افضل البشر بعد الانبیاء، امام الاصفیاء، الاتقیٰ، ثانی اثنین، اصدق الصادقین، خاصۂ خاصانِ عشق، صاحب ِ رسول )ﷺ(، محرمِ اسرارِ نبّوت،خلیفہ اوّل سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) سابقون الاوّلون میں سے ہیں-آپ (رضی اللہ عنہ) نے رسول اللہ (ﷺ) کی دعوت ِ حق پر بڑی عمر کے آزاد مردوں میں سب سے پہلے بلا تردد و تامل ’’آمَنَّا وَ صَدَّقْنَا‘‘ کہا اور حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے[1] پھر شریعت و دینِ محمدی (ﷺ) پر سب کچھ نثار کرنے کا ایسا عزمِ وفا باندھا جو تاابد ضربُالمثل بن گیا-ابوالاثر حفیظ جالندھری نے’’شاہنامہ اسلام‘‘ میں آپ کے قبول ایمان کی والہانہ کیفیت کو اس طرح بیان کیا ہے:
|
کہا ابوبکرؓ نے سرکارؐ آمَنَّا وَصَدَّقْنَا |
قبولِ اسلام کے بعد سیدنا ابوبکر صدیق نے اپنی تمام قوت و قابلیت ،سارا اثر و رسوخ ،کل مال و متاع،جان اور اولاد غرض جو کچھ ان کے پاس تھا سب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرم (ﷺ) کی رضا جوئی اور اطاعت میں وقف کردیا اور ہمہ تن دینِ حق کے ہو کر رہ گئے -رسالتِ محمدی(ﷺ) پر ایمان لانے کے بعد ان کی ساری زندگی اطاعت و وفا اور استقامت و عزیمت کی داستان ہے - [2]
آپؓ نے نہایت اخلاص کے ساتھ اسلام کی دعوت کو پھیلانے میں حصہ لیااور آپ کی کوششوں کے نتیجے میں عرب کے کئی بااثر اور معزز افراد دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے-
سیدنا ابوبکر (رضی اللہ عنہ) نے رسولِ اکرم (ﷺ) کے ساتھ ہر مرحلے میں وفاداری اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا- ظلم و ستم، آزمائش اور مصیبت کے اوقات میں بھی آپ (رضی اللہ عنہ) کی استقامت متزلزل نہ ہوئی- آپؓ نے ہر موقع پر حضور نبی کریم (ﷺ) کے ساتھ اپنی جان نثاری کا حق ادا کیا- یہی بے مثال رفاقت، اخلاصِ عمل اور دین کیلئے غیر معمولی خدمات آپؓ کو جماعتِ صحابہ میں سب سے نمایاں اور اسلام کا سب سے بڑا محسن بناتی ہیں-خود رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’ہم پر جس کا بھی کوئی احسان ہے اُس کا صلہ ہم نے عطا کر دیا، سوائے ابوبکر کے،کیونکہ اُن کے ہم پر (دینِ اسلام کےلیے) اتنے احسانات ہیں جن کا صلہ اللہ تعالیٰ انہیں قیامت کے دن عطا فرمائے گا‘‘-[3]
نامور مصری ادیب و محقق محمد حسین ہیکل نے اپنی مشہور تصنیف ’’حضرت ابوبکر صدیق‘‘ میں اسلام کےلیے آپ کی خدمات اور محبت ِ رسول (ﷺ) میں اخلاص کو یوں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے:
’’رسول اللہ(ﷺ)کی رفاقت کے ضمن میں سربلندی اسلام کےلیے جو بلند پایہ خدمات انہوں (حضرت ابوبکر صدیق) نے انجام دیں وہ نہ صرف مجموعی طور پر آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں بلکہ ان میں سے ہر ایک حضرت ابوبکر صدیق کے نام کو ابد الآباد تک زندہ رکھنے کیلئے کافی ہے-یہ علم صرف خداہی کو ہوسکتا ہے کہ حضرت ابوبکر کے دل میں اسلام اور رسول اللہ (ﷺ) کی محبت کے جو جذبات موجزن تھے وہ ظاہر کے مقابلے میں کتنے شدید تھے اور ان کا باطنی اخلاص ظاہری اخلاص سے کتنا زیادہ تھا ‘‘-[4]
محبتِ رسول (ﷺ) میں جو سوز و گداز اور اتباعِ رسول (ﷺ) میں کاملیت و اخلاص سیدنا صدیقِ اکبر(رضی اللہ عنہ) کے ہاں نظر آتا ہے وہ عدیم النظیر ہے-آپ کی زندگی کا ہر لمحہ اتباعِ رسول(ﷺ) اور ہر عمل منشا و مزاجِ نبوت (ﷺ) میں ڈھلا ہواتھا - بلاشبہ صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) ارشادِ ربّانی ’’قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللہُ‘‘[5] کی عملی تفسیر اور فرمان ِ نبوی (ﷺ) ’’لَا يُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰي أَکُوْنَ أَحَبَّ إلَيْهِ مِنْ وَّالِدِهٖ وَ وَ لَدِهٖ وَالنَّاسِ أَجْمَعِيْنَ‘‘[6]کے کامل مصداق تھے-
کوئی موقع ایسا نہ تھا جب آپ رفاقت و جانثاری کےلیے رسو ل اللہ (ﷺ) کے ہم رکاب نہ ہوں-ہر گھڑی،ہر لحظہ اور ہرحال میں جان و مال فداکرنے کو تیار تھے- [7]صدیقیت کا تقاضا ہی یہی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) کی محبت صدیق کے قلب میں سب سے زیادہ ہو، وہ نبی کی صحبت و رفاقت میں سب سے زیادہ رہا ہو اور آقا کریم (ﷺ) کیلئے جذبہ ایثار سے مالا مال ہو- صدیقِ رسول (ﷺ) کی زندگی ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہے- [8]
معروف ترک محقق و سیرت نگار ریشِت حیلمز (Reşit Haylamaz) نے اپنی کتاب ’’Abu Bakr: The Pinnacle of Truthfulness‘‘ میں حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کو ’’سلطانِ وفا و اخلاص‘‘ قراردیا ہے اور بیان کیا ہے کہ حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کے اسمِ گرامی کے ساتھ جو وصف سب سے زیادہ شایانِ شان تھا وہ ’’صدّیق‘‘ کا لقب ہے ، جس کے معنی ہیں سچا اور صداقت کا پیکر - یہ اس لیے ہے کہ سب سے پہلے آپ نے بلاتوقف واقعۂ معراج کی تصدیق کی اور یوں وہ صدقِ ایمان اور خلوصِ وفا میں سب پر سبقت لے گئے-
سیدنا ابوبکر صدیق کی رسولِ اکرم (ﷺ) سے غیر متزلزل وفاداری اور بے مثال اخلاص سخت ابتلاء و آزمائش کے متعدد مواقع پر بطریقِ اولی نکھر کر سامنے آئی-ایک مشہور واقعہ ہے کہ جب آپ نے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر خانۂ کعبہ میں عقبہ بن ابی معیط نامی بد بخت (جو اسلام کا بدترین دشمن تھا) کے آقا کریم(ﷺ) پر ہونے والے ناپاک حملے کے وقت مداخلت کی اور حضور اکرم (ﷺ)کا دفاع کیا- یہ واقعہ نہ صرف آپ کی جرأت و بہادری کا مظہر ہے بلکہ وفادار رفیق کی حیثیت سے آپ کی غیر معمولی استقامت اور اخلاص کی بھی روشن مثال ہے-
رفاقتِ رسول (ﷺ) میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کی وفاداری اور خلوص کی سب سے عظیم اور تاریخ ساز مثال ہجرتِ مدینہ جیسے نازک اور پُر خطر موقع پر ملتی ہے-جب حضور رسالتِ مآب (ﷺ)نے سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) کو اپنی رفاقت کےلیے چنا اور وہ گھر بار چھوڑ کر معیتِ رسول (ﷺ) میں سفرِ ہجرت پہ روانہ ہوگئے- اس مقدس سفر میں نہ صرف آپ خود بلکہ آپ کا سارا گھرانہ رسو ل اللہ(ﷺ) کی نصرت و خدمت میں شریک رہا-
ہجرت کا سفر شانِ صدیق ِ اکبر کا وہ عظیم حوالہ ہے کہ آپ رسول اللہ(ﷺ) کے ہمسفر اور یارِ غار قرار پائے-آج شعراء اور ادباء کے ہاں کثرت سے برتی جانے والی یارِ غار کی ترکیب آپ ہی سے منسوب ہے -جس کا مطلب ہے ’’سچا وپکا دوستِ حقیقی و مخلص ساتھی اور کڑے وقت میں کام آنے والا رفیق‘‘[9] رفاقتِ رسول (ﷺ) میں آپ کے اعجاز کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ روایات کے مطابق ختم المرسلین (ﷺ) کے صحابۂ کرام کی تعداد سوالاکھ سے متجاوز تھی لیکن قرآن مجید نے صراحت کے ساتھ جس ہستی کو ’’صاحبِ رسول‘‘ کے لقب سے نوازا وہ صرف اور صرف سیدنا ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) ہیں-[10] سورۃ التوبہ میں اللہ تعالیٰ کے فرمان ’’اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ‘‘ کے مطابق آپ کی صحبت محض غارِ ثور تک محدود نہ تھی بلکہ آپ نے ہمیشہ علی الاطلاق حضور نبی اکرم (ﷺ) کے صاحب ہونے کا اعزاز پایا-اس حقیقت میں کسی کو اختلاف نہیں کہ صحبتِ رسول (ﷺ) میں آپ سے بڑھ کر کامل و اکمل اور کوئی نہ تھا-[11] آپ ہر وقت دربارِ نبوی (ﷺ) میں حاضر رہتے، ہر معاملے میں آپ (ﷺ) کے ہمدم و ہمراز تھے-کوئی کام بغیر آپ کے مشورے کے انجام نہ پاتا بلکہ ہر امر میں سب سے مقدم مشیرِ کار آپ ہی ہوتے، قربت و رفاقت کا یہ عالم تھا کہ رسولِ کریم (ﷺ) روزانہ آپؓ کے گھر تشریف لاتے اور اہم امور میں آپؓ سے مشورہ فرماتے- آپؓ کے صائب الرائے ہونے کا رسولِ خدا (ﷺ) کو اس قدر یقین تھا کہ فرماتے ’’اللہ تعالیٰ کو یہ پسند نہیں کہ ابوبکر سے غلطی سرزد ہو‘‘-[12]غرضیکہ رسول اللہ (ﷺ) سے سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) کی رفاقت و صحبت محض ظاہری نہ تھی بلکہ ایسی بلندپایہ روحانی ہم آہنگی تھی جواس مادی دنیا کی حدود قیو د سے ماوراء تھی -
ہجرتِ مدینہ کے بعد سے حضور نبی اکرم (ﷺ) کے دارِ فانی سے پردہ فرمانے تک مدنی دور میں جتنے غزوات ہوئے، مہمات پیش آئیں یااہم امور و معاملات درپیش آئے ان سب میں حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) ہر مرحلے پر رسولِ اکرم (ﷺ) کے قرب و معیت میں رہے -مؤرخین اور سیرت نگاروں کا اتفا ق ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کسی بھی غزوے سے کبھی پیچھے نہیں رہے- ہر غزوہ میں نمایاں خدمات انجام دیں اور رسول اللہ(ﷺ)کے شانہ بشانہ میدانِ کار زار میں موجود رہے یہاں تک کہ رسول اللہ (ﷺ) کیلئے اپنی جان تک کی کبھی پرواہ نہ کی- صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم (ﷺ) کے اردگرد گھمسان کی لڑائی ہوتی تھی-ہم میں سے سب سے زیادہ بہادر اسے سمجھا جاتا تھا جو آقا کریم (ﷺ)کے آس پاس لڑتا-سیدنا ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) ہمیشہ رسول اللہ (ﷺ) کے آس پاس ہی رہتے تھے - مثلاً کفر و اسلام کے پہلے معرکے (غزوہ بدر) میں آپؓ حضور نبی اکرم (ﷺ) کی حفاظت پہ مامور اور آپ کے ساتھ سائبان کی طرح رہے- اسی طرح غزوہ احد کے موقع پر جب لوگ آپ (ﷺ) کا ساتھ چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے تھے تو اس نازک موقع پر حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) ہر وقت آپ (ﷺ)کے ہمراہ و ہمرکاب تھے اور جان فداکرنے کو تیار تھے- [13]
حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) رسول اللہ (ﷺ) کی رفاقت میں خدمت ِ دینِ متین کےلیے بھی ہمہ وقت پیش پیش رہے- راہِ خدا میں ایثار و قربانی کا جو اعلیٰ معیار حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) نے قائم فرمایا اُس میں کوئی بھی آپؓ پر سبقت نہ لے جا سکا-آپ کے مالی ایثار و انفاق (خرچ کرنے) کے بے شمار واقعات ہیں-[14] آپ ہمیشہ یہ تمنا کرتے تھے کہ اپنی جان ومال اور اہل و عیال کو آپ (ﷺ) پہ قربان کردیں- چونکہ حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) ایک ذی حیثیت تاجر اور مالی لحاظ سے خوشحال تھے - تجارت سے آپ (رضی اللہ عنہ) نے جو کچھ کمایا وہ سب کا سب آپ نے اللہ عزوجل کی راہ میں، اسلام کی تبلیغ میں اور ان غلاموں کو آزاد کرنے میں کرچ کردیا جو محض اسلام لانے کے جر م میں اپنے بے دین آقاؤں کے ہاتھوں ہولنا ک سختیاں برداشت کررہے تھے-[15]
حضرت عبد اللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ :
’’حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) جب اسلام لائے تو اُس وقت اُن کے پاس گھر میں 40 ہزار درہم موجود تھے لیکن جب آپؓ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کے لیے نکلے تو اُس وقت آپ کے پاس صرف پانچ ہزار درہم رہ گئے تھے، آپؓ نے یہ ساری رقم غلاموں کو آزاد کرنے اور اسلام کی خدمت پر خرچ کر دی ‘‘-[16]
اسلام کیلئے سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کی مالی خدمات و ایثار کا اعتراف مستشرقین نے بھی کیا ہے -انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا میں مضمون ’’صدیق‘‘ کا مصنف رقم طراز ہے:
“He was one of the earliest of Muhammad's converts and spent the considerable wealth which he had acquired by trade in the service of the new religion in ransoming slaves”.
’’وہ(سیدنا صدیق اکبرؓ) حضرت محمد (ﷺ) پر سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں سے تھے انہوں نے تجارت میں کمائی ہوئی بے شمار دولت نئے مذہب (اسلام) کی خدمت اور غلاموں کو آزاد کرانے میں صرف کی‘‘-
باالفاظ دیگر یہی حقیقت معروف برطانوی ماہر تعلیم تھامس واکر آرنلڈ (Thomas Walker Arnold) نے اپنی کتاب ’’The Preaching of Islam‘‘ میں کچھ اس طرح بیان کی ہے:
“He was a wealthy merchant. After his conversion he expended the greater part of his fortune on the purchase of Muslim slaves who were persecuted by their masters on account of their adherence to the teaching of Muḥammad.”
’’وہ (ابوبکر صدیق) ایک دولت مند تاجر تھے،اسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے اپنی دولت کا بڑا حصہ ان مسلمان غلاموں کو خریدنے پر صرف کردیا جنہیں ان کے آقا (کفار) اسلام قبول کرنے پر اذیتیں دیتے تھے‘‘-
سیدنا صدیقِ اکبر (رضی اللہ عنہ)نے جو بھی غلام یا لونڈیاں خرید کر آزاد کیں اپنے اس عمل سے وہ کسی دنیوی شہرت و جاہ کے طالب نہ تھے بلکہ آپ کا مطمح نظر خالصتاً اللہ عزوجل کی رضا اور خوشنودی کا حصول تھا- مؤذنِ رسول (ﷺ) سیدنا حضرت بلالِ حبشی (رضی اللہ عنہ) بھی سیدنا صدیقِ اکبرؓ کے مالی ایثار سے آزادی پانے والوں میں شامل تھے - اُن کا سابقہ مالک اُمیّہ بن خلف آپ پہ بے پناہ ظلم و ستم کرتا تھا ، حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) نے اُمیہّ کو خطیر رقم ادا کر کے حضرت بلال (رضی اللہ عنہ) کو اللہ عزوجل کی رضا و خوشنودی کے لیے آزاد ی دلوادی- ایک روز آپ کے والد ابوقحافہ نے کہا:
’’اے بیٹے! میں دیکھتا ہوں کہ تم ضعیف اور ناتواں غلاموں کو ہی خرید کر آزاد کرتے ہو،ا گر تم ان کی بجائے طاقتور اور قوی غلاموں کو آزادی سے ہمکنا ر کروتو وہ تمہارے دست و بازو بنیں اور آڑے وقت میں تمہارے کام آئیں-حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) نے جواب دیا: اے ابا جان! میں تو یہ عمل محض اللہ کی رضا کی خاطر کرتا ہوں‘‘-
آپ کے اِس اخلاص و للّٰہیت کی شہادت قرآن مجید یوں پیش کرتا ہے:
’’اور اس (آگ) سے اس بڑے پرہیزگار شخص کو بچا لیا جائے گا، جو اپنا مال (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتا ہے کہ (اپنے جان و مال کی) پاکیزگی حاصل کرے، اور کسی کا اس پر کوئی احسان نہیں کہ جس کا بدلہ دیا جا رہا ہو، مگر (وہ) صرف اپنے ربِ عظیم کی رضا جوئی کے لئے (مال خرچ کر رہا ہے)، اور عنقریب وہ (اللہ کی عطا سے اور اللہ اس کی وفا سے) راضی ہو جائے گا ‘‘-[17]
غزوہ تبوک کے موقع پر حضرت ابوبکر(رضی اللہ عنہ) نے جس غیر معمولی اخلاص وایثار کا مظاہرہ کیا تاریخ اس پہ ہمیشہ نازاں رہے گی- آپ (رضی اللہ عنہ)نے اپنے گھر کا سارا مال و اسباب لاکر بارگاہِ رسالت میں پیش کردیا اور کچھ بھی بچا کر نہ رکھا-
سیدنا حضرت عمر(رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے کہ:
’’ رسول اللہ(ﷺ) نے ہمیں مال صدقہ کرنے کا حکم دیا، (اس موقع پر) میرے پاس کثیر مال موجود تھا تو میں نے دل میں کہا:اگر میں کبھی ابوبکر(رضی اللہ عنہ) پر سبقت لے جا سکتا ہوں تو وہ آج ہی کا دن ہے- حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں: میں (گھر) آیا اور آدھا مال لے کر حضور (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوا، رسول اللہ (ﷺ) نے پوچھا: گھر والوں کے لیے کیاچھوڑا ہے؟ میں نے کہا: بقیہ نصف مال گھر والوں کے لیے چھوڑا ہے- اتنے میں حضرت ابوبکر(رضی اللہ عنہ) اپنا مال لے کر حاضر ہوئے، آپ (ﷺ) نے فرمایا: اپنے گھر والوں کیلئے کیا چھوڑا ہے؟ حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) نے عرض کیا: گھر والوں کیلئے اللہ اور اُس کے رسول کا نام باقی چھوڑا ہے- حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ میں نے دل میں کہا: میں کبھی بھی حضرت ابوبکر(رضی اللہ عنہ) سے سبقت نہیں لے سکتا‘‘-[18]
حکیم الاُمت علامہ اقبال نے بانگِ درا میں’’صدیق‘‘ کے عنوان سے اپنی نظم میں یہ خوبصور ت واقعہ اس طرح قلمبند کیا ہے :
|
بولے حضورؐ، چاہیے فکرِ عیال بھی |
آپ (رضی اللہ عنہ) کو عمر بھر آقا کریم (ﷺ)کی رفاقت کا شرف حاصل رہا اور بعد از وصال بھی یہ رفاقت قائم و دائم ہے- شیخ سعدی شیرازی ؒنے یہ الفاظ سیدنا صدیق اکبر کی شان اخلاص و وفا میں کہے تھے :
|
یار آں بود کے مال و تن و جاں فدا کند |
’’حقیقی دوست وہی ہے جو مال و جان اور تن سب کچھ محبوب پہ قربان کردے اور راہِ دوست میں وفاداری کو آخری حد تک نبھائے‘‘-
الغرض! سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) کی ذاتِ گرامی آج تک محبت و عشقِ رسول(ﷺ)، صدق و وفا، جود و سخا،ایثار و قربانی، اخلاص و للّٰہیت، استقامتِ ایمانی ا ور اعانت و نصرتِ دین میں اہلِ ایمان کیلئے سوزِعشق، روحانی فیضان اور ایمانی تقویت کا ایسا سرچشمہ ہے جس کی نظیر پیش کرنے سے تاریخ عاجز ہے - یہی وہ اوصافِ صدیقی تھے جن کی بدولت حضور اکرم (ﷺ) کے دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد آپ اُمتِ مسلمہ کی قیادت کے عظیم منصب پہ فائز ہوئے اور خلافت علی منہاج النبوۃ قائم فرمائی-آپ اپنے مختصر عہدِ خلافت میں ہر لمحے آئین ودین ِ رسالت (ﷺ) کے نگہدار وپاسبا ن ر ہے اور اسلام کی لئے حیرت انگیز خدمات انجام دیں -
|
خدمتِ دیں کے لیے بے بدل اس کا خلوص |
حاصلِ کلام : اوصافِ صدیقؓی کی قومی و سماجی زندگی میں عصری معنویت و ضرورت
جدید دور میں قومی و سماجی سطح پر اسلامی معاشرے کا بدترین زوال و انحطاط اس تلخ حقیقت کا عکاس ہے کہ اُمتِ مسلمہ بحیثیتِ مجموعی اُن نفوس ِ قدسیہ کی سیرت و کردار سے عملی طور پر تہی دامن ہوچکی ہے جنہیں حضورِ رسالتِ مآب (ﷺ) نے ’’نجومِ ہدایت‘‘ فرمایا تھا جن میں سیدنا صدیقِ اکبر (رضی اللہ عنہ) کا اسمِ گرامی سرِ فہرست ہے-آج دلِ مسلم سے محبت و عشقِ رسول (ﷺ)، ملّی و قومی خدمت کیلئے جذبۂ ایثار، خدمتِ دین میں اخلاصِ نیت،حمیّتِ دین اور صدقِ ایمان و ایقان جیسے اوصافِ صدیقی رخصت ہو چکے ہیں- انہی اوصاف سے محرومی نے اُمت کو نڈر و بےباک قیادت کے فقدان، داخلی انتشار و فرقہ واریت، علمی و فکری پستی، ضعفِ ایمانی اور روحانی جمود اور باطنی سکوت جیسے سنگین مسائل سے دوچار کر دیا ہے - ایسے میں لازم ہے کہ اہلِ ایمان ذاتی مفاد پر ملّی مفاد کو ترجیح دیں، بحیثیتِ مسلمان اپنے ایمان و عقیدہ اور روحانی تشخص پر کسی صورت سمجھوتہ نہ کریں ،سربلندیِ دین کے لیے خلوص و وفاداری کے ساتھ ہر طرح کی ایثار و قربانی کے لیے ہمہ وقت تیار رہیں، حق و صداقت سے غیر متزلزل وابستگی (Subscription to truth) اختیار کرتے ہوئے الحادی اور باطل قوتوں کا مقابلہ کریں تاکہ معاشرہ ازسرِنو اوصافِ صدیقی کا آئینہ دار بن جائے-
٭٭٭
[1]( سیرت ابنِ ہشام/تاریخ ابنِ عساکر)
[2](سیرت خلیفۃ الرسول سیدنا حضرت ابوبکر صدیق ؓ ، طالب ہاشمی، حسنات اکیڈمی لاہور، ص: 46)
[3]( سنن الترمذی،رقم الحدیث:3661)
[4](حضرت ابوبکر صدیق ؓ ، محمد حسین ہیکل،مترجم، شیخ محمد احمد پانی پتی ،ص:14)
[5]’’پیارے محبوب(ﷺ) آپ فرمادیں کہ اے لوگو! اگر تم اللہ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو میری اتباع کرو اللہ تم سے محبت کرے گا‘‘-(آلِ عمران:31)
[6]’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتاجب تک میں اس کے نزدیک اس کے والد اور اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں‘‘- (صحيح بخاری، کتاب الایمان)
[7](ثانی اثنین ،عبدلحلیم شرر، ناشر: مکتبہ اہل سنۃ وجماعۃ ،کراچی ،1984ء،ص:36)
[8](الصدیقؓ، پروفیسر علی محسن صدیقی ،ناشر : قرطاس کراچی ،جنوری 2002ء،ص: 365 )
[10])مضمون: حضرت ابو بکر صدیق () کا خطبۂ خلافت(1) ،مفتی منیب الرحمن(
[11])سیدنا ابوبکر صدیق، ڈاکٹر علی محمد الصلابی:مترجم:مولانا محمد اجمل بھٹی ، ص:137(
[13](ثانی اثنین ،عبدلحلیم شرر، ناشر: مکتبہ اہل سنۃ وجماعۃ کراچی، 1984ء، ص:51-52)
[14](فضائل سیدنا صدیق اکبر ، مولانا محمد جمیل احمد شرقپوری ، ص:28)
[15](حضرت ابوبکر صدیق ؓ ، محمد حسین ہیکل،مترجم، شیخ محمد احمد پانی پتی، ص:40 )
[16](تاریخ دمشق، جلد: 30، صفحہ: 68)
[17](اللیل:17-21)
[18](سنن الترمذی، رقم الحدیث: 3675)