مقبوضہ کشمیرکی خصوصی آئینی حیثیت اور بھارتی عزائم کا محاکمہ

مقبوضہ کشمیرکی خصوصی آئینی حیثیت اور بھارتی عزائم کا محاکمہ

مقبوضہ کشمیرکی خصوصی آئینی حیثیت اور بھارتی عزائم کا محاکمہ

مصنف: طاہرمحمود دسمبر 2015

مقبوضہ جمّوں و کشمیر کے علاوہ دُنیا کے اندر کوئی بھی ایسا مسئلہ نہیں جس کو Nuclear Flashpoint  کہا گیا ہو - یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایشیا ایک ’’نیوکلئیر رنگ‘‘ ہے جس کے ہر طرف ایٹمی طاقتیں بیٹھی ہیں اور کشمیر اس کے وسط میں ہے ، ایک طرف چائنہ ، دوسری طرف روس ، ایک طرف ہندوستان اور دوسری طرف پاکستان - اِس لئے مسئلہ کشمیر کا اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل نہ ہونا ایک ایسی سلگتی ہوئی چنگاری ہے جو کسی بھی لمحے جوہری آگ بھڑکا سکتی ہے - اِس لئے دانشوارانِ عالَم کی نظر میں مسئلہ کشمیر کا فوری حل ناگزیر ہے -

مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ بھی ایک متنازعہ علاقہ تسلیم کرتی ہے لیکن تنازعہ کا حل ابھی تک بھی ایک ایسا معمہ ہے کہ مُعمّہ کا حل موجود ہونے کے باوجود اہلِ اِختیار طاقتیں حل نہیں کرنا چاہتیں - بھارت ابھی تک اپنی ہٹ دھرمی (ناجائز قبضہ) پر تلا ہوا ہے اور کشمیریوں کے حقوق جن میں سب سے بڑا انکا حق ،حق ِخود ارادیت ہے وہ دینے کے لیے تیار نظر نہیں آتا- ہندوستان کی کوشش ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کو طاقت، ظلم و جبر کے زور پر اور سات لاکھ قابض اَفواج کے ذریعے اپنے اندر اس طرح ضم کر دے کہ کشمیر کا کوئی نام نہ لے سکے-

ہندوستان کے آئین میں آرٹیکل ۳۷۰ کے تحت کشمیر کا خصوصی اسٹیٹس تسلیم کیا گیا ہے ، لیکن ہندوستان کے انتہا پسند وزیرِ اعظم نریندرا مودی نے بی جے پی کے انتخابی منشور میں عودہ کیا تھا کہ کشمیر کا خصوصی اسٹیٹس ختم کر دیا جائے گا - یہ اسٹیٹس آرٹیکل ۳۷۰ میں محفوظ کیا گیا ہے تو اس شق کا آئین سے خاتمہ یا اِس کے مترادف تبدیلیاں کی جائیں گی -

زیرِ نظر سطور میں ہندوستان کے آئین کے آرٹیکل ۳۷۰ کا تعارف اور تاریخی پسِ منظر، اس کی اہمیت اور بھارت کا آرٹیکل ۳۷۰ کو منسوخ کرنے کے لیے قانونی حیثیت، بھارت کے عزائم اور مقبوضہ کشمیر کی قانونی حیثیت پر مختصر نظر ڈالی جائے گی-

 تعارف:

 مقبوضہ جموں وکشمیر سے متعلق بھارتی قانون کا آرٹیکل ۳۷۰ ، ۲۶ جنوری ۱۹۵۰ کوآئین کا حصہ بنا- آرٹیکل ۳۷۰ کے تحت مقبوضہ ریاست کا اپنا آئین ہو گا اور بھارت کی قانون ساز اسمبلی کا اختیار فقط تین شعبوں تک محدود رہے گا یعنی (۱) دفاع، (۲) امورِ خارجہ اور (۳) مواصلات ( جبکہ آرٹیکل ۳۵۲ ،۳۶۰ قومی اور مالی ہنگامی صورت حال کا بھی اطلاق مقبوضہ ریاست میں نہیں ہو گا)-

اِس کے علاوہ آرٹیکل ۳۷۰ کے چند اہم نکات درج ذیل ہیں:

٭- بھارتی آئین کی آرٹیکل ۳۷۰(۳) کے تحت بھارتی صدر کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ آرٹیکل ۳۷۰ کو منسوخ کر سکتا ہے مگر اِس کے لیے بھی اُسے کشمیر کی ریاستی دستور ساز اسمبلی سے منظوری لینی ہو گی-

٭ بھارت کے کسی دوسرے حصے کے شہری کبھی بھی ریاستِ کشمیر کے شہری نہیں بن سکتے اور نہ ہی وہاں کوئی جائیداد خرید سکتے ہیں-

٭ آرٹیکل ۳۵۶ کے تحت بھارتی صدر اپنے احکامات بھارت کی باقی تمام ریاستوں میںنافذ کر سکتا ہے مگر کشمیر میں کشمیر کی دستور ساز اسمبلی کی منظوری کے بغیر نہیں کر سکتا -

٭ ریاستِ مقبوضہ کشمیربھارتی حکومت کو دفاع اور کسی بھی چھاؤنی کی تعمیر کے لیے زمین دینے سے انکار کر سکتا ہے-

٭ بھارتی سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار مقبوضہ کشمیر میں نہیں ہے-

٭ جمّوں و کشمیر کی حدود میں ترنگا (بھارتی پرچم) اور دوسری قومی علامتوں کی بے حرمتی جرم نہ ہو گا-

بھارتی حکومتیں ہمیشہ کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ کے الحاقی دستاویز(Instrument of Accesion (کو بھارتی ایکٹ ۱۹۳۵ء کے آرٹیکل ۶(۱) کے تحت گورنر جنرل کے لیے قانونی جوازبناتا ہے )جس کو اے-جی نورانی نے بھی اپنی کتاب میں بیان کیا ہے( - گورنر جنرل نے الحاق کی منظوری میں لکھے گئے خط میں لکھا ہے کہ کشمیر میں امن وامان کی صورتحال بحال ہوتے ہی اِس مسئلے کا حل(الحاق) کشمیری عوام کی اُمنگوں کے مطابق حل کیا جائے گا- اِس کے علاوہ ۱۹۴۸ء میں بھارتی حکومت نے بھی تسلیم کیا کہ کشمیری لوگوں کی خواہشات معلوم ہونے تک یہ الحاق عارضی سمجھا جائے گا - بھارت سمجھتا ہے کہ الحاقی دستاویز مہاراجہ کی ذاتی رائے ہے اگر ایسا ہے تو الحاقی دستاویز کی شق۷ واضح کرتی ہے کہ ریاست کی دستور ساز اسمبلی ریاست کا آئین تشکیل دے گی اور بھارت کا آئین نہیں اپنایا جائے گا- ایک جگہ اور لکھتے ہیں کہ مہاراجہ کے اعلانیہ سے واضح ہے کہ بھارت یونین سے مراد یہ نہیں کہ بھارتی آئین بھی مقبوضہ کشمیر میں لاگو ہو گا تاہم آرٹیکل ۳۷۰ بنانے والوں نے جموںو کشمیر کو بھارت یونین میںخصوصی حیثیت  دی اوران کے مطابق آرٹیکل ۳۷۰ ہی وہ راستہ ہے جو بھارت کوکشمیرکے ساتھ جوڑنے کے لیے مُعاوِن ہوگا-

آرٹیکل ۳۷۰ کی قانونی حیثیت:-

آرٹیکل ۳۷۰ اور اِس کے مقبوضہ کشمیر پر اطلاق سے متعلق سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا ایک ملک کا قانون ایسی مقبوضہ ریاست میں لاگو ہو سکتا ہے جس پراس نے وہاں کی عوام کی اُمنگوں کے خلاف قبضہ کیا ہو؟کون سی دستور ساز اسمبلی کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دے سکتی ہے ؟ وہ کونسے عوامل ہو ں گے جو دستور ساز اسمبلی کو قانونی حیثیت دیں گے؟کیا یہ دستور ساز اسمبلی لوگوں کی حقیقی نمائندہ ہو گی؟

مقبوضہ کشمیر کبھی بھی بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں تھا - اگر ہم آرٹیکل ۳۷۰ اور مقبو ضہ کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کا پسِ منظردیکھیںتو وہ در حقیقت شروع ہی سے متنازعہ اور کالعدم ہے-

آرٹیکل ۳۷۰ کے ضمن میں جوممکنہ ترامیم ہوسکتی ہیں ان وجوہات کی بنا پر بھی یہ آرٹیکل متنازعہ ہے-ان میں سے آرٹیکل ۳۶۸ کے تحت آرٹیکل ۳۷۰ میں صدارتی حکم سے ترامیم تو کر سکتا ہے-تاہم ایسی ترمیم سے آرٹیکل کی بنیادی ساکھ ختم ہو جائے گی ہے اور اِس کے مندرجات بھی ختم ہو جائیں گی - ایک اور اہم نقطہ یہ ہے کہ جب ریاست ِ کشمیرکی پہلی دستور ساز اسمبلی ۳۱ دسمبر ۱۹۵۶ء میں منعقد ہوئی تو اس کوکسی معاہدے پر اتفاق کے پورے اختیار نہیں دیے گئے- اگر ہم اس سے نتیجہ اخذکریں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ جب ۱۷ نومبر ۱۹۵۶ کو مقبوضہ کشمیر کی دستور ساز اسمبلی نے آئین کو اپنایا تو اُس کوتحلیل کر دیا گیا او ر وہ واحد ادارہ جس کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ یونین کے تمام قوانین کو قبول کرتی جو کہ الحاقی دستاویز کے اندر بھی موجود نہیں تھے وہ جوا ز اسمبلی کے تحلیل ہونے کے ساتھ ہی مکمل

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر