ابتدائیہ:
محسنِ انسانیت سید المرسلین (ﷺ) کے تربیتی فیضان سے منور ہونے والے صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) آسمانِ ہدایت کے روشن ستارے ہیں، اُن میں سیدنا صدیق اکبرؓ وہ آفتابِ ایمان ہیں جن کی ذات انبیائے کرام (علیھم السلام) کے بعد نسلِ انسانی کے لیے سب سے تابناک مشعلِ راہ ہے- آپ (رضی اللہ عنہ) معلم انسانیت کی تعلیم و تربیت کا عظیم شاہکار، فیضان محمدی (ﷺ) کے امین اور رسول اللہ (ﷺ) کے رفیقِ خاص، مخلص جا نثار اور رفیقِ غار تھے-
سیدنا صدیقِ اکبر(رضی اللہ عنہ) کی رسولِ اکرم(ﷺ) سے رفاقت محض قربِ جسمانی نہیں بلکہ قربِ ایمانی و روحانی کی وہ مثال ہے جو تاریخِ انسانی میں بے نظیر ہے-
اسی تعلق و تربیت کا نقطۂ عروج ہجرتِ نبوی (ﷺ) کے موقع پر غارِ ثور میں ظاہر ہوا جہاں سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) نے اپنے محبوب پاک(ﷺ) کے ساتھ نہ صرف جاں نثاری اور وفاداری کا مظاہرہ کیا بلکہ خوف، ایمان اور استقامت کے اس حسین امتزاج کو مجسم کر دیا جو قیامت تک اہلِ ایمان کے لیے معیارِ صداقت اور قوتِ یقین کا استعارہ بن گیا-
ہجرتِ مدینہ اسلامی تاریخ کا ایک ایسا عظیم اور ہمہ گیر واقعہ ہے جس نے نہ صرف انسانی تاریخ کا رخ موڑ دیا بلکہ ایمان،قربانی، توکل اور استقامت کے ایسے ابدی اصول متعین کیے جو قیامت تک اہلِ ایمان کیلئے رہنمائی کا سرچشمہ رہیں گے- اسی ہجرت کے دوران غارِ ثور کا واقعہ عشقِ الٰہی، صدقِ ایمان اور وفاداریِ کی ایک لازوال تمثیل کے طور پر تاریخ میں رقم ہے، جہاں سیدنا صدیقِ اکبر (رضی اللہ عنہ) نے اپنی جان، مال اور جذبات کو حضور نبی اکرم (ﷺ) کی محبت و حفاظت میں قربان کر دیا -غار کے اندھیروں میں چھپی ہوئی وہ گھڑیاں دراصل نورِ ایمان، یقینِ کامل اور استقامتِ صدیقی کی ایسی تابندہ مثال ہیں جو ہر دور کے اہلِ ایمان کو یہ پیغام دیتی ہیں کہ خوف و خطر کے ماحول میں بھی اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) پر کامل بھروسہ ہی حقیقی ایمان کا مظہر ہے-اس واقعہ سے ایمان اور استقامت و ثابت قدمی کے جو پہلو سامنے آتے ہیں وہ قیامت تک اہلِ ایمان کے لیے مشعلِ راہ ہیں-
قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:
’’اِلَّا تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللہُ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ ہُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللہَ مَعَنَا‘‘ ج [1]
”اگر تم نے رسول کی مدد نہیں کی تو بیشک اللہ ان کی مدد کرچکا ہے-جب کافروں نے ان کو بےوطن کردیا تھا-در آں حالیکہ وہ دو میں سے دوسرے تھے، جب وہ دونوں غار میں تھے جب وہ اپنے صاحب سے فرما رہے تھے، غم نہ کرو، بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘-
یہ آیت مبارکہ حضور نبی اکرم (ﷺ) کی ہجرت سے متعلق نازل ہوئی، ہجرت کا واقعہ ذکر کر کے بتایا کہ اگرآپ ان کے ہمراہ جہاد پر نہ گئے تو جس پروردگارنے اس نازک وقت میں اپنے حبیب کی اعانت فرمائی تھی وہ اب بھی اس کا ناصر اور معین ہے- ہجرت کا مختصر واقعہ کچھ یوں ہے کہ:
” کفار نے اپنی مجلسِ شُوریٰ میں طے کر لیا کہ آج رات تمام قبیلوں کا ایک ایک جوان رسول پاک(ﷺ) کے گھر کا محاصرہ کرے اور جب آپ (ﷺ)باہر نکلنے لگیں تو سب یکبارگی حملہ کر کے آپ (ﷺ) کو شہید کر دیں-[2]اسی رات کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اے حبیب (ﷺ) آج مکہ سےمدینہ کی طرف ہجرت فرمائیں -آقا کریم (ﷺ) نے حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کو اپنے بستر پر سونے کا حکم دیا اور ارشاد فرمایا کہ کوئی تمہیں ضرر نہیں پہنچا سکے گا-صبح لوگوں کی امانتیں جو ہمارے پاس ہیں ان کو پہنچا دینا اور پھرتم بھی مدینہ کا قصد کرنا-رسولِ پاک (ﷺ) باہر نکلے تو کفار محاصرہ کیے ہوئے تھے- سورہ یٰسین کی ابتدائی آیات پڑھ کر ان پر دم کیا ، ان پر غنودگی کی کیفیت طاری ہو گئی اور آپ (ﷺ) بخیر و عافیت ان کے نرغہ سے نکل کر صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) کے گھر کی طرف روانہ ہو گئے- ان کو ہمراہ لے کر مکہ سے نکلے اور کوہِ ثور کے ایک غار میں آکر قیام فرمایا: اِس کا منہ بہت تنگ تھا صرف لیٹ کر ہی انسان اندر داخل ہوسکتا تھا-سیدنا صدیق اکبرؓپہلے خود اندر گئے، غار کو تمام خس و خاشاک سے صاف کیا جتنے سوراخ تھے ان کو بند کیا، ایک سوراخ باقی رہ گیا اس میں اپنے پاؤں کی ایڑی رکھ دی اور عرض کی کہ حضور نبی کریم (ﷺ) اندر قدم رنجہ فرمائیں-آپ (ﷺ) تشریف لائے، سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) کے زانو پر سر مبارک رکھا اور استراحت فرما ہو گئے- سیدنا صدیق اکبر(رضی اللہ عنہ) کے بخت کی یاوری کا کیا کہنا بیتاب نگا ہیں اور بے قرار دل اپنے محبوب کے روئے زیبا کے مشاہدہ میں مستغرق ہے نہ دل سیر ہوتا ہے اور نہ آنکھیں، وہ حسن ِسرمدی، وہ جمالِ حقیقی جس کی دل آویزیوں نے چشم ِ فطرت کو تصویرِ حیرت بنا دیا تھا، آج سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) کے آغوش میں جلوہ فرما ہے- اے بختِ صدیق کی رفعتو! تم پر یہ خاک پریشان قربان اور یہ قلبِ حزیں نثار! اسی اثنا میں سیدنا صدیق اکبرؓ کی ایڑی میں سانپ نے ڈس دیا، زہر سارے جسم میں سرایت کر گیا لیکن کیا مجال کہ پاؤں میں جنبش تک ہوئی ہو-[3]حضور نبی پاک(ﷺ) بیدار ہوئے، اپنے یارِ غار کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر وجہ دریافت فرمائی- پھر جہاں سانپ نے ڈسا تھا وہاں اپنا لعابِ دہن لگایا جس سے درد اور تکلیف کافور ہوگئی- اہل مکہ تلاش میں ادھر اُدھر مارے مارے پھر رہے تھے ایک ماہر کھوجی کے ہمراہ پاؤں کے نشان دیکھتے دیکھتے اس غار کے دہانے تک پہنچ گئے- جب قدموں کی آہٹ سنائی دی تو سیدنا ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) نے جھک کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ کفار کی ایک جماعت غار کے منہ پر کھڑی ہے- اپنے محبوب کو یوں خطرہ میں گھِرا دیکھ کر بے چین ہو گئے اور آپؓ نےعرض کی یا رسول اللہ (ﷺ)! اگر مشرکین میں سے کوئی اپنے قدموں کے نیچے نظر کرے تو ہمیں دیکھ لے گا، تو آقا پاک (ﷺ) نے فرمایا: اے ابو بکرؓ ! ان دو کی نسبت تمہارا کیا خیال ہے جن کاتیسرا اللہ تعالیٰ ہو؟“-[4]
غارِ ثور کی خاموش فضاؤں میں عشق و وفا کی وہ جاوداں داستان رقم ہوئی جو ازل سے ابد تک اہلِ ایمان کے قلوب کو حرارتِ عشق اور نورِ یقین عطا کرتی رہے گی- یہ وہ لمحہ تھا جب محبتِ مصطفیٰ (ﷺ) نے خوف کو تسکین اور خطرے کو قربانی میں بدل دیا- اسی محبتِ بے مثال کے جلوؤں نے غارِ ثور کو معجزات، ایثار اور نصرتِ الٰہی کے انوار سے منور کر دیا- انہی روح پرور جلوؤں میں سے چند ایمان افروز مناظر مفسرین و محققین نے یوں بیان کیے ہیں:
غارِ ثور میں ظہورِ معجزاتِ نبوی (ﷺ):
امتحانِ عشق: سیدنا ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) اور سانپ
امام ابن جوزی مالکیؒ نے ’’الوفا‘‘ میں یہ بھی لکھا ہے کہ:
” سیدنا ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ) نے سوراخ پر اپنی ایڑی رکھ دی تو سانپ ان کی ایڑی پر ڈنگ مارنے لگا،آپؓ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور رسول اللہ (ﷺ) فرما رہے تھے- اے ابو بکر غم نہ کرو ، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے،تو اللہ تعالیٰ نے سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) کے دل میں سکون نازل فرمایا“ -شیخ عبدالحق محدث دہلوی نےبھی ’’مدارج النبوت‘‘میں اسی طرح ذکر کیاہے- [5]
غار ثورمیں پانی کا چشمہ:
غار ثور میں قیام کے دوران جو بعض انوکھے واقعات پیش آئے اُن میں سے ایک کو حضرت عبد اللہ بن عبّاس (رضی اللہ عنہ) روایت کرتے ہیں کہ :
”غارثور میں اس قیام کے دوران ایک وقت سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) کو سخت پیاس لگی، آپ نے بارگاہِ رسالت میں عرض کیا-آپ (ﷺ) نے فرمایا: غار کے اندر تک جائیں! (وہاں پانی موجود ہو گا)، جائیں! پِی آئیں! سیدناصدیق اکبر اُٹھے اور غار کے اندر کی طرف چلے گئےوہاں آپ کو پانی ملا، جو میٹھا اور خوشبودار تھا-سیدناصدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) نے پانی پیا اور واپس آ گئے-رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا:اے ابوبکر! میں تمہیں ایک خوشی کی بات بتاؤں؟عرض کیا:میرے ماں باپ آپ پر فِدا ہوں،کیوں نہیں!آپ (ﷺ) نے فرمایا: اللہ پاک نے جنت کی نہروں پر مقرر فرشتے کو فرمایا کہ وہ جنت الفردوس کی ایک نہر غار کے اندر نکال دے تاکہ ابوبکر پانی پی سکے-یہ خوشخبری سُن کر حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) نے حیرت سے عرض کیا: کیا اللہ پاک کے ہاں میری اتنی قدر ہے؟ فرمایا: ہاں! بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے- (اے ابوبکر!) اس ذات کی قسم جس نے مجھے سچا نبی بنا کر بھیجا! تم سے بغض و حسد رکھنے والا چاہے 70 نبیوں کی نیکیوں کے برابر نیکیاں لے آئے، ہر گز جنّت میں نہیں جائے گا“-[6]
غارِ ثور کے یہ ایمان افروز واقعات اہلِ ایمان کے لیے عظیم درس اور ہدایت کے خزانے ہیں، غارِ ثور کے قیام کے دوران حضرت ابوبکر صدیقؓ کی وفاداری اور قربانی کا یہ عالم تھا کہ نہ صرف آپ خود بلکہ آپ کا پورا گھرانہ رسولِ اکرم (ﷺ) کی خدمت اور حفاظت میں مصروف تھا- احادیثِ مبارکہ اور کتبِ سیرت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے صاحبزادے حضرت عبداللہ بن ابی بکرؓ دن بھر مکہ میں رہ کر قریش کی گفتگو اور سازشوں پر نظر رکھتے اور رات کے اندھیرے میں خاموشی سے غارِ ثور پہنچ کر تمام حالات رسولِ پاک (ﷺ) کو بتاتے -اسی دوران سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) کے غلام حضرت عامر بن فہیرہ (رضی اللہ عنہ) دن میں بکریاں چراتے اور شام کے وقت ان بکریوں کو غار کے قریب لے آتے تاکہ دودھ سے آپ دونوں کی خوراک پوری ہو جائے اور بکریوں کے قدموں کے نشانات عبداللہ بن ابی بکر (رضی اللہ عنہ) کے نشانات کو مٹا دیں-دوسری جانب حضرت ابوبکرصدیق (رضی اللہ عنہ) کی صاحبزادی حضرت اسماء بنت ابی بکر (رضی اللہ عنہ) نہایت خفیہ طریقے سے کھانا لے کر غارِ ثور پہنچتیں اور راہِ حق میں ہر خطرے کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتیں- یوں خطرے کے اس نازک مرحلے میں حضرت ابوبکرصدیق (رضی اللہ عنہ) کا پورا گھرانہ خدمتِ رسول (ﷺ) میں شب و روز مصروف رہا-
خوف کے پہلو:
خوف کی تعریف:
انسانی فطرت میں خوف ایک فطری عنصر ہے خوف سے مراد وہ قلبی کیفیت ہے جو کسی ناپسندیدہ امر کے پیش آنے کے خدشے کے سبب دل میں پیدا ہونے والے درد یا گھبراہٹ کو خوف کہا جاتا ہے- یہاں یہ بات توجہ طلب ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کو حزن و ملال اپنی ذات کیلئے ہرگز نہ تھا-اگر انہیں اپنی جان کی پرواہ ہوتی یا راحت و سکون عزیز ہوتا، تو وہ اس پُرخطر اور کٹھن سفر میں محبوبِ خدا (ﷺ) کا ساتھ کبھی اختیار نہ کرتے-انہیں اگر کوئی غم تھا یا اگر کوئی حزن تھا، اگر کوئی اندیشہ تھا تو فقط یہ کہ کہیں ان کے محبوب وہادی ، سرورِ دوعالم (ﷺ) کو کسی قسم کی تکلیف یا اذیت نہ پہنچے- سیدنا ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کی اپنے محبوب کو خطرے میں گھِرا دیکھ کر حزن و ملال کی حد نہ رہی- اس نازک لمحے میں نبیِ کریم (ﷺ) اپنے اس وفادار رفیق کو تسلی دیتے ہوئے فرما رہے تھے-
”اے ابو بکر!غم نہ کرو بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے“-[7]
سیدنا صدیق اکبر(رضی اللہ عنہ) کے ”حزن “سے متعلق چند مفسرین کے اقوال کو یہاں ذکر کیا جا رہا ہے-تفسیر مظہری میں قاضی ثناء اللہ مظہری ؒلکھتے ہیں کہ:
”سیدنا ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کا حُزن آپ (رضی اللہ عنہ) کی پستیٔ ہمت کی وجہ سے نہیں تھا جیسا کہ بعض بد عقیدہ لوگ کہتے ہیں، بلکہ آپ(رضی اللہ عنہ) کا حُزن رسول پاک (ﷺ) کی غمخواری کی وجہ سے تها-“[8]
اسی طرح ”تفسیر بغوی“ میں امام محمد حسین بن مسعود بغویؒ نے لکھا ہے:
”سیدنا ابوبکرصدیق (رضی اللہ عنہ) کا حُزن آپ کی ناتوانیٔ عزیمت کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ رسول اللہ (ﷺ) کی غمخواری کی وجہ سے تھا-“ [9]
علامہ احمد بن محمد صاوی”حاشیہ صاوی“ میں لکھتے ہیں :
”سیدنا صدیق اکبرکا حُزن محبوب کریم(ﷺ) کے لئے تھا نہ کہ اپنی ذات کے لئے تھا“-[10]
اسی طرح صاحبِ تفسیرنعیمی مذکورہ آیت کے تحت رقم طراز ہیں:
’’غار ثور میں سیدناصدیق اکبر(رضی اللہ عنہ) کو اپنا خوف تھا نہ اپنا غم، خوف تھا تو حضور (ﷺ) کے متعلق،پریشانی و فکر تھی تو حضور(ﷺ) کی کہ کفار آپ کو ایذا نہ پہنچائیں“-[11]
چنانچہ آیت میں لفظ”حزن “سے واضح ہے کہ سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) کو اپنی جان کی فکر نہ تھی بلکہ آقا پاک (ﷺ) کی ذات کے متعلق فکر مند تھے ؛اس لئےکہ ”خوف“ کا لفظ اپنی جان کے متعلق ہوتا ہے اور لفظ ”حزن“ دوسرے کی جان کے متعلق ہوتا ہے-غارِ ثور میں جب دشمنوں کے قدموں کی آہٹ سنی تو سیدنا صدیقِ اکبر (رضی اللہ عنہ) کے دل میں جو خوف پیدا ہوا، وہ اپنی ذات کے لیے نہ تھا بلکہ سراپا محبت و وفا بن کر صرف رسولِ اکرم (ﷺ) کے تحفظ اور سلامتی کے لیے تھا-
سیدنا صدیقِ اکبر (رضی اللہ عنہ) کا یہ خوف دراصل عشقِ رسول (ﷺ) کی انتہا اور وفاداری کی معراج تھا، جہاں انسان اپنی جان کی پروا کیے بغیر محبوبِ حق(ﷺ) کے وجودِ مقدس کے لیے بے قرار ہو جاتا ہے- آپؓ کے چہرے پر ظاہر ہونے والا اضطراب درحقیقت اس فکر کا آئینہ تھا کہ کہیں دشمنوں کی نگاہ حضور (ﷺ) پر نہ پڑ جائے- یہی وہ لمحہ تھا جب محبت و ایمان نے خوف کو بھی عبادت کا رنگ دے دیااورسیدنا صدیقِ اکبر (رضی اللہ عنہ) کی وفا نے یہ حقیقت آشکار کی کہ عاشقِ صادق کیلئے اپنی جان کی نہیں، بلکہ محبوبِ خدا (ﷺ) کی سلامتی ہی سب سے بڑی ترجیح ہوتی ہے-
ایمان کے پہلو:
غارِثور کےاس واقعہ سے ایمان کے کئی درخشاں پہلو اخذ ہوتے ہیں مثلاً:
- ایمان باللہ ( یعنی اللہ کی معیت اور نصرت پر کامل یقین)
- ایمان بالتوکّل ( انجام اور نتیجے کو اللہ کے سپرد کر دینا)
- ایمان بالصبر ( خوف و خطر کے عالم میں بھی صبر، ضبط اور استقامت کا مظاہرہ)
- ایمان بالقدر (ہر حال میں تقدیرِ الٰہی پر رضا و اعتماد)
- ایمان بالرسول (ﷺ) (اتباعِ نبوی میں روحانی وابستگی اور پختہ وفاداری کا مظہر)
- ایمان بالمحبت (محبتِ رسول (ﷺ) کے نور سے دل کو منور رکھنا)
- ایمان بالتسلیم (ہر فیصلے پر رضا و تسلیم کی کیفیت اختیار کرنا)
سیدنا صدیق اکبر(رضی اللہ عنہ) نے اس لمحے ایمان کا کامل نمونہ پیش کیا کہ رسول اللہ(ﷺ) کی معیت و قربت میں خوف و خطر کی اس گھڑی میں بھی آپ (رضی اللہ عنہ) کی زبان مبارک سے صرف شکر و یقین کے کلمات ادا ہوئے-
استقامت و ثابت و قدمی کے پہلو:
غارِ ثور میں سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) کا سانپ ڈسنے کی شدید تکلیف کے باوجود ادبِ رسول(ﷺ) میں خاموش رہنا ثابت قدمی اور آپ (ﷺ) سے محبت کی عظیم مثال ہے- یہ صبر و استقامت عشق و ادبِ رسالت (ﷺ) کا ایسا مظہر ہے جس کی مثال تاریخِ انسانیت میں نہیں ملتی-یہ استقامت محض اسی لمحے کے لیے نہ تھی بلکہ پوری زندگی میں آپؓ کی شخصیت مبارکہ کا خاصہ بن گئی- خلافت کے ایام ہوں یا فتنوں کے طوفان، ہر موقع پر آپؓ نے اسی ثابت قدمی، توکل اور عشقِ رسول (ﷺ) کے ساتھ امت کی رہنمائی فرمائی-
الغرض! غارِ ثور کا واقعہ محض تاریخِ ہجرت کا ایک باب نہیں بلکہ ایمان، خوف، توکل اور قربانی کے ایسے گہرے مفاہیم کا مظہر ہے جو مومن کی روحانی تربیت کرتا ہے- یہ واقعہ ہمیں بتاتا ہے کہ جب ایمان قوی اور یقین کامل ہو تو خوف اپنی شدت کھو دیتا ہے، مایوسی کی دیواریں ٹوٹ جاتی ہیں اور انسان میں استقامت اور ثابت قدمی جنم لیتی ہے- مزید یہ کہ اپنی جان، مال اور وقت کی قربانی اس فلسفے کا ایک اور بنیادی نکتہ ہے جس سے ایمان ِ کامل کاعملی اظہار ہوتا ہے-
عصرِ حاضر میں اُمت کیلیے پیغام و اسباق :
جدید دور میں جب عالمِ اسلام گوناگوں مشکلات، فکری آزمائشوں اور تہذیبی دباؤ کا سامنا کر رہا ہے ایسے میں غارِ ثور کے اس عظیم واقعہ سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ ایمان کو مضبوط کر کے ہر طرح کے مسائل پہ قابو پایا جا سکتا ہے- جب دل اللہ کی معیت سے مطمئن ہو تو ظاہری خطرات، مادی کمزوریاں اور دشمنوں کی تدبیریں بے اثر ہوجاتی ہیں-
غارثور کا فلسفہ مسلمان کے لیے روحانی درس و تلقین کی حیثیت رکھتا ہے کہ اگر وہ اپنے ایمان کو محض نظری عقیدہ نہیں بلکہ عملی و باطنی قوت بنالے تو خوف کے تمام حصار ٹوٹ جائیں گے -اس واقعہ میں سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) کا کردار یہ درس دیتا ہے کہ محبتِ رسول (ﷺ) صرف جذباتی وابستگی نہیں بلکہ عملی استقامت کا سرچشمہ ہے-یہ محبت انسان کے اندر وہ روحانی قوت پیدا کرتی ہے جو مایوسی کو امید میں، خوف کو یقین میں اور کمزوری کو استقامت میں بدل دیتی ہے-
آج کےاس مادّی اورپُرفتن دور میں سیدنا صدیقِ اکبر (رضی اللہ عنہ) کی سیرتِ مبارکہ اور کردارِ اقدس کو اپنی عملی زندگیوں میں راسخ کرنا از حد ضروری ہے- اگر مسلمان آپ (رضی اللہ عنہ) کے اخلاص، استقامت اور وفاداری کو اپنا طرزِ عمل بنا لیں تو نہ صرف اخلاقی و روحانی زوال کا خاتمہ ممکن ہے بلکہ اُمتِ مسلمہ ایک بار پھر عروج و سربلندی کی راہوں پر گامزن ہو سکتی ہے-
٭٭٭
[1](التوبہ:40)
[2](سبل الہدی و الرشاد،ج:3، ص:232(ماخوذ) مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت)
[3](دلائل النبوة للبيہقی،ج:2،ص:477،دار الكتب العلميہ،بیروت)
[4](صحیح بخاری، کتاب المناقب الانصار،باب ہجرۃ النبی(ﷺ)
[5](الوفاباحوال مصطفےٰ(ﷺ) ،ج:1،ص:287)
[6](تاریخِ مدینہ دمشق، ج:30، ص:150، دارالفکر، بیروت)
[7](التوبہ:40)
[8](تفسیر مظہری،ج3،ص288، مکتبہ رشیدیہ، کوئٹہ)
[9](تفسیر بغوی، ج2،ص349،رقم1071، دار إحياء التراث العربی،بيروت)
[10](حاشیہ صاوی علی تفسیر جلالین،ج 3،ص804، مکتبہ رشیدیہ، کوئٹہ)
[11](تفسیر نعیمی، ج10،ص296، مکتبہ اسلامیہ،لاہور)