مسئلہ فلسطین : انسانی حقوق کی پامالی

مسئلہ فلسطین : انسانی حقوق کی پامالی

مسئلہ فلسطین : انسانی حقوق کی پامالی

مصنف: مسلم انسٹیٹیوٹ ستمبر 2014

 تحقیقی ادارہ مسلم انسٹیٹیوٹ نے موتمر العالم الاسلامی(World Muslim Congress) کے تعاون کے ساتھ گیارہ اگست ۲۰۱۴ء کو اسلام آبادمیں "مسئلہ فلسطین: انسانی حقوق کی پامالی "(Palestine Conflict: Obliteration of Human Rights) کے موضوع پر ایک بین الاقوامی سیمینار کا انعقادکیا-سیمینار کو دو سیشنز میں تقسیم کیا گیا تھا جن میں ملکی و غیر ملکی تجزیہ نگاروں، دانشوروں، محققین، سیاستدانوں اور مختلف ممالک کے سفارتکاروں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا-سیمینار میںغیر ملکی مبصرین، محققین ، دانشوروں،پروفیسرز، طلباء ،سیاسی و سماجی شخصیات اورصحافیوں نے بھی شرکت کی- روئیدادِ سیمینار کی تلخیص درج ذیل ہے-

پروگرام کی ابتداء تلاوتِ قرآنِ مجید اور ہدیہ نعتِ رسولِ مقبولﷺ کے ساتھ کی گئی-

Session:1

 معروف ٹی وی اینکر فیصل رحمان نے پہلے سیشن میںماڈریٹر کی خدمات سر انجام دیں-

 Opening Remarks

صاحبزادہ سلطان احمد علی

  چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ 

مَیں مسلم انسٹیٹیوٹ اور موتمر العالم الاسلامی کی جانب سے تمام تشریف لانے والے مہمانانِ گرامی کا شکریہ ادا کرتا ہوں- اسرائیل کی جانب سے غزہ کے محاصرہ نے اسے ایک بڑی جیل میں تبدیل کر دیا ہے جہاں اوسطاً ایک مربع میٹر کے اندر چار فلسطینی آباد ہیں اور یہ عمل بذاتِ خود ایک بڑا انسانی المیہ ہے-فلسطین کا مسئلہ سوا صدی کے قریب پراناہے جس پر قائد اعظم ؒاور علامہ اقبال ؒ نے بھی اپنی آواز بلند کی-مسئلہ فلسطین کے متعلق قائداعظم کے چند منتخب فرمودات کو ایک کتابچہ کی صورت میں انسٹیٹیوٹ کی جانب سے شائع بھی کیا گیا ہے جو آج کی نشست کے شرکاء میں تقسیم بھی کیا گیا ہے-

علامہ اقبالؒ نے فلسطین کے متعلق کہا تھا

زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ

مَیں جانتا ہوں وہ آتش ترے وجود میں ہے!

سنا ہے میں نے غلامی سے اُمتوں کی نجات

خودی کی پرورش و لذّتِ نمود میں ہے!

تری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں

فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے!

دُنیا کے بہت سے رہنمائوں نے فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی ہے اور جس طرح لاطینی امریکہ کے ممالک اورجنوبی افریقہ نے اسرائیل کا سماجی بائیکاٹ کیاہے وہ قابلِ تعریف ہے بلکہ جنوبی افریقہ نے تو اسرائیلی مصنوعات پر تجارتی شرط عائد کی ہے کہ ہم صرف وہ اسرائیلی اشیا خریدیں گے جن پر ’’میڈ اِن اسرائیل‘‘ کی بجائے ’’میڈ اِن مقبوضہ فلسطین‘‘ لکھا ہوا ہو جس کا سفارتی زبان میں یہ ترجمہ کیا جا رہا ہے کہ ’’اصولی طور پر‘‘ جنوبی افریقہ اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا اور تمام اسرائیلی زمین کو مقبوضہ فلسطین مانتا ہے -صاحبزادہ سُلطان احمد علی نے لیڈی سعیدہ وارثی کے استعفیٰ کو بھی سراہا اور کہا کہ بعد از استعفیٰ سعیدہ وارثی صاحبہ نے اسرائیل پر ’’تجارتِ اسلحہ کی پابندی‘‘ (Arms embargo on Israel) کا مطالبہ کیا ہے جسے پورے یوکے میں پسند کیا گیا ہے سکاٹ لینڈ پارلیمنٹ میں منسٹر فار ایکسٹرنل افیئرز نے بھی اس کا مُطالبہ کیا ہے یوکے کے ڈپٹی پرائم منسٹر اور لبرل ڈیمو کریٹس پارٹی کے سربراہ نِک کیلگ ، یوکے کے سابق سیکریٹری برائے انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ انڈریو مچل ، ایمنسٹی انٹرنیشنل یوکے کے نمائندہ اولیور سپیرگو ، ویلز سے یوکے پارلیمنٹ کے ممبر ہائیول ولیمز اور دیگر بے شمار نمایاں لوگوں نے حکومتِ برطانیہ پر زور دیا ہے کہ اسرائیل کو اسلحہ کی فراہمی مکمل طور پہ بند بلکہ بین کی جائے یہ تو صرف ایک ملک (یوکے) سے اٹھنے والی آوازوں کی چند ایک مثالیں ہیں یہ آواز دُنیا بھر سے اُٹھائی جا رہی ہے امریکہ میں بڑے بڑے مظاہروں میں بھی یہ مطالبہ کیا گیا ہے - انہوں نے مزید کہا کہ تمام مسلمان ممالک کو متحد ہوکر اس مسئلے کے حل کیلئے آواز اٹھانی چاہئے -ہماری اسمبلی میں اس مسئلہ پر مباحثہ ہونا چاہئے-بحیثیتِ مسلمان یہ ہماری سماجی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ذاتی حیثیت میں بھی فلسطینی بھائیوں کی مدد کیلئے اپناکردار ادا کریں اور معاشرے میں بھی اس کا شعور اجاگر کریں-

Presentation: Overview of Palestine Issue & Current Crisis in Gaza

عثمان حسن:

 ریسرچ ایسوسی ایٹ، مسلم انسٹیٹیوٹ

 ۱۸۹۷ء میں  World Zionist Movement نے فلسطین میں صیہونی ریاست کے قیام کا منصوبہ بنایا جب کہ اُس وقت فلسطین میں یہودیوں کی آبادی کُل آبادی کاصرف چار فیصد تھی- سلطنتِ عثمانیہ کے اُس وقت کے خلیفہ سلطان عبدالحمید ثانی نے فلسطین میں آبادکاری کیلئے صیہونیوں کی ڈیڑھ ملین پائونڈ کی پیشکش کو ٹھکرا دیا-بیسویں صدی کے اوائل میں فلسطین میں یہودی آبادکاری شروع ہوئی جسے برطانیہ اور مغربی ممالک کی جانب سے بھر پور حمایت حاصل رہی- اقوامِ متحدہ نے ۱۹۴۷ء میں تقسیم کا فارمولا پیش کیا جس کے مطابق ایک تہائی تناسب رکھنے والے یہودیوں کیلئے چھپن فیصد علاقہ دینے کی سفارش کی گئی- بعد ازاں اسرائیل عرب جنگوں میں اسرائیل نے فلسطین کیلئے ڈکلیئر کئے گئے علاقہ میں سے بھی بیشتر علاقہ پر قبضہ جما لیا- غزہ میں حالیہ آپریشن میں اسرائیل کی جانب سے تقریباً دو ہزار معصوم فلسطینیوں کو شہید کیا جا چکا ہے اور دس ہزار سے زائد لوگ زخمی ہو چکے ہیں-

Special Remarks

عزت مآب ا لشافی محمد احمد

 سفیرسوڈا ن برائے پاکستان

فلسطین کا درد ہر وہ شخص محسوس کرتا ہے جو انسانیت پر یقین رکھتا ہے-فلسطین اور کشمیر کے مسائل ایک ہی دور میں پیدا کئے گئے تھے اور اب تک ہم نے ان پرکوئی پیش رفت نہیں ہوئی- یہ مسائل تب ہی حل ہو سکتے ہیں جب ہم سب مسلمان متحد ہو کر صحیح طریقے سے اپنا ردِ عمل دیں بلکہ ردِ عمل سے بڑھ کر عملی کردار ادا کریں-  اسرائیل کوامریکہ ، یورپی یونین ، چند ایشیائی اور کچھ مسلم ممالک کی بھی حمایت حاصل ہے - یورپ یا امریکہ میں ایک مظاہرے پر لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ اب کچھ تبدیل ہونے والا ہے جبکہ ہمارے مظاہروں کو کوئی بھی وقعت نہیں دیتا کیونکہ ہم متحد نہیں ہیں- اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں غزہ اور مسلمانوں کیلئے بیدار ہونا اور متحد ہونا ہے جوکہ ِاسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے میں ہی ممکن ہے - اسرائیل تمام عرب ممالک کے مقابلے میں تعلیم اور تحقیق پر زیادہ اخراجات کر رہا ہے- ہمارے پاس وسائل تو موجود ہیں مگر سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کئے بغیر ہم اپنی معیشت بہتر نہیں کر سکتے -

(Video Link Address) Palestine Conflict, the Blaring Injustice of the World

ڈیوڈ شیو برج:

گرین ممبر آف سائوتھ ویلز پارلیمنٹ، آسٹریلیا

 آسٹریلیا کے عوام فلسطینیوں کے ساتھ ہیں- آسٹریلیا کی سول سوسائٹی بھی فلسطینیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کر رہی ہے اور ہم نے نیو سائوتھ ویلز پارلیمنٹ میں بھی فلسطینیوں کیلئے آواز اٹھائی ہے - غزہ میں جنگ نہیں بلکہ معصوم شہریوں کا قتل ہو رہاہے،غزہ کے لوگ زبوںحالی کا شکار ہیں اور پانچ لاکھ سے زائد لوگوں کے پاس سر چھپانے کی جگہ نہیں ہے جو اقوامِ متحدہ کے کیمپوں اور سکولوں میں پناہ لئے ہوئے ہیں- غزہ کا محاصرہ غیر قانونی ہے جس کی وجہ سے وہاں کے لوگ سماجی اور معاشی مشکلات کا شکار ہیںاور اسے جلدختم ہونا چاہئے- عالمی برادری کو اقوام متحدہ کی جانب سے اسرائیلی جنگی جرائم کیلئے ہونے والی تحقیق کی مدد کرنی چاہئے -آسٹریلیا کی حکومت نے ملائیشیا کے طیارے کے سانحہ پر تو عالمی سطح پر کام کیا، مگر امریکہ کی طرح غزہ کے انسانی المیہ پراُس طرح ردِ عمل نہیں دیا ، مگر آسٹریلیا کے عوام فلسطینیوں کیلئے آواز بلند کر رہے ہیں-

Unresolved Question of Palestine & Response of International Community

  ایمبیسیڈر(ر) خالد محمود  

چیئرمین آئی ایس ایس آئی (Institute of Strategic Studies, Islamabad)

 اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار داد کے مطابق اسرائیل کو مقبوضہ فلسطینی علاقہ چھوڑ دینا چاہیے - اسرائیل کا فلسطینی سرزمین پر غیر قانونی قبضہ اور آبادکاریاں ہی مسئلہ کی اصل بنیاد ہے اور اس قبضے کے خلاف مزاحمت کرنا فلسطینیوں کا حق ہے- اسرائیلی بربریت جنیوا کنونشن کی کھلی خلاف ورزی ہے- حالیہ حملوں میں دو ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور غزہ کا انفراسٹرکچر تباہ ہو گیا ہے اور تقریباً پانچ بلین ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے- اس مسئلہ پر مسلم دُنیا اپنا کردار اد ا نہیں کر رہی اور اس کی خاموشی سمجھ سے بالا تر ہے -عالمی برادری اس مسئلہ پر دوہرے معیارا ت کا مظاہرہ کر رہی ہے اور اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے بھی مؤثر کردار ادا نہیں کیا-مسئلہ کا دیر پا حل یہی ہے کہ فلسطینی پناہ گزینوں کو اپنے گھروں میں واپس آنے دیا جائے اور غیر قانونی اسرائیلی آبادکاری ختم کی جائے- حالیہ اسرائیلی حملوں کی مذمت کے ساتھ پاکستانی حکومت کی جانب سے فلسطینیوں کیلئے ریلیف فنڈ بھی قائم کیا گیا ہے غزہ اور فلسطینیوں کی حمایت کیلئے پاکستان کا عزم قابلِ ستائش ہے-

Special Remarks

عزت مآب محمد راشد دائوریائو

   پاکستان میں موریشیئس کے سفیر

 جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے اُس سے کوئی بھی انسان لا تعلق نہیں رہ سکتا - غزہ میں اسرائیلی فوج جدید ہتھیار، ٹینک، میزائل اور طیارے استعمال کر رہی ہے جبکہ فلسطینی اپنے دفاع کیلئے فقط ہاتھ سے بنے راکٹ استعمال کر رہے ہیں چنانچہ اسے جنگ نہیں قرا ر دیا جا سکتا بلکہ یہ مسلمانوں کا ’’جینو سائیڈ‘‘ کیا جا رہا ہے -یہودی بھی عام انسان ہیں مگر صیہونی شدت پسند نظریات رکھتے ہیں اور انہوں نے اپنے مقاصد کے حصول کیلئے میڈیا کو استعمال کیا ہے- ہمارے ملک میں غزہ کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیلئے مظاہرے ہوئے ہیں-امتِ مسلمہ کا سب سے بڑا مسئلہ قیادت کا فقدان ہے - ہمیں آج قائد اعظمؒ اور علامہ اقبالؒ جیسی قیادت کی ضرورت ہے جو مسلم دُنیا کی رہنمائی کر سکے - اَب مسلم اُمّہ کو بیدار ہونا ہوگا اپنے مسائل حل کرنے کے لئے -  اقوام متحدہ مسئلہ فلسطین کو حل نہیں کر سکی -

 Cheif Guest Comments

سینیٹر راجہ ظفر الحق

  لیڈر آف دی ہائوس سینیٹ آف پاکستان ، سیکرٹری جنرل موتمر العالم اسلامی

 اسرائیلی وزیراعظم نے کھلے عام اس بات کا امریکہ سے اظہار کیا ہے کہ وہ کسی طور پر بھی اپنے ظالمانہ اقدامات سے رکنے والے نہیں -مسلم ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ سفارتکاری کے فیصلے واپس لئے جانے چاہئیں-لاطینی امریکہ کے ممالک نے یہ قدم اٹھایا ہے جو قابلِ تحسین ہے- مسلمانوں کے پاس مؤثر قیادت موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے آج ہم دُنیا میں ذلیل و رسوا ہو رہے ہیں- پچھلے بیس سال سے اسرائیل اور اس کے حامی ممالک کی جانب سے مڈل ایسٹ کے مسلم ممالک کو زوال کی جانب دھکیلا گیا ہے تا کہ اسرائیل کو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنایا جائے- دُنیا بھر میں لوگوں نے اسرائیلی بربریت کیخلاف مظاہرے کئے ہیں حتیٰ کہ یہودیوں نے بھی اسرائیل کی مخالفت کی ہے-خوش آئند بات ہے کہ ہماری نوجوان نسل فلسطینیوں کیساتھ بھرپور اظہار یکجہتی کر رہی ہے- ہمیں ہنگامی بنیادوں پر سیمینار کے بعدفلسطین کے مظلوم عوام کیلئے چندہ ، ادویات اور ضروریاتِ زندگی کی دیگر اشیاء اکٹھا کرنے کیلئے کمیٹی بنانی چاہئے-

Squeezing Palestine State- Implications for Middle East

ایمبیسیڈر (ر) عامر انور شادانی

  مشرق وسطیٰ پر معروف محقق  

  اسرائیل فلسطینیوں کیخلاف جدید ترین ہتھیار استعمال کر رہا ہے جوکہ ناقابلِ قبول ہے -اسرائیل غزہ پر متعدد حملے کر چکا ہے اور تسلسل کے ساتھ نسل کشی کر رہا ہے مگر موجودہ جارحیت بہت زیادہ تباہ کن ہے- غزہ پر حملے بہت زیادہ نقصان دہ ہوتے ہیں کیونکہ یہ بہت زیادہ گنجان آباد علاقہ ہے- اسرائیل در اصل مشرق وسطیٰ میں اُبھرنے کیلئے یہ مظالم ڈھا رہا ہے- اسرائیل حماس کو کچلنے کے بہانے معصوم فلسطینیوں کاقتل عام کر رہا ہے جبکہ حماس اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ تمام فلسطینی مہاجرین کو اپنے گھروں میں لوٹنے کی اجازت ہونی چاہئے اور اِس کیلئے انہوں نے جنگِ آزادی شروع کر رکھی ہے- مصر نے صدر مرسی کی حکومت کے دوران غزہ اور فلسطینیو ں کی کھل کر مدد کی- آج عرب ممالک کا میڈیا خود حماس کو دہشت گرد قرا دے رہا ہے - میڈیا کا کردار عام آدمی کو اُلجھا رہا ہے کہ کون دہشت گرد ہے اور کون آزادی کی جدوجہد کر رہا ہے- تمام تر اسرائیلی جارحیت کے باوجود حماس اپنی جدوجہد کیلئے پُر عزم ہے-

Special Remarks

سینیٹر سحر کامران

   رکن سینٹ کمیٹی برائے دفاع و خارجہ امور- چیرمین سینٹر فار پاکستان اینڈ گلف سٹڈیز

غزہ پر حالیہ اسرائیلی حملوں میں ۸۲ فیصد معصوم لوگ شہید ہوئے ہیں جن میں ۵۰۰ بچے اور ۹۰۰ خواتین شامل ہیں - عالمی ادارے اسرائیلی مظالم کیخلاف کھڑے ہونے کے بجائے اسرائیل کی حمایت کیلئے جواز تلاش کر رہے ہیں اور مَیں اقوامِ متحدہ اور امریکہ کو بھی غزہ کے لوگوں کے قتل کا برابر ذمہ دارسمجھتی ہوں-انسانی حقوق کے علمبردار مردہ ہو چکے ہیں اسی لئے اسرائیل کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھا رہے- اگرچہ ہم غزہ کا درد محسوس کر رہے ہیں مگر ہماری آواز بہت کمزور ہے کیونکہ ہم سازشوں کا شکار ہو کراندرونی طور پر کمزور ہو چکے ہیں اور فرقہ واریت میں اُلجھے ہوئے ہیں مگر اسرائیل اپنے ایجنڈے پر کام کر رہا ہے- او آئی سی کو تمام مسلم ممالک کو اکٹھا کرنے کیلئے مؤثر کردار اد اکرنا چاہیے -پاکستان نے اسرائیل کی مذمت تو کی ہے مگر ہم نے ابھی تک اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ نہیں کیا اور نہ ہی عالمی برادری پر اسرائیل کے خلاف ایکشن کیلئے دبائو ڈالا ہے-ہم لوگ اسرائیل پر معاشی پابندیوں کا مطالبہ کر رہے ہیں مگر جب تک مسلم قیادت اکٹھی نہیں ہوتی اور مل بیٹھ کر ایک آواز بلند نہیں کرتے تو کوئی بھی ان کی آواز نہیں سنے گا -

Presidential Address

عزت مآب ولید ابو علی

    سفیرِ فلسطین برائے پاکستا ن

 پاکستانی عوام اور حکومت فلسطینیوں کی حمایت کرتی ہے-ہم ایک مضبو ط اور متحد پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں جو فلسطینیوں کی مزید مدد کر سکے -اصل مسئلہ حماس یا الفتح نہیں ہے بلکہ فلسطین ہے -مغربی کنارہ اور غزہ کے درمیان کوئی جغرافیائی رابطہ نہیں اور اسرائیل چاہتا ہے کہ ان دونوں کو مکمل طور پر علیحدہ کیا جائے بلکہ فلسطین کو دُنیا کے نقشے سے ہی ختم کر دیاجائے اور وہ اسی لئے اپنی آبادکاریاں جاری رکھے ہوئے ہے- فلسطینی اسرائیلی مظالم کیخلاف جدوجہد کر رہے ہیں- اسرائیل فلسطینیوں کو نشانہ بنا رہا ہے مگر عالمی برادری اپنے دوہرے معیارات کے سبب فلسطین کی حمایت نہیں کر رہی جبکہ  اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت پر اس کی بھرپورحمایت کی جاتی ہے- ہم فلسطینی اسرائیل کے خلاف مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں اور ہمیں مسلم اُمہ اور دُنیا بھر سے انسانی حقوق کا احترام کرنے والوں کی بھر پور حمایت کی ضرورت ہے-

Session:2

 پبلک ریلیشنز کو آرڈینیٹر مسلم انسٹیٹیوٹ، طاہر محمود نے دوسرے سیشن میں ماڈریٹر کی خدمات سر انجام دیں-

(Video Link Address) World's Silence Over the War Crimes in Palestine & Role of Muslim World & Leaders

تیمیل کرم اللّٰہ او گلو   (Mr Temel Karamollaoglu)

وائس چیئرمین سعادت پارٹی ، و ممبر پارلیمنٹ ، ترکی

اسرائیل غزہ میں جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے لیکن کوئی بھی اسرائیل کے خلاف ایکشن نہیں لے رہا- صیہونی دُنیا کے بڑے بینک، کاروبار اور معیشت کو کنٹرول کررہے ہیں- اقوامِ متحدہ اور مغرب اسرائیل کے خلاف ایکشن لینے سے گریزاں ہیں تاہم اِن ممالک کے نوجوانوں میں انسانی حقوق کے احترام کا جذبہ بڑھ رہا ہے- تمام مسلم ممالک کو غزہ میں اسرائیلی جارحیت کیخلاف ایکشن لینا چاہئے اور اس کیلئے باہمی پالیسی بنانی چاہئے وگرنہ آج جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے وہ کل کسی بھی مسلم ملک میں ہوسکتا ہے -مسلم ممالک اس وقت اپنے اندرونی مسائل سے دو چار ہیں اور انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ قریبی تعلقات قائم نہیں رکھے ہوئے اور اس لئے یہ فلسطین کی حمایت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں- ہمیں اپنی حکومتوں پر زور دینا چاہئے کہ وہ آپس میں مضبوط روابط قائم کریں- مسلمانوں کے پاس قیادت کا فقدان ہے لیکن ہمارے پاس دُنیا میں باعزت قوم بننے کی صلاحیت موجود ہے-

Special Remarks

عزت مآب نیدیم میکاروک

  سفیرِبوسنیا  برائے پاکستان

شیڈول کے مطابق مَیں نے آج اظہارِ خیال نہیں کرنا تھالیکن مَیں اپنے جذبات کو قابو میں نہیں رکھ پا رہا-ہم نے بوسنیا میں انیس سو بانوے سے پچانوے تک بہت شدید مظالم کا سامنا کیا اور عالمی سطح پر اُس مسئلے کیلئے کچھ آوازیں اٹھی تھیںجبکہ آج میں فلسطین کے مسئلے پر عالمی دُنیا سے پوچھتا ہوں کہ وہ بہروں اور گونگوں والا کردار کیوں ادا کر رہی ہے؟ اقوام متحدہ نے ہمیشہ مسئلہ فلسطین کیلئے غیر مؤثر کردار ادا کیا ہے جیسا اس نے بوسنیا کیلئے کیا تھا- پچھلے ساٹھ سالوں سے مسلم دُنیا اور او آئی سی کی طرف سے فلسطینیوں کیلئے کوئی خاص مدد نہیں کی گئی جس پر ہمیں شرم محسوس کرنی چاہئے-مسلمان ممالک کو اسرائیل کے حمایتی ممالک کیساتھ کسی قسم کے معاشی تعلقات نہیں رکھنے چاہئیں -

 Special Remarks

عزت مآب میجر جنرل (ر) موسیٰ علی جلیل 

سفیرِ مالدیپ برائے پاکستان

مالدیپ کی حکومت نے اسرائیلی غیر قانونی اقدامات کی بھر پور مذمت کی ہے-اسرائیل فلسطینیوں کے بنیادی انسانی حقوق پامال کر رہا ہے اور عام شہریوں کا قتلِ عام کر رہا ہے-اسرائیل نے غزہ کے انفراسٹرکچر اور عمارتوں کو نشانہ بنایا ہے- مالدیپ کی حکومت نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ کا محاصرہ ختم کرے اور تمام مقبوضہ علاقے خالی کر دے- ہمارے ملک نے اسرائیل سے ہر قسم کی برآمدات پر پابندی لگا دی ہے اورہم باقی ممالک سے بھی ایسے اقدامات کی توقع کرتے ہیں- جو ممالک اسرائیل کو اسلحہ فراہم کر رہے ہیں ہم اُن سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اسلحہ کی سپلائی روک دیں اور عالمی برادری سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ مسئلہ فلسطین کا مستقل اور پُر امن حل تلاش کرے تا کہ فلسطینیوں پر ظلم و ستم کا باب بند ہو-ہم نے مالدیپ میں انسانی بنیادوں پر فلسطینیوں کیلئے ریلیف فنڈ اکٹھا کرنا شروع کیا ہے-

 (Video Lonk Address) End All USAid to Israel

سارہ فلنڈرز 

 ڈائریکٹر ، انٹرنیشنل ایکشن سنٹر آف امر یکہ  (IAC Of USA)

اسرائیل غزہ میں بد ترین جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے جہاںاسرائیل کی جانب سے ہزاروں لوگوں کو ہلاک اور دس ہزار سے زائد زخمی کرنے کے ساتھ ساتھ، بہت سے مکانات، ہسپتالوں اور سکولوں کو بھی تباہ کر دیا گیا ہے-فلسطین میں اسرائیل کیلئے اس وقت بڑا مسئلہ حماس اور الفتح کے درمیان ہونے والا معاہدہ ہے کیونکہ وہاں تقسیم کر کے حکومت کرنے (divide & rule)کا فارمولا چلائے جانے کی کوشش کی جا رہی تھی- اسرائیل کو امریکہ کی جانب سے دی گئی معاشی مدد مشرق وسطیٰ اور فلسطین کے عدم استحکام کا بنیادی سبب ہے-مصر کی ایک منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کیلئے بھی امریکہ نے مدد کی کیونکہ اس سے امریکہ کے خطے میں اپنے مفادات وابستہ تھے- امریکہ کو اسرائیل کی یو ایس ایڈ بند کردینی چاہئے - یہ دراصل امریکہ کے تجارتی اور معاشی مفادات ہیں جن کی وجہ سے غزہ میں آگ لگی ہے- امریکہ کی پالیسی ہے کہ مسلمان ممالک کو تقسیم کیاجائے اور اس ضمن میں پاکستان، عراق، شام، فلسطین، ان تمام کو تقسیم کرنے کی پالیسی جاری ہے- پاکستان نے ہمیشہ فلسطینیوں کی حمایت کی ہے اوراسے اسرائیل کے خلاف اپنی آواز بلند کی ہے اِس لئے آج پاکستان میں بھی مشکلات ہیں -

 Special Remarks

عزت مآب ڈاکٹر حسرالثانی بن مجتبر

   سفیرِ ملائیشیا برائے پاکستان

فلسطین کا مسئلہ ایک مذہب کا نہیں بلکہ پوری انسانیت کا مسئلہ ہے- اسرائیل نے انسانیت سوز مظالم ڈھائے ہیں جن کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا - اسرائیلی وزیراعظم بنیامن یتن یاھو کا تعلق دائیں بازو کی شدت پسند پارٹی سے ہے جس نے سرنگوں کو غزہ پر حملے کا جواز بنایا ہے- نیتن یاھو ایک نہایت مکار اور سنگدل انسان ہے جو چھوٹے سے چھوٹا بہانہ استعمال کر کے فلسطینیوں پر مظالم ڈھاتا ہے- امریکہ کا کوئی بھی صدارتی امیدوار اسرائیلی صیہونی لابی کی حمایت کے بغیر اقتدار میں نہیں آ سکتا-اسی طرح امریکی کانگریس کے تمام ممبران اسرائیل کے حمائتی ہیںاور اُن میں اتنی جرات نہیں کہ اسرائیل پر تنقید کر سکیں- امریکہ میں خدا پر تنقید کرنے کی اجازت ہے لیکن اسرائیل پر تنقید نہیں کی جا سکتی-اسرائیلی اس قدر شدت پسند ہیں کہ وہ یہاں تک محسوس کرتے ہیں کہ صدر اوباما ریپبلیکنز کی طرح اسرائیل کے ساتھ جذباتی طور پر منسلک نہیں ہے اور اسی لئے امریکہ کے بڑے میڈیا گروپ اوباما اور اس کی انتظامیہ کو ہٹانا چاہ رہے ہیں- اسرائیل بیرونی حمایت کے بغیر فلسطینیوں کے خلاف جنگ کبھی نہیں جیت سکتا-

Remarks by Cheif Guest

جنرل(ر) مرزا اسلم بیگ

 سابق چیف آف آرمی سٹاف ، پاکستان

غزہ میں جنگ کا فیصلہ دو چیزوں پر منحصر ہے، ایک اسلحے کا نظام اور دوسرا یہ کہ اسرائیل کب اپنی شکست تسلیم کرتا ہے- اسرائیل نے لبنان پر وحشیانہ طریقے سے حملہ کیا مگر آخری فیصلہ لبنان کے برسائے جانے والے راکٹوں نے کیا- میزائل شکن نظام ایک حد تک آنے والے راکٹوں اور میزائلوں کو روک سکتے ہیں اور جب حزب اللہ نے راکٹوں کی برسات کی تو اسرائیلی فوج کو زمینی راستے حملہ کرنے کا کہا گیا جہاں وہ شکست سے دوچار ہوئی- اب تقریباً وہی صورتحال حماس کی ہے جس کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم تباہ کرنے میں اسرائیل بری طرح ناکام ہوا ہے- اب اسرائیل کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ یہ جنگ ہار چکا ہے اور جلد وہ امن مذاکرات کی جانب آئے گا اگر فلسطینیوں کے خلاف یہ مظالم جاری رہے تو ایسا ردِ عمل آئے گا جسے نہ تو اسرائیل روک سکے گا نہ ہی اس کے اتحادی قابو میںلا سکیں گے کیونکہ ظلم کی حد ہوتی ہے اور مظلوم لوگ ایک حد تک ظلم برداشت کر سکتے ہیں چنانچہ اب اس متعلق آخری فیصلہ اسرائیل کو کرنا ہے- اگر نہیں تو پھر آخری فیصلہ مظلوم کریں گے اور وہ ہوگا زمین سے ظلم کا مکمل خاتمہ !!!

Special Remarks

عزت مآب ولید ابو علی

 سفیرِ فلسطین برائے پاکستا ن

  ہمیں فخر ہے کہ اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں کے دل فلسطینیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں- جب بھی اسرائیلی حکومت مسائل کا شکار ہوتی ہے، وہ یا تو فلسطین پر حملہ کر دیتے ہیں، یا جنوبی لبنان پر- مقامی سطح پر اسرائیل اپنی غیر قانونی آبادکاریاں جاری رکھنے کے باعث امن مذاکرات کی ناکامی کا ذمہ دار ہے- علاوہ ازیں الفتح اور حماس کے درمیان معاہدہ سے بھی اسرائیل ناخوش تھا- علاقائی سطح پر ارد گرد کے مسلمان ممالک عرب سپرنگ اور اپنے اندرونی مسائل سے نمٹنے میں مصروف ہیں اور مسئلہ فلسطین ان کے ایجنڈا میں اوّلین حیثیت نہیں رکھتا جس کی وجہ سے اسرائیل کو فلسطین پر حملہ کرنے کا حوصلہ ملتا ہے- عالمی برادری گواہ ہے کہ پچھلی دو دہائیوں سے امن مذاکرات ناکام ہوئے ہیں- آخری مرتبہ نو ماہ کی کوششوں کے باوجود کوئی نتیجہ نہیں نکلا کیونکہ اسرائیل فلسطینی قیدیوں کو چھوڑنے اور آبادکاریاں بند کرنے پر تیار نہیں- عالمی برادری نے اصل فلسطین کے صرف بائیس فیصد علاقے پر رضامند ہونے کیلئے ہم پر دبائو ڈالا اور ہم ایسا کرنے کیلئے تیار ہوئے تا کہ خون خرابہ روکا جا سکے مگر اس کے باوجود اسرائیل اپنی جارحیت کو کم کرنے کی بجائے بڑھا رہا ہے- میڈیا کو فلسطین کے اصل حقائق عالمی سطح پر دکھانے چاہئیں-

Concluding Remarks

ایمبیسیڈر (ر) اسلم رضوی

  ماہر امورِ خارجہ

ہم دیکھ رہے ہیں کہ اب اسرائیل کیلئے معاشی طور پر مشکلات بڑھ رہی ہیں- اب عالمی سطح پر اسرائیل پر معاشی دبائو بڑھ رہا ہے اور پابندیوں کے مطالبات سامنے آ رہے ہیں- اس کے ساتھ ساتھ اسرائیلی غیر قانونی آبادکاریوں ، انسانی حقوق کی پامالی اور غیر قانونی سرحدی دیواریں بنانے پر عالمی عدالتِ انصاف میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے جس پر عالمی برادری قانونی طور پر اسرائیل کے خلاف ایکشن لینے پر مجبور ہو سکتی ہے- آنے والا وقت فلسطین کا ہے اور اب ہمیں فلسطینیوں کیلئے عملی اقدامات کرنے چاہئیں-

Vote of Thanks

صاحبزادہ سلطان احمد علی

  چئیرمین مسلم انسٹیٹیوٹ

معزز مہمانانِ گرامی، خواتین و حضرات، آپ سب کی آمد کا، آپ سب کی توجہ کا بے حد شکریہ- سیمینار میں جو تقاریر کی گئیں ہیںان کو انشاء اللہ جلد شائع کیا جائے گا اور سیمینار کامشترکہ اعلامیہ جلد میڈیا، عالمی اداروںاور تمام ممکنہ سفارتی ذرائع سے دُنیا بھر میں بھیجا جائے گا- اللہ تعالیٰ غزہ کے مظلومین کی مدد فرمائے اور ہم سب کو اُن کی مدد کرنے کی توفیق عطا فرمائے- آمین

سینمار میں شرکاء کی جانب سے درج ذیل مشترکہ اعلامیہ پیش کیا گیا:-

 ہم سیاستدان، سفارتکار، اسکالرز اور انسانی حقوق کے لئے آواز بلند کرنے والے ، سیمینار’’ ـمسئلہ فلسطین: انسانی حقوق کی پامالی‘‘ (منعقدہ ۱۱/ اگست ۲۰۱۴ء اسلام آباد) کے شرکاء کے طور پر غزہ کے محاصرہ ،معصوم فلسطینیوں کے قتلِ عام اور غیر قانونی اسرائیلی آبادکاری کی شدید مذمت کرتے ہیں- ہم یہ آواز بلند کرتے ہیں کہ دُنیا بھر میں فلسطینیوں کی حمایت میں ہونے والے مظاہروں کے باوجود اسرائیلی ظلم و جبر میں کوئی کمی نہیں آئی- اس خون خرابے کی روک تھام کیلئے دی گئی تجاویز کو اسرائیلی وزیر اعظم نے رد کر دیا ہے- ایسے اسرائیلی جرائم عالمی طاقتوں کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں- اِنسانیت کی خلاف جرائم پر ہم عالمی طاقتوں کے دوہرے معیارات کی بھی مذمت کرتے ہیں- عالمی برادری کو یہ احساس کرنا چاہئے کہ کسی بھی معصوم جان کے نقصان کی ذمہ داری اُن پر بھی عائد ہوتی ہے اور اس مسئلہ کے حل کیلئے غیر جانبدارانہ اور مؤثر کردار ادا کرنا چاہئے-

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ عالمی امن و امان اور انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والے ادارے فلسطینیوں کے جان ومال کے تحفظ میں ناکام ہو گئے ہیں- اسرائیل کی جانب سے معصوم شہریوں کے خلاف طاقت کا بلا اشتعال استعمال ۱۹۴۹ء کے جنیوا کنونشن کی کھلی خلاف ورزی ہے جس میں دورانِ جنگ شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنایا گیا ہے -عالمی عدالت ِانصاف، اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو اسرائیلی جنگی جرائم کا نوٹس لینا چاہئے اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کے خلاف بھرپور اقدامات کرنے چاہئیں-

ہم زور دیتے ہیں کہ تمام مسلم ممالک کو مل کر او آئی سی کو ایک طاقتور اور مؤثر ادارے کے طور پر منظم کرنا چاہئے تاکہ وہ مسلم اُمہ کو درپیش چیلنجز بالخصوص فلسطین کے مسئلے سے نبردآزما ہو سکے- مسلم ممالک کو اکٹھے ہو کر اسرائیل کے حمایتی ممالک کے ساتھ سفارتی، معاشی اور دفاعی تعلقات ختم کر دینے چاہئیں تا کہ اُن پر دبائو ڈالا جاسکے کہ وہ اسرائیل کی حمایت نہ کریں- مسلم قیادت پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ فلسطین کے معصوم اور مظلوم عوام کیلئے کھڑے ہو جائیں-

ہم لاطینی امریکہ کے ممالک برازیل، وینزویلا، بولیویا، پیرو، السلواڈور، چلی، ارجنٹینا، ایکواڈور اور یوراگوئے(Brazil, Venezuela, Bolivia, Peru, El Salvador, Chile Argentina, Ecuador and Uruguay) کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے مظلوم فلسطینیوں کیلئے آواز بلند کی اور اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دئیے- ہم جنوبی افریقہ کی حکومت کی طرف سے اسرائیل کے خلاف کئے گئے اقدامات کی بھی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ انہوں نے اسرائیلی مصنوعات کو مقبوضہ فلسطین میں بنایا جانا قرار دیاہے- ایسے اقدامات اسرائیل کو انسانیت کے خلاف جرائم سے باز رکھنے کیلئے ضروری ہیں-ہم انفرادی طور پر اسرائیل کی مذمت کرنے والے اُن افرادکو بھی ستائش کی نظر سے دیکھتے ہیں جنہوں نے سفارتی اور انفرادی سطح پر فلسطینیوں کیلئے آواز اٹھائی اور اسرائیل پر تجارتی اور دفاعی پابندیوں کیلئے آواز بلند کی-

پانچ ملین سے زائد فلسطینی جو ہمسایہ ممالک میں بطورپناہ گزین رہ رہے ہیں،اُن کی اپنے گھروں میں واپسی کویقینی بنایا جائے جو کہ اُن کا بنیادی انسانی حق ہے - متنوع پسِ مناظر سے تعلق رکھنے والے دانشوروں کا یہ نمائندہ سیمینار مطالبہ کرتا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ کا محاصرہ فوری طور پر ختم کیا جائے اور ادویات، خوراک اور دیگر انسانی ضروریات کی اشیاء کی غزہ کے لوگوں تک فوری ترسیل کو یقینی بنایا جائے-

ہم ایک بار پھر اسرائیل کی غیر قانونی پالیسیوں،غیر قانونی اقدامات اور توسیع پسندانہ عزائم، فلسطینی علاقوں میںآبادکاری بشمول مشرقی یروشلم جو کہ فلسطینی ریاست کا حصہ ہے، کی مذمت کرتے ہیں اور زور دیتے ہیں کہ ایسے اقدامات عالمی امن اور سیکیورٹی کیلئے خطرہ ہیں اور مسئلہ فلسطین کے پُر امن حل کی راہ میں رکاوٹ ہیں-

****

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر