اسمِ گرامی:
آپؓ کا اسم گرامی عبد اللہ ہے -
القابات:
سایۂ مصطَفٰے(ﷺ)، عز و نازِ خلافت، افْضَل الْخَلق بَعْدَ الرُّسُل، ثَانِیَ اثْنَیْنِ فی الغار، اَصْدَقُ الصَّادِقِیْں، سَیِّدُ الْمُتَّقِیں، خلیفۃ الرسول -
سیدنا صدیق اکبر(رضی اللہ عنہ) کے دو معروف القابات ’عتیق و صدیق‘ ہیں-ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) ارشاد فرماتی ہیں کہ حضور رسالتِ مآب (ﷺ) نے فرمایا:
’’مَنْ اَرَادَ اَنْ يَّنْظُرَ اِلٰی عَتِيْقٍ مِنَ النَّارِ فَلْيَنْظُرْ اِلیٰ اَبی بَکْر‘‘[1]
’’جو دوزخ سے آزاد شخص کو دیکھنا چاہے، وہ ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کو دیکھ لے‘‘-
سیدنا صدیقِ اکبر(رضی اللہ عنہ)کو پہلے عتیق کے لقب سے ہی پکارا جاتا تھا- لیکن بعد میں صدیق لقب مشہور ہو گیا یہی وجہ ہے کہ مولا مشکل کشا حیدرِ کرار حضرت علی المرتضیٰ کرّم اللہُ وجہہٗ فرماتے تھے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) وہ شخصیت ہیں جن کا لقب اﷲتعالیٰ نے جبریلِ امین اور حضورنبی مکرم جناب محمد مصطفےٰ کریم علیہ الصلوۃ والسلام کی زبانِ اقدس سے ’’الصِدِّیق‘‘ رکھا -[2]
کُنیّت:
سیدنا صدیقِ اکبر (رضی اللہ عنہ) کی کنیت ابوبکر ہے -روایت کیا جاتا ہے کہ چونکہ آپ (رضی اللہ عنہ) اونٹوں کے معاملات میں بہت ماہر تھے اور آپؓ کا قبیلہ بھی مالدار تھا، اس مہارت کی بنا پر آپؓ ابوبکر کہلائے- جبکہ ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ آپؓ بڑی عمر کے آزاد مردوں میں اسلام لانے، مال خرچ کرنے [3]اور ہر نیک کام میں امتِ محمدیہ (ﷺ) میں اوّلیت رکھتے تھے، اس لیے آپؓ کو ابوبکر یعنی ”اولیت والا“ کہا گیا-[4]
نسب شریف:
عبداللہ بن ابی قحافہ عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن تیم بن مرہ بن کعب ہے-[5]مرہ بن کعب سے آپ کا نسب جناب رسول اللہ (ﷺ) سے جا ملتا ہے-
والدین:
آپؓ کے والدِ گرامی فتح مکہ کے موقع پر ایمان لائے اور 14 ھ میں 97 سال کی عمر میں ان کا وصال ہوا- ان کا مدفن مکہ مکرمہ میں ہے- آپ کی والدہ کا اسم گرامی ام الخیر سلمیٰ بنت صخر بن عامرہے-حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کے قبول اسلام کے کچھ عرصہ بعد آپ بھی ایمان کی دولت سے مشرف ہوگئیں تھیں- آپ کی وفات سیدنا صدیقِ اکبر (رضی اللہ عنہ) کے وصال کے بعد ہوئی- آپ مدینہ منورہ میں مدفون ہیں-
ولادت و وفات:
آپؓ حضور پاک (ﷺ) کی ولادت باسعادت کے دوسال چند ماہ بعد پیدا ہوئے-آپ کی وفات 63 برس کی عمر میں ہوئی-[6]
حُلیہ شریف:
آپؓ کا رنگ صاف، جسم ہلکا، نفیس رخسار، چہرے کی رگیں ابھری ہوئیں،نیم گہری آنکھیں، خندہ پیشانی اور ہاتھ کی انگلیوں پر گوشت مناسب تھا-[7] اسلام قبول کرنے سے پہلے اہلِ قریش میں عزت و شرافت کے حامل رہے- کبھی بتوں کی عبادت نہ کی - سخاوت کے سرچشمہ رہے-
سیدناصدیقِ اکبر (رضی اللہ عنہ) کے گھرانے کا امتیاز :
اسلام کی تاریخ میں واحد حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کی ہی شخصیت ہے جن کے نسب و نسل میں چار پشتوں نے صحابیت کا شرف پایا - جیساکہ امام ابن عبد البر القرطبی (المتوفى: 463ھ) ’’الاستيعاب‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’موسى بن عقبہ نے کہا : کہ ہم اسلام کی تاریخ میں کسی کو نہیں جانتے جنہوں نے خود اور ان کی چار پشتوں تک نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت کو پایا ہو، سواے اِن چار حضرات کے - ابو قُحافہ، ان کے بیٹے ابو بکر، ان کے بیٹے عبد الرحمن بن أبی بکر اور ان کے بیٹے ابو عتیق بن عبد الرحمن بن أبی بکر بن ابی قُحافَہ - عبد الرحمن بن شیبہ نے کہا: ابو عتیق کا اصل نام محمد تھا‘‘- [8]
عز الدين ابن الأثير (المتوفى: 630ھ) ، ’’اسد الغابۃ‘‘ میں انہی چار حضرات کے نام مبارک لکھ کر آخر میں لکھتے ہیں :
’’یہ سب کے سب صحابی ہیں- یہ فضیلت اِن حضرات کے سوا کسی اور کو حاصل نہیں ہوئی ‘‘-[9]
امام شمس الدين السخاوی (المتوفى:902ھ) ’’التحفۃ اللطيفۃ ‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’امام ابن حبان نے فرمایا : یہ شرف اس امت میں ان (چار)کے سوا کسی اور کو حاصل نہیں‘‘-[10]
خانوادۂ سیدناصدیقِ اکبر (رضی اللہ عنہ):
ازواج:
سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) نے پانچ شادیاں کیں-آپؓ کی پہلی بیوی قتیلہ بنت عبد العزیٰ تھیں- جن سے حضرت عبد اللہ ؓ اور حضرت اسماء ؓ پیدا ہوئے- قتیلہ اسلام نہ لائیں اور بالآخر علیحدگی اختیار کرلی-آپؓ کی دوسری زوجہ قبیلہ کنانہ کی ام رومان ؓ تھیں جن سےحضرت عبد الرحمن ؓ اور حضرت عائشہ ؓ صدیقہ پیدا ہوئے- حضرت ام رومان ؓ کا اصل نام زینب بنت عامر ہے- آپؓ کو حضور نبی پاک (ﷺ) کی خوش دامن (ساس) ہونے کا شرف حاصل ہے- آپ قدیمُ الاسلام صحابیات میں سے ہیں جنہوں نے اسلام کی خاطر قربانیاں دیں- آپؓ اپنے پہلے شوہر حارث بن سَخْبَرہ کے انتقال کے بعد حضرت سیدنا صدیق اکبر ؓ کے نکاح میں آئیں-[11] آپؓ نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی سعادت بھی حاصل کی- آپ کی نیک سیرت اور خوبصورت شکل کی بنا پر حضور نبی کریم (ﷺ) آپؓ کو جنّت کی حور جیسی فرمایا کرتے تھے-ذوالحجہ 6 ھ کو آپ کا وصال ہوا- رسول اللہ (ﷺ) خود آپؓ کی قبر مبارک میں اترے اور آپ کی قربانیوں کی شہادت دی-علامہ ابن سعد نے لکھا ہے کہ :
’’آپؓ ایک نیک خاتون تھیں-[12] حضرت ابوبکرؓ کی تیسری بیوی قبیلہ کلب کی ایک خاتون ام بکر تھیں- انہوں نے بھی اسلام قبول نہیں کیا سو سیدنا صدیق اکبر ؓ نے انہیں طلاق دے دی-آپؓ کی چوتھی زوجہ حضرت اسماء ؓبنت عمیس تھیں جن سے محمد بن ابی بکر ؓ پیدا ہوئے- حضرت اسماء بنتِ عُمیسؓ نے ابتداء ہی میں مشرف بہ اسلام ہو گئیں تھیں- آپ عالمہ، فاضلہ، کثیر احادیث روایت کرنے والی اور خوابوں کی تعبیر کا علم رکھنے والی خاتون تھیں، چنانچہ فاروق اعظم ؓ بھی آپؓ سے تعبیر معلوم کیا کرتے تھے-آپؓ کی پہلی شادی حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ (جعفر طیار) سے ہوئی اور مشرکین کے ظلم سے تنگ آکر آپؓ نے اپنے شوہر کے ساتھ مکہ سے حبشہ اور پھر حبشہ سے مدینہ کی طرف دو ہجرتیں کرنے کا شرف حاصل کیا- حضرت جعفرؓکی شہادت کے بعدآقا کریم (ﷺ)حضرت اسماءؓ اور ان کے بچوں پر بہت شفقت فرماتے تھے- حضرت جعفر طیار کی شہادت کے 6 ماہ بعد 8 ہجری میں آپؓ کا نکاح سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) سے ہوا، جن سے آپؓ کے بیٹے محمد بن ابوبکر پیدا ہوئے- حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کی وفات کے بعد آپؓ کا نکاح حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے ہوا اور ان سے حضرت عونؒ اور حضرت یحییٰ ؒپیدا ہوئے- آپؓ نے حضور نبی پاک (ﷺ) سے عورتوں کابالعموم ذکر ،خیر کے ساتھ نہ ہونے پر عرض کی جس پر سورۂ احزاب کی آیت نمبر 35 نازل ہوئی اور عورتوں کے دس مراتب مردوں کے ساتھ ذکر کیے گئے- آپؓ ام المؤمنین حضرت میمونہ بنت حارث کی بہن تھیں - اس رشتے سے حضور نبی اکرم (ﷺ) اور حضرت ابوبکرؓ ہم زلف ہوئے-حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کی پانچویں زوجہ مدنی خاندان کی حضرت حبیبہؓ بنت خارجہ بن زید تھیں- آپؓ سےحضرت ام کلثوم ؓپیدا ہوئیں ‘‘-[13]
اولادِ پاک حضرت ابوبکر صدیق(رضی اللہ عنہ):
1. ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ(رضی اللہ عنہا):
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) اور حضرت ام رومانؓ کی صاحبزادی ہیں-آپؓ تاریخِ اسلام کی وہ پاکیزہ خاتون ہیں جن کی عصمت کی گواہی خود اللہ پاک نے دی - آپؓ دین کے دو تہائی علوم کی حقیقی وارثہ اور نہایت ذہین عالمہ تھیں- آپ (رضی اللہ عنہ) نے حضور نبی کریم (ﷺ) کی عائلی زندگی کی معتبر راویہ، امت کے دینی معاملات میں رہنمائی کرنے والی عظیم مفتیۂ اسلام اور ثقہ محدثہ کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیں- آپؓ وہ عظیم ہستی ہیں جن کی عفت و عصمت کو سورۂ نور میں بیان کیا گیا- آپؓ کی ولادت اسلام کی بہار کے زمانے میں ہوئی اور آپؓ نے اسلام کی آغوش میں پرورش پائی- بچپن ہی سے صحابیہ کے عظیم مرتبہ پر فائز ہوئیں- آپؓ کا اسم گرامی عائشہ ہے اور کنیت بھانجے حضرت عبداللہ بن زبیر کے نام سے ام عبداللہ تھی-[14] آپؓ ارشاد فرماتی ہیں کہ رسول اکرم (ﷺ) کو خواب میں تین راتیں آپؓ کی تصویر دکھائی گئی-آپؓ نے کاشانۂ رسالت کے امور خانہ داری نہایت خوش اسلوبی سے سرانجام دیے اور ساتھ ہی قربِ مصطفیٰ (ﷺ) سے علمی فیض بھی حاصل کیا- حضور نبی کریم (ﷺ) کے وصال کے بعد جب صحابہ کو کوئی مشکل مرحلہ پیش آتا تو اس کا حل آپ ہی سے پوچھتے تھے- حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓفرماتے ہیں کہ مشکل میں ہم آپ ہی سے علم پاتے- حضرت عروہ ؓ نے فرمایا کہ میں نے آپ سے بڑھ کر کسی کو قرآن، میراث، حلال و حرام، شعر اور نسب کا عالم نہیں دیکھا- آپؓ حضرت صدیق اکبر ؓکے عہدِ خلافت سے ہی مستقل طور پر فتویٰ دینے کا رتبہ حاصل کر چکی تھیں - [15]آپؓ سے 2210اَحادیث مروی ہیں، جن میں 174 متفق علیہ ہیں-[16] ام المؤمنین 17 رمضان المبارک 58 ھ کو خالقِ حقیقی سے جاملیں- آپؓ کی نمازِ جنازہ حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ)نے پڑھائی اور رات کے وقت جنت البقیع میں سپردِ خاک کیا گیا- بوقتِ وفات آپ کی عمر مبارک67 برس تھی -[17]
2. حضرت اسماء بنت ابی بکر(رضی اللہ عنہا)
حضرت اسماء بنتِ ابوبکر (رضی اللہ عنہا) کی ولادت ہجرت سے 27 برس پہلے ہوئی[18] اور آپؓ حضور نبی کریم (ﷺ) کے اعلان نبوت کے ابتدائی ایام میں ہی مشرف بہ اسلام ہو گئیں- کہا گیا ہے کہ آپ نے 17 افراد کے بعد اسلام قبول کیا- آپؓ کو امیر المؤمنین ابوبکر صدیق ؓکی بیٹی ہونے کی وجہ سے عشقِ مصطفیٰ (ﷺ)وراثت میں ملا تھا- ہجرت کے موقع پر جب زادِ سفر باندھنے کیلئے کوئی چیز نہ ملی تو آپؓ نے اپنے نِطاق (کمر پر باندھنے کے کپڑے) کے دو ٹکڑے کر کے سامانِ سفر باندھ دیا، اسی وجہ سے آپ کا لقب ’ذَاتُ النِّطَاقَیْن‘ (دو کمر بندوں والی) مشہور ہوا-[19] آپ کے پاس حضور نبی کریم (ﷺ) کا ایک مبارک جبّہ تھا، جسے آپؓ بیماری سے شفا کے لیے دھو کر مریض کو پلایا کرتی تھیں-[20] آپ کا نکاح رسول اللہ (ﷺ) کے پھوپھی زاد بھائی حضرت زبیر بن عوام ؓ سے ہوا - آپؓ نے گھریلو کام کاج اور شوہر کے گھوڑے کی دیکھ بھال خود کی اور کبھی پریشانی کا اظہار نہیں کیا -[21] آپ کی اسلام سے محبت بے مثال تھی- ایک بار آپؓ کی حقیقی ماں قتَیلہ، جو مسلمان نہیں ہوئی تھیں، آپ کے لیے کچھ تحائف لے کر آئیں تو آپ نے لینے سے انکار کر دیا، مگر آقا کریم (ﷺ) کی اجازت ملنے پر قبول فرمایا-[22] آپ کے بیٹے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ فرماتے ہیں کہ آپؓ کوئی بھی چیز دوسرے دن کیلئے بچا کر نہیں رکھتی تھیں بلکہ جیسے ہی کوئی چیز آتی تو فقیروں اور حاجت مندوں پر صدقہ فرما دیتیں-[23] وفات کے وقت آپ کی عمر مبارک 100برس تھی اور اس قدر سن رسیدہ ہونے کے باوجود آپ کا کوئی دانت نہ گرا تھا اور عقل و حواس بالکل صحیح و سلامت تھے-73ھ میں آپؓ نے داعی اجل کو لبیک کہا-[24] آپؓ کے پانچ صاحبزادے (عبد اللہ، عروہ، منذر، عاصم اور مہاجر) ہیں اور تین صاحبزادیاں (خدیجۃ الکبریٰ، اُمّ الحسن،عائشہ) ہیں-
3. حضرت ام کلثوم بنت ابی بکر(رضی اللہ عنہا)
حضرت ام کلثومؓ سیدنا صدیق اکبرؓ کی سب سے چھوٹی صاحبزادی ہیں- آپؓ اپنی والدہ حضرت حبیبہ بنت خارجہ ؓ کے بطن میں ہی تھیں کہ حضرت ابوبکرصدیقؓ کا وصال ہو گیا- انہوں نے حضرت طلحہ بن عبید اللہ ؓ سے نکاح کیا -[25]حضرت ابوبکر ؓ نے اپنی کمال بصیرت و قوتِ کشف سے آپ کی ولادت سے قبل ہی حضرت عائشہ صدیقہ(رضی اللہ عنہا) کو آپ کی خبر دے دی تھی-[26]
4. حضرت عبداللہ بن ابی بکر(رضی اللہ عنہا)
حضرت عبداللہ (رضی اللہ عنہ) کا شمار سابقون الاولون کی مقدس جماعت میں ہوتا تھا- وہ ایک خوش بخت نوجوان تھے جو حضور نبی اکرم (ﷺ) کے اعلان نبوت کے ابتدائی ایام سے ہی شرفِ اسلام سے بہرہ ور ہو چکے تھے- حضرت عبداللہ (رضی اللہ عنہ) نے ہجرت کے سفر میں حضور نبی اکرم (ﷺ) کی اعانت و خدمت کی- آپؓ رسول اللہ (ﷺ) اور حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کے پاس غارِ ثور میں حاضر ہوتے اور دن بھر کی تمام کارروائیوں سے آپ (ﷺ) کو مطلع کرتے تھے- ایک نوجوان جاسوس کی حیثیت سے اس نازک موقع پر اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر آپؓ نے یہ ذمہ داری سرانجام دی-حضرت عبداللہ ؓ حنین اور طائف کے غزوات میں رسول اکرم (ﷺ) کے ساتھ تھے- طائف کے محاصرے کے دوران ایک دن دشمن کی طرف سے پھینکا گیا زہریلا تیر لگنے سے آپؓ شدید زخمی ہو گئے- اگرچہ بظاہر زخم مندمل ہو گیا تھا لیکن زہر اندر ہی اندر کام کر رہا تھا-چنانچہ سرورِ عالم (ﷺ) کے وصال کے کچھ عرصہ بعد شوال 11 ہجری میں اس زخم کے اثر سے آپؓ کی وفات ہو گئی- آپؓ کی نماز جنازہ سیدنا صدیقِ اکبر (رضی اللہ عنہ) نے پڑھائی اور حضرت عمر فاروقؓ، حضرت طلحہؓ اور حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر ؓ نے آپؓ کو قبر میں اتارا- بعض اہل سیر نے آپ کو شہدا ءمیں شمار کیا ہے- آپؓ کے پیچھے کوئی اولاد نہیں تھی- [27]
5. حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر(رضی اللہ عنہ)
حضرت ابوعبداللہ عبدالرحمٰن (رضی اللہ عنہا) اپنی بہادری اور ماہر تیر انداز ہونے کی وجہ سے مشہور تھے - اسلام لانے سے پہلے وہ جنگ بدر اور احد میں کفار کی طرف سے شریک ہوئے- آپؓ کا اسلام قبول کرنے کا واقعہ صلح حدیبیہ (6ھ) کے موقع پر پیش آیا جہاں آپؓ کفر و شرک کو ترک کر کے حق کی سپاہی بن گئے-آپؓ نے جنگ یمامہ میں کمال شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکام الیمامہ بن طفیل سمیت سات بڑے جنگجوؤں کو قتل کیا اور قلعے میں داخلے کا راستہ بنایا- آپؓ نے اپنی وفات (57ھ یا 58ھ) تک اسلام کی خدمت کی- آپؒ کی سگی بہن ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ(رضی اللہ عنہا) آپؓ سے بے حد محبت کرتی تھیں-
حضرت عبد الله بن ابی ملیکہ سے مروی ہے کہ:
’’حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر (رضی اللہ عنہ) کا مقام حُبشی میں انتقال ہوا (جو مکہ پاک سے کچھ فاصلہ پر ہے )تو آپ کو مکہ مکرمہ لاکر دفن کیا گیا-جب حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) آپ کی قبر پر تشریف لائیں، تو آپ نے، متمم ابن نویرہ کے مرثیہ کے یہ دو شعر پڑھے جو اس نے اپنے بھائی مالک ابن نویرہ کے قتل ہونے کے بعد لکھے:
|
وَ كُنَّا كَنَدْمَانَيْ جَذِيمَةَ حِقْبَةً |
’’اورہم جذیمہ بادشاہ کے دو مصاحبوں کی طرح عرصہ دراز تک اکٹھے رہے- یہاں تک کہا گیا ہرگز جدا نہیں ہوں گے، پس جب جدا ہو گئے تو گویا کہ مدت دراز تک اکٹھا رہنے کے باوجود میں اور مالک نے ایک رات بھی اکٹھے نہیں گزاری‘‘-[28]
پھر فرمایا اللہ کی قسم ! اگر میں وہاں ہوتی تو تمہیں وہیں دفن کراتی جہاں تمہارا انتقال ہوا-
آپؓ کی اولاد میں دو لڑکے (ابوعتیق محمد اور عبداللہ) اور دو لڑکیاں (اسما اور حفصہ) تھیں جن کی تربیت ام المؤمنین حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی آغوش میں ہوئی- حضرت عبدالرحمنؓ کے بیٹے حضرت ابو عتیق محمؓد بھی شرف صحابیت سے بہرہ ور ہوئے-گویا سیدنا صدیق اکبرؓ کی چار پشتوں کو شرفِ صحابیت نصیب ہوا یعنی آپؓ کے والد ابوقحافہ، آپؓ خود، آپؓ کے بیٹے عبدالرحمانؓ اور ان کے فرزند ابو عتیق محمدؓ-یہ اعزاز کسی اور گھرانے کو حاصل نہیں-
6. حضرت محمد بن ابی بکر(رضی اللہ عنہ)
حضرت محمد بن ابی بکر ؓ ذی القعدہ کے آخر میں، حجۃ الوداع کے سال، ذوالحلیفہ یا شجرہ کے مقام پر پیدا ہوئے جب حضور رسالتِ مآب(ﷺ) حج کیلئے روانہ ہو رہے تھے-[29] حضرت عائشہ صدیقہ ؓنے آپؓ کا نام محمد بن ابی بکر رکھا اور آپ کی کنیت ابو القاسم رکھی تھی - حضرت محمد بن ابی بکر (رضی اللہ عنہ) کی پرورش حضور مولا مشکل کشا علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) کے زیرِ سایہ ہوئی - سیدنا حضرت عثمان غنی (رضی اللہ عنہ) کی شہادت کے بعد پیش آمدہ پہلے سانحہ جنگِ جمل کے دن آپؓ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے پیادہ لشکر(رجّالہ) پر ذمہ دار تھے-حضرت محمد بن ابی بکر (رضی اللہ عنہ) حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ساتھ جنگ صفین میں بھی شریک ہوئےاور بعد میں حضرت علی المرتضیٰؓ نے آپؓ کو مصر کا گورنر مقرر کیا- 38 ہجری میں آپؓ کوشہید کرکے حمایتِ علیؓ کے جرم میں آپؓ کی نعش مبارکہ کی شدید توہین کی گئی -[30]
ایک روایت الفاظ ہیں :
’’فَقَتَلَهُ ثُمَّ جَعَلَهُ فِي جِيفَةِ حِمَارٍ فَأَحْرَقَهُ بِالنَّارِ‘‘[31]
’’پس اُسے قتل کیا ، پھر اسے ایک گدھے کی لاش (گندگی والی لاش) میں رکھ کر آگ لگا دی‘‘-
خانوادۂ صدیقِ اکبر اور اہلِ بیتِ اطہار(رضی اللہ عنھم):
حضرت ابوبکر صدیقؓ کا اہلِ بیتِ اطہار (رضی اللہ عنھم) سے محبت و قربت کا عالم یہ تھا کہ اپنی حیاتِ مبارکہ میں کبھی بھی اہلِ بیت کی خدمت میں کمی نہ آنے دی- آپؓ کے خانوادے کی شادیاں اہلِ بیت میں ہوئیں-اس کی ابتداء خود حضرت ابوبکرصدیق (رضی اللہ عنہ) نے کی- ذیل میں اختصار سے تفصیلات درج کی گئی ہیں -
v حضرت عائشہ صدیقہ بنت حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کا عقد مبارک حضور نبی کریم (ﷺ) سے ہوا-
v حضور رسالت مآب (ﷺ) اور حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) ہم زلف تھے کیونکہ ام المؤمنین سیدہ میمونہ اور حضرت اسماء سگی بہنیں تھیں-
v حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کے وصال کے بعد حضرت اسماء بنت عمیس کا نکاح حضرت علی المرتضیٰؓ سے ہوا- اس لحاظ سے حضرت محمد بن ابی بکرؓ حضور مولا علی المرتضیٰؓ کے سوتیلے بیٹے ہوئے-
v سیدنا امام حسین (رضی اللہ عنہ) کی زوجہ محترمہ حضرت شہر بانوؓ اور حضرت محمد بن ابی بکرؓ کی زوجہ سگی بہنیں تھیں یعنی سیدنا صدیقِ اکبر ؓاور سیدنا حیدرِ کرارؓ کی بہوئیں سگی بہنیں تھیں- [32]
v حضرت عبد اللہ بن زبیر (رضی اللہ عنہ) حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کے نواسے (حضرت اسماء بنت ابوبکر صدیق کے صاحبزادے) تھے- آپؓ کی دادی حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب تھیں جو حضور نبی اکرم (ﷺ) کی پھوپھی ہیں-اس رشتے سے آپؓ آقا کریم (ﷺ) کے بھتیجے لگتے ہیں- ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ بنت خویلدحضرت عبداللہؓ بن زبیر بن عوام بن خویلد کی پھوپھی دادی بھی لگتی ہیں- [33]حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی شادی حضرت امام حسن (رضی اللہ عنہ) کی صاحبزادی حضرت اُمّ الحسن (رضی اللہ عنہا) سے ہوئی- یعنی حضرت صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) کے نواسے کی شادی حضور مولی علی (رضی اللہ عنہ) کی پوتی سے ہوئی -
v حضرت امام جعفر صادقؒ جو ہیں وہ حضرت امام باقربن امام زین العابدین بن امام حسین بن علی المرتضیٰؓ کے صاحبزادے ہیں اور آپؓ کی والدہ محترمہ حضرت امِ فروہ بن قاسم بن محمد بن ابی بکر صدیقؓ ہیں- [34]
v سیدنا صدیق اکبرؓ کی پوتی حضرت حفصہ بنت عبد الرحمٰن بن ابوبکرؓ امام الشہداء سیدنا امام حسین ؓ کی زوجہ محترمہ ہیں- [35]
حضرت ابوبکرصدیق (رضی اللہ عنہ) اور اہلِ بیت اطہار (رضی اللہ عنھم) کی آپس کی محبت دیکھیں اور ان اسمائے گرامی میں کتنی مماثلت ہے-[36]ذیل میں ملاحظہ ہو:
v حضرت علی المرتضیٰؓ کے ایک بیٹے حضرت محمد اصغر کی کنیت ابوبکر ہے-
v حضرت امام حسن المجتبیٰؓ کے ایک بیٹے کا نام ابوبکر ہے-
طوالت کےپیشِ نظر سیدنا صدیقِ اکبر (رضی اللہ عنہ) کی آل میں سے چند ایک کا مختصر تعارف ذیل میں پیشِ خدمت ہے-
1. حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ
حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کی ولادت آٹھویں یا بعض کے مطابق بیسویں شوال المکرم کے مہینے میں ہوئی- آپؓ مدینہ منورہ میں مہاجرین کی سب سے پہلی اولاد پاک ہیں- آپؓ صدیقِ اکبرؓ کے نواسے ، زبیر ؓبن عوام کے فرزند ،اسماء بنت ابی بکرؓ کے لختِ جگراور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کے بھانجے ہیں- آپؓ کو ولادت کے فوراً بعد بارگاہِ رسالت میں پیش کیا گیاجہاں حضورنبی اکرم (ﷺ) نے آپؓ کے کان میں اذان کہنے کا حکم فرمایا اور پھر کھجور کو چبا کر بطورِ گھٹی آپؓ کے منہ میں رکھا- یوں سب سے پہلے آپؓ کے پیٹ میں رسول اکرم (ﷺ) کا لعابِ دہن پہنچا -[37]حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے تھے- آپ کے سجدے اتنے طویل ہوتے تھے کہ پرندے آپؓ کی پیٹھ کو ٹوٹی ہوئی دیوار سمجھ کر بیٹھ جاتے تھے -[38] آپؓ کو کثرتِ عبادت کے باعث حَمَامَۃُ الْمَسْجِد (مسجد کا کبوتر) کہا جانے لگا-[39] آپ عبادت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے، یہاں تک کہ مکہ معظمہ میں جب بارش کا پانی بیت اللہ کے آس پاس جمع ہو گیا تو آپؓ نے تیرتے ہوئے طواف مکمل کیا-[40] آپؓ نے تعظیم کعبہ کی خاطر ایک نئے اور عمدہ کام کی بنیاد رکھتے ہوئے کعبہ شریف پر ریشم کا غلاف چڑھایا اور اسے خوب خوشبو لگاتے تھے -[41] آپؓ فصیح و بلیغ خطیب تھے اور قریش کے نمایاں خطباء میں شمار ہوتے تھے-[42] آپؓ سچ بولنے والے، حق کی خاطر لڑنے والے اور بے مثال شمشیر زن تھے- جب یزید لعین نے آپؓ سے بیعت لینی چاہی تو آپؓ نے اس کے خط کو پھینک دیا اور ناحق مطالبے کو پورا کرنے سے انکار کر دیا- سن 64 ہجری میں آپؓ نے خلافت کا اعلان کیا اور جلد ہی سوائے شام کے سبھی علاقوں پر آپؓ کی حکومت قائم ہو گئی- 73 ہجری میں عبد الملک بن مروان نے بنو امیہ کے گورنر حجاج بن یوسف کو ایک لشکر کا امیر بنا کر مکہ مکرمہ کی جانب روانہ کیا- حجاج نے پہاڑ پر مِنجَنِیق (پتھر پھینکنے کا آلہ) نصب کر کے آپؓ اور آپ کے ساتھیوں پر پتھر برسائے- آپؓ نے دشمن کی فوجوں کا خوب ڈٹ کر مقابلہ کیا، لیکن دشمن کا ایک پتھر سر پر لگنے کی وجہ سے آپ زخم کی تاب نہ لاتے ہوئے زمین پر گرے اور دشمن نے آپ کو شہید کر دیا -[43] حجاج نے آپ کی لعش کئی دنوں تک سولی پر لٹکائے رکھی-
2. حضرت عروہ ؒبن زبیرؓ
حضرت عروہؒ بن زبیرکا شمار مدینہ منورہ کے سات بڑے فقہاء (فقہاء سبعہ) میں ہوتا ہے، جن کا فتویٰ اہل اسلام کے لیے سکونِ قلب کا باعث تھا- آپؒ کا نام عروہ اور کنیت ابو عبداللہ تھی- آپؒ کے والد مشہور صحابی اور عشرہ مبشرہ میں سے سیدنا زبیرؓ اور والدہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی بیٹی حضرت اسماءؓ تھیں- آپؒ نے صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کی ایک بڑی جماعت سے حصولِ علم کیا- جس میں حضرت زبیرؓ، حضرت علیؓ، حضرت زید بن ثابتؓ، حضرت عبداللہ ابن عباسؓ،حضرت عائشہ صدیقہؓ،حضرت اسامہؓ، حضرت ابو ہریرہؓ و دیگر اصحاب کبار شامل ہیں -[44]امام ذہبیؒ کے مطابق آپؒ کی ولادت حضرت عمر فاروقؓ کے آخر دورِ خلافت یا حضرت عثمان غنیؓ کے دورِ خلافت میں ہوئی- آپؒ کو علم تفسیر، علم حدیث اور دیگر کئی علوم میں مہارت تامہ حاصل تھی، لیکن علم فقہ سے خاص لگاؤ تھا اور اسی میں آپ کو بلند مقام حاصل تھا، جس کی وجہ سے آپ فقہاء سبعہ میں شامل ہوئے-[45] امام ذہبیؒ کے مطابق حضرت عروہ بن زبیرؒ کی وفات 94 ہجری میں ہوئی اور آپ اس وقت روزہ کی حالت میں تھے- 94 ہجری کو فقہاء کی موت کا سال کہا جاتا ہے کیونکہ اسی سال حضرت علی بن حسینؒ (امام زین العابدین)، حضرت سعید بن مسیبؓ، حضرت عروہؒ اور حضرت ابوبکرؒ بن عبدالرحمٰن کا انتقال ہوا-
3. حضرت قاسمؒ بن محمؓد بن ابی بکرؓ
حضرت قاسم ؒمشہور محدث و فقیہ اور تابعی ہیں- آپؒ کا نسب قریشی تیمی مدنی ہے اور آپؒ کی کنیت ابو محمد اور بعض کے مطابق ابو عبدالرحمٰن تھی -[46] والد محمد بن أبی بکؓر کی شہادت کے بعد آپؒ اپنی پھوپھو ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) کی پرورش میں آئے -[47] حضرت عبداللہ بن زبیر ؒ نے فرمایا کہ انہوں نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی اولاد میں حضرت قاسم ؒ کے سوا کسی اور کو ان کے مشابہ نہیں پایا-[48] آپؒ کی ولادت حضرت عثمان ؓ غنی کے آخرِ خلافت یا حضرت علی المرتضیٰؓ کے ابتدائی دورِ خلافت میں ہوئی-حضرت قاسم بن محمد ؒ نے ایک طویل عرصہ حضرت عائشہ ؓ کی صحبت میں گزارا اور ان سے بکثرت علمِ حدیث اور تفقہ حاصل کیا- آپؒ نے فرمایا کہ میں نے اپنی ایامِ طفلی کے باوجود حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی صحبت کو لازم پکڑا اور میں حضرت ابنِ عباس اور حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) کی مجلس میں بھی بیٹھا کرتا تھا- [49] آپ نے حضرت عائشہ، حضرت ابنِ عمر، حضرت ابنِ عباس، اپنی دادی حضرت اسماء بنت عمیس، حضرت ابوہریرہ اور حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ عنہ) سمیت ایک بڑی جماعت سے علمِ حدیث حاصل کیا-[50] آپ کا انتقال 107 ہجری قدید میں ہوا اور مشلل میں دفن ہوئے-
حرفِ آخر:
حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کی ذاتِ بابرکات اور آپؓ کی ازواج و اولاد نے دینِ متین کی خدمت میں نہ صرف اپنا تن من صرف کیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ عشقِ مصطفیٰ (ﷺ) اور ادب و مؤدتِ اہلِ بیت میں بھی پیش پیش رہے- آج ہماری زندگیوں کو سنوارنے کیلئے آپؓ کے خانوادہ میں کئی سنہرے اسباق موجود ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر ہم دونوں جہانوں کی کامیابی کا سامان کرسکتے ہیں-
٭٭٭
[1](سنن ترمذی، ابواب المناقب)
[2](المستدرک للحاکم،رقم الحدیث: 4406)
(شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ و الجماعۃ لللالكائی (المتوفى: 418ھ)، الجز : 7 ، ص: 1372)
[3](سنن ترمذی، ابواب المناقب)
[4](مرأة المناجیح از مفتی احمد يار خان نعيمی، ج:8، ص: 347)
[5](المعجم الکبير، باب: نسبۃ ابی بکر الصديق واسمہ)
[6](انوار الصدیق، ص: 57)
[7](ایضاً،ص: 59)
[8](الاستيعاب فی معرفۃ الاصحاب، جز : 3، ص : 1374، الناشر: دار الجيل، بيروت)
[9](اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ، جز: 5، ص : 98 ( الناشر: دار الكتب العلمیہ ، بیروت ، لبنان)
[10](التحفۃ اللطيفۃ فی تاريخ المدينۃ الشريفۃ ، جز: 2 ، ص : 509 ، الناشر: الكتب العلميہ، بيروت-لبنان)
[11](طبقات ابن سعد،ج: 8،ص:216)
[12](تجلیاتِ صدیقِ اکبر، ص: 362)
[13](تجلیاتِ صدیقِ اکبرؓ، ص:360)
[14]( طبقات ابن سعد،ج: 8،ص:46)
[15](سنن الترمذی،رقم الحديث:3882)
[16](مرأۃ المناجیح،ج:8، ص:70)
[17](شرح الزرقانى على المواهب، المقصد الثانى، الفصل الثالث، عائشۃ ام المؤمنين،ج: 4، س:392)
[18](معرفۃ الصحابہ،ج:5،ص:182)
[19](صحیح بخاری، رقم الحدیث: 2979)
[20](مسندِ امام احمد،رقم الحدیث:27008)
[21](صحیح بخاری،رقم الحدیث:5224)
[22](المستدرک للحاکم،رقم الحدیث:3857)
[23](الادب المفرد، رقم الحدیث:280)
[24](تجلیاتِ صدیقِ اکبر، ص :372)
[25](ریاض النضرۃ، ص:457)
[26](موطا امام مالك ، رقم الحدیث: 1453)
[27](الجواہر، ج:1، ص:105)
[28](سنن ترمذی،ابواب الجنائز)
[29](سنن نسائی، رقم الحدیث : 575)
[30](الاستیعاب فی معرفۃ،محمد بن عبدالبر، ص:1366)
[31](البدايہ والنہایہ ، الجز: 7 ، ص: 349 ، الناشر: دار إحياء التراث العربی)
[32](تجلیاتِ صدیقِ اکبرؓ، ص: 377)
[33](سیر اعلام النبلاء، ج:4،ص: 462)
[34](اللباب فی تہذیب الانساب، باب الصاد المہملۃ والالف،ج:2،ص:41)
[35](طبقات ابن سعد، ج:8،ص:342)
[36](طبقات ابن سعد ،ج: 8، ص: 468- 469)
[37](شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ، ج:2، ص: 356)
[38](موسوعہ ابنِ ابی الدنیا،ج:1،ص:341)
[39](حلیۃ الاولیاء،ج: 1،ص:411)
[40](وسوعہ ابنِ ابی الدنیا ،ج:8،ص:423)
[41](سیر اعلام النبلاء ،ج: 4،ص:467)
[42](ایضاً، ص:465)
[43](حلیۃ الاولیاء،ج:1،ص:407)
[44](تذکرۃ الحفاظ ، ج :1 ، ص: 50)
[45](البدایہ والنہایہ، ج:9، ص:120)
[46](الطبقات الکبریٰ ، ج:5، ص:187)
[47](تہذیب التہذیب ج:8، ص:334)
[48](سیراعلام النبلاء:ج:5، ص:55)
[49](ایضاً)
[50](ایضاً، ص:54)