چہرہ متبسّم نظر آتا اور ہر وہ خوش نصیب جو آپ ؒ کی معیت وقرب میں بیٹھا ہوتا تھا وہ یہ سمجھتا کہ آپ ؒ میری طرف متوجہ ہیں اور مجھ سے بات فرما رہے ہیں-جمالیت منور جو سور ج کی طرح تاباں ہونے کی بجائے ماہ ِ منوّر جوبدرِمنوّر چودھویں رات کی طرح کی چاندنی معلوم ہوتی ہے،جس کے اثرات کچھ اس طرح نمودار ہوتے تھے کہ ہردیکھنے والے کو فیض فقر ِ محمد ی (ﷺ)نصیب ہوتا رہاہے -جس قدر غمگین و پریشان لوگ آپ ؒ کی محفل میں بیٹھ کراُٹھتے تو یوں محسوس کرتے کہ ہماری کوئی پریشانی اورغم باقی نہیں ہے یعنی اعلیٰ درجے کی طمانیت اورسکون نصیب ہوجاتا اور پُرمسرت طور پر مُسکرا رہے ہوتے تھے یاخوشی کے آنسو چھلکا رہے ہوتے تھے ‘‘-

آپ ؒ انتہائی خوبصورت اور جسیم صورت تھے، میانہ قد مبارک، خوبصورت اَبرُو الف مدّکی طرح بارونق تھے، آنکھوں میں سُرخ رنگ کے خوبصورت ڈورے ہوتے تھے، بینی مبارک تلوار کی طرح نوک جیسی چمکدار اور خوبصورت تھی، چہرہ پُرجلال و جمال-ہردن رات میں تین رنگ آتے تھے کبھی بالکل سُرخی توکبھی بالکل چاند کی چاندنی کی طرح سفید اور کبھی ہلکی گندمی رنگ کی جھلک دکھائی دیتی تھی‘‘-[10]

اندازِگفتگو:

’’آپ ؒ کی گفتگو ہمیشہ سراپاادب ہوتی، گفتگو کے الفاظ مبارک انتہائی چنے ہوئے ہوتے جن میں تصنع یا بناوٹ نہ ہوتی تھی،بلکہ ہمیشہ ایسے الفاظ میں گفتگو فرمایا کرتے تھے جو دل میں گھر کرجاتے تھے-جب آپ ؒ مختلف مشائخ عظام و وعلماء کرام  سے کلام فرماتے تو اس وقت فقط علمی اصطلاحات کا استعمال فرماتے مگر جس وقت آپ ؒ سادہ لوح لوگوں سے گفتگو فرماتے تو بالکل سادہ زبان میں گفتگو فرماتے-آپ ؒ کھِل کھِلاکر اونچا نہ ہنستے تھے کبھی کبھار اگر آپ ؒ کا قہقہہ ہوتا تو وہ بھی انتہائی خوبصورت انداز میں ہوتا-لیکن عام طور پر آپ ؒ مسکرا دیتے- گفتگو کی آواز اور لہجہ بھی دھیمہ ہوتا تھا اور بلند آواز میں فقط اُ س  وقت گفتگو فرماتے جب آپ ؒ کے گرد زیادہ لوگ بیٹھے ہوتے اور آواز کو دور تک پہنچانا مقصود ہوتا- لیکن آپ کے وجود مبارک کی ایک کرامت تھی کہ کتنی بڑی محفل کیوں نہ ہو، آواز مبارک سب تک پہنچتی تھی، آپ ؒ کی آواز مبارک میں ایک وجاہت اور شان وشوکت تھی ‘‘-[11]

بیعت وعطائے خلافت :

سلطان الاولیاء، شہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطان محمد عبد العزیز ؒ نے اپنے شہزادگان کی تربیت خالصتاً رُوحانی بنیادوں پر فرمائی اور بالخصوص خزانہ فقر کومنتقل کرنے کیلئے حضور سلطان الفقر  حضرت سلطان محمداصغر علی ؒ کو سفر و حضر میں ہمہ وقت اپنے قرب ِ خاص میں رکھ کر اُن کی تربیت فرمائی -1979ءمیں آپ ؒ کوبیعت کرنے اور خلافت عطاکرنے کے بعد ارشادفرمایا ’’میرایہ بیٹا فقر کو جس طرح سنبھالے گا ایسے قیامت تک کوئی نہیں سنبھال سکے گا‘‘-[12]

اصلاحی جماعت کا قیام :

سنت نبوی (ﷺ) پہ عمل پیرا ہوتے ہوئے آپ ؒنے 40 برس کی عمرمبارک میں آپ ؒنے انجمن غوثیہ عزیزیہ حق باھوؒ پاکستان و عالم ِ اسلام کی تنظیم سازی فرمائی اورعالمگیر تحریک ’’اصلاحی جماعت‘‘کی بنیادرکھی تو آپؒ نے حلقہ احباب پہ واضح فرما یا کہ:

’’مَیں نے یہ جماعت روضہ مبارک والوں (سیدی حضرت محمدرسول اللہ (ﷺ) کی مرضی مبارک سے شروع کی-وہی اس کی نگہبانی فرمارہے ہیں ہم تو صرف اُن کی غلامی کررہے ہیں ‘‘- [13]

مساجد کی تعمیر و مدارس کا قیام :

آپ ؒ نے طالبان مولیٰ  کی اپنی نگاہ سے تربیت فرماکر خانقاہ عالیہ کو رول ماڈل بنا دیا-آپ ؒ مساجد کے قیام میں بہت دلچسپی لیتے اس کی واضح مثال دربارعالیہ حضرت سخی سلطان محمد عبد العزیز صاحب ؒ پر نہایت خوبصورت مسجد کا قیام ہے -آپ ؒ نے جہاں طالبانِ مولیٰ کی تعلیم و تربیت کیلئے مراکز قائم فرمائے وہاں مدارس کے قیام کو بھی عملی جامہ پہنایا،دارالعلوم غوثیہ عزیزیہ انوارِ حق باھوؒ اور اس کے زیر ِ اہتمام مختلف مدارس کا قیام اس کا عملی ثبوت ہے -

روضہ مبارک (گنبدِ خضرٰی ) کا ادب :

الحاج محمد نواز القادری زیاراتِ مکہ ومدینہ کی یادیں تازہ کرتے ہوئے کچھ چشم دیدواقعات میں مسجدِ نبوی (ﷺ) کا واقعہ یوں بیان فرماتے ہیں:

’’ایک مرتبہ مسجدنبوی (ﷺ) میں عید کے موقعہ پر انتہائی رَش تھا کوئی جگہ نہ تھی کہ مرشدپاک کی جائے نماز کہاں ڈالیں ؟ہم نے اوپر والی منزل پرجانے کاارادہ کیاتو مرشدپاک نے منع فرمایا کہ یہ بے ادبی ہے اس طرح عید پڑھنے کا کوئی فائدہ ہی نہیں -اسی وقت قدرتی طور پر دوافراد کی جگہ بن گئی ہمیں سمجھ ہی نہیں آئی کہ یہ کیسے جگہ بن گئی -پھر آپ ؒ نے وہاں نمازِ عید ادا فرمائی ‘‘-[14]

احترامِ سادات:

سادات کرام کا آپ ؒ بہت زیادہ احترام فرماتے، جب بھی جہاں سیّد کا نام آتا توآپ ؒ اس نام کا احترام فرماتے- آپ ؒ کے حلقۂ ارادت میں سادات کی بہت بڑی تعداد تھی- آپ ؒ اُن کا بھی خاص احترام فرماتے-بھکر سے تعلق رکھنے والے ایک  شاہ صاحب تھے  جو اکثر آپ ؒ کے پاس حاضر ہوتے، وہ حاضر ہوئے اورعرس مبارک کا موقعہ تھا ،توآپ ؒ نے دیگر تمام مصروفیات کے باوجود اپنے شہزادگان کو بُلاکر حکم فرمایا کہ شاہ صاحب کے آرام وطعام کا خیال آپ نے خود رکھنا ہے اور یہی آپ کی ڈیوٹی ہے اور کھانا بھی خود اپنے ہاتھ سے پیش کرنا ہے-بارگاہ عالیہ میں خُدّام کی ایک کثیر تعداد کے باوجود اپنے فرزندان کو اس ڈیوٹی پہ مامورکرنا آپ ؒ کی سادات کرام سے محبت وانکساری کا بیّن ثبوت ہے -

حضور شہنشاہ بغداد ؒ کی اولاد پا ک میں سے صاحبزادگان تشریف لاتے تو آپؒ  اپنے تمام معمولات ترک فرماکر اُن کی خدمت کو ترجیح دیتے -[15]

محل پاک کا ادب :

’’آپ ؒ ایک بار ادائیگی عمرہ سے واپس تشریف لائے تو آپ ؒ نے لٹھے کا کلف لگا سُوٹ زیب تن فرمایا ہوا تھا اور آپ ؒ اپنے مرشد کریم ؒ کے مزار پُر انوار پر وہی کپڑے زیبِ تن فرماکر حاضر ہوئے-محل پاک میں داخل ہوتے ہی فوراً واپس تشریف لائے لباس تبدیل فرمایا اور ارشادفرمایا :

’’جی اساں محل پاک اچ حاضری دتی ہے تاں کپڑے بڑے شور کررہے ہَن‘‘

’’میں نے محل پاک میں حاضری دی توکپڑوں کا شور تھا‘‘

آپ ؒ نے سلطان الاولیاء حضرت سخی سُلطان محمد عبدالعزیز صاحب ؒ کے وصال مبارک کے بعد کبھی بھی محل مبارک کی طرف پشت نہیں فرمائی ‘‘-[16]

پیکر عجزوانکساری :

حضور سلطان الفقر  حضرت سخی سُلطان محمد اصغر علی ؒ ’’الادب سند الفقراء‘‘ کی عملی تفسیر اور عاجزی و انکساری کی عملی تعبیر تھے-آپ ؒ نے پوری زندگی اپنے لیے ’’مَیں‘‘ کا لفظ استعمال نہیں فرمایا بلکہ اپنے لیے ’’عاجز‘‘ کا لقب پسندفرمایا-جیساکہ آپ ؒ اپنے مُرشد کریم شہبازِ عارفاں، سُلطان الاولیاء حضرت سخی سُلطان محمد عبدالعزیز ؒ کی بارگاہ مبارک میں یوں نذرانہ عقیدت پیش فرماتے ہیں :

دل لاکے توڑ نبھاون ایہہ سخیاں دی چالِ
ہواسم اعظم دے جسم معظم تیرارتبہ بہت کمالِ
خاص منزل عطاؤ تو رحمت ذوالجلال ِ
اس عاجز دیاں لجاں تینوں تُوں آپ ای لجپال ِ [17]

گھوڑوں سے محبت:

حضرت عُروہ بن جعدؓ سے مروی ہے کہ حضور رسالت مآب (ﷺ)نے ارشادفرمایا:

’’اَلخَيْلُ مَعْقُودٌ فِي نَوَاصِيهَا الخَيْرُ إِلَى يَوْمِ القِيَامَةِ‘‘[18]

’’گھوڑوں کی پیشانیوں میں قیامت تک خیر لازم ہے ‘‘

سنت نبوی (ﷺ) کے مطابق حضور حضور سلطان الفقر  ؒکے تھان پہ گھوڑوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی اور ہرایک کا الگ الگ (نام) رکھا ہوا تھا، جن میں سے چند درج ذیل ہے: نگینہ، مستانہ، رَف رَف، کبوترا، خُمرہ، زمرد، زُوم، شعلہ، مرغوب، اطلس، عقاب، شہزادہ، طوفان، شاہ ناز، سنجاب، طوطا، شیردل ،گلفام وغیرہ

 سلطان الفقرششم ؒکو رنگ کے حوالے سے کمیت، کُلہ (گولڈن یعنی سنہری)سیاہ پنج کلیان اورنُقرہ یعنی سفید رنگ کے گھوڑے پسندتھے-آپ ؒ اکثر جس گھوڑے پہ سواری فرماتے تھے اس کا نام کبوترا تھا-[19]’’ان گھوڑوں میں ایک گھوڑا ایسا ہے جس کی گردن پر اسم محمد (ﷺ) نقش ہے ‘‘- [20]

آپ ؒ کا معمول مبارک تھا کہ:

’’ جب آپؒ   گھر سے باہر تشریف لے جاتے تو سب سے پہلے گھوڑوں کے تھان یا اصطبل پہ تشریف لے جاتے-اگر صبح کوتشریف نہ لے جاتے تو عصر کے وقت تشریف لے جاتے اور اکثر گھوڑوں کی پیشانی اور گردن پہ ہاتھ مبارک پھیرتے اور فقیروں (سائیس) کو گھوڑوں کی ایک ایک چیز کی صفائی کی تاکید فرماتے اور گھوڑوں کے بارے میں ذرا برابرکمی بیشی برداشت نہ فرماتے اور اگر گھوڑوں کے جسم پہ مٹی لگی ہوتی تو بعض دفعہ اپنے ہاتھ مبارک سے صاف فرماتے-دانہ اور چارہ کو چیک فرماتے اور گھوڑوں کی خوراک کے متعلق عموماً پوچھتے رہتے اور جوچیز کم ہوتی اس کو فوراً پورافرماتے‘‘ -[21]

صاحبزادہ سُلطان احمدعلی صاحب (مدظلہ الاقدس) فرماتے ہیں کہ:

’’حضور سلطان الفقر  ؒ نے اپنے وصال مبارک سے 20 روز قبل مجھے صُبح سویرے طلب فرمایا اور ارشاد فرمانے لگے کہ میری ایک وصیت یاد رکھنا-اس سے پہلے حضور لفظ نصیحت استعمال فرماتے، اس مرتبہ ’وصیت‘ استعمال فرمایا- مَیں ہمہ تن گوش تھا، فرمانے لگے:’’جب تک تمہارے پاس گھوڑے رہیں گے، اللہ عزوجل آپ کو دین و دنیا کی تمام نعمتوں سے سرفراز فرماتے رہیں گے-یہ سُلطان باھوؒ کے تھان کے گھوڑے ہیں ان کی بہت حفاظت کرنا‘‘-صاحبزادہ سُلطان احمد علی (مدظلہ الاقدس) نے اپنے والد و مُرشد کی وصیّت کے بارے میں بتایا کہ آپ ؒ نے کچھ شرائط اور پابندیاں بھی عائد فرمائیں، جن میں چار چیزوں کا حکم آپ ؒ نے بڑی سختی سے فرمایا (آپؒ کے ان فرمودات مبارکہ کے ایک ایک لفظ سے بھی آپ ؒ کی گھوڑوں کی محبت ظاہراور عیّاں ہوجاتی ہے )

1-گھوڑوں کو اپنی ذات یا ذاتی مفا د کی خاطر فروخت نہیں کرنا، سوائے ان چند چیزوں کے:مسجد کی تعمیر کیلئے، مُرشد پاک کے آستانہ کی تعمیر کیلئے ،جہاد فی سبیل اللہ کیلئے، دِین حق کی کسی اور خدمت کیلئے -مگر یہ بھی اِ س صورت میں کہ اورتمام وسائل ختم ہوجائیں اور یہ ایک آخری خزانہ رہ جائے -

2-گھوڑوں کو مالک (یعنی ہم )،سواریاسائیس گالی نہ دیں کیونکہ حدیث نبوی (ﷺ) کے مطابق گھوڑے کی پیشانی میں قیامت تک برکت ہے اور ایک اور روایت کے مطابق اس کی پیشانی میں اللہ تعالیٰ کا نام مبارک ہے، ا س لئے اس کو گالی دیناا س کی تقدیس کے منافی ہے -

3- ادب اور آداب کا خاص خیال رکھنا ہے حتی الوسع کوشش کرنی ہے کہ اُن کے تھان بالکل صاف ہوں یعنی اُن کی صفائی کا خاص خیال رکھنا ہے-

4- یہ بات ذہن میں رکھ کرخدمت کرنی ہے کہ ہم اپنے تفاخُر یا استکبار کیلئے نہیں بلکہ حضر ت سُلطان باھوؒ کی بطورِامانت خیال رکھنا ہے-(مزید یہ کہ) کوئی بدکار یا شراب نوش یا منشیات کا عادی اِن کی خدمت پہ مامور نہیں کرنا‘‘- [22]

مایہ ناز شہسوار:

حضور سلطان الفقر  ؒ اپنے دور کے بہت اچھے اور باکمال گھڑ سوار تھے،آپ ؒ  نے کئی مقابلوں میں بذاتِ خود حصہ لیا اور اوّل پوزیشن پہ رہے-[23] حضور سلطان الفقر  ؒ کے زیر ِ سایہ تربیت یافتہ گھڑسوار نیزہ باز ملک میں اور غیر ممالک میں بھی جاتے تھے،آپ ؒ کے گھوڑوں کی شہرت سُن کر غیر ممالک سے بھی اکثر لوگ آتے تھے ،صاحبزادہ سُلطان احمدعلی صاحب (مدظلہ الاقدس) نے گھڑ سواری کے حوالہ سے اپنے مُرشد والد (حضرت سخی سُلطان محمد اصغر علی صاحب ؒ کی زبانی واقعہ سنا یا کہ :

’’ایک مرتبہ آپ ؒ ہمارے دادا مرشد حضرت سُلطان محمد عبدالعزیز ؒ کے حکم پر ایک انتہائی سرکش گھوڑے پر نیزہ بازی کررہے تھے اور اس انتہائی سرکش گھوڑے کو زین چھوڑ کر بھگارہے تھے،زین چھوڑ کر دوڑانا بڑی خطرناک سواری ہے ،جان کو ہتھیلی پرر کھنے والی بات ہے -آپ ؒ فرماتے ہیں،میں نے اتنی زین چھوڑی کہ میرا دایاں پاؤں بائیں طرف آگیا،میں نے نیز ہ مارا اور وہ صحیح نشانے پہ لگا ،جب میں نے گھوڑا روکا تو ہمارے دادا مرشد حضرت سُلطان محمد عبد العزیز ؒ  اٹھ کھڑے ہوئے -آپ ؒ نے دونوں بازو فضا میں لہراتے ہوئے خوشی کا اظہار فرمایا،آپ ؒ فرماتے تھے کہ ہمارے دادا جان ’’راجباہ‘‘ کے ایک طرف گھوڑا دوڑاتے تھے اور دوسری طرف لگا نیزہ اکھاڑا کرتے تھے،خیال رہے کہ ’’راجباہ‘‘ ایک تنگ سی آبی گزرگاہ(پانی گزرنے کی جگہ،چھوٹی نہروغیرہ )ہوتی ہے اور یہ (اس طر ح نیزہ اکھاڑنا) تقریباً ناممکن ہوتا ہے، فرماتے ہیں کہ میری اس گھڑسواری پر میرے والد مرشد  ؒ بہت زیادہ خوش ہوئے‘‘-[24]

دلوں کے راز دان :

حضور سلطان الفقر  ؒ کی بارگاہ ِ اقدس میں حاضری کا شرف حاصل کرنے والوں میں اکثر اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ آپ ؒ کئی مرتبہ حاضر ہونے والوں کے دلوں کی بات کو اُن کے زبان پہ لانے سے پہلے ارشادفرمادیتے اور بعض اوقات کوئی حاضرِ خدمت ہونے والا دل میں اپنا مسئلہ رکھتا لیکن اُ س کو آپ ؒ کی بارگاہ ِ اقدس میں زبان پہ لانامناسب نہ سمجھتا توآپ ؒ اس کے مسئلہ بتائے بغیر مسئلہ حل فرمادیتے اس طرح کا ایک واقعہ سیدامیر خان نیاز ی ؒ نے بیان فرمایا:

’’ایک مرتبہ دربار پیر سید بہادر علی شاہ ؒ پہ حضور سلطان الفقر  حضرت سخی سُلطان محمد اصغر علی صاحب ؒ نے مجھے طلب فرمایا، قیام تھوڑا لمبا ہو گیا اور گھر میں کچھ رقم کی اشد ضرورت تھی لیکن مرشد کریم ؒ کا ادب وحیا کی وجہ سے عرض نہ کرسکا، کچھ دنوں کے بعد حضور سلطان الفقر  ؒ نے خود مجھے جتنی رقم کی ضرورت تھی وہ عطافرماکر گھرروانہ فرمادیا‘‘-[25]

یہاں طوالت سے بچنے کیلیے ایک واقعہ پہ اکتفا کیا ورنہ آپ ؒ کی حیات مبارکہ اس جیسے سینکڑوں واقعات سے بھری پڑی ہے -

’’یُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ‘‘ کا فیض :

سید امیر خان نیازی ؒ اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:

’’ایک مرتبہ حضرت سخی سُلطان محمد اصغر علی ؒ نے مجھے گھر سے طلب فرما کر ارشاد فرمایا کہ نیازی صاحب تم نے کچھ عرصہ میرے ساتھ رہنا ہے، مجھے اپنے مُرشد کی بارگاہ سے حکم ملاہے کہ تمہاری تربیت کروں، مَیں نے سرتسلیم خم کر دیا،آپ ؒ نے حضرت سلطان العارفین ؒ کی تصنیف لطیف کلید التوحید (کلاں) کھولی اور ارشادفرمایا:یہاں سے پڑھو، میں نے عرض کی: حضور! مجھے فارسی پڑھنی نہیں آتی، ارشاد فرمایا :تم بسم اللہ پڑھ کرشروع تو کرو تمہیں پڑھنا خود بخود آجائے گا اور جب میں نے پڑھناشروع کیا تو میں حیرت زدہ ر ہ گیا کہ میں اسے آسانی سے پڑھتا بھی گیااور اس کا مفہوم بھی میر ی سمجھ میں آگیا‘‘-[26]

کسی  نے  مانگا نہ مانگا جھولیاں بھرتے گئے

ملک صفدر حسین صاحب اپنی ایک آپ بیتی بیان کرتے ہیں کہ:

’’ میں اپنے مُرشد سے کھل کرکبھی فرمائش نہیں کرتا تھا، کیونکہ میرا ایمان ہے کہ وہ ہمارے دلی معاملات سے آگاہ ہیں، میری شادی کو کافی عرصہ ہوگیا اور کوئی اولاد نہیں تھی ،مَیں نے اسے قسمت جان کر قبول کرلیا اور کبھی اس طرف قیاس ہی نہیں گیا، ایک مرتبہ جب میری قائد آباد تعیناتی تھی تو میرے مرشد پاک میرے ہاں تشریف لائے میرے ساتھ میراایک بھتیجا موجود تھا، آپ ؒ نے ارشاد فرمایا:’’کون ہے؟‘‘میں نے عرض کی کہ میرا بھتیجا -آپ ؒ نے پوچھا تمہارا بیٹا نہیں، میں نے عرض کی نہیں حضور،فرمایا کہ بتایا ہی نہیں تم نے، میں نے عرض کی حضور!آپ سے کیا پوشدہ ہے-آپ ؒ نے توقف فرمایا حاضرین پہ نگاہ ڈالی اور ارشاد فرمایا کہ سب مل کر دعا کرو، اللہ پاک صفدر حسین کو بیٹا عطا فرمائے، بعد میں اللہ پاک نے خوشخبری عطا فرما دی‘‘- [27]

 شکار میں دلچسپی :

’’وَ اِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا‘‘[28]

’’ اور جب احرام سے نکلو تو شکار کرسکتے ہو‘‘-

شکار کے بارے میں واضح نصوص اور احکامات ہونے کے باوجود بعض اوقات کم فہم لوگ اس پہ اعتراض کرتے تھے، اس طرح کا ایک واقعہ آپ ؒ کی حیات مبارک میں پیش آیا تو آپؒ نے اس کا جواب  یوں ارشادفرمایا کہ:

’’وہ جو اب ہونے کے ساتھ ساتھ آپؒ  کے صاحب تصرف، ولی کامل و اکمل ہونے پر بھی دلالت کرتا ہے جیسا کہ ملک صفدر حسین آف چکوال بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے ایک دوست میاں صاحب کے ساتھ علاقے کے مکین وڑائچ صاحب کے پاس بیٹھا تھاکہ جوعلاقے کے بڑے زمیندار تھے اور میاں صاحب کے ذریعے ان سے میرا پہلی مرتبہ تعارف ہوا تھا، باتوں باتوں میں وڑائچ صاحب نے کہا-مَیں پہلے شکار کھیلاکرتاتھا،لیکن کسی نے کہا کہ یہ ظلم ہے تو مَیں نے چھوڑدیا،خداجانے مجھے کیا ہوا کہ غصہ آگیا،میں نے کہاآپ نے چھوڑدیاآپ کا فیصلہ تھا لیکن اسے ظلم نہ بتائیں کیونکہ میرے مُرشد پاک بھی شکار کھیلتے ہیں وڑائچ صاحب وہاں سے چلے گئے-مَیں اورمیاں صاحب اپنے گھرواپس آگئے، گھر پہنچے تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ دروازے پر آہٹ ہوئی، مَیں نے دروازہ کھولا اورسامنے حضرت سخی سُلطان محمد اصغر علی صاحب ؒ کوموجودپایا،میں حیرا ن رہ گیا کہ اچانک آمد اور وہ بھی اس طرح -حضور تشریف فرما ہوئے اور یقین کیجئے بغیر کچھ کہے سُنے آپ ؒ نے شکار کے حوالے سے بات شروع فرمائی،قرآن پاک کی آیات مبارکہ کاحوالہ دینے لگے اور ارشاد فرمایا کہ فلاں آیت دیکھو، فلاں آیات دیکھو،اللہ تعالیٰ نے شکار کی اجازت دی ہے، پھرمیری طرف دیکھ کر ارشاد فرمایا: ’’صفدر صاحب جب اللہ تعالیٰ ایک کام کی اجازت دے رہے ہیں تو اُسے کرنے والا ظالم ہے یاروکنے والا؟میں چپ رہا ،میاں صاحب کو پسینہ آگیا کیونکہ ہم دونوں ہی تھوڑی دیر پہلے وڑائچ صاحب کے ساتھ موجود تھے حضور سے کچھ بھی نہ کہہ سکے ،گفتگو مکمل فرمانے کے بعد حضور نے ارشادفرمایا کہ انہیں فوراً واپس جانا ہے ہم مزید حیران ہوگئے ،بات مکمل کر کے آپؒ تشریف لے گئے تھے ،آپ ؒ کی روانگی کے بعد مَیں نے میاں صاحب سے کہا جوخود بھی بہت اللہ والے ہیں کہ قرآن پاک کی متعلقہ آیات دیکھیں-جب ہم نے وہ آیات دیکھیں تو یقین کیجئے لفظ بلفظ وہی لکھاتھا-جومیرے مرشد پاک ہمیں ارشاد فرمانے کے بعد رخصت ہوگئے تھے‘‘-[29]

محبتِ قرآن:

صاحبزادہ سُلطان احمدعلی (مدظلہ الاقدس) نے حضور سلطان الفقر  حضرت سخی سُلطان محمد اصغر علی ؒ کی محبتِ قرآن کی منظر کشی کچھ یوں فرمائی ہے:

’’آپ ؒ اکثر گھر   والوں اور اپنے مریدں  کو ’نُور العرفان‘ کا درس دیتے تھے، بلکہ ایک اور بھی آپ ؒ کی ترتیب مبارک تھی کہ آپ ؒ قرآن کریم جو قاری غلام رسول صاحب (اللہ پاک انہیں غریقِ رحمت فرمائے )نے تلاوت کی ہے اور ان کے ساتھ وجیہہ السیماعرفانی صاحب کا ترجمہ آپ ؒ سُنتے تھے، آپ ؒ کے ساتھ مختلف علماء،سُلطان معظم علی صاحب،حاجی محمد نواز صاحب ،مفتی صالح محمد صاحب، مفتی اشفاق احمد صاحب ہوتے تھے-قرآن پاک کی آیات مبارکہ کا جب ترجمہ ہوتا توپھر سٹاپ کی جاتیں پھر یہ علماء ان کی تشریح کرتے تھے اور تویہ پوری پوری رات اس نشست میں گزرجاتی تھی اور قرآن پاک کے اوپر گفتگو ہوتی تھی، جو حضور کے فقیر تھے، آپ ؒ کی خدمت میں رہنے والے وہاں بیٹھے دیکھتے تھے اسے سُنتے تھے سوالات کرتے تھے اور آپ ؒ قرآن پاک کے اَسرار و رموز جو ا س کے باطنی حوالے سے خاص کر ہیں اس کی شرح فرماتے تھے ‘‘-[30]

لباس مبارک:

آپ ؒ پاکیزہ ،صاف ،سُتھرا اور عمدہ لبا س زیب تن فرماتے اور طہارت وپاکیزگی کا بے حد خیال رکھتے، زرق برق لباس کے لیے یہ ارشادفرماتے یہ شُکران نعمت ہے ذرا برابر بھی ناپاک چیز یا واش روم کے استعمال کے دوران معمولی سی چھینٹ بھی پڑجاتی تو فوراً وضو فرماکر لباس مبارک تبدیل فرما دیتے ،عمدہ لباس میں آپ ؒ سفید رنگ کے کپڑے کو پسند فرماتے، علاوہ ازیں خوش رنگ،بوسکی قمیض اور سفید تہہ بند استعمال فرماتے،سفید رنگ کے شملے والی دستار سر مبارک پر رکھتے، دورانِ حج آپ نے ؒ سبز رنگ کی دستار بھی استعمال فرمائی ہے-آپ ؒ خوش لباسی کو انتہائی پسند فرماتے،کاٹن کا لباس بھی زیبِ تن فرماتے اور نرم و نازک پتلا لباس گرمیوں میں استعمال فرماتے ،سَر پر گرمی کے موسم میں عموماًسندھی ٹوپی استعمال فرماتے جبکہ سردیوں میں گرم اُونی ٹوپی جوپنجاب (پاکستان ) میں عمومی طور پر سفید پوش اور بزرگ لوگ استعمال کرتے ہیں -الغرض صاف سُتھرا اور پاکیزہ لباس کو زیادہ پسند فرماتے، اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ بالکل نئے کپڑے اپنے خدمت گاروں میں تقسیم فرما دیتے اور قریب رہنے والے ساتھیوں کواچھے اور پاکیزہ لباس کے ساتھ باوضو رہنے کا حکم صادر فرماتے گویا ہر بات اور ہرکام میں سُنت ِ محبوب ِ خُدا (ﷺ) کو اپناتے تھے ‘‘- [31]

جن کی ہر ہر اد اسُنت مصطفےٰ():

 آپ ؒ نے اللہ عزوجل کے محبوب مکرم،شفیع معظم سیدی رسول اللہ(ﷺ) کی تمام ظاہری صورتوں پہ عمل فرمایا بلکہ آپ (ﷺ) کی باطنی سُنتیں (توکل، تزکیہ، تصفیہ وغیرہ) کا احیاء فرمایا، بلاشبہ آپ ؒ کو دیکھ کر سیدی اعلیٰ حضرت امام  احمد رضا خان قادری برکاتی ؒ کا یہ شعر ذہن میں گردش کرنے لگتا-

جن کی ہر ہر ادا سُنت ِ مصطفٰے (ﷺ)
ایسے پیر طریقت پہ لاکھوں سلام

اس چیز کی گواہی آپ ؒ کی بارگاہ مبارک میں رہنے والوں نے بھی دی جیساکہ آپ ؒ نے ایک مرتبہ سید امیر خان نیازی ؒ کو مخاطب فرماکر ارشادفرما یا:

’’نیازی صاحب !مَیں نے زندگی میں کوئی ایساکام کیاہے جو مُرشد کی سُنت کے خلاف ہو، عرض کی نہیں،پھر آپ ؒ نے ارشادفرمایا کوئی ایساکام جو سیدی رسول اللہ (ﷺ) کی سُنت کے خلاف ہو مَیں نے عرض کی ’’جی نہیں ‘‘ آپ ؒ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ حضور نبی رحمت (ﷺ) کی سُنت کے مطابق ہے تو اِ س پر آپ ؒ ارشادفرمانے لگے ’’یارکو راضی کرنے کے لیے یہ تو کرناپڑتاہے ‘‘-[32]

بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی :

سلطان الفقرششم ؒ کی نگاہِ فقر نے نہ صرف لوگوں کے دلوں کو اللہ عزوجل اوراس کے محبوب مکرم،شفیعِ معظم (ﷺ)کی محبت سے سرشارفرمایا بلکہ ہزاروں گناہوں کے عادی افراد کو گناہوں کی دلد ل سے بچایا-اسی طرح کا ایک واقعہ علامہ معین الحق صاحب بیان فرماتے ہیں کہ:

’’چاچا محمد اسلم خان ہمارے بزرگ ساتھی تھے، ان کا ایک بیٹا تھا محمد ظفر اللہ،ایک مرتبہ وہ کسی کام کیلئے اچھالی آئے ان کے ساتھ آنے والا ڈرائیور شراب میں مست رہتا تھا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے اس کے لیے  دو بوتلیں خریدیں، ایک راستے کیلئے اور ایک اس کے پاس رکھنے کیلئے ،ہم جتنے ساتھی تھے اُچھالی پہنچ کر ملاقات کیلئے چلے گئے اور ا س ڈرائیور کو گاڑی کے پاس چھوڑ دیا، جب ہم ملاقات کیلئے گئے تو وہ ڈرائیور وضو کرنے لگ گیا،ابھی و ہ وضو سے فارغ ہواتھا کہ اتنی دیر میں ہم بھی ملاقات کر کے واپس آگئے،اس نے ہم سے کہا ٹھیک ہے میں گناہ گار توضرور ہوں لیکن کیا میں مسلمان بھی نہیں ہوں؟ کیامیں ملاقات بھی نہیں کرسکتا؟ہم نے کہا چلو آپ کی ملاقات کرواتے ہیں-ا س کی ملاقات کروا کے تھوڑی دیر بیٹھے تو ہم نے کہا چلیں تو وہ کہنے لگا کہ نہیں ابھی بیٹھیں، کچھ دیر بیٹھنے کے بعد جب ہم وہاں سے نکلے چونکہ وہ پینے کا عادی تھا تو میں نے اسے کہا کہ بھا ئی کیا خیال ہے چلو کسی کمرے میں چل کر آپ کی پیاس بجھائیں- اس ڈرائیور نے کہا نہیں بھائی ایسی ہستی کو دیکھنے اور  ملاقات کرنے کے بعد کیا مَیں اب بھی شراب پیوں گا؟مَیں شراب نہیں پیوں گا،وہ دن گیا اور آج کادن ہے اُس شخص نے کبھی شراب یا منشیات کو ہاتھ تک نہیں لگایا‘‘-[33]

(یہ بطورِمثال ایک واقعہ  ہے درحقیقت ایسے ہزاروں واقعات ہیں کہ میرے مرشد کریم ؒ کی نگاہ فقر نے ہزاروں مادیت پرستوں اورنفس پرستوں کو دنیا ونفس کی قید سے چھڑوا کر روحانیت کی وادی میں آبادفرمایا)

کرامات مبارکہ :

صوفیاء کرام ہمیشہ استقامت کو کرامت پہ ترجیح دیتے ہیں بلاشبہ میدان استقامت میں بھی آپ ؒ اپنی مثال آپ ہیں اورجہاں تک کرامت کاتعلق ہے آپ ؒ کی پوری حیات مبارکہ کرامت ہے  اور بعض مقامات پہ اولیاء اللہ کی طرف سے کرامت کو ترجیح نہ دینے کے اقوال مبارکہ ملتے ہیں، اس کی محض وجہ یہ ہے کہ لوگ اس پہ قناعت اختیار کر کے رجوعات خلق کا شکار نہ ہو جائیں ورنہ کرامت برحق ہے اوراللہ تعالیٰ کے فضل کا اظہار ہے جیساکہ امام رازی ؒ رقم طراز ہیں :

’’ہم کہتے ہیں،بندہ جب اطاعت میں مبالغہ کرتا ہے اس حیثیت سے کہ وہ ہروہ کام کرتا ہے جس کا اللہ پاک نے حکم مبارک فرمایا ہوتا ہے اورجس میں اللہ عزوجل کی عین رضا مبارک ہوتی ہے اور ہر اس کام کو ترک کر دیتا ہے جس سے اللہ پاک نے منع فرمایا ہو اور اس سے زجر و توبیخ فرمائی ہو تو یہ بعید از قیاس نہیں ہے کہ رب تعالیٰ جو رحیم کریم ذات پاک ہے ایک مرتبہ وہ کام کردے جو اس کابندہ چاہتاہے بلکہ یہ اولی ٰ ہے‘‘ -[34]

یہاں صرف ایک کرامت کے ذکر پہ اکتفا کرتے ہیں جس کو مفتی محمد منظورحسین صاحب اپنے الفاظ میں بیان فرماتے ہیں کہ:

’’ہماری موجودگی میں ایک شخص اپنی تین بیٹیوں (جن کی عمر بالترتیب 18سال، 16سال اور  14 سال تھی)  اپنے والد کے  ہمراہ حضور سلطان الفقر  ؒ کی بارگاہ مبارک میں حاضر ہوا اور نرینہ اولاد کیلئے دعا کی عرض کی اور ان بچیوں نے (پردہ میں)عرض کی کہ حضور ہمیں بھائی چاہیے تو آپ ؒ نے ارشاد فرمایا کہ ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ پا ک تمہیں بیٹا بنا دے،تو بعد میں آپریشن کے ذریعے تینوں لڑکے بن گئے اور اب ان کے نا م حماد رضا، اسد  رضا اور علی رضا ہیں‘‘ -

 ادائے دل نواز:

اللہ عزوجل اپنے محبوب بندوں کو ایسی ادائیں عطافرماتا ہے کہ جن سے نہ صر ف دکھی دلوں کی ڈھارس بندھتی ہے بلکہ اُن کے مسائل بھی حل ہو جاتے ہیں یہی حال حضور سُطان الفقر ششم ؒ کی بارگاہ اقدس کا تھا ،جیساکہ ملک اعجاز اعوان صاحب نے بتایا کہ:

’’ حضور سے ہمار اتعلق بہت پُرانا تھا، کچھ رشتہ داری بھی ہے، میرے والدصاحب (کرنل (ر)  حسین محمد ،تلہ گنگ) کو آپ ؒ کرنل صاحب فرمایا کرتے تھے، ایک مرتبہ نوشہر ہ ہمارے نزدیکی گاؤں تشریف لائے وہاں بارش نہیں ہوئی تھی-لوگوں نے عرض کی، حضور! بارش کی دعا فرمائیں ،آپ ؒ نے فرمایا کہ کرنل صاحب پر پانی ڈالیں اللہ پاک بارش دے گا، لوگوں نے والد صاحب پہ پانی ڈالا لیکن بارش نہ ہوئی، اگلے دن عرض کی تو ارشاد فرمایا کہ تم لوگوں نے پانی کم ڈالا ہوگا -ہم نے والد صاحب پہ خوب پانی ڈالا اور اگلے روز ایسی مُوسلا دھار بارش ہوئی جو اس سے پہلے کبھی سُننے میں نہیں آئی تھی، اللہ عزوجل کی مشیّت کچھ عرصہ بعد والد صاحب سرگودھا تشریف لائے اور وہاں اُن کی وفات ہوگئی، حضور مرشد کریم ؒ والد صاحب کی وفات کے کچھ دنوں بعد اس علاقے میں تشریف لائے تو نزدیکی گاؤں کے لوگ آگئے اوربارش کی دعا کی درخواست کی-آپ ؒ نے ارشادفرمایا میں نے تمہیں بارش کا نسخہ دے دیاہے ،میں نے عرض کی کہ والد صاحب تو اب دُنیا میں نہیں رہے- آپ ؒ نے ارشادفرمایا:ان کی قبر پر دوسو گھڑے پانی ڈالو-ہم نے ایسا ہی کیا اور وہاں موسلا دھاربارش ہوگئی اور تین دن بارش ہوتی رہی، بعد میں لوگوں کے ہاتھ میں نسخہ آگیا، وہ حضور کے پاس آتے اور اجازت لے کر کرنل حسین محمد صاحب کی قبر پر پانی ڈالتے تو بارش شروع ہوجاتی ‘‘-[35]

دستگیر کونسل کا قیام :

آپ ؒ نے اس چیز کو پسند فرمایا کہ حضرت سلطان باھو ؒ کی فکری  و  نظریاتی میراث  کی احیاء کے  لیے ایک کونسل ہونی چاہیے ،جس میں حضور سلطان العارفین ؒ کی اولاد مبارک مل بیٹھ   کر باہم  گفتگو کرے -آپ ؒ کی اس تجویز کو سب نے بہت پسند فرمایا  تو  آپ ؒ نے وہاں ’’دستگیر کونسل‘‘ کی بنیاد رکھی، خاندان والوں نے اس کی صدارت بھی آپ ؒ کو سونپی اور یہ فیصلہ بھی ہوا کہ ہر معاملے پر آپ ؒ کے فیصلے کو حَکم مان کر عمل کیا جائے گا کیونکہ آپ ؒتما م خاندانوں کے نزدیک غیر متنازعہ اور بابرکت شخصیت ہیں-آپ ؒ نے خاندان کے کچھ لوگوں کو وہاں فرائض بھی سونپے اور خصوصاً یہ ڈیوٹی کہ سلطان باھو ؒ کی تعلیمات پر ریسرچ،اشاعت اور ترویج کا اہتمام کیا جائے ،یہ کونسل آپ ؒ نے وصال مبارک سے دو ماہ پہلے بنائی تھی (خانوادۂ حضرت سلطان باھو ؒ کی موجودہ حضرت سلطان باھوؒ کونسل آپ ؒ کی تشکیل کردہ کونسل ہی کا تسلسل ہے اور آپ ؒ کی اس عظیم کاوش کے اعتراف کے طور پر موجودہ کونسل کے آئین میں اِس کونسل کو آپؒ کی قائم کردہ کونسل کا تسلسل قرار دیا گیا ہے‘‘- [36]

ظہورِسُلطان الفقرؒاور قیام پاکستان:

یہ قدرت کا حسین اتفاق ہے کہ جس دن سلطنت مدینہ کے بعد دنیا میں دوسری اسلامی ریاست کلمہ طیبہ ’’لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ ‘‘ کی بنیاد پہ معرض وجود میں آرہی تھی اسی دن 14 اگست 1947ء کو بمطابق 27 رمضان المبارک بروز جمعۃ المبارک سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو صاحب ؒ کی نویں پشت میں سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی صاحب  کی ولادت باسعادت ہوئی-دراصل قدرت ایسے اتفاقات اس لیے ظاہر فرماتی ہے تاکہ لوگوں کے سامنے اس چیز کو واضح کیا جائے کہ محض حادثہ نہیں بلکہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے -

قبل از وصال مبارک تیاری :

اللہ عزوجل اپنے محبوبین اور مقرّبین پہ جہاں دیگر کئی اسرار و رموز سے پردہ اٹھا دیتا ہے وہاں موت کے احوال بھی ان سے مخفی نہیں رکھتا اور وہ اس چیز کا اظہار اپنے حلقۂ احباب میں فرمابھی دیتے ہیں دراصل یہ میرے کریم آقا ،رؤف رحیم آقا (ﷺ) کی سنت مبارک بھی ہے جیسا کہ خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پہ سیدی رسول اللہ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا:اللہ کی قسم ! مجھے نہیں معلوم شاید میں تم سے اس مقام پہ اس کے بعد نہ مل سکوں-

حضور سلطان الفقر  ؒکی حیات مبارک میں بھی ہمیں سیدی رسول اللہ (ﷺ) کی یہ سنت مبارک کا عکس جمیل نظر آتا ہے جیسا کہ جانشین سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس) فرماتے ہیں کہ:

’’حضور 23دسمبر(2003ء)کو فضل کریم کنڈی کے گھر تشریف فرما تھے،ان سے حضور کو بہت محبت تھی،آپ ؒ نےاِ ن سے فرمایا کہ آپ کے بیٹے فیصل خان کنڈی کوالیکشن لڑانا ہے، اگر زندگی رہی تو ہم خود آئیں گے نہ رہے تو ہمارے بیٹے آئیں گے-[37] مزید یادیں فرماتے ہوئے آپ (مدظلہ الاقدس) ارشاد فرماتے کہ آپ ؒ نے آخری وقت تک ہمیں احساس تک نہیں ہونے دیا کہ حضور تیاری فرما رہے ہیں، آپؒ نے 1999ء سے مجھے اپنے ساتھ رکھنا شروع فرما دیا تھا اور روحانی تربیت فرماتے رہے، اس کے بعد آپ ؒ نے مجھے ’’اصلاحی جماعت‘‘ اور ’’عالمی تنظیم العارفین‘‘ کی خدمت پہ مامور فرمایا اور اپنی زندگی مبارک میں ہی ہماری تربیت فرما دی تھی ‘‘-[38]

اسی طرح جانشین سلطان الفقر ،حضرت سخی سلطان محمد علی صاحب مد ظلہ الاقدس ارشاد فرماتے ہیں کہ آپ ؒ نے آخری رات گھر فون فرمایا کہ ہم صبح (10) دس بجے (گھر)پہنچ جائیں گے اور ہمیں فرمایا کہ فضل کریم کے آتے ہی فوراً چل دینا ہے حالانکہ کوئی پروگرام نہیں تھا-لیکن آپ ؒ پروگرام طے فرماچکے تھے اور لفظ بہ لفظ اس پر عمل ہوا-[39]

صاحبزادہ حضرت سخی سلطان احمدعلی زید مجدہ نے اپنے والد گرامی سلطان الفقرششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی صاحب ؒکے آخری ایام کی یادیں تازہ کرتے ہوئے فرما یا:

’’حضور سے میری آخری ملاقات (وصال مبارک سے) تقریباً 15 دن پہلے ہوئی،میں چکوال میں تعلیم حاصل کر رہا تھا اور چھٹی گھر پہ آیا ہواتھا،حضور ملتان تشریف لے جارہے تھے، اسی روز ہمیں ارشاد فرمایا: ’’آج مجھے رَج کے(خوب) مِل لو‘‘-مزید آپ مدظلہ الاقدس نے فرمایا کہ مجھے یاد آیا کہ ایک روز اوچھالی میں حضور نے فرمایا:احمدعلی! آپ کے دادا سائیں بلا رہے ہیں‘‘-

اسی ضمن میں آپ مدظلہ الاقدس نے ایک اور واقعہ بیان فرمایا کہ:

’’ہمارے ہاں ایک روایت ہے کہ عید کے روز ہم ایک دوسرے کے گھر عید ملنے جاتے تھے،عموماً حضور ہم دونوں بھائیوں کو بھیج دیا کرتے تھے لیکن آپ ؒ آخری عید پر خود فردا ً فرداً سب سے ملے ایسا پہلی بارہوا تھا‘‘- [40]

اسی طرح وصال مبارک کی یادیں تازہ کرتے ہوئے آپ ؒ کے خدمت پہ مامور خادم غلام باھو نے بتایا کہ شام کے وقت حضور جانشین سلطان الفقر  حضرت سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس) کے ساتھ گفتگو فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’بیٹا!میں نے اپنے مرشد پاک کی ہرسنت پوری کی ہے ایک ہسپتال والی سنت رہتی تھی، وہ بھی آج پوری کر رہا ہوں‘‘-[41]

خالد صاحب (1994ء میں شرف ِ بیعت نصیب ہوااور حضور کی خدمت پہ مامور تھے )بیان کرتے ہیں کہ:

’’مرشد کریم ایک روز فرمانے لگے کہ میرےوالد مُرشد نے اپنے وصال سے دوسال پہلے مریدین کو مطلع فرما دیا تھا،اس پہ ہم دکھی ہوگئے لیکن آپؒ نے ہمیں مطمئن فرما دیا‘‘- [42]

قاری نصراللہ صاحب (جنہیں 1982ء کو شرف بیعت حاصل ہوا اور حضور سلطان الفقر  ؒ کے قریبی خدمت گار تھے )بیان فرماتے ہیں کہ :

’’26دسمبر کو ہم مرشد کریم ؒ کو ہسپتال لے گئے، ہسپتال پہنچے تو حضور نے سب سے پہلے نما ز کی تلقین فرمائی اور فرمایا کہ جلدی کرو نماز ادا کریں، ہم نے جائے نماز بچھا دی، حضور مرشد کریم ؒ نے بڑی تکلیف کی حالت میں بڑے پرسُکون انداز سے نماز ادا فرمائی اور ہم نے سہار ا دے کر پلنگ پر لٹا دیا، اس مرحلے پہ آپ ؒ نے اچانک ہماری طرف رخ مبارک کیا اور ارشاد فرمایا: میرے مرشد حضرت سُلطان محمد عبد العزیز ؒپر جب وقتِ نزع آیا تو آپ ؒ نے مجھے فرمایا کہ مجھے اسم ِ اللہ ذات کا نظارہ کرواؤ اور میں نے آپ کو اسم ِ اللہ ذات دکھایاتھا،نصراللہ صاحب آپ مجھے اسم ِ اللہ ذات کی زیارت کرواؤ-میں نے آپ کو اسم اللہ ذات کی زیارت کروائی،آپ ؒ نگاہیں جمائے مستغرق رہے- 26دسمبر کی صبح تقریباً پونے پانچ بجے (وصال مبارک سے چند لمحے پہلے) آپ ؒنے ہماری طرف دیکھ کر ارشادفرمایا:میں نے 10 بجے غسل کرنا ہے، پانی گرم ہوناچاہیے اور میرے لئے وہ کپڑے تیار رکھنا جو ا س سے پہلے میں نے کبھی نہ پہنے ہوں-اس وقت ہمارا دھیان اس طر ف گیا ہی نہیں (کہ یہ تو آپ ؒ کفن کی طرف اشارہ فرما رہے  ہیں )‘‘- [43]

امانتِ فقر کی منتقلی وجانشینی :

14 اپریل 2003ء کو اپنے وصال مبارک سے آٹھ ماہ اور کچھ دن پہلے اپنے بڑے فرزند حضرت سُلطان محمد علی صاحب مدظلہ الاقدس کو سُلطان العارفین حضرت سخی سُلطان باھو ؒ کے مزار مبارک پر دستار بندی فرما کر خلافتِ عظمیٰ عطا فرمائی- اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کی سرپرستی، مسجدپاک کی تعمیر، لنگر شریف کا اہتمام، درس گاہ کا نظام اور گھوڑوں کی سرپرستی کا حکم ارشاد فرما کر پوری نظامت خلافت آپ کے سپرد فرمادی تھی - [44]

حضور سلطان الفقر  ؒ نے اپنی حیات مبارک میں کئی مرتبہ اپنی زبان مبارک سے خزانہ ِ فقر کا اپنے لختِ جگر صاحبز ادہ سلطان محمدعلی صاحب (مدظلہ الاقد س) کے سپرد کرنے کا اظہار فرمایا جیساکہ جانشین ِ سلطان الفقر (مدظلہ الاقدس) بیان فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپ ؒ نے پیر بہادرعلی شاہ ؒ کے مزارمبارک پر مجھے، سُلطان احمد علی صاحب ،فتح محمد صاحب اور معروف سُلطان صاحب کو بیعت فرمایا تھایہ شاید 1998ء کے آغاز کی بات ہے-آپ ؒ نے ہم چاروں بھائیوں کو دستار پہنائی اور ارشاد فرمایا:

’’جو دستا رمیرے حضورپاک نے میرے سر پررکھی تھی وہ مّیں نے اپنے صاحبزادے سُلطان محمدعلی صاحب کے سَر پہ رکھی ہے ‘‘-[45]

امانت ِ فقر کی منتقلی اور جانشینی کے واقعہ کو تفصیلاً بیان کرتے ہوئے،حضور سُلطان الفقرششم ؒ کے دیرینہ خادم صوفی      اللہ  دتہ صاحب اپنے الفاظ میں یوں بیان فرماتے ہیں:

’’دربار سُلطان العارفین ؒ پہ ترتیب مبارک ہے کہ وہاں 12-13 اپریل کو اصلاحی جماعت کے زیرِ اہتمام سالانہ مرکزی اجتماع بسلسلہ میلادِ مصطفٰے (ﷺ)   وحق باھوؒ منعقد کیا جاتا ہے-دستارِفقر کی منتقلی کا واقعہ 12-13 اپریل کے فوری بعد پیش آیا، مجھے یاد ہے کہ حاجی محمد نواز صاحب،قبلہ نیازی صاحب، عنایت اللہ قادری صاحب اور ناچیز ہم محل شریف میں جمع ہوئے بانی اصلاحی جماعت حضرت سخی سُلطان محمد اصغر علی ؒ نے جب جانشین سُلطان الفقر حضرت سخی سُلطان محمدعلی (مدظلہ الاقدس) کو بیعت فرمایا تو مَیں آپ ؒ کے دائیں طرف کھڑا تھا اور آپ ؒ کا رُخ ِ انور ہماری طرف تھا، آپ ؒ نے ارشاد فرمایا کہ میر ے مُرشد کریم آقا دوجہاں،رسول اللہ (ﷺ) کی بارگاہ مبارک سے فقرکاخزانہ مجھ تک پہنچا ہے مَیں نے وہی دستار (خزانہ) حضرت سُلطان محمد علی کو عطا کر دیا ہے اورفقرِ محمدی (ﷺ) کی دستار مبارک ان کے سر مبارک پہ رکھ دی ہے-آج کے بعد جماعت پاک، تنظیم، گھوڑوں پاک اور دربار پاک کے جتنے بھی معاملات ہیں سب کے وارث ’’سُلطان محمد علی صاحب ‘‘ ہیں ‘‘- [46]

مزید ارشادفرماتے ہیں کہ:

’’سُلطان الفقرششم ؒکے وصال مبارک کے بعد میں پریشان رہتا اور آپ ؒ کے لطف وکرم کو یاد کر کے روتارہتاتو آپ ؒ میر ی بیٹی کے خواب میں تشریف لائے اور ارشاد فرمایا کہ اے میر ی بیٹی! صوفی صاحب سے کہو کہ کیوں روتے ہو؟جب سُلطان محمد علی صاحب جیسا مُرشد سامنے بیٹھا ہو تو کس بات کاغم ہے؟صوفی صاحب سے کہو وہ جلو ہ نور ہیں اور(نور) دنیا میں ہزاروں اولیاء اللہ میں ایک پیشانی میں چمکتاہے جب ایک جاتا ہے تو دوسرے بندے کا انتخاب ہو جاتا ہے‘‘-[47]

خلاصہ کلام:

حضور سلطان الفقر  حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی صاحب ؒ نے جس وقت عملی میدان میں قدم رنجہ فرمایا اس وقت لوگوں کی اکثریت حقیقت سے دور اور افراط و تفریط کا شکار تھی،غیر تو غیر اپنے بھی تصوف سے شاکی نظر آتے تھے، آپ ؒ کی نگاہ ِ شفقت، شبانہ روز کاوشوں اور کمال حکمت عملی کی بدولت تصوف کو نہ صرف پبلک محافل میں ڈسکس کیے جانے لگا، آپ ؒ نے شاعرِمشرق کی اس فکر ’’نکل کر خانقاہوں سے اداکررسمِ شبیریؓ‘‘ کوعملی جامہ پہناتے ہوئے 1987ء میں اصلاحی جماعت کی بنیاد رکھی- اس وقت لوگوں کے ذہنوں میں یہ تصور راسخ تھاکہ شریعت کی بات تو ہرکوئی سمجھ سکتاہے لیکن طریقت صرف اولیاء اللہ کا کام ہے اورسلک سلوک کی منازل کے بارے میں عام بندہ صرف سوچ ہی سکتاہے، حتی کہ علماء کرام کی زبانی سے یہ باتیں سنی گئیں کہ ’’حضرت صاحب جو باتیں عام لوگوں کو بتا رہے ہیں،ان تک پہنچنے کیلئے کافی محنت درکارہوتی ہے اوریہ باتیں توعوام کی سوچ سے ماورٰی ہیں‘‘-لیکن آپ ؒ نے بڑے احسن اورسہل انداز میں بیک وقت عام آدمی کو شریعت و طریقت سے جس طرح روشناس کروایاوہ اپنی مثال آپ ہے اور یہ سنت ِ مصطفٰے (ﷺ) بھی ہے کہ آپ (ﷺ) نے بیک وقت عام آدمی کو شریعت، طریقت، معرفت و حقیقت سے روشناس کروایا-

آپ ؒ نے اپنی صحبت میں بیٹھنے والوں کی اپنی نگاہِ فقر سے تربیت فرما کر ان کو دنیا کے کونے کونے میں بھیجا تاکہ وہ لوگوں کو ’’ففروا الی اللہ‘‘کا درس دیں- نوعِ انسانی کو حضور رسالت مآب (ﷺ) کا دیا ہوا پیغام یاد دلایا اور بالخصوص اپنی صحبت میں بیٹھنے کاشرف حاصل کرنے والوں پہ یہ واضح کیا کہ تیری ذات امانتِ الہیہ کی حامل ہے - تو اگر اپنی حقیقت کو جان کر اپنے مقام کو پالے تو تجھے معلوم ہوگا کہ تیری عظمت وحرمت کعبہ سے افضل ہے،تیری تخلیق ’’لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ‘‘[48]کے مرتبہ پر ہوئی اور باوجود اس کے کہ تو اپنے وجودکے اعتبارسے محدود ہے لیکن اللہ پاک نے تیرے اندر صحراؤں کی وسعت رکھی ہے-

آپ ؒ نے جہاں دربار گوہر بار اورضلعی سطح پہ محافل میلادِ مصطفٰے (ﷺ) کا انعقاد عمل میں لایاوہاں گھرگھر بھی اس مقدس نام سے ملقب محافل کا سلسلہ شروع فرمایا، آپ ؒ ہمیشہ اس بات پر زور دیتے کہ اصلاح اپنی ذات سے شروع کی جائے اور ہر انسان پہلے اپنے آپ پر قرآن و سنت کا نفاذ کرکے ’’اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً‘‘[49]کا عملی مظہر بنے پھر دوسروں کو اس کی تبلیغ کر ے-آپ ؒ عالمگیر امن کے داعی تھے اور ہمیشہ تفرقہ بازی سے گریز کا درس دیا کرتے تھے-آپؒ  ملت کے افرادمیں اتحادویگانگت پید افرماکر ان کو جسدِ واحدکی مانند دیکھنا چاہتے تھے-آپ ؒ کی زندگی مبارک کا لمحہ لمحہ ’’قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِين‘‘ [50]کا عملی مصداق تھا-

یہ ایک حقیقت ہے کہ اتنے بڑے چیلنجز کا مقابلہ نباض ِ عصر ہی کرسکتاہے جو وقت کی آندھیوں کے مزاج سے بھی شناساہو اوران کا تریاق بھی جانتاہو-آپ ؒ نے جس منہج پہ عوام الناس کی تربیت فرمائی یہ وہی منہج تھا جس پہ غوث الاعظم پیران پیر دستگیرسیدنا شیخ عبد القادر جیلانیؓ اور سلطان العارفین حضرت سلطان باھو ؒ نے تربیت فرمائی اور آج ملک وقوم کی بقا اسی میں ہے کہ وہ آپ ؒ کے منہج کو سمجھے اور اس پہ عمل پیراہو-

٭٭٭


[1] سلطان حامد،زبدۃ العارفین ،مناقب سلطانی لاہور،(الناشر،شبیربرادرز،2007ء) ص:16

[2]مرآۃ العارفین انٹرنیشنل،ماہنامہ ( لاھور ،العارفین پبلیکیشنز، نومبر، 2008ء)، ص:17

[3]مرآۃ العارفین،اپریل،2010ء،ص:19

[4]مرآۃ العارفین،اکتوبر،2015ء،ص:15-16

[5]مرآۃ العارفین ،اکتوبر،2015ء،ص:16

[6]مرآۃ العارفین ،اکتوبر،2009ء،ص:12

[7]مرآۃ العارفین،اکتوبر،2015ء،ص:16۔17

[8]مرآۃ العارفین،اگست،2014ء،ص:44

[9]احمد بن محمد بن حنبل ، مسند الإمام أحمد بن حنبل (بیروت، مؤسسة الرسالة،1421ھ) رقم الحدیث: 27599،ج:45،ص:575

[10]مرآۃ العارفین ،اکتوبر،2012ء،ص:11-12

[11]مرآۃ العارفین ،دسمبر،2020ء،ص:19

[12]مرآۃ العارفین ،اکتوبر،2015ء،ص:26

[13]مرآۃ العارفین،اگست،2021ء،ص:39

[14]مرآۃ العارفین ،اکتوبر،2012ء،ص:17

[15]مرآۃ العارفین ،اکتوبر،2013ء)،ص:20

[16]مرآۃ العارفین ،اکتوبر،2013ء)،ص:19

[17]مرآۃ العارفین ،اکتوبر،2013ء)،ص:18-19

[18]البخاری،محمدبن اسماعیل، الجامع الصحیح،ایڈیشن اولی،(دار:طوق النجاة۔1422ھ) كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ،ج 04،ص:28

[19]مرآۃ العارفین،اکتوبر،2012ء،ص:7، 9

[20]ساگر، طارق اسماعیل، صاحب لولاک، ایڈیشن پنجم (لاہور،العارفین پبلی کیشنز، 2016ء)، ص:86

[21]مرآۃ العارفین،اکتوبر،2012ء،ص:8

[22]صاحب لولاک،ص:89

[23]مرآۃ العارفین،اکتوبر،2012ء،ص:8

[24]صاحب لولاک ،ص:86۔87

[25](حوالہ)

[26]مرآۃ العارفین،اکتوبر،2018ء،ص:10

[27]صاحب لولاک،ص:258-259

[28]المائدہ :02

[29]صاحب لولاک،ص:259-260

[30]مرآۃ العارفین،اگست،2016ء،ص:26-27

[31]مرآۃ العارفین،اکتوبر،2012ء،ص:18-19

[32]مرآۃ العارفین،اکتوبر،2009ء،ص:13-14

[33]مرآۃ العارفین ،اکتوبر،2017ء،ص:19

[34]الرازي،محمد بن عمرؒ،مفاتيح الغيب،ایڈیشن:سوم( بيروت:دار إحياء التراث العربي، 1420ه) ج:21،ص:435

[35]مرآۃ العارفین،اکتوبر،2012ء،ص:39

[36]مرآۃ العارفین،اکتوبر،2012ء،ص:38

[37]صاحب لولاک ،ص:265

[38]صاحب لولاک ،ص:266۔267

[39]مرآۃ العارفین،اکتوبر،2012ء،ص:39

[40]مرآۃ العارفین،اکتوبر،2012ء،ص:37-38-39

[41]مرآۃ العارفین ،دسمبر 2013ء،ص:37

[42]صاحب لولاک،ص:270

[43] صاحب لولاک،ص:268۔269

[44]مرآۃ العارفین ،اگست،2012ء،ص:21

[45]صاحبِ لولاک، ص:266

[46]مرآۃ العارفین ،اکتوبر،2019ء،ص:17

[47]مرآۃ العارفین ،اکتوبر،2019ء،ص:17

[48]التین:4

[49]البقرۃ:208

[50]الانعام:162

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر