اقتباس

اقتباس

اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:

’’اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآئِ وَالضَّرَّآئِ وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِط وَاللہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ‘‘

’’(متقی) وہ لوگ ہیں جو فراخی وتنگی (دونوں حالتوں) میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (ان کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے‘‘- (آلِ عمران: 134)

رسول کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ (رضی اللہ عنہ) أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ (ﷺ)أَوْصِنِيْ قَالَ لَا تَغْضَبْ فَرَدَّدَ مِرَارًا قَالَ لَا تَغْضَبْ‘‘

’’حضرت ابوہریرہ(رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ (ﷺ) کی بارگاہِ اقدس میں عرض کی (یارسول اللہ (ﷺ) مجھے وصیت فرمائیے، آپ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:غصہ نہ کیا کرو اس شخص نے باربار گزارش کی (لیکن ہر مرتبہ )آپ (ﷺ) نے ارشادفرمایا کہ’’ غصہ نہ کیا کرو‘‘- (صحیح البخاری،کتاب الادب)

فرمان سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ :

’’رسول اللہ () نے ارشادفرمایا :شہرت اوراس کےتمام اسباب آفت ہیں اورخمول وگمنامی اوراس کے تمام ذرائع راحت ہیں‘‘-اپنے اختیار سے کبر، عجب، بخل، حسد، غیبت، چغلی، کینہ، بغض اور غصہ جیسے اخلاقِ بدکو اپنے دل میں داخل نہ ہونے دے کیونکہ جب ان اخلاقِ بد میں سے کسی کا دل میں گزر ہوتا ہے توخلوت تباہ ہو جاتی ہے اور دل اوردل کےاعمال ِ صالحہ کے انوار ضائع ہوجاتے ہیں اوردل ہرقسم کی منفعت سے خالی ہو جاتا ہے -جیساکہ اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا : یقینا اللہ پاک مفسدوں کے کام کو درست نہیں کرتا‘‘-ہر وہ شخص فسادی ہے جس کےدل میں اس قسم کا فسادپایا جاتاہے خواہ بظاہروہ کتناہی اصلاح پسند نظر آئے جیسا کہ حضور نبی کریم() کی احادیث مبارکہ ہیں کہ:کبروعجب ایمان کو تباہ کردیتے ہیں- غیبت زناسے بڑھ کرگناہ ہے-حسد نیکیوں کا اس طرح کھاتا ہے جس طرح آگ لکڑیوں کو- (سرالاسرار)

فرمان سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ:

خام کی جانن سار فَقر دی جہڑے محرم ناہیں دِل دے ھو
آب مٹی تھیں پیدا ہوئے خامی بھانڈے گِل دے ھو
لعل جواہراں دا قدر کی جانن جو سوداگر بِل دے ھو
اِیمان سلامت سوئی ویسن باھوؒ جہڑے بھَج فقیراں مِل دے ھو
(ابیاتِ باھو)

فرمان قائداعظم محمد علی جناح ؒ :

ایمان ، اتحاد، تنطیم

’’میں نہیں سمجھتا کہ ہماری عبادات کے بارے میں یہ احکام محض خوشگوار اتفاق ہوسکتے ہیں -مجھے یقین ہے کہ انہیں اس انداز سے وضع کرنے کا مقصد انسانوں کوان کے معاشرتی احساسات کوتکمیل کے مواقع فراہم کرتاہے-قرآن کریم میں انسان کو درحقیقت خلیفۃ اللہ کانام دیاگیاہے -اگرانسان کی ا س تعریف کی کوئی اہمیت ہےتو یہ ہم پر اتباع قرآن کا فریضہ عائد کرتی ہے ‘‘- (یوم عیدپر نشری تقریر،آل انڈیاریڈیو،بمبئی 13 نومبر 1939ء)

فرمان علامہ محمد اقبالؒ:

بندہ مومن کا دل بیم و ریا سے پاک ہے 
قوت فرماں رواں کے سامنے بے باک ہے 
پاک رکھ اپنی زباں، تلمیذِ رحمانی ہے تو!
ہو نہ جائے دیکھنا تیری صدا بے آبرو!
(بانگِ درا)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر