اکبرکی الحادی فکرکا تسلسل، نظریۂ پاکستان اور قومی وحدت کی ضرورت
تحریک پاکستان کے دوران بانیان پاکستان کی سوچ و فکر اور واضح نصب العین تھا کہ پاکستان کا قیام محض ایک خطہ سر زمین کا حصول نہیں بلکہ اسلامی شناخت اور نظریے کو محفوظ بنانے کیلئے ہے- تحریک پاکستان کے دوران ’’پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ ‘‘ کا نعرہ زبان زدعام ہوا جو صدیوں سے دلوں میں لگائی جانے والی کلمہ طیبہ کی ضربوں سے وارد ہوا- بقول علامہ محمد اقبال:
خودی کا سرِ نہاں لا الہ الا اللہ |
|
خودی ہے تیغ فساں لا الہ الا اللہ |
تاریخ گواہ ہے کہ برصغیر میں ایسے عناصر ہمیشہ موجود رہے جنہوں نے مسلمانوں کی اسلامی شناخت کو مٹانے اور انہیں الحادی فکر کی طرف مائل کرنے کی ناپاک جسارت کی ہے- اکبر کے دور میں ’’دینِ الٰہی‘‘ کے نام پر جو الحادی فتنہ پروان چڑھا وہ دراصل اسلامی اساس کو کمزور کرنے کی ایک سازش تھی- اس الحاد کی تعمیر میں داراشکوہ بھی نظر آتا ہے-چنانچہ حفاظتِ دین کی فکری تحریک مجدد الفِ ثانی شیخ احمد سرہندیؒ کی صورت میں اور سیاسی سطح پہ اونگزیب عالمگیر کی صورت میں نظر آتی ہے-بعد ازاں الحادی فکر مختلف کانگریسی ملّاؤں کی صورت میں سامنے آئی جو مسلمانوں کو ان کے دینی و تہذیبی تشخص سے محروم کر کے ہندو اکثریت کے رنگ میں رنگنا چاہتی تھی- حقیقت یہ ہے کہ ’’ہندوستانی قومیت‘‘ کی سوچ اکبر کے الحادی نکتۂ نظر کے تسلسل میں نظرآتی ہے کہ قومیت مذہب سے نہیں ہوتی، بلکہ وطن سے ہوتی ہے- علامہ اقبال نے اس پہ واضح کیا کہ ہماری قوم کی اصل شناخت اسلام ہے- چنانچہ مسلمانانِ ہند نے علامہ اقبال کی فکر پہ لبیک کہتے ہوئے اسلام کا دفاع کیا اور حصولِ پاکستان میں قائداعظم محمد علی جناح کا ساتھ دیا- ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہی وہ الحادی فکری یلغار تھی جس کے خلاف نظریۂ پاکستان ایک قلعے کی حیثیت رکھتا ہے-
علامہ محمد اقبال قیام پاکستان سے قبل مسلمانانِ ہند کیلئے جن خطرات کا ذکر کرتے رہے، آج ان کی عملی شکل ہمیں ہندوستان میں نظر آ تی ہے کہ شدت پسندانہ بھارتی حکمران مسلمانوں سے اپنی تاریخی نفرت و تعصب کا اظہار کرتے ہوئے آثارِ اسلامیہ مٹانے کے در پے ہیں- بھارت میں مسلمانوں کی عبادت گاہیں اور مذہبی مقامات بھی غیر محفوظ ہوتے جا رہے ہیں اور اسلاموفوبیا، تشدد اور قتل و غارت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے-امریکی تحقیقی ادارے ’’انڈیا ہیٹ لیب‘‘ کے مطابق 2024ء میں بھارت میں اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز تقریروں کے واقعات میں 74 فیصد اضافہ ہوا اور 1165 ایسے واقعات ریکارڈ کئے گئے جن کا 98.5 فیصد نشانہ مسلمان بنے-وزیرِ اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ جیسے سیاستدان ان نفرت انگیز بیانات کے اہم ذرائع تھے-ماضی میں شدھی اور سنگھٹن جیسی تحریکوں کا مقصد بھی یہی تھا جو آج ہندوتوا کا کہ بھارت کو صرف ہندو قوم کے لئے مخصوص کیا جائے اور مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے وجود کو ختم کر دیا جائے-
صرف یہی نہیں، بھارتی ایجنسیاں بیرون ملک بھی غیر قانونی کارروائیوں میں ملوث ہیں چاہے خطے میں دہشت گرد گروہوں کی پشت پناہی ہویا دوسروں ممالک کی سرزمین پر لوگوں کا قتل، جس کی سب سے بڑی مثال کینیڈا میں ہارديپ سنگھ نجّارکا قتل ہے اور ایک ناکام کوشش امریکہ میں بھی کرچکا ہے- انہی وجوہات کے سبب آر ایس ایس کی حمایت یافتہ بی جے پی کا شدت پسندانہ چہرہ اب دنیا کے سامنے بھی بے نقاب ہو چکا ہےاور ہندوتوا کے تعصب کے باعث بھارت کا سب سے بڑا اتحادی امریکہ بھی اس کا ساتھ چھوڑ چکا ہے - یہ امر حال ہی میں امریکہ کی جانب سے بھارت پہ لگنے والے 25 فیصد ٹیرف سے بھی واضح ہوتا ہے- اسی طرح آپریشن سندور کی عالمی سطح پہ عدم پذیرائی اور بھارتی مؤقف کی ناکامی بھی ہندوتوا کی ناکامی کا ثبوت ہیں- بھارتی پارلیمنٹ میں ہونے والی آپریشن سندور کے متعلق بحث میں اپوزیشن کی جانب سے سخت ترین سوالات اور مودی حکومت کے غیر تسلی بخش جوابات اس کی بوکھلاہٹ کو ظاہر کرتے ہیں- بھارت کے اندر بھی بی جے پی کی مقبولیت کم ہو رہی ہے جس کے نتیجے میں مختلف لوگ نریندر مودی کے مقابل قیادت کے حصول کیلئے کمپین چلا رہے ہیں جن میں امت شاہ اور راج ناتھ سنگھ نمایاں طور پہ شامل ہیں-
آج یوم آزادی پاکستان ہمیں ایک بار پھر یاد دلاتا ہے کہ اپنی شناخت برقرار رکھنے اور اسلام کے تحفظ کیلئے ہمیں اپنی اساس اور بنیاد پر قائم رہتے ہوئے بانیان پاکستان کے پیغام کے ساتھ تجدید عہد کرنے کی ضرورت ہے- قومی یکجہتی اور ہم آہنگی کا راستہ ہی وہ بنیادی راہ عمل ہے جو ہمیں ہر آزمائش سے نکال کر دنیا کی عظیم قوموں میں کھڑا کر سکتا ہے-ساتھ ہی ساتھ دنیا بھر کے مسلمانوں کو بھارت میں موجود مسلم ثقافتی ورثے اور مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے اپنا کردار اداکرنے کی ضرورت ہے-