قدرت نے انسان کومختلف جذبات و احساسات سے مزین فرمایا ہے- ان جذباتی کیفیات میں سے حِلم اور حزم بھی ایک ہیں-حلم سے مراد جذباتی ردعمل کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت، غصے اور اشتعال کے بجائے تحمل کا مظاہرہ کرناہے- حلم کا لغوی معنی بردباری، تحمل، برداشت اور غصے پر قابو پانا ہے- یہ وہ رویہ ہے جس میں انسان اپنے دشمنوں یا غلطی کرنے والوں کے ساتھ نرمی، برداشت اور معافی کا سلوک کرتا ہے -[1]اگر نفسیات کی زبان میں بات کی جائے تو انسان کے جذباتی ضابطہ کو حلم کہا جاتا ہے- با الفاظِ دیگرحلم انسان کاوہ نفسیاتی وصف ہے جس میں انسان خواہشات، مشکلات اور دباؤ کا مقابلہ کرتا ہے، وقتی ناخوشی یا توہین کو برداشت کرتا ہے تاکہ طویل المدتی (اخلاقی) مفاد حاصل کیا جا سکے، تنازع میں پر امن رویّہ اختیار کرتا ہے اور اپنی جذبات، رویّے اور افعال کو ضابطے میں رکھتا ہے - [2]اس کے معنی کو مزید کھولا جائے تو حلیم سےمراد وہ شخصیت ہوتی ہے جس میں جلد بازی نہ ہو، جو تحمل اور عزم کے ساتھ کسی بھی عمل کے مقابلے میں فوری رد عمل کا اظہار نہ کرے، وہ شخصیت جو جلد بازی سے کام خراب نہ کردے، وہ جسے اپنے اعصاب پر پورا قابو ہو، وہ جو اپنے آپ کو اچانک رد عمل سے روک کر رکھے اور ٹھنڈے دماغ سے فیصلہ کرے، وہ جو جذبات سے مغلوب نہ ہو- حلم اللہ پاک کی صفت ہے اور اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے -ایک حدیث مبارکہ میں ہے کہ اللہ کے نزدیک سب سے افضل صفت حلم ہے-رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایاکہ جو کوئی غصے کو پیتا ہے اس کا بدلہ اللہ تعالیٰ جنت سے دے گا-اسی طرح ام المومنین حضرت عائشہ(رضی اللہ عنہا) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ نرمی کرنے والے(اہلِ حلم) کو پسند کرتا ہے‘‘-حضور نبی اکرم (ﷺ) نے حلم کو بہترین اخلاق فرمایا ہے-
جہاں حلم انسان کی شخصیت کو نکھارتا ہے وہیں ایک اور وصف بھی انسان کے کردار کو سنوارتا ہے جسے حَزم کہا جاتا ہے- کسی کام کو انتہائی باریک بینی،احتیاط اور دور اندیشی کے ساتھ سر انجام دینا حزم کہلاتا ہے-حزم کا عنصر شخصیت کی فیصلہ سازی کی مہارت (Decision-Making Skills) کی صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے، جس کی بدولت انسان جلد بازی کی بجائے سوچ سمجھ کر اور احتیاط سے فیصلے لیتا ہے-[3]اس میں ایک نفسیاتی پہلو یہ ہے کہ حزم کی وجہ سے انسان اپنے اعمال کے مستقبل کے نتائج(pros and cons) کو مد نظر رکھتا ہے اور فوری حاصل ہونے والے فوائد کی بجائے طویل المدتی نتائج یا دیرپا سوچ (Long-term Thinking)کو ترجیح دیتا ہے-
حِلم و حَزم شعوری طور پر سرانجام پانے والے عوامل ہیں،جب حالات و واقعات موافق ہوں تو یہ عوامل ترقی کی منازل طے کرنے میں معاونت کرتے ہیں اور جب مخالف ہوں تو حالات سے ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی استعداد پیدا کرتے ہیں-عام طور دیکھا جاتا ہے کہ جب کہیں اپنے رشتوں کی بات ہوتی ہے تو ذاتی مفاد کو ترجیح دی جاتی ہے مگر تاریخِ اسلام کے پنوں میں سنہرے حروف سے رقم ہے کہ یارِ غارِثور حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ) نے نہ صرف شعوری طور پر تحمل کا مظاہرہ کیا ،برداشت اور صبر کے عملی پیکر رہے، دور اندیشی سے فیصلے کئے، وہیں حضور(ﷺ) سے والہانہ لگاؤ، محبت اور وارفتگی کا عالم یہ تھاکہ ذاتی فائدے کی بات کا انتخاب نہیں کیا بلکہ وہ فیصلہ کیا جس سے عقل کی دلیلِ سُوء رد ہو گئی اور عشق کا پلڑابھاری رہا-حلم اور حزم کا یہ امتزاج آپؓ کی شخصیت کو نہ صرف متوازن اور مستحکم بلکہ عشق کے منتہائے کمال کو پہنچاتا ہے جو جذباتی طور پر مستحکم ہونے کے ساتھ ساتھ عقلی طور پر بھی مضبوط نظر آتا ہے-
صدیقِ اکبر (رضی اللہ عنہ) کی ذاتِ با برکات میں یہ اوصافِ حمیدہ اس قدر عیاں تھے کہ آپؓ نے نہ صرف سب سے پہلے واقعہ معراج کی تصدیق فرمائی بلکہ اس سے آگے کی خبریں جو ابھی وارد نہیں ہوئیں ان پر بھی تصدیق کی مہر ثبت فرمائی-جن لوگوں نے حضور نبی کریم (ﷺ) کے سفر پر اعراض کیا آپؓ نے ان کی نفی فرمائی اور اپنے وصفِ حزم سے ان کی راہ نمائی فرمائی-معراج النبی (ﷺ) مادی واقعہ ہونے سے زیادہ استحکامِ خودی کا ایک بے مثال مظاہرہ ہے- اس عظیم سفر کی توانائی کسی سائنسی مشین یا ٹیکنالوجی کی احتیاج سے لایحتاج تھی-یہ رسول اکرم (ﷺ) کی سیرت و کردار و روحانی کمال کا نتیجہ تھی جسےقرآن کریم نے ’’قوتِ سلطان‘‘سے تعبیر کیا ہے- انسانی شعور اور اخلاقی قوت میں وہ غیر دریافت شدہ توانائی پنہاں ہے جو آئن سٹائن کے محدود کردہ زمان و مکان کے فولڈ (Space-Time Fold) سے کہیں زیادہ کی صلاحیت رکھتی ہے- یہ "نورٌ علیٰ نُور" جیسی رفتار ہے اور عام انسان کی نفسیات اسے طے کرنےسے قاصر ہے-اس کی تصدیق کرنے کے لئے دل کی صداقت لازم ہے جو محض ظاہری آنکھ اور تنگ وکم عقل کے ہونے سے ممکن نہیں-
اسی طرح مکہ مکرمہ سے ہجرت کا واقعہ بھی سیدنا صدیقِ اکبر (رضی اللہ عنہ) کے حلم و حزن کی کمال مثال ہے کہ آپؓ جانتے تھے کہ کفار ِ مکہ حضورنبی مکرم (ﷺ) کے متلاشی ہیں، راستہ کٹھن ہے، مشکلات حائل ہیں مگر آپؓ اپنے شانوں پر حضور (ﷺ) کو سوار کئے غارِ ثور کی جانب انجام کی پرواہ کئے بغیر رواں دواں رہے-جب آپؓ نے اپنے خوف کا اظہار فرمایا تو حضور (ﷺ) نے فرمایا کہ ہمارے ساتھ اللہ ہے- جس پر صدیقِ اکبر (رضی اللہ عنہ)کو وجودِ اطہر پرجو اثرات مرتب ہوئے انہیں چند سطروں کا سہارالینا ناکافی ہے-
|
عاشق ہے جو کہ جامۂ صدق و صفا میں ہے |
حلم اور حزم سماجی اور سیاسی رہنما کے طور پر کامیابی کی طرف بھی لے جاتاہے- حضورنبی کریم (ﷺ) کے وصال پر تمام صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) شدید غم سے نڈھال ہوگئے، یہاں تک کہ سیدنا عمر (رضی اللہ عنہ) جیسے بہادر صحابی تلوار کھینچ کر کہنے لگے کہ جو یہ کہے گا کہ رسول اللہ (ﷺ) وفات پا گئے ہیں، میں اسے قتل کر دوں گا- اس موقع پر سیدنا ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) نے غیر معمولی بصیرت کا مظاہرہ فرمایا، صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کو صبر کی تلقین فرمائی،جس سے صحابہ کرامؓ کے دلوں پر سکینہ اترا - ایسے دل خراش اور زندگی کے سب سے تکلیف دہ موقع پر حلیم طبع اور صابر ہونے کا مظاہرہ کرکے سیدنا ابوبکرصدیق (رضی اللہ عنہ) نے رہتی دنیا تک کے لوگوں کو سکھایا کہ کس طرح سےمشکل اوقات میں اپنے جذبات پر قابو پایا جاتا ہے-
آپ (رضی اللہ عنہ) نے ہمیشہ مظلوموں اور بے کسوں کی مدد کو مقدم رکھا اور اپنی دولت و وسائل کی پرواہ کیے بغیر غلاموں کو ظالم آقاؤں کے شکنجے سے آزاد کرایا- اس رویے سے نہ صرف لوگوں کے دل آپ کی طرف مائل ہوئے بلکہ اسلام کی ساکھ اور وقار میں بھی اضافہ ہوا-اسی طرح سیاسی اور انتظامی امور میں بھی حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کی حزم اور بصیرت نمایاں رہی- آپؓ نے خلافت سنبھالنے کے بعد مملکت اسلامیہ کے انتظامات کو حضور نبی اکرم (ﷺ) کے طرز پر قائم رکھا اور ہر اہم معاملے میں اصحاب رائے سے مشورہ کیا- اپنی رائے صرف وہیں استعمال فرمائی جہاں ذمہ داری خود آپؓ سے متعلق تھی اور ضرورت کے مطابق فیصلے کیے- اس طرح آپؓ نے نہ صرف اپنی ذمہ داری پوری عقلمندی اور بصیرت سے نبھائی بلکہ مشکل اور پیچیدہ حالات میں بھی مضبوط قیادت کا عملی نمونہ پیش کیا- آپؒ فرماتے تھےکہ جب کسی سے کوئی نیکی فوت ہو جائے تو اس کا تدارک کرے اور اگر کوئی بدی آگھیرے تو اس سے بچے- اسی طرح آپ دوسروں کی مدد اور بھائی چارے پر زور دیتے تھے- آپؓ فرماتے تھے کہ اللہ رب العزت رحم کرے اس مرد پر جس نے اپنی جان سے اپنے بھائی کی مدد کی-آپ کی حزم اور بصیرت گناہوں اور دنیاوی خواہشات سے بچنے میں بھی نظر آتی ہے- آپ فرماتے تھےکہ شہوت کے سبب بادشاہ غلام بن جاتے ہیں اور صبر سے غلام بادشاہ بن جاتے ہیں اور جس شخص نے گناہوں کو ترک کیا، اس کا دل نرم ہوگیا اور جس نے حرام کو ترک کیا، اس کا فکر و اندیشہ صاف ہوگیا-
مروی ہے کہ حضرت مسطح (رضی اللہ عنہ) جو حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کے خالہ زاد اور بدری صحابی تھے، کا خرچ سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) اُٹھاتے تھے مگر جب حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) پر منافقوں نے تہمت لگائی تو حضرت مسطح نے بھی تہمت لگانے والوں کا ساتھ دیا- جس پر صدیقِ اکبر (رضی اللہ عنہ) رنجیدہ ہوگئے اورقسم اٹھائی کہ آئندہ مسطح پر خرچ نہ کریں گے- لیکن جب سورہ نور کی آیت نمبر 22 کا نزول ہوا کہ دینی فضیلت اور مالی وسعت رکھنے والے حضرات کو یہ قسم نہیں کھانی چاہئےکہ وہ رشتے داروں، مسکینوں اور راہِ خدا کے مہاجروں پر خرچ نہیں کریں گے- ان لوگوں سے اگر کوئی غلطی ہوجائے تو انہیں معاف کردیں اور درگزر سے کام لیں-جب حضور نبی اکرم (ﷺ) نے یہ آیتِ مبارکہ پڑھی تو جناب صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) نے عرض کی کہ بے شک میری آرزو ہے کہ اللہ تعالیٰ میری مغفرت کرے اور میں مسطح کے ساتھ جو اچھا سلوک کرتا تھا اس کو کبھی ختم نہیں کروں گا-[4]واضح ہوتا ہے کہ عقل مند انسان کی نفسیات ابتدا میں احتیاط سے کام لینے کا مشورہ دیتی ہے اور جب حقائق واضح ہو جائیں توانسان صبر، عفو و درگزر کا مظاہرہ کرکے اپنی اعلیٰ ظرفی کا اظہار کرتا ہے-
اسی طرح منقول ہے کہ صدیق اکبرؓ اور فاروقِ اعظمؓ میں معمولی تکرار ہوئی- جب صدیقِ اکبرؓ نے معافی طلب فرمائی تو فاروق اعظم ؓ نے انکار فرمادیا- جناب ابو بکرؓ حضور رسالتِ مآب (ﷺ) کی بارگاہ میں گئے اور واقعہ بیان فرمایا جس پر حضور (ﷺ)نے تین مرتبہ فرمایا کہ”اللہ تمہیں معاف فرمائے“-[5] المختصر! یہ کہ سیدنا صدیق اکبرؓ کی شخصیت میں نرمی، عفو و درگزر ، حلم و حزر، بردباری و برداشت جیسے اوصاف اوجِ کمال کے تھے-جن سے آج ہم اپنے راستے کا تعین کرسکتے ہیں-
حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایاکہ :
’’میری امت میں سب سے زیادہ رحم دل ابوبکر ہے اور میری امت میں سے سب سے زیادہ نرم رو عمر بن خطاب ہے اور میری امت میں حیاء کے اعتبار سے سب سے سچے عثمان ہیں اور میری امت میں سے سب سے بڑے قاضی علی بن ابی طالب ہیں“-[6]
ہمیں بطور انسان اپنی نفسیات کو سمجھنے اوراس میں سے رزائل عادات اور مادیت سے بھری کیفیات و جذبات پر قابو پانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ہم بصارت سے بصیرت کی طرف سفر کرسکیں-( الحمدللہ) سیدنا صدیقِ اکبر (رضی اللہ عنہ) کی حیاتِ مبارکہ میں ہمارے لئے کئی اسباق موجود ہیں - اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے حبیب کریم (ﷺ) کے صدقے عمل کی توفیق دے-آمین!
٭٭٭
[1]Su, T., Guo, X., Liu, M., Xiao, R., & Xiao, Z. (2023). Better forbearance, lower depression: Evidence based on heart rate variability. Frontiers in Psychology, 13, 1019402. https://doi.org/10.3389/fpsyg.2022.1019402
[2]McCullough, M. E., Fincham, F. D., & Tsang, J.-A. (2003). Forgiveness, forbearance, and time: The temporal unfolding of transgression-related interpersonal motivations. Journal of Personality and Social Psychology, 84(3), 540–557. https://doi.org/10.1037/0022-3514.84.3.540
[3]Schellhaas, V. (2025, April 24). What is prudence? Complete guide & practical tips. Lifemap Psychology.
https://www.lifemaphq.com/articles/what-is-prudence-guide-tips
[4](صحیح بخاری، رقم الحدیث:4750)
[5](صحیح بخاری، کتاب المناقب)
[6](معجم الصغیر للطبرانی، رقم الحدیث:556)