سیدنا حضرت ابوبکرصدیق(رضی اللہ عنہ) کے عہد خلافت پر ایک نظر

سیدنا حضرت ابوبکرصدیق(رضی اللہ عنہ) کے عہد خلافت پر ایک نظر

سیدنا حضرت ابوبکرصدیق(رضی اللہ عنہ) کے عہد خلافت پر ایک نظر

مصنف: مفتی محمد اسماعیل خان نیازی دسمبر 2025

سیّدی رسول اللہ (ﷺ) سے قبل دنیا میں دو طرح کی حکومتیں رہی ہیں- ایک حکومت جو طاقتور لوگوں نے خود قائم کی اور طاقت کے زور پر انہیں چلاتے رہے، اس کا عنوان بادشاہت ہے- دوسری انبیاء کرام (رضی اللہ عنھم)نے اللہ تعالیٰ کے قوانین و احکام کو معاشرے میں نافذ کرنے کے لیے حکومتیں قائم فرمائیں جن میں حضرت یوسف،حضرت داؤد، حضرت سلیمان اور دیگر انبیاءکرام(رضی اللہ عنھم) کی حکومتوں کو بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے- سیّدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’بنی اسرائیل کے انبیاء سیاست (اصلاح) کرتے تھے جب بھی کسی نبی کا وصال ہو جاتا تو اس کا خلیفہ دوسرا نبی ہو جاتا              اور بے شک میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا اور عنقریب بہت خلفاء ہوں گے(جو سیاست کی ذمہ داری بھی نبھائیں گے)‘‘-[1]

اسلامی تاریخ میں قیادت و حکمرانی کے وہ سنہری ابواب جن میں عدل، شفافیت، تقویٰ، مساوات اور خدمتِ خلق کے اصول نمایاں ہوں، ان میں سب سے روشن اور تابناک باب یارغار خلیفۂ اول خلیلُ رسول اللہ (ﷺ) حضرت سیدنا ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کا ہے- آپ (رضی اللہ عنہ) کی قیادت اور طرزِ حکمرانی ایک ایسے مثالی نمونے کے طور پر سامنے آتی ہے -جس نے خلافتِ راشدہ کی بنیادوں کو مضبوط کیا اور امتِ مسلمہ کو نظم و عدل کا عملی تصور عطا کیا- ذیل میں آپ (رضی اللہ عنہ) کے دورِ حکومت کے پیش آمدہ واقعات اورمسائل کو اختصار کے ساتھ لکھنے کی سعاد ت حاصل کرتے ہیں -

ابتدائی مشکلات:

حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) نے حضور نبی کریم (ﷺ) کے وصال مبارک کے بعد انتہائی نازک حالات میں مسلمانوں کی متفقہ خواہش اور مشاورت پرخلافت سنبھالی- ام المؤمنین سیّدہ عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) سے مروی ہے:

’’جب رسول اللہ (ﷺ) کا وصال مبارک ہوا تو منافقت نے سر اٹھایا،عرب دین سے پھر گئے اور انصار دبک کر بیٹھ گئے- جن مشکلات کا سامنا میرے والد گرامی کو کرنا پڑا، اگر بڑے بڑے پہاڑوں کو ان کا سامنا کرنا پڑتا تو وہ ریزہ ریزہ ہو جاتے‘‘-[2]

ذیل میں آپ (رضی اللہ عنہ) کی خلافت کا نہایت اختصار کے ساتھ طائرانہ جائزہ لینے کی سعی سعید کرتے ہیں :

بیعت خلافت:

حضرت ابوبکر صدیق(رضی اللہ عنہ) کی خلافت پر تمام صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کا اجماع ہے- امام بخاریؒ حضرت عبد اللہ بن عباس (رضی اللہ عنہ) سے طویل روایت نقل کرتے ہوئے حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ)کے الفا ظ مبارکہ لکھتے ہیں کہ:

’’حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) نے انصار و مہاجرین کی موجودگی میں فرمایا:اے ابوبکر! اپنا ہاتھ بڑھاؤ تاکہ میں تم سے بیعت کروں،پھر حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) نے ہاتھ بڑھایا، حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے ان سے بیعت کی اور پھر تمام لوگوں نے ان سے بیعت کرلی‘‘-[3]

خلافت کا پہلا خطبہ:

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) نے اپنا پہلا خطبہ دیتے ہوئے ارشادفرمایا :

’’اے لوگو! میں تمہارا حاکم بنا دیا گیا ہوں حالانکہ میں تم سے بہتر نہیں ہوں- اگر میں ٹھیک رہوں تو میری مدد کرو اور اگر بری راہ اختیار کر لوں تو مجھے سیدھا کر دو- سچ امانت اور جھوٹ خیانت ہے اور کوئی شخص جہاد ترک نہیں کرے گا کیونکہ اللہ عزوجل جہاد چھوڑنے والوں پر ذلت ڈال دیتا ہے- تم میری اطاعت کرو جب تک میں اللہ کی اور اس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت کرتا رہوں اور جب نافرمانی کرنے لگوں تو میری اطاعت نہ کرو- اچھا اب نماز کیلئے کھڑے ہو جاؤ اللہ عزوجل تم پر رحم فرمائے‘‘-[4]

سیّدنا ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کا پہلا خطبہ یہ واضح پیغام دیتا ہے کہ مسلمان حاکم جوابد ہ ہے اور مسلمان فرمانروا کی اطاعت اس وقت تک ہے جب تک وہ اللہ عزوجل اور رسول مکرم (ﷺ)کی اطاعت میں ہے ورنہ حضور نبی کریم (ﷺ) کے فرمان مبارک ’’لَا طَاعَةَ فِي مَعْصِيَةٍ‘‘[5]کی روشنی میں وہ قابلِ اطاعت نہیں ہے-

لشکرِ اسامہ کی روانگی:

’’عقل قربان کن بہ پیش مصطفٰے(ﷺ)‘‘ کے عملی مظاہروں میں سے ایک بڑا عملی مظاہر ہ جواپنی مثال آپ ہے، وہ لشکرِ اسامہ کی روانگی ہے-سیّدنا ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کےاس اقدام نے رہتی دنیاتک کے مسلمانوں کو یہ سبق دیا کہ جہاں اللہ عزوجل اور اس کے رسول مقبول (ﷺ) کا امر آجائے وہاں عقلی گھوڑوں کو چھاؤں پہ باندھ دیں اور نفع و نقصان سے بالاتر ہو کر محض رضاء الٰہی کیلئے اس پہ عمل کریں -

اس واقعہ کو محدثین، مفسرین اور مؤرخین نے اپنے اپنے انداز میں بیان فرمایا ہے- یہاں مشہور مؤرخ عبدالرحمٰن ابن خلدونؒ کے الفاظ نقل کرتے ہیں :

’’ہر طرف نفاق کی تاریکی چھا گئی تھی، مخالف ہواؤں کے جھونکے چل رہے تھے، ارتداد کی سیاہ گھٹائیں امڈی چلی آ رہی تھیں، مسلمان غریب ایسی شب تاریک میں اپنی قلت جماعت وکثرت اعداءسے حیران وپریشان ہو رہے تھے، لیکن بایں ہمہ نہایت استقلال سے حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) نے لوگوں کو حضرت اسامہ (رضی اللہ عنہ) کےساتھ روانگی کا حکم فرمایا ،حضرت اسامہ (رضی اللہ عنہ) نے اس خیال سے کہ شاید کوئی اہم امر پیش نہ آ جائے حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کو حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کے پاس بھیجااور انصار نے حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کی زبانی خلیفۃ المسلین سے یہ کہلا بھیجا- ایسی حالت میں لشکر کی روانگی منا سب نہیں، بہتر ہو گا یہ امر آئندہ کسی مناسب وقت پر موقوف رکھا جائے اور اگر روانگی لشکر ضروری سمجھی جائے تو حضرت اسامہ (رضی اللہ عنہ) سے زیادہ کسی معمر اور آزمودہ کار کو ہمارا سردار مقرر کیجئے-حضرت عمر(رضی اللہ عنہ) نے جس وقت انصار  کا یہ پیغام حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کے گوش گزار کیا تو حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ) اٹھ کھڑے ہوئے،پھر بیٹھ گئے اور کہنے لگے میں رسول اللہ( ﷺ )کے حکم کو نہیں ٹال سکتا -اگر مجھے اس امر کا خوف ہو تا کہ مجھے مدینہ منورہ میں کوئی درندہ آکر پھا ڑڈالے گا یا کوئی مجھے لوٹ لے جائے گا تو بھی میں اسامہ (رضی اللہ عنہ) کو روانہ کرتا -کس کے منہ میں دانت ہیں جو رسول اللہ( ﷺ) کے ارشاد کے خلاف کرے ، جس کو وہ مقرر کر جائیں اس کو موقوف کرے، میں جب تک اسامہ (رضی اللہ عنہ) کو نہ روانہ کر لوں ہرگز ایک لحظہ قرار نہ پاؤں گا ‘‘-[6]

جب حضرت ابوبکر صدیق(رضی اللہ عنہ) سے حضرت اُسامہ (رضی اللہ عنہ) جدا ہونے لگے تو حضرت ابوبکر صدیق(رضی اللہ عنہ) نے انہیں کچھ نصیحتیں فرمائیں-

’’دیکھو! خیانت نہ کرنا- دھوکا نہ دینا- مال نہ چھپانا- کسی کے اعضاء کو نہ کاٹنا- بوڑھوں، بچوں اور عورتوں کو قتل نہ کرنا- کھجور کے درختوں کو نہ جلانا- پھل والے درختوں کو نہ کاٹنا اور کھانے کی ضرورت کے سوا کسی بکری، گائے یا اونٹ کو ذبح نہ کرنا - تمہارا گزر ایک قوم پر ہو گا جو دنیا کو چھوڑ کر اپنی خانقاہوں میں بیٹھی ہو گی تم اس سے تعرض نہ کرنا‘‘- [7]

یہ ایسی سنہری نصیحتیں ہیں جو بطور اصول جنگ تسلیم کر لی جائیں تو آج بھی دنیا سے وحشت و درندگی کا کا فی حدتک خاتمہ ہو سکتا ہے-

اللہ تعالیٰ اور آقا کریم () کے منتخب کردہ، عوام کے متفقہ حکمران:

اُم المؤمنین سیّدہ حفصہ بنتِ عمر (رضی اللہ عنہا)فرماتی ہیں:

’’میں نے سیدی رسول اللہ (ﷺ) سے عرض کی کہ جب آپ (ﷺ) کی طبیعت مبارک ناساز تھی تو آپ (ﷺ) نے حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کو (مصلہ امامت پہ) آگے کیا - آپ (ﷺ) نےارشادفرمایا :میں نے انہیں (مصلیٰ امامت پہ ) آگے نہیں کیا بلکہ اللہ پاک نے انہیں آگے کیا ہے (یعنی لوگوں کا پیشوابنایا) ‘‘-[8]

 یہ روایت مبارکہ واضح کرتی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کا لوگوں کا امامت کیلئے انتخاب اللہ عزوجل کا فیصلہ اور رضا تھی- اور آپ (رضی اللہ عنہ) کا انتخاب اتفاق رائے اور جمہوری طریقے سے ہوا- جیساکہ حضرت امام حسن (رضی اللہ عنہ) اپنے والد گرامی حضرت علی المرتضیٰ(رضی اللہ عنہ) سے روایت بیان فرماتے ہیں کہ حضرت علی المرتضیٰ(رضی اللہ عنہ) نے فرمایا:

’’تحقیق حضور نبی کریم (ﷺ) نے حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کو حکم ارشادفرمایا تھا کہ وہ لوگو ں کو نماز پڑھائیں اورمیں اس کا گو اہ ہوں،میں اس وقت غائب نہیں تھا اور نہ میں بیمار تھا- پس ہم آپ (رضی اللہ عنہ) کی امامت (خلافت ) پہ راضی ہیں جس پر آقا کریم (ﷺ) ہمارے دین کی امامت کے لیے راضی ہوئے‘‘-[9]

فتنہ مدعیان نبوت اور فتنہ ارتداد ومنکرین زکوٰۃ:

سیّدی رسول اللہ (ﷺ) کے وصال مبار ک کے بعد کئی فتنے اُبھرے، جن میں مدعیانِ نبوت کا فتنہ بہت خطرناک تھا- حضرت ابوبکر صدیق(رضی اللہ عنہ) نے ان فتنوں کے خلاف جو اقدامات کیے، وہ اسلام کے تحفظ کی روشن مثالیں ہیں-آپ (رضی اللہ عنہ) کے دور مبارک میں نبوت کے دعو ٰی کرنے والے اور اُن کا انجام درج ذیل ہے- ان واقعات کو علامہ ابن کثیرؒ نے تفصیل سے بیان کیا ہے جن کا خلاصہ درج ذیل ہے:

  1. طلیحہ بن خویلد الاسدی:حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) نے اس کے خلاف بھی فوج روانہ کی- طلیحہ شکست کھا کر بھاگ گیا، بعد میں توبہ کی اور اسلام میں واپس آیا-
  2. سجاح بنت الحارث: ایک عورت تھی جس نے نبوت کا دعویٰ کیا، بعد میں مسیلمہ سے نکاح کر لیا-لیکن بعد میں اللہ پاک نے اس کو توبہ کی توفیق عطافرمائی اوراس نے اسلام قبول کرلیا -
  3. مسیلمہ کذاب: مسیلمہ نے نبوت کا دعویٰ کیا اور زکوٰۃ سے انکار کیا- مسیلمہ بن حبیب نے حضور نبی کریم (ﷺ) کی زندگی میں ہی جھوٹی نبوت کا دعویٰ کر دیا تھا- اسے رسول اللہ (ﷺ) نے ’’الکذّاب‘‘ یعنی جھوٹا فرمایا- وصالِ نبوی(ﷺ)کے بعد اس نے زور پکڑا، حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ)نے فوری طور پر اس کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے اللہ کی تلوار حضرت خالد بن ولید (رضی اللہ عنہ) کو سپہ سالار مقرر کیا اور ایک عظیم الشان لشکر یمامہ بھیجا- تقریباً 700 حافظِ قرآن صحابہ کرام(رضی اللہ عنھم) نے جام شہادت نوش فرمایا بالآخرحضرت وحشی (رضی اللہ عنہ) نے نیزہ مار کر مسیلمہ کو واصل جہنم کر دیا-

آپ (رضی اللہ عنہ) کے یہ اقدام ختم نبوت کی حساسیت کو واضح کرتے ہیں اور رہتی دنیا تک تمام امت مسلمہ کیلئے سبق ہے کہ ختم نبوت کے مسئلے کو مسلمان کبھی بھی نظر انداز نہیں کر سکتے-

ادبِ رسول () اور محبتِ اہل بیت اطہار (رضی اللہ عنھم):

جب آپ(رضی اللہ عنہ) کو سیّدی رسول اللہ (ﷺ) کے وصال کے بعد خلافت ملی، تو آپ (رضی اللہ عنہ) نے حضور نبی کریم (ﷺ) کے منبر پر براہِ راست بیٹھنے سے گریز فرمایا-سیّدی رسول اللہ (ﷺ) منبر کی اوپر والی سب سے بلند سیڑھی پر تشریف فرما ہوتے تھے اور حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) نے اس سیڑھی پر بیٹھنے کے بجائے ایک درجہ نیچے بیٹھنا پسند کیا اورارشاد فرمایا: ’’میں اس مقام پر کیسے بیٹھ سکتا ہوں جہاں رسول اللہ (ﷺ)تشریف فرما ہوا کرتے تھے!‘‘یہ آپ (رضی اللہ عنہ) کے ادب اور عشقِ رسول (ﷺ) کا عملی اظہار تھا- یہ عمل بعد کے خلفاء نے بھی اپنایا-حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) سے بھی ایک درجہ نیچے بیٹھے-حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) مزید ایک درجہ نیچے-یوں ادبِ رسول (ﷺ) کی یہ روایت خلافتِ راشدہ میں جاری رہی-

مسلمانوں کیلئے یہ سبق ہے کہ جو رسول اللہ (ﷺ) سے سچا عشق رکھتا ہے وہ ان کے ہر مقام کا ادب کرتا ہے، چاہے وہ منبر ہو یا پھر کوئی اور مقام -نیز یہ روایت صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)کے باہمی احترام کو بھی ظاہر کرتی ہے-اسی طرح سیدنا ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کی اہلِ بیت اطہار (رضی اللہ عنھم) سے محبت بے مثال تھی- آپ (رضی اللہ عنہ) نے رسول اللہ (ﷺ) کے اہلِ بیت اطہار(رضی اللہ عنھم) کو ہمیشہ عزت، محبت اور احترام کے اعلیٰ مقام پر رکھا- اس محبت کا اظہار آپ (رضی اللہ عنہ) کے قول و عمل دونوں سے ظاہر ہوتا ہے-ایک مرتبہ آپ (رضی اللہ عنہ)  نے سیدنا علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ)سے فرمایا :

’’اللہ کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے رسول اﷲ (ﷺ) کی قرابت داری مجھے اپنے اقرباء سے زیادہ عزیز ہے‘‘- [10]

شاہی میں فقیری کی اعلیٰ مثال:

حضرت ابو صالح الغفاری (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ :

حضرت عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ)رات کے وقت مدینہ طیبہ کے بعض علاقوں میں ایک بوڑھی نابینا عورت کی خدمت کیا کرتے تھے- دودھ پلاتے اور دوسری ضروریات پوری کرتے تھے-جب آپ(رضی اللہ عنہ) اس کے پاس آتے تو دیکھتے کہ کوئی پہلے ہی کام مکمل کر گیا ہے- آپ (رضی اللہ عنہ) ایک مرتبہ جلدی آئے تاکہ ان سے پہلے کوئی نہ آسکے- تو حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ وہ شخص جو اس عورت کی خدمت کیلئے آتے ہیں وہ حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) ہیں جو ان دنوں خلیفہ تھے- حضرت عمر (رضی اللہ عنہ)نے فرمایا: مجھے میری بقا کی قسم!آپ ہی وہ شخص ہیں جو ہر روز اس بوڑھی اماں کا کام کر جا یا کرتے ہیں‘‘-[11]

اصل میں خلافت خدمت کا نام ہے اورفرمان رسول مقبول (ﷺ) کے اس فرمان کی مصداق ہوتی ہے:

’’أَنَّ سَيِّدَ الْقَوْمِ خَادِمُهُمْ‘‘[12]

’’بےشک قوم کا سردار ،اُن کا خادم ہوتا ہے‘‘-

آج دنیا کے حکمرانوں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ وہ آج تخت پہ بیٹھتے ہیں تو دیکھتے ہی دیکھتے سیاہ وسفید کے نہ صرف مالک بن جاتے ہیں بلکہ ملکی قوانین اُن کے آگے ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے ہیں اور اُن کی چنددنوں کی حکمرانی اُن کی اولادوں کو بھی اربوں کی جائیداد کا مالک بنادیتی ہے -لیکن آئیے اس ذات ِ اقدس کی حکمرانی کے حالات کامزید طائرانہ جائزہ لیتے ہیں-حضرت عطا بن سائب (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ:

’’حضرت سیدنا ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) بیعت خلافت کے دوسرے روز کچھ چادریں لے کر بازار جارہے تھے، حضرت سیدنا عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) نے دریافت کیا کہ آپ (رضی اللہ عنہ) کہاں تشریف لے جارہے ہیں؟ فرمایا:(بغرض تجارت) بازار جارہا ہوں، حضرت سیدنا عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) نے عرض کیا: اب آپ (رضی اللہ عنہ)یہ کام چھوڑ دیجئے، آپ لوگوں کے خلیفہ (امیر) ہوگئے ہیں- یہ سن کر آپ (رضی اللہ عنہ)  نے فرمایا: اگر میں یہ کام چھوڑ دوں تو پھر میرے اہل و عیال کہاں سے کھائیں گے؟ سیّدنا عمر فاروق (رضی اللہ عنہ)  نے عرض کیا: آپ (رضی اللہ عنہ) واپس چلئے، اب آپ (رضی اللہ عنہ)  کے یہ اخراجات حضرت سیدنا ابوعبیدہ (رضی اللہ عنہ) طے کریں گے- پھر یہ دونوں حضرات، سیدنا ابوعبیدہ بن جراح (رضی اللہ عنہ) کے پاس تشریف لائے اور ان سے سیدنا عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: آپ سیدنا ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) اور ان کے اہل و عیال کے واسطے ایک اوسط درجے کے مہاجر کی خوراک کا اندازہ کرکے روزانہ کی خوراک اور موسم گرما و سرما کا لباس مقرر کیجئے ‘‘-[13]

امام عالی مقام امیر المؤمنین خلیۃ المسلمین سیدنا امام حسن مجتبیٰ (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) نے اپنی وفات کے وقت ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) سے فرمایا:

’’دیکھو! یہ اونٹنی جس کا ہم دودھ پیتے ہیں اور یہ بڑا پیالہ جس میں کھاتے پیتے ہیں اور یہ چادر جو میں اوڑھے ہوئے ہوں یہ سب بیت المال سے لیا گیا ہے- ہم ان سے اسی وقت تک نفع اٹھا سکتے ہیں جب تک میں مسلمانوں کے امور خلافت انجام دیتا رہوں گا- جس وقت میں وفات پاجاؤں تو یہ تمام سامان (میرے بعد والے خلیفہ) حضرت سیدنا عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) کو دے دینا،(یعنی بیت المال میں جمع کروادیں) چنانچہ جب آپ (رضی اللہ عنہ) کا انتقال ہوگیا تو ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ(رضی اللہ عنہا) نے یہ تمام چیزیں حسب وصیت واپس کر دیں- سیدنا عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) نے چیزیں واپس پاکر فرمایا: اے ابوبکر! اللہ آپؓ پر رحم فرمائے کہ آپ نے تو اپنے بعد میں آنے والوں کو تھکادیا ہے‘‘-[14]

یعنی بعد والوں نے حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کی پیروی کرنی ہے اور آپ (رضی اللہ عنہ) کے تقوٰی کا معیار بہت اونچا ہے جس پرہر کوئی نہیں پہنچ سکتا-

ذکرِ جمع قرآن و تدوین حدیث:

مولا مشکل کشا حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ)نے فرمایا:

’’قرآن کریم کے حوالے سے سب سے زیادہ اجر پانے والے ابوبکر(رضی اللہ عنہ) ہیں کہ انہوں نے سب سے پہلے قرآن کریم کو دو جلدوں میں جمع کیا‘‘-[15]

بلاشبہ قرآن پاک کا سب سے پہلے جمع کرنے کا شرف سیّدنا ابو بکرصدیق (رضی اللہ عنہ) کو حاصل ہے اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے امام بخاریؒ لکھتے ہیں:

’’حضرت عبید بن السباق سے مروی ہے کہ حضرت زید بن ثابت (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا- حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) نے مجھے بلایا جب کہ یمامہ والوں (اہل یمامہ) سے لڑائی ہو رہی تھی اور اس وقت حضرت عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) بھی اُن کے پاس تھے- حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) نے ارشاد فرمایا کہ حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) میرے پاس آئے اور کہا کہ جنگِ یمامہ میں کتنے ہی قرآن مجید کے قراء شہید ہو گئے ہیں اور مجھے خدشہ ہے کہ قاریوں کے مختلف مقامات پر شہید ہو جانے کے باعث قرآن مجید کا اکثر حصہ جاتا رہے گا- لہٰذا میری رائے یہ ہے کہ آپ (رضی اللہ عنہ) قرآن کریم کے جمع کرنے کا حکم فرمائیں- حضرت زید (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) نے مجھے فرمایا کہ تم نوجوان اور صاحبِ عقل و دانش ہو اور تمہاری قرآن فہمی پر بھی کسی کو کلام نہیں اور تم رسول اﷲ (ﷺ) کیلئے وحی الٰہی بھی لکھا کرتے تھے- پس صحیح محنت کے ساتھ قرآن مجید کو جمع کر دو- پس میں نے قرآن مجید کو کھجور کے پتوں، پتھر کے ٹکڑوں اور لوگوں کے سینوں سے تلاش کر کے جمع کیا -پس یہ صحیفے حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کے پاس رہے یہاں تک کہ آپ(رضی اللہ عنہ) کا وصال ہو گیا پھر یہ حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کے پاس ان کی زندگی کے آخری ایام تک رہے- پھر یہ قرآن مجید کے نسخے حضرت سیدہ حفصہ بنت ِعمر (رضی اللہ عنہا) کے پاس رہے‘‘- [16]

حضرت ابو بکر صدیق(رضی اللہ عنہ) نے اپنے مختصر دور میں قرآن مجید اکٹھا کرنے کے علاوہ تدوین حدیث کا کام بھی سر انجام دیا- آپ (رضی اللہ عنہ) نے اپنے دور خلافت میں احادیث مبارکہ کا ایک مجموعہ تیار کیا جن میں حضور نبی کریم (ﷺ) کی مستند 500احادیث موجود تھیں- آپ (رضی اللہ عنہ) نے یہ مجموعہ اپنی صاحبزادی ام المومنین سیدہ عائشہ (رضی اللہ عنہا) کے سپرد کیا تھا-

خلاصہ کلام :

ام المؤمنین سیّدہ عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا)فرماتی ہیں کہ سیّدی رسول اللہ (ﷺ)نے ارشادفرمایا :

’’کسی قوم کیلئے یہ مناسب نہیں جن میں ابوبکر(صدیق ) ہوں کہ اُن کے علاوہ کوئی اور قوم کی امامت کروائے ‘‘[17]

سیدنا ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ)کا عہد خلافت تقریباً 2 سال 3 مہینے 10 روز رہا- اس مختصر عرصہ میں پیش آنے والے واقعات (فتنہ ارتداد ،منکرین زکوٰۃ کے خلاف جہاد،مدعیان نبوت کا قلع قمع، جمعِ قرآن) مملکتِ اسلامیہ کے لئے بہت اہم تھے- اگر بروقت ان کی طرف توجہ نہ دی جاتی تو یہ چیزیں ملت ِ اسلامیہ کے وجود کو کھوکھلا کردیتیں اگر یہ تینوں واقعات تین سال کی قلیل مدت کی بجائے 30 سال میں بھی انجام پاتے تب بھی ان کا انجام دینے والا تعریف و توصیف اور تحسین و آفرین کا مستحق ہوتا- آپ (رضی اللہ عنہ) نے نہ صرف مختلف فتنوں کا قلع قمع کیا بلکہ اس کےساتھ ساتھ سلطنت اسلامیہ کووسعت دیتے ہوئے متعدد صوبوں اور اضلاع میں تقسیم کر دیا تھا جن میں مدینہ، مکہ، طائف، صنعاء، حضر موت، خولان، زبید جند، بحرین، نجران، دومتہ الجندل، عراق عرب، جرش، حمص، اردن، دمشق اور فلسطین- آپ (رضی اللہ عنہ) نے شعبہ مال کیلئے الگ الگ امیر مقرر فرمائے، کمزوروں، بوڑھوں اور مسکینوں کی مدد کیلئے وظائف وغیر ہ کا بند و بست فرمایا، شام اور عراق کی سرحدوں پر لشکر روانہ کیے- انہی فتوحات کی بنیاد پر بعد میں اسلام کا پیغام وسیع دنیا تک پھیل گیا- المختصر! حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کا طرزِ حکمرانی اسلامی سیاست کا اعلیٰ نمونہ ہے-بالآخر اسلامی تاریخ کا یہ مہتاب وروشن ستارہ اپنی نورانی کرنیں بکھیرتا ہوا 22 جمادی الاخریٰ 13ھ کو غروب ہوا-اللہ تعالیٰ آپؓ کے فیوض وبرکات سے ہمارے دامن کو بھر دے اور محبتِ رسول (ﷺ) کی خیرات سے ہمارے قلوب و ارواح کو منور فرمائے- آمین!

٭٭٭


[1](صحیح بخاری، كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ علیھم الصلٰوۃ والسلام)

[2](البداية والنهاية، باب: أَبُو بَكْرٍ يُنْفِذُ جَيْشَ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ)

[3](صحیح بخاری، کتاب الحدود)

[4](البداية والنهاية، (الناشر: دار إحياء التراث العربي، الطبعة: الأولى 1408ھ)، ج:6، ص:401)

[5]’’اللہ عزوجل کی نافرمانی میں کوئی اطاعت نہیں کی‘‘-(صحیح بخاری، كِتَابُ أَخْبَارِ الآحَادِ)

[6](تاریخ ابن خلدون،(نفیس اکیڈمی اردو بازار کراچی، الباکستان، جنوری 2003ء)،ج:اول،دوم،ص:181)

[7](تفسیر طبری، زیر آیت المومنون:100)

[8](فضائل الصحابة، (ناشر مؤسسة الرسالة بیروت) ج:1، ص: 441)

[9](تاريخ دمشق، باب:عبد الله ويقال عتيق بن عثمان بن قحافة ( ؓ)

[10](صحیح البخاری، بَابُ مَنَاقِبِ قَرَابَةِ رَسُولِ اللہِ (ﷺ)

[11](تاریخ الخلفاء، باب: الخليفة الأول: ابو بكر الصديق(ؓ)

[12](مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، بَابُ آدَابِ السَّفَرِ)

[13](تاریخ الخلفاء، باب: الخليفة الأول: ابو بكر الصديق(ؓ)

[14](ایضاً)

[15](فضائل الصحابة، (ناشر مؤسسة الرسالة بیروت) ج:1، ص: 354)

[16](صیح بخاری، بَابُ جَمْعِ القُرْآنِ)

[17](سنن الترمذی، بَابُ مَنَاقِبِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِؓ)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر