زبدۃ الاسرار (از : شیخ عبد الحق محدِّثِ دہلوی)

زبدۃ الاسرار (از : شیخ عبد الحق محدِّثِ دہلوی)

زبدۃ الاسرار (از : شیخ عبد الحق محدِّثِ دہلوی)

مصنف: مترجم : ایس ایچ قادری جولائی 2015

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے جس نے اپنے اَولیاء پر اپنا وہ علم کھولا جس کا عقل و قیاس اِحاطہ نہیں کر سکتی اور جس نے اَولیاء کرام سے محبت کرنے والوں اور اِن کے معتقدین کو اُس مقام و مرتبہ کا وِصال عطا فرمایا جس تک تمام لوگوں کا پہنچنا ممکن نہیں ہے- اُس کے حبیب مصطفی ، رسولِ مجتبیٰ ﷺ  پر درود ہو جن کی عطا کی ہوئی شریعت میں آپ ﷺ کی اتباع کے بغیر بلند مراتب کی معراج ممکن نہیں- جو شخص آپ ﷺ کی کثرت سے اتباع کرنے والا ہو اُس کی فضیلت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے - بے شک تم میں سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ مکرم و معزز وہ شخص ہے جس کا تقویٰ تم میں سے سب سے زیادہ ہے- آپ ﷺ کے آل و اصحاب رضوان اللہ علیھم اجمعین پر درود ہو جو ہدایت کے ستارے ہیں اور آپ ﷺ کے تمام اِتباع کرنے والے اصحابِ  کرام پر رحمتیں نازل ہوں-

حمد و ثنا کے بعد! یہ کتاب غوث الثقلین، زمینوں و آسمانوں کے امیر، شیخ الکُل ، الشیخ محی الدین ابو محمد عبد القادر الجیلانی کی منقبت میں ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوتے ہوئے فرمایا کہ میر ا یہ قدم اللہ تعالیٰ کے ہر ولی کی گردن پر ہے رضی اللہ تعالیٰ عنہ و عن جمیع الاولیآء- یہ کتاب ’’بہجۃ الاسرار‘‘ کا مختصر انتخاب ہے جس میں اختصارِ کلام اور مقاصد کو مد نظر رکھتے ہوئے سلسلۂ سند کو محذوف کر دیا گیا ہے اور اس میں یہ نیت بھی ملحوظِ خاطر ہے کہ فقیر کاتب عبد الحق ابن سیف الدین دھلوی البخاری جو اللہ باری تعالیٰ کے کمزور بندوں میں سے ہے، اللہ تعالیٰ اس کا نام شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مدحت کنندگان اور محبت کرنے والوں کے صحیفہ میں لکھ لے اور اسے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جملہ مریدین میںداخل کرکے آپ کے طلبگاروں اور معتقدین کے زُمرہ میں شامل کر لے- اللہ تعالیٰ کے قرب و وصال کے شرف سے دُور اُفتادگان کا یہی حال ہے کہ انہیں محبوب کے مشاہدہ سے محروم کر دیا گیا ہے پس اس حسن و جمال کے اوصاف کا مطالعہ بھی کم فائدہ نہیں رکھتا اور اللہ کریم سے یہ اُمید ہے کہ وہ اپنے فضلِ عظیم سے ہمیں محروم نہیں رکھے گا- بے شک وہ جود و سخا کا مالک، مہربان اور رئوف و رحیم ہے - اے ہمارے رب ہماری یہ دعاقبول فرما بے شک تو سننے والا اور جاننے والا ہے-

شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب و فضائل بے حد و بے شمار ہیںجنہیں ضبطِ تحریر میں لانا ممکن نہیںہے اور جو کچھ ہم نے اس کتاب میں لکھا ہے وہ فضائل و مناقب کے سمندروں کا ایک قطرہ اور ان کی بنیادوں کا ایک ذرہ ہے- امام الاجل الکبیر ، شیخ الحرمین، عبد اللہ یافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

’’ سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب اتنے آشکار ہیں کہ قافلوں کے اَوراق اس کی وسعت کا احاطہ نہیں کر سکتے اور باغات کے درخت اس کو اٹھا نہیں سکتے اور آپ کے مراتب اس قدر بلند ہیں کہ بڑے بڑے عرفاء بھی اس پر غالب نہیں آسکتے، وصف بیان کرنے والوں کے اُسلوب ان کا احاطہ نہیں کر سکتے- اگر قلموں کی زبانیں ان کا بیان شروع کردیں تو عاجز آجائیں اور اگر مخلوق کے پورے ان کو لکھنا شروع کردیں تو وہ گھس جائیں-‘‘

امام کا یہ کلام حق ہے اس میں کوئی شبہ نہیں ہے اور ہم اس کلام کو دلیل کے ساتھ ذکر کریں گے - شیخ محی الدین الجیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے بچپن سے ہی بلکہ اوّل دن سے ہی خوارقِ عادات کے مظہر اور ولایت کے مسکن تھے اور اس کی کثیر روایات ہیں- ایک روایت ہے :-

{اِنَّہٗ کَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ لَا یَرْضَعُ ثَدَیْ اُمِّہٖ فِیْ نَھَارِ رَمَضَانَ}

’’ شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ رمضان المبارک میں دن کے وقت اپنی والدہ محترمہ رحمۃ اللہ علیھا کا دودھ نہیں پیتے تھے-‘‘

ایک روایت ہے :-

{اَنّہٗ سُئِلَ عَنْہُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ مَتٰی عَرَفْتَ اَنَّکَ وَلِیُّ اللّٰہِ؟

’’شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا کہ آپ نے خود کو کب پہچانا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے ایک ولی ہیں؟ ‘‘

{قَالَ کُنْتُ وَ اَنَا ابْنُ عَشْرِ سِنِیْنَ اَخْرُجُ مِنْ دَارِنَا فَاَذْھَبُ اِلَی الْمَکْتَبِ وَ اَنْظُرُ الْمَلَآئِکَۃَ یَمْشُوْنَ حَوْلِیْ فَاِذَا وَصَلْتُ اِلَی الْمَکْتَبِ سَمِعْتُ الْمَلَآئِکَۃَ تَقُوْلُ لِلصِّبْیَانِ افْسَحُوْا لِوَلِیِّ اللّٰہِ حَتّٰی یَجْلِسَ}

’’آپ نے فرمایا: جب میں دس سال کا تھااپنے گھر سے مدرسہ جارہا تھا تو میں دیکھ رہا تھا کہ میرے اِردگرد فرشتے چل رہے ہیں- جب میں مدرسے پہنچا تو بچوں سے فرشتوں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اللہ کے ولی کے لیے جگہ چھوڑ دو تاکہ وہ تشریف فرما ہوجائیں-‘‘

اس جیسی دیگر روایات ہم اپنے اپنے مقام پر ذکر کریں گے- شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی عمر کے نوے سال تک پہنچ گئے تمام معاملات میں آپ کی کرامات مسلسل پیش آتی رہیں اور خلافِ معمول اُمور ہمیشہ ظاہر ہوتے رہے- جیسا کہ شیخ الجلیل علی بن الھیتی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے :-

’’میں نے اپنے زمانے میں کسی کو نہیں دیکھا کہ اس کی کرامات شیخ عبدا لقادر جیلانی سے زیادہ ہوں- کوئی شخص جس وقت کرامت دیکھنا چاہتا وہ اسی وقت دیکھ لیتا تھا- یہ کرامت کبھی آپ کے ذات سے ظاہر ہوتی کبھی آپ کے سبب سے اور کبھی آپ کی وجود مبارک میں ظاہر ہوتی تھی- ‘‘

حضرت شیخ کبیر شیخ شہاب الدین عمر سہروردی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے ، انہوں نے فرمایا :-

’’ شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پوری تحقیق سے طریقت کے سلطان اور وجود پر غالب تھے اور آپ کی خوارقِ عادات، افعال اور تصرف میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیشہ کے لیے دست مبارک کشادہ تھا- ‘‘

حضرت شیخ ابو سعید احمد بن ابو بکر الحریمی اور شیخ ابو عمرو عثمان الصریفنی رحمۃ اللہ علیھما سے منقول ہے:-

’’ شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کرامات جواہرات سے جڑے ہار کی طرح تھیں کہ بعض بعض کی پیروی کرتی تھیں اور ہم میں سے کوئی شخص اگر ان میں سے کچھ کو شمار کرنا چاہتا تو وہ کر سکتا تھا-‘‘

پس دیکھ لیں کہ نوے سال کی عمر مبارک میں شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہکی عجائبات و کرامات کی تعداد مسلسل دوام کے ساتھ کس انتہاء کو پہنچ گئی تھیں- یہ تو خوارقِ عادات کا تذکرہ ہے- آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہکے مناقب، علمی و عملی فضائل کی تفاصیل اور ابتداء اور انتہاء میں آپ کے احوال و اقوال کی اخلاقیات بہت دور تک پہنچی ہوئی ہیں پس اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب و کرامات اس انتہاء تک پہنچ گئی ہیں کہ جنہیں نہ تو پورے وثوق سے گِنا جاسکتا ہے اور نہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے- یہاں ان کی کثرت مقدار کے لحاظ سے تو فائدہ مند ہے جہاں تک کیفیت کے اعتبار سے ان کی عظمت کی بات ہے تو وہ دورانِ بیان ہی ظاہر ہوگی-

(’’بہجۃ الاسرار‘‘ میں) تمام بزرگان نے وہ باتیں ذکر کی ہیں جو اُن کے نزدیک صحیح روایات سے ثابت ہیںجو اُنہوں نے عادِل اور ثِقہ (قابلِ اعتماد) اَکابر مشائخ اوروقت کے اقطاب ، جن کی طرف شکوک و شبہات کا ایک ذرہ بھی راہ نہیں پا سکتا ، سے روایت کی ہیں- اسی لیے امام یافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے :-

’’ شیخ غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کی کرامات حدِّ تواتر تک پہنچ گئی ہیں اور بالاِتفاق معلوم ہوئی ہیںاور ان کرامات کی مانند آفاق کے کسی شیخ سے منقول نہیں ہیں-‘‘

میں نے بعض علماء سے سنا ہے کہ انہوں نے شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب میں بارہ (۱۲) کتابیں دیکھی ہیں اور کتاب ’’بہجۃ الاسرار‘‘ جس سے ہم نے یہ سب کچھ بیان کیا ہے ، اُن بارہ کتابوں میں سے ایک ہے- جو کچھ اس کتابِ مذکور میں ہے اس میں سے بہت کچھ ہم نے چھوڑ دیا ہے- جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے ، طالب کے لیے کافی ہے- ’’بہجۃ الاسرار‘‘ شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ پر مشتمل ہے اور (اس کے علاوہ) شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے احترام کرنے والے بعض مشائخ کے مناقب پر، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان کی عظمت بیان کرنے والوں کے فضائل پر ، جو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے زمانے کے لحاظ سے متقدم ہیں اور آپ کے بلند مراتب اور ظہور کی بشارتیں دینے والے ہیں ان کے محاسن و محامد پر اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہم عصر کے خصائل پر جو آپ کی فضیلت کا اعتراف کرنے اور آپ کے حکم کی اطاعت کرنے والے ہیں، (وہ کتاب) اِن تمام کے مناقب پر مشتمل ہے- جو کچھ ان بزرگان سے شیخ غوث الاعظم  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ا حترم کے بارے میں صادر ہوا ہے ہم نے اُسی پر ہی اکتفا کیا ہے- جو کوئی اِن تمام بزرگان کے اوصافِ حمیدہ اور اِن کے فضائل سے آگاہ ہونا چاہتا ہو اُسے چاہے کہ وہ اُس کتاب (’’بہجۃ الاسرار‘‘) سے رجوع کرے-

’’بہجۃ الاسرار‘‘ الشیخ امام بزرگ، فقیہ عالم نورالدین ابو الحسن علی ابن یوسف الشافعی اللخمی رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف ہے- ان کے اور شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درمیان دو واسطے ہیں اور وہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس بشارت میں داخل ہیں جو آپ نے اپنی زیارت کرنے والوں کے بارے دی- جیسا کہ فرمایا:-

{طُوْبٰی لِمَنْ رَاٰنِیْ  وَ لِمَنْ رَاٰی مَنْ رَاٰنِیْ  وَ لِمَنْ رَاٰی مَنْ رَاٰی مَنْ رَاٰنِیْ}

’’خوشخبری ہے اس شخص کے لیے جس نے مجھے دیکھا، اور اس شخص کے لیے جس نے مجھ دیکھنے والے کو دیکھا، اور اس کے لیے بھی جس نے مجھے دیکھنے والے کی زیارت کرنے والے کو دیکھا- ‘‘

صاحبِ ’’بہجۃ الاسرار‘‘ شیخ ابوالحسن علی ابن یوسف الشافعی رحمۃ اللہ علیہ کے شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مدحت میں چند اشعار ہیں:-

عَبْدٌ لَّہٗ فَوْقَ الْمَعَالِیْ رُتْبَۃٌ

وَ لَہُ الْمَمَاجِدُ وَ الْفَخَّارُ الْاَفْخَرُ

’’شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایسے عبد ہیں کہ ُان کا رُتبہ بلندیوں سے بھی بالا ہے اُن کے لیے تمام بزرگیاں، تمام فخر ہیں-‘‘

وَ لَہُ الْحَقَائِقُ وَ الطَّرَائِقُ فِی الْھُدٰی

وَ لَہُ الْمَعَارِفُ کَالْکَوَاکِبِ تَزْھَرُ

’’ اُن کے لیے تمام حقائق اور ہدایت کے تمام راستے ہیں اور اُن کے لیے حکمت و معرفت ستاروں کی طرح چمکتی ہے-‘‘

وَ لَہُ الْفَضَائِلُ وَ الْمَکَارِمُ وَ الْھُدٰی

وَ لَہُ الْمَنَاقِبُ فِی الْمَحَافِلِ تَنْشُرُ

’’ اُن کے لیے تمام فضائل، تمام عزتیں اور تمام ہدایات ہیں اور اُن کے ایسے اَوصافِ حمیدہ ہیں جو محافل میں برسرِ عام ہو گئے ہیں-‘‘

وَ لَہُ التَّقَدُّمُ وَ التَّعَالِیْ فِی الْعُلاَ

وَ لَہُ الْمَرَاتِبُ فِی النِّھَایَۃِ تَکْثُرُ

’’شرفِ بُزرگی میں اُنہی کے لیے بلندیاں اور برتری ہے اور اُن کے ایسے درجات ہیں جو اپنی انتہا کو پہنچ کر مزید بڑھ گئے ہیں-‘‘

غَوْثُ الْوَرٰی غَیْثُ النَدٰی نُوْرُ الْھُدٰی

بَدْرُ الدُّجٰی شَمْسُ الضُّحٰی بَلْ اَنْوَرُ

’’شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ مخلوق کے مددگار ہیں، سخاوت کے موسلہ دھار بادل اور ہدایت کے نور ہیں- شب تاریک میں چودھویں کے چاند، چاشت کے سورج بلکہ اس سے بھی زیادہ منور ہیں-‘‘

مَا فِی عَلَاہُ مَقَالَۃٌ لِّمُخَالِفٍ

فَمَسَائِلُ الْاِجْمَاعِ فِیْہِ تُسْطَرُ

’’آپ رضی اللہ عنہ کی رِفعت میں کسی مخالف کے لیے بحث کی گنجائش نہیں ہے، آپ کی ذات مبارکہ کے بارے اجماعی مسائل لکھے گئے ہیں-‘ ‘

اب ہم اللہ تعالیٰ کی اوّل و آخر حمد بیان کرتے ہوئے اور اس کے نبی پر اور آپ ﷺ کی آل پر ظاہراً باطناً درود بھیج کر اس کی توفیق سے اصل مقصود میں شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہکے اس قول کو ذکر کرتے ہیں جو آپ نے فرمایا:-

{قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلِیٍّ لِّلّٰہِ}

’’میرا یہ قدم اللہ تعالیٰ کے ہر ولی کی گردن پر ہے-‘‘

اور (اس کے ساتھ ساتھ) شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اس پر مامور ہونے، سابقہ مشائخ کا اس قول کی خبر دینے، آپ کے ہم زمانہ اولیاء کا اس حکم میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیروی کرنے اور جب آپ نے یہ فرمایا تو مشرق و مغرب کے تمام حاضر و غائب اولیاء اللہ کا اپنی گردنیں جھکا دینے اور اِس فرمان میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا احترام کرنے کی بھی یاد آوری کرتے ہیں-

فقہاء اور مشائخ کی ایک جماعت نے خبر دی ہے ان مشائخ میں سے آخری شیخ ابو محمد الشنبکی نے شیخ ابو بکر بن ہرار رضی اللہ عنھم اجمعین سے روایت کرتے ہوئے خبر دی کہ 

{ اَنَّہٗ جَرٰی فِیْ مَجْلِسِہٖ یَوْمًا بَیْنَ اَصْحَابِہٖ ذَکَرَ اَحْوَالَ الْاَوْلِیَائِ ثُمَّ قَالَ سَوْفَ یَظْھَرُ بِالْعِرَاقِ رَجُلٌ مِّنَ الْعَجَمِ عَالِی الْمَنْزِلَۃِ عِنْدِ اللّٰہِ وَ عِنْدَ النَّاسِ اسْمُہٗ عَبْدُ الْقَادِرِ وَ مَسْکَنُہٗ بَغْدَادُ یَقُوْلُ قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَقْبَۃِ کُلِّ وَلِیٍّ لِّلّٰہِ وَ یَدِیْنُ لَہُ الْاَوْلِیَآئُ فِیْ عَصْرِہٖ ذٰلِکَ الْفَرْدُ فِیْ وَقْتِہٖ}

’’ایک دن وہ اپنے اصحاب میں مجلس افروز ہوئے اور اولیاء کرام کا تذکرہ فرمایا پھر فرمایا کہ عراق میں ایک عجمی مرد ظاہر ہوگا جو اللہ تعالیٰ اور لوگوں کے نزدیک انتہائی بلند مرتبہ ہوگا ، اس کا نام عبد القادر ہوگا اور وہ کہے گا کہ میرا یہ قدم ہر ولی اللہ کی گردن پر ہے- ان کے زمانے میں اولیاء اللہ ان کی اطاعت بجا لائیں گے اور وہ اپنے وقت میں یکتا ہوں گے-‘‘

مشائخ کے ایک گروہ نے خبر دی جن میں سے آخری شیخ امام ابو یعقوب یوسف بن ایوب الھمدانی رحمۃ اللہ علیہ ہیں- انہوں نے فرمایا کہ میں نے اپنے شیخ ابو احمد عبد اللہ بن علی بن موسیٰ الجونی رحمۃ اللہ علیہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ

{اَشْھَدْتُ اَنَّہٗ سَیُوْلَدُ بِاَرْضِ الْعَجَمِ مَوْلُوْدٌ لَّہٗ مَظْھَرٌ عَظِیْمٌ بِالْکَرَامَاتِ وَ قُبُوْلٌ تَامٌّ عِنْدَ الْکَافَّۃِ وَ یَقُوْلُ قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلِیٍّ لِّلّٰہِ وَ یَنْدَرِجُ الْاَوْلِیَآئُ فِیْ زَمَانِہٖ تَحْتَ قَدَمِہٖ ذٰلِکَ الَّذِیْ شُرِفَ بِہٖ زَمَانُہُ وَ بِہٖ یَنْتَفِعُ مَنْ وَّرَآئَہٗ}

’’میں گواہی دیتا ہوں کہ عنقریب عجم کی سرزمین پر ایک بچہ پیدا ہوگا جو کرامات کا مظہر عظیم ہوگا اور سب کے نزدیک ان کی قبولیت کامل و تمام ہوگی اور وہ فرمائے گا کہ میرا یہ قدم تمام اَولیاء اللہ کی گردن پر ہے اور ان کے زمانے کے اَولیاء ان کے قدم کے نیچے اپنی گردنیں جھکا لیں گے- ان کی بدولت ان کے زمانے کو شرف نصیب ہوگا اور ان کے بعد والے ان سے بہرہ مند ہوں گے-‘‘

مشائخ کی ایک جماعت نے شیخ عقیل المنجی رحمۃ اللہ علیہ (جو کہ حضور غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قبل گزرے ہیں ) سے روایت کرتے ہوئے خبر دی ہے اور یہ ان چار بزرگوں میں سے ایک ہیں جن کے بارے میں شیخ علی القرشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ

{رَاَیْتُ اَرْبَعَۃً مِّنَ الْمَشَائِخِ یَتَصَرَّفُوْنَ فِیْ قُبُوْرِھِمْ کَتَصَرُّفِ الْاَحْیَآئِ، اَلشَّیْخُ عَبْدُ الْقَادِرِ وَ الشَّیْخُ مَعْرُوْفٌ کَرْخِیٌ وَ الشَّیْخُ عَقِیْلُ نِ الْمُنْجِیْ وَ الشَّیْخُ حَیَاتُ بْنُ قَیْسِ نِ الْحَرَّانِیُّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ }

’’میں نے چار مشائخ کو اپنی قبور میں زندوں کی طرح تصرف کرتے ہوئے دیکھا ہے ایک شیخ عبد القادر ہیں، دوسرے شیخ معروف کرخی ہیں، تیسرے شیخ عقیل المنجی ہیں اور چوتھے شیخ حیات بن قیس الحرانی ہیں رضی اللہ عنھم اجمعین-‘‘

روایت کیا گیا ہے کہ ایک دن شیخ عقیل المنجی سے اس وقت کے قطب کے بارے عرض کی گئی تو آپ نے فرمایا کہ

’’وہ ہمارے وقت میں مکہ میں مخفی ہے انہیں سوائے اَولیاء اللہ کے کوئی نہیں جانتا - پھرعراق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ عنقریب ایک صاحبِ شرف عجمی نوجوان ظاہر ہوگا جو لوگوں سے (عربی زبان میں) کلام کرے گا اور اس کی کرامات کو ہر خاص و عام پہچان لے گا وہ اپنے وقت کا قطب ہوگا اور کہے گا کہ میرا یہ قدم ہر ولی اللہ کی گردن پر ہے اور تمام اَولیاء اللہ اپنی گردنیں جھکا دیں گے-‘‘

مزید فرمایا:-

{ وَ لَوْ کُنْتُ فِیْ زَمَانِہٖ لَوَضَعْتُ رَاْسِیْ ذٰلِکَ الَّذِیْ یَنْفَعُ اللّٰہُ بِہٖ مَنْ صَدَّقَ بِکَرَامَتِہٖ مِنْ سَائِرِ النَّاسِ}

’’اور اگر میں ان (شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے زمانے میں ہوتا تو اپنا سر جھکا دیتا- ان کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ تمام انسانوں میں سے اسے بہرہ مند فرمائے گا جو ان کی کرامات کی تصدیق کرے گا-‘‘

اور مشائخ کی ایک جماعت نے خبر دی جن میں سے آخری شیخ عبدالرحمن الطفسونجی رحمۃ اللہ علیہ ہیں انہوں نے فرمایا :-

’’شیخ عبد القادر نوجوانی کے عالَم میں ہمارے شیخ تاج العارفین ابو الوفا رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت کے لیے آیا کرتے تھے جب شیخ ابو الوفا نے شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا تو آپ کے احترام میں کھڑے ہوگئے اور اپنی محفل میں موجود لوگوں سے بھی فرمایا کہ اللہ کے ولی کے لیے کھڑے ہو جائو- ایک خاص وقت میں اکثر فرمایا کرتے تھے کہ جو کھڑا نہیں ہوا پس وہ اللہ کے ولی کے لیے کھڑا ہو جائے- ایک دن اپنی ریش مبارک کو پکڑ کر فرمایا کہ ’’اے عبدا لقادر جب تمہارا وقت آ جائے تو اس بوڑھے کو یاد رکھنا- ‘‘

مزید فرمایا:-

{یَا عَبْدَ الْقَادِرِ ! کُلُّ دِیْکٍ یَصِیْحُ وَ یَسْکُتُ وَ دِیْکُکَ یَصِیْحُ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ}

’’اے عبد القادر ہر مرغ اذان دیتا ہے اور خاموش ہو جاتا ہے اور تمہارا مرغ قیامت تک اذان دیتا رہے گا-‘‘

پس جب اِن بزرگ سے یہ بات بتکرار صادر ہوئی تو ان کے کسی ساتھی نے اِن سے اس بارے بات کی تو انہوں نے فرمایا کہ

’’ اس نوجوان (شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ)کا ایک وقت ہے جب وہ آجائے گا تو ہر خاص و عام اِن کا حاجت مند ہو جائے گا اور میں انہیں برسرِ مجمع یہ کہتے ہوئے دیکھ رہا ہوں کہ میرا یہ قدم ہر ولی اللہ کی گردن پر ہے اور یہ اس قول کے حقدار ہیں- پس یہ قول سن کر تمام اَولیاء اپنی گردنیں جھکا دیں گے- پس تم میں سے بھی کوئی اُس وقت کو پائے تو وہ اُن کی خدمت کو اپنے اوپر لازم کر لے- ‘‘

 مشائخ نے خبر دی جن میں سے آخری شیخ العالم شھاب الدین ابو حفص عمر سہروردی ہیں جنہوں نے شیخ ابو نجیب عبد القاہر سہروردی رحمۃ اللہ علیھم اجمعین سے روایت کیا - انہوں نے فرمایا:-

’’میں شیخ حماد کے پاس تھا جو شیخ عبد القادر کے تشریف لے جانے کے بعد فرما رہے تھے کہ اس عجمی (شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کا قدم ایسا ہے جو اپنے وقت میں اُس زمانے کے تمام اَولیاء اللہ کی گردنوں سے بلند ہو جائے گا اور انہیں (یعنی حضور غوث الاعظم کو ) حکم دیا جائے گا کہ وہ یہ کہیں کہ میرا یہ قدم تمام اَولیاء اللہ کی گردنوں پر ہے- پس اِن کے زمانے کے تمام اَولیاء اپنی گردنیں جھکا لیں گے-‘‘

مشائخ کی روایات میں اس قول کے بارے میں اعلانات کثرت سے ہیں-

(جاری ہے)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر