دستک :اقبال اور اتحاد امت کی پکار

دستک :اقبال اور اتحاد امت کی پکار

دستک :اقبال اور اتحاد امت کی پکار

مصنف: نومبر 2025

اقبال اور اتحاد امت کی پکار

علامہ محمد اقبال کی فکر اور فلسفہ زمان و مکاں کی قید سے آزاد اور ہمہ جہت ہیں- اسی لئے آج جب اُمتِ مسلمہ مختلف الانواع بحرانوں سے گزر رہی ہے، علامہ اقبال کی آواز ایک بار پھر ہماری راہنمائی کیلئے گونجتی ہےجس میں امت مسلمہ کی یکجہتی اور اتحاد بنیادی اہمیت کے حامل ہیں:

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے

 

نیل کے ساحل سے لے کر تابِ خاکِ کاشغر

آج فکری انتشار اور وحدت کا فقدان مسلم امہ کو مزید کمزور اور بے سمت کر رہا ہے- ایسے میں علامہ اقبال کی فکر کو زندہ رکھنا اور اس پر عمل کرنا پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت اختیار کر چکا ہے، کیونکہ اقبال کے دور میں بھی امت غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی، مسلمان سیاسی و فکری آزادی سے محروم، دوسروں کے دستِ نگر تھے- یہی وہ حالات تھے جب اقبال نے امت کو جگانے کا بیڑا اٹھایا اور آج ایک بار پھر فکرِ اقبال اس زوال کی کیفیت سے نکلنے کیلئے ہمارے فکری دریچوں پہ دستک دے رہی ہے-

سال 2025  امتِ مسلمہ کیلئے نت نئے چیلنجز لے کر آیا ہے- ناجائزقابض اسرائیلی افواج کے ہاتھوں غزہ سلگ رہا ہے بلکہ کھنڈرات کا منظر  پیش کر رہا ہے- اب تک کے اعدادو شمار کے مطابق 70 ہزار سے زائد افراد بشمول بچوں اور خواتین کے لقمہ اجل بن چکے ہیں جبکہ 1 لاکھ 70 ہزار کے قریب زخمی ہو چکے ہیں-فلسطینی عوام کی نسل کشی کے ساتھ ساتھ اسرائیلی جارحیت لبنان، شام، ایران اور قطر تک پھیل گئی ہے- خطے کے ممالک کی کاوشوں سے جنگ بندی پہلا قدم ہے لیکن مظلوم کے ساتھ انصاف اور ظالم کو کٹہرے میں لائے بنا مشرق وسطیٰ میں دیرپا قیامِ امن ایک خواب ہی رہے گا- افغانستان کے  حالات اور عدم استحکام، سیاسی انتشار اور معاشی بحران  پورے خطے کو متاثر کر رہا ہے-پاک بھارت جنگ، ایران اسرائیل جنگ، ایران کی جوہری تنصیبات پہ امریکی حملے، پاکستان میں بڑھتی دہشت گردی اور مغربی سرحد پہ بڑھتی کشیدگی، یہ تمام حالات ایک بڑی فکری جستجو کے طلبگار ہیں تاکہ مسلم دنیا کے باہمی مسائل دوراندیشی کے ساتھ  حل کئے جا سکیں-

 دوسری طرف مغرب میں بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا کے واقعات اور انتہائی دائیں بازو کی سیاست میں مسلم مخالف نظریات میں شدت آ رہی ہے- حال ہی میں برطانیہ کے 40 ارکانِ پارلیمنٹ نے ہاؤسنگ، کمیونٹیز اور مقامی حکومت کے سیکرٹری آف اسٹیٹ کو بڑھتے اسلاموفوبیا کے تدارک کے لئے خط لکھا ہے جس کے مطابق 2025 میں مذہبی نفرت پر مبنی جرائم میں سے 45 فیصد مسلمانوں کے خلاف ریکارڈ کئے گئے ہیں-یورپی یونین ایجنسی برائے بنیادی حقوق(FRA) کی رپورٹ کے مطابق  47 فیصد مسلمان روزمرہ زندگی میں امتیازی سلوک کا سامنا کرتے ہیں- بالفاظ دیگر، اقبال نے اتحاد و یگانگی کے ساتھ مسائل حل کرنے کی جو دعوت دی تھی، آج وہ پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہو چکی ہے-

علامہ اقبال کے ہاں امت کا زوال صرف فکری یا عسکری نہیں بلکہ علمی و معاشی غلامی بھی اس کا ایک سبب ہے- مسلم دنیا تیل، گیس ، معدنی اور انسانی وسائل  سے مالا مال ہونے کے باوجود علمی و معاشی میدان میں دوسری اقوام کی محتاج ہے-  QS ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ 2026 میں کسی بھی مسلم ملک کی یونیورسٹی اولین پچاس میں شامل نہیں ہے-اقبال کے نزدیک یہ سب روحانی و علمی زوال کا ہی نتیجہ ہے، کیونکہ جب قومیں خودی کھو دیتی ہیں تو اپنی محنت اور وسائل پر اعتماد بھی کھو بیٹھتی ہیں-

اس تمام تناظر میں امسال کچھ واقعات حوصلہ افزا بھی ہیں- مئی میں بھارتی جارحیت کے خلاف پوری پاکستانی قوم کے اتحاد و اتفاق سے آپریشن بنیان المرصوس کی کامیابی  حاصل ہوئی ہے- پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان طے پانے والا تاریخی باہمی دفاع کا سٹریٹجک معاہدہ اتحاد امت کے لئے ہوا کا ایک تازہ جھونکا ہے- یہ معاہدہ اور خطے میں بدلتی سفارتی سمتیں بھی اس بات کا اشارہ ہیں کہ اگر مسلم دنیا اپنی قوتوں کو ایک لائحہ عمل میں متحد کر لے تو عالمی سیاست کا توازن بدل سکتا ہے- اقبال کے نزدیک مسلم دنیا کا اتحاد صرف سیاسی نہیں ہونا چاہئے بلکہ روحانی اور فکری بنیادوں پر ہونا چاہیے، تاکہ مسلمان اپنی کھوئی ہوئی شناخت دوبارہ پا سکیں- اقبال کا پیغام آج بھی اُمتِ مسلمہ کے لیے مشعلِ راہ ہے- موجودہ عالمی انتشار، اسلاموفوبیا اور علاقائی کشیدگی کے دور میں اگر مسلم دنیا صدق دل سے اقبال کی فکرِ خودی، اتحاد اور قرآنی پیغامِ عمل کو اپنائے تو وہ نہ صرف اپنی کھوئی ہوئی شناخت واپس حاصل کر سکتی ہے بلکہ عالمی امن میں بھی حقیقی کردار ادا کر سکتی ہے-

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر