کائنات کے ڈیزائن میں غوروفکر کیاجائے تو واضح ہوتا ہے کہ قدرت نے اپنی کاریگری میں ذرے ،تنکے اور قطرے کو بھی فضول یا بے کار پیدا نہیں فرمایا جسے قرآن کریم میں غوروفکر کرنے والوں پر ظاہر فرمایا- فرمان خداوندی ہے :
’’وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذا بَاطِلًا‘‘[1]
’’اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور وفکر کرتے ہیں اے ہمارے رب تو نے یہ بے کار نہ بنایا‘‘-
گویا غوروفکر کرنے والوں کےلیے اللہ تعالیٰ نے آفاق میں نشانیاں رکھیں ہیں جن کا وہ مشاہدہ کرتے ہیں-کبھی بصارت اور کبھی بصیرت سے نظارہ کرتے ہیں حقائق تک رسائی قرآن کریم اور صاحب قرآن کے دامن سے وابستہ ہونے سے ہی ممکن ہے اور بالخصوص بصیرت قرآنی کے حصول کےلیے لازم ہے کہ اس ذات اقدس سے اپنی نسبت کی گانٹھ کو مضبوط کیاجائے جن کے قلب اطہر پر سورتوں، پاروں،آیتوں اور قرآن پاک کے الفاظ و معانی کو بالتدریج حرف بہ حرف ،منزل بہ منزل نازل کیا گیا -
حضور رسالت مآب (ﷺ) کی بارگاہ اقدس سے قرآن کریم کے نزول کے مقاصد ، اسرار و رموز کے حقائق، احکام کے مراتب کو جن نفوس قدسیہ نے اخذ کیا وہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)کی مقدس جماعت ہے اور صحابہ کرام میں جن کی ذات گرامی نمایاں نظر آتی ہے وہ سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) ہیں- آپ نہ صرف مردوں میں ایمان لانے میں سر فہرست نظر آتے ہیں بلکہ بچپن ،لڑکپن ،جوانی میں بھی آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی معیت سے شرف یاب رہے ہجرت کی بات ہو یا غار ثور کی، مدینہ طیبہ ہو یا میدان کار زار، جانثاری کا مرحلہ ہو یا قربانی کا سماں تاریخ گواہ ہے کہ آپ (رضی اللہ عنہ) ہر مقام پے پیش پیش نظر آتے ہیں -
فیضان نبوت کا یہ کمال ہے کہ جو بھی حالت ایمان میں آپ کی معیت و رفاقت کو پاتا ہے تو اس پر قرآن و سنت کے اسرار و رموز اور حقائق کو منکشف فرما دیا جاتا ہے- سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) کو اللہ تعالیٰ نے وہ قلب منور عطا فرمایا جو نور نبوت (ﷺ) سے براہِ راست منور ہوا- یہی نور آپؓ کے فہم و ادراک میں قرآنی بصیرت کی صورت میں ظاہر ہوا- آپؓ کی بصیر ت یہ تھی کہ آپ نے قرآن کے معنی و مطالب کو سب سے پہلے نہ صرف سمجھا بلکہ اس پر عملی طور پر پہرا بھی دیا -
سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں کہ :
’’قرآن کریم کی تین آیات ایسی ہیں جنہوں نے مجھے باقی ہر چیز سے بے نیاز کردیا ہے ‘‘-[2]
پہلی آیت کریمہ
’’وَ اِنْ یَّمْسَسْکَ اللہُ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَہٗٓ اِلَّا ہُوَ ج وَ اِنْ یُّرِدْکَ بِخَیْرٍ فَلَا رَآدَّ لِفَضْلِہٖ ‘‘[3]
’’اور اگر تجھے اللہ تعالیٰ کوئی تکلیف پہنچائے توا س کا کوئی ٹالنے والا نہیں اس کے سوا اور اگر تیرا بھلا چاہے توا س کے فضل کا رد کرنے والا کوئی نہیں ‘‘-
’’اس آیت کریمہ سے میں نے یہ جان لیا کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے بھلائی عطا کرنا چاہے تو سوائے اس کے اسے کوئی ایسا کرنے سے روک نہیں سکتا-اگر وہ میرے ساتھ شر کا ارادہ کرے تو اس کے علاوہ کوئی اس کو مجھ سے نہیں ہٹا سکتا ‘‘-
دوسری آیت کریمہ
’’فَاذْکُرُوْنِیْٓ اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْا لِیْ وَلَا تَکْفُرُوْنِ‘‘ [4]
’’سو تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا اور میرا شکر ادا کرتے رہو اور میری ناشکری نہ کرو ‘‘-
’’اسی لیے میں نے اللہ کے سوا سب کچھ بھلا کر صرف اسی کے ذکر ہی کو حرز جان بنا لیا ‘‘-
تیسری آیت کریمہ
’’وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللہِ رِزْقُہَا‘‘[5]
’’اور زمین پر چلنے والا کوئی ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمہ کرم پر نہ ہو ‘‘-
’’خدا کی قسم میں نے اس آیت کریمہ کی تلاوت کے بعد پھر کبھی اپنے لیے رزق کا غم ہی نہیں کیا‘‘-
ابن حجر ہیتمی ’’الصواعق المحرقہ‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ) تمام صحابہ کرام میں سے قرآن مجید کو زیادہ سمجھتے تھے یعنی آپؓ قرآن کا زیادہ علم رکھنے والے تھے ‘‘-[6]
حضور نبی پاک (ﷺ) نے تمام صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کی موجودگی میں آپ(رضی اللہ عنہ) کو امام بنایا -
صحاح ستہ کی تمام کتب میں متعدد مقامات پر اور بالخصوص ’’صحیح بخاری، کتاب الصلوۃ‘‘ اور ’’صحیح مسلم، کتاب الصلوٰۃ‘‘ میں حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) اور حضرت ابو مسعود انصاری (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ آقا کریم (ﷺ)نے فرمایا:
’’قوم کا امام وہ بنے جو قرآن مجید کا سب سے زیادہ علم رکھنے والا ہو ‘‘-
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا)سے روایت کہ حضور نبی پاک (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’کسی بھی قوم کے لیے جائز نہیں ہے کہ ان میں حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ) موجود ہوں اور آپ کے علاوہ ان کو کوئی امامت کرائے ‘‘-[7]
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا)سے روایت کہ حضور نبی پاک (ﷺ) نے اپنی ظاہری حیات طیبہ کے آخری ایام میں ارشاد فرمایا :
’’ابو بکر سےکہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں ‘‘-
’’عرض کی گئی کہ وہ نرم دل ہیں حضرت عمر (رضی اللہ عنہ)کو حکم کریں کہ وہ نماز پڑھائیں پھر آپ نے حضرت سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ)کےلیے حکم فرمایا :
’’ابو بکر سےکہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں ‘‘-[8]
علامہ بدرالدین عینیؒ فرماتےہیں کہ:
’’سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) تمام صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)سے زیادہ علم والے تھے کیونکہ ان سب میں سے کسی نے انکار نہیں کیا جو حاضر تھا‘‘-[9]
امام نوویؒ لکھتے ہیں کہ :
’’ہمارے اصحاب حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کی زیادتی علم پر آپ کے اس فرمان سے جو صحیح بخاری و صحیح مسلم میں مذکور ہے، دلائل لائے ہیں کہ بخدا جس نے نماز اور زکوٰۃ میں فرق کیا میں ان سے قتال کروں گا-بخدا اگر انہوں نے مجھ سے اونٹ کے باندھنے کی رسی جسے وہ حضور نبی کریم (ﷺ) کو دیا کرتے تھے روک لی تو اس کے روکنے پر بھی میں ان سے قتال کروں گا‘‘-
شیخ ابو اسحاق وغیرہ نے اپنی کتب میں آپ کے ’’اعلم الصحابہ‘‘ ہونے پر اس طرح دلیل بیان کی کہ:
’’حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ)کے سوا تمام صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) اس مسئلے کی حکمت کو سمجھنے سے رکے ہوئے تھے-پھر جب آپ (رضی اللہ عنہ) کے مباحثہ کرنے سے ان پر یہ بات ظاہر ہوگئی کہ آپ کا قول مبارک درست ہے تو سب نے اس قول کی طرف رجوع کیا‘‘ - [10]
اب ذیل میں چند آیات مبارکہ ایسی پیش کی جاتی ہیں جن کی آپ نے تفسیر فرمائی :
’’امام ابن ماجہؒ روایت فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) بیان فرماتی ہیں کہ جب حضور نبی کریم (ﷺ) کی روح مبارک قبض کی گئی اس وقت حضرت صدیق اکبر(رضی اللہ عنہ) مدینہ کے بالائی حصہ میں اپنی بیوی بنت خارجہ کے پاس تھے مسلمان کہنے لگے کہ حضور نبی پاک (ﷺ) فوت نہیں ہوئے -آپ پر وہ کیفیت طاری ہے جو نزول وحی کے وقت ہوتی ہے، حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) تشریف لائے آپ (ﷺ) کا چہرہ مبارک کھولا اور آپ کی آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور کہا: آپ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس سے مکرم ہیں کہ آپ پر دو موتیں طاری کرے بے شک خدا کی قسم رسول اللہ (ﷺ) وصال فرما گئے ہیں-
ادھر حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) مسجد کی ایک جانب یہ کہہ رہے تھے خدا کی قسم رسول اللہ (ﷺ) وصال نہیں فرما گئے-جب تک آپ (ﷺ) تمام منافقوں کے ہاتھ اور پاؤں نہیں کاٹ دیں گے اس وقت تک آپ (ﷺ) وصال نہیں فرمائیں گے- حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) نے منبر پر چڑھ کر فرمایا :
جو شخص اللہ کی عبادت کرتا ہو تو اللہ تعالیٰ زندہ ہے اور اس کو موت نہیں آئے گی اور جو (حضرت) محمد (ﷺ) کی عبادت کرتا ہو تو بے شک (حضرت) محمد (ﷺ) وصال فرماگئے ہیں-آپ نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی -
’’وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ ج قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ ط اَفَائِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْ ط وَمَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰی عَقِبَیْہِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللہَ شَیْئًاط وَ سَیَجْزِی اللہُ الشّٰکِرِیْنَ‘‘[11]
’’اور محمد (خدا نہیں ہیں) صرف رسول ہیں، ان سے پہلے اور رسول گزر چکے ہیں اگر وہ فوت ہو جائیں یا شہید ہوجائیں تو کیا تم اپنی ایڑیوں پر پھر جاؤ گے تو جو اپنی ایڑیوں پر پھرجائے گا سو وہ اللہ کا کچھ نقصان نہیں کرے گا اور عنقریب اللہ شکر کرنے والوں کو جزا دے گا‘‘-
حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا:
’’مجھے ایسا لگا جیسے میں نےاس دن سے پہلے یہ آیت نہیں پڑھی تھی ‘‘-[12]
حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) سے کلالہ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا :
’’ مَیں اپنی سمجھ کے مطابق بیان کرتا ہوں-اگر ٹھیک ہو تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سمجھو اوراگر غلط ہو تو میری طرف سے سمجھو ‘‘-
’’میں تو (کلالہ )اسے سمجھتا ہوں جس کا باپ اور لڑکا کوئی نہ ہو ‘‘-
جب حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) خلیفہ مقرر ہوئے تو آپ (رضی اللہ عنہ)نے فرمایا:’’مجھے شرم آتی ہے کہ جس بات کو حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ)نے فرمایا ہو اسے میں رد کروں ‘‘-[13]
سیدنا صدیق اکبر(رضی اللہ عنہ)فرماتےہیں آپ دشمن میں سے شمامسہ کو قتل کر رہے تھے کہ آپ نے فرمایا:
ان میں سے ایک شخص کو قتل کرنا مجھے اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ میں ان کے علاوہ ستر آدمیوں کو قتل کروں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے (قرآن مجید ) میں ارشاد فرمایا:
’’فَقَاتِلُوْٓا اَئِمَّۃَ الْکُفْرِ ۙ اِنَّہُمْ لَآ اَیْمَانَ لَہُمْ‘‘[14]
’’پس تم کفر کے سرغنوں سے لڑو بے شک ان کی قسمیں کچھ نہیں ‘‘-[15]
ابو نعیم حلیہ میں اسود بن ہلال سے راویت فرماتےہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ) نے اپنے اصحاب سے فرمایا تم ان دو آیتوں کے بارے میں کیا کہتے ہو ؟
1-’’اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا‘‘ [16]
’’بیشک وہ جنہوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے پھر ثابت قدم رہے‘‘-
2-’’اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ‘‘[17]
’’وہ جو ایمان لائے اور اپنے ایمان میں کسی ناحق کی آمیزش نہ کی‘‘-
انہوں نے کہا :
’’ثُمَّ اسْتَقَامُوْا‘‘ کے یہ معنی ہیں کہ انہوں نے استقامت کے بعد کوئی گناہ نہیں کیا -
’’لَمْ یَلْبِسُوْٓا‘‘کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے اپنے ایمان کو شرک کے ساتھ نہیں ملایا -آپ (رضی اللہ عنہ)نے فرمایا:تم نے اس آیت کو غیر محل پر محمول کیا ہے-
پھر فرمایا: ’’قَالُوْا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا‘‘کا مطلب یہ ہے کہ:’’انہوں نے ’’ رَبُّنَا اللہُ‘‘ کہہ کر اس پر استقامت کی اور)غیر خدا کی طرف مائل نہ ہوئے اور ایمان کو شرک کے ساتھ نہ ملایا‘‘-[18]
آپ (رضی اللہ عنہ) کا قرآن مجید سے رشتہ ایسا تھا کہ اکثر آیت مبارکہ سنتے یا پڑھتے تو آپ کی آنکھوں میں آنسو مبارک آجاتے جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت کریمہ ’’اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَہَا‘‘ نازل ہوئی اس حال میں کہ سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) تشریف فرماتھے جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی تو آپؓ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تو حضور نبی پاک (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’اے ابو بکر! تمہیں کس چیز نے رولایا ہے عرض کی اس سورۃ نے مجھے رولایا ہے -پس حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:اگر تم سے خطائیں اور گناہ نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہاری بخشش فرمائے تو اللہ تعالیٰ ایک ایسی امت لے آئے گا جس سے خطائیں اور گناہ سرزد ہوں اور وہ ان کی مغفرت و بخشش فرمائے ‘‘-[19]
امام طبری عامر بن سعد سے روایت کرتے ہیں کہ سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ)نے آیت مبارکہ ’’لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا الْحُسْنٰی وَ زِیَادَۃٌ‘‘[20] کے بارے میں فرمایا :
’’زِیَادَۃٌ‘‘سے مراد خدا تعالیٰ کا دیدار ہے ‘‘-[21]
امام بیہقی شعبی سے روایت بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت مبارکہ:
’’اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَہُمْ عِنْدَ رَسُولِ اللہِ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللہُ قُلُوْبَہُمْ لِلتَّقْوٰی ط لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ ‘‘[22]
’’بیشک جو لوگ رسول اللہ (ﷺ) کے سامنے اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں، بیشک یہ وہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لیے پرکھ لیا ہے، ان ہی کے لیے مغفرت اور اجر عظیم ہے ‘‘-
نازل ہوئی تو آپ (رضی اللہ عنہ)فرماتےہیں کہ میں نے اپنے اوپر یہ قسم اٹھا لی کہ میں کبھی بھی حضور نبی کریم (ﷺ) سے کلام نہیں کروں گا مگر ایسے جیسے ایک بھائی دوسرے بھائی سے راز کی بات کرتا ہے (یعنی نہایت آہستہ سرگوشی) ‘‘-[23]
امام ابو جعفر طبری فرماتے ہیں کہ:
’’ان سب اقوال اور اس آیت مبارکہ ’’یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ‘‘[24]کی تاویلات میں سے زیادہ درست تاویل وہ ہے جو اس میں سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ تم اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور جس کا اس نے حکم دیا اس پر عمل کو لازم کرلو اور جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا اس سے بچ جاؤ-
" لَا یَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اہْتَدَیْتُمْ ‘‘
بے شک گمراہ کی گمراہی تمہیں کچھ بھی نقصان نہیں دے گی جب تم اللہ تعالیٰ کی اطاعت کو لازم کرلوگے‘‘ [25]
٭٭٭
[1]آلِ عمران:191
[2]ابو نصر سراج طوسی، اللمع، (دار الکتب الحدیثیہ بمصر)، باب ذکر ابوبکر الصدیق(ؓ)، ص:171
[3]یونس :107
[4]البقرۃ :152
[5]ھود:6
[6]الصواعق المحرقہ ،ج:1،ص:48
[7]امام جلال الدين السيوطي (911ھ)، تاريخ الخلفاء، (مكتبة نزار مصطفى الباز:الطبعة الأولى: 1425هـ)،ص:36
[8]صحیح بخاری، کتاب الاذان
[9]عمدة القاري شرح صحيح البخاری، باب الخوفۃ و الممر فی المسجد، ج:7، ص:139
[10]يحيى بن شرف النووي (ت:676هـ)، تهذيب الأسماء واللغات، (دار الكتب العلمية، بيروت – لبنان)، فصل فى علمه و زهده و تواضعه، ج:2، ص:190
[11]آل عمران:144
[12]امام ابن ماجة، أبو عبد الله محمد بن يزيد القزويني، (المتوفى: 273هـ)،سنن ابن ماجہ ،( دار إحياء الكتب العربية)، باب ذکر وفتہ (ﷺ)، ج:1، ص:520، رقم الحدیث:1627
[13]امام بیہقی،ابو بکر احمد بن حسین (384 - 458 هـ)،السنن الکبری،( مركز هجر للبحوث والدراسات العربية و الإسلامية – القاهرة ، الطبعة: الأولى، 1432هـ- 2011 م، ج:12، ص:468، رقم الحدیث :12394
[14]التوبة: 12
[15] سعيد بن منصور الجوزجاني (227هـ)، سنن سعيد بن منصور، (الدار السلفية– الهند، الطبعة الأولى، 1403هـ -1982م)، بَابُ مَا جَاءَ فِي قَتْلِ الرُّهْبَانِ وَالشَّمَامِسَةِ ،ج:2 ،ص:282
[16]الاحقاف :13
[17]الانعام :82
[18]امام حافظ ابی نعیم الاصبہانی ،حلیۃ الاولیاء،(ایڈیشن:1430ھ ،دار الحدیث: القاھرۃ)،ج:1،ص:60
[19]امام ابن کثیر ،تفسیر ابن کثیر ، ( دار طيبة للنشر والتوزيع ،الطبعة: الثانية 1420 هـ )،ج:8،ص:463
[20]یونس:26
[21]أبو جعفرمحمد بن جرير الطبري (224ھ-310ھ)،تفسیر طبری، (دار التربية و التراث: مكة المكرمة)، ج:15، ص:63
[22]الحجرات:3
[23]محمد بن نصر المَرْوَزِي (ت 294 هـ)، تعظيم قدر الصلاة (مكتبة الدار- المدينة المنورة، الطبعة الأولى، 1406هـ)، ج:2، ص:668
[24]المائدہ:105
[25] تفسیر طبری ، (دار التربية والتراث - مكة المكرمة )،ج:11،ص:152