دستک

دستک

جو چُپ رہے گی زُبانِ خنجر لہُو پکارے گا آستیں کا

کشمیریوں کی طویل، صبرآزما اور پُرامن جدوجہد کی کچھ زیادہ نہیں بلکہ بہت زیادہ پذیرائی ہور ہی ہے - صد آفرین ! تحریک آزادیٔ کشمیر نے بھارت کے پس ماندہ ،مظلوم اور کچلے ہوئے طبقوں میں اپنے حقوق کے حصول کی ایک نئی رُوح پھونک دی ہے - کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی ایک نئے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے - کشمیریوں کے بہائے گئے لہو کی سرخی اب پڑھے لکھے غیر جانبدار بھارتی طبقے کے شعور میں صبح کی شَفق بن کر کھل رہی ہے - کشمیریوں کی غیر معمولی جدوجہد کے چراغ سے بھارت کے  دیگر مظلوم طبقے بھی روشنی مستعار لے کر برہمنی جبر کے خلاف عَلمِ بغاوت بلند کررہے ہیں - یہ حقیقت ہے کہ بھارت میں کارپوریٹ سیکٹر اور ہندو انتہا پسند جنونیت کا گٹھ جوڑ بھارتی معاشرے کے تار و پود میں مذہبی تفریق ،ذات وبرادری کی تقسیم اور طبقاتی خلیج مزید گہرا کرنے میں مصروف ہے -غریب عوام کے استحصال کا یہ طریقہ زمانہ قدیم سے ہندو معاشرے میں رچا بساہوا ہے- انگریزوں کے دورِ حکومت میں آفیسر میسوں میں کتوں اور بھارتیوں کا داخلہ ممنوع تھا لیکن ہندوستان میں آزادی کے بعد بھی صورتِ حال جوں کی توں چلی آ رہی ہے -آج بھی برہمنوں کے مندر وں میںنچلی ذات کے ہندوئوں کو گھسنے نہیں دیا جاتا اور اگر برہمن کسی بے گناہ دلت کو قتل کر دے تو کہا جاتا ہے کہ ایک کتے کی موت کی ذمہ داری حکومت پہ عائد نہیں ہوتی -بھارت میں سرمایہ دار کمپنیاں انتہا پسندوں کے ذریعے عوام کی طاقت کو مذہبی تعصب ونفرت اور ذات پات کی تقسیم سے پارہ پارہ کر رہی ہے تاکہ عوام کی محنت کا استحصال کرکے دونوں ہاتھوں سے اپنی جیبیں بھر سکیں - نریندرا مودی بھارتی وزیراعظم سے زیادہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے سی ای او کا کردا ر ادا کر رہے ہیں -یہی وجہ ہے کہ مودی اپنے عوام سے زیادہ کارپویٹ سیکٹر کے مفادات عزیز رکھتے ہیں -

کشمیریوں کی نہ ختم ہونے والی جدوجہد نے بھارت کے دیگر مظلوم اور پِسے ہوئے عوامی حلقوں میں ا پنے حقوق کی آواز اُٹھانے کی جرأت اور ہمت پیدا کر دی ہے -کشمیری بھارت سے آزادی کی تحریک چلا رہے ہیں تو دوسری جانب یہ لوگ بھارت میں اپنی سیاسی ، معاشرتی اور معاشی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں -یہ کشمیریوں کی لازوال قربانیوں کا ثمر ہے کہ بھارت کے بائیں بازو کے پڑھے لکھے لوگوں کے ذہنوں میں مسئلہ کشمیر کے بارے میں چھائی ہوئی دُھند صاف ہو رہی ہے اور ابہام دور ہو رہا ہے- رواں سال احتجاجی لہر سری نگر سے نکل کر پورے بھارت میں پھیل گئی - دارالحکومت دہلی کی جواہر لال نہرویونی ورسٹی میں ایک احتجاجی جلسے کا اہتمام کیا گیا یہاں پہ طلبہ یونین کے صدر کنہیا کمار نے تقریر کرنا تھی لیکن ہندو انتہا پسندوں نے اس پروگرام کو سبوتاژ کردیا اوراسی کشمکش میں آزادی کے حق میں اور بھارت کے خلاف نعرہ بازی شروع ہوگئی بھارت کے ایک بڑے نشریاتی ادارے نے جعلسازی کرکے پروگرام کی فوٹیج پہ یہ کیپشن لگادی کہ کنہیاکمار اور اُس کے ساتھی پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے -بھارتی سرکار نے آئو دیکھا نہ تائو اور محض جھوٹی فوٹیج کی بنا پہ طالب علم رہنمائوں کے خلاف بھارت سے غداری کا مقدمہ بنا دیا - سوال یہ ہے کہ صرف کنہیا کمار پہ ہی غداری کا مقدمہ کیوں بنایا گیا حالانکہ ماضی میں ایسے بہت سے واقعات ہوئے جن میں لوگوں نے کھلے عام بھارت کے خلاف نعرے لگائے ، آئین کی کاپیاں جلائیں اوریہ بھی حقیقت ہے کہ گاندھی کے قاتل گوڈسے کی نہ صرف ہرسال برسی منائی جاتی ہے بلکہ اُس کی مورتی بنا کے عقیدت کااظہار بھی سرِ عام کیا جاتا ہے - اس لیے یہ کہاجا سکتا ہے کہ یہ مقدمات صرف بائیں بازو کی طلبہ یونین اور کنہیاکمار کو راہ سے ہٹانے کے لیے بنائے گئے تاکہ JNU پہ ہندو انتہا پسند غالب آ سکیں - مذکورہ واقعہ کے بعد پوری دُنیا میں بھارت کی جگ ہنسائی ہوئی -نام ور امریکی دانشور نوم چومسکی اور جیوڈتھ بٹلر سمیت 84سے زائد ماہرینِ تعلیم نے کنہیا کمار کی گرفتاری کو جامعہ کی خود مختاری اور آزادیٔ اظہارِ رائے پر حملہ قرار دیا -

بھارت میں ریاستی جبر کشمیریوں کی حمایت میں اُٹھنے والے سیلاب کو روکنے میں ناکام رہا اور مذکورہ گرفتاری کے کچھ دن بعد اسی جامعہ میں ایک بار پھرمجلسِ مذاکرہ ہوئی اور پروفیسر نیودیتا مینن نے خطاب کرتے ہوئے کشمیر پہ بھارتی قبضے کو غیر قانونی قرار دیا اور بھارتی افواج کو غاصب کہا- پروفیسر نیودیتا مینن نے محاورے کے مطابق جھوٹے کو گھر تک پہنچا یا - اُن کے مطابق بھارت نے جونا گڑھ اور کشمیر کے معاملے میں دوہر امعیار برتا اُنہوں نے کہا کہ’’ جیسے جونا گڑھ ریاست کے سربراہ مسلمان تھے اوراُن کی خواہش تھی کہ جونا گڑھ کو پاکستان میں شامل کیا جائے لیکن بھارت نے ہندو اکثریت کا بہانہ بنا کر اُسے بھارت میں ضم کر لیا لیکن کشمیر میں تو مسلمانوں کی اکثریت تھی او راُن کی خواہش تھی کہ کشمیر کو پاکستان میں شامل کیا جائے تو یہاں بھی وہی اصول اپنایا جاتا جو جونا گڑھ میں اپنایا گیا- اُنہوں نے مزید کہا کہ کشمیر پر بھارت نے اس شرط پہ قبضہ کیا تھا کہ وہاں جب امن ہو جائے گا تب کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دیا جائے گا لیکن تب سے آج تک کشمیریوں کو یہ حق نہیں دیا گیا- ہم سب جانتے ہیں اور دُنیا بھی یہ مانتی ہے کہ بھارت کا کشمیر پہ قبضہ غیر قانونی ہے - غیر ملکی جرائد ورسائل بھارت کے نقشے میں کشمیر کا مختلف نقشہ پیش کرتے ہیں ان میگزین کوسنسر کیا جاتا ہے یا تباہ کر دیا جاتا ہے -اُنہوں نے مزید کہا کہ جب پوری دُنیا کشمیر پر بھارت کے غیر قانونی قبضے کی بات کر رہی ہے تو کشمیر کی آزادی کے حق میں نعرے جائز ہیں - اسی طرح منی پور اور ناگالینڈ پر بھارتی فوج نے قبضہ کیا اور ان علاقوں کے لوگ آج بھی خود کو بھارتی تصور نہیں کرتے کیونکہ برطانوی راج میں یہ آزاد ریاستیں تھیں اور 15 اگست 1947ئ کے بعد بھی یہ اپنی خود مختار حیثیت برقرار رکھنا چاہتی تھی - کیایہ سچ نہیں ہے کہ بھارت کے قریباً 40% علاقے پر آج بھی بھارتی افواج مسلط ہیں‘‘؟

یہ امر اظہر من الشمس ہے کہ کشمیریوں کی تحریک آزادی کی حمایت عوامی سطح پہ ساری دُنیا میں پائی جاتی ہے اور اب تو بھارتی دانشور بھی کہہ رہے ہیں کہ بھارت کا کشمیر پہ قبضہ غیر قانونی اور بلاجواز ہے اور وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اس امر سے ساری دُنیا واقف ہے لیکن افسوس ہے کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ اور اس کے نام نہاد لبرل مُہرے یہ جان کربھی انجان بنے ہو ئے ہیں لیکن کب تک؟

جو چُپ رہے گی زُبانِ خنجر لہُو پکارے گا آستیں کا

کشمیریوں کی طویل، صبرآزما اور پُرامن جدوجہد کی کچھ زیادہ نہیں بلکہ بہت زیادہ پذیرائی ہور ہی ہے - صد آفرین ! تحریک آزادیٔ کشمیر نے بھارت کے پس ماندہ ،مظلوم اور کچلے ہوئے طبقوں میں اپنے حقوق کے حصول کی ایک نئی رُوح پھونک دی ہے - کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی ایک نئے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے - کشمیریوں کے بہائے گئے لہو کی سرخی اب پڑھے لکھے غیر جانبدار بھارتی طبقے کے شعور میں صبح کی شَفق بن کر کھل رہی ہے - کشمیریوں کی غیر معمولی جدوجہد کے چراغ سے بھارت کے  دیگر مظلوم طبقے بھی روشنی مستعار لے کر برہمنی جبر کے خلاف عَلمِ بغاوت بلند کررہے ہیں - یہ حقیقت ہے کہ بھارت میں کارپوریٹ سیکٹر اور ہندو انتہا پسند جنونیت کا گٹھ جوڑ بھارتی معاشرے کے تار و پود میں مذہبی تفریق ،ذات وبرادری کی تقسیم اور طبقاتی خلیج مزید گہرا کرنے میں مصروف ہے -غریب عوام کے استحصال کا یہ طریقہ زمانہ قدیم سے ہندو معاشرے میں رچا بساہوا ہے- انگریزوں کے دورِ حکومت میں آفیسر میسوں میں کتوں اور بھارتیوں کا داخلہ ممنوع تھا لیکن ہندوستان میں آزادی کے بعد بھی صورتِ حال جوں کی توں چلی آ رہی ہے -آج بھی برہمنوں کے مندر وں میںنچلی ذات کے ہندوئوں کو گھسنے نہیں دیا جاتا اور اگر برہمن کسی بے گناہ دلت کو قتل کر دے تو کہا جاتا ہے کہ ایک کتے کی موت کی ذمہ داری حکومت پہ عائد نہیں ہوتی -بھارت میں سرمایہ دار کمپنیاں انتہا پسندوں کے ذریعے عوام کی طاقت کو مذہبی تعصب ونفرت اور ذات پات کی تقسیم سے پارہ پارہ کر رہی ہے تاکہ عوام کی محنت کا استحصال کرکے دونوں ہاتھوں سے اپنی جیبیں بھر سکیں - نریندرا مودی بھارتی وزیراعظم سے زیادہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے سی ای او کا کردا ر ادا کر رہے ہیں -یہی وجہ ہے کہ مودی اپنے عوام سے زیادہ کارپویٹ سیکٹر کے مفادات عزیز رکھتے ہیں -

کشمیریوں کی نہ ختم ہونے والی جدوجہد نے بھارت کے دیگر مظلوم اور پِسے ہوئے عوامی حلقوں میں ا پنے حقوق کی آواز اُٹھانے کی جرأت اور ہمت پیدا کر دی ہے -کشمیری بھارت سے آزادی کی تحریک چلا رہے ہیں تو دوسری جانب یہ لوگ بھارت میں اپنی سیاسی ، معاشرتی اور معاشی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں -یہ کشمیریوں کی لازوال قربانیوں کا ثمر ہے کہ بھارت کے بائیں بازو کے پڑھے لکھے لوگوں کے ذہنوں میں مسئلہ کشمیر کے بارے میں چھائی ہوئی دُھند صاف ہو رہی ہے اور ابہام دور ہو رہا ہے- رواں سال احتجاجی لہر سری نگر سے نکل کر پورے بھارت میں پھیل گئی - دارالحکومت دہلی کی جواہر لال نہرویونی ورسٹی میں ایک احتجاجی جلسے کا اہتمام کیا گیا یہاں پہ طلبہ یونین کے صدر کنہیا کمار نے تقریر کرنا تھی لیکن ہندو انتہا پسندوں نے اس پروگرام کو سبوتاژ کردیا اوراسی کشمکش میں آزادی کے حق میں اور بھارت کے خلاف نعرہ بازی شروع ہوگئی بھارت کے ایک بڑے نشریاتی ادارے نے جعلسازی کرکے پروگرام کی فوٹیج پہ یہ کیپشن لگادی کہ کنہیاکمار اور اُس کے ساتھی پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے -بھارتی سرکار نے آئو دیکھا نہ تائو اور محض جھوٹی فوٹیج کی بنا پہ طالب علم رہنمائوں کے خلاف بھارت سے غداری کا مقدمہ بنا دیا - سوال یہ ہے کہ صرف کنہیا کمار پہ ہی غداری کا مقدمہ کیوں بنایا گیا حالانکہ ماضی میں ایسے بہت سے واقعات ہوئے جن میں لوگوں نے کھلے عام بھارت کے خلاف نعرے لگائے ، آئین کی کاپیاں جلائیں اوریہ بھی حقیقت ہے کہ گاندھی کے قاتل گوڈسے کی نہ صرف ہرسال برسی منائی جاتی ہے بلکہ اُس کی مورتی بنا کے عقیدت کااظہار بھی سرِ عام کیا جاتا ہے - اس لیے یہ کہاجا سکتا ہے کہ یہ مقدمات صرف بائیں بازو کی طلبہ یونین اور کنہیاکمار کو راہ سے ہٹانے کے لیے بنائے گئے تاکہ JNU پہ ہندو انتہا پسند غالب آ سکیں - مذکورہ واقعہ کے بعد پوری دُنیا میں بھارت کی جگ ہنسائی ہوئی -نام ور امریکی دانشور نوم چومسکی اور جیوڈتھ بٹلر سمیت 84سے زائد ماہرینِ تعلیم نے کنہیا کمار کی گرفتاری کو جامعہ کی خود مختاری اور آزادیٔ اظہارِ رائے پر حملہ قرار دیا -

بھارت میں ریاستی جبر کشمیریوں کی حمایت میں اُٹھنے والے سیلاب کو روکنے میں ناکام رہا اور مذکورہ گرفتاری کے کچھ دن بعد اسی جامعہ میں ایک بار پھرمجلسِ مذاکرہ ہوئی اور پروفیسر نیودیتا مینن نے خطاب کرتے ہوئے کشمیر پہ بھارتی قبضے کو غیر قانونی قرار دیا اور بھارتی افواج کو غاصب کہا- پروفیسر نیودیتا مینن نے محاورے کے مطابق جھوٹے کو گھر تک پہنچا یا - اُن کے مطابق بھارت نے جونا گڑھ اور کشمیر کے معاملے میں دوہر امعیار برتا اُنہوں نے کہا کہ’’ جیسے جونا گڑھ ریاست کے سربراہ مسلمان تھے اوراُن کی خواہش تھی کہ جونا گڑھ کو پاکستان میں شامل کیا جائے لیکن بھارت نے ہندو اکثریت کا بہانہ بنا کر اُسے بھارت میں ضم کر لیا لیکن کشمیر میں تو مسلمانوں کی اکثریت تھی او راُن کی خواہش تھی کہ کشمیر کو پاکستان میں شامل کیا جائے تو یہاں بھی وہی اصول اپنایا جاتا جو جونا گڑھ میں اپنایا گیا- اُنہوں نے مزید کہا کہ کشمیر پر بھارت نے اس شرط پہ قبضہ کیا تھا کہ وہاں جب امن ہو جائے گا تب کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دیا جائے گا لیکن تب سے آج تک کشمیریوں کو یہ حق نہیں دیا گیا- ہم سب جانتے ہیں اور دُنیا بھی یہ مانتی ہے کہ بھارت کا کشمیر پہ قبضہ غیر قانونی ہے - غیر ملکی جرائد ورسائل بھارت کے نقشے میں کشمیر کا مختلف نقشہ پیش کرتے ہیں ان میگزین کوسنسر کیا جاتا ہے یا تباہ کر دیا جاتا ہے -اُنہوں نے مزید کہا کہ جب پوری دُنیا کشمیر پر بھارت کے غیر قانونی قبضے کی بات کر رہی ہے تو کشمیر کی آزادی کے حق میں نعرے جائز ہیں - اسی طرح منی پور اور ناگالینڈ پر بھارتی فوج نے قبضہ کیا اور ان علاقوں کے لوگ آج بھی خود کو بھارتی تصور نہیں کرتے کیونکہ برطانوی راج میں یہ آزاد ریاستیں تھیں اور 15 اگست 1947ئ کے بعد بھی یہ اپنی خود مختار حیثیت برقرار رکھنا چاہتی تھی - کیایہ سچ نہیں ہے کہ بھارت کے قریباً 40% علاقے پر آج بھی بھارتی افواج مسلط ہیں‘‘؟

یہ امر اظہر من الشمس ہے کہ کشمیریوں کی تحریک آزادی کی حمایت عوامی سطح پہ ساری دُنیا میں پائی جاتی ہے اور اب تو بھارتی دانشور بھی کہہ رہے ہیں کہ بھارت کا کشمیر پہ قبضہ غیر قانونی اور بلاجواز ہے اور وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اس امر سے ساری دُنیا واقف ہے لیکن افسوس ہے کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ اور اس کے نام نہاد لبرل مُہرے یہ جان کربھی انجان بنے ہو ئے ہیں لیکن کب تک؟

 

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر