صیانت وپاسبانی حدیث میں حضرت ابوبکر صدیق(رضی اللہ عنہ) کا کردار

صیانت وپاسبانی حدیث میں حضرت ابوبکر صدیق(رضی اللہ عنہ) کا کردار

صیانت وپاسبانی حدیث میں حضرت ابوبکر صدیق(رضی اللہ عنہ) کا کردار

مصنف: مفتی محمد امجد علی قادری دسمبر 2025

اسلامی تعلیمات کیلئے اولین ماخذ قرآن مجید اور حدیثِ رسول (ﷺ) ہے- قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے جبکہ حدیث و سنت قرآن کریم کی تفسیر و تشریح اور عملی تبیین ہے- اس لیے دین کی بقا و تحفظ میں حدیث کا کردار نہایت اہم ہے- حضور نبی کریم (ﷺ) کی وفات کے بعد سب سے پہلا مرحلہ یہ آیا کہ امت کو سنت کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے محفوظ اور مستند ماخذ فراہم کیا جائے-اس عظیم ذمہ داری میں سب سے اہم کردار سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) کا ہے- آپؓ کو رسول اللہ (ﷺ) کے ساتھ سب سے زیادہ قرب، صحبت اور اعتماد حاصل تھا- اس لیے آپؓ نے اپنی خلافت اور زندگی بھر میں حدیث و سنت کی صیانت کو نہ صرف نظریاتی بلکہ عملی بنیادوں پر قائم رکھا-

صیانتِ حدیث کا مفہوم:

’’المعجم الوسیط اور القاموس الجدید‘‘ میں مذکور ہے کہ :

’’صیانت لغوی اعتبار سے حفاظت، نگہبانی کو کہتے ہیں- حدیث کی صیانت سے مراد یہ ہے کہ سنتِ نبوی (ﷺ) کو تحریف، اضافہ، کمی اور غلط روایت سے بچایا جائے اور اصل شکل میں امت تک پہنچایا جائے‘‘-

عہدِ نبوی میں حضور نبی کریم (ﷺ) کی براہِ راست موجودگی میں حدیث کی حفاظت آسان تھی- لیکن آپ (ﷺ) کے وصال کے بعد یہ ذمہ داری صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) پر عائد ہوئی کہ وہ حدیث کی محفوظ روایت، عملی اتباع اور درست فہم کو یقینی بنائیں-

امام شمس الدین ذہبی ’’تذکرۃالحفاظ‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ :

’’حضرت ابو بکر صدیق(رضی اللہ عنہ)امت کے افضل ترین انسان، رسول اللہ (ﷺ) کے خلیفہ، آپ (ﷺ) کے غار کے ساتھی، سب سے بڑے اور شفیق دوست اور آپ (ﷺ) کے وزیرِ اکبر تھے- آپ (رضی اللہ عنہ) پہلے شخص ہیں جنہوں نے حدیث مبارکہ کو قبول کرنے میں احتیاط کاطریقہ ایجاد کیا‘‘-

سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) کی شخصیت اور سنت سے وابستگی:

سیدنا ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) حضور نبی کریم (ﷺ) کے سب سے قریبی ساتھی اور مخلص رفیق تھے- ہجرت سے لے کر غزوہ تبوک تک ہر موقع پر آپؓ رسول اللہ (ﷺ) کے ساتھ رہے- یہی قربت آپؓ کو حدیث و سنت کا سب سے بڑا محافظ بناتی ہے-آپ (رضی اللہ عنہ) کا فرمان ہے:

’’میں رسول اللہ (ﷺ) کا کوئی عمل نہیں چھوڑوں گا، کیونکہ ڈرتا ہوں کہ اگر آپ کی سنت کو ترک کروں تو گمراہ نہ ہو جاؤں‘‘-[1]

یہ قول واضح کرتا ہے کہ صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) کے نزدیک صیانتِ حدیث کا سب سے اعلیٰ طریقہ اتباعِ سنت ہے-

روایتِ حدیث میں احتیاط:

اگرچہ صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) رسول اللہ (ﷺ) کے نہایت قریبی اور براہِ راست شاگرد تھے، لیکن آپ (رضی اللہ عنہ) نے حدیث روایت کرنے میں نہایت احتیاط برتی- محدثین کے مطابق آپؓ سے صرف 142 احادیث روایت ہوئی ہیں-جیسا کہ علامہ ابو زكريا محی الدين بن شرف النووى ’’ تہذيب الأسماء واللغات ‘‘ بیان کرتےہیں:

’’سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) نے رسول اللہ (ﷺ) سے 142 احادیث روایت کیں- بخاری و مسلم کی متفق علیہ 6 احادیث ہیں -امام بخاری ؒ11 احادیث میں منفرد ہیں اور امام مسلم ایک روایت میں منفرد ہیں- حضور نبی کریم (ﷺ) کی قدیم صحبت اور ملازمت کے باوجود آپ (رضی اللہ عنہ)سے روایت کم ہونے کی وجہ تابعین کے سماع، حصولِ حدیث اور حفظِ حدیث کی طرف توجہ کرنے اور احادیث کی تشہیر کے زمانے سےقبل وفات ہے‘‘-

یہ قلتِ روایت دراصل احتیاط کی بنا پر تھی تاکہ کوئی بات رسول اللہ (ﷺ) کی طرف غلط منسوب نہ ہو- آپ (رضی اللہ عنہ) کی یہ احتیاط بعد میں محدثین کے اصولِ روایت کی بنیاد بنی-

جیسا کہ روایت میں بیان کیاگیا قبیصہ بن ذؤیب (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ:

’’ایک مرتبہ حضرت صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) کے پاس ایک دادی آئی اور وراثت میں اپنے حصے کے متعلق سوال کیا تو آپؓ نے ارشاد فرمایا کہ میں تیری وراثت کے بارے کتاب اللہ اور سنت رسول سے کوئی شے نہیں جانتا تو آپ نے پھرصحابہ کرام(رضی اللہ عنھم) سے پوچھا کہ آپ میں سے کسی نے آقا کریم (ﷺ) کو دادی کی وراثت کے متعلق کچھ فرماتے ہوئے سنا ہے؟ تو حضرت مغیرہ بن شعبہ (رضی اللہ عنہ) کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ میں اس فیصلے میں موجود تھا، جب حضور نبی کریم (ﷺ) نے اس کے لیے چھٹے حصے کا فیصلہ فرمایا تھا، حضرت صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) نے پوچھا کیا آپ کے ساتھ کسی اور نے بھی یہ فیصلہ سنا تھا، حضرت محمد بن مسلمہ (رضی اللہ عنہ) کھڑے ہو گئے اور کہا انہوں نے بھی اسی طرح سنا تھا-حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) نے حضرت مغیرہ کی تائید کی اور دادی کے لیے چھٹا حصہ مقرر کر دیا ‘‘-[2]

اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) نے حدیث مبارکہ لینے میں کس قدر احتیاط برتی کہ آپ نے ایک شخص کی گواہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ دوسرے شخص کی گواہی بھی طلب کی تاکہ اُمت پر حدیث مبارکہ کی اہمیت واضح ہو جائے-

سیدنا صدیق اکبر(رضی اللہ عنہ) جب بھی کوئی فیصلہ کرتے تو قرآن کریم کے بعدآقا کریم (ﷺ) کی حدیث مبارکہ سے فیصلہ کرتے- اگر حدیث مبارکہ کا علم نہ ہوتا تو ایسے اشخاص کو تلاش کرتے جو حدیث مبارکہ کے بارے میں علم رکھتےتھے-جیسا کہ روایت کیا گیامیمون بن مہران بیان کرتے ہیں کہ:

’’حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کی بارگاہ میں جب کوئی شخص مسئلہ لے کر آتا تو وہ اللہ کی کتاب سے رہنمائی لیتے-اگر وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں سے کوئی ایسا حکم پا لیتے جس کی وجہ سے لوگوں کے درمیان فیصلہ کرسکتے تو اس کے مطابق فیصلہ کردیتے- اگر اللہ کی کتاب میں وہ بات نہ پا سکتے اور اس معاملے میں اللہ کے رسول کی سنت کا علم ہوتا تو وہ اس کے مطابق فیصلہ کردیتے- اگر یہ بھی نہ ہوتا تو پھر وہ مسلمانوں سے اس بارے میں دریافت کرتے اور ارشاد فرماتے میرے پاس فلاں فلاں شخص کو لے آؤ اور ارشاد فرماتے کیا تمہیں علم ہے کہ اللہ کے رسول (ﷺ)نے اس بارے میں کوئی فیصلہ دیا ہو-بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ آپ کے پاس جو لوگ جمع ہوتے تو وہ اس بات کا ذکر کرتے کہ اس بارے میں حضور نبی اکرم (ﷺ) کا کیا فیصلہ ہے تو حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہر طرح کی حمد اس اللہ کے لیے مخصوص ہے جس نے ہمارے درمیان ایسے حضرات رکھے ہیں جو ہمارے حضور(ﷺ)کے فرامین کا علم رکھتے ہیں ‘‘-[3]

حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) نے لوگوں کے سامنے ایک اعلان کیا تم لوگ رسول اللہ (ﷺ) سے احادیث مبارکہ بیان کرتے ہو اور تمہارے درمیان اس میں اختلاف بھی ہوتا ہے- لوگ تمہارے ان اختلافات کی بنیاد پر جھگڑنے لگیں گے- پس تم رسول اللہ (ﷺ) سے جو کچھ بیان کرو، اگر وہ قرآن کریم کے موافق ہو تو اسے قبول کرو، ورنہ چھوڑ دو-

جیساکہ امام ذہبیؒ ’’ تذكرة الحفاظ ‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’یہ خط اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) کی مراد روایت میں اثبات اور احتیاط ہے نہ کہ روایت کا دروازہ بندکرنا - کیا تونے دیکھا نہیں کہ جب آپ (رضی اللہ عنہ)کو دادی کی میراث کامسئلہ پیش آیا توآپ (رضی اللہ عنہ) نے اسے کتاب اللہ میں نہ پایا توآپ (رضی اللہ عنہ) نے اس کےبارے کیسے سنت میں سے سوال کیا؟ پس جب ثقہ (راوی) نے خبر دی تو آپ (رضی اللہ عنہ) نے اسی پر اکتفاء نہ کیا بلکہ ایک اور ثقہ سے اس کے اظہار کا مطالبہ کیا اور خوارج کی طرح ’’حسبنا كتاب الله‘‘ نہ کہا‘‘ -

آپ (رضی اللہ عنہ)کا سنت کے نفاذ میں کردار:

رسول اللہ (ﷺ) کے وصال کے بعد جب بعض قبائل نے زکوٰۃ ادا کرنے سے انکار کیا -تو اس موقع پر سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا :

’’اللہ کی قسم میں جنگ کروں گا اس شخص سے جس نے نماز اور زکوٰۃ میں تفریق کی- اس لیے کہ زکوۃ مال کا حق ہے، اللہ کی قسم! اگر ان لوگوں نے ایک رسی بھی روکی جو وہ رسول اللہ (ﷺ) کے زمانے میں دیا کرتے تھے، تو میں اس کے نہ دینے والوں سے جنگ کروں گا‘‘-[4]

اس حدیث مبارکہ سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سیدنا صدیق اکبر(رضی اللہ عنہ) آقا کریم (ﷺ)کی حدیث مبارکہ پرکس قدر سختی سے عمل کرواتے تھے-

حضرت ابن عمرو (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ:

’’ابوروح ’’جس کا اصل نام زنباع تھا‘‘ نے اپنے غلام کو ایک باندی کے ساتھ پایا- اس نے اس غلام کی ناک کاٹ دی اور اسے خصی کردیا تو وہ آقا کریم (ﷺ) کے پاس آیا- آقا کریم (ﷺ) نے اس سے پوچھا تیرے ساتھ یہ سلوک کس نے کیا ؟ اس نے زنباع کا نام لیا- آقا کریم (ﷺ) نے اسے بلوایا اور اس سے پوچھا کہ تم نے یہ حرکت کیوں کی؟ اس نے سارا واقعہ ذکر کردیا-آقا کریم (ﷺ) نے غلام سے فرمایا جا تو آزاد ہے- وہ کہنے لگا یا رسول اللہ (ﷺ)!مجھے آزاد کرنے والا کون ہے ؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا تو اللہ اور اس کے رسول کا آزاد کردہ ہے اور آپ (ﷺ) نے مسلمانوں کو بھی اس کی وصیت کر دی-جب آقا کریم (ﷺ) کا وصال ہوگیا تو وہ سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) کی خدمت میں حاضر ہوا اور  آقا  کریم (ﷺ) کی وصیت کا ذکر کیا-آپ  (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: ہاں! مجھے یاد ہے ہم تیرا اور تیرے اہل و عیال کا نفقہ جاری کردیتے ہیں چنانچہ سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) نے اس کا نفقہ جاری کردیا ‘‘-[5]

سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) نے حضور نبی کریم (ﷺ) کے فیصلوں کا نفاذ اسی طرح کیا جس طرح آقا کریم (ﷺ) نے اپنی ظاہری حیات طیبہ میں فرمایا تھا –جیسا کہ حضرت ابن عمر (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے  کہ:

’’رسول اللہ (ﷺ) نے زکوٰۃ کی تفصیل سے متعلق ایک تحریر لکھوائی تھی لیکن اپنے گورنروں کو بھجوانے سے قبل آقا  کریم (ﷺ) کا وصال ہوگیا-آپ (ﷺ)  نے یہ تحریر اپنی تلوار کے ساتھ (میان میں) رکھ چھوڑی تھی-آقا کریم (ﷺ) کے وصال کے بعد سیدنا صدیق اکبر  (رضی اللہ عنہ) اس پر عمل کرتے رہے- یہاں تک کہ ان کا وصال ہوگیا ‘‘-[6]

حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے  کہ:

’’ابو ودیعہ جن کا نام کذام تھا نے اپنی بیٹی کا نکاح ایک شخص سے کردیا، ان کی بیٹی آقا کریم (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور شکایت کی کہ اس کا نکاح فلاں شخص سے زبردستی کیا جارہا ہے- آقا کریم (ﷺ) نے اسے اس کے شوہر سے الگ کردیا اور فرمایا کہ عورت کو مجبور نہ کیا کرو، پھر اس کے بعد اس لڑکی نے حضرت ابو لبابہ انصاری (رضی اللہ عنہ) سے شادی کرلی، یادر ہے کہ وہ شوہر دیدہ تھی ‘‘-

’’مسند احمد‘‘  میں حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ) سے اسی روایت میں دوسری سند کے ساتھ یہ اضافہ بھی مروی ہے کہ:

’’کچھ عرصے بعد وہ خاتون دوبارہ آقا کریم (ﷺ) کے پاس آئی اور بتایا کہ اس کے نئے شوہر نے اسے چھولیا ہے-(لہٰذا وہ اب اپنے پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کرنا چاہتی ہے) آپ (ﷺ) نے اسے پہلے شوہر کے پاس جانے سے روک دیا (کیونکہ دوسرے شوہر کا ہمبستری کرنا شرط ہے، چھونا نہیں) اور فرمایا اے اللہ! اگراس کی قسم اسے رفاعہ کے لیے حلال کرتی ہے تو اس کا نکاح دوسری مرتبہ مکمل نہ ہو-پھر وہ  سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) اور  سیدنا فاروق اعظم (رضی اللہ عنہ)کے پاس ان دونوں کے دور خلافت میں بھی پہلے شوہر کے پاس واپس جانے کی اجازت حاصل کر نے کے لئے آئی لیکن ان دونوں نے بھی اسے روک دیا‘‘-

سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کو سنت نبوی (ﷺ) پر کار بند رہنے کی تلقین ونصیحت کرتے- جیسا کہ حضرت انس بن مالک (رضی اللہ عنہ)سے مروی ہے کہ :

’’سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) نے ان کی طرف ایک خط لکھا جس میں یہ تحریر فرمایا کہ یہ زکوٰۃ کے مقررہ اصول ہیں جو خود آقا کریم (ﷺ) نے مسلمانوں کیلئے مقرر فرمائے ہیں، یہ وہی اصول ہیں جن کا حکم اللہ نے اپنے پیغمبر کو دیا تھا، ان اصولوں کے مطابق جب مسلمانوں سے زکوٰۃ وصول کی جائے تو انہیں زکوٰۃ ادا کردینی چاہیے اور جس سے اس سے زیادہ کا مطالبہ کیا جائے وہ زیادہ نہ دے‘‘- [7]

سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) نے اپنی خلافت کے مختصر دور (2سال 3 ماہ) میں امت کو رسول اللہ (ﷺ) کی سنت پر قائم رکھنے کی بھرپور کوشش کی- آپؓ کے فیصلے قرآن و سنت پر مبنی ہوتے، آپؓ نے قرآن کریم و حدیث مبارکہ میں امتیاز برقرار رکھا تا کہ امت کیلئے دونوں مآخذ واضح رہیں- سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) کا کردار صیانت و پاسبانیءِ حدیث میں انتہائی نمایاں ہے- آپؓ نے اپنی زندگی کو اتباع سنت کا عملی نمونہ بنایا-روایتِ حدیث میں بہت زیادہ احتیاط برتی تا کہ کوئی تحریف نہ ہو جائے-اپنے فیصلوں میں ہمیشہ سنت نبوی (ﷺ) کو معیار بنایا-حدیث مبارکہ کی توثیق کے اصول کو اپنایا جو بعد میں اصول محدثین کی بنیاد بنا -یوں کہا جا سکتا ہے کہ حدیث مبارکہ کی حفاظت اور سنت کے نفاذ میں سب سے پہلا اور عظیم کردار سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ)  کا ہی ہے- سنت نبوی  (ﷺ) کے نفاذ پر ہی آپؓ کا وصال ہوا-

جیسا کہ روایت میں ہے حضرت عبد خیر (رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں کہ  میں نے حضرت مولا علی (رضی اللہ عنہ) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ:

’’آقا کریم (ﷺ) نے اس بہترین حالت میں وصال فرمایا  جس بہترین حالت پر انبیاء کرام (علھیم السلام) وصال فرماتے ہیں- پھر حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے آپ (ﷺ) کی تعریف بیان  فرمائی -(پھر) حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: اس کے بعد حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کو خلیفہ بنایا گیا- پس انہوں نے رسول اللہ (ﷺ) کے عمل اور آپ (ﷺ) کی سنت کے مطابق کام کیا- پھر حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ)کا وصال بھی اس بہترین حالت میں ہوا جس پر کوئی خاص آدمی کا وصال ہوتا ہے-حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) اس امت میں  حضور نبی کریم  (ﷺ) کے بعد سب سے بہترین شخص تھے ‘‘-[8]

آج کے اس پرفتن دور  میں جہاں ہمیں مختلف قسم کے چیلنجز کا سامنا ہے جس میں خاص طور پر فتنہ انکارِ حدیث ہے اور موضوع و من گھڑت احادیث کو بیان کرنے کا دور دورہ ہے-اس صورتحال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بھی سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) کی سیرت مبارکہ پر عمل کرتے ہوئے حدیث نبوی (ﷺ) کو بیان کرنے میں احتیاط کا دامن تھامیں اور کوئی بھی سنی جانے والی روایت کو بغیر تصدیق کے بیان نہ کریں -

سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) کی سیرت طیبہ پر عمل کرتے ہوئے ادب و احترام کے ساتھ احادیث مبارکہ کو پڑھتے ہوئے اس پر عمل کیا جائے اور اپنی نوجوان نسل جو صبح شام فضول کاموں میں مصروف ہے اس کو قرآن کریم اور سنت نبویہ (ﷺ) کی تعلیمات سے روشناس کرایا جائے تا کہ ہمارے معاشرے میں امن اور محبت کی ایک واضح تصویر نظر آئے اور ہماری آنے والی نسلوں کے اندر بھی قرآن و سنت کو حاصل کرنے کا ذوق نظر آتا رہے-

٭٭٭


[1]’’صحيح مسلم، باب: قَوْلِ النَّبِىِّ (ﷺ) لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا فَهُوَ صَدَقَةٌ‘‘

[2](مسند أحمد، رقم الحدیث:18465)

[3](سنن الدارمى :باب الْفُتْيَا وَمَا فِيهِ مِنَ الشِّدَّةِ)

[4](صحیح بخاری، کتاب الزکوٰۃ)

[5](مجمع الزوائد، رقم الحدیث: 10730)

[6](مسند أحمد)

[7](مسند أحمد بن حنبل، باب:مسند ابوبکر صدیق(ؓ)

[8](مصنف ابن ابی شیبہ، باب: ما جاء في خلافة أبي بكر وسيرته في الردة)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر