سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) کی بے مثل قیادت اور عصرِ حاضر کیلئے سبق
یارِ غار و خلیفہ بلا فصل سیّدنا ابوبکر صدیق(رضی اللہ عنہ)کو اللہ عزوجل اور رسول اکرم (ﷺ) کی بارگاہ میں خصوصی اہمیت وفضیلت حاصل تھی، قرآن مجید کی تقریباً 32 آیات بیّنات آپ(رضی اللہ عنہ) کے متعلق ہیں، جس سے آپ (رضی اللہ عنہ) کے مقام ومرتبے کا اظہار ہوتا ہے - سیّدی رسول اللہ (ﷺ)نے آپ (رضی اللہ عنہ) کے بارے میں ارشاد فرمایا:’’مجھ پر جس کسی کا احسان تھا میں نے اس کا بدلہ چکا دیا ہے ،مگر ابوبکر کے مجھ پر وہ احسانات ہیں جن کا بدلہ اللہ تعالیٰ روز قیامت انہیں عطا فرمائے گا‘‘-
حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ)کے گھرانے کو ایک ایسا شرف حاصل ہے جو اس گھرانے کے علاوہ مہاجرین اور انصار میں کسی اور گھرانے کو حاصل نہیں ہوا- حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ)خود بھی صحابی، آپ (رضی اللہ عنہ) کے والدین، آپ (رضی اللہ عنہ) کے صاحبزادوں، آپ (رضی اللہ عنہ) کی صاحبزادیاں حتّٰی کہ آپ (رضی اللہ عنہ) کے نواسے کو بھی شرف ِ صحابیت حاصل تھا-آپ (رضی اللہ عنہ) اسلام کے پہلے خلیفہ راشد، عشرہ مبشرہ میں شامل، خاتم النبیین حضرت محمد مصطفٰے (ﷺ) کے اولین جانشین اور ہجرت مدینہ و ہر وقت کے رفیق و ہم سفر تھے-حضرت ابوبکر صدیق(رضی اللہ عنہ)نے قبول اسلام کے بعد 13 برس مکہ میں بسر کئے اور سخت مصیبتوں اور تکلیفوں کا دور حضور نبی کریم (ﷺ) کی رفاقت و معیت میں گزارا- بعد ازاں پیغمبر اسلام محمد مصطفٰے (ﷺ )کی رفاقت میں مکہ سے مدینہ ہجرت کی، نیز غزوہ بدر اور دیگر تمام غزوات میں پیغمبرِ اسلام( ﷺ )کے ہم رکاب رہے-
خلافت کے منصب پر فائز ہونے کے بعد حضرت ابوبکرصدیق (رضی اللہ عنہ) نے ایک ایسی سیاسی بصیرت اور روحانی استقامت کا مظاہرہ کیا جس نے امت کو انتشار سے محفوظ رکھا-حضور نبی کریم( ﷺ) کے وصال مبارک کے وقت صحابہ کرام(رضی اللہ عنھم) پر شدید صدمہ طاری تھا، مگر حضرت ابوبکرصدیق (رضی اللہ عنہ) نے امت کو استقامت عطا فرمائی -حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ)نے اپنی مختصر مدت خلافت میں ایسے اصول اور ایسی عملی مثالیں قائم فرمائیں جو ہر دور کے مسلمانوں خصوصاً حکمرانوں کیلئے مشعل راہ بن گئیں- آپ (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا تھا: ’’تم میں سے کمزور میرے نزدیک طاقتور ہے جب تک میں اس کا حق اسے دلا نہ دوں، اور تم میں سے طاقتور میرے نزدیک کمزور ہے جب تک میں اس سے حق لے نہ لوں‘‘-آج کے دور میں دنیا بھر میں طاقتور طبقہ، انفرادی و اجتماعی حیثیت میں اکثر قانون سے بالاتر سمجھا جاتا ہے- ایسے میں صدیق اکبر(رضی اللہ عنہ) کا معیار انصاف کا پیمانہ مہیا کرتا ہے-
دورانِ خلافت آپؓ نے خود احتسابی اور زہد و تقویٰ کو اپنا شعار بنایا اورآپ (رضی اللہ عنہ) اکثر یہ دعا فرماتے رہتے ’’کاش میں ایک درخت ہوتا جسے کاٹ دیا جاتا‘‘- یہ الفاظ جہاں آپ کی ذات مبارکہ کی عاجزی ظاہر کرتے ہیں وہیں مسلم دنیا کے حکمرانوں ودیگر عہدے داروں کے لئے سبق کی حیثیت رکھتے ہیں کہ آپ چاہے جس مقام پہ پہنچ جائیں آپ کے پاس تما م اختیارات ایک امانت ہیں-
آپ (رضی اللہ عنہ) نے اپنے وصال مبارک سے پہلے وصیت کرتے ہوئے ارشادفرمایا: ’’جو بیت المال سے میں نے وظیفہ لیا ہے، میری زمین بیچ کر وہ واپس کر دیا جائے‘‘اور ایسا ہی ہوا-آپ(رضی اللہ عنہ) کی وراثت سے بیت المال کا مال واپس کر دیا گیا-اسلام لانے سے پہلے آپؓ قریش کے امیر لوگوں میں سے تھے- آپ(رضی اللہ عنہ) کے پاس تقریباً 40 ہزار درہم تھے- لیکن جب آپؓ حضور نبی کریم(ﷺ)کے ساتھ مدینہ ہجرت کر کے گئے تو آپ(رضی اللہ عنہ) کے پاس 5 ہزار درہم سے بھی کم رہ گئےتھے- باقی سارا مال وہ اسلام کی خاطر اور مسلمانوں کی مدد میں خرچ کر چکے تھے- حتی کہ غزوہ تبوک کے موقع پر سارا مال اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر رسول اللہ(ﷺ) کی خدمت میں پیش کر دیا - تاریخِ انسانی میں ایسے رہنما کم ہی نظر آتے ہیں جنہوں نے اقتدار کو امانت سمجھا، حکومت کو عبادت بنایا اور صداقت کو قیادت کا معیار قرار دیا-اگر آج کی امت اور حکمران سیّدنا صدیق اکبر(رضی اللہ عنہ) کی دینِ اسلام کیلئے قربانی و ایثار اور قیادت کے اصول اختیار کر لے تو پوری دنیا میں عدل اور امن و استحکام کی نئی بنیاد پڑ سکتی ہے -