رپورٹ : (سالانہ میلاد مصطفےٰﷺ 12،13 اپریل 2017)

رپورٹ : (سالانہ میلاد مصطفےٰﷺ 12،13 اپریل 2017)

رپورٹ : (سالانہ میلاد مصطفےٰﷺ 12،13 اپریل 2017)

مصنف: ادارہ مئی 2017

خالق، کائنات اور انسان  :

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں بیان فرماتے ہیں :

’’اے حبیب (ﷺ) ! آپ فرما دیجئے کہ کیا تم اُس (خالق) کا انکار کرتے ہو اور اس (معبودِ حقیقی) کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہو جو کل جہانوں کا پالنے والا ہے،جس نے دو دن میں زمین کو پیدا فرمایا اور اس زمین پہ پہاڑوں کو کھڑا فرمایا ،اس میں (ظاہر و پوشیدہ ہر طرح کی) برکت رکھ دی --- پھر وہ کائناتِ آسمانی کی جانب متوجہ ہوا (جو کہ اس وقت سب ) دھواں تھا،سو اُس نے اُسے (یعنی آسمان کو ) اور زمین کو فرمایا کہ خواہ باہم کشش و رغبت سے یا گریز کرتے ہوئے (ہمارے حکم کے تابع) آجاؤ،تو دونوں نے کہا ہم حاضر ہیں-پس (اس خالق نے) دو دنوں (یعنی دو مراحل میں) سات آسمان بنا دیئے ---‘‘ [1]

’’کیا کفار نے یہ نہیں دیکھا کہ تمام آسمان اور زمین (پہلے ایک اکائی کی صورت میں باہم) جڑے ہوئے تھے،پس ہم نے ان دونوں کو پھاڑ کر الگ الگ کر دیا‘‘-[2]

خالقِ کائنات نے جب کل کائناتِ آسمانی و زمینی کی تخلیق فرما لی اور ہر چیز کو اس کی مقررہ جگہ پہ قائم فرما دیا ، مخلوقات کو انہیں سونپی گئی ذمہ داریوں پہ مقرر کر لیا تب ملائکہ سے فرمایا کہ’’بے شک میں زمینوں میں اپنا نائب بھیجنے والا ہوں‘‘-[3]گویا اِس تمام اہتمام کے بعد اپنے خلیفہ یعنی حضرتِ اِنسان کو اِس کائنات میں بھیجا-انسان اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کی پیدا فرمائی گئی عظیم مخلوق ہے،انسانوں نے جب زمین بسانی شروع کی اور ایک سے دو،دو سے چار،ہزار اور بےشمار ہوئے تو انہیں زندگی کو جانوروں اور دیگر مخلوقات سے ممتاز رہنے کےلئے ایک ایسے آئین و قانون کی ضرورت تھی جو ہمہ گیر و  عالمگیر ہو-جس کے سانچے میں ڈھل کر انسان اپنی عظمت و تکریم کو بحال رکھ سکے اور شرفِ انسانی کا دفاع کر سکے-اُس عظیم آئین و قانون کے پہلے امین تو خود ابو البشر سیّدنا آدم علیہ السلام تھے،اُن کے بعد جب جب لوگ یہ پیغام بھولتے رہے وہاں اُن کی ہدایت کےلئے پے در پے انبیا ئے کرام اُس آئین و قانون کولےکر جلوہ فرما ہوتے رہے-سیّدنا آدم علیہ السلام سے لےکر سیّدنا عیسیٰ علیہ السلام تک ہر قوم میں  کم و بیش ایک لاکھ چو بیس ہزار انبیا و رُسل(علیہ السلام) شرفِ انسانی کو قائم رکھنے کے اُس آئین کو لاتے رہے اور بھولے بھٹکے انسانوں کو راہِ ہدایت پہ گامزن کرتے رہے-یہ پیغام پیغامِ رحمت تھا جس سے سرکشوں کو لگام ملتی اور وہ ظلم و جبر کی بجائے عدل و احسان کو اختیار کرتے-بالاخر یہ سلسلہ خاتم الانبیاء  والمرسلین رحمۃ اللعالمین حضرت محمد الرسول اللہ (ﷺ) کی ذاتِ اقدس پہ آپہنچا اور آپ(ﷺ) نے راہ گم کردہ انسانیت کو سچے رب کی راہ کی دعوت دی اوراِس مٹ جانے والی دُنیا اور ختم ہو جانے والی زندگی میں ایسے اعمال کی طرف راغب فرمایا جو باقی رہنے والی دُنیا اور نہ ختم ہونے والی زندگی میں انسانوں کے کام آسکیں-

نبیٔ رحمت (ﷺ) و دینِ رحمت:

امام الانبیا رحمۃ اللعالمین (ﷺ) نے اعلانِ نبوت سے قبل جو زندگی بسر فرمائی وہ بھی فی الحقیقت ایک تبلیغ ہی تھی جس کا اظہار اعلان کے بعد یوں ہوا کہ آپ (ﷺ) کی ذاتِ اقدس اس سماج کے انسانوں میں بتقاضائے ظاہر و باطن جامع ترین و اکمل ترین شخصیت تھی جو ہر اعتبار سے اس قابل تھی کی اُس کی پیروی و اتباع کی جائے اور اس کے رنگ و ادا میں اپنی فلاح و اصلاح کےلئے خود کو ڈھالا جائے-اس کا اظہار قرآن پاک یوں فرماتا ہے کہ’’فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِّن قَبْلِهِ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ‘‘[4]-جب آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دینِ مُبین کی تبلیغ شروع فرمائی تو تمام عالمِ کفر اس دین کے خلاف صف بستہ و محاذآرأ ہو گیا، مشکلات و مظالم کے باوجود سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے دعوتِ حق کو جاری رکھا-اس دعوت اور نمونۂ عمل کی اطاعت و اتباع نے حاضر ہونے والے انسانوں کو سطحِ خاک سے سطحِ افلاک پہ سرفراز کر دیا ،جن کے قدِّ عظمت و بلندیٔ عزت کو عقل و ادراک نہیں پہنچ سکتے-آقا پاک (ﷺ) کی حیاتِ مبارکہ کا مقصد’’دعوت اِلی اللہ‘‘ تھا-آپ(ﷺ) نے انسان کواللہ رب العزت کے عطا کردہ قوانین اور ضابطوں کی جانب دعوت دے کر معاشرہ انسانی کو مزین کیا اور باطن میں اللہ رب العزت کی معرفت و پہچان اور اس کے قرب و وصال سے انسان کو اس کا مقصدِ حیات عطا فرمایا-

آقا علیہ السلام پہ نبوت و رسالت کا اختتام ہوا اور یوں دعوت الی اللہ کی عظیم ذمہ داری نگاہ و صُحبتِ مُصطفےٰ (ﷺ) کے اُن فیض یافتگان کے ذِمّہ آئی جنہوں نے اپنی زندگیاں اعلائے کلمۃ الحق کےلئے وقف کر دی تھیں-جن کی حیات و ممات وقفِ اسلام اور خالصتاً للہ تھیں-صحابہ کرام(رضوان اللہ علیہم اجمعین) نے اس فریضہ کو اسی احسن سلیقے سے نبھایا جس طرح انہیں آقا(ﷺ) نے حکم فرمایا تھا اور ان  کی روحانی و اخلاقی تربیت،پختگیِ کردار اور احکاماتِ اسلامی پر عملِ  پیہم تبلیغِ اسلام کی سب سے بڑی طاقت ثابت ہوئے-

دعوت الی اللہ کا عظیم فریضہ:

صحابہ کرام (رضی اللہ عنہُ) کے بعد  دعوت الی اللہ کا  فریضہ صوفیائے کرام،اولیائے کاملین اور علمائے صالحین نے ادا کیا-تابعین اور تبع تابعین کے دور میں تبلیغِ اسلام کا تسلسل قائم رہا اور پھر یہ  کبھی ٹوٹنے نہیں پایا-بزرگانِ دین،قرآن کریم کے ان احکامات کے مصداق بن گئے کہ’’اور تم میں ایک گروہ ایسا ہونا چاہئے کہ بھلائی کی طرف بلائیں اور خیر کا حکم دیں اور برائی سے منع کریں اور یہی لوگ کامیابی کو پہنچے‘‘[5]-’’تم فرماؤ یہ میری راہ ہے میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں میں اور جو میرے قدموں پرچلیں دل کی آنکھیں رکھتے ہیں‘‘[6]-’’تم بہتر ہو ان امتوں میں جو لوگوں میں ظاہر ہوئیں کیونکہ تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘[7]-’’اور اس سے زیادہ کس کی بات اچھی ہےجو اللہ کی طرف بلائے اور نیکی کرے اور کہے میں مسلمان ہوں‘‘[8]-صوفیائے کرام نے قرآن پاک کے ان احکامات پہ دل و جان سے عمل پیرا ہوتے ہوئے  دعوت الی اللہ کاعظیم فریضہ آقا پاک(ﷺ) اور آپ کے صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ادا کیا اپنے علم و عمل اور اخلاق و کردار سے ترویجِ اسلام کی ڈیوٹی اسر انجام دی-تاکہ انسانیت کو اس کے مقصدِ اعلیٰ کے حصول پہ گامزن رکھا جا سکے  اور انسانیت کو جبر و ظلم کی بجائے عدل و احسان کے راستے پہ قائم کیا جا سکے -

اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کا مشن:

بانی اصلاحی جماعت سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی صاحب قدس سرہ العزیز نے اپنی زندگی مبارک کے شب و روزدعوت الی اللہ کے عظیم فریضہ میں بسر کئے-اِسی عظیم مقصد کو عوام و خواص کی زندگیوں میں اصلاحی و روحانی انقلاب موجزن کرنے کےلئے آپ(قدس اللہ سرّہٗ) نے ایک ایسی تحریک قائم فرمائی جس کی دعوت صرف اور صرف  ’’دعوتِ الی اللہ ‘‘ہے،جس کا پیغام،قرآن پاک کا پیغام ہے،جس کی دعوتِ عمل،سنت نبوی (ﷺ) ہے،جو ظاہر و باطن کی اصلاح کا منشور لے کر نکلی ہے،تاکہ لوگوں  کے ظاہری اور باطنی معاملات اور مسائل کو حل کیا جائے اور زندگی کو قرآن و سنت کے عملی پیرائے میں ڈھالا جائے-جس کی ہر نقل و حرکت شریعت محمدی (ﷺ)کے عین مطابق ہو-

اصلاحی جماعت کے قیام نے احکاماتِ قرآنی کی روشنی میں نوجوانوں کو ایک ایسے پلیٹ فارم کی جانب راغب کیا جہاں انہوں نے پہلے خود اپنے کردار و عمل کو احکاماتِ اسلامی میں ڈھالا اور پھر اس عظیم فریضہ کی ادائیگی کےلئے دعوت الی اللہ کی تحریک کا حصہ بنے-جماعت و تنظیم کے تحت اس وقت لاکھوں کی تعداد میں نوجوان اس تحریک کا حصہ بن کر اپنی ظاہری و باطنی زندگی میں انقلاب برپا کر چکے ہیں-

:اصلاحی جماعت کا سالانہ اجتماع:

اصلاحی جماعت کے زیرِ انتظام مرشدِ کریم سلطان الفقر (ششم) حضرت سلطان محمد اصغر علی(قدس اللہ سرّہٗ)نے  ۱۹۸۹ءمیں سالانہ اجتماع کا سلسلہ شروع فرمایا-پہلے اس کا انعقاد فروری میں ہوتا تھا بعد ازاں (غالباً ۱۹۹۱ءمیں) حضور مرشد پاک نے اس اجتماع کو۱۳،۱۲ اپریل کو مقرر فرمایا اور اُس وقت سے یہ اجتماع ہر سال انہی ایام میں منعقد ہوتا ہے-یہ اجتماع ایک علمی اور فکری نشست کی صورت میں انعقاد پذیر ہوتا ہے جس میں دعوت الی اللہ کی بنیاد پر شرکت کرنے والے علم و عرفان اور معرفتِ الٰہی کا فیض پاتے ہیں-

حضور بانیٔ اصلاحی جماعت(قدس اللہ سرّہٗ)  کی یہ ترتیب رہی کہ ان اجتماعات میں  سٹیج پر بڑے جید،معتبر و مستند اور  نامور علماء کو دعوت دی جاتی مثلاً استاد المناطقہ حضرت مولانا عطاء محمد بندیالویؒ، جامع المعقول والمنقول شیخ القرآن مولانا منظور احمد صاحب جنڈانوالہ، شیخ الحدیث استاد عبدالرشید جھنگویؒ،شیخ الحدیث مولانا منظور احمد صاحب فیضی، شیخ الحدیث و التفسیر مولانا فیض احمد اویسیؒ، شیخ الحدیث مولانا اشرف سیالویؒ،مولانا ضیاء اللہ قادریؒ، مناظرِ اسلام مولانا سعید احمد اسعد،مفکرِ اہل سنت علامہ سید ریاض حسین شاہ، مولانا مفتی اشفاق احمدؒ آف خانیوال ،مولانا مفتی صالح محمد،مولانا عبدالتواب صدیقی، علامہ سید حامد سعید کاظمی ، شیخ القرآن مولانا محمد نصراللہ نصر،مولانا مفتی غلام سرور،مفتی غلام مہر علیؒ آف چشتیاں،مولانا رفیق احمد شاہ جمالی اور مفتی الٰہی بخش باروی اور دیگر ایسے عظیم المرتبت علمائے کرام عامۃ الناس کی راہنمائی کےلئے تشریف لاتے اور حضور بانی اِصلاحی جماعت کے ذوقِ علمی کے سبب بیانِ کرامت و مقامت کی بجائے عِلمی،فکری و مِلی موضوعات پہ فکر افروز و اصلاحی خطابات فرماتے-اجتماع میں ایک دو منتخب نعت خوان بھی  ہمیشہ شامل ہوتے اور ایسے نعت خوان حضرات کو بلایا جاتا جو با مقصد و باادب طریقے سے نعت خوانی کرتے-اسی طرح قرآن کریم کی قرأت  کابطور خاص اہتمام ہوتااور ایسے قرائے کرام کو بلایا جاتا جو احسن انداز میں قرآت  کرتے-زینت القرآن قاری غلام رسول صاحب  جب تک حیات رہے ہمیشہ حضور سلطان الفقر(ششم) قدس اللہ سرّہٗ ان کو بلاتے اور سٹیج پر ان سے تلاوتِ کلامِ پاک سنتے-

اصلاحی جماعت کے اجتماعات کی ایک انفرادیت یہ ہے کہ انہیں روائیتی اجتماعات سے ہٹ کر ترتیب دیا گیا ہے اور ایسا نہیں ہے کہ شامل ہونے والوں کو معلوم ہی نہ ہو کہ وہ اس میں شامل کیوں ہوئے اور اس سے کیا حاصل کیا؟ بلکہ اس کے برعکس یہاں آنے والا ہر شخص کچھ نہ کچھ لے کر جاتا ہے اور اسے یہ نشست زندگی بھر یاد رہتی ہے کیونکہ یہاں علماء کی مجلس ہوتی ہے جو عقل و دانست کی تربیت کرتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ) کی نگاہِ کرم ان کے قلوب کو منور کرتی ہے جس سے ان کی ذات میں ایک انقلاب شروع ہوجاتا ہے-

اپریل 2017ء میں منعقدہ اجتماع کی مختصر جھلک:

سالانہ اجتماع  کی ترتیب کچھ یوں ہوتی ہے کہ ملک بھر سے قافلے اس مبارک محفل میں شرکت کے لئے حاضر ہوتے ہیں-گڑھ مہاراجہ شہر سے دربار عالیہ حضرت سلطان باھُو صاحب قدس اللہ سرّہ کی طرف آنے والے مین روڈ سے آستانہ عالیہ حضرت سلطان محمد عبد العزیز قدس اللہ سرّہ تک عالمی تنظیم العارفین کے کارکن اور محافظ فرائض کی نوعیت کے اعتبار سے مختلف یونیفارم میں ہر ہر مرحلے پر راہنمائی کے لئے موجود ہوتے ہیں-ابتدائی مرحلے میں پارکنگ سٹاف،انتظامیہ کے احکامات کے مطابق پروگرام میں شرکت کرنے والی گاڑیوں کی جسامت کے اعتبار سے پارکنگ کا اہتمام کرتے ہیں-اس ترتیب سے ایک تو نظم ضبط برقرار رہتا ہے اور دوسرا پروگرام میں شرکت کرنے والوں کو واپسی پر اپنی گاڑی تک رسائی میں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا-گاڑیوں کی پارکنگ کے بعد سیکیورٹی چیکنگ کا مرحلہ شروع ہوتا ہے جس میں تین مختلف چیک پوسٹوں پر چیکنگ کا اہتمام کیا جاتا ہے-نشست کے بعد پنڈال میں موجود لاکھوں کا مجمع نمازِ ظُہر  کی ادائیگی کے بعد تقریباً نصف گھنٹہ میں لنگر شریف تناول کرنے کے بعد واپسی کی تیاریاں شروع کر دیتا ہے-پروگرام کے آغاز سے لے کر اختتام تک تنظیم العارفین کے سیکیورٹی رضاکاروں کے علاوہ علاقے کی حکومتی انتظامیہ بھی بھر پور تعاون کرتی ہے-کسی حادثہ کی صورت میں ایمبولنسز ، فائر بریگیڈ کی فراہمی سے لے کر موبائل سروسز کا گشت اس پروگرام کے اختتام تک جاری رہتا ہے-

ہر سال کی طرح اس سال بھی ۱۲ اور ۱۳ اپریل کو آستانہ عالیہ شہازِ عارفاں حضرت سلطان  محمد عبدالعزیز(قدس اللہ سرّہٗ) پر میلادِ مصطفےٰ (ﷺ) اورعرس مبارک کی عظیم الشان تقریبِ سعید کا انعقاد ہوا جس کی صدارت سرپرستِ اعلیٰ اصلاحی جماعت  و عالمی تنظیم العارفین،جگر گوشہ بانی اصلاحی جماعت حضرت سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس)نے فرمائی اور خصوصی خطاب شہزادۂ بانی اصلاحی جماعت، چیئر مین مسلم انسٹیٹیوٹ ،سیکریٹری جنرل اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب نے فرمایا-صاحبزادہ صاحب نےاولیاء کرام کے تعلق باللہ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے اظہارِ محبت،تعلق باللہ کی وجہ سے اہل اللہ پر ہونے والے انعامات،بزرگوں کے ساتھ نسبت و تعلق، ان کے تبرکات اور ان کی ظاہری حیاتِ مبارکہ اوران کے وصال فرما جانے کے بعد ان سے فیض یاب  ہونے سے متعلق قرآن و سنت،صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین)کے عمل مبارک اور آئمہ محدثین و مفسرین اور آئمہ فقہ کے دلائل کی روشنی میں پونے چار گھنٹے پہ محیط ایک طویل،محققانہ ،علمی و فکری اور حیرت انگیز خطاب فرمایا-پہلے حصہ میں آپ نے اولیاء اللہ پہ انعاماتِ الٰہی کی وضاحت کی،اُس کے بعد اولیاء اللہ کو منجانب اللہ زمین و آسمان کی مخلوقات میں قبولِ عام کیسے حاصل ہوتا ہے اِس پہ کتاب و سُنت اور تصریحاتِ مفسرین و محدثین سے  تفصیلی وضاحت فرمائی -پھر بعد از وصال اہل اللہ کے فیض کے  جاری رہنے پہ گفتگو فرمائی-جس میں بالخصوص مزارات پر حاضری کا شرعی طریقہ،ان پر قبہ و گنبد کے جواز  اور ان کے توسل سے اللہ تعالیٰ  کے حضور دعا وغیرہ پر کتاب و سُنّت کے قوی دلائل سے تفصیلی گفتگو فرمائی-آپ نے فرمایا کہ زیارتِ قبور سے متعلق روایت کو صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کی پوری ایک جماعت نے روایت فرمایا ہے،حضرت بریدہ(رضی اللہ عنہُ)،حضرت عبد اللہ ابن مسعود (رضی اللہ عنہُ)،حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہُ)،حضرت ابو سعید الخدری (رضی اللہ عنہُ)،اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہما)،اُم المؤمنین حضرت اُم سلمہ (رضی اللہ عنہما)اور حضرت انس (رضی اللہ عنہُ) نے روایت کیاجسے بے شمار محدثین   کرام  نے اپنی اپنی کتبِ احادیث میں روایت کیا جیسے صرف ’’صحیح مسلم‘‘ میں  یہ روایت امام مسلم(﷫) نے سات(۷) مرتبہ روایت کی-’’سنن ابی داؤد‘‘ میں امام ابی داؤد(﷫) نےچار مرتبہ اس روایت کا ذکر کیا-امام نسائی (رحمتہ اللہ علیہ) نے ’’سنن النسائی ‘‘کے مختلف ابواب میں دس (۱۰) سے زائد مرتبہ اس حدیث پاک کو روایت کیا،اس کے علاوہ شیوخِ صحاح(رحمتہ اللہ علیہ)اور دیگر محدثین کرام (رحمتہ اللہ علیہ) نے بے شمار مرتبہ اس روایت کا ذکر کیا:

’’ قَالَ رَسُوْلُ اللّهِ ()نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُوْرِ فَزُوْرُوْهَا فَإِنَّ فِىْ زِيَارَتِهَا تَذْكِرَةً‘‘[9]

’’ رسول اللہ () نے ارشادفرمایا مَیں نے تم کو زیارتِ قبور سے منع کیا تھا  مگر اب (تمہیں حکم و اجازت ہے کہ)  تم قبروں کی زیارت کیا کرو-کیونکہ بلا شبہ ان قبور کی زیارت میں تمہارے لیےنصیحت ہے‘‘-

اِس کے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح رہنا چاہئے کہ قبور پہ حاضری کا شرعی طریق بھی مقرر ہے جس میں (جہلا کی طرح) نہ تو تجاوز و غلو کی اجازت ہے اور نہ ہی (اجہل الجاہلین کی طرح) توہینِ قبور کی-مثلاً:سوادِ اعظم کا (یعنی اہلسنت کا) اِس بات پہ اجماع ہے اور خاص کر اعلیٰ حضرت (رحمتہ اللہ علیہ) کا اِس پہ تفصیلی فتویٰ موجود ہے کہ نیّتِ عبادت سے غیر اللہ کو سجدہ شرک ہے اور سجدۂ تحیت (یعنی تعظیمی) بالیقین حرام اور گناہِ کبیرہ ہے-اِسی طرح بعض لوگ اُمّتِ محمدیہ (ﷺ) میں قتال و فساد کو جواز فراہم کرنے کےلئے تعصب ،فرقہ پرستی ، تکفیر اور دہشت گردی کی راہ اختیار کرتے ہیں ان کا مقصد محض فروغِ فتنہ ہوتا ہے-اسلامی ممالک میں فرقہ پرستانہ شدت پسندی عالمی طاقتوں کے تزویراتی آلۂ کار کر رہے ہیں جس سے اُمت کو نقصان جبکہ عالمی سامراج و استعمار کو فائدہ ہو رہا ہے-عرب و عجم میں آثارِ انبیا و شہداءو صُلحاء کی حرمت کو پامال کرنے والے اور مٹانے والے دین سے قطعی بے خبر ہیں-

مزید صاحبزادہ صاحب نے اولیائے کرام کے عمل و کردار کا تذکرہ فرمایا اور آخر میں ان لوگوں سے برأت کا اظہار کیا جو خود کو صوفی کہتے ہیں مگر خود کو شریعت کے تابع نہیں  رکھتے،خلاف شرع عمل کرتے ہیں کیونکہ ان  لوگوں کا ایسے اولیاء کرام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں جو قرآن و سنت کے مطابق زندگی بسر کرتے ہوں-جن کی معیت و صحبت  کی دعوت خود قرآن مجید نے ارشاد فرمائی-

پروگرام میں لوگوں نے اولیاء کرام بالخصوص حضور سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو(قدس اللہ سرّہٗ) کی تعلیمات کو عملی جامہ پہنانے کا تجدید عہد کیا-ہزاروں افراد نے حضور جانشین سلطان الفقرسرپرست اعلیٰ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین حضرت سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس)کے دستِ مبارک پر  بیعت کا شرف حاصل کر کے سلسلۂ قادریہ میں شمولیت اختیار کی اور ’’اسم اعظم‘‘ کی لازوال دولت سے سرفراز ہوئے-

٭٭٭


[1](سورہ حم/السجدہ)

[2](الانبیاء)

[3](البقرۃ)

[4](یونس:۱۶)

[5](سورۃ العمران)

[6](سورۃ یوسف)

[7](سورۃ العمران)

[8](سورۃ فصلت)

[9](سنن ابی داؤد، کتاب الجنائز)

خالق، کائنات اور انسان  :

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں بیان فرماتے ہیں :

’’اے حبیب (ﷺ) ! آپ فرما دیجئے کہ کیا تم اُس (خالق) کا انکار کرتے ہو اور اس (معبودِ حقیقی) کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہو جو کل جہانوں کا پالنے والا ہے،جس نے دو دن میں زمین کو پیدا فرمایا اور اس زمین پہ پہاڑوں کو کھڑا فرمایا ،اس میں (ظاہر و پوشیدہ ہر طرح کی) برکت رکھ دی --- پھر وہ کائناتِ آسمانی کی جانب متوجہ ہوا (جو کہ اس وقت سب ) دھواں تھا،سو اُس نے اُسے (یعنی آسمان کو ) اور زمین کو فرمایا کہ خواہ باہم کشش و رغبت سے یا گریز کرتے ہوئے (ہمارے حکم کے تابع) آجاؤ،تو دونوں نے کہا ہم حاضر ہیں-پس (اس خالق نے) دو دنوں (یعنی دو مراحل میں) سات آسمان بنا دیئے ---‘‘ [1]

’’کیا کفار نے یہ نہیں دیکھا کہ تمام آسمان اور زمین (پہلے ایک اکائی کی صورت میں باہم) جڑے ہوئے تھے،پس ہم نے ان دونوں کو پھاڑ کر الگ الگ کر دیا‘‘-[2]

خالقِ کائنات نے جب کل کائناتِ آسمانی و زمینی کی تخلیق فرما لی اور ہر چیز کو اس کی مقررہ جگہ پہ قائم فرما دیا ، مخلوقات کو انہیں سونپی گئی ذمہ داریوں پہ مقرر کر لیا تب ملائکہ سے فرمایا کہ’’بے شک میں زمینوں میں اپنا نائب بھیجنے والا ہوں‘‘-[3]گویا اِس تمام اہتمام کے بعد اپنے خلیفہ یعنی حضرتِ اِنسان کو اِس کائنات میں بھیجا-انسان اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کی پیدا فرمائی گئی عظیم مخلوق ہے،انسانوں نے جب زمین بسانی شروع کی اور ایک سے دو،دو سے چار،ہزار اور بےشمار ہوئے تو انہیں زندگی کو جانوروں اور دیگر مخلوقات سے ممتاز رہنے کےلئے ایک ایسے آئین و قانون کی ضرورت تھی جو ہمہ گیر و  عالمگیر ہو-جس کے سانچے میں ڈھل کر انسان اپنی عظمت و تکریم کو بحال رکھ سکے اور شرفِ انسانی کا دفاع کر سکے-اُس عظیم آئین و قانون کے پہلے امین تو خود ابو البشر سیّدنا آدم علیہ السلام تھے،اُن کے بعد جب جب لوگ یہ پیغام بھولتے رہے وہاں اُن کی ہدایت کےلئے پے در پے انبیا ئے کرام اُس آئین و قانون کولےکر جلوہ فرما ہوتے رہے-سیّدنا آدم علیہ السلام سے لےکر سیّدنا عیسیٰ علیہ السلام تک ہر قوم میں  کم و بیش ایک لاکھ چو بیس ہزار انبیا و رُسل(﷩) شرفِ انسانی کو قائم رکھنے کے اُس آئین کو لاتے رہے اور بھولے بھٹکے انسانوں کو راہِ ہدایت پہ گامزن کرتے رہے-یہ پیغام پیغامِ رحمت تھا جس سے سرکشوں کو لگام ملتی اور وہ ظلم و جبر کی بجائے عدل و احسان کو اختیار کرتے-بالاخر یہ سلسلہ خاتم الانبیاء  والمرسلین رحمۃ اللعالمین حضرت محمد الرسول اللہ (ﷺ) کی ذاتِ اقدس پہ آپہنچا اور آپ(ﷺ) نے راہ گم کردہ انسانیت کو سچے رب کی راہ کی دعوت دی اوراِس مٹ جانے والی دُنیا اور ختم ہو جانے والی زندگی میں ایسے اعمال کی طرف راغب فرمایا جو باقی رہنے والی دُنیا اور نہ ختم ہونے والی زندگی میں انسانوں کے کام آسکیں-

نبیٔ رحمت (ﷺ) و دینِ رحمت:

امام الانبیا رحمۃ اللعالمین (ﷺ) نے اعلانِ نبوت سے قبل جو زندگی بسر فرمائی وہ بھی فی الحقیقت ایک تبلیغ ہی تھی جس کا اظہار اعلان کے بعد یوں ہوا کہ آپ (ﷺ) کی ذاتِ اقدس اس سماج کے انسانوں میں بتقاضائے ظاہر و باطن جامع ترین و اکمل ترین شخصیت تھی جو ہر اعتبار سے اس قابل تھی کی اُس کی پیروی و اتباع کی جائے اور اس کے رنگ و ادا میں اپنی فلاح و اصلاح کےلئے خود کو ڈھالا جائے-اس کا اظہار قرآن پاک یوں فرماتا ہے کہ’’فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِّن قَبْلِهِ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ‘‘[4]-جب آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دینِ مُبین کی تبلیغ شروع فرمائی تو تمام عالمِ کفر اس دین کے خلاف صف بستہ و محاذآرأ ہو گیا، مشکلات و مظالم کے باوجود سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے دعوتِ حق کو جاری رکھا-اس دعوت اور نمونۂ عمل کی اطاعت و اتباع نے حاضر ہونے والے انسانوں کو سطحِ خاک سے سطحِ افلاک پہ سرفراز کر دیا ،جن کے قدِّ عظمت و بلندیٔ عزت کو عقل و ادراک نہیں پہنچ سکتے-آقا پاک (ﷺ) کی حیاتِ مبارکہ کا مقصد’’دعوت اِلی اللہ‘‘ تھا-آپ(ﷺ) نے انسان کواللہ رب العزت کے عطا کردہ قوانین اور ضابطوں کی جانب دعوت دے کر معاشرہ انسانی کو مزین کیا اور باطن میں اللہ رب العزت کی معرفت و پہچان اور اس کے قرب و وصال سے انسان کو اس کا مقصدِ حیات عطا فرمایا-

آقا علیہ السلام پہ نبوت و رسالت کا اختتام ہوا اور یوں دعوت الی اللہ کی عظیم ذمہ داری نگاہ و صُحبتِ مُصطفےٰ (ﷺ) کے اُن فیض یافتگان کے ذِمّہ آئی جنہوں نے اپنی زندگیاں اعلائے کلمۃ الحق کےلئے وقف کر دی تھیں-جن کی حیات و ممات وقفِ اسلام اور خالصتاً للہ تھیں-صحابہ کرام(﷢) نے اس فریضہ کو اسی احسن سلیقے سے نبھایا جس طرح انہیں آقا(ﷺ) نے حکم فرمایا تھا اور ان  کی روحانی و اخلاقی تربیت،پختگیِ کردار اور احکاماتِ اسلامی پر عملِ  پیہم تبلیغِ اسلام کی سب سے بڑی طاقت ثابت ہوئے-

دعوت الی اللہ کا عظیم فریضہ:

صحابہ کرام (﷢) کے بعد  دعوت الی اللہ کا  فریضہ صوفیائے کرام،اولیائے کاملین اور علمائے صالحین نے ادا کیا-تابعین اور تبع تابعین کے دور میں تبلیغِ اسلام کا تسلسل قائم رہا اور پھر یہ  کبھی ٹوٹنے نہیں پایا-بزرگانِ دین،قرآن کریم کے ان احکامات کے مصداق بن گئے کہ’’اور تم میں ایک گروہ ایسا ہونا چاہئے کہ بھلائی کی طرف بلائیں اور خیر کا حکم دیں اور برائی سے منع کریں اور یہی لوگ کامیابی کو پہنچے‘‘[5]-’’تم فرماؤ یہ میری راہ ہے میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں میں اور جو میرے قدموں پرچلیں دل کی آنکھیں رکھتے ہیں‘‘[6]-’’تم بہتر ہو ان امتوں میں جو لوگوں میں ظاہر ہوئیں کیونکہ تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘[7]-’’اور اس سے زیادہ کس کی بات اچھی ہےجو اللہ کی طرف بلائے اور نیکی کرے اور کہے میں مسلمان ہوں‘‘[8]-صوفیائے کرام نے قرآن پاک کے ان احکامات پہ دل و جان سے عمل پیرا ہوتے ہوئے  دعوت الی اللہ کاعظیم فریضہ آقا پاک(ﷺ) اور آپ کے صحابہ کرام (﷢) کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ادا کیا اپنے علم و عمل اور اخلاق و کردار سے ترویجِ اسلام کی ڈیوٹی اسر انجام دی-تاکہ انسانیت کو اس کے مقصدِ اعلیٰ کے حصول پہ گامزن رکھا جا سکے  اور انسانیت کو جبر و ظلم کی بجائے عدل و احسان کے راستے پہ قائم کیا جا سکے -

اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کا مشن:

بانی اصلاحی جماعت سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی صاحب قدس سرہ العزیز نے اپنی زندگی مبارک کے شب و روزدعوت الی اللہ کے عظیم فریضہ میں بسر کئے-اِسی عظیم مقصد کو عوام و خواص کی زندگیوں میں اصلاحی و روحانی انقلاب موجزن کرنے کےلئے آپ(قدس اللہ سرّہٗ) نے ایک ایسی تحریک قائم فرمائی جس کی دعوت صرف اور صرف  ’’دعوتِ الی اللہ ‘‘ہے،جس کا پیغام،قرآن پاک کا پیغام ہے،جس کی دعوتِ عمل،سنت نبوی (ﷺ) ہے،جو ظاہر و باطن کی اصلاح کا منشور لے کر نکلی ہے،تاکہ لوگوں  کے ظاہری اور باطنی معاملات اور مسائل کو حل کیا جائے اور زندگی کو قرآن و سنت کے عملی پیرائے میں ڈھالا جائے-جس کی ہر نقل و حرکت شریعت محمدی (ﷺ)کے عین مطابق ہو-

اصلاحی جماعت کے قیام نے احکاماتِ قرآنی کی روشنی میں نوجوانوں کو ایک ایسے پلیٹ فارم کی جانب راغب کیا جہاں انہوں نے پہلے خود اپنے کردار و عمل کو احکاماتِ اسلامی میں ڈھالا اور پھر اس عظیم فریضہ کی ادائیگی کےلئے دعوت الی اللہ کی تحریک کا حصہ بنے-جماعت و تنظیم کے تحت اس وقت لاکھوں کی تعداد میں نوجوان اس تحریک کا حصہ بن کر اپنی ظاہری و باطنی زندگی میں انقلاب برپا کر چکے ہیں-

اصلاحی جماعت کا سالانہ اجتماع:

اصلاحی جماعت کے زیرِ انتظام مرشدِ کریم سلطان الفقر (ششم) حضرت سلطان محمد اصغر علی(قدس اللہ سرّہٗ)نے  ۱۹۸۹ءمیں سالانہ اجتماع کا سلسلہ شروع فرمایا-پہلے اس کا انعقاد فروری میں ہوتا تھا بعد ازاں (غالباً ۱۹۹۱ءمیں) حضور مرشد پاک نے اس اجتماع کو۱۳،۱۲ اپریل کو مقرر فرمایا اور اُس وقت سے یہ اجتماع ہر سال انہی ایام میں منعقد ہوتا ہے-یہ اجتماع ایک علمی اور فکری نشست کی صورت میں انعقاد پذیر ہوتا ہے جس میں دعوت الی اللہ کی بنیاد پر شرکت کرنے والے علم و عرفان اور معرفتِ الٰہی کا فیض پاتے ہیں-

حضور بانیٔ اصلاحی جماعت(قدس اللہ سرّہٗ)  کی یہ ترتیب رہی کہ ان اجتماعات میں  سٹیج پر بڑے جید،معتبر و مستند اور  نامور علماء کو دعوت دی جاتی مثلاً استاد المناطقہ حضرت مولانا عطاء محمد بندیالویؒ، جامع المعقول والمنقول شیخ القرآن مولانا منظور احمد صاحب جنڈانوالہ، شیخ الحدیث استاد عبدالرشید جھنگویؒ،شیخ الحدیث مولانا منظور احمد صاحب فیضی، شیخ الحدیث و التفسیر مولانا فیض احمد اویسیؒ، شیخ الحدیث مولانا اشرف سیالویؒ،مولانا ضیاء اللہ قادریؒ، مناظرِ اسلام مولانا سعید احمد اسعد،مفکرِ اہل سنت علامہ سید ریاض حسین شاہ، مولانا مفتی اشفاق احمدؒ آف خانیوال ،مولانا مفتی صالح محمد،مولانا عبدالتواب صدیقی، علامہ سید حامد سعید کاظمی ، شیخ القرآن مولانا محمد نصراللہ نصر،مولانا مفتی غلام سرور،مفتی غلام مہر علیؒ آف چشتیاں،مولانا رفیق احمد شاہ جمالی اور مفتی الٰہی بخش باروی اور دیگر ایسے عظیم المرتبت علمائے کرام عامۃ الناس کی راہنمائی کےلئے تشریف لاتے اور حضور بانی اِصلاحی جماعت کے ذوقِ علمی کے سبب بیانِ کرامت و مقامت کی بجائے عِلمی،فکری و مِلی موضوعات پہ فکر افروز و اصلاحی خطابات فرماتے-اجتماع میں ایک دو منتخب نعت خوان بھی  ہمیشہ شامل ہوتے اور ایسے نعت خوان حضرات کو بلایا جاتا جو با مقصد و باادب طریقے سے نعت خوانی کرتے-اسی طرح قرآن کریم کی قرأت  کابطور خاص اہتمام ہوتااور ایسے قرائے کرام کو بلایا جاتا جو احسن انداز میں قرآت  کرتے-زینت القرآن قاری غلام رسول صاحب  جب تک حیات رہے ہمیشہ حضور سلطان الفقر(ششم) قدس اللہ سرّہٗ ان کو بلاتے اور سٹیج پر ان سے تلاوتِ کلامِ پاک سنتے-

اصلاحی جماعت کے اجتماعات کی ایک انفرادیت یہ ہے کہ انہیں روائیتی اجتماعات سے ہٹ کر ترتیب دیا گیا ہے اور ایسا نہیں ہے کہ شامل ہونے والوں کو معلوم ہی نہ ہو کہ وہ اس میں شامل کیوں ہوئے اور اس سے کیا حاصل کیا؟ بلکہ اس کے برعکس یہاں آنے والا ہر شخص کچھ نہ کچھ لے کر جاتا ہے اور اسے یہ نشست زندگی بھر یاد رہتی ہے کیونکہ یہاں علماء کی مجلس ہوتی ہے جو عقل و دانست کی تربیت کرتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ) کی نگاہِ کرم ان کے قلوب کو منور کرتی ہے جس سے ان کی ذات میں ایک انقلاب شروع ہوجاتا ہے-

اپریل 2017ء میں منعقدہ اجتماع کی مختصر جھلک:

سالانہ اجتماع  کی ترتیب کچھ یوں ہوتی ہے کہ ملک بھر سے قافلے اس مبارک محفل میں شرکت کے لئے حاضر ہوتے ہیں-گڑھ مہاراجہ شہر سے دربار عالیہ حضرت سلطان باھُو صاحب قدس اللہ سرّہ کی طرف آنے والے مین روڈ سے آستانہ عالیہ حضرت سلطان محمد عبد العزیز قدس اللہ سرّہ تک عالمی تنظیم العارفین کے کارکن اور محافظ فرائض کی نوعیت کے اعتبار سے مختلف یونیفارم میں ہر ہر مرحلے پر راہنمائی کے لئے موجود ہوتے ہیں-ابتدائی مرحلے میں پارکنگ سٹاف،انتظامیہ کے احکامات کے مطابق پروگرام میں شرکت کرنے والی گاڑیوں کی جسامت کے اعتبار سے پارکنگ کا اہتمام کرتے ہیں-اس ترتیب سے ایک تو نظم ضبط برقرار رہتا ہے اور دوسرا پروگرام میں شرکت کرنے والوں کو واپسی پر اپنی گاڑی تک رسائی میں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا-گاڑیوں کی پارکنگ کے بعد سیکیورٹی چیکنگ کا مرحلہ شروع ہوتا ہے جس میں تین مختلف چیک پوسٹوں پر چیکنگ کا اہتمام کیا جاتا ہے-نشست کے بعد پنڈال میں موجود لاکھوں کا مجمع نمازِ ظُہر  کی ادائیگی کے بعد تقریباً نصف گھنٹہ میں لنگر شریف تناول کرنے کے بعد واپسی کی تیاریاں شروع کر دیتا ہے-پروگرام کے آغاز سے لے کر اختتام تک تنظیم العارفین کے سیکیورٹی رضاکاروں کے علاوہ علاقے کی حکومتی انتظامیہ بھی بھر پور تعاون کرتی ہے-کسی حادثہ کی صورت میں ایمبولنسز ، فائر بریگیڈ کی فراہمی سے لے کر موبائل سروسز کا گشت اس پروگرام کے اختتام تک جاری رہتا ہے-

ہر سال کی طرح اس سال بھی ۱۲ اور ۱۳ اپریل کو آستانہ عالیہ شہازِ عارفاں حضرت سلطان  محمد عبدالعزیز(قدس اللہ سرّہٗ) پر میلادِ مصطفےٰ (ﷺ) اورعرس مبارک کی عظیم الشان تقریبِ سعید کا انعقاد ہوا جس کی صدارت سرپرستِ اعلیٰ اصلاحی جماعت  و عالمی تنظیم العارفین،جگر گوشہ بانی اصلاحی جماعت حضرت سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس)نے فرمائی اور خصوصی خطاب شہزادۂ بانی اصلاحی جماعت، چیئر مین مسلم انسٹیٹیوٹ ،سیکریٹری جنرل اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب نے فرمایا-صاحبزادہ صاحب نےاولیاء کرام کے تعلق باللہ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے اظہارِ محبت،تعلق باللہ کی وجہ سے اہل اللہ پر ہونے والے انعامات،بزرگوں کے ساتھ نسبت و تعلق، ان کے تبرکات اور ان کی ظاہری حیاتِ مبارکہ اوران کے وصال فرما جانے کے بعد ان سے فیض یاب  ہونے سے متعلق قرآن و سنت،صحابہ کرام (﷢)کے عمل مبارک اور آئمہ محدثین و مفسرین اور آئمہ فقہ کے دلائل کی روشنی میں پونے چار گھنٹے پہ محیط ایک طویل،محققانہ ،علمی و فکری اور حیرت انگیز خطاب فرمایا-پہلے حصہ میں آپ نے اولیاء اللہ پہ انعاماتِ الٰہی کی وضاحت کی،اُس کے بعد اولیاء اللہ کو منجانب اللہ زمین و آسمان کی مخلوقات میں قبولِ عام کیسے حاصل ہوتا ہے اِس پہ کتاب و سُنت اور تصریحاتِ مفسرین و محدثین سے  تفصیلی وضاحت فرمائی -پھر بعد از وصال اہل اللہ کے فیض کے  جاری رہنے پہ گفتگو فرمائی-جس میں بالخصوص مزارات پر حاضری کا شرعی طریقہ،ان پر قبہ و گنبد کے جواز  اور ان کے توسل سے اللہ تعالیٰ  کے حضور دعا وغیرہ پر کتاب و سُنّت کے قوی دلائل سے تفصیلی گفتگو فرمائی-آپ نے فرمایا کہ زیارتِ قبور سے متعلق روایت کو صحابہ کرام (﷢) کی پوری ایک جماعت نے روایت فرمایا ہے،حضرت بریدہ(﷜)،حضرت عبد اللہ ابن مسعود (﷜)،حضرت علی المرتضیٰ (﷜)،حضرت ابو سعید الخدری (﷜)،اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ (﷠)،اُم المؤمنین حضرت اُم سلمہ (﷞)اور حضرت انس (﷜) نے روایت کیاجسے بے شمار محدثین   کرام  نے اپنی اپنی کتبِ احادیث میں روایت کیا جیسے صرف ’’صحیح مسلم‘‘ میں  یہ روایت امام مسلم(﷫) نے سات(۷) مرتبہ روایت کی-’’سنن ابی داؤد‘‘ میں امام ابی داؤد(﷫) نےچار مرتبہ اس روایت کا ذکر کیا-امام نسائی (﷫) نے ’’سنن النسائی ‘‘کے مختلف ابواب میں دس (۱۰) سے زائد مرتبہ اس حدیث پاک کو روایت کیا،اس کے علاوہ شیوخِ صحاح(﷢)اور دیگر محدثین کرام (﷭) نے بے شمار مرتبہ اس روایت کا ذکر کیا:

’’ قَالَ رَسُوْلُ اللّهِ ()نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُوْرِ فَزُوْرُوْهَا فَإِنَّ فِىْ زِيَارَتِهَا تَذْكِرَةً‘‘[9]

’’ رسول اللہ () نے ارشادفرمایا مَیں نے تم کو زیارتِ قبور سے منع کیا تھا  مگر اب (تمہیں حکم و اجازت ہے کہ)  تم قبروں کی زیارت کیا کرو-کیونکہ بلا شبہ ان قبور کی زیارت میں تمہارے لیےنصیحت ہے‘‘-

اِس کے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح رہنا چاہئے کہ قبور پہ حاضری کا شرعی طریق بھی مقرر ہے جس میں (جہلا کی طرح) نہ تو تجاوز و غلو کی اجازت ہے اور نہ ہی (اجہل الجاہلین کی طرح) توہینِ قبور کی-مثلاً:سوادِ اعظم کا (یعنی اہلسنت کا) اِس بات پہ اجماع ہے اور خاص کر اعلیٰ حضرت (﷫) کا اِس پہ تفصیلی فتویٰ موجود ہے کہ نیّتِ عبادت سے غیر اللہ کو سجدہ شرک ہے اور سجدۂ تحیت (یعنی تعظیمی) بالیقین حرام اور گناہِ کبیرہ ہے-اِسی طرح بعض لوگ اُمّتِ محمدیہ (ﷺ) میں قتال و فساد کو جواز فراہم کرنے کےلئے تعصب ،فرقہ پرستی ، تکفیر اور دہشت گردی کی راہ اختیار کرتے ہیں ان کا مقصد محض فروغِ فتنہ ہوتا ہے-اسلامی ممالک میں فرقہ پرستانہ شدت پسندی عالمی طاقتوں کے تزویراتی آلۂ کار کر رہے ہیں جس سے اُمت کو نقصان جبکہ عالمی سامراج و استعمار کو فائدہ ہو رہا ہے-عرب و عجم میں آثارِ انبیا و شہداءو صُلحاء کی حرمت کو پامال کرنے والے اور مٹانے والے دین سے قطعی بے خبر ہیں-

مزید صاحبزادہ صاحب نے اولیائے کرام کے عمل و کردار کا تذکرہ فرمایا اور آخر میں ان لوگوں سے برأت کا اظہار کیا جو خود کو صوفی کہتے ہیں مگر خود کو شریعت کے تابع نہیں  رکھتے،خلاف شرع عمل کرتے ہیں کیونکہ ان  لوگوں کا ایسے اولیاء کرام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں جو قرآن و سنت کے مطابق زندگی بسر کرتے ہوں-جن کی معیت و صحبت  کی دعوت خود قرآن مجید نے ارشاد فرمائی-

پروگرام میں لوگوں نے اولیاء کرام بالخصوص حضور سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو(قدس اللہ سرّہٗ) کی تعلیمات کو عملی جامہ پہنانے کا تجدید عہد کیا-ہزاروں افراد نے حضور جانشین سلطان الفقرسرپرست اعلیٰ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین حضرت سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس)کے دستِ مبارک پر  بیعت کا شرف حاصل کر کے سلسلۂ قادریہ میں شمولیت اختیار کی اور ’’اسم اعظم‘‘ کی لازوال دولت سے سرفراز ہوئے-

٭٭٭



[1](سورہ حم/السجدہ)

[2](الانبیاء)

[3](البقرۃ)

[4](یونس:۱۶)

[5](سورۃ العمران)

[6](سورۃ یوسف)

[7](سورۃ العمران)

[8](سورۃ فصلت)

[9](سنن ابی داؤد، کتاب الجنائز)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر