فتوح الغیب میں قرآنی مباحث کا مختصر مطالعہ

فتوح الغیب میں قرآنی مباحث کا مختصر مطالعہ

فتوح الغیب میں قرآنی مباحث کا مختصر مطالعہ

مصنف: مفتی محمد منظور حسین مارچ 2024

اولیائے کاملین ہی آقا دو عالم (ﷺ) کی میراث کے حقیقی وارث ہیں کیونکہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے اپنی میراث میں دو چیزوں کو چھوڑا ایک کا تعلق ظاہر سے ہے اور ایک کا تعلق باطن سے ہے-

جس طرح ’’صحیح بخاری‘‘کی روایت ہے:

’’عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ اللهِ (ﷺ) وِعَائَ يْنِ فَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَبَثَثْتُهُ وَأَمَّا الْآخَرُ فَلَوْ بَثَثْتُهُ قُطِعَ هَذَا الْبُلْعُومُ ‘‘[1]

’’حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) سے (علم کے) دو برتن یاد کرلیے ہیں، ایک کو میں نے پھیلا دیا ہے اور دوسرا برتن اگر میں پھیلاؤں تو میرا یہ حلقوم کاٹ دیا جاتا‘‘-

اسی حدیث پاک کے تحت علامہ بدر الدین عینی ’’عمدة القارى شرح صحیح البخاری ‘‘میں لکھتے ہیں:

’’پہلے برتن سے مراد احکام اور اخلاق کا علم ہے اور دوسرے برتن سے مراد اسرار و رموز کا علم ہے‘‘-

 اولیائے کاملین کے پاس حضورنبی کریم (ﷺ) کا علم ظاہر اور باطن، شریعت وطریقت اور فقر وعرفان بھی ہے- یہ بات ذہن میں رہے کہ شریعت ابتدا ہے اور طریقت انتہا ہے اور شریعت مطہرہ کی پابندی کے بغیر انسان معرفت و حقیقت میں درجہ کمال حاصل نہیں کرسکتا- انہی نفوس قدسیہ میں امتیازی شان کے مالک پیران پیر دستگیرمحی الدین سیدی شیخ عبدالقادر جیلانی محبوب سبحانی قطب ربانی شہباز لا مکانی الحسنی والحسینی البغدادیؒ کی ذات اقدس نمایاں ہے-

آپؒ نے بھولی بھٹکی انسانیت کی رشد و ہدایت کے لیے بہت سی کتب تصنیف فرمائی ہیں-یوں تو آپ نے ہر کتاب مبارک میں قرآن و سنت کی تفسیر وتشریح فرمائی اور ہر تصنیف مبارک کو قرآن وسنت کے زیور سے مزین فرمایا- اس کے باوجودقرآن کریم کی دو تفاسیرکو مرتب فرمایا زیر نظر مضمون میں آپ کی مایہ ناز تصنیف لطیف فتوح الغیب شریف کا اجمالی تذکرہ کیا گیاہے-

فتوح الغیب شریف کاتعارف:

آپؒ کی کتاب مبارک فتوح الغیب بہت ہی لاجواب و بےمثال کتاب مبارک ہے -جس سے قدیم و جدید بلکہ ہر دور کے علماء کرام نے اکتساب فیض کیا-بطور خاص شیخ محقق شاہ عبدالحق محدث دہلویؒ ،شیخ عطاءاللہ بتلادی،حتی کہ تصوف کے ناقدین نےبھی اس کی شرح لکھی- جو اس کتاب مبارکہ کے علمی مقام کو ظاہر کرتی ہے- فتوح الغیب یہ علم تصوف و معرفت کے حقائق و معارف پر معرکۃ الاراء کتاب ہے- بنیادی طور پر یہ کتاب مبارک طالبان مولی اور سالکان طریقت اور حق کے متلاشی کیلئے مشعل راہ ہے اورمرشد کامل کے اوصاف سے مزین اور لبریز ہے کیونکہ مرشد کامل کا فریضہ بھی یہی ہوتا ہے کہ وہ طالب صادق کو مخلوق سے نکال کر خالق حقیقی سے واصل کرتا ہے اور ماسوی اللہ سے بیزار کرتا ہے-لیکن یہ بات واضح رہے کہ کوئی انسان بھی از خود اس مقام کو نہیں حاصل کر سکتا جب تک ’’وَابْتَغُوْٓا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ‘‘اور ’’کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ‘‘ کو عملی جامہ پہناتے ہوئے کسی مرد کامل اور مرد خود آگاہ سےرہنمائی حاصل نہ کر لے -

فتوح الغیب شریف میں کل 81 مقالہ جات ذکر کئے گئے ہیں -ایک مقدمہ اور 78 مقالہ جات اس کتاب مبارک کے اصل ہے اور 3 مقالہ جات آپؒ کے صاحبزادے نے آپؒ کی وفات کے احوال میں ذکر کئے ہیں -

ہر مقالہ معرفت و حقیقت کا آئینہ دار ہے- یاد رہے کہ صوفیاء کرام نے کوئی استغراقی یا الحاقی چیزیں ذکر نہیں فرمائیں بلکہ اپنے مؤقف کو قرآن و سنت سے ثابت کیا ہے-جیسا کہ آپ نے ان 81مقالات میں کم وپیش 147 آیات بینات اور 54 احادیث مبارکہ کو بطور استدلال پیش فرمایا اور 2 حدیث قدسیہ اور 5 خطابات اللہ تعالیٰ نے فرمائے دو مقام پر حضرت داؤد (علیہ السلام) سے اور تین مقام پر اولادِ آدم سے فرمائے جو آسمانی کتب میں ذکر ہیں اور 7 حکایات ذکر فرمائیں- اگر آپ اس کتاب مبارک کا بغور مطالعہ فرمائیں تو اس میں موجود مقالات کے عنوان بھی قرآن و سنت سے ماخوذ ہیں -مثلاً ’’التواصی بالخیر، فی الابتلاء، فی النھی عن حب المال، التسلیم لامر اللہ، فی الخوف و الرجاء، فی التوکل،دع ما یریبک الی مالا یریبک،البغض فی اللہ، فی ذم الحسد، فی الصدق والنصیحہ، من شغلہ ذکری،فی التقرب الی اللہ تعالی، فی الزھد، فی عدم المنازعۃ فی القدر،فی قولہ تعالی کل یوم ھو فی شان‘‘ وغیرہ -

ان مقالات کے عنوان سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپ نے طالب و سالک کی تربیت کیلئے جس نصاب کا انتخاب فرمایا وہ بے مثال و لاجواب ہے- جوبھی اسے عملی جامہ پہنائے گا وہ یقیناً قرب و حضوری کی منازل کو پائے گا-

آئیے!اس کا مختصر جائزہ لیتے ہیں اور قرآن پاک کا مطالعہ اولیاء کاملین کی تعلیمات کی روشنی میں کرتے ہیں -

ایک مؤقف پر متعدد آیات کریمہ:

جیساکہ آپؒ فرماتے ہیں کہ اگر تجھ پر مصائب و آلام اور آزمائشوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں اور تیرے گوشت کو قینچیوں سے ٹکڑے ٹکڑے بھی کر دیا جائے تو اسے کسی کے سامنے بیان نہ کر، اپنے آپ کو بچا، اللہ سے ڈر، شکایت سے پرہیز کر کیونکہ مصیبتوں میں سے اکثر مصائب و آلام اولاد آدم پر اپنے پروردگار کی شکایت کی وجہ سے نازل کی جاتی ہیں-کس طرح تو اس ذات اقدس کی شکایت کرتا ہے جب کہ وہ ذات اقدس رحیم و کریم ہےاس نے اپنے بارے میں قرآن کریم میں متعدد مقامات پرذکرفرمایا :

’’وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِيْنَ ‘‘[2]

’’اور وہ سب مہربانوں سے بڑھ کر مہربان ہے‘‘-

’’خَيْرُ الْحَاكِمِيْنَ ‘‘[3]

’’اور اللہ کا فیصلہ سب سے بہتر ہے ‘‘-

’’حَكِيْمٍ خَبِيْرٍ ‘‘[4]

’’حکمت والے خبردار کی طرف سے‘‘-

’’رَءُوْفٌ رَحِيْمٌ ‘‘[5]

’’مہربان  اور نہایت رحم فرمانے والا‘‘-

’’اَللهُ لَطِيْفٌ بِعِبَادِهِ‘‘[6]

 ’’اللہ اپنے بندوں پر لطف فرماتا ہے‘‘-

’’لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيْدِ‘‘[7]

’’اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا‘‘-

ایک آیت سے مختلف جہتیں اور مفاہیم:

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’کَذٰلِکَ لِنَصْرِفَ عَنْہُ السُّوْٓءَ وَالْفَحْشَآءَ ط اِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ‘‘ [8]

’’ہم نے یوں ہی کیا کہ اس سے برائی اور بے حیائی کو پھیر دیں بیشک وہ ہمارے چُنے ہوئے بندوں میں ہے‘‘-

اس آیت مبارکہ کو آپؒ نے 5 مختلف عنوانات کے تحت ذکر فرما کر مختلف نتائج اخذ فرمائے -

1:نفس کی ملکیت سے آزادی

 جب سالک شیخ کامل کے حکم پر اپنے دل کو خواہشات سے، نفس کے ارادے سے شہوت سے اور  غضب سے پاک کر لیتا ہے اور دل کے دروازے پر دربان بن کر بیٹھ جاتا ہے اور کسی بھی قسم کی نفسانی خواہش کو دل میں کھٹکنے نہیں دیتا تو اس وقت ’’ کَذٰلِکَ لِنَصْرِفَ عَنْہُ السُّوْٓءَ وَالْفَحْشَآءَ ‘‘ کی عملی تفسیر کا اظہار دو طرح کے ہتھیاروں سے وجود میں آتا ہے ’’اعطیت سیف التوحید و مطالعۃ العظمۃ و الجبر و تعظمت و جبروت‘‘  یعنی سالک کو صفات جلال کا مظہر بنا دیا جاتا ہے اور توحید باری تعالیٰ کی تلوار عطا کر دی جاتی ہے جس سے برائی اور فحاشی کا قلع قمع ہوجاتا ہے اور سالک شیخ کی صحبت و تربیت سے اللہ تعالیٰ کے خالص بندوں میں شامل ہوجاتا ہے-

 2: خیر کو اختیار کرنا اور شر سے اجتناب کرنا

خیر اور شر ایک درخت کی دو شاخیں ہیں ایک ٹہنی میٹھا پھل رکھتی ہے اور دوسری کڑوا -پس سالک کو چاہئے کہ وہ نافرمانی کو ترک کرے اور کڑوے پھل والی شاخ کو اپنا مقدر نہ بنائے کہ کہیں اس کی کڑواہٹ اسے ہلاک نہ کردے بلکہ شاخِ خیر سے اپنے لیے رزق کو تلاش کرے جس سے ایمان کو تقویت اور یقین کو کمال نصیب ہوگا -خیر کی شاخ اور ٹہنی سے منسلک رہنے کیلئے لازم ہے کہ اوامر کو بجالائے نواہی سے اجتناب کرے اور تقدیر کو تسلیم کرے - تو اس سے توفیق خداوندی شامل حال ہوگی جیسا کہ آپ نے فرمایا : ’’حماک من شرہ و تفضل علیک بخیرہ و حماک عن الاسواء جمیعھا‘‘ دنیا و دینا- اللہ تعالیٰ ہر قسم کے شر سے تیری حفاظت فرمائے گا اور تجھے خیر کی خیرات سے فضیلت بخشے گا بلکہ دین و دنیا میں ہر آزمائش سے تجھے محفوظ فرمائے گا -

3:حدود اللہ کی پاسداری اور رضائے الٰہی پر راضی رہنا

یاد رہے سالک جب راہ طریقت کو اختیار کرتا ہے تو اسے دو طرح کے مقامات سے گزرنا پڑتا ہے -ایک آزمائش سے جسے صوفیائے کرام ’’قبض‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں اور دوسرا کشادگی ،نعمتوں کی فراخی اور ہر سوال پہ عطا کیا جانا جسے ’’بسط‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں - جان لے حدود اللہ کی پاسداری اور رضائے الہی کے حصول کے لئے انسان جب ہر حال میں کوشاں رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر اپنے فضل و کرم کو کشادہ فرمادیتا ہے مراتب بہ مراتب بندے کو اپنے قرب اور مشاہدہ کی توفیق عطا فرماتا ہے جیسے مراقبہ، قرب، محبت، رجاء، خوف، حیاء، انس، طمانینت،یقین اور پھر مشاہدہ کی منازل تک رسائی عطا فرماتا ہے ، اپنے دوستوں کو شریعت اور دین میں ہر قسم کے نقص اور قبح سے محفوظ فرمادیتا ہے ، ہر قسم کی برائی اور شر کو اس سے پھیر دیتا ہے -

4: ذکر اللہ پر مداومت

جب سالک اپنے ظاہر و باطن کو ذکر اللہ اور طاعت و عبادت میں مشغول کر لیتا ہے یہاں تک کہ شب و روز ، سفر و حضر ،حرکت و سکون، تنگی و کشادگی، صحت و بیماری بلکہ ہر حال میں ذکر اللہ کو اپنے لئے اوڑھنا بچھونا اور شعار بنا لیتا ہے تو اس وقت توفیق الٰہی معین و ممد ہوجاتی ہے-

5: مومن کیلئے کسی بھی چیز کو لینے میں توقف اور تحقیق کرنا :

مومن مسلمان کسی بھی چیز کو لینے اور اختیار کرنے سے پہلے توقف کرتا ہے جو دل میں کھٹکے اور شریعت نے اس سے منع کیا ہو اس کو ترک کردیتا ہے- حدیث پاک میں بھی ہے :

’’ مومن تحقیق کرنے والا اور منافق جلدی لینے والا ہوتا ہے‘‘-

مومن ہر قسم کی اشیاء چاہے وہ کھانے پینے سے متعلق ہوں، یا  لباس و رہائش سے متعلق ہوں اس وقت تک توقف کرتا ہے جب تک شریعت اس کے جواز کا حکم نہ کرے اور حالت تقوی میں بعض اوقات اپنے حصے کی چیز کو بھی ترک کردیتا ہے اور حالت ِ فنائیت کو ترجیح دیتا ہے -یہی وہ مقام ہے جہاں پر وہ ہر قسم کی آفات و بلیات اور شرور سے محفوظ ہو جاتا ہے -

 فقراء اور صوفیاء کرام کا یہ خاصہ ہے کی وہ اپنی ہستی کی نہیں خدا کی بات کرتے ہیں اور اپنی معیت و رفاقت میں آنے والوں کو اسی بات کا درس دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ حضور غوث الاعظم ؒ نے ’’فتوح الغیب‘‘ کے ابتدائی مقالات میں فناءکے مراتب ذکر فرمائے-

1: مخلوق سے فنا کے مراتب :

اس درس مبارک میں آپ نے بنیادی طور پر فنا کے 3 مراتب اور اس کی علامات کو ذکر فرمایا جو درج ذیل ہیں :

آپ ؒ فنائیت کا پہلا مرتبہ یوں بیان فرماتے ہیں کہ :

’’اذن الٰہی کے تحت مخلوق سے الگ تھلگ ہوجا‘‘-

’’مخلوق سےفنائیت اور الگ ہونے کی دلیل تیرے پاس یہ ہو کہ جو کچھ ان کے پاس ہے اور جو کچھ ان کے ہاتھ یعنی تصرف میں ہے اس سے اپنے آپ کو مایوس کرلے (فقط خالق و مالک سے اپنی امید کو وابستہ رکھ)‘‘ -

آپؒ فرماتے ہیں کہ  فنائیت کا دوسرا مرتبہ یہ ہے کہ :

’’اللہ تعالیٰ کے امر کے سبب اپنی خواہشات کو ختم کر لے‘‘-

’’اپنی خواہشات کے خاتمے کی علامت اور نشانی تیرے پاس یہ ہونی چاہیے کہ کمائی اور اسباب کے تمام ذرائع کو خاطر میں نہ لا، چاہے نفع کے حصول کیلئے ہوں یا نقصان کو دور کرنے کیلئے ہوں‘‘-

آپؒ فرماتے ہیں کہ  فنائیت کا تیسرا مرتبہ یہ ہے کہ :

’’اللہ تعالیٰ کے فعل کے سبب اپنے ارادہ کو اور اپنی چاہت کوفنا کردے-اور اس کی علامت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ارادہ مبارک کے ساتھ تیرا نہ کوئی ارادہ ہو نہ غرض نہ حاجت نہ مقصد بلکہ ہر حال میں اس کی رضا پر راضی رہے‘‘-

یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حکم فرمایا :

’’فَتَوَكَّلُوا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِيْنَ ‘‘[9]

’’ پس اللہ پر توکل کرو اگر تم ایمان والے ہو‘‘-

کیا حسنِ استدلال ہے جو انسانی زندگی کو مکمل احاطے میں لئے ہوئے ہے جس میں عمدہ تربیت،کبر وہوا کی نفی ،زہد وتقوٰی کی تلقین اور ترک و توکل کا درس موجود ہے -

یہ حقیقت عیاں ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) کی صفت مبارکہ ہے ماحی یعنی شرک کو مٹانے والے اور یہ بھی حقیقت سے کم نہیں کہ اولیاءاللہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی شریعت کی متابعت میں قرب خداوندی کی منازل کو طے کرتے ہیں اور فی الحقیقت ہر قسم کے شرک کو اپنے مرید و سالک کے وجود سے مٹا دیتے ہیں اور ایک خاص بات ہمیشہ ذہن نشین رہے کہ صوفیاء کرام شرک ظاہری کے ساتھ ساتھ انسان کے باطن میں شرک کے وہم تک بھی پیدا ہونے والے وسوسے کے خاتمے کا اہتمام فرماتے ہیں -

شرک جلی و خفی کی صوفیانہ وضاحت:

آپؒ فرماتے ہیں:

’’اپنے مَیں کے خول سے باہر اور اس سے علیحدہ ہو جا اور اپنی ملکیت کے ملک سے معزول ہو جا اور ہر ایک چیز کو اللہ تعالیٰ کےسپرد کر دے پس تو اپنے دل کے دروازے پر دربان بن جا اور وہ جس چیز کو داخل کرنے کا حکم دے اس کو اندر آنے دے اور جس چیز کو اندر داخل ہونے سے روکے اسے روک دے خواہشات کو دل سے نکل جانے کے بعد اسے داخل نہ ہونے دےکیونکہ فقط بتوں کی عبادت کرنا ہی شرک نہیں بلکہ خواہشات کی پیروی کرنابھی اہل نظرکے ہاں شرک جلی ہے‘‘-

آپؒ فرماتے ہیں کہ:

’’اپنے رب کے علاوہ غیر کو چاہےدنیاہو یا جو کچھ دنیا میں ہے اس کو اس کے مد مقابل سمجھنا شرک ہی کی قسم سے ہے جب انسان رب کےعلاوہ غیر کے آگے جھکا پس اس نے شرک کیا ‘‘-

اس نقطہ نظر پر آپؒ دلیل دیتے ہوئے چند آیات مبارکہ کو ذکر فرماتے ہیں- اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’فَمَنْ كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا ‘‘[10]

’’تو جسے اپنے رب سے ملنے کی امید ہو اسے چاہیے کہ نیک کام کرے اور اپنے رب کی بندگی میں کسی کو شریک نہ کرے ‘‘-

ایک اور مقام پر شرک کی وضاحت کرتے ہوئے آپؒ فرماتے ہیں کہ جب تو مخلوق سے اپنے بھروسے اور اعتماد کو اٹھا لے گا اورخود سے بھی جو امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں ان سے بھی توبہ کر لے گا تو شرک جلی اور خفی سے تجھے برأت مل جائے گئی اور تجھے اس کی طرف سے عزت و عظمت سے نوازہ جائے گا -آپؒ نے اس بات کے ضمن میں 3آیات مبارکہ بطور دلیل ذکر فرمائی ہیں :

’’وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَكَانُوا بِآَيَاتِنَا يُوقِنُونَ ‘‘[11]

’’اور ہم نے ان میں سے کچھ امام بنائےکہ ہمارے حکم سے بتاتے جب کہ انہوں نے صبر کیا اور وہ ہماری آیتوں پر یقین لاتے تھے‘‘-

’’وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا‘‘[12]

’’اور جنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ضرور ہم انہیں اپنے راستے دکھائیں گے‘‘-

’’وَاتَّقُوا اللهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللهُ ‘‘[13]

’’اوراللہ سے ڈرو اور اللہ تمہیں سکھاتا ہے‘‘-

صوفیاء کرام اور اولیاء کاملین درحقیقت قرآن کریم میں غوطہ زنی کے نتیجے میں خودکو قرآن پاک کے اسرارورموز سے مزین کیے ہوئے ہوتے ہیں تبھی تو وہ اپنی معیت ورفاقت میں آنے والوں کو اسی خدائی رنگ(صبغۃ اللہ)میں رنگتے ہیں جس کے حصول کے بعدبندہ اپنے مولی کے قرب و وصال کو پا لیتا ہے-

’’دع ما یریبک الی ما لا یریبک‘‘

اس مقالہ مبارک میں درحقیقت حدیث پاک کے دو پہلؤوں کو ذکر کیا گیا ہے:

1:’’ دع ما یریبک ‘‘کہ جو چیز تجھے شک میں ڈالے اس کو ترک کر دے- حدیث پاک کے پہلے حصے کی وضاحت فرماتے ہوئے حضور غوث پاکؒ فرماتے ہیں کہ :

’’ہر اس چیز کو چھوڑ دے جو مخلوق کے ہاتھوں میں ہے اور اپنے دل کو اس میں نہ لگا اور کسی صورت میں بھی مخلوق سے امید نہ رکھ اور نہ ہی ان سے خوف کھا کیونکہ ان دونوں چیزوں کا تعلق خالق سے ہے نہ کہ مخلوق سے‘‘-

2: ’’الی مالا یریبک‘‘ ہر اس چیز کو اختیار کر جو تجھے شک میں نہ ڈالے- اس کے متعلق آپ فرماتے ہیں کہ وہ کیا چیز ہے جو تجھے شک میں نہیں ڈالتی-فرمایا:

’’اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہر اس چیز کو پکڑ جو تجھے شک میں نہ ڈالے اور ہاں ایک بات کوہمیشہ یاد رکھنا کہ تیرے سوال پر عطا فرمانے والا بھی ایک ہی ہے اس کو پورا کرنے والی ذات بھی ایک ہی ہے اور تو ایک ذات پر امید رکھ اور اسی ایک سے ڈر اور وہی وحدہ لاشریک ذات موجود ہے اور وہی تیرا پروردگار ہے‘‘ -

یعنی آپ فرمارہے ہیں کہ مخلوق سے طلب کی بجائے خالق سے طلب کر کیونکہ فی الحقیقت عطا تو اسی کی طرف سے ہوتی ہے- اس بات کی وضاحت آسان پیرائے میں یوں فرماتے ہیں :

’’مخلوق کے دلوں پر اسی کا تصرف ہے اور انکے ہاتھ میں جو کچھ ہے وہ بھی اسی کا دیا ہوا ہے (واضح رہے جب آدمی کسی شخص سے دست سوال دراز کرتا ہے اور وہ شخص اسے جو کچھ دیتا ہے اس کے پیچھے کس ذات اقدس کی توفیق شامل حال ہوتی ہے) اس بندے کے ہاتھ کی حرکت دراصل اللہ تعالیٰ کے حکم واجازت سے ہے اور اس کا ہاتھ روکنا بھی اسی کی مرضی کے عین مطابق ہے‘‘-

اے انسان اس راز سے آگاہی حاصل کر لے کہ اس کے دروازے پر کیوں جاتا ہے جو دینے اور روکنے میں خود محتاج ہے اور اس کے در اقدس پے کیوں نہیں جاتا جو بن مانگے اتنا کچھ عطا کر چکا ہے جب تو اس کی بارگاہ اقدس سے طلب کرے گا تو وہ کس قدر بے حساب عطا فرمائے گا-

یہاں پر چھ آیات بینات کو ذکر فرمایا:

’’وَاسْأَلُوا اللهَ مِنْ فَضْلِهِ ‘‘[14]

’’اور اللہ سے اس کا فضل مانگو‘‘-

’’إِنَّ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللهِ لَا يَمْلِكُونَ لَكُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوا عِنْدَ اللهِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوهُ وَاشْكُرُوا لَهٗ ‘‘[15]

’’بیشک وہ جنہیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو تمہاری روزی کے کچھ مالک نہیں تو اللہ کے پاس رزق ڈھونڈو اور اس کی بندگی کرو اور اس کا احسان مانو‘‘-

’’وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ‘‘[16]

’’اور اے محبوب (ﷺ)جب تم سے میرے بندے مجھے پوچھیں تو میں نزدیک ہوں دعا قبول کرتا ہوں پکارنے والے کی جب مجھے پکارے ‘‘-

’’ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ‘‘[17]

’’مجھ سےدعا کرو میں قبول کروں گا‘‘

’’إِنَّ اللهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ ‘‘[18]

’’بے شک اللہ ہی بڑا رزق دینے والا قوت والا قدرت والا ہے ‘‘-

’’إِنَّ اللهَ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ ‘‘[19]

’’بے شک اللہ جسے چاہتا ہے بےحساب رزق دیتا ہے‘‘-

اختتامیہ:

اے جان من یہ ایک نا قابل انکار حقیقت ہے کہ ہمیشہ اہل اللہ نے دو باتوں پر بہت زیادہ توجہ دی ایک مخلوق کو مخلوق کے قریب کرنے کی اور دوسرا انسان کے ظاہر و باطن کی اصلاح کر کے مخلوق کو خالق سے جوڑنے کی یعنی انسان کو انسان سے اور انسان کو رحمٰن سے منسلک کرنا ان کا شعار اور علامت ہے- یقیناً یہی وجہ ہے کہ انسان انس کی پیداوار ہے- نفرت تو وحشی اور درندوں کی صفت ہے انسانیت کی صف سے نکل کر وحشیانہ کردار اپنانے والوں کیلئے ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ‘‘[20]

’’یہی لوگ جانوروں کی مثل ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر ‘‘-

گویا ایسے لوگوں کو جانوروں کی صف میں شمار کرنا خود جانوروں کی توہین ہے- کیونکہ یہ اپنے اوصاف میں حیوانوں سے بھی گر چکے ہیں اگر جانوروں سے بھی سیکھ لیا جائے تو محبت کا عنصر ان میں بھی پایا جاتا ہے چہ جائےکہ انسان:

تو برائے وصل کردن آمدی
نے برائے فصل کردن آمدی

’’تو جوڑ (محبت) کرنے کے لے آیا ہے ، توڑ (نفرت) پیدا کرنے کے لئے نہیں آیا‘‘-

یاد رہے! ’’کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ‘‘ کی حامل ہی وہ مقدس جماعت ہے جو اپنا نہیں بلکہ مخلوق کا درد لیے ’’نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری‘‘ کا فریضہ ادا کر رہی ہے اور بنی نوع انسان کے سینے میں محبت الٰہی اور عشق رسول (ﷺ) کی شمع کو روشن کر رہی ہے-

٭٭٭


[1](صحیح البحاری،باب حفظ العلم)

[2](یوسف:64)

[3](الاعراف:87)

[4](ھود:1)

[5](التوبہ:117)

[6](الشورٰی:19)

[7](آلِ عمران:182)

[8](یوسف:24)

[9](المائدہ:23)

[10](الکہف:110)

[11](السجدہ:24)

[12](العنکبوت:69)

[13](البقرۃ:282)

[14](النساء:32)

[15](العنکبوت:17)

[16](البقرۃ:186)

[17](غافر:60)

[18](الذاریات:58)

[19](آلِ عمران:37)

[20](الاعراف:179)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر