ابتدائیہ:
وفا کی تاریخ میں جب بھی صدق کا ذکر بلند ہوتا ہے، تو ذہن کے دریچوں پر تاجدارِ وفا کی صورت میں مشیر ہجرت و یارِ غار حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کی ہستی جگمگاتی ہے- آپ خلیفۂِ رسول،سایہ ِ رسالت اور امینُ الامت جیسے اوصاف کے حامل ہیں - آپ قافلۂ صدق کے پہلے راہی ہیں ، وقت معراج آپ کی گواہیِ اول ، قلبِ مصطفوی(ﷺ) کے رازدار ہونے کی روشن دلیل ہے - آپ کی ذات بابرکات مشعلِ ایمان، شہسوارِ توکل اور پیکر اطاعتِ نبی (ﷺ) بن کر امت کیلئے حُسنِ ایمان کی پہلی فصیل ثابت ہوئی ہے- آپ وزیرِ ہجرت، غمگسارِ نبی، محسنِ امت ہیں-آپ کی روح، روحِ تسلیم، آپ کا یقین، یقینِ کامل و جمالِ اخلاص کی تابندہ دلیل ہے، آپ نے شوکتِ اسلام کو دوام بخشا ہے -
غارِ ثور :
آقا پاک (ﷺ) نے مسلمانوں کو مدینہ کی طرف ہجرت کا حکم دیا، مسلمان مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے لگے، اس عظیم فریضے کو سر انجام دینےکیلئے حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ)نے بھی آقا پاک (ﷺ) سے اجازت طلب کی، لیکن حضورِ حق میں یوں منظور تھا کہ ہجرت کا یہ شرف آپ کو آقا پاک(ﷺ) کی معیت میں حاصل ہو گا- آقاپاک (ﷺ) کا ہر فیصلہ حکم الہی کے تابع اور نبوی فراست کی روشنی میں ہوتا تھا- زمانے نے دیکھا کہ آقا پاک (ﷺ) کا یہ فیصلہ کتنا پُر بصیرت تھا -
آقا پاک (ﷺ) کو ہجرت کا حکم ہوا ، آپ (ﷺ) نے حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ)کو اپنے ہمراہ لیا اور مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے، جس کا پہلا پڑاؤ غار ثور ہے-غار ثور عزم، ہمت، وفا، صبر، قربانی، عشق، تدبیر، ایمان، ذمہ داری و توکل کی عظیم داستان ہے - کفار آپ(ﷺ)کو نعوذ باللہ قتل کرنے کے عملی اقدام کر چکے تھے -ان حالات میں خاتم الانبیاء (ﷺ) کا آپ (رضی اللہ عنہ) کو اپنا ہمراہی منتخب کرنا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ آپ (رضی اللہ عنہ)کا ایمان، صدق اور وفا اس نہج پر ہیں جہاں ان خوبیوں کو اس بات پر فخر ہو گا کہ ہم حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ)کی ذات مقدسہ میں موجود ہیں-یہ بات فقط آپ کےایمان ، صدق و وفا کی نہیں بلکہ اس عظیم ذمہ داری کو نبھانے کی بھی تھی جو آپ (رضی اللہ عنہ) کے کندھوں پر آن پڑی تھی اور یقیناً اللہ تعالیٰ کسی پر اتنا بوجھ نہیں ڈالتا کہ جتنا وہ اٹھا نہ سکے- اس نازک موقع پر جہاں آپ (رضی اللہ عنہ) کو ہجرت کے موقع پر ہمراہیِ رسول (ﷺ) ہونے کا شرف حاصل ہے وہیں آپ (رضی اللہ عنہ)اپنے تابناک ماضی کے آئینہ میں اس بھاری ذمہ داری کو مکمل طور پر اٹھانے کے اہل بھی ہیں کہ سفر میں آقا پاک(ﷺ) کی حفاظت کے فرض کو بھی نبھا سکیں - اس نازک موقع پر آقا پا ک (ﷺ) کا تحفظ ہی اصل حیات اور بنی نوع انسان کی عظمت کی حیات کا بنیادی نکتہ ہے -آپ (رضی اللہ عنہ)نے جاں نثاری کو شعور، محبت کو حکمت اور دفاع کو ایمان کا فریضہ جانا اور جس انداز میں سارے انتظام و بندوبست کئے وہ آپ کے تدبر و حکمت اور توکلِ الٰہی کا منہ بولتا ثبوت ہیں -
حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ)کو شعوری طور پر یہ ادراک تھا کہ یہ نبی، آخری نبی ہیں -یہ سلسلۂ نبوت آخری کی کڑی ہیں اور اس سے قبل بھی اقوام اپنے انبیائے کرام کو قتل کرتی آئی ہیں - کہیں یہ واقعہ ان کی موجودگی میں اس رسولِ ہاشمی (ﷺ) کے ساتھ نہ پیش آئے - غارِ ثور کی طرف چڑھتے ہوئے؛ حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ)یقیناً یہ جانتے تھے میرے کاندھے پر نبی خود ہیں ، نبی کی زندگی ہے، قرآن کریم کی صداقت ہے، دین کی بقا ہے، امت کی نجات ہے، انسانیت کی معراج ہے ، اللہ کا محبوب ہے اور شافع روز محشر ہے- احساسِ ذمہ داری کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ غزوۂ بدر سے زیادہ بھاری مرحلہ ہے بدر میں تو رسول اللہ کی حفاظت کیلئے 313 اصحاب موجود ہیں، لیکن غارِ ثور میں تو اکیلے صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) ہیں- آپ (رضی اللہ عنہ)جانتے تھے کہ آقا پاک (ﷺ) کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، آپ کو یہ ادراک تھا کہ قیصر و کسرٰی کی جنگ میں میری شرط کو دگنا کر دینے کا حکم دینے والے، معراج کی رات کو مکہ سے قبلہ اول اور وہاں سے آسمانوں تک جانے والے عظیم المرتبت نبی (ﷺ) کو اللہ پاک تنہا نہیں چھوڑے گا- لیکن غار کو صاف کرنا ، اپنے کپڑوں و دستار سے سوراخ بند کرنا، اپنا پاؤں سوراخ پر رکھ دینا، سانپ کے ڈنک برداشت کرنا، یہ فقط عزم و جذبہ نہ تھا بلکہ ایک شعوری انتخاب اور ایمانی ذمہ داری تھی کہ آقا پاک (ﷺ) کی حفاظت ہر حال میں ہر طریقے سے ہر دشمن اور ہر تکلیف سے کرنی ہے - آپ فکر مندضرور تھے مگر عقلِ صدیقی نہایت بیدار تھی، ہر خطرے کو پہلے پرکھتی پھر نبرد آزما ہوتی-آپ کی صداقت کا جوہر آپ کے ہر ہر عمل سے فقط جھلک نہ رہا تھا بلکہ چھلک رہا تھا -
کفار پیچھا کرتے کرتے غار ثور کے دہانے پر آ پہنچے، قدموں کی چاپ سنائی دینے لگی، آوازیں کانوں سے ٹکرانے لگیں ،کبوتری کے انڈے ، مکڑی کے جالے کی اوٹ باقی رہ گئی، آپ (رضی اللہ عنہ) کا دل مضطرب تھا لیکن یہ اضطراب آقا پاک (ﷺ) کے لئے تھا -اگر اپنی جان کی پروا ہوتی تو ساتھ کیسے ہوتے؟ حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ)جیسے فرض شناس کے قلب پہ وہ لمحے کیسے ہوں گے؟ کہ محبوب خدا (ﷺ) نے آپ (رضی اللہ عنہ)کو تسلی دی کہ فکر مندنہ ہوں بے شک اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے- اس کی تصدیق ہمیں قرآن پاک میں بھی ملتی ہے -
آپ (رضی اللہ عنہ)کی آقا پاک (ﷺ) کے لئے فکرمندی کو سوچنا اور احاطہ فکرمیں لانا ،گو کہ ناممکن ہے، ہم جانتے ہیں کہ مثال مثل کی غیر ہے لیکن سمجھنے کے لئے اگر ہم سوچیں کہ دنیا بھر کے کیمیائی ہتھیار ایک جگہ جمع کئے جائیں اور ایک پائیلٹ کی ذمہ داری لگائی جائے کہ انہیں ایک دوسرے مقام پہ پہنچا آئے - یہ احساس اس پائیلٹ کو ہوگا کہ اگر زمین سے اڑان بھر کر اس مقام تک جاتے ہوئے اگر جہاز کو کچھ ہوا تو پوری زمین اور اس پہ اربوں لوگ کیمیائی ہتھیاروں سے جل کر بھسم ہو جائیں گے پورا سیارۂ زمین تباہ ہو جائے گا ، اتنے میں ایک اڑتا ہوا میزائل اس پائلٹ کو نظر آئے جو اس جہاز کو تباہ کرنے اس کی طرف آ رہا ہے ، اس پائلٹ کے احساسات کیا ہوں گے؟ ایسے لمحے ہی شجاعت ، مضبوط اعصاب ، بیدار عقل اور ہمتِ تدبیر و تدبیرِ ہمت کو ظاہر کرتے ہیں -
حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) نے غارِ ثور میں صاحبِ قرآن کی حفاظت کی اور جنگِ یمامہ کے بعد قرآن کی حفاظت کی-جنگ یمامہ میں جو مسیلمہ کذاب کے خلاف لڑی گئی جس کا عقیدہ مقصدِ ختم نبوت کے نظریہ کی حفاظت تھی- اہل مدینہ کے بقول اس سے پہلے اور اس کے بعد ہم نے ایسی جنگ نہیں لڑی- خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ لوگو! مدینہ میں کوئی مرد نہ رہے، اہل بدر ہوں یا اہل احد سب یمامہ کا رخ کرو، بھیگتی آنکھوں سے دوبارہ ارشاد فرمایا مدینہ میں کوئی نہ رہے حتی کہ جنگل کے درندے آئیں اور ابوبکر کو گھسیٹ کر لے جائیں- صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کہتے ہیں کہ اگر علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم، سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ)کو نہ روکتے تو وہ خود تلوار اٹھا کر یمامہ کا رخ کرتے-
اس جنگ میں تقریباً 1200 اصحاب رسول (ﷺ) نے جام شہادت نوش کیا ، جن میں بدری اصحاب اور 70 سے زائد قرآن کریم کے حفاظ کرام بھی شامل تھے - اس موقع پر قرآن کریم کی حفاظت کی غرض سے بہت سے خدشات نے جنم لیا - حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ)کے مشورہ پر حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) نے بحیثیت خلیفہ رسول (ﷺ) قرآن مجید کی تدوین کی ذمہ داری کاتب وحی اور آقا پاک (ﷺ) کے انتہائی قریبی اور قابل اعتماد صحابی حضرت زید (رضی اللہ عنہ)کو سونپی کہ قرآن پاک کی تدوین کا کام مکمل کریں -جنہوں نے تقریباً ایک سال کے عرصہ میں اس عظیم کام کو اصحاب رسول (ﷺ) کی مدد سے مکمل کیا جس پر تمام امت کا اجماع ہے- آپ (رضی اللہ عنہ) کی تمام زندگی ہی سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہے لیکن، غار ثور میں حفاظتِ نبوی (ﷺ)، آقا پاک (ﷺ) کے پردہ فرمانے کے موقع پر آپؓ کا کردار، جھوٹے مدعیان نبوت کا قلع قمع، فتنہ ارتداد کا خاتمہ ، منکرین زکوۃ کے خلاف جہاد اور تدوین قرآن پاک جیسے اقدامات آپ (رضی اللہ عنہ) کے اس امت پر احسان ہیں – المختصر! یزیدی نیزوں کی نوک پہ سید الشھداء حضرت امامِ حسین (رضی اللہ عنہ) کے سرِ اقدس نے اُسی قرآن کی تلاوت کی جس کی حفاظت حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کے عہدِ خلافت میں ہوئی -
آج ہم جو گواہی دیتے ہیں کہ ’’اللہ ایک ہے اور محمد (ﷺ) اس کے آخری رسول ہیں‘‘ تو یقینا ً یہ گواہی دیتے ہوئے ہر کلمہ گو حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کا مقروض ہے-
٭٭٭