عادل و ہمہ گیر قیادت کی تربیت کا قرآنی معیار(فکری خطاب )

عادل و ہمہ گیر قیادت کی تربیت کا قرآنی معیار(فکری خطاب )

عادل و ہمہ گیر قیادت کی تربیت کا قرآنی معیار(فکری خطاب )

مصنف: صاحبزادہ سلطان احمد علی مئی 2015

نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ وَنُسَلِّمُ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِo اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ o  بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ o

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اﷲِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ  لِّمَنْ کَانَ یَرْجُو اﷲَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَ اﷲَ کَثِیْرًاo (الاحزاب:۲۱)

 اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یَاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہٖ وَسَلِّمُوْا  تَسْلِیْمًا،اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا سَیِّدِیْ یَا حَبِیْبَ اللّٰہِ ، وَ عَلٰی اَلِکَ وَاَصْحَابِکَ یَا سَیِّدِیْ یَا مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہ ،صَلَی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَ اَصْحَابِہٖ وَاَزْوَاجِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْo

واجب الاحترام، معزز و محترم، بھائیو ، بزرگو اور ساتھیو،السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ٗ؛

 سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کے آستانہ عالیہ سے چلائی گئی تحریک اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین کے اراکین اورمبلغین کی دعوت پہ آج کی اس تقریب میں تشریف لانے پر مَیں آپ تمام بھائیوں ،بزرگوں اور تمام اپنی بہنوں اوربیٹیوں کوخوش آمدید کہتا ہوں - اورآپ کامشکور ہوں جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کے آستانہ عالیہ سے چل کے پاکستان کے طول وعرض میں بھی اورپاکستان سے باہر دُنیا کے متعدد ممالک میںیہ تحریک یہ جماعت قرآن وسنت کے اس اَبدی آفاقی اورعالم گیر امن کاپرچار کررہی ہے-کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس پیغام کودُنیامیں عام فرمانے کے لئے اوراپنی مخلوق کوجس پیغام کے ذریعے ہدایت عطا فرمانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے نیک اوربرگزیدہ بندوں کاانتخاب فرمایااورآج کادن بالخصوص ہمارے لئے بڑی اہمیت رکھتاہے-اس وقت جب آپ اورہم یہاں اکٹھے ہوئے ہیں آج پاکستان سمیت دُنیابھر میں لوگ اپنے کشمیری بھائیوں، کشمیری بہنوں اوراپنی کشمیری بیٹیوں سے اظہارِ یکجہتی کررہے ہیں اوران پر جومظالم گزشتہ سات دہائیوں سے ڈھائے جارہے ہیں اُن مظالم کے خلاف آزادی اورفریڈم کی جوپُرامن تحریک کشمیریوں نے جاری رکھی ہوئی ہے ان کی اس پر امن تحریک کی حوصلہ افزائی کے لئے ،ان کی اس جدوجہد کو سلامِ عقیدت پیش کرنے کے لئے اوران کی قربانیوں میں ان کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرنے کے لئے ہم پر یہ لازم ہے کہ ہم اپنے اُن بھائیوں، بیٹیوں اور اپنی ان بہنوں کوخراجِ عقیدت پیش کریں، انہیں اپنی پوری یک جہتی کا یقین دلائیں کیونکہ وہ لوگ اپنی خاطر نہیں بلکہ وہ دو بنیادوں پر ایک طویل ترین اوراعصاب شکن جنگ لڑرہے ہیں-  ایک اسلام کی خاطراوردوسرا پاکستان کی خاطرکیونکہ اُن کے اورہمارے تعلق کی بنیاد نظریۂ پاکستان یعنی نظریہ لاالٰہ الااللہ محمدرسول اللہ کی بنیادپہ ہمیں ان سے محبت ہے اورانہیں ہم سے محبت ہے اورجب ۱۹۴۷ء کاانڈین انڈپینڈینس ایکٹ آیاتو تمام ہندوستان کی پانچ سو تریسٹھ ریاستوں کو یہ اختیار ملاکہ وہ چاہیں تو ہندوستان کے ساتھ جائیں چاہیں تو پاکستان کے ساتھ آجائیں اورچاہیں توآزاد حیثیت اختیار کریں - کشمیر کی عوام کہ جن کے لئے حضرت علامہ محمداقبال رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاتھا:

جس خاک کے ضمیر میں ہو آتشِ چنار

ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاکِ ارجمند

تو کشمیریوں نے اسلام کے جذبے کے ساتھ آتشِ اسلام سے گرم ہوکے آتشِ اسلام کی حرارت سے انہوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کافیصلہ کیا- لیکن ہندوستان نے کشمیر پر طاقت کے ساتھ غاصبانہ قبضہ کیااورآج تک اپنے اس غاصبانہ قبضے کووہ آگے بڑھاتاچلاجارہاہے -آپ وہاں پہ کشمیریوں کے اجتماعی قبروں سے لے کر اُن کی ہونے والے بے پناہ کثیر تعداد کے قتل عام کودیکھیں ،اُن کالے قوانین کودیکھیں جو کشمیر میں انڈین حکومت نے بنائے ہیں اورجس طریقے سے وہاں پہ انسانوں کاخون کیاجاتاہے، انسانی جانوں کو بے دریغ قتل کیاجاتاہے اور لوگوں کوذلیل ورسوا کیاجاتاہے ،جس طریقے کی پابندیاں ان لوگوں پہ عائد کی جاتی ہیں وہ اس ساری اذیت کو، اس سارے کرب کو، اس سارے دکھ کو جس ایک وجود کی خاطر برداشت کرتے ہیں اس وجود کانام پاکستان ہے -پاکستانیوں پرلازم ہے، پاکستانیوں پر یہ واجب ہے پا،کستانیوں پر یہ فرض ہے کہ جولوگ ان کی خاطر قربانیاں دے رہے ہیں، جولوگ ان کی خاطر اپنی عصمتوں ،اپنی جانوں کے نذرانے دے رہے ہیں ہم ان کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کریں، ہم ان کے ساتھ کھڑے ہوجائیں ،ہم ان کے ساتھ اظہارِ محبت کریں، ہم ان کی ان قربانیوں کوسلام پیش کریں، ہم ان کی ان قربانیوں کوخراجِ عقیدت پیش کریں اور صرف کشمیر میں نہیں آپ دنیا بھر میں جدھر بھی دیکھیں بحیثیت قوم آج مسلمان ایک ذلیل اوررسوا حیثیت رکھتے ہیں-میانمار میں دیکھ لیں، خود پاکستان میں دیکھ لیں، فلسطین میں دیکھ لیں ،شام اورعراق میں دیکھ لیں، سوڈان اور فلپائین میں دیکھ لیں بے شمار دیگرممالک میں دیکھ لیں مسلمانوں کے خون کو پانی سے بھی حقیر اورسستا سمجھ کربہایاجاتاہے -ہم پریہ لازم ہے کہ ہم اس بات پرغوروفکر کریں کہ آخرہماری یہ کیفیت کیوں ہوئی ؟آخریہ قوم دُنیا کی ایک ذلیل ترین قوم کیوں بن کررہ گئے ہیں، اس کی وجہ کیاہے ؟-

اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمیں بتایاکہ اگر تم میری اورمیرے محبوب محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت اختیار کیے رکھوگے تو مَیں تمہیں دُنیامیں سربلند بھی رکھوں گا،سرفراز بھی رکھوں گااورعزت ووقار بھی عطاکروں گااورآخرت میں بھی مَیں تمہار ے لئے بہت بڑی کامیابی رکھ دوں گالیکن اگر تم میری اورمیرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی کروگے اور میرے نبی کریم  ﷺ کی سنت اورمیری نازل کردہ کتاب سے اپنارشتہ ، تعلق منقطع کردوگے تواللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جس نے اللہ اوراس کے رسول اللہ  ﷺ کی نافرمانی کی ،ان کی حدود کوپھلانگا،تو فرمایا ان کے لئے مَیں نے دنیامیں اورقیامت میں ایک درد ناک عذاب تیارکررکھاہے -اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں جس طرف رغبت دلائی ،ہمیں اللہ تعالیٰ نے جس جانب متوجہ کیا، وہ اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں کہ :

{لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اﷲِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ  لِّمَنْ کَانَ یَرْجُو اﷲَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَ اﷲَ کَثِیْرًاo} (الاحزاب:۲۱)

’’ محبوب ﷺ مَیں نے تمہارے درمیان جلوگرفرمائے ہیں ،میرے محبوب نے تمہارے لئے جوراستہ متعین کردیاہے اگر تم اپنے پروردگار سے ملاقات کی خواہش رکھتے ہو،اگرتم اپنے پروردگار کی ملاقات کی تمنارکھتے ہو،اگرتم اپنے پروردگارکی ملاقات کی آرزورکھتے ہواورقیامت کے دن سرخروہوکر اس کی بارگاہ میں پیش ہوناچاہتے ہو،تواس راستے کواختیارکرلو،جوراستہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاراستہ ہے -‘‘

آقاپاک  ﷺ نے جس راستے کواختیار کیااور جس طریقے سے آقاپاک  ﷺ نے مسلمان قوم کی تشکیل کی، جس طریقے سے آقاپاک ﷺ نے اس اُمت کوتعمیر کیا-جن اجزائے ترکیبی کے ساتھ آقاپاک  ﷺ نے اس اُمت کاوجودتشکیل دیا وہ صرف انسان کے ظاہر پرہی مبنی نہیں تھا اورنہ ہی صرف انسان کے باطن پہ بھی مبنی تھابلکہ آقاپاک  ﷺ نے انسانیت کی تعمیر کے لئے ،اپنی ملت کوظاہر میں بھی پاک فرمایااوراپنی ملت کوباطن میں بھی پاک فرمایا-آقاپاک  ﷺ نے نہ توایک مادہ پرست معاشرے کی تشکیل کی اورنہ ہی آقاپاک ﷺ نے ایک راہب معاشرے کی تعمیر کی - بلکہ آقاپاک  ﷺ نے مادیت اوردین ان دونوں کے امتزاج کے ساتھ ،ان دونوں کی خوشبوکے ساتھ اس معاشرے کوتعمیر کیا-ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ آج ہم نے دین کوفقط اورفقط مادیت تک محدود کردیا،آج ہم نے دین کو صرف اورصرف ظاہر تک محدود کردیااورچند احکامات کانام ہم نے دین رکھ دیالیکن جو اس کی لطافت تھی جسے للہیت کہا،جسے اخلاص کہا،جسے اللہ نے خشوع و خضوع کہا،وہ خشوع وخضوع ،وہ للہیت ،وہ اخلاص ،اس کاتعلق بندے کے ظاہر سے نہیںبلکہ اس کا تعلق بندے کے اعمالِ باطن سے ہے گویاجب تک آدمی اعمالِ باطن کواختیارنہیں کرتا اس وقت تک اس کے اعمالِ ظاہرکی قدروقیمت اوروہ وقعت نہیں رہتی -علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے امام الانبیاء رسول اللہ ﷺ کے اِسی اُسوۂ حسنہ کی تعریف کرتے ہوئے بتایااورآقا پاک  ﷺ کی زندگی مبارکہ کودوحصوں میں تقسیم کیاکہ اگر حضور کی حیاتِ طیبہ کوسمجھنا ہے ،اگرحضورکے طریقِ عمل کوسمجھنا ہے تو اسے دوحصوں میں تقسیم کرکے دیکھو،اوّل اورثانی -اوّل کیاہے اورثانی کیاہے پہلا حصہ کیاہے اوردوسرا حصہ کیاہے -علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ بتاتے ہیں:

؎بانشہ دروشی در سازودمادم زن

کہ پہلے خود کونشۂ دریشی میں پختہ کر،پہلے خود کوخشیتِ الٰہی میں پختہ کرو،پہلے اپنے نفس کاتزکیہ کرو،اپنے قلب کاتصفیہ کرو،اوراپنے قلب کوصاف اورستھرا کرو،اپنے سینے کوروشن کرو،اپنی روح کوبیدار کرو،روحانیت کی طرف، اپنے وجود کے باطن کی طرف رجوع اختیارکرو-جب تمہاری روح بیدار ہوجائے ، جب خشیتِ الٰہی تمہارے وجود میں پیدا ہوجائے ،جب تمہارے نفس کاتزکیہ ہوجائے ،جب تمہارا قلب پاک اورصاف ہوجائے ،جب تمہاراسینہ روشن ہوجائے، جب تمہاری روح بیدار ہوجائے ،جب تمہاری آدمیت کی تکمیل ہوجائے ،جب تو نشۂ درویشی خود کولگالے :

؎چوں پختہ شوی برسلطنت جم زن

اورپھر تواس نشۂ درویشی میں پختہ ہوجائے پھر دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے کہ قیامِ سلطنت کی طرف جاؤ - جب تواس میں پختہ ہوجائے توپھرتومعاشرے کی تشکیل میں لے کر آ، پھر خود کوسلطنتِ دار کی طرف گامزن کردے ،پھر اپنے آپ کو سلطنت دارا پرجلوہ فرما کردے - اورفرماتے ہیں کہ آقاپاک ﷺ کی زندگی بھی انہی دوحصوں میں تقسیم ہے -آپ پہلے حصے کوجب دیکھتے ہیں -پہلاحصہ آقاپاک ﷺ کی زندگی کاجو مکہ میں بسر ہوا،وہ پہلے تیرہ سال تھے اورآپ اگر مکی زندگی کاجائزہ لیں توان تیرہ برسوں میں آپ اس بات کو محسوس کریں گے کہ آقاپاک ﷺ نے اپنی صحبت اوراپنی مجلس میں رہنے والوں کی صرف باطنی تربیت کی، آقاپاک ﷺنے انکے عقیدۂ آخرت کومضبوط کیا،ان کے تعلق باللہ کومضبوط کیا،ان میں آقاپاک  ﷺنے اس بات کومروّج کیا،اس بات کوپختہ کیا’’کہ تم کسی کے سامنے جواب دہ ہوتم جوکچھ بھی کرتے ہولکھ لیاجاتاہے ‘‘قیامت کے دن ان سب کے سب کااللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حساب دیناہے -اس لیے آقاپاک  ﷺ نے ان کی تربیت اس رنگ میں کی کہ اگر آپ مکی زندگی کودیکھیں اوراس کے بعد آپ مدنی زندگی کودیکھیں جب مدنی زندگی شروع ہوتی ہے تو پھر وہاں پہ آقاپاک ﷺ جہاد کاآغاز کرتے ہیں ، قبائل کے ساتھ معاہدے فرماتے ہیں، ایک سلطنت ،ایک معاشرے کی بنیاد رکھتے ہیں ،جنگ کے قوانین مرتب ہوتے ہیں تمام ریاستی قوانین کوآقاپاک ﷺوہاں رائج فرماتے ہیں ،وہ قوانین وحی الٰہی کے ذریعے مرتب کیے جاتے ہیں - اگر آپ مکی زندگی اورمدنی زندگی کومختصرترین پیرائے میں ، مختصرترین الفاظ میں بیان کرنا چاہتے ہیں تو آپ اسے یوں کہیں گے کہ مکی زندگی درویشی کی زندگی تھی ،مکی زندگی روحانیت کی زندگی تھی، مکی زندگی میں آقاپاک  ﷺنے لوگوں کورُوحانیت میں پختہ کیاجب وہ لوگ اپنی رُوحانیت اورباطن میں پختہ ہوگئے پھران لوگوں کولے کر مدینہ میں گئے جہاں پہ سلطنت کی زندگی کاآغاز ہوااورقرآن بھی اسی ترتیب کے ساتھ مرتب ہوا ہے -

مکہ میں جوقرآن کریم نازل ہوا اس نزول میں سورتوں کی ترتیب بالکل مختلف ہے لیکن جب مدنی سورتوں کانزول ہوتا ہے تو مدنی صورتوں کی ترتیب بالکل مختلف ہے آپ قرآن میں جھانک کر مکی سورتوں کاجائزہ لیں ،مکی سورتوں میں اللہ تعالیٰ نے زیادہ تر آخرت کاذکرکیاہے ان سورتوں میں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کوعذاب سے ڈرایا،آگ سے ،جہنم سے ڈرایااوربار بار ان اقوام کاذکر کیاجن اقوام نے نافرمانی کی، جن اقوام نے شرک کیا،جن اقوام نے اللہ کے سواکسی کی عبادت کی، جن اقوام نے اللہ کے علاوہ مسجود بنائے -اللہ تعالیٰ نے اُن اقوام پر جوگرفت کی ،جو عذاب مسلط کیااللہ تعالیٰ نے اُس عذاب سے ڈرایا- لیکن جب مدنی سورتیں آتی ہیں پھر مدنی سورتوں میں آپ کو’’سورۃ توبہ‘‘ نظر آتی ہے ،آپ کو’’سورۃ فتح ‘‘نظر آتی ہے -وہاں آپ کو’’سورۃ نصر‘‘نظرآتی ہے - وہاں اللہ تعالیٰ کے بیان کرنے کاانداز مختلف نظرآتاہے ،طریقہ کاربدل جاتاہے ،مدینہ میں اللہ تعالیٰ جہاد کاحکم دیتے ہیں ،قتال کے احکام ملتے ہیں ،انصاف کے حکم والی ، قضاکے متعلق ، فتح کے متعلق سورتیں نازل ہوتی ہیں - فیصلے کرنے اوراُمورطے کرنے کے متعلق احکامات نازل ہوتے ہیں ،والدین اوربیوی کے کیاحقوق مقررکرنے ہیں ،سزا جزا کیسے دی جائے گی ؟ مکہ میں صرف یہ بتایاجاتاتھا کہ بروز حشر اللہ تعالیٰ کی عدالت میں تم نے جواب دینا ہے لیکن جب بات مدینہ میں آئی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایانہیں اب تم اس دنیامیں بھی جواب دہ ہویعنی بروزِ قیام توحساب ہوگاہی لیکن اس سے پہلے یہاں بھی حساب لیاجائے گا-قرآن پاک میں اس کی بے شمارمثالیں موجودہیں اس بات کوواضح کرنے کے لئے میں صرف ایک مثال پیش کرتا ہوں کہ مکی اورمدنی احکامات میں کیافرق ہے؟ اورمکی اورمدنی مزاج میں کیافرق ہے؟ مکی اورمدنی تربیت میں کیافرق ہے ؟مکی اورمدنی اسلوب میں کیافرق ہے؟ -مثلاً جب قتل کی بات آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قتل کے متعلق بتایاکہ قتل کتنا قبیح فعل ہے اوراللہ تعالیٰ کے نزدیک کتنا ناپسندیدہ امر ہے -مکہ میں قتل کے متعلق اللہ تعالیٰ نے کیااحکامات فرمائے اورمدینہ میں اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے کیاحکم دیا -آپ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی حیاتِ مبارکہ کے دونوں حصوں یعنی مکی دوراورمدنی دور کو اپنے سامنے رکھیں مثلاً مکہ میں جب قتل کے متعلق حکم آیاتو اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ :

{اِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْoوَ اِذَا النُّجُوْمُ انْکَدَرَتْoوَ اِذَا الْجِبَالُ سُیِّرَتْoوَ اِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْoوَ اِذَا الْوُحُوْشُ حُشِرَتْoوَ اِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْoوَ اِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْoوَ اِذَا الْمَوْئٗ دَۃُ سُئِلَتْoبِاَیِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْoوَ اِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْoوَ اِذَا السَّمَآئُ کُشِطَتْoوَ اِذَا الْجَحِیْمُ سُعِّرَتْoوَ اِذَا الْجَنَّۃُ اُزْلِفَتْoعَلِمَتْ نَفْسٌ مَّآ اَحْضَرَتْo}(التکویر:۱ تا ۱۴)

’’جب سورج لپیٹ کر بے نور کر دیا جائے گا-اور جب ستارے (اپنی کہکشائوں سے) گر پڑیں گے-اور جب پہاڑ (غبار بنا کر فضا میں) چلا دیے جائیں گے-اور جب حاملہ اونٹنیاں بے کار چھوٹی پھریں گی (کوئی ان کا خبر گیر نہ ہوگا)-اور جب وحشی جانور (خوف کے مارے) جمع کر دیے جائیں گے-جب سمندر اور دریا (سب) ابھار دیے جائیں گے-اور جب روحیں (بدنوں سے) ملا دی جائیں گی-اور جب زندہ دفن کی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا-کہ وہ کس گناہ کے باعث قتل کی گئی تھی-اور جب اعمال نامے کھول دیے جائیں گے-اور جب سماوی طبقات کو پھاڑ کر اپنی جگہوں سے ہٹا دیا جائے گا-اور جب دوزخ (کی آگ) بھڑکائی جائے گی-اور جب جنت قریب کر دی جائے گی-ہر شخص جان لے گا جو کچھ اس نے حاضر کیا ہے-‘‘

یہ مکہ کااسلُوبِ تربیت تھاکہ اللہ تعالیٰ نے بتایاکہ یہ سورج لپیٹ دیاجائے گا،آسمان سے ستارے گرادئیے جائیں گے پہاڑ چلادئیے جائیں گے -اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جسے قتل کیاگیاہوگا جس لڑکی کوزمین میں زندہ دفنادیاگیاہوگااس سے پوچھاجائے گاکہ اسے کس جرم میں میں قتل کیاگیااللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس دن اعمال نامے کھول دئیے جائیں گے جہنم بھڑکادیاجائے گاجنت قریب کردی جائی گی ہرشخص یہ جان لے گاکہ میں اپنے اعمال نامے میں کیالایاہوں - یہ احکامات اللہ تعالیٰ نے مکہ میں نازل فرمائے -جیسے مَیں نے عرض کی کہ اللہ تعالیٰ نے اُن لوگوں میں جذبۂ رُوحانیت بیدار کیا،اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضورنبی کریم ﷺ پہ قرآن مجید نازل کیا اس میں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کوجہنم سے ڈرایا، آخرت کے حساب کتاب کاخوف دلاکے اُن کے اندرخشیت پیداکی تاکہ ان کاتزکیہ کردیاجائے - جب تزکیہ کردیا،جب خشیت پیدا ہوگئی،جب خوفِ الٰہی پیداہوگیا،جب رُوحانیت پیدا ہوگی ،جب قلب پاک اورصاف ہوگیا،جب سینہ روشن ہوگیااورجب رُوح بیدار ہوگئی،جب قلب منور ہوگئے ،جب دماغ چمک اُٹھے ،جب اللہ تعالیٰ کی رضامطلوبِ زندگی بن گئی ، جب اللہ تعالیٰ کے حضور سرِتسلیم خم کرناان کی زندگیوں کااَسلوب بن گیاتو پھراللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کومدینہ میں بھیج دیا- جب وہ مدینہ میں گئے وہاں قرآن وہی تھا ، جبرائیل وہی تھا،محمدرسول اللہ ﷺ وہی تھے لیکن احکامات کااسلوب بدل گیا،اللہ تعالیٰ مدنی زندگی میں اسی گناہ کے متعلق فرماتے ہیں اب اس قتل کرنے کے جرم کی سزاکیارکھی گئی ہے- مدینہ میں اللہ تعالیٰ قتل کے متعلق فرماتے ہیں سورۃ البقرہ میں سورت ۱۷۸میں فرماتے ہیں:

{یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی ط اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْاُنْثٰی بِالْاُنْثٰیط فَمَنْ عُفِیَ لَہٗ مِنْ اَخِیْہِ شَیْئٌ فَاتِّبَاعٌ م بِالْمَعْرُوْفِ وَاَدَآئٌ اِلَیْہِ بِاِحْسَانٍ ط ذٰلِکَ تَخْفِیْفٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَرَحْمَۃٌ ط فَمَنِ اعْتَدٰی بَعْدَ ذٰلِکَ فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌo}(سورۃ البقرہ:۱۷۸)

’’اے ایمان والو! تم پر ان کے خون کا بدلہ (قصاص) فرض کیا گیا ہے جو ناحق قتل کیے جائیں، آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت، پھر اگر اس کو (یعنی قاتل کو) اس کے بھائی (یعنی مقتول کے وارث) کی طرف سے کچھ (یعنی قصاص) معاف کر دیا جائے تو چاہئے کہ بھلے دستور کے موافق پیروی کی جائے اور (خون بہا کو) اچھے طریقے سے اس (مقتول کے وارث) تک پہنچا دیا جائے، یہ تمہارے رب کی طرف سے رعایت اور مہربانی ہے، پس جو کوئی اس کے بعد زیادتی کرے تو اس کے لیے دردناک عذاب ہے-‘‘

اللہ تعالیٰ قصاص کی اہمیت آشکارکرتے ہیں کہ :

{وَلَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَo} (البقرہ:۱۷۹)

’’اور تمہارے لیے قصاص (یعنی خون کا بدلہ لینے) میں ہی زندگی (کی ضمانت) ہے اے عقلمند لوگو! تاکہ تم (خونریزی اور بربادی سے) بچو-‘‘

 اللہ تعالیٰ نے فرمایااے لوگو! تم تقویٰ اختیارکراوران تمام گناہوں سے بچواوراللہ تعالیٰ کی ذات پر تقویٰ اختیارکرو-تویہ آیت پیش کرنے کامطلب صرف اتناتھا کہ ایک طرف مکی احکامات ہمارے سامنے ہیں اوردوسری طرف مدنی احکامات ہمارے سامنے ہیں ،مکی احکامات کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے لوگوںکا باطنی تزکیہ کیا،مسلمانوں کوباطن میں پاک اورصاف کیااوراللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے قلوب میں نورِ معرفت بھردیااورجب یہ نور بھر دیا گیا اور جب یہ تزکیۂ باطن ہوگیاپھراللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایااے محبوب ﷺ ! اب یہ پاک ہوچکے ہیں،اب ان کے بطون کاتزکیہ ہوچکا ہے ،اب یہ احکامات جومَیں نازل فرماتاہوں ،اب یہ نظام جو عدل وانصاف اورمساوات عام کرنے کے لئے اوراس زمین میں امن اوراستحکام پھیلانے کے لئے صادر کئے ہیں جن لوگوں نے ان کواپنایااب ان پاک ارواح کے ذریعے ،ان تزکیہ شدہ اَرواح کے ذریعے ، اب ان روحانیت بیدارلوگوں کے ذریعے ان احکامات کوزمین میں نافذکردیاجائے -گویاوہ لوگ جواللہ تعالیٰ کے احکامات کونافذکرنے کے لئے نکلتے ہیں ،وہ لوگ جواللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی کے لیے اُٹھتے ہیں، وہ لوگ جواس زمین میں نظامِ الٰہی کی بات کرتے ہیں ،وہ لوگ جواس زمین میں جہاد کے لیے نکلتے ہیں ،وہ لوگ جواس زمین میں قتال کے لئے نکلتے ہیں وہ لوگ جو اس زمین میں خلافت علی منہاج النبوت قائم کرنے کے لئے نکلتے ہیں ،وہ لوگ جو اس زمین میں اللہ تعالیٰ کی حکومت قائم کرنے کے لئے نکلتے ہیں ان لوگوں پہ لازم ہے کہ پہلے آقاپاک ﷺ کے صحابہ کرام کی سنت کے مطابق ، آقاپاک ﷺ کی سنت کے مطابق ان لوگوں کاتزکیۂ باطن کیاجائے ،ان لوگوں کے باطن کوپاک وصاف کیاجائے ،ان لوگوں کی روحانیت کوبیدار کیاجائے تاکہ وہ اس قابل ہوجائیں کہ اس زمین میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کے ذریعے عدل وانصاف قائم کرسکیں -گویاجب تک انسان کااندریعنی باطن پاک وصاف نہیں ہوجاتا،جب تک تزکیہ نہیںہوتا،جب تک رُوحانیت بیدارنہیں ہوتی،جب تک انسان کاباطن بیدارنہیںہوتا،جب تک نفس کاتزکیہ نہیںہوجاتااُس وقت تک آدمی اِس قابل نہیں ہوجاتاکہ زمین میں اللہ تعالیٰ کی حکومت اوراللہ تعالیٰ کے نظام کے قیام کی جدوجہد کرسکے -اس کی بہترین مثال کہ ایک طرف اَصحابِ صُفّہ ہیں جن سے تصوف شروع ہوتاہے اورایک طرف اصحابِ بدرہیں جواسلام کے پہلے معرکہ میں شریک تھے اوراگرآپ ان دونوں کودیکھیں توجو اصحاب صُفّہ ہیں وہ نمونہ تزکیہ ٔباطن ہیں اورجواصحابِ بدرہیں وہ نمونہ ٔسلطنت ہیں اوریہاں ایک خوبصورت ترین مثال ہمارے سامنے آتی ہے کہ وہ لوگ جن کوآقاپاک  ﷺ نے اَصحابِ صُفّہ میں شامل کیاان کی ایک بڑی تعداد غزوۂ بدرمیں شامل تھی اور اگر آپ آقاپاک ﷺ کے احکامات کودیکھیں خاص طور پرمیدانِ بدر کی وہ دعادیکھیں جو آقاپاک ﷺ نے اللہ کے حضور عرض کی ،کہ رسول اللہ ﷺ اپنے ان اصحاب کے متعلق اللہ کی بارگاہ میںکیاعرض کرتے ہیں کہ الٰہ العالمین ! یہ تیرے مٹھی بھر ماننے والے ،تیرے نام کی خاطر ،تیرے دین کی سربلندی کی خاطراس میدان(غزوہ بدر) میںکود پڑے ہیں ،گو کہ یہ طاقت میںکم ہیں ،وسائل میں کم ہیں ،تعداد میں کم ہیںلیکن الٰہ العالمین! اگر آج انہیں میدان(غزوہ بدر ) میں شکست ہوگئی ،اگرانہیں یہاں پہ مٹادیاگیا توپھر زمین پہ تیرے نام لینے والا کوئی نہیں ہوگاحالانکہ اِسلام تودوردورتک پھیل چکاتھا-ہجرت حبشہ اس سے پہلے ہوئی تھی ،مکہ ومدینہ عرب میں موجود تھاجب کہ حبشہ سوڈان اورایتھوپیاکی طرف ،یعنی افریقہ تک اِسلام پھیل چکاتھا لیکن آقاپاک ﷺ کیاعرض کرتے ہیں کہ اے الٰہ العالمین اگر آج یہ مٹھی بھر لوگ ختم ہوگئے اوراگرا نہیں مٹادیاگیاتوزمین پہ تیرا نام لیوا کوئی نہیں بچے گا،اس کی وجہ یہ تھی کہ میدانِ بدر میں آقاپاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جمع پونجی موجود تھی ،جو کچھ آقاپاک  ﷺ نے مکی زندگی میں بنایاتھاتو وہ جمع پونجی وہ اصحابہ کرام تھے جو اس دن میدانِ بدر میں جنگ کے لئے کود پڑے تھے ،وہ لوگ تھے جنہوں نے آقا پاک  ﷺ کے نگاہِ کرم سے، وہ لوگ جنہوں نے آقاپا ک ﷺکی فیضِ نظر سے تربیت پائی تھی جن کے وجود ظاہر وباطن میں ایک ہوچکے تھے ،جن کے ظاہر اورباطن میں فرق نہیں تھا-جن کی زبان جوکچھ کہتی تھی ان کا قلب اس کی تصدیق کرتا تھااورمتعددصحابہ کرام ان میں سے وہ تھے جن کاشمار اَصحابِ صُفّہ میں بھی ہوتا تھا-مثلاً حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ ،حضرت سیدنابلال حبشی ؓ،حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ،حضرت صہیب بن سنانؓ ، حضرت رفع بن عبدا لمنذرؓ ،حضرت زید بن خطابؓ،حضرت عبداللہ بن زیدؓ ،حضرت عمار بن یاسرؓ،حضرت یحییٰ بن اسدیؓ، حضرت سالم بن عمیرؓ اورحضرت صالب مولی ابوحذیفہؓ - یہ حضرات اَصحابِ صُفّہ میں بھی اوراصحابِ بدر میں بھی شامل تھے اور یہ لوگ اسلام کی جمع پونجی تھی ،یہ لوگ اسلام کاوہ خزانہ تھا جو اس دن آقاپاک  ﷺ کی معیت میں ،آپ ﷺ کی قرب ورفاقت میںوہاں پہ کھڑے تھے یہ اس بات کااعلان تھاکہ یہ وہ لوگ ہیںجواپناگھربارہرچیز اللہ تبارک وتعالیٰ کی راہ میں ،اللہ کی تسلیم ورضاکی خاطرترک کرکے نکلے ہیں - علامہ اقبال کیاکہتے ہیں :

شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن

نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی

دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو

عجب چیز ہے لذتِ آشنائی

وہ لوگ لذتِ آشنائی لیے وہاں پہ کھڑے تھے ،اللہ پاک کی دوستی پالنے وہاں پہ کھڑے تھے ،مالِ غنیمت نہیں، کشورِکشائی کے لئے نہیں بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی تسلیم و رضا کے پیکر بن کے وہاں پہ کھڑے تھے -وہ اللہ تعالیٰ کی چاہت پہ اپنی چاہت کوقربان کرکے کھڑے تھے ،وہ لوگ اللہ کے ارادے پہ اپنی زندگی کوقربان کرنے کے لئے وہاں پہ کھڑے تھے- یہ وہ لوگ تھے جن کے باطن مکمل طور پر روشن ہوچکے تھے اس لئے آقاپاک  ﷺ نے تیرہ سال ان لوگوں کاتزکیہ فرماکر ان کومیدانِ جہاد میں اُتارا-اگرتزکیہ نہ ہوتو جب فتح ملتی ہے، چاہیے فوجی ہے ،چاہیے مجاہد ہے، چاہیے سالار ہے اس کے باطن میں تکبر وغرور پیدا ہوجاتاہے اور جب تکبر ہوتا ہے تو وجود میں ناشکری پیدا ہوجاتی ہے، جب وجود میں ناشکری آجائے تو پھر وہ جد وجہدِ خلافت نہیں رہتی، وہ جدوجہد نظام اسلام نہیں رہتی کیونکہ اسلامی نظام کی جدوجہد کرنے والے کی سب سے بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ اخلاقِ نبوت کو اپنالیتا ہے اوراخلاق ِنبوت کواپنانے کی سب سے بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ انسان میں عجز وانکساری پیدا ہوجاتی ہے -اخلاقِ نبوت کے مُطالعے میں یہ سامنے آیا ہے کہ تکبر اور غرور کی کوئی جگہ نہیں ہے-گویااگرتزکیہ نہ ہو تو بندے کے وجود میں تکبر پیدا ہوجاتا ہے عاجزی جاتی رہتی ہے اوربندے کے وجود میں ناشکری پیدا ہوجاتی ہے -مثلاً آپ حضرت سلمان علیہ السلام کی طرف دیکھیں حضرت سلمان علیہ السلام اس امر کے متقاضی تھے کہ ملکہ بلقیس کاتخت اسی وقت حاضر کیاجاتا توعفریت جن اُٹھا اورکہاکہ میں مجلس برخاست ہونے سے قبل وہ تخت یہاں پر لادوں گا-حضرت سلمان علیہ السلام نے کہاکہ یہ تاخیر ہے -پھر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ :

{قَالَ الَّذِیْ عِنْدَہٗ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتٰبِ اَنَا اٰتِیْکَ بِہٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْکَ طَرْفُکَط فَلَمَّا رَاٰہُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَہٗ قَالَ ہٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْقف لِیَبْلُوَنِیْٓ ئَ اَشْکُرُ اَمْ اَکْفُرُط وَمَنْ شَکَرَ فَاِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہٖ ج وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ رَبِّیْ غَنِیٌّ کَرِیْمٌo}(النمل:۴۰)

’’(پھر) ایک ایسے شخص نے عرض کیا جس کے پاس (آسمانی) کتاب کاکچھ علم تھا کہ میں اسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں قبل اس کے کہ آپ کی نگاہ آپ کی طرف پلٹے (یعنی پلک جھپکنے سے بھی پہلے)، پھر جب (سلیمان ں نے) اس (تخت) کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا (تو) کہا: یہ میرے رب کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ آیا میں شکرگزاری کرتا ہوں یا ناشکری، اور جس نے (اللہ کا) شکر ادا کیا سو وہ محض اپنی ہی ذات کے فائدہ کے لیے شکر مندی کرتا ہے اور جس نے ناشکری کی تو بے شک میرا رب بے نیاز، کرم فرمانے والا ہے-‘‘

پھر ایک شخص اُٹھاجس کے پاس کتاب کاعلم تھااورمفسرین کرام نے ان کانام حضرت آصف بن برخیا بیان کیاہے جو حضرت سلمان علیہ السلام کے اصحابی تھے اوراللہ تبارک تعالیٰ کے بڑے جلیل القدر ولی تھے -حضرت آصف بن برخیااٹھے اورکہااے سلمان علیہ السلام! آپ کی آنکھ جھپکنے سے قبل میں ملکہ بلقیس کا تخت یہاں پہ حاضر کردوں گاتو پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

جب حضرت سلمان علیہ السلام نے آنکھ جھپک کرکھولی تو ملکہ بلقیس کے تخت کواپنے سامنے پایااب جیسے ہی تخت اپنے سامنے پایا تو فوراً حضرت سلمان علیہ السلام نے کہا کہ ہٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّی یہ تومیرے رب کافضل ہے کیونکہ وہاں پہ اخلاقِ نبوت تھا - اورنہ یہ کہ صرف نبی خود تزکیہ شدہ ہوتابلکہ تو وہ پیکر تزکیہ بلکہ تزکیہ گرتھے جیسے ہی تخت کواپنے سامنے پایاتوکہایہ تو میرے رب کافضل ہے اورفرمایااللہ تعالیٰ نے یہ فضل مجھ پر اس لئے فرمایاتاکہ وہ میری آزمائش کرے کہ مَیں اس کاشکر اداکرتا ہوں یاکہ مَیں اس کی ناشکر ی کرتا ہوں اور پھر فرمایاجس نے اللہ کاشکر ادا کیااس نے اپنے ہی فائدے کے لئے اللہ تعالیٰ کاشکر ادا کیا گویا شکر صرف عاجزی سے پیدا ہوتا ہے -تکبرسے کفر پیدا ہوتا ہے تکبر سے عاجزی نہیں آتی -ملکہ بلقیس کے تخت کوحاضر کرنا حضرت سلمان علیہ السلام کااپنا عمل نہیں تھا بلکہ یہ آپ علیہ السلام کے اُمتی کاعمل تھااوراُمتی کاعمل جیسے ہی وقوع پذیر ہوا حضرت سلمان علیہ السلام فوراً اللہ تعالیٰ کاشکر اداکرتے ہیں اور اللہ کی بارگاہ میںعجز وانکساری کااظہارکرتے ہیں - تو گویا وہ پہلے عبد تھے، پھر نبی تھے- خلافت کی بھی یہی شرط ہے جو نبوت کی شرط ہے -آپ کلمۂ شہادت پڑھیں تو آپ آقاپاک  ﷺ کی نبوت کی شہادت بعد میں دیتے ہیں پہلے نبی کریم  ﷺ کے عبد ہونے کی گواہی دیتے ہیں

{اَشْھَدُ اَنْ  لَّا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہ }

مَیں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے، اس کاکوئی شریک نہیں ،وہ لاشریک ہے اورمَیں گواہی دیتا ہوں بے شک حضرت محمد  ﷺاس کے بندے اوراس کے رسول ہیں -

گویاترتیبِ رسالت یہ ہے کہ پہلے بندگی میں کمال حاصل ہو،پہلے بندگی کی تکمیل ہو ، پہلے اپنے عبدہونے کی تکمیل کرو،پہلے مقام ِآدمیت اورمقامِ انسانیت کی تکمیل کرواوراسی طرح جب مقام ِآدمیت اورمقام ِانسانیت کی تکمیل ہوجاتی ہے پھر کہا اس کی گواہی دو اورجب اس کی گواہی دی جاتی ہے یعنی پہلے عبدکی گواہی اورپھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے -شرطِ خلافت بھی یہی ہے کہ جو خلیفہ ہوگا وہ پہلے عبدیت میں کمال حاصل کرے گا،وہ پہلے بندگی میں کمال حاصل کرے گا،وہ پہلے تزکیہ کی تکمیل کرے گااورجب تزکیہ کی تکمیل ہوجائے گی پھرمنصبِ خلافت پر متمکن ہوگا-نائب ہوتا ہی وہی ہے جو صحیح معنوں میں اطاعت گزار ہومثلاً حکومت اگرکسی کو اپنا سفیر بناکربھیجے اوروہ ایسا سفیر ہوجوحکومت کاباغی ہو،ریاست کا غدار ہو،ریاست کی حکم عدولی کرتا ہو، ریاست کی نافرمانی کرتاہو،ریاست کے آئین اورریاست کے قانون کوتوڑتا ہو،کیاایسے شخص کوریاست سفیر بناکے بھیجے گی ؟ کبھی نہیں - اسی طرح خلیفہ بھی اللہ کاسفیر ہوتا ہے وہ مخلوق کی طرف اللہ کانائب ہوتا ہے لہٰذا شرطِ خلافت یہ ہے کہ پہلے بندگی کی تکمیل کی جائے، پہلے تزکیہ کیاجائے ، پہلے رُوحانیت کوبیدار کیاجائے -اسی لئے اللہ تعالیٰ نے بندوں پر یہ لازم کیاکہ وہ پہلے صاؒلحین کی صحبت اختیار کریں-

{وَکُوْنُوْامَعَ الصَّادِقِیْن} (التوبۃ:۱۱۹)

’’صادقین کی صحبت اختیارکرو-‘‘

 ان بندوں کے درمیان بیٹھوجو اپنے فکرو عمل میں صادق ہیں، جنہوں نے اللہ کی بارگاہ میں آدمیت کی تکمیل حاصل کرلی ہے -صالحین کی صحبت سے کیا نصیب ہوتا ہے؟ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں :

{مَنْ کَانَ مُْسَتَنًّا فَلْمَسْتَنَّ لِمَنْ قَدْمَاتَ فَاِنَّ الْحَیَّ لَا تُؤْمَنُ عَلَیْہِ الْفِتْنَۃَ اُوْلٓئِکَ اَصْحٰبُ مُحَمَّدٍ ﷺ کَانُوْا اَفْضَلَ ھَذِہِ الْاُمَّۃِ اَبَرَّھَا قُلُوبًا وَّاَعْمَقَھَا عِلْمًا وَّاَقَلَّھَا تَکَلُّفًا اِخْتَارَھُمُ اللّٰہُ لِصُحْبَۃِ نَبِیِّہِ وَلِاَقَامَۃِ دِیْنِہٖ فَاَعْرِفُوْا لَھُمْ فَضْلَھُمْ وَاتَّبِعُوْا ھُمْ عَلٰی اَثَارِھِمْ وَتَمَسَّکُوْا بِمَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ اَخْلَاقِھِمْ وَ سِیَرِھِمْ فَاِنَّھُمْ کَانُوْا عَلَی الْھُدَیَ الْمُسْتَقِیْمِ}(رواہ رزین، مشکوٰہ شریف، باب الاعتصام)

’’جوسیدھی راہ پر چلنا چاہے ،سیدھا راستہ اختیارکرنا چاہے اسے چاہیے کہ وہ گزرے ہوئے بزرگوں کی اقتداء کرے اوروہ جوگزرچکے ان کی اقتدا ء کرے اوروہ کون ہیں جو گزر چکے ہیں؟جن کی اقتداء لازم ہے، جن کی راہ میں فتنہ نہیں، جن کی راہ میں فساد نہیں- {اولٓیک اصحاب محمدﷺ }وہ آقا پاک ﷺ کے صحابہ کرام ہیں- وہ اس امت میں بہترین لوگ تھے اگر ان کی اقتدا لازم ہے، اگر وہ اس امت کے بہترین لوگ تھے توان کی اقتدا کرنے کی وجہ کیاہے؟ اوران کو اس امت میں کیوں شرف حاصل ہے ؟کیوں ان کواس امت میں فضیلت حاصل ہے ؟ اس لئے کہ وہ دل کے نیک ہیں، ان کے دلوں کے اندرللہیت ہے، ان کے دلوں میں خلوص ہے، ان کے دل پاک ہیں، ان کے نفوس طیب وطاہر ہیں -ان کے علم میں گہرائی ہے، وہ رَٹی رَٹائی باتیں نہیں کرتے بلکہ وہ جوکچھ بیان کرتے ہیںاپنے دل کی گہرائیوں اوردل کے مشاہدے کے ساتھ بیان کرتے ہیں اوران کے دل میں تم تکلف کونہ پائوگے، ان کے اندرملاوٹ اورجعلی پن نہیں ہے، وہ اللہ کے خالص لوگ ہیں اورپھر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر یہ فضل فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو نبی کریم ﷺ کی صحبت عطافرمائی اورمجلسِ نبوت نے ان کوآدابِ بندگی عطا کیے ،مجلس نبوت نے ان کوپاک وطیب اور طاہر کردیااوراللہ تعالیٰ نے ان سے اپنے دین کی اقامت کی جدوجہد کروائی اوران لوگوں کواپنے دین کی اقامت کے لئے قبول کرلیا-حضرت عبداللہ بن مسعودفرماتے ہیں کہ ان کی فضیلت کوقبول کرو،ان کی فضیلت کوجانو،ان لوگوں کی اطاعت کرو،ان لوگوں کی اتباع کرو- جہاں تک استطاعت ہوان کی سیرت ،ان کے اعمال اوران کے اخلاق کواپنالو-یہ اس لئے کہ وہ سچے راستے پہ تھے اگرتم ان کے راستے پہ چلوگے توآقاپاک ﷺ نے فرمایاجو ان کی اقتداء کرے گاوہ فلاح یافتہ ہوگا-وہ صراطِ مستقیم پہ قائم ہوجائے گا-‘‘

اب ان صحابہ کرام کاراستہ کیاتھا؟ان صحابہ کرام کاطریقہ کیاتھا؟اوران کی فضیلت کی وجہ کیاہے ؟حجۃ الاسلام امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ احیائے علوم الدین میں فرماتے ہیں :کہ آقاپاک  ﷺ نے فرمایا:

{مَا فُضَّلَکُمْ اَبُوْ بَکْرٍ بِکَثْرتِ الصَّیَامِ وَلَا الصَّلٰوۃ وَلٰکِنْ بِسِرٍّ وُقِّدَ فِی صَدْرِہٖ}

’’لوگویادرکھو! حضرت ابوبکر صدیقؓ کوتم پر فقط کثرتِ صلوٰۃ اورفقط کثرت ِصیام کی وجہ سے فضیلت عطانہیںکی گئی بلکہ اس لیے تم پر فضیلت عطاکی گئی کیونکہ ان کے سینے میں اللہ تعالیٰ نے ایک راز رکھ دیا ہے -گویا ان کے سینے کی روشنی اورنور اور ان کے قلب کی تطہیر اورقلب کی روشنی ، اس وجہ سے ان کومومنین اورمسلمانوں پر فضیلت عطاکی گئی اور صحابہ کرام کاعمل کیا تھا جس پہ ہمارا چلنا ضروری ہے وہ یہ تھا کہ ان کاعلم سطروں میں نہیں تھا بلکہ ان کاعلم ان کے سنیوں میں تھا-صحابہ کرام عبادت فقط سر جھکا کر ، کمر جھکا کر ، فقط کُہنیاں ٹیک کر عبادت نہیں کرتے تھے بلکہ جب وہ سجدریز ہوتے تھے ان کے دل بھی سجدہ ریز ہوتے تھے ،وہ لوگ خشیتِ  الٰہی میں روتے تھے -‘‘

حضرت امام اعظم حضرت ابوحنیفہ کی سیرت کامطالعہ کرنے سے عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہ ؓ خشیت الٰہی میں اس قدر روتے کہ آپ کے رخسار مبارک رونے کی وجہ سے گَل گئے اورخستہ ہوگئے تھے- بندے میں خشیت الٰہی پیدا کرنا سنت صحابہ ہے -صحابہ کرام حقیقتِ ایمان کسے کہتے تھے اورہم حقیقتِ ایمان کسے کہتے ہیں ؟-صحابہ کرام اورہمارے حقیقتِ ایمان میں کیافرق ہے ؟امام بیہقی شعب الایمان میں یہ حدیث نقل کرتے ہیں حضرت حارث بن مالک انصاریؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حقیقتِ ایمان کیاہے یا شرائطِ خلافت کیاہے، جو نظامِ الٰہی کے نفاذکی کوشش کرتا ہے اس کے ایمان کی حقیقت کی شرائط کیاہیں :

حضرت حارث بن مالک انصاری فرماتے ہیں :

{عَنِ الْحَارِثْ بِنْ مَالِکِ الْاَنْصَارِیْ، اَنَّہٗ مَرَّ بِرَسُوْلِ اللّٰہ ﷺ فَقَالَ لَہٗ: کَیْفَ اَصْبَحْتَ یَا حَارِثُ ، قَالَ اَصْبَحْتُ مُؤْمِنًاحَقًّا فَقَالَ انْظُرْ مَا تَقُوْلُ فَأِنَّ لِکُلِّ شَیْیٍٔ حَقِیْقَۃٌ ، فَمَا حَقِیْقَتُ اِیْمَانِکَ؟ فَقَالَ عَزَفَتْ نَفْسِیْ عَنِ الدُّنْیَا وَأَسْھَرْتُ لِذَالِکَ لَیْلٰی وَ اَظْمَأَنَّ نَھَارِیْ وَکَأَنِّیْ اَنْظُرُ اِلٰی عَرْشِ رَبِّیْ بَارِزًا وَکَأَنِّیْ اَنْظُرُ اِلٰی اَھْلِ الْجَنَّۃِ یَتَزَاوَرُوْنَ فِیْھَا وَکَأَنِّیْْ اَنْظُرُ اِلٰی اَھْلِ النَّارِ یَتَضَاغُوْنَ فِیْھَا قَالَ یَا حَارِثُ! عَرَفْتَ فَالْزَمْ (ثَلَاثًا)}

کہ میں ایک دن آقاپاک ﷺ کے سامنے سے گزرا توآقاپاک  ﷺ نے حضرت حارث سے پوچھااے حارث! تم اپنی صبح کیسے کرتے ہو؟یارسول اللہ  ﷺ مَیں نے اپنی صبح ایسے کی جیسے ایک مومن کاحق ہے کہ وہ اپنی صبح کرے پھرآقاپاک ﷺ نے فرمایااے حارث ! ہرچیز کی حقیقت ہوتی ہے اے حارث بن مالک تیرے ایمان کی کیا حقیقت ہے؟

’’حضرت حارث عرض کرتے ہیں یارسول اللہ ﷺ میرے ایمان کی حقیقت یہ ہے کہ میرا نفس اورمیرادل دُنیاکی محبت سے اُکتاگیاہے -یارسول اللہ  ﷺ مَیں رات بھر جاگتا رہتاہوں، یارسول اللہ  ﷺ میراسارا دن قربِ حق کی چاہت کی پیاس میں گزرتا ہے، اللہ کے قرب کی پیاس میں گزرتاہے -یارسول اللہ  ﷺ مَیں اللہ تعالیٰ کے عرش کو بلاحجاب دیکھتا ہوں -یارسول اللہ  ﷺ جب اہلِ جنت ،جنت کی نعمتوں سے سرشارہوکرخوشی خوشی جنت چلتے ہیں ،میں ان کوجنت میںچلتاہوادیکھتاہوں اورجب جہنم میں جہنمیوں کو اذیت دی جاتی ہے وہ اذیت سے کرب سے بلبلااٹھتے ہیں اورمیں اُن کی چیخ وپکار کوزمین پریہاں سنتاہوں - تو آقا پاک صلی اللہ علیہ و اٰلہٖ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا کہ (تونے ایمان کی حقیقت کو پالیا ہے لہٰذا) اِسے (مضبوطی سے ) پکڑے رکھ -

حضرت حارث بن مالک اپنے ایمان کی حقیقت کا اظہار یوں کرتے ہیںکہ یارسول اللہ ! میں اللہ تعالیٰ کے عرش کواپنی نظروں کے سامنے بلاحجاب دیکھتا ہوں توحضورنے نہیں کہاکہ اے حارث بن مالک تو بدعت کررہاہے ، حضور نے نہیں کہا کے اے حارث !اسلام میں قرب الٰہی کی گنجائش نہیں ہے -حضورنے نہیںکہا کہ اے حارث بن مالک!اسلام میں وصالِ خداکی گنجائش نہیں ہے اورتُو کفر کر رہا ہے - حضورنے نہیں کہا کہ اے حارث !تجھے نفسیات کامرض لاحق ہوگیاہے -حضورنے نہیںکہااے حارث ! تُوجھوٹ بول رہا ہے -حضورنے نہیںکہاکہ اے حارث بن مالک ! یہ تیرا وہم ہے -حضورنے نہیں کہا کہ اے حارث!یہ تیرے خیال کاتوہم ہے-بلکہ حضورپاک  ﷺ نے تین مرتبہ حضرت حارث کومبارک دیتے ہوئے کہاکہ اے حارث بن مالک تجھے مبارک ہو تم نے ایمان کی حقیقت کوپالیاہے اوراب ایمان کی حقیقت کو تھامے رکھنا-‘‘

مَیں یہ عرض کررہاتھا کہ حضرت حارث بن مالک انصاریؓ کہتے ہیں یارسول اللہ  ﷺ مَیں خدا کے عرش کوبلاحجاب دیکھتاہوں -جہنمیوں کی چیخ وپکار جہنم سے سنتا ہوں ،جنتیوں کوجنت کی نعمتوں سے سرشارہوتے دیکھتاہوں -حقیقت ایمان یہ تھی کہ آقاپاک ﷺ نے تین بارفرمایا،اے حارث تُو نے حقیقتِ ایمان کو پالیا اسے پکڑے رکھنا -اے حارث بن مالک تونے حقیقت ایمان کوپالیااسے پکڑے رکھنا،اے حارث بن مالک ! تونے حقیقت ایمان کوپالیا اسے پکڑے رکھنا -

یہ وہ صحابہ کرام تھے یہ وہ نبی پاک  ﷺ کی مجلس میں بیٹھنے والے لوگ تھے ،یہ نبی کریم  ﷺکی فوج تھی، یہ اِسلام کے مُجاہد تھے جن سے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے اپنے دین کی اَقامت کی ، دین کے غلبے کی اور دین کے نفاذ کی ڈیوٹی لی - یہ وہ لوگ تھے جن کی صحبت اختیار کرنے کا ہمیں حکم دیاجارہا ہے اور صالحین کی صحبت ہی سے بندے کاتزکیہ ہوتاہے -آپ تابعین کودیکھیں ،تابعین میں بلند مقام تابعی کون ہوتاہے؟ایک تابعی ہے جس نے ایک صحابی کی زیارت کی وہ بھی تابعی کہلایااورایک تابعی ہے جس نے دَس صحابہ کرام کی زیارت کی -فقہاء ہمارے سلف صالحین نے کس تابعی کو زیادہ مقام عطاکیا جس نے ایک صحابی کی زیارت کی یا اس کامقام زیادہ ہے جس نے دس صحابہ کرام کی زیارت کی ؟اورحضرت امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ جو امام حدیث بھی ہیں امام تصوف بھی ہیں آپ کو تابعین میں بلند ترین مقام پر اس لئے سمجھا جاتاہے کیونکہ انہوں نے ستر بدری صحابہ کی زیارت کی تھی -توگویا جوصالحین اورصدیقین کے جتنا قریب ہے اپنے مقام میں وہ اتنا ہی بلند ہوتاہے -اورصالحین کی صحبت میں اسی لیے بیٹھا جاتاہے کہ ان کے وجود کاتزکیہ ہوجائے اورکوئی دنیَوی غرض اوردنیَوی تمنا نہیں ہوتی -بغرض تزکیہ ،بغرض عرفان نورِ ذات اس بات کے لئے بندہ صالحین کی صحبت اختیارکرتا ہے -مولانارومی فرماتے ہیں کہ :

یک زمانہ صحبتِ با اولیاء

بہتر ازصد سالہ طاعت بے ریا

’’اہل اللہ کی صحبت میں ایک گھڑی بیٹھنا صدیوں کے بے ریاعبادت سے بہترہے -‘‘

ہر کہ خواہد ہم نشیند باخدا

اونشیند درحضوراولیا

’’جو چاہتاہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کاہم مجلس ہوجائے اسے چاہیے کہ اولیاء اللہ کاہم مجلس ہوجائے کیونکہ اہل اللہ کی مجلس میں اللہ تعالیٰ کے نور کی بارش ہوتی ہے -‘‘

حضرت ابوھریرہ اورحضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنھما کی روایت صحیح مسلم کی’’ کتاب الذکر و الدعا‘‘ میں درج ہے کہ :

{عَنْ اَبِی ھُرَیرہ ؓ و اَبِی سَعِیْد اَلخُدرِی اَنَّھُمَا شَھِدَا عَلَی النَّبِیْ: اَنَّہٗ قَالَ یَفْقُدُ قَوْمٌ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ اِلَّا حَفَّتْھُمُ الْمَلائِکَۃُ غَشِیَتْھُمُ الرَّحْمَۃُ نَزَلَتْ عَلَیْھِمُ السَّکِیْنَۃُ ذَکَرَھُمُ اللّٰہُ فِیْمَنْ عِنْدَہٗ}

’’کہ جب بھی لوگ اللہ کاذکر کرنے بیٹھتے ہیں اُن کوفرشتے اپنے پروں سے ڈھانپ لیتے ہیں -جہاں اللہ کاذکر ہورہاہوتا ہے تو محفل کے شرکاکوملائکہ اپنے پروں سے ڈھانپ لیتے ہیں -اللہ تعالیٰ کی رحمت ان لوگوں کو اپنی آغوش میںلے لیتی ہے اوران لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے سکینہ کانزول ہوتاہے -وہ یہاں بیٹھ کراللہ کاذکر کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنی مجلس میں ان لوگوں کاذکر کرتا ہے-‘‘

اس لئے جو لوگ بغرض تزکیہ ،باآرزوئے تزکیہ اہل اللہ کی مجلس اختیارکرتے ہیں اللہ تبارک وتعالیٰ کی جانب سے ان پر سکینہ نازل کیاجاتاہے -صحیح مسلم کی اور حدیث پیش کرنے کی جسارت کرتاہوں کہ جو مسلم کی کتاب الذکروالدعامیں درج ہے کہ :  

{عَنْ اَبِی ھُرَیرہ ؓ : اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ : قَالَ اِنَّ لِلّٰہِ مَلَائِکَۃً سَیَّاَرۃً فُضُلًا یَلْتَمِسُوْنَ مَجَالِسَ الذِّکْر یَجْتَمِعُوْنَ عِنْدَالذِّکْر فَاِذَا مَرُّوْ بِمَجْلِسِ لَا بَعْضُھُمْ عَلٰی بَعْضٍ حَتّٰی یَبْلُغُوا الْعَرْش}

’’آقا پاک  ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کے بعض فرشتے ایسے ہیں جن کی ڈیوٹی ہی فقط یہ ہے کہ وہ اللہ کے ذکر کی مجلس کوتلاش کرتے ہیں اوریہ فرشتے جب کوئی محفل ِذکرُ اللہ پاتے ہیں تواُس ذکر کی مجلس میں شامل ہوجاتے ہیں -جب وہ فرشتے ذکراللہ کی مجلس کے قریب سے گزرتے ہیں توآقا پاک ﷺ نے فرمایا کہ وہ فرشتے عرش سے اس قدر کثیر تعداد میں ذکر کی مجلس کی جانب نزول کرتے ہیںکہ مجلس سے عرش تک فرشتوں کی تہہ درتہہ صف بن جاتی ہے -ذکراللہ کی مجلس سے عرش تک نور کاایک حالہ بن جاتا ہے کیونکہ فرشتے نور ہیں اورجو ان ملائکہ اورنور کی مجلس میں بیٹھتا ہے اللہ فرماتاہے کہ میری رحمت ان کے دلوں پر نازل ہوتی ہے -‘‘

عرش سے زمین تک کاکتنا فاصلہ ہے ؟سائنس بتاتی ہے کہ سورج کازمین سے ۹۲ملینز میل کافاصلہ ہے جو قریباً ۹کروڑ ۲۹لاکھ کے لگ بھگ میل بن جاتے ہیں تو سورج سے آگے …

ستاروں سے آگے جہاں اَور بھی ہیں

ابھی عشق کے امتحاں اَور بھی ہیں

تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں

یہاں سینکڑوں کارواں اَور بھی ہیں

ترمذی شریف کی حدیث شریف میںہے کہ زمین سے آسمان تک پانچ سو سال کی مسافت کافاصلہ ہے اورپھرایک آسمان سے دوسرے آسمان تک پانچ سو سال کی مسافت کافاصلہ ہے اوراللہ فرماتے ہیں کہ مَیں نے سات آسمان طبق درطبق قائم کردیے گویا اس زمین سے پہلے آسمان تک کافاصلہ پانچ سوسال تک کی مسافت ہے پھر پہلے آسمان سے دوسرے آسمان تک پانچ سوسال کی مسافت کافاصلہ ،پھر دوسرے سے تیسرے تک اورپھر تیسرے سے چوتھے آسمان ،پھر چوتھے سے پانچویں تک اورپانچویں سے چھٹے تک اورچھٹے سے ساتویں آسمان تک پانچ پانچ سوسال کی مسافت کافاصلہ اورپھرساتویں آسمان سے سدرۃ المنتہیٰ اور پھر سدرۃ المنتہیٰ سے آگے عرش ِاُولیٰ ہے آقا پاک ﷺ فرماتے ہیں کہ آنِ واحد میں فرشتے یہ سارے فاصلے طے کرکے ذکراللہ کی مجلس سے عرش تک تہہ درتہہ نور کی صف بنالیتے ہیں -

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں:

{اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اﷲُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا فَـلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَo} (الاحقاف:۱۳)

’’بے شک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر انہوں نے استقامت اختیار کی تو ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے-‘‘

جنہوں نے کہاکہ ہمارے رب اللہ ہے اور ہماراپالنے والا اللہ ہے جنہوں نے اپنی زندگی کی ساری توقعات اوراُمیدیں ماسوی اللہ سے اٹھاکے صرف اللہ پر قائم کردئیں یعنی توکل علی اللہ کرتے ہیں اوراللہ کے ہوجاتے ہیں ،جو صرف اللہ کے دستور، قانون اورآئین کومانتے ہیں،جو دنیاوی آئینوں کومس?

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر