محافظت عقیدہ ختم نبوت میں سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) کا کردار

محافظت عقیدہ ختم نبوت میں سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) کا کردار

محافظت عقیدہ ختم نبوت میں سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) کا کردار

مصنف: سیدعزیزاللہ شاہ ایڈووکیٹ دسمبر 2025

حضور نبی کریم (ﷺ) کی نبوت و رسالت پر ایمان لانے کے ساتھ آپ (ﷺ) کے آخری نبی اور رَسُول ہونے پر بھی ایمان لانا ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم (ﷺ) کو ’’خاتم النبیین‘‘ جیسی ایسی امتیازی شان اور وصف عطا فرمایا ہے جو سیدنا حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر سیدنا حضرت عیسٰی (علیہ السلام) تک کسی نبی و رسول کو اِس عظیم وصف سے سرفراز نہیں فرمایا گیا- یہی وجہ تھی کہ پورے سلسلہ ٔنبوت و رسالت میں سے کسی نے بھی نہیں فرمایا کہ مَیں آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا- کیونکہ نبی آخرالزمان (ﷺ) کے بارے میں جمیع انبیاء و المرسلین (علیھم السلام) کو خصوصی احکامات یوم میثاق کے دن ہی سونپ دئیے گئے تھے، تو پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جملہ انبیاء (علیھم السلام) کو تو بمع اُن کی اُمتوں کے حضور نبی کریم (ﷺ) کی نبوت و رسالت پر ایمان لانے میں پابند کیا جائے اور کوئی آپ (ﷺ) کا اُمتی ہو کرآپ(ﷺ) کی ختم نبوت و رسالت کا انکار کر کے مسلمان رہ سکے-عقیدہ ختم نبوت کی ناگزیریت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مسلمان ہونے اور مسلمان ہو جانے کے بعد ہمیشہ مسلمان رہنے کیلئے حضور نبی کریم، رحمۃ اللعالمین (ﷺ) کی ختم نبوت پر ایمان لانا ضروری ہے - ورنہ آدمی نہ مسلمان ہو سکتا ہے، نہ رہ سکتا ہے –

یہ بات ہر وقت ذہن نشین رہنی چاہئے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) کی ختم نبوت کے اثبات پر ہی ہمارے ایمان و اعتقادات کی عمارت قائم ہے - اگر اس عقیدے میں تھوڑی سی بھی دراڑ پیدا ہوگئی تو یہ پوری عمارت دھڑام سے گر جائے گی- کیونکہ عقیدہ ختم نبوت ہمارے ایمان کی اساس اور بنیاد ہے-

عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت اور حساسیت کو سمجھنے کے لئے حضور نبی کریم (ﷺ)کے تربیت یافتہ نفوس قدسیہ میں سے یار غار اور یار مزار پیکر صدق و وفا سیدنا حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کی عقیدہ ختم نبوت کی محافظت پر پہرہ داری کو دیکھا جا سکتا ہے-سیّدنا حضرت صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) عقیدہ ٔختم نبوت کے سب سے پہلے محافظ ہیں اور جس قدر آپ (رضی اللہ عنہ) نے عقیدۂ ختم نبوت کی بنیادوں کو مضبوط کرنے اور اس باغیچے کو جس بصیرت و تدبر ، عزم و استقلال اورجانثاران ِ رسول کے مقدس خون سے سیراب کیا ، اس کی مثال تاریخ پیش کرنے سے ہمیشہ قاصر رہے گی -

حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کا منفرد اعزاز:

یہ شرف اور فضیلت بھی سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ)کو ہی حاصل ہے کہ آپ (رضی اللہ عنہ) کےصحابی ہونے کی دلیل خود قرآن کریم نے بیان فرمائی ہے-

اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ ہُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللہَ مَعَنَا‘[1]

” جب کافروں نے ان کو بےوطن کردیا تھا-در آں حالیکہ وہ دو میں سے دوسرے تھے، جب وہ دونوں غار میں تھے جب وہ اپنے صاحب سے فرما رہے تھے، غم نہ کرو، بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘-

امام فخر الدين رازی (المتوفى: 606ھ) ، ’’التفسير الكبير‘‘ میں اسی آیت کریمہ کی وضاحت میں لکھتے ہیں :

’’اللہ تعالیٰ نے (اس آیت میں) حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کو رسول اللہ (ﷺ) کا صاحب (ساتھی) قرار دیا ہے اور یہ آیت آپؓ کے کمال فضل پر دلالت کرتی ہے-حسین بن فضیل البجلی نے فرمایا کہ جس نے حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کی صحابیت کا انکار کیا ، تو وہ کفر کا مرتکب ہو جائے گا ، کیونکہ اس پر امت کا اجماع ہے کہ ’’اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہ‘‘ سے مراد حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ)ہیں اور یہ آیت اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؓ کے صحابی ہونے کے وصف کو بیان فرمایا‘‘-[2]

اسی موقف کو بالفاظ دیگر متعدد مفسرین نے بیان فرمایا ہے ، مثلاً: علامہ ابو البركات النسفی (المتوفى: 710ھ) ’’تفسیر مدارک‘‘، امام بدر الدين عينى (المتوفى:855ھ) ’’عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری‘‘ میں و غیرھم -

حضرت صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) کی عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ پر پہرہ داری:

رسول اللہ (ﷺ) کے وصال مبارک کی خبر نے بڑے بڑے جگر بند صحابہ کرام  (رضی اللہ عنھم) کے قدم لرزا کے رکھ دیئے - ایمان کی حرارت سے روشن دل، غمِ جاناں کے تصوّر سے ہی ٹوٹ کر رہ گئے- تاریخِ اسلام میں شاید ہی کوئی وقت ایسا آیا ہو جو اتنا پُر آشوب ہو- حالات کا بہاؤ یکایک کئی سمتوں سے امت کو گھیرنے لگا، نفاق نے سراُٹھایا، یہودیوں اور نصرانیوں کی دیرینہ امیدیں بر آئیں ، ہر طرف سے مسلمانوں کے دشمنوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا، عرب قبائل کی بغاوت اور ارتداد کے فتنے سرچڑھ کر بولنے لگے، وہ تمام خاموش فتنہ انگیزیاں جنہیں نبوی جلال اور صحابہ کی موجودگی نے دبا رکھا تھا، اس موقع کو کمزوری سمجھ کر یکایک سر اٹھانے لگیں- ایسے میں سیدنا ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ)، جو امت کے خلیفہ مقرر ہوئے، نہایت استقامت، عزم اور غیر متزلزل یقین کے ساتھ اس پوری فتنہ انگیزی کا مقابلہ کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے-

تاریخِ عالم میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ ایک قوم اپنے نبی کے وصال جیسے بہت بڑے سانحے کے فوراً بعد سیاسی، قبائلی، فکری اور عسکری طوفانوں سے دوچار ہو اور پھر بھی راہِ حق سے نہ ہٹے- یہ صرف اس قائدِ کامل کی قیادت کا نتیجہ تھا جسے امت حضرت ابو بکر صدّیق (رضی اللہ عنہ) کے نام سے جانتی ہے- رسول اللہ (ﷺ) کے وصال مبارک کے ساتھ ہی تین بڑے چیلنجز سامنے آئے:

پہلا: داخلی صدمہ اور اضطراب

مدینہ منورہ کی گلیاں اور فضائیں، غم کے سمندر میں ڈوبی ہوئی تھیں- ایک طرف حضرت عمر (رضی اللہ عنہ)  کا اضطراب تھا جو اعلان کر رہے تھے کہ :

’’اللہ کی قسم! رسول اللہ (ﷺ) فوت نہیں ہوئے ‘‘-

دوسری طرف امت کے لیے حوصلے اور اس اضطراب سے نکالنے کا وہ لمحہ تھا -

’’حضرت صدیق اکبر نے فرمایا : جو سیدنا محمد(ﷺ) کی عبادت کرتا تھا تو بے شک سیدنا محمد(ﷺ)وصال فرما گئے ہیں اور جو اللہ کی عبادت کرتا تھا تو اللہ تعالیٰ زندہ ہے اس کو موت نہیں آئے گی ،پھر آپ نے قرآن  کریم کی یہ آیت تلاوت کی :

’’وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ ج قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ ط اَفَائِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْ‘‘[3]

’’اورمحمدؐتو ایک رسول ہیں  ان سے پہلے اور رسول ہوچکے، تو کیا اگر وہ انتقال فرمائیں یا شہید ہوں تو تم اُلٹے پاؤں پھر جاؤ گے‘‘-[4]

حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں :

’’مجھے ایسے معلوم ہو رہا تھا جیسے یہ آیت میں نے آج ہی پڑھی ہے ‘‘-[5]

دوسرا :قبائلِ عرب کی بدعہدی اور ریاستی نظم سے بغاوت

اس نے فتنہ ارتداد کو جنم دیا اور لوگوں میں زکوٰۃ کی ادائیگی سے انکار کرنے کی جرأت پیدا کی ، یہ محض مالی سرکشی نہ تھی، بلکہ یہ حکومتِ اسلامیہ کے نظم کا مکمل انکار تھا- منکرین زکوۃ کے خلاف آپ کا سختی کے ساتھ نپٹنے کے اقدامات کرنا گویا کہ یہ اسلام کے مالی نظام اور ریاستی نظم کی حفاظت کا اعلان تھا-

تیسرا : جھوٹے مدعیانِ نبوت کا ظہور

اس فتنے کی آگ سب سے زیادہ بھڑکانے والے وہ لوگ تھے جو جھوٹی نبوت کے مدعی بن کر کھڑے ہوئے اور موجودہ صور حال کو دین کی کمزوری سمجھ کر مختلف علاقوں میں اپنی اپنی  جھوٹی نبوت کا اعلان کیا اور سادہ لوح قبائل کو گمراہ کرنا شروع کردیا -ان میں بڑے نام یہ ہیں : اسود عنسی ، مسیلمہ کذاب ، طلیحہ اسدی ، سجاح بنت الحارث ، یہ لوگ اپنے قبائل کو مذہبی، قومی اور لسانی جذبات کے نام پر اسلام سے توڑ نے میں ہر وقت سر گرم رہتے -

اسود عنسی اور مسیلمہ کذاب یہ دونوں آقا کریم (ﷺ)   کی حیات ظاہری میں ہی اپنی جھوٹی نبوت کا اعلان کر چکے تھے- یہ وہ مرحلہ تھا جس میں اگر امت کا قائد کمزور ثابت ہوتا تو اسلام صرف چند شہروں تک محدود ہو جاتا اور عرب دوبارہ جاہلیت کے اندھیروں میں لوٹ جاتا-لیکن سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) نے اپنی باطنی قوت، فراستِ ایمانی اور اسوۂ نبوی (ﷺ)  کی کامل اتباع کے ساتھ استقامت کا ایسا مینار ثابت ہوئے کہ جس سے فتنوں کے سمندر ٹکرا کر ٹوٹ گئے ، حضرت ابوبکرصدیق (رضی اللہ عنہ)نے نور فراست سے آغاز خلافت ہی میں ان تمام فتنوں کی قوت کا پورا اندازہ لگا لیا تھا ، مرتدین کے انسداد کیلئے حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے مختلف اسلامی لشکر ترتیب دیئے اور ایک ایک فتنہ کی سرکوبی کیلئے لشکر روانہ فرمائے  اور ہر ایک جھوٹے مدعی نبوت کے فتنے کا خاتمہ کیا ، جیسا کہ جھوٹے مدعی نبوت طلیحہ اسدی کے فتنے کا خاتمہ کیا گیا ، جھوٹی مدعیہ نبوت سجاح بنت الحارث کے فتنے کا خاتمہ کیا گیا - اسی طرح جنگ یمامہ میں جھوٹے مدعی نبوت مسیلمہ کذاب جو اپنی عددی قوت اور قبائلی رسوخ کی وجہ سے سب سے بڑا فتنہ بن چکا تھا، اس فتنے کی سرکوبی کیلئے حضرت خالد بن ولید (رضی اللہ عنہ) کی قیادت میں لشکر ترتیب دیا گیا پہلے حضرت عکرمہ کو بھیجا گیا،ان کے پیچھے حضرت شرجیل بن حسنہ کو روانہ کیا اور پھر حضرت خالدبن ولید (رضی اللہ عنہ) روانہ کئے گئے، جنگ یمامہ میں مسلمانوں کی تعداد13ہزار اور مسیلمہ کذاب بدبخت کی تعداد 40 ہزار تھی  اور 70 ہزار کی روایت بھی نظر سے گزری ہے-اسی جنگ میں خود مسیلمہ کذاب واصل جہنم ہوا اور 21 ہزار کے لگ بھگ مسیلمہ کذاب کے لوگ بھی مارے گئےاور1200مسلمانوں کی شہادتیں ہوئیں ، جن میں سے 70 حفاظ صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) تھے- اسلام کی ساری جنگوں کی شہادتیں ایک طرف اور ختم نبوت کے تحفظ کی یعنی جنگ یمامہ کے شہداء کی تعداد ایک طرف لیکن جنگ یمامہ کے شہداء پھر بھی کئی گنا زیادہ ہیں، اس سے عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے -

یہ تھا وہ پہرہ جو سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) نے عقیدہ ختم نبوت کی حفاظت کے لئے دیا، وصالِ نبوی (ﷺ) کے بعد فتنوں کا وہ سیلاب جس نے عرب کو چاروں طرف سے گھیر لیا تھا-صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) کی ایمانی قوت، روحانی بصیرت اور استقامت کے سامنے شکست کھا گیا- حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کی طرز خلافت، عقیدہ ختم نبوت پہ پہرہ داری اور فتنہ ارتداد کے خاتمہ کیلئے حکمت عملی سے یہ  سنہری رہنما اصول سامنے آتے ہیں :

  • قیادت جذبات سے نہیں، اصولوں سے چلتی ہے-
  • حق کیلئے فیصلہ وہی معتبر ہے جو قرآن وسنت کی بنیاد پر ہو-
  • فتنے جتنے بڑے ہوں، ایمانی و روحانی قوت سے بڑےنہیں ہو سکتے-
  • ایک قائد کا عزم پوری امت کی تقدیر بدل سکتا ہے-
  • امت میں بحیثیت مجموعی ایک مرکزیت کا قائم ہونا اور موجود ہونا ضروری ہے - 

٭٭٭


[1](التوبہ:40)

[2](تفسیر مفاتيح الغيب ، الجز: 16 ، ص: 49 ، الناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

[3](آلِ عمران:144)

[4](صحیح البخاری ، كِتَابُ المَنَاقِبِ ، الناشر: دار طوق النجاة)

[5](سنن ابن ماجہ ، كِتَابُ الْجَنَائِزِ ، الناشر: دار إحياء الكتب العربية)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر