دین ، بیٹی اور رویے (فکری خطاب ، آخری قسط)

دین ، بیٹی اور رویے (فکری خطاب ، آخری قسط)

دین ، بیٹی اور رویے (فکری خطاب ، آخری قسط)

مصنف: صاحبزادہ سلطان احمد علی جولائی 2016

آدمی جب معاشرے میں اپنا آئینہ دیکھتا ہے کہ معاشرہ میرا آئینہ ہے، ہم سب مل کر معاشرہ ہیں اور یہ سارے اعمال، یہ ساری گندگی جو ہمیں معاشرے میں نظر آتی ہے یہ بھی ہم ہی سے ہے- اگر معاشرے میں اچھائی ہے تو یہ اچھائی بھی ہم ہی سے ہے- اچھائی پہ اِستقامت اختیار کرنا اور بُرائی کی شناخت کر کے اپنے درمیان سے زائل کرنا بہ طور مسلمان اور بطور ایک زندہ معاشرے کے ہم پر لازم ہے-

ہمارے گھروں میں ہماری بیٹیاں، ہماری بہوئیں اور ہماری بہنیں اِن طعنوں کے سائے میں زندگی گزاریں کہ تجھے اللہ نے بیٹی دے دی، بیٹا نہیں دیا، تُو بدبخت ہے، تُو بدنصیب ہے، تُو اِتنی اچھی ہوتی تو تیرے بیٹے ہوتے یا تیری گود ہری ہوتی وغیرہ وغیرہ - تو یہ عہد ِجہالت کی رسمیں اور باتیں ہیں جن سے دِین کی پاکیزہ تعلیمات نے ہمیں باز رہنے کی تلقین فرمائی ہے-

علامہ حسام الدّین المتقی، الہندی رحمۃاللہ علیہ ’’کنز العمال‘‘ میں اور اِمام اِبن ماجہ ’’کتاب الادب‘‘ میں ایک حدیث پاک نقل فرماتے ہیں کہ حضرت عقبیٰ بن عامر ﴿h﴾ سے روایت ہے کہ آقا ﴿w﴾ نے اِرشاد فرمایا:-

﴿من کان لہ ثلاث بنات فصبر علیھن و اطعمھن و سقاھن و کساھن من جدتہ کن لہ حجابا من النار یوم القیامۃ﴾

’’آقا ﴿w﴾ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جس شخص کو تین بیٹیاں ﴿یعنی کثرت سے بیٹیاں﴾ عطا کرے اور وہ اپنی بیٹیوں کی وِلادت پر صبر کرے، اُنہیں اِستطاعت کے مطابق کھِلاے پلائے اور اِستطاعت کے مطابق پہنائے تو وہ بیٹیاں اُس شخص کے لیے جہنم کی آگ کے درمیان ایک حجاب بن جائیں گی ‘‘-

جس کو اللہ تعالیٰ نے کثرت سے بیٹیاں دیں اور اس نے اِن کے مُعاملات میں فرق نہ رکھا، حسرت و یاس کا شکار نہ ہوا، صبر کیا، اللہ کا شُکر کیا، اُن کی تربیت کی، اُن کے ساتھ خوش رہا، اپنی بیوی اور اپنی بیٹیوں کو طعنے نہ دیئے تو حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام فرماتے ہیں کہ جب قیامت کے دِن جہنم کی آگ بھڑکائی جائے گی اور اگر اُس آدمی کو اپنے کسی برے اعمال کی بدولت جہنم میں ڈالنے کا فیصلہ کیا گیا تو اُس کی بیٹیاں جہنم کی آگ اور اُس شخص کے درمیان حجاب بن جائیں گی- اُن بیٹیوں کے صدقے اور توسّل سے جہنم کی آگ اُس آدمی کو چھو بھی نہیں سکے گی-

ایک اور حدیث ’’سُنن اِبن ماجہ‘‘، کتاب الادب، میں ہے جسے اِمام حسام الدّین المتقی الہندی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’کنزالعمال‘‘ میں بھی نقل فرمایا- حضرت عبد اللہ ابن عباس ﴿i﴾ اِس حدیث پاک کو روایت فرماتے ہیں کہ آقا ﴿w﴾ نے فرمایا:-

﴿ما من رجل تدرک لہ ابنتان فیحسن الیھما ما صحبتاہ او صحبھما الا ادخلتاہ الجنۃ﴾

’’جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے دو بیٹیاں عطا فرمائیں اگر وہ اُن بیٹیوں کے معاملات میں احسان کرتا رہا تو ﴿قیامت کے روز﴾ وہ دونوں بیٹیاں اُسے تب تک نہیں چھوڑیں گی جب تک وہ اپنے والد کو جنت میں داخل نہیں کروا دیں گی ‘‘-

یہ حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کی طرف سے بشارت ہے- اِسی طرح امام احمد بن حنبل ﴿h﴾ نے ’’المسند‘‘ اور اِمام جلال الدّین سیوطی نے ’’جامع الاحادیث‘‘ میں حضرت جابر ﴿h﴾ سے روایت کیا کہ آقا علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اِرشاد فرمایا کہ:-

﴿من کن لہ ثلاث بنات یوویھن و یرحمھن و یکفلھن وجبت لہ الجنۃ البتۃ﴾

’’جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے تین بیٹیاں ﴿مراد کثرت کے ساتھ بیٹیاں﴾ عطا کیں تو جو باپ اِنہیں جگہ مہیا کرے، اُن پہ شفقت کرے اور﴿ اپنی اِستطاعت کے مطابق کما کر﴾ اُن کی کفالت کرے تو اُس پر جنت کو واجب کر دیا جاتا ہے ‘‘-

گویا آقا ﴿w﴾ کے فرمان کے مطابق جو آدمی بیٹیوں کے معاملے میں بُخل نہیں کرتا، بے رحم نہیں ہوتا اور جو بیٹیوں اور بیٹوں کی کفالت میں تفریق نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ اُس آدمی کے خلوص اور بیٹیوں کی خدمت کے عوض اُس شخص پر جنت واجب فرما دیتا ہے- حضرت جابر ﴿h﴾ نے فرمایا کہ ہم نے آقا علیہ الصلوۃ و السلام سے عرض کی کہ اگر وہ کم ہوں یا دو ﴿۲﴾ ہوں؟ تو آقا ﴿w﴾ نے فرمایا کہ بھلے وہ دو ہی کیوں نہ ہوں- پھر عرض کی گئی کہ اگر ایک بیٹی ہو؟ تو فرمایا کہ بھلے ایک ہی بیٹی کیوں نہ ہو- جو آدمی اُس کی کفالت کرتا ہے، شفقت کے ساتھ پیش آتا ہے اور اُنہیں جگہ مہیا کرتا ہے تو ’’اُس پہ جنت کو واجب کر دیا جاتا ہے‘‘-

اِمام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے ’’صحیح مسلم‘‘ کتاب البر و الصلۃ و الادب، میں اور اِمام اِبن شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے ’’المصنف‘‘ میں ایک حدیث پاک نقل فرمائی- بالخصوص میرے وہ بھائی، بزرگ، دوست اور وہ ساتھی! آقا علیہ الصلوٰۃ و السلام کی اِس بشارت کو توجہ سے سُن لیں جن کو اللہ تعالیٰ نے صرف بیٹیوں کی نعمت سے نوازا ہوا ہے- آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ:-

﴿من عال جارتین حتی تبلغا جائ یوم القیامۃ انا و ھو و ضم اصابعہ﴾

’’جس شخص نے اپنی بیٹیوں کے بلوغت کو پہنچنے تک اُن کی پرورش کی قیامت کے دِن وہ شخص میرے ساتھ اِس طرح آئے گا- ﴿یہ فرما کر﴾ آپ ﴿w﴾ نے اپنی اُنگلیوں کو آپس میں ملا دیا ‘‘-

یعنی حضور ﴿w﴾ نے فرمایا کہ جسے اللہ نے بیٹیوں کی نعمت سے نوازاہے اور اُس نے اُن پہ شفقت کی، اُن پہ رحم کیا، اُنہیں طعن و تشنیع نہ کیا، اُن کی اچھی پرورش کی، اُن کی بہترین تربیت کی، اُن کو ایک اچھی مسلمان خاتون بنایا تو آقا ﴿w﴾ نے فرمایا کہ وہ قیامت میں اِس حالت میں آئے گا کہ ﴿انا و ھو﴾ اور حضور ﴿w﴾ نے اپنی اُنگلیاں ملا کر فرمایا کہ جس طرح مَیں نے اپنی اُنگلیاں ملا دیں وہ اِسی طرح محشر میں میرے ساتھ ہو گا- حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کی یہ بشارت اور یہ اِرشاد کیا اس اُمت کے لیے کسی شرف، اِنعام، رَحمت، نعمت اور کسی عطا سے کم ہے؟ بیٹا بھی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت اور عطا ہے مگر بیٹا قیامت کے دِن اپنے اَعمالِ صالح سے تو شفاعت کرے گا مگر حضور ﴿w﴾ کے فرمان کے مطابق جس کی بیٹی ہوئی اور اِس دُنیا میں اگر اُسے بیٹے کی دولت سے محروم رکھا گیا ہو تو کیا اُس کے لیے یہ شرف کم ہے کہ قیامت کے دِن وہ حضور ﴿w﴾ کے ساتھ ہو گا-

ہمیں اِن اَحادیث کو ایک رسمی رواجی بات سمجھ کر چھوڑ نہیں دینا چاہیے بلکہ اپنے دامن سے گانٹھ لینا چاہیے، مضبوطی سے اپنے دِل میں جگہ دینی چاہیے اور اپنی یاداشت میں محفوظ رکھنا چاہیے-

آج اِس معاشرے میں جس جنگ کی ضرورت ہے وہ کشت و خون کی جنگ نہیں، وہ گولہ و بارود کی جنگ نہیں، توپ اور ٹینک سے جنگ لڑنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اِس معاشرے کی اُن برائیوں، ناسوروں، سانحات اور اُن مظالم کے خلاف جہاد کی ضرورت ہے جہاں میرے رسول ﴿w﴾ کی اُمّت کی بیٹیاں میرے نبی ﴿w﴾ کا کلمہ پڑھیں، جو میرے نبی ﴿w﴾ پہ ایمان لائیں، جو سیّدہ طیبہ و طاہرہ حضرت فاطمہ ﴿k﴾، اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ﴿k﴾ اور اُم المؤمنین حضرت خدیجہ ﴿k﴾ کو اپنا رول ماڈل مانیں، اُن بیٹیوں، بہوئوں اور بہنوں کو اِس دُنیا میں اُولادِ نرینہ نہ ہونے کے طعنے ملیں، کیا اِس کے خلاف جہاد یا جنگ کی ضرورت نہیں ہے؟ کیا یہ میرے گھر کا، آپ کے گھر کا سانحہ نہیں ہے؟ کیا یہ ہماری گلیوں اور محلوں میں ایک بدبو چھوڑتا ہوا گندگی کا ڈھیر نہیں ہے؟ کیا یہ ہمارے معاشرے میں تعفُّن پھیلاتی ہوئی ایک میّت نہیں ہے؟ آئیے! گندگی کے اِس ڈھیر کو صاف کیجئے، تعفُّن پھیلاتی اِس میّت کو تہہِ خاک کر دیجئے اور لوگوں کو جاکر یہ بشارت دیجئے کہ تم بروزِ حشر آقا ﴿w﴾ کی رفاقت میں ہوں گے-

جب اللہ کو اپنا رازق، مالک اور خالق مانتے ہیں تو اُس کی رضا پہ راضی کیوں نہیں ہو جاتے؟ اُس کی چاہت پہ اپنا سرِ تسلیم خم کیوں نہیں کرتے؟ تسلیم و رضا کی اُس روایت میں اپنے آپ کو کیوں نہیں ڈھال لیتے جس میں بزرگانِ دِین نے اپنے آپ کو ڈھالا تھا؟

ہمارے درمیان اِن ﴿بیٹیوں﴾ کی کثرت پر جو تعصب پایا جاتا ہے اِس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے کہ ہم اپنے لین دین کے معاملات میں، اپنی جائداد کی تقسیم میں اور بیٹیوں کو کچھ دینے کے معاملہ میں بھی ایک فرق رَوا رکھتے ہیں- آقا ﴿w﴾ نے اِس فرق کی سرکوبی بھی فرمائی ہے اور بیٹیوں اور بیٹوں کے معاملات میں فرق کرنے سے منع بھی فرمایا ہے-

حضرت عامر ﴿h﴾ ایک روایت بیان فرماتے ہیں، اِمام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ’’کتاب الحبہ‘‘ میں اِس حدیث کو نقل فرمایا ہے اور متعدد محدثین نے اِس حدیث کو مختلف اَلفاظ کے ساتھ بیان کیا کہ حضرت عامر ﴿h﴾ فرماتے ہیں کہ:-

حضرت نعمان بن بشیر ﴿h﴾ نے ایک دِن منبر پہ خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ایک دِن میرے وَالد نے کچھ ہدیہ تقسیم کیا جو اُنہوں نے صرف مجھے دیا لیکن میری والدہ عمرہ بنت رواحہ ﴿k﴾ اِس پہ راضی نہ ہوئیں- حضرت نعمان بن بشیر ﴿h﴾ فرماتے ہیں کہ میری والدہ نے فرمایا:-

﴿لا ارضی حتی تشھد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہٰ و سلم﴾

’’مَیں اِس ﴿تقسیم﴾ پر اس وقت تک راضی نہیں ہوں گی جب تک آپ حضور نبی اکرم ﴿w﴾ کو گواہ نہیں بنا لیتے ‘‘-

حضرت نعمان بن بشیر ﴿h﴾ فرماتے ہیں کہ میرے والد آقا کریم ﴿w﴾ کی بارگاہ میں جا کر عرض کرتے ہیں کہ یارسول اللہ ﴿w﴾ مَیں نے اپنے بیٹے کو یوں عطیہ دیا ہے لیکن عمرہ بنت رواحہ ﴿k﴾ جو آپ ﴿w﴾ کی اُمتی ہے وہ اِس پہ راضی نہیں ہے اور اُس نے کہا ہے کہ اگر رسول اللہ ﴿w﴾ اِس پہ گواہی دیں تو ٹھیک ہے- یارسول اللہ ﴿w﴾! مَیں آپ کی گواہی کے لیے حاضر ہوا ہوں- آقا ﴿w﴾ نے فرمایا کہ:-

﴿أ اعطیت سائر ولدک مثل ھذا﴾

’’کیا تم نے اپنے باقی بچوں میں بھی اِسی طرح تقسیم کیا؟‘‘

تو اُنہوں نے عرض کی کہ:-

﴿لا یا رسول اللّٰہ ö﴾

 ’’اے اللہ کے رسول ﴿w﴾! مَیں نے ایسا نہیں کیا‘‘-

حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا:-

﴿فاتقوا اللّٰہ، و اعدلوا بین اولادکم ﴾

’’ تقویٰ اختیار کرتے ہوئے اللہ سے ڈرو! اور اپنی اُولاد کے درمیان عدل کرو ﴿تاکہ کل قیامت کے دن تمہارے ساتھ عدل کیا جائے﴾‘‘-

﴿فرجع فرد عطیتہ﴾

’’وہ واپس آئے اور وہ عطیہ ﴿اپنے بیٹے سے﴾ واپس لے لیا ‘‘-

کیونکہ آقا ﴿w﴾ نے اِس پر گواہی دینے سے اِنکار فرما دیا تھا- اِمام اَحمد بن حنبل اور اِمام ابو دائود رحمۃ اللہ علیہما نے جو اَلفاظ نقل فرمائے ان کے مطابق آقا ﴿w﴾ نے فرمایا کہ:-

﴿فکلھم اعطیت مثل ما اعطیتہ﴾

’’کیا تم نے اپنی ساری اُولاد کو اِسی طرح برابر عطیہ کیا جتنا اس کو دیا ہے؟‘‘

اِمام نسائی فرماتے ہیں کہ حضور ﴿w﴾ کے یہ اَلفاظ تھے کہ:-

﴿ أ لا سویت بینھم﴾

’’﴿اے ابونعمان! ﴾ تم نے سب کے درمیان مساوات کیوں نہیں کی؟‘‘

اِمام اِبن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے ’’صحیح اِبن حبان‘‘ میں یہ اَلفاظ نقل فرمائے ہیں کہ حضور ﴿w﴾ نے فرمایا:-

﴿سوِّ بینھم﴾

’’ان کے درمیان مساوت قائم کرو ‘‘

یعنی برابری کے ساتھ جتنا حصہ بیٹے کو دیا اُتنا ہی حصہ اپنی بیٹیوں میں تقسیم کرو‘‘-

لوگو! تم جو کچھ عطیہ کرتے ہو، جو تحفہ یا اِنعام دیتے ہو وہ اپنی اُولاد کے درمیان برابر تقسیم کرو- میراث کی تقسیم ایک مختلف معاملہ ہے اُس پہ الگ فقہی اَحکامات موجود ہیں البتّہ اِنعام، عطیے، تحائف اور از خود کچھ دینے کی تقسیم میں حضور ﴿w﴾ کے فرمان کے مطابق اپنی اُولاد کے درمیان برابری سے پیش آئو - اِمام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے حضور ﴿w﴾ کی گواہی کے متعلق کہا کہ آقا ﴿w﴾ نے فرمایا:-

﴿فلا تشھدنی اذا فانی لا اشھد علی جور﴾

’’مََیں اِس بات پر تمہارا گواہ نہیں بن سکتا کیونکہ میں کبھی ظلم پہ گواہ نہیں بنا‘‘-

اگر بیٹوں اور بیٹیوں کے درمیان اِس طرح کی تقسیم اور رویہ رَوا رکھا جائے تو آقا ﴿w﴾ نے فرمایا کہ یہ ظلم ہے اور مَیں اِس ظلم پر تمہارا گواہ نہیں بنوں گا- اب سوال یہ ہے کہ اِس تنزلی، زوال، ذلت، رسوائی اور پسماندگی کا حل اور علاج کیا ہے؟ ہم خود کو ظلم کی اِس چکی میں پستے ہوئے کیسے نکال سکتے ہیں؟ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ:-

لوٹ جا عہدِ نبی کی سمت رفتارِ جہاں

پھر میری پسماندگی کو اِرتقائ دَرکار ہے

اگر ہمیں پسماندگی، ذِلّت اور رسوائی میں سے نکل کر پھر سے ترقی دَرکار ہے تو ہمیں لوٹ کر عہدِ رسول ﴿w﴾ اور بارگاہِ مصطفی ﴿w﴾ میں جانا ہوگا - حضور ﴿w﴾ نے جو فیصلے کر دئیے اور جو اَحکامات فرما دئیے ہیں اُن کو اپنا نافذِ جاں کرنا ہوگا- اپنی زندگی میں اُنہیں اُسی طریقے سے نافذالعمل کرنا ہوگا جس طرح آقا ﴿w﴾ نے اِرشاد فرمائے تھے- لیکن اگر ہم اُس طریق کو چھوڑ کر منحرف ہو جاتے ہیں تو اِس میں ہمارے دین کا خسارہ بھی ہے، ہمارا دُنیَوی خسارہ بھی ہے اور ہماری آخرت کا خسارہ بھی ہے-

یہ جتنے معاملات ہیں اِن تمام میں ہمیں اللہ کی عدالت میں جواب دینا ہے- میرے دوستو! ہمارا مؤاخذہ کیا جائے گا اور ہم سے پوچھا جائے گا کہ کیا یہ اَحکامات اور یہ باتیں کُھلم کھلا تم تک پہنچا نہیں دی گئیں تھیں؟ ہم کہیں گے کہ ہمارے مولیٰ پہنچا دی گئیں تھی- پھر سوال ہوگا کہ عمل کیوں نہیں کیا؟

اوّلاً تو آقا کریم ö نے دونوں کے یعنی بیٹی اور بیٹے کے مابین تحائف کی تقسیم پہ مساوی رویّہ کا حکم ارشاد فرمایا لیکن حدیثِ پاک کے حوالے سے غور فرمائیں کہ آقا ﴿w﴾ نے اگر تحفے، عطیے اور انعام دینے میں کسی کو فضیلت دینا ہوتی تو کِسے فضیلت دیتے؟ اِمام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ ’’ المعجم الکبیر‘‘ میں اور’’ سُنن الکبرٰی‘‘ میں اِمام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ حضرت عبد اللہ ابن عباس ﴿i﴾ سے روایت فرماتے ہیں کہ آقا ﴿w﴾ نے فرمایا کہ:- 

﴿سووا بین اولاد کم فی العطیۃ ﴾

’’عطیہ کے معاملے میں اُولاد کے مابین مساوات کرو ‘‘-

﴿فلو کنت مفضلا احدا﴾

’’اگر مَیں نے ﴿بیٹا یا بیٹی میں﴾ کسی کو فضیلت دینی ہوتی ‘‘

﴿لفضلتم النسائ﴾

’’تو مَیں بیٹیوں کو فضیلت دیتا ‘‘-

آقا ﴿w﴾ نے فرمایا کہ مَیں اپنی بیٹیوں کو بیٹوں پر ترجیح دیتا- یہ عطیہ صرف مال و دولت، جائیداد اور اِنعامات و اِکرامات کا ہی نہیں ہے بلکہ یہ عطیہ محبت، توجہ، تربیت اور اِسلامی اَفکار کی اِصلاح کا بھی ہے کیونکہ اِصلاح اور تربیت بھی ایک تحفہ ہے-

ایک صحابی آقا ﴿w﴾ کی صحبت میں بیٹھے تھے تو اُن صحابی کی ایک ننھی سی بیٹی اور ایک بیٹا تھا- اُن کا بیٹا حضور ﴿w﴾ کی مجلس میں اُن صحابی کے پاس آیا تو اُنہوں نے اپنے بیٹے کو پکڑا، اُ سے بوسہ دے کر پیار کیا اور شفقت اور مہربانی سے اپنی گود میں بیٹھا لیا- تھوڑی دیر گزری کہ اُن صحابی کی بیٹی تشریف لائیں اور بارگاہِ مصطفی ﴿w﴾ میں حاضر ہوئیں- اُن صحابی نے اِنہیں پکڑ کر اپنے ساتھ بیٹھا لیا اور بیٹی کی جانب زیادہ توجہ نہ فرمائی-

مَیں قربان جائوں مدنی تاجدار ﴿w﴾ پر کہ حضور ﴿w﴾ نے اپنی اُمت، اپنے عشاق اور اپنی مجلس سے فیض پانے والوں کے ایک ایک عمل پر اُن کی رہنمائی فرمائی ہے- جب حضور ﴿w﴾ نے دیکھا کہ بیٹا آیا تو اُس صحابی نے بوسہ دیا اور توجہ دی اور اپنی گود میں بیٹھا لیا اور جب بیٹی آئی تو بوسہ بھی نہیں لیا، توجہ بھی نہیں کی اور اُتنی شفقت بھی نہیں کی اور ویسے ہی پکڑ کر بیٹی کو اپنے ساتھ بیٹھا لیا تو آقا ﴿w﴾ نے فرمایا کہ:-

﴿فما عدلت بینھما﴾

’’﴿اے میرے صحابی! ﴾ تم نے اِن دونوں کے درمیان عدل ﴿و انصاف﴾ نہیں کیا‘‘-

ہماری لاکھوں کروڑوں جانیں آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حرمت پہ قربان! حضور ﴿w﴾ نے اس صحابی کو جو فرمایا اس کا مطلب یہ تھا کہ اگر بیٹے کو بوسہ دیا تھا تو بیٹی کو بھی بوسہ دیتے- اگر بیٹے کو توجہ دی تھی تو بیٹی کو بھی توجہ دیتے- اگر بیٹے کو گود میں بیٹھایا تھا تو بیٹی کو بھی اُسی طرح شفقت سے اپنے پاس بیٹھاتے - حضور ﴿w﴾ نے فرمایا کہ اِن دونوں کے درمیان تم نے عدل نہیں کیا-

ذرا یہ بھی سوچیئے کہ! آقا ﴿w﴾ کا اپنی صاحبزادیوں کے بارے میں رویہ کیسا تھا؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین فرماتے ہیں کہ آقا پاک ﴿w﴾ جب کسی مہم پہ تشریف لے جاتے، تبلیغ کے لیے تشریف لے جاتے یا کسی بھی غرض سے مدینہ شریف سے کچھ دِن کے لیے باہر تشریف لے کر جانا ہوتا تو حضور ﴿w﴾ اپنے تمام اَقربا، تمام جانثاروں اور غلاموں سے ملاقات فرماتے اور سب سے آخر میں سیدۃ النسائ حضرت فاطمۃ الزھرہ ﴿k﴾ سے ملاقات فرماتے- پھر جب اُس مہم سے واپس آتے تو سب سے پہلے خاتونِ جنت حضرت فاطمۃ الزھرہ ﴿k﴾ کے گھر تشریف لے کر جاتے- یعنی حضور ﴿w﴾ جاتے ہوئے سب سے آخر میں ملاقات فرماتے اور واپس آکر سب سے پہلے حضور سیدۃ النسائ ﴿k﴾ سے ملاقات فرماتے-

’’کنزل العمال ‘‘میں اِمام حسام الدّین المتقی الہندی حضرت مسور ﴿h﴾ سے ایک حدیث پاک نقل فرماتے ہیں کہ حضور ﴿w﴾ نے فرمایا کہ: -

﴿فاطمۃ بضعۃ منی یقبضنی ما یقبضھا و یبسطنی ما یبسطھا﴾

’’فاطمہ ﴿k﴾ میرا ٹکڑا ہیں جو کوئی فاطمہ کو تکلیف دیتا ہے وہ مجھے تکلیف دیتا ہے اور جو چیز فاطمہ کو خوش کرتی ہے وہ چیز مجھے خوش کر دیتی ہے ‘‘-

آقا پاک ﴿w﴾ اپنی بیٹیوں سے اِس انداز میں شفقت فرماتے کہ سیّدنا فاروق اعظم ﴿h﴾ ایک دِن حضور سیّدۃ النسائ فاطمۃ الزھرہ ﴿k﴾ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اُس وقت حضور ﴿w﴾ کا وصال ہو چکا تھا- اِس حدیث پاک کو حضرت اِمام اَحمد بن حنبل نے ’’المُسند‘‘ میں، اِمام اِبن ابی شیبہ نے ’’المصنف‘‘ میں اور اِمام حاکم ﴿رحمۃ اللہ علیہم اجمعین﴾ نے ’’المستدرک الصحیحین‘‘ میں نقل فرمایا کہ سیّدنا عمرِ فاروق ﴿h﴾ حاضر ہوئے اور حضور سیّدۃ النسائ ﴿k﴾ کو عرض کرتے ہیں کہ:-

﴿یا فاطمۃ و اللّٰہ ما رایت احدا احب الی رسول اللّٰہ منک﴾

’’اے سیّدہ! مجھے میرے پروردگار کی قسم! مَیں نے آپ سے بڑھ کر کسی کو رسول اللہ کا محبوب نہیں دیکھا‘‘-

حضرت عمر ﴿h﴾ یہ گواہی دیتے ہیں کہ اے سیّدہ، طیبہ، طاہرہ! اگر مَیں نے اپنے حبیب ﴿w﴾ کو کسی سے محبت کرتے ہوئے دیکھا ہے تو وہ آپ ﴿k﴾ کی ذاتِ اقدس سے دیکھا ہے- آپ ﴿k﴾ سے بڑھ میرے آقا ﴿w﴾ نے کائنات میں کسی سے محبت نہیں فرمائی- پھر مزید فرماتے ہیں کہ اے سیّدہ! مَیں قسم اُٹھا کر کہتا ہوں کہ واللہ! عمر بن خطاب کو بھی حضور نبی اکرم ﴿w﴾ کی ذات بابرکات کے بعد اگر کسی ہستی سے محبت ہے تو اے سیّدہ! وہ آپ ﴿k﴾ کی ذاتِ گرامی ہے-

خلفائے راشدین اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی محبت کا یہ عالم تھا کہ وہ گواہی دیتے ہیں کہ آقا پاک ﴿w﴾ کو حضرت فاطمہ ﴿k﴾ سے بڑھ کر کسی اور سے محبت نہیں تھی- اِسی لیے حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے ہمارے سامنے جو رول ماڈل رکھے وہ رول ماڈل ہی یہی تھے- افسوس! ہم نے کبھی اُمت کے حکیم اور نبض شناس کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی-

آج ہمیں اس بنیادی تعلیم کی طرف جانا ہے جو ہمیں قرآن و سنت نے فراہم کی، جو حضور کے صحابہ کے عمل نے اور حضور کے اہلِ بیت کے عمل نے ہمیں فراہم کی ہے- آج ضرورت ہے کہ ان کی تعلیمات کو اختیار کیا جائے- ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ کی یہی دعوت ہے کہ آئیں! جو ہمارے معاشرے کے اندر برائیاں پائی جاتی ہیں ان کے خلاف ایک علمی اور فکری جہاد کیا جائے- ایک ایسا نمونۂ عمل پیش کیا جائے کہ ہم اپنے معاشرے کی برائیوں اور بیٹیوں پر ہونے والے ظلم کو ختم کریں- ہمارے درمیان جو عہدِ جہالت کی روایات موجود ہیں اگر ہم ان کو ختم کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو اللہ اور اس کے رسول ﴿w﴾ کی بارگاہ میں سرخ رو ہیں- اللہ تعالیٰ ہمیں سرخ رو اور کامیاب ہونے کی توفیقِ خاص عطا فرمائے- اٰمین ثم اٰمین

و آخر دعوانا عن الحمد للّٰہ رب العالمین

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر