دستک : مُہذّبوں کی بد تہذیبی اور مُنصفوں کے دوہرے معیارات

دستک : مُہذّبوں کی بد تہذیبی اور مُنصفوں کے دوہرے معیارات

دستک : مُہذّبوں کی بد تہذیبی اور مُنصفوں کے دوہرے معیارات

مصنف: فروری 2015

مُہذّبوں کی بد تہذیبی اور مُنصفوں کے دوہرے معیارات

تاریخِ اِنسانی میں مختلف ارتقائی مراحل سے اِنسان گزرا مگر ظُلم و ستم اور جبر و استبداد کا شکنجہ اِس کے گرد سخت ہی رہا اِس جھنُّم زارِ نا اِنصافی میں مگرایسے لوگ بھی آتے رہے جنہوں نے روتی ، بلکتی اور سُلگتی ، جلتی انسانیّت کو سینے سے لگایا غم بانٹا آنسُو پونچھے، دلاسہ بھی دِیا اور حوصلہ بھی - مشرق و مغرب اِس بات کا اِعتراف کرتے ہیں کہ ایسی عظیم ترین شخصیّات میں سرِ فہرست نُورِ مُجسّم ، رحمتِ دوعالم ، پیغمبرِ اِسلام حضرت مُحمد الرسول اللہ ﷺ کی ذاتِ گرامی ہے - آپ ﷺ کی ذاتِ با برکات سے تعلق کے حوالے سے اگر بطورِ خاص مسلمانوں ہی کی بات کی جائے تو اِس میں کوئی دُوسری ہے ہی نہیں کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے بعد مقدس ترین ہستی حضور ﷺ ہی کی ہے مسلمان جتنا حسّاس حضور ﷺ کی ذاتِ پاک پہ ہے شاید اتنا کسی اور کے مُعاملہ میں نہیں - نام نہاد مُہذّب مغرب کے چند بد تہذیب شر پسند اور اسلام دُشمن عناصر گزشتہ ایک طویل عرصہ سے ایک سوچے سمجھے طے شُدہ لائحہ عمل پہ چلتے ہوئے ’’آزادیٔ اِظہار‘‘کی آڑ میں مسلسل آپ ﷺ کی توہین کررہے ہیں جو کہ اہلِ ایمان کیلئے کسی بھی قیمت پہ کسی بھی صُورت میں لمحہ بھر کیلئے بھی قبُول نہیں - مسلمان اپنی جان ، مال عزت و آبرو سب کچھ قربان کر سکتا ہے مگر ادبِ رسول ﷺ ، تعظیمِ رسول ﷺ اور ناموسِ رسول ﷺ پہ کوئی سمجھوتا نہیں کر سکتا -اِس لئے بجا طور پہ اِسلامی جمہوریّہ پاکستان میں گستاخِ رسول کی سزا قتل ہے ، جس پہ گستاخی ئِ رسول ثابت ہوجائے اُس کیلئے ’’سر تن سے جُدا‘‘ کے علاوہ دوسری کوئی اور سزا تجویز نہیں کی جا سکتی - حُکمرانوں کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اگر این جی او مارکہ صابن کے دباؤ میں آکر تحفظ ناموسِ رسالت قانون میں ترمیم یا مجوزہ سزا میں تخفیف کی گئی تو اِسی این جی او مارکہ صابن کی اگلی کاروائی یہ ہوگی کہ عاشقانِ رسول کی جد جہد سے حاصل کئے گئے اِس مُلک میں ’’آزادیٔ اِظہار‘‘ کے نام پر وہی روش اختیار کی جائے گی جو بد تہذیب مہذّبوں اور بے انصاف منصفوں نے اختیار کر رکھّی ہے -

سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ مغرب ہی کی دو باہمی عالمی جنگوں کے نتیجے میں عالمی امن کے قیام کیلئے کوشش کی گئی اور ایک دُوسرے کو بَرداشت کرنے اور ایک دوسرے کی حساسیّتوں کا خیال کرنے کے عہد و پیمان تشکیل دیئے ، عالمی فورم بنائے گئے اور قوموں کے اتحاد کا ڈھونگ رچایا گیا اور انسانی حقوق سمیت کئی چارٹر منظور کئے گئے - چاہئے تو یہ تھا کہ اُن پہ بِلا تخصیص عمل کیا جاتا اور دُنیا کی تمام مذہبی و ثقافتی اکائیوں کو ایک ہی طرح سے ’’ٹریٹ‘‘ کیا جاتا - مگر ایسا ہوتا کبھی نظر نہیں آیا عالمی منظر نامہ میں مسلمانوں کے ساتھ ہمیشہ سوتیلا سلوک کیا گیا ان کی زمینیں چھینی گئیں اور اِن کے وسائل لُوٹے گئے اور اِن کے مذہبی و روحانی جذبات کو مجروح بھی کیا گیا اور مجروح کرنے والوں کی حوصلہ افزائی بھی اُنہی کی طرف سے کی گئی جو بد تہذیب لوگ نام نہاد مہذب بنے ہوئے ہیں اِن بے عدل منصفوں نے اِنصاف کے دوہرے معیارات قائم کر رکھے ہیں - اَمَن کے یہ عالمی ٹھیکیدار مکمل طور پہ بے نقاب ہو چکے ہیں جن کی اَصلیّت اقبال نے بتائی کہ ’’چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر‘‘- اِسلام اِس دُنیا کی بہت بڑی حقیقت اور مسلمان ایک بہت بڑی آبادی ہیں اِن کے خِلاف اور اِن کے مُقدّسات کے خِلاف کسی بھی طرح کی جارحیت انتہائی قبیح فعل ہے جسے کوئی بھی ذی شعور کسی بھی آزادی کی آڑ میں قبُول نہیں کر سکتا - دُنیا کی اِس بڑی مذہبی و ثقافتی اِکائی کی آبادی کا غم و غُصّہ اُس وقت مزید بڑھتا ہے جب اِنہیں یہ جبر سہنے اور اِس ظلمِ ناروا سے مفاہمت کرنے کی تلقین کی جاتی ہے - دُنیا میں یہ سمجھا جا رہا ہے کہ یہ سب کچھ کرکے مسلمانوں کو مشتعل کر کے ان کی رُسوائی کا مزید اہتمام کیا جائے مگر جس پُرر امن طریقِ احتجاج کو مسلمان اِختیار کر رہے ہیں اور خاص کر مسلم یوتھ نے سوشل میڈیا پہ دلائل کی جو جنگ لڑی ہے اور مسلمان مفکرین نے مغرب جن دلائل کا مکالمہ کے ذریعے آغاز کیا ہے یہ واضح کرتی ہیں کہ دُشمنانِ اِسلام کی سازشیں ناکام کرنے کیلئے مسلمانوںمیں اتحاد و یکجہتی اور مذہبی برداشت ہی وہ راستہ ہے جو اِن بڑے چیلینجز سے نبرد آزما ہونے کی تیاری کا سامان فراہم کر سکتا ہے - اگر مسلمان موجودہ صُورتحال کی طرح ایک دوسرے کے خون خرابے میں مصروف رہے آنے والے طُوفانوں سے بے خبر اپنا آپ ہی تباہ کرتے رہے تو ان اغیار کی ان ایمان سوز سازشوں سے لڑنا مشکل ہو جائے گا - ضرورت ہے کہ اِسلامیانِ عالَم تحفظ ناموس رسالت ﷺ اور اپنی اسلامی و روحانی اقدار کی پاسبانی کیلئے فروعی و عارضی اختلافات کوبھلا کر دردِ مشترک اور قدرِ مشترک پہ اکٹھے ہو جائیں - ہماری قدرِ مشترک ادبِ رسول ﷺ  کے علاوہ کیا ہو سکتی ہے ؟ ہمارا دردِ مشترک تعظیمِ رسول ﷺ اور ناموسِ رسول ﷺکے علاوہ بھلا اور کیا ہو سکتا ہے-

یومِ یکجہتی کشمیر

پاکستان میں انیس سو اکیانوے سے ۵ فروری کو یومِ یکجہتیِ کشمیر کے طور پرمنایا جاتا ہے جِس کے تحت پورے ملک میں جزوی ہڑتال، ریلیاں اورجلسوں کا انعقاد ہوتا ہے جبکہ ملک کے بیشتر حصوں میں خصوصاً آزاد کشمیر میں انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنائی جاتی ہے -اِن تمام واقعات کے ذریعے پاکستانی عوام اپنے کشمیری بہن،بھائیوں کے ساتھ مضبوط مذہبی، ثقافتی،اور جغرافیائی رشتہ کی بنیاد پر ان کی حقِ خودارادیت کے حصول کے لیے سچ پر مبنی جدوجہد کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کی جاتی ہے- گو کہ یہ دن بنفسہٖ کسی اہم واقعہ کی یادگار نہیں ہے مگر اس کی ایک افادیت ہے - اِس دِن کی افادیت اوراِس کی وجہ جاننے کے لیے ہمیں کشمیر یوں کے جدوجہد کا پسِ منظر دیکھنا ہو گاکہ کشمیر کیا تھا ؟اور اب وہ کیا ہے ؟اوراس کا مستقبل کیا ہو گا؟کیونکہ کشمیری اپنی جدوجہد کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے اور اپنا بنیادی حق کے حصول تک اپنی اِس جدوجہد کو جاری رکھنے کا عزم رکھتے ہیں-

کرہ ِارض پر موجود سر سبز وادیاں خدا کے حسن کی عکاسی کرتی ہیں اور انہی وادیوں میں ایک جنت نظیر وادی کشمیر بھی ہے جِس کے حسین دلکش نظارے ، شفاف پانی کی جھیلیں اور سرسبز وادیاں دُنیا بھر کے سیاحت کے دلدادہ افراد اور بادشاہوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا باعث تھی مگربر صغیر میں مسلم حکومت کے زوال کے ساتھ ہی یہ وادی ہندوئوں کے زیرِ کنٹرول آگئی اوروقت گزرنے کے ساتھ دُنیا کے سامنے ظلم کی ایک زندہ تصویر بن کر رِہ گئی- تین جون انیس سو سنتالیس کے منصوبہِ تقسیم ہند کے تحت کشمیرمسلم اکثریت آبادی رکھنے کے اعتبار اورجغرافیائی خدوخال کی وجہ سے قدرتی طورپرنوزائیدہ پاکستان کا حصہ بنتا تھا لیکن لارڈمائونٹ بیٹن نے ہندوئوں کی کشمیر پر قبضہ کی سازش کا ساتھ دیتے ہوئے انڈین ایکٹ کے مترادف مسلم اکثریت علاقے تحصیل گرداسپوراور فیروزپورانڈیا کے حوالے کر دیے جِس کے ذریعے بھارتی افواج نے بے بنیاد اور جھوٹے الحاقی دستاویز (Instrument of Accession)کو بنیاد بنا کرتقریباًستاسی فیصدمسلم آبادی والی ریاست کشمیر پرستائس اکتوبر انیس سو سنتالیس کو قبضہ کر لیا جِس دن کو کشمیری آج بھی یومِ سیاہ کے طور پر مناتے ہیں- الحاقی دستاویز کے غیر قانونی ہونے کے حق میں برطانوی تاریخ دان الیسٹر لیمب نے اپنی کتاب "Kashmir: A Disputed Legacy"میں اور اوتار سنگھ نے اپنی کتاب ــ" پاک بھارت تعلقات: ۱۹۴۷ تا ۲۰۰۷ـ"کی جلد نمبر ۶ میں دلائل دیے ہیں-اِس غیر قانونی قبضہ کی وجہ سے کشمیریوں اور بھارتی افواج کے درمیان ایک طویل جنگ کا آغاز ہوا لیکن جلد ہی بھارت اپنی شکست کو آتا دیکھ کر اِس مسئلے کے حل کے لیے اقوامِ متحدہ میں گیا جہاں اقوامِ متحدہ نے اِس مسئلے کو عوامیِ رائے شماری سے حل کرنے کے لیے مختلف قراردادیں پاس کیں مگر بھارت نے اِس مسئلے کو عوامی رائے شماری سے حل کرنے کا جھوٹا وعدہ کر کے کشمیریوں اور عالمی برادری کو دھوکا دینے میں کامیاب رہا کیونکہ بھارت جلد ہی اپنے وعدے سے مکر گیااور بھارت کی وعدہ پورا نہ کرنے کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے مسئلہ کشمیر کا حل التوا کا شکار ہے-بین الاقوامی طاقتوںکی عدم توجہ اور بھارت سے ذاتی مفادات کے پیشِ نظر مسئلہِ کشمیر کو نظر اندازکرنا اور اِس کو جلد حل نہ کرنے کی کوششیں بھی اِس مسئلہ کی طوالت کی ایک وجہ ہے-

کشمیریوں نے اِ س قبضے کو قبول نہ کیا اور پہلے دِن سے ہی اِس قبضے کے خلاف آواز بلند کی اور اپنے بنیادی حق کے لیے تحریکِ آزادی شروع کی تو بھارتی افواج نے غیر قانونی قبضے کی آڑمیں کالے قوانین کو استعمال کرتے ہوئے وادیِ کشمیر میں ظلم کے ایسے اندھیرے پھیلائے جِس سے وادی کا حسن اور یہاں آباد لوگوں سے جینے کا حق تک چھین لیا گیاکیونکہ کشمیریوں پر غاصبانہ قبضہ اُن کوتقسیم ِہندکے وقت بھارت سرکار کے فیصلے کی مخالفت پر سز اکے طور پر مِلا ہے-بھارت نے کشمیریوں کی اِس پر امن جدوجہد کوآواز کو دبانے کے لیے مختلف اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے جن کی وجہ سے انیس سو نواسی سے اب تک ایک لاکھ سے زائد افراد قتل ، بیس ہزار سے زائد عورتیں بیوہ ، ایک لاکھ سے زائد بچے یتیم اور دس ہزار سے زائد عورتوں کی بے حرمتی ہوئی مگر اِن ہتھکنڈوں کے باوجود ابھی تک بھارت اِس حق کی آواز کو دبانے میں ناکام ہے-

مسئلہِ کشمیر کی وجہ سے اِس خطے میں ترقی کی رفتا ر اورموجود ممالک کے درمیان تعلقات نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ اِس خطے کے دو بڑے ملک (پاکستان ، بھارت )اور کسی حد تک چین بھی اِس مسئلے سے براہِ راست وابستہ ہیںجو اپنے بجٹ کا بڑا حصہ عوام کی فلاح کے بجائے دفاع پر خرچ کرتے ہیں-پاکستان اور بھارت کے درمیان اب تک چار جنگیں لڑی گئیں جو بلاواسطہ یا بالواسطہ اِس مسئلہ سے تعلق رکھتی ہیں- اِس مسئلے کی وجہ سے ابھی تک اِس خطے میں موجود ممالک کا بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان ہو چکا ہے اور ایٹمی پاورز میںگھر ی یہ سرد وادی کسی بھی وقت ایسے لاوے کی صورت اختیار کر سکتی ہے جواِس پورے کے پورے خطے کو جلا کر راکھ کر دے گی اور دنیا کے باقی ممالک بھی اِس سے متاثر ہونگے -

 ضرورت اِس امر کی ہے کہ پاکستانی عوام یومِ یکجہتیِ کشمیر اور کشمیر میں منائے جانے والے دوسرے خاص دِن مثلاًیومِ شہدا، یومِ سیاہ، اور یومِ الحاقِ پاکستان سرکاری اور غیر سرکاری ہر فورم پر بھر پور طریقے سے منایا جائے اور اِن موقعوں سے فائدہ اٹھا کر پوری دنیااور بین الاقوامی ادارے خصوصاً اقوامِ متحدہ کومسئلہِ کشمیر کی حقیقت، اور دنیا کے سامنے کشمیریوں کی جدوجہد کو خالصتاً کشمیریوں کی جدوجہد ثابت کرنا چاہیے کیونکہ بھارت اِس جدوجہد کو دہشتگردی کے نام سے منسوب کر کے کشمیریوں کی اِس جدوجہد کے ختم کرنا چاہتا ہے-اِن دونوں کی مدد سے دنیا اور بین الاقوامی اداروںکے سامنے بھولی ہوئی کشمیر داستان اور تقسیمِ ہند کے کشمیر میں حقِ خودارادیت جیسے نامکمل منصوبے کی طرف توجہ مرکوز کروانا ہے کیونکہ بین الاقوامی برادری اور اداروں کے اپنے وعدوں کی عدم تکمیل اور عدم توجہ بھی اِس مسئلے کی حل میں رکاوٹ ہے-پاکستانی عوام دنیا کواِن دنوں کو بھر پور طریقے سے منا کر مسئلہ کشمیر کی اہمیت اوراِس خطے کو لاحق خطرات بتا کر اِس کے جلد حل کے لیے کوششیں تیز کرنے کے لیے دبائو ڈال سکتی ہے- یہ دِن (یومِ یکجہتیِ کشمیر) ہمیں اپنے ملکی اور ذاتی مفادات کو ایک طرف رکھ کر کشمیریوں کے حقوق کے حصول کے لیے یکجا ہونے کا درس دیتا ہے اور ہمیں اِس دن کو ایک دوسرے اور خصوصاً کشمیریوں سے یہ عہد کرنا چاہیے کہ اُن کے حقوق کے حصول تک ہم سب اُن کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور جب تک یہ جدوجہد اپنے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر لیتی پاکستانی قوم ایک قدم پیچھے نہیں ہٹے گی-  انشاء اللّٰہ

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر