تعارف کشمیر (تاریخ،تہذیب،تنازعہ اورمستقبل)

تعارف کشمیر (تاریخ،تہذیب،تنازعہ اورمستقبل)

تعارف کشمیر (تاریخ،تہذیب،تنازعہ اورمستقبل)

مصنف: احمد القادری فروری 2016

کشمیر : تاریخ قبل از اِسلام   :

صوادیِ کشمیر تین صدی قبل مسیح بدھا حکمران آشوکا ﴿Ashoka﴾ کی ریاست﴿جو موجودہ بنگال سے دکن اور افغانستان سے پنجاب تک پھیلی ہوئی تھی﴾کا حصہ تھی - آشوکا کی موت کے بعد کشمیر پر بدھ مت کی حکومت ختم ہوئی اور اس کے بعد وہاں مقامی قبائل کی حکومت رہی - پہلی صدی عیسوی میں کشمیر کو شمال مغرب چین سے آئے بدھ مت مہاراجہ کانیشکا ﴿Kanishka﴾ نے فتح کیا - پانچویں صدی عیسوی میں ہندو مہارجہ ماہیراکولا ﴿Mihirakula﴾ نے بدھ مت حکومت کا خاتمہ کر کے برہمن ہندوئوں کی حکومت کی بنیاد رکھی ﴿تاریخ میں ہندو مہاراجہ ماہیراکولا کو دہشت کی علامت کے طور پر بیان کیا گیا ہے جس نے اپنی رعایا پر بے پناہ مظالم ڈھائے﴾جو کہ بعض مؤرخین کی رائے میں تیرہویں صدی تک رہی - ساتویں صدی عیسوی میں کشمیر کا ہندو راجہ لالی تادتیا ﴿Lalitaditya﴾ تھا جِس نے کشمیر میںترقی اور فلاح کے لیے کام کیا جو آنے والے ہندو مہاراجوں کے دور میں بھی جاری رہا-دسویں صدی عیسوی میں کشمیر کی حکمرانی کے لیے ہندوشہزادوں کے درمیان خانہ جنگی شروع ہو گئی - گیارہویں صدی عیسوی میں افغانستان کے شہزادے سبکتگین غنی نے دو بار کشمیر کو فتح کرنے کی کوشش کی مگرکامیاب نہ ہو سکے-کشمیر میں ہندوئوں کے اقتدار کا خاتمہ چودہویں صدی میں مسلم حکومت کے قیام کے ساتھ ہوا-

 کشمیر میں اسلام کی آمد:

ایک طرف کشمیر میں ہندوئوں کی حکومت کمزور ہونے لگی تو دوسری طرف ہندوستان میں صوفیائے کرام اور اولیا اللہ کی کاوشوں سے اسلام کی اشاعت تیزی سے ہونے لگی اورمختلف علاقوں میں اسلامی حکومتیں قائم ہوئیں - جِس سے تختِ کشمیر کو بھی خطرہ محسوس ہونے لگاتو کشمیر کے سب داخلی و خارجی راستوں کو سیل کر دیا گیا مگر ہندوستان سے تجارت نہ ہونے کی وجہ سے راستے کھول دیے گئے تو انہی ایام میں سوات کے رہنے والے صوفی بزرگ سید شمس الدین شاہ نے کشمیر کی طرف اپنا سفرِ تبلیغ شروع کیا - اور چودہویںصدی کے ہندو بادشاہ رنچن ﴿Rinchan﴾ نے صوفی بزرگ کو صبح نماز کے وقت عبادت میں مشغول دیکھا تو آپ کے ایمان سے متأثر ہو کر اسلام قبو ل کر لیا اور صدرالدین شاہ کے نام سے کشمیر کے پہلے مسلمان حکمران بنے توکشمیر میں اسلام کا سورج طلوع ہوا - مگرصدرالدین شاہ کی وفات کے بعد اُس کی بیوی ﴿جس نے اسلام قبول نہ کیا تھا﴾ کشمیر کی نئی مہارانی بن گئی اور کشمیر پر ایک بار پھر ہندو حکمرانی قائم ہو گئی - ہندو حکمرانی کا خاتمہ 1339 ئ میںمہارانی کی خود کشی سے ہوا جِس کے بعدمقامی لوگوں کے تعاون سے صوفی بزرگ شمس الدین شاہ کشمیر کے دوسرے مسلم اور خاندانِ شاہ میر﴿یہ خاندان کشمیر پر دو سو سال تک حکمران رہا ﴾ کے پہلے بادشاہ بنے-آپ بعد میں حضرت بلبل شاہ کے نام سے مشہور ہوئے اور آپ کا مزار سرینگر ﴿مقبوضہ کشمیر﴾ میںہے - شمس الدین کے بعد آپ ہی کے خاندان کے مشہور بادشاہ شہاب الدین کے دورِ حکمرانی میںآنے والے اولیائ نے کشمیر میں اسلام کی تبلیغ جاری رکھی جِن میں سب سے گراں قدر خدمات دینے والے صوفی بزرگ حضرت امیر کبیر شاہِ ہمدان میرسید علی ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ ہیںجو کہ علوی سید ہیں-میر سید علی ہمدانی اور آپ کے ساتھ آئے تقریباً سات سو سے زائد پیرو کاروں نے کشمیر میں اسلام کی ترویج و تبلیغکی خدمات سر انجام دیں - اور کشمیریوں کی دینی و روحانی تربیّت اُن کے دِلوں کو زندہ کیا جس کی تاثیر ہے کہ وہ آج بھی اسی طرح زندہ ہیں-

خاندان شاہ میر کی دو سو سالہ دورِ حکومت کا خاتمہ پندرہ سو چھیاسی میں مغلیہ بادشاہ اکبر نے کشمیر کو مغل سلطنت میں شامل کرکے کیا-مغلوں کے بعد کشمیر پر افغان مسلمانوں نے قلیل دور کے لیے حکومت کی-کشمیر میں روشن اسلامی دورِ حکومت کا خاتمہ 1819 ئ کو سکھوں نے کیا-

کشمیر کا اسلامی تمدن:

صوفیائ کے روشن کردہ اسلام کے چراغ کشمیر میں آج بھی زندہ ہیں اور وہاں کا تہذیب و تمدن اُن کی تعلیمات اور فلسفہ کی عکاسی کرتا ہے-صوفیائ کی تعلیمات ، روایات، عادات ، محبت، پیار،رہن سہن کا طریقے سے لوگ بہت متأثر ہوئے اور آج بھی چھ صدیوں کے بعد بھی کشمیریوں کے دلوں میں زندہ ہے کیونکہ کشمیری آج بھی امن اور مساوات کے خواہاں ہیں- لوگ آج بھی اپنے علاقے میں موجود خانقاہ یا مسجد میں اکٹھا ہو کر علاقے کے مسائل کو حل کرتے ہیں-کشمیری عوام کا صوفیا اور اسلام سے محبت کی ایک چھوٹی سی مثال والٹر آر لارنس نے اپنی کتاب میں دی ہے کہ کشمیر میں جب بھی کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو اگر وہ اسلامی مہینے شعبان ، رمضان یا رجب میں پیدا ہو تو اس بچے کو اسلامی نسبت سے اس اسلامی مہینے کا نام دیا جاتاہے اور اگر وہ ان مہینوں کے علاوہ کسی مہینے میں پیدا ہوتو صوفیائ سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے عموماً کسی صوفی کی نسبت اس بچے کا نام رکھا جاتا ہے-

کشمیری عوام کا اِسلام اورصوفیائ ِکرام سے محبت کا اندازہ اِس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ کشمیری عوام حصولِ فیوض و برکات کیلئے صوفیا ئ کے مزارات پر بکثرت حاضری دیتے ہیں اور ان کی تعلیمات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں - جِس کی مثال ہمیں حضرت شاہِ ہمدان رحمۃ اللہ علیہ کے خاندان میں ملتی ہے کہ کشمیری اسلامی روایت میں سب سے معزز روحانی عُہدہ ’’میر واعظ‘‘ کا سمجھا جاتا ہے جو کہ صرف اِسی مذکورہ خاندان سے تعلق رکھنے والا ہی بن سکتا ہے - اِس مقام پر شاہِ ہمدان کے خاندان کا وہی نوجوان فائز ہو سکتا ہے جو قرآن و سنت اور صوفیائ کی تعلیمات سے مکمل طور پر آشنا ہوتا ہے اور وہی سرینگرجامع مسجد کا امام ہوتا ہے-

 مساجد کے نام بھی کشمیریوں کی صوفیا سے محبت کی عکاسی کرتے ہیں مثال کے طور پر ایک مشہور مسجد جو قادریہ سلسلہ کے بانی اور عراق کے مشہور صوفی بزرگ کے نام سے مشہور ہے وہ مسجد حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ہے جو سرینگر کے وسط میں واقع ہے-

کشمیر میں اسلام کی آمد نے کشمیری ہنر ﴿آرٹ اور نقش نگاری﴾ کو نیا رنگ دیا-کشمیری ثقافت ، قالینوں کے ڈیزائین و نقش نگاری پوری دنیا میں مشہور ہیں- جب غیر مسلم ہنر مندوں نے اسلام قبول کیا تو انہوں نے مساجد کے میناروں اور مساجد کے اند رلگے پتھروں کی تزئین و آرائش کے لیے کاشی کاری و نقش نگاری کنندہ کی اور لکڑیوں پر کشیدہ کاری کے ہنر دکھائے- ہمیں آج بھی کشمیر کی مساجد اور درگاہوں پر یہ خوبصورت نقش نگاری نظر آتی ہے جِس کو مساجد میں بچھے منفرد رنگ و بناوٹ کے قالین چار چاند لگاتے ہیں-اسی طرح مغلیہ دور میں کشمیر میں تعمیراتی کام، نقش نگاری، کشیدہ کاری،قالین سازی اور اون کی صنعت خصوصاً شال بنانے میں خاطر خواہ ترقی ہوئی-

کشمیریوں کی سامراجی غاصب قوتوں کے خلاف صدیوں پہ مشتمل جد و جہد اور اسلام ، قرآن ، حضور تاجدارِ کائنات ﷺ کے پیغام کی سر بلندی کے لیے جدوجہد بھی اُس اسلامی تمدن کی عکاس ہے جِس طرح صحابہ کرام نے اسلام قبول کرنے کے بعد صعوبتیں برداشت کیں اسی طرح کشمیری بھی اسلام سے محبت اور بلندی کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں- جِس کی مثال ہمیں ایک بہت ہی اہم واقعہ سے ملتی ہے کہ جب مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کے دور میں کشمیر میں حضورِ اکرم ﷺ کا ایک بال مبار ک لایا گیا وہ جِس جگہ رکھا گیا وہ جگہ ’’درگاہ حضرت بَل‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی ﴿حضرت کا اِشارہ آقا علیہ السلام کی ذات کی طرف اور ’’بَل‘‘ بال کو کہتے ہیں یعنی وہ درگاہ جہاں آقا علیہ السلام کا موئے مبارک رکھا ہے ﴾ - 1963 ئ میں جب یہ موئے مقدس چوری ہوا تو خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی تو ہزاروں کشمیری مرد ، عورتیں ، بوڑھے ، بچے ، مذہبی و سیاسی قائدین مل کر احتجاجاً سڑکوں پر نکل آئے، لوگوں نے بغیر کسی کے کہے وادی کے طول و عرض سے جوق در جوق درگاہ کا رُخ کیا اور وہیں بیٹھ گئے - کشمیریوں کے جذبے نے حکومتِ بھارت و مقبوضہ کشمیر کو ہلا کر رکھ دیا- حکومت نے اپنی انٹیلی جنس ایجنسی کو موئے مقدس ڈھونڈنے پرلگا دیا-جب تک موئے مبارک واپس نہیں آیا کشمیری اپنی زندگی کی پرواہ کیے بغیر ٹھنڈی راتوں میں کھلے آسمان تلے بیٹھے رہے - کشمیر پر قابض لوگو ں کو یہ سمجھنا ہو گا کہ جو قوم اپنے نبی کریم کے بال کی خاطر اپنی جان دے سکتی ہے وہ قوم اسلام کی بنیاد پر بننے والی ریاست ﴿پاکستان﴾ اور دو قومی نظریہ ﴿مسلم و ہندو دو الگ قومیں ہیں﴾کی خاطر اپنی ہزاروں نسلیں قربان کر سکتے ہیں مگر اپنی بنیاد کو نہیں چھوڑ سکتے-

کشمیر میں بچوں کو حفظِ قرآن و تجوید ، دینی مسائل کی تفہیم ، دینداری سکھانے اور عقائدِ دینی سیکھنے کا بہت اہتمام کرتے ہیں - کہا جاتا ہے کہ کسی بھی دوسرے علاقے سے زیادہ کشمیر میں نمازِ پنجگانہ میں مساجد پُر ہجوم ہوتی ہیں - اسلام سے محبت اور جذبۂ اِسلامی کشمیری مسلمانوں کا اَقوامِ عالَم میں طرۂ اِمتیاز ہے - کشمیریوں کے مذہبی عقائد اتنے مضبوط ہیں کہ بیرونی طاقتوں اور ان کے ظلم و جبر بھی کشمیری عوام کے دِلوں سے اسلام کی محبت اور اسلامی طرزِ زندگی نہ چھین سکی-

عہدِ مُغلیّہ کا کشمیر:

کشمیر میں مغلیہ عہد کا آغاز پندرہ سو چھیاسی میں ہواجب کشمیر کو مغلیہ شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر نے اپنی ریاست میں شامل کیا-مغلیہ دور میں کشمیر میں کاروباری زندگی و سرگرمیوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوا-

 مغلیہ دور کے بادشاہ پورے برصغیر میں کشمیر کو سب سے زیادہ پسند کرتے تھے-اورنگز یب عالمگیرنے اس کی خوبصورتی سے متأثر ہو کراِ سے زمین پر جنت قرار دیا اور بعد میں آنے والے لوگوں نے بادشاہ کے اِس فرمان کی تصدیق کرتے ہوئے کشمیر کو زمین پرجنت قرار دیا- بادشاہ جہانگیرنے کشمیر میں شالیمار اور نشاط باغ تعمیر کروائے جنہوںنے کشمیر کی خوبصورتی میں خاطر خواہ اضافہ کیا اور یہ مغل بادشاہوں کی کشمیر سے محبت کی زندہ مثال ہے- جہانگیر بادشاہ مرتے دم بھی کشمیر کا حسین نظاروں کا دم بھرتا رہا- مغلیہ دور میں لوگوں کا طرزِ زندگی کافی بہتر ہوااور کشمیر کا حسن دنیا کے سامنے کھل کر ظاہر ہوا جِس نے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچامگر دہلی میں کمزور ہوتی مغل سلطنت کشمیر میںبھی اپنا اثر کھونے لگی-

سکھوں کا عہد اور کشمیر:

کشمیر میں مغلیہ گورنر نے مرکز میں حکومت کے خاتمہ کے بعد کشمیر میں ظلم و ستم شروع کر دیے- جِس کو روکنے کے لیے افغانی بادشاہ احمد شاہ درانی ﴿المعروف ابدالی ﴾ نے 1751 ئ میں کشمیر پر تصرف حاصل کیا اور ستر سال تک افغانی حکومت قائم رہی - جِس کا خاتمہ سکھ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے 1819 ئ کو کیا اور کشمیر میں پانچ صدیوں کے مسلم دورِ حکومت کے بعد سکھوںکا دورِ حکومت شروع ہوا- سکھ گورنر دیوان موتی رام کے دور میں مسلمانوں پر بہت مظالم ڈھائے گئے- اذان پر پابندی لگا دی گئی، مساجد گرادیں یا بند کرا دی گئیں اور مسلمانوں کو ٹیکسوںکے انبار تلے دبا دیا گیا- ان مظالم کا ذکر ولیم مورکروفٹ نے بھی اپنی کتاب ﴿Travels in the Himalayan Provinces of Hindustan﴾ میں کیا ہے-

 ریاستِ جموں کے ڈوگرا مہاراجہ گلاب سنگھ نے سکھ ریاست کو پھیلانے کی غرض سے لداخ ، ہنزہ اور بلتستان پر حملہ کر کے انہیںرنجیت سنگھ کے حوالے کرتے ہوئے سکھ ریاست میں شامل کردیا-

ایسٹ انڈیا کمپنی کاہندوستان کی ریاستوں میں بڑھتے ہوئے کنٹرول پر سکھ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اپنی ریاست بچانے کی خاطر انگریزوں کے ساتھ ایک دوسرے کی سرحدی حدود کے احترام کا معاہدہ کیا- 1839ئ میں رنجیت سنگھ کی موت کے بعد انگریز حکومت اور سکھ ریاست کے تعلقات خراب ہو گئے - 1846ئ کو ان کے درمیا ن پہلی جنگ ہوئی جِس میں سکھ حکمران ، ڈوگرا مہاراجہ گلاب سنگھ﴿ جِس کی فوج بہت قابل اور مضبوط سمجھی جاتی تھی ﴾ کی مدد کے بغیر لڑے اور شکست ان کا مقدر بنی اور سکھ مہاراجہ دلیپ سنگھ نے معاہدہِ لاہور کے تحت برٹش حکومت سے امن معاہدہ کیا اور امن کے بدلے دو کروڑ روپے مانگے مگر سکھ طے شدہ رقم کا کچھ حصہ دے کر تختِ لاہور کی حکومت کو برطانوی حکومت کے حوالے کر دیا جِس سے انگریز راج پورے برِصغیر پر چھا گیا-

 ریاست جموں کا مہاراجہ گلاب سنگھ سکھوں کی مدد کرنے کے بجائے اپنے مفادات کی خاطر انگریزوں کا ساتھ دیتے ہوئے جنگ سے دور رہا-اُس وقت کے انگریز گورنر جنرل﴿ایسٹ انڈیا کمپنی کے برطانوی حکومتی نمائندے کو صرف گورنر جنرل کہا جاتا تھا مگر جب برصغیر برطانیہ کے براہِ راست کنٹرول میں آیا تو گورنر جنرل کو وائسرے کا نام بھی دے دیا گیا﴾ نے کشمیر کو براہِ راست کنٹرول کرنے کی بجائے سکھوں کے خلاف مدد کرنے پر جموں مہاراجہ گلاب سنگھ کو معاہدہ امرتسر کے تحت وادیِ کشمیر ﴿ بمعہ سکھ ریاست کے علاقے بلتستان، گلگت ایجنسی اور لداخ﴾ کوسات کروڑ پچا س لاکھ کے عوض گلاب سنگھ کے حوالے کردیا گیا-

عہدِ برطانیہ کا کشمیر:

کشمیر میں عہدِ برطانیہ کا آغاز 1846ئ میں ہوا جب کشمیر کو انگریزوں نے سکھوں سے معاہدہ ِ لاہور کے تحت حاصل کیا-مگر جلد ہی براہِ راست کنٹرول کی بجائے برطانوی سامراج نے کشمیر کو معاہدہ امرتسر کے تحت گلاب سنگھ کی حکومت کے حوالے کر دیا- اُس معاہدے کے تحت انگریز حکومت مہاراجہ ِکشمیر سے ہر قسم کی مدد طلب کر سکتی ہے ﴿مثال کے طور پر پہلی جنگِ عظیم میں کشمیریوں کی شرکت اور بعد میں سوویت یونین کی پیش قدمی کے خوف کی وجہ سے گلگت ایجنسی کو ڈوگرا حکومت سے اپنے براہِ راست کنٹرول میں لینا﴾- برطانوی راج کو تسلیم کرنے کے ضمن میں مہاراجہ کو سالانہ ایک گھوڑا، بارہ بھیڑیں اور تین شالیں برطانوی حکومت کو پیش کرنی لازم تھیں-

1935 ئ میں برٹش حکومت نے سوویت، چائنہ اور افغان قدم پیشی کے خوف اور ان کی نقل حرکت کو روکنے کی خاطر گلگت اور بلتستان کو کشمیر کی ڈوگرا حکومت سے براہِ راست اپنے کنٹرول میں لے لیا- برٹش انڈیا میں پھیلتی مسلم ﴿مسلم لیگ ﴾و ہندو ﴿کانگریس﴾ تحریکوں کا مطالبہ﴿پاکستان کا قیام ﴿مسلم لیگ﴾ ، آزاد بھارت بشمول پاکستان﴿کانگریس ﴾ زور پکڑتا گیا جِس کے تحت ہندوستان کی تقسیم ناگزیر ہو گئی - برٹش انڈیا کے اندرونی معاملات کو کنٹرول کرنے اور تقسیمِ ہند﴿برٹش انڈیا کو پاکستان اور بھارت دو الگ آزاد ریاستوں میں تقسیم﴾ کو حتمی شکل دینے کے لیے برٹش حکومت نے گلگت ،بلتستان کشمیر کے ڈوگرا مہاراجہ ہری سنگھ کے حوالے کر دیا -

برٹش دورِ حکومت بھی سکھ دور کی طرح کشمیریوں کے لیے کوئی نویدِ صبح نہیں لے کر آیا- ڈوگرا مہاراجوں نے مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے اور بے پناہ قتل و غارت کی گئی-

مسئلہ کشمیر کا آغاز:

کشمیر میں مسلم دورِ حکومت کا خاتمہ ہوتے ہی آنے والی حکومتوں نے مسلمانوں پر مظالم ڈھانے شروع کر دیے تھے کیونکہ وہ یہ جانتے تھے کہ علاقہ کا اکثریتی مذہب ہونے کے ناطے اور سابقہ کئی صدیوں سے حکمرانی کا تجربہ رکھنے کے ناطے مسلمان لڑنے ، حکومت حاصل کرنے اور اپنی اِسلامی شناخت برقرار رکھنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں - اور ایسا ہی ہوا - کشمیری مسلمانوں نے حالات کے جبر سے سمجھوتہ کرنے اور خاموش تماشائی بن بیٹھنے کی بجائے اپنی آزادی ، خود مختاری اور حریت کی جد و جہد شروع کی ، کشمیریوں کی اِس جدوجہد کو کچلنے کی بہت کوشش کی گئی مگرتمام تر مظالم کے باوجود جابر حکمرانوں کو ناکامی کے علاوہ کچھ نہیں ملا- ہندوستان میں مسلمانوں کی آزادی کے لیے جو تحریک شروع ہوئی اس سے کشمیری مسلمانوں کو بھی حوصلہ ملا اورانہوں نے بھی ہندوستان کے مسلمانوں کے ساتھ مل کر اپنی شناخت ، زندگی اور بقائ کے لیے آزادی کا نعرہ بلند کیا - مگر ڈوگرا دورِ حکومت میں کشمیریوں کو نہ صرف ان کے حقوق سے محروم کیا گیا بلکہ کشمیریوں کے لیے کشمیر میں زندگی گزارنا نا ممکن ہو چکا تھا- 1931 ئ میں پونچھ کے کشمیریوں نے حد سے تجاوز کرتے ظلم سے تنگ آ کر مہاراجہ کی فوج سے لڑنا شروع کر دیا مگر اِسے دبانے کے لئے کشمیریوں کا بے جا خون بہا گیا -

یہاں 13 جولائی 1947ئ کا ایک افسوسناک مگر ایمان افزا واقعہ بیان کرتا چلوں کہ تیرہ جولائی کی علی الصبح سرینگر کی جیل میں قید مسلمان کشمیری رہنما کا نعرۂ آزادی لگانے کے جُرم کی پاداش میں ٹرائل ہو رہا تھا جِس کے حق میں ہزاروں مسلمان سرینگر کی سنٹرل جیل کے باہر جمع تھے- اتنے میں فجر کی اذان کا وقت ہو گیا تو مجمع سے ایک مسلمان نوجوان کھڑا ہو کر اذان دینے لگا مگر جیل کے باہر کھڑے ڈوگرا فوجی نے اُس نوجوان کو گولی مار کر شہید کر دیا - مگر اتنے میں ایک اور نوجوان کھڑا ہوا اور پہلے نوجوان کی نامکمل اذان کو مکمل کرنے کی کوشش کی مگر وہ بھی ڈوگرا فوجی کی گولی سے شہادت پا گیا - موت کی اِس لہر میں کشمیری مسلمانوں کاجذبہِ ایمانی نہ تو کمزور ہوا اور نہ ہی سرد ہوا اور ایک ایک کر کے نوجوان اٹھ کر اذان مکمل کرتے گئے اور شہید ہوتے رہے - یہ تاریخِ اِسلامی کی وہ واحد اذان تھی جِس کو اکیس لوگوں نے شہادت کے مرتبہ پر فائز ہوکر مکمل کیا - مؤرخین لکھتے ہیں کہ یہ وہ دن تھا جب کشمیر کی جدوجہد میں ایک نیا جذبہ پیدا ہوا اور ریاست میں مہاراجہ سے آزادی کی جد و جہد کا باقاعدہ طور آغاز ہوا جو ابھی تک جاری ہے - کشمیری عوام آج بھی تیرہ جولائی کو یومِ شہداکے طور پر مناتی ہے-

ایک جانب کشمیری عوام اپنے حقوق کے لیے جد و جہد کر رہی تھی تو دوسری جانب ہندو رہنما انگریزوں کے انڈیا سے جانے کے بعد پورے ہندوستان پر حکومت کے خواب دیکھ رہے تھے جِس کے لیے انہوں نے آخری وائسرائے سے ملکر کشمیریوں کے خلاف قبضہ کا پلان بنایااورتقسیم کے وقت مسئلہ کشمیرکا آغاز ہوا-

تقسیم ہند اور ریڈ کلف ایوارڈ:

 برٹش وائسرائے ہند لارڈ مائونٹ بیٹن نے ۳ جون ۷۴۹۱ئ کو منصوبہ تقسیمِ ہند پیش کیا جس نے برٹش انڈیا کو دو الگ آزادو خودمختار ریاستوں ﴿پاکستان اور بھارت ﴾ میں تقسیم کرنے کی تجویز دی -۳ جْون کے اِس منصوبہ کو مسلم لیگ اور کانگرس کے وفد نے متفقہ طور پر قبول کر لیا تو لارڈ مائونٹ بیٹن نے اِس منصوبہ کوقانون سازی کے لیے برطانوی پارلیمان کے سامنے پیش کیا- جس کو بعد ازاںبرطانوی پارلیمان نے قانون آزادیِ ہند ۷۴۹۱ئ کی صورت میں حتمی شکل دے دی-

اِس قانون کی رُو سے مسلم اکثریتی آبادی والے علاقے پاکستان میں اور ہندو اکثریت والے علاقے بھارت میں شامل ہوں گے- قانونِ آزادیِ ہند ۷۴۹۱ئ کے تحت پانچ سو باسٹھ ﴿562﴾ دیسی ریاستیں اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کر سکتی تھیں مگر ریاستوں کے مہا راجوں کو یہ نصیحت کی گئی کہ وہ زمینی اور مذہبی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے ریاستوں کا فیصلہ کریں-

۲۲ اپریل ۷۴۹۱ئ کو لارڈ مائونٹ بیٹن نے جواہر لال نہرو کو واضح کیا کہ برٹش انڈیاکی پانچ سو باسٹھ ریاستیں کسی بھی نئی ریاست﴿پاکستان یا انڈیا﴾ سے الحاق کرسکتیں ہیں-مگر بعد میں جب قانونِ تقسیم ہند بنا تو ریاستوں کے زمینی حقائق اور آبادی کے لحاظ سے الحاق کرنے کا کہا گیا- یہ بات کانگریسی رہنمائوں کے لیے پریشان کن تھی کیونکہ اُس وقت تک پلان کے مطابق مجوزہ بھارتی ریاست کا رابطہ کشمیر سے نہیں تھا اور ریاست کی مسلم آبادی اکثریت میں تھی- کانگریسی قیادت نے لارڈ مائونٹ بیٹن اور پلان تقسیمِ ہند پراثر انداز ہونا شروع کر دیاکہ ترمیم کرواکشمیر سے زمینی رابطہ حاصل کیا جائے-

برٹش حکومت کے تقسیم ِ ہند کے فیصلے کے بعد مشہور قانون دان سر ریڈکلف کی زیرِ صدارت نئی بننے والی ریاستوں کی حد بندی کے لیے بائونڈری کمیشن ۸ جولائی ۷۴۹۱ئ کو ہندوستان بھیجا گیا جِس نے پنجاب اور بنگال کی تقسیم کا فیصلہ کیااور اپنی رپورٹ تیار کر کے برٹش وائسرے ہند لارڈ مائونٹ بیٹن کے حوالے کی-سر ریڈکلف ﴿چئیرمین ﴾کے نام کی وجہ سے اِس کا نام ریڈ کلف ایوارڈ رکھا گیا جِس کے تحت پنجاب کے مسلم اکثریتی علاقے پاکستان میں شامل ہوں گے - یہاں یہ بات واضح کر دی جائے کہ ریڈکلف ایوارڈ کی جو رپورٹ ۸ اگست ۷۴۹۱ئ کو مسلم لیگی رہنمائوں کے حوالے کی گئی اس میں پنجاب کا ضلع گور داسپور پاکستان کا حصہ تھا مگر بعد میں گانگریس اور آخری وائسرئے لارڈ مائونٹ بیٹن کی ملی بھگت سے گورداسپور کو ۵۱/ اگست ۷۴۹۱ئ سے پہلے بھارت میں شامل کرتے ہوئے ریڈکلف ایوارڈ میں تبدیلی کر کے قانونِ تقسیم ہند کی خلاف ورزی کی اور اِس تبدیلی سے مسلم لیگی رہنمائوں کو بے خبر رکھا گیا-

 یعنی قانونِ آزادیِ ہند ۷۴۹۱ کو مذکورہ دیسی ریاستوں کو یہ اختیار دیتا تھاکہ وہ:

﴿۱﴾ پاکستان کے ساتھ الحاق کر لیں یا

﴿۲﴾بھارت کے ساتھ الحاق کر لیں یا

﴿۳﴾ اپنی آزاد حیثیت کو برقرار رکھیں

برطانوی اور کانگریسی رہنماؤں نے ملی بھگت سے اِس قانون کی خلاف ورزی کر تے ہوئے سازش کے تحت ضلع گورداسپورکو بھارت میں شامل کر دیا ۔ بھارت کی چال کا آخری مہرہ کشمیر کے مہاراجہ ِہری سنگھ نے تقسیمِ ہند کے وقت کھیلا جِس نے پاکستان حکومت کے ساتھ سٹیند سٹل ﴿Standstill﴾ معاہدہ کیا جبکہ دوسری طرف ظلم و ستم میں پسی ہوئی کشمیری عوام پاکستان کے ساتھ الحاق کیلئے جد و جہد کررہی تھی- مگر جب عوام نے مہارجہ کو ریاست کی حکمرانی سے ۴۲ اکتوبر کو باہر نکال پھینکا تو نام نہاد راجہ نے سٹیند سٹل ﴿Standstill﴾ معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ غیر قانونی الحاق ﴿غیر قانونی الحاق کے دلائل آگے کشمیر کی قانونی حیثیت میں دیے گئے ہیں﴾ کر کے کشمیر میں بھارتی قبضہ کی راہ ہموار کی اور نتیجتاً بھارت نے اپنی فوجیں ۷۲ اکتوبر ۷۴۹۱ئ کو کشمیر میں بھیج دیں-

کشمیر کا جغرافیہ ﴿تقسیم سے قبل اور تقسیم کے بعد﴾:

 کشمیر کے جغرافیہ کی بات کریں توکشمیر ابتدائی طور پر موجودہ وادی﴿ Vale of kashmir﴾ پر مشتمل تھا مگر 1846ئ کو ڈوگرا مہاراجہ گلاب سنگھ نے کشمیر کو برٹش حکومت سے لیکر اپنی ریاست جموں اور کشمیر میں شامل کر لیا - 1834ئ ﴿سکھ دورمیں﴾ گلاب سنگھ نے لداخ کو فتح کیا اور ریاستِ کشمیر کا حصہ بنایا- 1840ئ میں بلتستان کو گلاب سنگھ نے فتح کر کے جموں و کشمیر میں شامل کیا-﴿اٹھارہ سو نوے کو انگریزوں نے گلگت کو سکھوں سے لیکر براہِ راست اپنے کنٹرول میں لے لیا لیکن بعد میں انتظامی امور بہتر نہ ہونے کی وجہ سے سکھ مہاراجہ پرتاب سنگھ کو اپنی زیرِ نگرانی میں گلگت کے انتظامی امور واپس کیے -پچیس ستمبر انیس سو پچیس کو پرتاب سنگھ کی وفات کے بعد اُن کے خاندان کے مہاراجہ ، مہاراجہ ریاست جموں و کشمیر سر ہری سنگھ نے گلگت کی حکومت سنبھالی-اِس طرح گلگت بھی ریاست جموں و کشمیر کا حصہ بن گئی انیس سو پینتیس میں برطانوی حکومت نے معاہدے ﴿Lease Agreement﴾ کے تحت ساٹھ سال کے لیے گلگت ایجنسی کو اپنے کنٹرول میں لے لیا جوکہ ساٹھ سال ہونے سے پہلے سازش کے تحت 1947 ئ کو مہاراجہ ہری سنگھ کو واپس دی گئی- اگر گلگت کا علاقہ برطانوی کنٹرول میں رہتا تو تقسیمِ ہند کے قانون کے تحت مسلم اکثریت ہونے کے ناطے یہ پاکستان کا حصہ ہوتا-لیکن چونکہ کانگریس اور لارڈ مائونٹ بیٹن کشمیر پر بھارتی قبضہ کی راہ ہموار کر رہے تھے تو انہوں نے گلگت ایجنسی کشمیر کو واپس کر کے کشمیر کا حصہ بنا دیاجِس کے بارے میں الیسٹر لیمب نے اپنی کتاب ﴿Kashmir : A Disputed Legacy 1846-1990) میں لکھا کہ لارڈ مائونٹ بیٹن پر اُمید تھے کہ کشمیر کے رکھوالے کا کردار آخر کار بھارت کے پاس ہی ہو گا- لیکن کشمیر دشمن کبھی کامیاب نہ ہو سکا ﴿کیونکہ گلگت ایجنسی کے لوگوں نے اپنی قیادت کی وجہ سے مہاراجہ راج سے آزادی حاصل کر لی- برطانوی افسر میجر ولیم برائون  ﴿Head of Gilgit scout﴾ نے اُس وقت کے گورنر  بریگیڈئیرجنساراسنگھ﴿Brg. Gansara Singh﴾ سے الحاق کے لیے مسلم آبادی کی خواہشات کو مدنظر رکھنے کا کہا مگر گورنر نے ٹھکرایا تو میجر ولیم برائون نے مسلم آبادی کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے ڈوگرا آرمی کے خلاف بغاوت کر دی اور یکم نومبر کو پاکستان کا سبز ہلالی پرچم گلگت ایجنسی میں لہرا دیا گیا اور تین دن بعد گلگت نے ولیم برائون کی قیادت میں پاکستان کے ساتھ قانونی الحاق کر لیا -

تقسیمِ ہند سے پہلے ریاست جموں وکشمیر وادیِ کشمیر ، پونچھ ، لداخ ، جموں، بلتستان اور گلگت ایجنسی پر مشتمل تھی جبکہ کہ جب تقسیم ہند کے وقت ریاست جموں کشمیر سب سے زیادہ متأثر ہوئی- ہندوئوں کی سازش اور مہاراجہ کے غیر قانونی فیصلے کی وجہ سے ریاست میں بغاوت نے جنم لیا اور ریاست کئی حصوں میں تقسیم ہو کر رہ گئی ۔ چوبیس اکتوبر کو کشمیریوں نے ریاست کا بڑا حصہ کنٹرول کر لیا اور مہاراجہ کے سرینگر سے جموں بھاگ جانے کے بعد ایک الگ مسلم ریاست کا قیام کا اعلان کر دیا گیا مگر بھارتی قبضے کے بعد ریاست نے سمٹ کر موجودہ آزاد کشمیر کی صورت اختیار کر لی- گلگت ایجنسی بشمول بلتستان کے لوگوں نے یکم نومبر کو علا قے کو مہاراجہ کی فوج سے آزاد کروایا اور گلگت اور بلتستان میں تبدیل کر دی-لداخ ،وادی، جموں اور پونچھ پر بھارت نے ستائیس اکتوبر ۷۴۹۱ئ کو غیر قانونی قبضہ کر لیا اور آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان ایسی لائن کھینچی جِس سے کشمیر دو لخت ہو گیا اور قریبی رشتے بھارتی لکیر کی بھینٹ چرح گئے جو کہ انسانی سطح پہ کشمیریوں سے ایک بڑا ظلم تھا ۔ کشمیر کا کچھ حصہ سائنو-پاکستان معاہدہ کے تحت چین کے پاس ہے ۔ ﴿سائنو-پاکستان معاہدہ پاکستان نے چین کے ساتھ سرحد کے تنازعہ پر کیا- چین نے پاکستان کا کچھ حصہ اپنے نقشہ میں شامل کر لیا مگر وضاحت پر کوئی جواب نہ آیا-لیکن اقوامِ متحدہ میں چین کے حق میں ووٹ دینے کے باعث چین نے اپنے نقشوں سے پاکستانی علاقے نکال کر پاکستان کے ساتھ مذکرات کیے اور پاک - سائنو معاہدہ کے تحت پاکستان نے چین کو کشمیر کا کچھ حصہ دے دیااور چائنا نے کچھ چوٹیاں پاکستان کو دیں ﴾ -

کیا کشمیر بھارت کا حصہ ہے؟

کشمیر کا تاریخی جائزہ لیا جائے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جِس علاقے پر بھارت آج اپنا ناجائز حق جتاتا ہے وہ درحقیقت کبھی بھی کسی بھی طرح سے اس کا حصہ تھا ہی نہیں - یہ انگریزوں اور ہندوئوں کے مذموم عزائم تھے جن کو پورا کرنے کے لیے قانون تقسیمِ ہند میں غیر قانونی تبدیلیاں کی گئیں جس کی وجہ سے بھارت نے اِس سر زمین پر قبضہ کیا،جِس زمین کے ٹکڑے سے بھارت کا کوئی زمینی رابطہ نہ تھا اور نہ کوئی مماثلت-کشمیر میں بسنے والے تقریباً پچہتر فیصد مسلمانوں کا مذہب ، تہذیب و تمدن ، رسومات ہندوئوں سے الگ تھا- یہ ایسی بنیادیں تھی جِس کی وجہ سے مسلمان اور ہندو کبھی ایک نہیں ہو سکے اور نہ ہو سکتے ہیں - کشمیریوں نے مسلم دورِ حکومت کے خاتمے کے بعد کسی حکومت کو تسلیم نہیں کیا اورتقسیمِ ہند کے وقت بھی وہ بھارت کے ساتھ الحاق کے مخالف تھا- مگر جغرافیائی اعتبار کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ اس حصہ کو تاریخ میں برصغیر کی مرکزی حکومت نے کم ہی کنٹرول کیا ہے سوائے مسلمان حکمرانوں کے جو ایک کامل دلیل ہے کہ یہ خطہِ زمین مسلمانوں سے جڑا ہے - تاریخی ، تہذیبی ، تمدنی ، مذہبی و دینی ، روحانی ، ثقافی ، خونی ، سیاسی ، سماجی اور ہر ایک رشتے کی گہرائی میں کشمیر کا کوئی لنک بھارت سے نہیں بنتا - مذکورہ تمام رشتے جب کسی قوم سے میل و رغبت نہیں کھاتے تو حیرت ہے کہ وہ مُلک کشمیر پہ زبردستی کیوں قابض رہنا چاہتا ہے -

تاریخی و تہذیبی طور پہ کشمیر پاکستان ہے!

کشمیر کو قدرتی طور پاکستان کا حصہ کہا جائے تو بالکل درست ہو گا کیونکہ کشمیر میں بسنے والے لوگوں کا دل و خون کارشتہ پاکستان کے مسلمانوں سے جڑا ہے - ایک تاریخ ، ایک تہذیب و تمدن ، ایک دین و مذہب ، ایک ثقافت و کلچر ، ایک ہی سماج ، ایک ہی روحانی نصب العین ، ایک ہی خونی رشتہ اور حتیٰ کہ ایک دوسرے سے جڑا باہمی بقا و ترقی کا شاندار مستقبل ، کشمیر اپنی ہر جہت اور اپنے ہر تجزیے میں مکمل طور پہ پاکستان کا حصہ ہے - پاکستان کشمیر کے بغیر نامکمل ہے کیونکہ '"پاکستان " لفظ کا حرف "ک " کشمیر کو ظاہر کرتا ہے - تقسیم سے پہلے کشمیر میں جانے والا ہر راستہ موجودہ پاکستان کی سرزمین سے جاتا تھا - پاکستان اور کشمیر کا موسم ایک جیسا،یہاں سے بہنے والے دریا پاکستان کی جانب جاتے ہیں اور اس اعتبار سے قدرت نے اس کا تعلق پاکستان سے جوڑا ہے ، پاکستان اور کشمیر کے پہاڑ ایک، کشمیر میں اگنے والے اناج سب سے پہلے پاکستان کے شہروں میں آتا اُسکے بعد ہندوستان میں جاتا- دونوں طرف بسنے والے لوگوں کی تہذیب، مذہب اور رسومات ایک جیسی ہیں - دونوں کی عوام کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں اور ایک ہی نظریہ پر کاربند ہیں -

قانونی طور پہ کشمیر بھارت کا حصہ نہیں :

’’کشمیرپر بھارت کا قبضہ مکمل طور پہ غیر قانونی ہے‘‘ اِس کے دلائل برطانوی منصف ا لیسٹر لیمب نے اپنی کتاب ﴿Kashmir: A Disputed Legacy, 1846-1990﴾ میں لکھے ہیں ، مصنف کا زیادہ اصرار اِس بات پہ ہے کہ راجہ کی جو دستاویزِ الحاق کہی جاتی ہے وہ مکمل طور غیر قانونی ہے - اس کے بقول دستاویز کے غیر قانونی ہونے کی وجوہات یہ ہیں-

۱-الحاق غیر قانونی تھا،اس کو Stand Still Agreement کی خلاف ورزی بھی کہا جا سکتا ہے جو کہ ریاست جموںو کشمیر نے پاکستان کے ساتھ کیا اور یہ الحاق تقسیم ِ ہند کا اصولی طریقہ کار کے خلاف تھا-

۲مہاراجہ ان وجوہات کی وجہ سے الحاقی دستاویز پر دستخط کرنے کے قابل نہیں تھا-

٭ مہاراجہ چوبیس اکتوبر کو بننے والی ریاست آزادکشمیر پر کنٹرول کھو چکا تھا-

٭ مہاراجہ ۶۲ اکتوبر کو اپنا سمر کیپیٹل﴿سرینگر﴾ چھوڑ کے بھاگ چکا تھا اورکسی بھی صورت چھوڑی ہوئی ریاست کا فیصلہ کرنے کا اہل نہیں تھا -

اس کے ساتھ ساتھ بھارت نے الحاقی دستاویز کے دستخط ہونے سے پہلے ہی اپنی فوجیں کشمیر میں داخل کر دی تھیں کیونکہ ریاست پٹیالہ نے ۵ مئی ۷۴۹۱ئ کو بھارت یونین کے ساتھ الحاق کیا اور اپنی ریاست کا کنٹرول برٹش حکومت کے سپرد کر دیا-جب الحاق کے وقت بھارتی فوج سرینگرائیر پورٹ پر پہنچی تو ائیرپورٹ کی نگرانی پٹیالہ آرمی﴿جو کہ آزادی سے پہلے برٹش آرمی تھی اورآزادی کے بعد بھارت کی فوج تھی﴾ کر رہی تھی - پٹیالہ آرمی کی موجودگی کئی سوالات کو جنم دیتی ہے-

کشمیر میں جارحیت کِس نے پہلے کی؟

برٹش حکومت اور بھارتی رہنمائوں کے علم میں پٹیالہ آرمی کی کشمیر میں مداخلت کیوں نظرنہیں آئی؟

-اگر بھارتی حکومت کومعلوم تھا تو ستائیس اکتوبر کو الحاق کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

 -مہاراجہ کے ذریعے الحاق کر کے مدد کرنا تھا یا پہلے سے موجود فوج میں اضافے سے قبضہ مضبوط کرنا تھا؟

السٹر لیمب کے بقول : پٹیالہ آرمی کا کشمیر میں ا لحاقی دستاویز کے دستخط ہونے سے پہلے موجود ہونا ،کشمیر کے الحاق کے عمل کا مشکوک ہونا اور الحاق کا غیر قانونی ہونا، یہ سب حقائق اِس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ بھارتی قبضہ غیر قانونی ہے- کشمیری عوام اورپاکستان نے غیر قانونی الحاقی دستاویز اور ظالمانہ بھارتی قبضہ کو نہیں مانا۔ اَقوام متحدہ نے الحاق کے معاملے کو کشمیری عوام کی اُمنگوں سے حل کرنے کے لیے قرار دادیں پاس کیں ہیں-

قانونی طور پہ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے:

کشمیر قانونی طور پر پاکستان کا حصہ ہے جِس کے متعلق تاریخ سے ہمیں بے شمار دلائل ملتے ہیں-قانون تقسیمِ ہند کے مطابق مسلم اکثریتی علاقے پاکستان میں شامل ہوں گے - کشمیر کے ہندو مہاراجہ نے تقسیم ہند کے وقت اپنی آزاد حیثیت کو برقرار رکھا اور ریاست کے الحاق کا فیصلہ عوا م کی امنگوں سے کرنے کا کہا مگر قارئین کو بتاتے چلیں کہ کشمیری عوام تو پہلے ہی ۹۱ جولائی کو مسلم کانفرس کی زیرِ قیادت پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرار داد منظور کر چکی تھی-مگر جب مہاراجہ نے کشمیر کا الحاق بھارت کے ساتھ کرنا چاہا تو عوام نے ۴۲ اکتوبر کو مہاراجہ کی حکومت کو ختم کرتے ہوئے آزاد ریاست کا اعلان کر دیا جِس کا الحاق وہ 19 جولائی 1947 ئ کو پاکستان کے ساتھ کر چکے ہیں -

قانو ن تقسیم ِہند کے تمام قواعد جِن کے تحت تقسیمِ ہند ہو رہی تھی وہ اِس بات کا ثبوت ہیں کہ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے - جیسا کہ مسلم اکثریتی آبادی، کشمیر کا پاکستان سے واحد زمینی رابطہ اور بقائ کے لیے کشمیر اور پاکستان کا ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہوناشامل ہیں- لہٰذا قانونِ تقسیم ہند کے تحت کشمیری عوام نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا یہ الگ بات ہے کہ مہاراجہ اور برٹش انڈیا کی حکومت نے عوام کے فیصلے کو رد کرتے ہوئے غیر قانونی و ظالمانہ قبضہ کر لیا-

کشمیریوں کی الحاقِ پاکستان کی جد و جہد:

جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ کشمیر کی جدوجہد ڈوگرا دورِ حکومت میں نہیں بلکہ سکھوں کے دورِ حکومت سے شروع ہوئی مگر وہ جدوجہد صرف حقوق کی جنگ تھی مگر جب برِّصغیر کے مسلمانوں نے قائد اعظم کی قیادت میں ایک الگ وطن کا مطالبہ کیا تو کشمیر کی جدوجہدکا ایک نیا باب کھلا جِس نے حقوق کی جنگ کو آزادی کی جنگ میں تبدیل کر دیا- کشمیری عوام بھی برصغیر کے مسلمانوں سے ملکر پاکستان کا مطالبہ کرنے لگے مگر ان پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے گئے جو جدوجہد کی آگ میں ایندھن کا کام کرتے گئے اور آخر کار تقسیم ِ ہند کے وقت جب ان کو آزادی سے محروم کیا جا رہا تھا تو کشمیریوں نے خود عملی اقدامات کرتے ہوئے مہاراجہ سے آزادی حاصل کر لی-

 کشمیری عوام کا خوابِ آزادی اْس وقت ادھورا رہ گیا جب کشمیر پر بھارت نے فوج کشی کی اور مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا،صرف جموں میں تقریباً دو لاکھ مسلمان شہید کئے گئے-مگر یہ قبضہ بھی کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو ختم نہ کر سکا اور آج بھی کشمیری عوام بھارتی مظالم کے باوجود اپنی جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے - کشمیر کی پاکستان سے الحاق کی جدوجہد نسل در نسل چلی آ رہی ہے اور چلتی رہے گی کیونکہ کشمیر یوں نے جو آزادی کا دِیا اپنے خون سے جلایا ہے ،جب تک اْس کی روشنی پورے کشمیر کو روشن نہیں کرے گی کشمیری اپنا خون دیتے رہیں گیں-

ستر سال گزرنے کے باوجود کشمیریوں کا پاکستان کے لئے جوش و جذبہ کم ہونے کی بجائے بڑھا ہے اور اس کا ایک ثبوت مختلف اوقات میں کشمیر کے مختلف علاقوں میں پاکستانی جھنڈا لہرایا جانا ہے،کھیلوں میں پاکستان کی فتح پر جشن اوراپنے ہر جلسہ و جلوس میں پاکستان کی سلامتی کی دعا کرنا قابضین کے منہ پر طمانچہ کے مترادف ہے-

پاکستان کشمیریوں کے مقدمہ کا وکیل:

ہندوستان میں جدوجہد ِ آزادی قائد اعظم کی قیادت میں شروع ہوئی اور تب ہی سے وہی قیادت جو ہندوستان میں مسلمانوں کی وکیل تھی پاکستان بننے کے بعد کشمیر کے حقوق کے لیے وکالت شروع کی- بھارت جب مسئلہ کشمیر کو اقوامِ متحدہ میں لے کر گیا تو پاکستان کشمیری رہنمائوں اور کشمیر کی آوازبن کر اقوامِ متحدہ میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پہنچ گیا اور قائد اعظم کی سوچ اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اقوام متحدہ میں اپنے دلائل دیے- پاکستان نے مسئلہِ کشمیر کو دنیا کے سامنے ایک المیہ انسانی حقوق کی صورت میں پیش کیا اوردُنیا کو باور کروایا کہ بھارت نے کِس طرح مسلمانوں کا حق چھینا اور ان کے علاقوں پر غیر قانونی قبضہ کیا-

گزشتہ سات دہائیوں کے دوران پاکستان نے اس کیس کو ہمیشہ عالمی فورمز پر اٹھایا ہے اور حتیٰ کہ 1971 ئ میں دو لخت ہونے کے باوجود اپنے اصولی موقف سے پیچھے نہیں ہٹا اور ان کی قانونی، اخلاقی اور سفارتی مدد جاری رکھی - دُشمن پاکستان کے اند ر اتنی نفرت پھیلانا چاہتا ہے کہ پاکستانی عوام و حکومت کشمیر جیسے مسئلے پر بات نہ کر سکے مگر کشمیری بہن بھائیو ں کی طرح پاکستانیوں کا جذبہ بھی کبھی ماند نہیں پڑے گا- اسی طرح آج بھی پاکستان کشمیر کی آواز بن کر دنیا کے سامنے کشمیریوں کے مسائل کو بلند کر رہا ہے کیونکہ بغیر حقیقت اور اچھے دلائل کے دُنیا آپ کا ساتھ نہیں دے گی اور اکیلے آپ اِس قانونی جنگ کو نہیں جیت سکتے اِس لیے ہمیں قائد اعظم کی پیروی کرتے ہوئے اپنے دلائل کو مضبوط کرنے اور اپنے حق کے لیے قانون کی بہتر سمجھ بوجھ رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ تشدد کا راستہ آپ کو مزید الجھنوں میں ڈال سکتا ہے-

کشمیر اور کشمیریوں کی موجودہ صورتحال:

بھارت نے کشمیر میں امن اور اِس مسئلہ کے حل کے لیے کبھی سنجیدہ کوششیں ہی نہیں کی بلکہ بہانے بہانے سے کشمیر کے ماحول کو خراب کر کے الزام پاکستان پر ڈال دیتا- بھارت نے پاکستان سے چار جنگیں ﴿1948،1965،1971اور 1999﴾ لڑی ہیں جن کا بالواسطہ یا بلا واسطہ تعلق مسئلہ کشمیر سے تھا - دنیا کے بڑھتے ہوئے ہوئے دبائو کے پیشِ نظر بھارت کشمیریوں کا حق زیادہ دیر اپنے پاس نہیں رکھ سکتا-جیسے برطانیہ نے سکاٹ لینڈ کو حقِ خودارادیت موقعہ فراہم کیا اِسی طرح ایک دِن بھارت کو بھی کشمیر یوں کو دینا پڑے گا - مسلم اکثریتی آبادی بھارتی بنیا کے پریشانی کا باعث ہے جِس کے لیے بھارت قبضے کی آڑ میں ایسے کالے قوانین لایا جِن کے تحت کشمیریوں کے ساتھ ایسارویہ اپنایا جاتا ہے جو شائد جانوروں کے ساتھ بھی نہیں اپنایا جاتا -

بھارتی حکومت کشمیریوں کا بنیادی حق ، حقِ خود اِرادیت زیادہ دیر تک اپنے پاس نہیں رکھ سکتا یہ بات بھارت بھی جانتا ہے جِس کے لیے اسے کشمیر میں ہندئو اکثریت چاہیے-اِس مقصد کے لیے ایک طرف بھارتی فوج کشمیریوںکی نسل کشی کر رہی ہے تو دوسری طرف بھارت کشمیر کے مخصوص مقام﴿Special status﴾﴿بھارتی آئین کاآرٹیکل 360کشمیر کو بھارت میں مخصوص مقام دیتا ہے-جِس کے تحت بھارت نہ تو ریاست جموں و کشمیر کے آئین میں تبدیلی کر سکتے ہیں اور نہ ہی بھارت کاکوئی شہری ریاستِ جموں و کشمیر میں کاروبار کر سکتا ہے اور نہ ہی زمین خرید سکتا ہے ﴾ کو ختم کرتے ہوئے ہندو آباد کاری کے ذریعے کشمیر کی آبادیاتی خصوصیات میں تبدیلی کرنا چاہتا ہے - اگر بھارت اِس سازش میں کامیاب ہو گیا جو کہ ناممکن ہے تو کشمیر میں ریفرنڈم کے ذریعے وہ کشمیر پر قانونی قبضہ کرنے کی کوشش کرے گا-اِس لحاظ سے کشمیریوں کو اپنے حقوق،آزادی اور شناخت ہر محاذ پر جنگ کرنی پڑ رہی ہے اور بطور وکیل پاکستان کو مسئلہِ کشمیر کے ہر پہلو سے دنیا کو آگاہ کرنا ہو گا تاکہ بھارت اپنے مذموم عزائم میں کامیاب نہ ہو سکے- بھارت اپنی تمام تر تخریبی ذہنیّت کے با وجود کشمیریوں کو نہیں دَبا سکا ، بلکہ بھارت میں اُٹھنے والی آزادی کی دیگر آوازوں کو بھی نہیں دبا سکا - ایک امر جس کی وضاحت یہاں ضروری ہے کہ کشمیر علیحدگی کی تحریک نہیں بلکہ آزادی کی تحریک ہے ، کیونکہ کشمیریوں نے ایک لمحہ کیلئے بھی ہندوستان کے قبضہ کو تسلیم نہیں کیا ، علیحدگی تو تب ہو جب انہوں نے کبھی تسلیم کیا ہو - اِس لئے کشمیری روزِ اوّل سے آزادی اور حریت اور حقِّ خود ارادیت کی جنگ لڑ رہے ہیں -

بھارت کی دیگر علیحدگی پسند تحریکیں:

تقسیم ہند کے وقت ہندو سوچ اورآخری وائسرائے لارڈمائونٹ بیٹن کے اقتدار نے مہا بھارت کا جو نعرہ و عَلم بلند کیا اُس کے نیچے ریاستوں کے مہاراجوں نے جمع ہونا شروع کر دیا اور جو نہیں آنا چاہتے تھے ان کو زبردستی اُس پرچم کے نیچے اکٹھا کیا گیا تو انہوں نے بھارت کی حکمرانی تسلیم کر لی-

بھارت کے قیام سے اب تک وقتاًفوقتاً کئی علیحدگی پسند تحریکوں نے بھارتی ہندوئوں وحکومت کی ناانصافیوں،نظریاتی ،مذہبی و معاشرتی تفریق اور حقوق کی عدم فراہمی سے تنگ آ کر سیکولر بھارت کو ٹھکراتے ہوئے اپنی الگ آزاد ریاستوں کے قیام کا مطالبہ کیا - ان تحریکوں کی تعداد تقریباً سا ٹھ سے زیادہ ہے جن میں کچھ نے حقوق﴿مقامی سطح پر﴾ اور کچھ نے ﴿قومی سطح ﴾ آزادی کے نعروں سے زور پکڑا-

قومی سطح پرسب سے بڑی علیحدگی پسندسکھوںکی تحریکِ خالصتان ہے جِس کا مطالبہ مشرقی پنجاب پر مشتمل ایک الگ آزاد ریاست خالصتان کا قیام ہے- یہ تحریک بھارتی حکومت و ہندوئوں کی سکھوں کے ساتھ ناانصافیوں کی وجہ سے ابھری اورگولڈن ٹیمپل ﴿Golden Tample﴾ میں سکھوں کی قتل و غارت و سکھوں کی مذہبی مقام کی بے حرمتی کے بعد اس نے زور پکڑ ا اور آج بھی بھارت میں رہنے والے سکھ اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں-

بھارت کے شمال مشرق میں سات بہنوں ﴿Seven Sister states﴾کے نام سے مشہور ریاستوں میں علیحدگی پسند تحریکیں کام کر رہیں جہاں عیسائی ، برمی اور تبتین اکثریت میں ہیں-جن میں صوبہ آسام میں چونتیس علیحدگی پسند تحریکیں کام کر رہی ہیں جن کا مطالبہ بھی آزادی ہے- اسی طرح ناگالینڈ کے ناگل باغی بھی حکومتِ بھارت کے خلاف ہتھیار اٹھا چکے ہیں - مانی پور اور تری پورا کی تحریک ِ آزادی بھی قابلِ ذکر ہے-

بھارت ایک طرف تو خطہ کی سپر پاور بننے کے خواب دیکھ رہا ہے مگر دوسری طرف جگہ جگہ سے سر اٹھاتی علیحدگی پسند تحریکیں جو اس کے اپنے وجود کیلئے خطرہ ہیں -

بھارت ٹوٹ جائے گا:

ایک تو بُنیادی تصور یہ واضح کر لینا چاہئے کہ بھارت موجودہ نقشہ کے ساتھ کبھی بھی دُنیا میں نہیں رہا ، متحدہ بھارت کا تصور محض فریب ہے کیونکہ تاریخ میں بھارت ہمیشہ کسی طاقتور کے پنجۂ طاقت میں متحد رہا ، جیسے ہی وہ طاقت ہٹی بھارت کے ٹکڑے ہو گئے - اشوکا ، سکندر ، مغل اور انگریز سب اِسی بات کی زندہ مثالیں ہیں کہ بھارت کے متحد ہونے کی وجہ کسی طاقت کا اپنا مفاد ہوتا ہے ورنہ قومی طور پہ اتحاد کا کوئی فلسفہ موجودہ بھارت میں موجود نہیں - مختلف رنگ و نسل ،مذہب و ثقافت ، شناخت و سوچ ﴿نظریہ﴾،علاقہ و قوم کے لوگوں کو ہندو انتہا پسند ذہنیت کیساتھ اتنے متنوع معاش کے ساتھ زیادہ دیر یکجا رکھنا ممکن نہیں-کسی ملک میں کچھ لوگوں کا تضاد تو ہو سکتا مگر ہم بھارت کی بات کریں تو ہمیں ہر صوبے میں تقریباً علیحدگی پسند تحریک کا وجود دیکھتے ہیں اورہندو ذہن جو خون کی ہولی کشمیر، پنجاب ، گجرات ، حیدر آباد اور شمال مشرق کی ریاستوں میں کھیل رہا ہے اُس کی آگ آہستہ آہستہ پورے بھارت میں پھیل رہی ہے جسے بھارتی میڈیا ظاہر نہیں کرتا اور حکومت پاکستان پر الزام لگا کر حقیقت سے دوربھاگتا ہے اوربھارت جد و جہدِ کشمیر کو اس لئے بھی دباتا ہے کہ اگر ایک تحریکِ آزادای کامیاب ہوئی تو یہ سلسلہ چل نکلے گا اور بھارتیوں کیلئے باقی ریاستوں میں روکنا ناممکن ہو جائے گا - لیکن کشمیر انشااللہ آزاد ہو کر رہے گا اور اسی طرح غاصب بھارت کے ٹکڑے ہونا نوشتۂ دیوار ہے -

 آزادی کشمیر کی تحریک کا روشن مستقبل:

یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ شہیدوں کا خون رنگ لاتا ہے جیسا علامہ صاحب فرماتے ہیں-

 اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹْوٹا تو کیا غم ہے

 کہ خْونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سَحرپیدا

کشمیری عوام اپنے حق ﴿حقِ خودارادیت﴾ کے لیے جِس جوش وجذبہ کا مظاہرہ کیا ہے اور کر رہی ہے یہ اُس کامیابی کی ضامن ہے جِس کے لیے کشمیری دہائیوں سے خون دے رہے ہیں- کشمیری عوام بھارتی مظالم کو بروئے کار لائے بغیر اپنی جدوجہد کو پوری دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں اور اِس تحریک کو مضبوط سے مضب?

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر