دستک : قرآن فہمی کے تقاضے

دستک :  قرآن فہمی کے تقاضے

دستک : قرآن فہمی کے تقاضے

مصنف: مارچ 2024

قرآن فہمی کے تقاضے 

رسول اللہ(ﷺ) نے ارشادفرمایا:’’قرآن پا ک ہر چیز سے افضل ہے پس جس نے قرآن پا ک کی تعظیم کی پس اس نے اللہ عزوجل کی تعظیم کی اورجس نے قرآن پاک کی بےحرمتی کی اس نے اللہ عزوجل کے حق کو ہلکا سمجھا‘‘-(تفسیر قرطبی )

قرآن پاک پڑھ کر ایک مسلمان کا کیا ردِعمل ہونا چاہیے؟ قرآن پا ک میں اللہ عزوجل ارشاد فرماتے  ہیں: ’’اللہ تعالیٰ نے بہترین کلام اُتارا ہے، ایک ایسی کتاب جس کے تمام اجزا ہم رنگ ہیں اور جس میں بار بار مضامین دُہرائے گئے ہیں - اُسے سُن کر اُن لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرنے والے ہیں اور پھر ان کے جسم اور ان کے دل نرم ہو کر اللہ کے ذِکر کی طرف راغب ہو جاتے ہیں - یہ اللہ کی ہدایت ہے جس سے وہ راہِ راست پر لے آتا ہے جسے چاہتا ہے اور جسے اللہ تعالیٰ ہی ہدایت نہ دے اس کے لیے پھر کوئی ہادی نہیں ہے‘‘-(الزمر:23)

آئیے ہم اپنا جائزہ لیں کہ کیا قرآن پاک سن یا پڑھ کر ہماری حالت ایسی ہوجاتی ہے؟ کیا ہمارے جسم لرز اٹھتے ہیں یا رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں؟ کیا ہماری آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے ہیں؟ یا العیاذ باللہ کیا ہم اللہ عزوجل کی اس آیت مبارک کے مصداق تو نہیں بن گئے‘‘- پھر اس کے بعد تمہارے دل سخت ہوگئے گویا وہ پتھر ہیں یا ان سے بھی زیادہ سخت‘‘-(البقرۃ:74)

مقامِ افسوس ہے کہ آدمی کے دل پر قرآن کا اثر نہ ہو- حالانکہ قرآن پاک کی تاثیر اس قدرہے کہ اگر وہ پہاڑ جیسی سخت چیز پر اتا را جاتا تو وہ بھی اس کی ہیبت و جلالیت کی تاب نہ لاسکتا جیساکہ اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا :’’اگر ہم نے یہ قرآن پاک کسی پہاڑ پر بھی اُتار دیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جارہا ہے اور پھٹا پڑتاہے‘‘-(الحشر:21)

قرآن مجید سُن کر بھی اگر انسان کی دل پر اثر نہ ہوتواس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے دلوں میں اللہ  تعالیٰ نے ایسی قساوت پیدا کر دی ہے جس پر کوئی بڑی سے بڑی حقیقت بھی اثرانداز نہیں ہوتی اور اس کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ غورو فکر و تدبر کا نہ ہونا ہے یعنی ہم نے قرآن مجید میں غوروفکر وتدبر کو ترک کردیا ہے حالانکہ اللہ پا ک نے قرآن مجید کا شان نزول بیان کرتے ہوئے ارشادفرمایا :’’یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو (اے محمد(ﷺ) ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر والے اس سے سبق لیں‘‘-(سورۃ ص:28)

یعنی ہم سب کیلئے ضروری ہے کہ ہم قرآن پاک کی تعلیمات کو سمجھیں ،اس میں غور و فکر وتدبر کریں ،اس کے احکامات پرعمل پیرا ہوں اوردوسروں تک اس کی نورانی و روحانی پیغام کو پہنچائیں -اسی چیز کی دعوت دیتے ہوئے شاعر ِ مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ نے ارشاد فرمایا :

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں

 

اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار

بعض اوقات ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن پا ک ایک عربی کتا ب ہے جس کی فہم و استفادے کیلئے وسیع وعریض علم کی ضرورت ہے اللہ عزوجل نے اس غلط فہمی کا ازالے فرماتے ہوئے ارشادفرمایا :’’اوریقیناً ہم نے اس قرآن پاک کو نصیحت کیلئے آسان ذریعہ بنا دیا ہے، پھر کیا ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا؟(القمر:17)اوراس چیز کو اللہ پاک نے بار بار دہرایاہے-

بدقسمتی جن لوگوں نے نادانی کی وجہ سے قرآن مجید کے احکامات کو پس پشت ڈال دیا ،قیامت کے دن یہ عمل ان کے لیے باعث حسرت ہوگا جیسا کہ اللہ  تعالیٰ نے ارشادفرمایا :’’ہاے شامت! کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا- اس نے مجھ کو (کتاب) نصیحت کے میرے پاس آنے کے بعد بہکا دیا اور شیطان انسان کو وقت پر دغا دینے والا ہےاور پیغمبر کہیں گے کہ اے پروردگار! میری قوم نے اس قرآن  کریم کو چھوڑ رکھا تھا‘‘-(الفرقان :28-30)

یقیناً قرآن پاک کو عملاً چھوڑ دینابھی گناہِ عظیم ہےاور یہ کفار کا کام ہے اور کوئی مسلمان اس کا تصور نہیں کرسکتا مگر بعض روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ جو مسلمان قرآن کریم پر ایمان تو رکھتے ہیں مگر نہ اس کی تلاوت کی پابندی کرتے ہیں نہ اس پر عمل کرنے کی، وہ بھی اس حکم میں داخل ہیں - حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشادفرمایا :’’جس شخص نے قرآن پاک پڑھا، مگر پھر اس کو بند کرکے گھر میں معلق کردیا، نہ اس کی تلاوت کی پابندی کی، نہ اس کے احکام میں غور کیا، قیامت کے روز قرآن پاک اس کے گلے میں پڑا ہوا آئے گا اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شکایت کرے گا کہ آپ کے اس بندہ نے مجھے چھوڑ دیا تھا، اب آپ میرے اور اس کے معاملہ کا فیصلہ فرما دیں-( البیضاوی)

اللہ عزوجل ہم سب کو قرآنی احکامات کو دل وجان سے تسلیم کرکے اس پرعمل کرنے کی توفیق عطافرمائے - آمین !

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر