اقتباس

اقتباس

اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:

حٰـفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی وَقُوْمُوْا ِﷲِ قٰـنِتِیْنَo(البقرۃ:۲۳۸)

’’سب نمازوں کی محافظت کیا کرو اور بالخصوص درمیانی نماز کی، اور اﷲ کے حضور سراپا ادب و نیاز بن کر قیام کیا کرو-‘‘

رسول کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:

من حافظ علی الصلوٰۃ کانت لہ نورا و برھانا و نجاۃ یوم القیامۃo(کنزالعمال ، کتاب الصلوٰۃ ص ۱۲۱)

’’جس شخص نے نماز کی حفاظت کی اس کیلئے نور اور برھان ہوگی اور قیامت کے دن نجات کا ذریعہ بنے گی-‘‘

فرمان سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ :

نمازشریعت وہ ہے کہ جس کی خبر تمہیں اللہ تعالیٰ کے فرمان ’’حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطیٰ ‘‘ (حفاظت کرو تمام نمازوں کی خاص کر وسطی نماز کی - ) میں دی گئی ہے اور اِس سے مراد وہ نماز ہے کہ جس کے ارکان قیام و قرأت و رکوع و سجود و قعود وآواز و الفاظ وغیرہ کو اعضائے ظاہری اور حرکاتِ جسمانی سے اد اکیا جاتا ہے - اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے فرمان ’’حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ ‘‘ میں جمع کا صیغہ استعمال کر کے ’’صَلٰوۃِ ‘‘کی بجائے ’’صَلَوَاتِ‘‘ کا لفظ فرمایا ہے اورنماز طریقت وہ دائم قلبی نماز ہے جس کی خبر اِس آیت ِمبارکہ میں  صَلٰوۃِ  الْوَسْطیٰ (وسطی نماز) کہہ کر دی گئی ہے کہ قلب کو جسم کے وسط (درمیان ) میں پیدا کیا گیا ہے یعنی دائیں اور بائیں پہلو کے وسط میں ،جسم کے بالائی اور زیریں حصہ کے وسط میں اور سعادت و شقاوت کے وسط میں چنانچہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے-:’’ بے شک اولادِ آدم کے دل اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں،وہ جدھر چاہتا ہے اُنہیں پھیر دیتا ہے ‘‘-یہاں اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں سے مراد اُس کے قہر و لطف کی دو صفات ہیں- (سرالاسرار:۱۴۱)

فرمان سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ:

عاشق پڑہن نماز پرم دی جیں وچ حرف نہ کوئی ھو

جیہاں کیہاں نیت نہ سکے اوتھے دردمنداں دل ڈھوئی ھو

اکھیں نیر تے خون جگر دا اوتھے وضو پاک کریوئی ھو

جیبھ نہ ہلّے تے ہوٹھ نہ پھڑکن باھوؒ خاص نمازی سوئی ھو

فرمان قائداعظم محمد علی جناح ؒ :

ایمان ، اتحاد ، تنظیم’’اسلامی تعلیمات کی درخشندہ روایات و ادبیات کس امر پر شاہد ہیں؟ دنیا کی کوئی قوم جمہوریت میں مسلمانوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی جو اپنے مذہب میں بھی جمہوری نقطہ نظر رکھتے ہیں- (اجلاس مسلم لیگ لکھنؤ-۳۱ دسمبر۱۹۱۶ء)  

فرمان علامہ محمد اقبالؒ:

ادائے دید سراپا نیاز تھی تیری

کسی کو دیکھتے رہنا نماز تھی تیری

اذاں ازل سے ترے عشق کا ترانہ بنی

نماز اس کے نظارے کا اِک بہانہ بنی (بانگِ درا) 

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر