دینِ اسلام : ذاتی معاملہ یا آفاقی نصب العین؟ (فکری خطاب،قسط7)

دینِ اسلام : ذاتی معاملہ یا آفاقی نصب العین؟ (فکری خطاب،قسط7)

دینِ اسلام : ذاتی معاملہ یا آفاقی نصب العین؟ (فکری خطاب،قسط7)

مصنف: صاحبزادہ سلطان احمد علی اپریل 2016

  ﴿۱۱﴾ ناپ تول میں کمی و بیشی کی مُمانعت    :-

اور گیارہواں حکم اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا    :

    ﴿وَاَوْفُوا الْکَیْلَ اِذَا کِلْتُمْ وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِط ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلًا﴾ ﴿سورۃ الاسرائ، آیت:۵۳﴾

’’ ناپ پورا رکھا کرو جب ﴿بھی﴾ تم ﴿کوئی چیز﴾ ناپو اور ﴿جب تولنے لگو تو﴾ سیدھے ترازو سے تولا کرو، یہ بہتر ہے اور انجام کے اعتبار سے ﴿بھی﴾ خوب تر ہے    -‘‘

اللہ تعالیٰ نے فر مایا کہ جب پیمانہ بھرو، جب ناپ تول کرنے لگو تو پورا پورا ناپ تول کرو، ناپ تول میں کمی نہ کرو اور اس کی تشریح میں متعدد مفسرین نے فرمایا کہ ناپ تول میں کمی کرنا یا چیزوں میں ملاوٹ کرنا یہ سخت ترین گنا ہ ہے یہ ایک ہی طرح کی دو چیزیں ہیں -اہلِ ٹوبہ ٹیک سنگھ مَیں ڈیمانڈ کرتا ہوں کہ مجھے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں کو ئی دکان بتا دیجئے جہاں پہ ملاوٹ کے بغیر دودھ ملتا ہو، جہاں ناپ تول میں کمی نہ کی جاتی ہو، اس سے بڑھ کے ہماری بد قسمتی اورکیا ہو سکتی ہے؟ پٹرول پمپوں کے پیمانے دیکھ لیں، اپنے گریبان میں جھانک کر اپنی کون کونسی غلطی ، اپنے کون کون سے جرم کا اعتراف کروں کہ بطور اجتماعی ،بطورِ معاشرہ مجھ میں، میرے اندر کیا کیا خرابیاں ہیں؟ مَیں معاشرہ ہوں اور کوئی مانتا ہے یا نہیں ہم سب معاشرہ ہیں ، ہم اپنے اندر جھانکیں، اپنے اندر دیکھیں کہ خدا نے جو یہ آفاقی احکامات مقرر کئے ہم ان پہ کس حد تک عمل پیرا ہیں - ملاوٹ بھی ناپ تول میں کمی کی ایک صورت ہے کہ جب آپ کسی چیز میں ملاوٹ کرتے ہیں تو گویا اس کی اصل مقدار کو کم کر کے فروخت کر رہے ہوتے ہیں- اس سے اگلی ڈگر ی جعل سازی کی ہے جو ملاوٹ کی ہی ترقی یافتہ شکل ہے کہ ایک چیز جو اصل میں ہے ہی نہیں اس کی جگہ کسی اور گھٹیا اور نقصان دہ چیز کو اس اصل کا نام دے کر فروخت کرنا یا استعمال میں لانا جعل سازی کہلاتا ہے    -

اگر ملاوٹ کی بات کی جائے تو آج کس کس چیز میں ملاوٹ نہیں ہے- ہماری اشیائے خورد و نوش میں ملاوٹ ہے- مثلا کھانے پینے کی اشیائ میں ملاوٹ، ادویات میں ملاوٹ، اشیائے ضرورت میں ملاوٹ، پیٹرول میں ملاوٹ حتی کہ گندے نالوں کے پانیوں سے جو سبزیاں اگائی جاتی ہیں یہ بھی ایک قسم کی ملاوٹ ہے- اب تو زرعی ادویات اور کھاد وغیرہ میں بھی ملاوٹ ہوتی ہے- دودھ ، ہلدی، مرچ وغیرہ خریدتے وقت وسوسے پیدا ہوتے ہیں- کچے پھلوں کو وقت سے پہلے مختلف کیمیکلز اور ادویات سے پکانا یہ بھی ایک قسم کی ملاوٹ ہے- مثلا کاربائیڈ کے ذریعے کچے کیلے کو پکانے کی وجہ سے یہ کئی بیماریوں کا سبب بن جاتا ہے    -

ایک سروے کے مطابق آج ہر دوسرا پاکستانی زہر خورانی ﴿Food Poisoning﴾ کا شکار ہے تو اس کا بنیادی سبب ہی ملاوٹ شدہ کھانے اور اشیائے خورد و نوش ہیں- ۱۱۰۲ئ میں ہونے والے نیشنل نیوٹریشنل سروے ﴿NNS﴾ کے مطابق پاکستان میں آدھی سے زیادہ آبادی غذائی عدمِ تحفظ کا شکار ہے - ہر سال سات کروڑ پاکستانی فوڈ پوائزننگ کی وجہ سے بیمار ہوتے ہیں- جب چائے کی پتی میں چھلکے پیس کر ملا دیئے جائیں، مرچوں میں چوکر ڈال دی جائے، ہلدی میں میدہ اور چاولوں کا آٹا شامل ہو، ٹماٹروں کی بجائے گندے آلوئوں ، کدو اور اَراروٹ کا کیچپ تیار ہو - گوشت کا وزن بڑھانے کے لیے جانور کی شہہ رگ میں پانی ڈالا جاتا ہو- اب تو مردہ جانوروں کا بلکہ شرعاً حرام جانوروں کا گوشت بیچا جاتا ہے - مردہ جانوروں کی چربی سے گھی تیار کیا جاتا ہو، برائلر مرغی کی خوراک میں سور کا گوشت شامل ہو تو یہ سب کھانے سے کوئی کیسے صحت مند رہ سکتا ہے ؟ - جو بھینسیں بوڑھی ہو کر دودھ دینا بند کر دیتی ہیں جسے کوئی ڈرتا ہاتھ نہیں لگاتا لیکن قصابوں کے ہاں وہ اچھی قیمت پر فروخت ہو جاتی ہیں- یورپی ممالک میں جس غذائی چیز کی تاریخ گزر جاتی ہے اسے سکریپ کرکے پاکستان منگوا لیا جاتا ہے اور تاریخ اور لیبل تبدیل کرکے مارکیٹ میں کھلے عام بیچ دیا جاتا ہے-

یہ جرائم کوئی معمولی جرائم نہیں ہیں بلکہ انسانیت کے خاموش قاتل ہیں جو رفتہ رفتہ انسانیت کی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں اور حقوق العباد کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے- ہم جو حقوق اللہ ادا نہیں کر رہے ، نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ کی ادائیگی نہیں کر رہے تو اس کی سزا تو ہمیں قیامت کے روز ہی ملے گی لیکن جو ہم سے حقوق العباد کی ادائیگی میں کوتاہیاں ہو رہی ہیں اس کا عذاب ہم اسی دنیا میں دیکھ رہے ہیں جو ہم پر ذلت و رسوائی کی مختلف صورتوں میں نازل ہوتا ہے-

پیٹرولیم مصنوعات میں ملاوٹ کی صورت یہ ہے کہ پیٹرول میں اے ٹی ایف، ایسن آئل، مٹی کا تیل اور سپرٹ کے ذریعے محلول تیار کرکے آئل میں ملاوٹ کی جاتی ہے- موٹر مکینکس کے بقول ایسے کیمیکل ملے پیٹرول یا ڈیزل سے گاڑی کا انجن تباہ ہو جاتا ہے- مشیر پیٹرولیم کے مطابق پیٹرولیم مصنوعات میں ملاوٹ کرنے کے سینکڑوں کیسز رجسٹر ہو چکے ہیں - خوارک میں ملاوٹ سے انسانی زندگی تباہ ہوتی ہے جبکہ پیٹرولیم مصنوعات میں ملاوٹ سے انسانوں کو سہولت پہنچانے والی مشینری تباہ ہو جاتی ہے-

پیٹرول پمپس پر میٹر کے ذریعے ہونے والی ناپ تول میں کمی کا عوام کو اندازہ ہی نہیں ہے- اگر آپ پیٹرول مالکان سے اتنا کہہ دیں کہ وہ میٹروں کی بجائے پیمانوں میں پیڑول دیں تو ساری حقیقت سامنے آ جائے- بیشتر میٹروں سے پیٹرول کے ساتھ ساتھ ہوا کا اخراج بھی ہوتا ہے جس سے میٹر تو چلتا رہتا ہے لیکن پیٹرول کم آتا ہے- اس لیے اکثر پیٹرول پمپ مالکان کبھی آپ کو ڈیڑھ لیٹر خالی بوتل میں ڈیڑھ لیٹر پیٹرول نہیں ڈال کر دیں گے کیونکہ اس سے ان کا فراڈ کھل کر سامنے آجاتا ہے - بندہ ناچیز کی ڈیوٹی سفر مسافری سے متعلق ہے اور گاڑی سارا سال سڑک پہ رہتی ہے سوائے چند ایک گنے ہوئے پٹرول پمپس کے کہیں بھی پیمانہ ٹھیک نہیں ملا - کئی مقامات پہ پیٹرول پمپ والوں نے میٹر کے ذریعے فراڈ کی ایک جدید قسم اپنائی ہوتی ہے کہ عموما لوگ مقدار کی بجائے قیمتاً آرڈر دیتے ہیں مثلاً کہتے ہیں جی کہ پانچ سو، ہزار ، پندرہ سو یا دو ہزار روپے کا پیٹرول یا ڈیزل ڈال دیں تو مالکان نے اپنے میٹروں میں ان کامن نمبرز پر تیل کی مقدار فکس کی ہوتی ہے - مثلاً اگر پانچ سو روپے میں سات یا ساڑھے سات لیٹر تیل آتا ہے تو انہوں نے میٹر میں پانچ سو کے فگر پر پانچ یا چھ لیٹر فکس کرکے صارفین کو دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں-

ایک دھوکہ جو حکومتی سطح پر ہو رہا ہے جس کا کہ عموماً لوگوں کو علم ہی نہیں وہ یہ کہ پیڑول کی قیمتوں میں روپے کے ساتھ ساتھ پیسے بھی مقرر ہوتے ہیں جو سٹیٹ بنک کے دفتری فائلوں کے علاوہ عام طور پر کہیں استعمال نہیں ہوتے- مثلاً فی لیٹر پیڑول کی قیمت ستر روپے اسی ﴿۰۸﴾ پیسے ہوگی یا نوے روپے پچھتر ﴿۵۷﴾ پیسے ہوگی- لیکن جب عوام ایک لیٹر پیٹرول ڈلواتی ہے تو وہ ستر یا پچھتر پیسے کی بجائے اسے معمولی سمجھ کر پچیس ، تیس پیسے اضافے کے ساتھ پورے سو پیسے یعنی ایک روپیہ ادا کرتی ہے- پاکستان میں جتنا پیٹرول روز صرف ہوتا ہے اگر فی لیٹر پچیس پیسے ہی جمع ہوتے جائیں تو یہ تعداد ہزاروں نہیں لاکھوں تک پہنچ جاتی ہے جو مفت میں حکومتی مفت بروں کی جیب میں جاتی ہے جسے وہ عیاشی پر خرچ کرتے ہیں-

اگر ادویات / میڈیسن کی طرف دیکھیں تو پاکستان کیا دنیا بھر میں جعلی ادویات عام بن رہی ہیں- ان جعلی ادویات میں اینٹوں کا برادہ، پینٹ اور کیڑے مار زہر شامل ہوتا ہے- پاکستان کے میڈیکل سٹور جعلی گولیوں، دوائیوں اور کیپسول سے بھرے پڑے ہیں- ہر بوتل اور پائوڈر ایک جیسا ہے اگر تبدیلی ہے تو صرف رنگ کی -

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ﴿WHO﴾ کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال تقریبا دس لاکھ افراد جعلی ادویات کے استعمال کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں اور اس حوالے سے پاکستان میں اموات کی شرح سب سے زیادہ ہے- ۲۱۰۲ئ میں ، پاکستان میں صرف ایک واقعہ میں ایک سو بیس مریض دل کے امراض کی جعلی ادویات کھانے سے موت کے منہ میں چلے گئے جس کے بعد کئی ممالک نے پاکستان سے ادویات کی درآمد بند کر دی- ۰۱۰۲ئ میں پاکستان کے وزیرِ داخلہ نے خود یہ انکشاف کیا تھا کہ پاکستان میں چالیس سے پچاس فیصد ادویات جعلی اور غیر معیاری یعنی ملاوٹ شدہ ہیں-

پاکستان فارماسسٹ ایسوسی ایشن سے دستیاب معلومات کو دیکھیں تو جن فارمیسیوں کو لائسنس جاری ہوئے وہ چار پانچ ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ لاکھوں کی تعداد میں میڈیکل جنرل سٹور غیر قانونی طور پر ادویات کو فروخت کرتے ہیں- ایک فارمیسی اور جنرل سٹور کے درمیان واضح فرق ہے کہ فارمیسی پر ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر ادویات فروخت کرنا منع ہے جبکہ میڈیکل سٹوروں پر این ایس اے آئی ڈی کے علاوہ کسی قسم کی ادویات فروخت کرنے کی اجازت نہیں ہے- یعنی وہ صرف وٹامنز، نان سٹیرائیڈل ، مانع سوزش ، آگ سے متاثرہ ذخموں کے علاج ، درد سے نجات اور بخار کی ادویات ہی فروخت کر سکتے ہیں - یہاں پاکستان میں میڈیکل سٹوروں کو جو کھلی چھٹی دی گئی ہے ایسا ترقی یافتہ ملکوں میں نہیں ہوتا- اگر قانون کی بات کی جائے تو ایک ڈاکٹر کو بھی فارمیسی کھولنے کی اجازت نہیں ہے جبکہ ہمارے ہاں میڈیکل سٹوروں پر عطائی ڈاکٹر بیٹھے ہوتے ہیں جو پہلے مریض سے پوچھتے ہیں کہ آپ کو اپنی بیماری کے لیے مہنگا نسخہ چاہیے یا سستا- مریض بیچارہ غربت کی بدولت سستے نسخے کی طرف مائل ہوتا ہے لیکن اسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ جیب ہلکی ہونے کی وجہ سے بڑی بھاری مصیبت بلکہ موت کو خرید کر اپنے وجود میں داخل کر رہا ہے- انہی جعلی ادویات کی وجہ سے کینسر، ٹی بی اور ہیپاٹائٹس اور ہارٹ اٹیک کی بیماریاں عام ہوتی جارہی ہیں- عوام کو خبر ہی نہیں ہوتی کہ وہ اپنے پیسوں سے ہی اپنے لیے موت کا سودا کر رہے ہوتے ہیں - گذشتہ چند سالوں سے جتنی ادویات رجسٹرڈ ہوئی ہیں اتنی پچھلی کئی دہائیوں سے بھی نہیں ہوئیں- یہ سب جعلی ادویات کی فروخت میں کھلی چھٹی ملنے کی وجہ سے ہے-ایک کہاوت ہے کہ :- نیم حکیم خطرۂ جان- یہ عطائی ڈاکٹر نیم حکیم ہی تو ہوتے ہیں- ایف آئی اے ۶۴۱ ملین کی جعلی ادویات پکڑ چکا ہے اور کئی مراکز سیل کرچکا ہے - جو نہیں پکڑی گئی وہ ہم عوام کے پیٹوں میں جاچکی ہیں اور جا رہی ہیں-

ادویات کے علاوہ جعل سازی میں جعلی کرنسی بھی شامل ہے جو پاکستان میں عام گردش کر رہی ہے- جعل سازی میںجعلی ویزے لگوائے جاتے ہیں ، جعلی دستاویزات پر ہوائی سفر کروائے جاتے ہیں- وزیر دفاع کے مطابق جنوری ۱۱۰۲ئ سے ستمبر ۲۱۰۲ئ تک پی آئی اے کو جعلی دستاویزات پر مسافروں کو سفر کرانے کی وجہ سے تین کروڑ اناسی لاکھ روپے جرمانہ ہوا- اس طرح ادارے تباہ نہیں ہوں گے تو اور کیا ہوگا-

بیرون ممالک جعلی اور فرضی فرمیں قائم ہوتی ہیں اور وہاں نوکری دینے کے لالچ میں غریب عوام کی ساری جمع پونجی لوٹ لی جاتی ہے- جعل سازی میں جعلی ڈگریاں بھی جاری کی جاتی ہیں جو ایک حق دار کو اس کے حق سے محروم کر دیتی ہیںاور غیر مستحق کو حقدار قرار دے دیتی ہیں- جعل سازی میں میرٹ کے مطابق ملازمتیں نہ دینا بھی شامل ہے- جعل سازی میں گھوسٹ سکول بھی ہیں جو گورنمنٹ کے کاغذات اور فائلوں میں تو موجود ہوتے ہیں اور ان کے لیے بھاری بجٹ بھی مختص کیئے جاتے ہیں لیکن حقیقت میں ان کا کہیں نام و نشان بھی نہیں ہوتا-

اگر سوچا جائے کہ انسان ناپ تول میں کمی ، ملاوٹ اور جعل سازی بالآخر کیوں کرتا ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہی نظر آتی ہے کہ انسان دولتِ دنیا کی ہوس میں مبتلا ہو کر اندھا ہو چکا ہے - یہ ایسی بیماری ہے جو ایک دفعہ لگ جائے تو پھر مسلسل بڑھتی رہتی ہے اور کبھی ختم ہونے کا نام نہیں لیتی یہاں تک انسان قبر میں جا پہنچتا ہے- دنیاوی دولت کے حرص میں مبتلا شخص کی کیفیت بیان کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ:-

﴿لَوْ اَنَّ لِابْنِ آدَمَ وَادِیَیْنِ مِنْ مَّالٍ لَاَحَبَّ اَنْ یَکُوْنَ مَعَھُمَا ثَالِثٌ وَلَا یَمْلَاُ نَفْسَہُ اِلاَّ التُّرَابُ وَیَتُوْبُ اللّٰہُ عَلٰی مَنْ تَابَ﴾ ﴿سنن ابن ماجہ، کتاب الزھد﴾

’’اگر کسی ﴿حریص﴾ شخص کی مال سے بھری ہوئی دو وادیاں بھی ہوں تو وہ چاہے گا کہ ایک تیسری بھی ہو-اور اس کے نفس ﴿کی خواہش﴾ کو ﴿قبر کی﴾ مٹی ہی بھر سکتی ہے- اور اللہ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے جس نے ﴿اس حرص سے﴾ توبہ کر لی-‘‘

﴿۱۲﴾ جھوٹی بات اور فحاشی پھیلانے کی مُمانعت:-

بارھواں حکم اللہ تبارک تعالیٰ نے فرمایا :

﴿وَلَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٰ عِلْمٌ ط اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلًا﴾ ﴿سورۃ الاسرائ، آیت:۶۳﴾

’’اور ﴿اے انسان!﴾ تو اس بات کی پیروی نہ کر جس کا تجھے ﴿صحیح﴾ علم نہیں، بے شک کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے باز پرس ہو گی-‘‘

اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو بات تمہارے ذمے نہیں، جس کا تمہیں علم نہیں ہے اس کے پیچھے نہ پڑ جاؤ، بے شک تمہارے کانوں سے، تمہاری آنکھوں سے اور تمہارے دل یعنی تمہارا سوچنے کا جو آلہ ہے’’ فواد‘‘ جسے دماغ بھی کہا جاتا ہے اور دل بھی کہا جاتا ہے اس سے حساب لیا جائے گا ، بد نظری نہ کرو ، برا خیال ، چھپی شہوت بھی نہ ہو- آقا پاک ﷺ کی حدیث مبارک ہے آپ نے فرمایا مجھے اپنی امت سے یہ خدشہ نہیں ہے کہ یہ چانداور ستاروں کی اور آگ کی اور بتوں کی پوجا کرنے لگیں گے ، مجھے خطرہ یہ ہے کہ یہ شرک خفی میں مبتلا ہو جائیں گے، یا رسول اللہ ﷺ! شرکِ خفی ؟ آپ نے فرمایا کہ یہ اپنی خفیہ شہوت کی پیروی کریں گے ، جو شخص بد نظری میں مبتلا ہو ، بد خیالی میں ، بد گمانی میں مبتلا ہوتا ہے اللہ تبارک تعالیٰ اسے نا پسند فرماتا ہے- یہ آدابِ معاشرت اللہ نے خود مقرر فرمائے-

 

جہاں انسان کی دیگر بہت سی بیماریاں ہیں وہاں ایک بیماری جہالت بھی ہے- جہالت کی بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ انسان اپنی سوچ سمجھ سے کام لینے کی بجائے دوسروں کی نقل کرتا ہے اور یہ نہیں دیکھتا کہ وہ جس کی نقل کر رہا ہے وہ اچھا کام کر رہا ہے یا برا- جہاں کہیں بھی کسی کے ہاں ایک جم گٹھہ یا ہجوم دیکھ لیا بس اسی کے پیچھے ہو لیا - جہالت کی ایک نشانی یہ ہے کہ جاہل انسان یاوَہ گو ، زبان دراز اور منہ پھٹ ہوتا ہے وہ ایک معمولی سی بات کو بڑھا چڑھا کر کرتاہے جیسے یہ کوئی بہت بڑا واقعہ ہو- آجکل میڈیا میں اس جہالت کی کئی مثالیں دیکھی جاسکتی ہیں- جاہل آدمی فحاشی پھیلانے ، بازاروں میں فضول گھومنے پھرنے ، غل غپاڑہ اورشور شرابہ کرنا پسند کرتا ہے جبکہ ایسا شخص اللہ تعالیٰ کو سخت نا پسند ہے جیسا کہ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:-

 

﴿اِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ الفَاحِشَ المُتَفَحِّشَ،وَلاَ الصَّیَّاحَ فِی الْاَسْوَاقِ﴾﴿امام بخاری، الادب المفرد: باب لیس المومن بالطعان﴾

’’اللہ تعالیٰ فحاشی پھیلانے والے کو پسند نہیں کرتا اور نہ بازاروں میں غل گپاڑہ ﴿بے راہ روی﴾ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘-

اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی ایسے جاہلوں کو اپنی بارگاہ سے اس دنیا میں بھی دور رکھا ہے اور کل قیامت کے دن بھی وہ آپ کے قرب میں نہیں آئیں گے- اس حدیث پاک کو ملاحظہ فرمائیں:- ’’حضرت جابربن عبد اللہ رضی اللہ عنھما سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :-

 

﴿اِنَّ مَنْ اَحَبُّکُمْ اِلَیَّ، وَاَقْرَبُکُمْ مِنِّیْ مَجْلِسًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، اَحَاسِنُکُمْ اَخْلَاقًا،

’’میرے نزدیک سب سے پیارا اور قیامت کے دن میرے زیادہ قریب بیٹھنے والا وہ شخص ہے جس کا اخلاق تم سب سے احسن ہے‘‘

وَاِنَّ اَبْغَضُکُمْ اِلَیَّ وَاَبْعَدُکُمْ مِنِّیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، اَلثَّرْثَارُوْنَ، وَالْمُتَشَدِّقُوْنَ، وَالْمُتَفَیْھَقُوْنَ﴾ ﴿ سنن الترمذی، کتاب البر و الصلۃ﴾

’’میرے نزدیک ناپسندیدہ ترین اور قیامت کے دن مجھ سے دور وہ ہوں گے جو بکواس کرنے والے ، یاوہ گو، منہ پھٹ، اور بات کو بڑھا چڑھا کر کرنے والے ہیں ‘‘-

﴿۳۱﴾ تکبّر ترک کرنے اور اِنکساری اِختیار کرنے کی تلقین :-

اور تیرھواں حکم اللہ تبارک تعالیٰ نے فرمایا کہ

﴿وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا ج اِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا﴾ ﴿سورۃ الاسرائ، آیت:۷۳﴾

’’ زمین میں اکڑ کر مت چل، بیشک تو زمین کو ﴿ رعونت کے زور سے﴾ ہرگز چیر نہیں سکتا اور نہ ہی ہرگز تو بلندی میں پہاڑوں کو پہنچ سکتا ہے ﴿تو جو کچھ ہے وہی رہے گا﴾-‘‘

بے شک تم تکبر اور اکڑ کے چل کے، نہ زمیں کو پھاڑ سکتے ہو اور نہ پہاڑ سے بلند ہو سکتے ہو- احادیثِ مبارکہ میں بھی متکبر کے بارے سخت وعیدیں موجود ہیں- حضرت عبد بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:-

 

﴿ لاَ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٰ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِنْ کِبْرٍ ﴾﴿صحیح مسلم، کتاب الایمان﴾

’’جس کے دل میں ایک ذرہ تکبر کا ہوا تو وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا‘‘-

آپ دنیا بھر کی جنگوں کا باریک بینی سے تجزیہ کریں آپ کو ان سب کے پیچھے حکمرانوں کی رعونت اور تکبر ہی نظر آئے گا- مذہب کو حکمرانوں نے ہمیشہ اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا ہے- جب مفاد ختم تو مذہب سے تعلق بھی ختم- ہماری آپس کی دشمنیاں، ہماری آپس کی عداوتیں ، ہماری باہمی جنگیں جو کئی کئی برسوں پر محیط ہوتی ہیںیہ بھی ہمارے حکمران طبقہ اور اشرافیہ کے تکبر اور غرور کے ہی مظاہرے ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں مسلم اقوام ایک ملّت ہونے کے باوجود کئی کئی سال تک ایک دوسرے کے ساتھ قطع تعلقی کرنے پر مجبور ہوتی ہیں- کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہمارے لیے نہیں ہے جس میں تین دن سے زیادہ مخالفت اور جھگڑا کرکے اپنے بھائی سے ناراض رہنے سے منع فرمایا گیا ہے-رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:-

’’اے مسلمانو! آپس میں نہ بغض رکھو، نہ ایک دوسرے سے حسد کرو، نہ ایک دوسرے کو بیٹھ دکھائو- اے اللہ کے بندو بھائی بھائی بن جائو اور کسی مسلمان کے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ وہ اپنے ﴿دینی یا حقیقی﴾ بھائی سے تین راتوں سے زیادہ علیحدہ رہے‘‘- ﴿سنن ابو داؤد، کتا ب الادب﴾

کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان اور وعید ہم پر لاگو نہیں ہوتا کہ

﴿لَا یَحِلُّ لِمُسْلِمٍ اَنْ یَّھْجُرَ اَخَاہُ فَوْقَ ثَلَاثٍ،فَمَنْ یَّھْجُرُ فَوْقَ ثَلَاثٍ، فَمَاتَ دَخَلَ النَّارَ﴾ ﴿سنن ابو داؤد، کتا ب الادب﴾

’’مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو﴿ بغیر شرعی عذر کے﴾ تین دن سے زیادہ ﴿ناراض ہوکر ﴾ چھوڑ دے- پس جس نے ﴿ناراضی یا دشمنی رکھتے ہوئے﴾ تین دن سے زیادہ چھوڑا ، اگر وہ ﴿اسی حالت میں﴾ مر گیا تو جہنم میں جائے گا‘‘-

کیا ہم کئی کئی برسوں تک ایک دوسرے سے ناراض نہیں رہتے اور اس دوران ہم میں سے کسی کی موت نہیں ہوتی؟ یہ ہمارا تکبر ہی ہوتا ہے جو ہمیں ایک دوسرے کے قریب نہیں آنے دیتا- آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تکبر ختم کرنے کا ایک بہترین نسخہ عطا فرمایا ہے کہ

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے راویت ہے کہ نبی کریم ﷺ فرمایا کرتے تھے‘‘

 

﴿ یَقُوْلُ تَھَادُوْا تَحَابُّوْا﴾ ﴿امام بخاری، الادب المفرد، باب قبول الھدیہ﴾

’’ایک دوسرے کو تحائف دیا کرو آپس میں محبت کرنے لگو گے‘‘-

میرے بھائیو اور بزرگو! یہ تیرہ ﴿۳۱﴾ احکامات قرآن کریم کی صرف ایک سورۃ سے اس کی متصل آیا ت سے میں نے آپ کے سامنے پیش کیے ہیں جن میں معاشرت بھی ہے، معیشت بھی ہے ،سیاست بھی ہے، عدل بھی ہے، تجارت بھی ہے اور قرآن نے ہر چیز کے احکامات مقرر کئے -

﴿جاری ہے---

٭٭٭

 مَیں نے شروع سے جو بات کہی تھی کہ ہمارا دین ،دینِ فطرت ہے اور یہ شروع سے آخر تک ہر بات کا احاطہ کرتا ہے، یہ شروع سے آخر تک ہربات کو ساتھ لے کر چلتا ہے، اس کا تصورِ خدا آفاقی ہے، اس کا تصورِ انسان آفاقی ہے، اس کا تصورِ کائنات آفاقی ہے، اس میں جزوی نوعیت کی کوئی چیز نہیں ہے اس لئے جو مانے گا وہ پورے دین کو مانے گا، جو منحرف ہو گا وہ پورے دین سے منحرف ہوگا ، درمیان کا کوئی راستہ نہیں ہے کہ ہم کچھ احکامات کو مان لیں اور بعض احکامات کو چھوڑ دیں ایسا نہیں ہو سکتا- مغرب کے تصورِ دین میں اور ہمارے تصورِ دین میں فرق ہے، ان کا تصورِ دین، ان کا تصورِ خدا مختلف ہے ، ہمارا تصورِ خدا مختلف ہے- ہمارا خدا اپنے اسمائ الحسنہ میں ہمیںیہ بتاتا ہے کہ مَیں مالک ہوں؛

﴿مٰ لِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ﴾ ’’روزِ جزا کا مالک ہے-‘‘﴿ بِیَدِہِ الْمُلْکُ﴾’’ جس کے دستِ ﴿قدرت﴾ میں ﴿تمام جہانوں کی﴾ سلطنت ہے-‘‘

اس کے ہاتھ میںیہ ملک ہے، اس کے ہاتھ میںیہ کائنات ہے ،وہ چلانا چاہے گا اس کائنات کو ،وہ حق رکھتا ہے اس کائنات کو چلانے کا -

﴿اَلْمُقْتَدِرُ﴾’’اقتدار اس کا حق ہے -‘‘﴿اَلْعَدْلُ﴾’’عدالت اس کا حق ہے-‘‘

ترازو اس کا ہے، حکم اس کا ہے، پیغام اس کا ہے، نظام اس کا ہے، ہمارے پاس کوئی اختیا نہیں ہے کہ ہم اس کی حاکمیت میں مداخلت کریں ، انسان اس زمین پہ حاکم نہیں ہوتا بلکہ یہ اللہ کی حاکمیتِ اعلیٰ کا نائب ہوتا ہے، اللہ کا خلیفہ ہوتاہے ،اس لئے دین جزوی اور فرد کا نجی یا ذاتی معاملہ نہیں ہے، دین فرد کا مکمل اور معاشرتی معاملہ ہے اگر اگر کوئی فرد دین کے کسی ایک بھی حکم سے اپنے آپ کو آزاد کرانا چاہتا ہے تو قرآن و سنت سے بغاوت کرتا ہے ، وہ قرآن و سنت سے غداری کرتا ہے-         

آج بد قسمتی یہ ہے کہ منبر و محراب نے بھی دین کو محدود کرنے میں کسر نہیں اُٹھا رکھی ، کیونکہ ہمارے خطبا و واعظین کے عمومی طور پہ پسندیدہ موضوعات اِختلافی عقائد ہوتے ہیں اور جو اس سے آگے بڑھے وہ فضائل سے آگے نہیں بڑھتا - بہت کم ایسے خطبا و واعظین جامع مساجد میں دیکھنے کو ملتے ہیں جو اپنے خطابات و مواعظ میں لوگوں کو عقائد و عبادات کے ساتھ ساتھ معاشرت کی تلقین کرتے ہوں اور اخلاقیات کا درس دیتے ہوں - کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان چاروں چیزوں کو اکٹھا رکھا ہے ہے - مثلاً اگر سورہ البقرہ شریف کی آیت نمبر ۷۷۱ میں جھانکیں تو قرآن پاک کی ترتیب و تعلیم سمجھنے میں دشواری نہیں رہتی -

 سورہ البقرہ آیت ۷۷۱ میں فرمایا

لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْہَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰ کِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاﷲِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰٓئِکَۃِ وَالْکِتٰبِ وَالنَّبِیّٰنَج وَاٰتَی الْمَالَ عَلَی حُبِّہٰ ذَوِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَالسَّآئِلِیْنَ وَفِی الرِّقَابِج وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَہْدِہِمْ اِذَا عٰ ہَدُوْاج وَالصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآئِ وَالضَّرَّآئِ وَحِیْنَ الْبَاْسِط اُولٰٓ ئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْاط وَاُولٰٓ ئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُوْنَo

نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ لوگ اﷲ پر اور آخرت پر اور فرشتوں پر اور ﴿اﷲ کی﴾ کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائیں، اور اﷲ کی محبت میں ﴿اپنا﴾ مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور ﴿غلاموں کی﴾ گردنوں ﴿کو آزاد کرانے﴾ میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی ﴿تنگدستی﴾ میں اور مصیبت ﴿بیماری﴾ میں اور جنگ کی شدّت ﴿جہاد﴾ کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیز گار ہیںo

آئمۂ تفسیر نے کئی بلکہ کثیر روایتوں کے حوالے سے بیان فرمایا ہے کہ اِس سے مُراد یہ ہے کہ نیکی صرف یہ نہیں ہے کہ کسی ایک جانب چہرہ کر لیا جائے تو مقصد پورا ہو جاتا ہے بلکہ اللہ د کے نزدیک اصل نیکی آیت میں بیان کردہ تمام امور و احکامات کو بجا لانے کا نام ہے - اِس آیت میں جو مشرق و مغرب کی جانب منہ پھیرنے کا کہا گیا ہے تو اس سے متعلق عہدِ نزول بھی مدِّ نظر رہے کہ یہ اُس زمانے میں آیت نازل ہوئی ﴿حضرت عبد اللہ ابن عباس ص کے قول کے مطابق ﴾ جب ابتدائے اسلام تھی اور کوئی شخص جب اللہ د کی وحدانیت اور نبی پاک شہہِ لولاک ﷺ کی رسالت و نبوت کی گواہی دے دیتا تو کسی بھی سمت رُخ کر کے نماز ادا کر لیتا ، اگر اسی معمول پہ اُسے موت آ جاتی تو اس کیلئے جنت لازم ہوتی - ہجرت کے بعد جب مسجد الحرام شریف کو قبلہ بنا دیا گیا اور اللہ د نے مذکورہ آیت نازل فرمائی کہ نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے چہرے مشرق و مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ یہ احکامات بجا لانا ، اِن پہ عمل پیرا ہونا اصل نیکی ہے - اِس آیت کے اَحکامات دو حِصّوں پہ مشتمل ہیں : ایک کا تعلق اعتقاد و عقیدہ سے ہے جبکہ دوسرے کا تعلق حقوقِ معاشرت سے ہے - امام جلال الدین سیوطی دُرِّ منثور میں نقل فرماتے ہیں کہ اِس آیت کے متعلق امام ابن ابی شیبہ نے حضرت ابو میسرہ رحمۃاللہ علیہم سے روایت بیان فرمائی ہے کہ وہ فرماتے ہیں ﴿من عمِل بھٰذہ الآیۃ فقد استکمل الایمان﴾ یعنی ’’جس نے اِس آیت پر عمل کیا پس تحقیق اُس نے اپنے ایمان کو پایۂ تکمیل پہ پہنچا دیا‘‘ - اِسی طرح اِس آیت سے متعلّق علامہ ابن کثیر نے حضرت سُفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہما کا قول نقل کیا ہے کہ ﴿ھذہ انواع البر کلھا﴾ ’’اِس آیت میں نیکی کی ہر قسم کو بیان کر دیا گیا ہے ‘‘ - اگر دیکھا جائے تو یہ آیۂ شریفہ دینِ مبین اور فلسفۂ نیکی پہ نہایت جامع بیان ہے جس میں ایک عام آدمی کی زندگی کے ہر پہلُو ، ہر جانب ، ہر طرف اور ہر جہت کو واضح کردیا گیا ہے - بطورِ خاص پانچ پہلو قابلِ غور ہیں :

 

﴿۱﴾ فلسفۂ نیکی/ فلسفۂ دین ؟ دین صرف عبادات کا مرقع نہیں ﴿۲﴾ ایمان ؟﴿اللہ پر و دیگر ﴾  ﴿۳﴾ مُعاملات ؟ رشتہ داروں ، یتیموں و دیگر کے حقوق کا بیان ﴿۴﴾ عبادات ؟ نماز و زکوٰۃ کا حکم ﴿۵﴾ اَخلاق ؟ سختی ، تکلیف ، میدان میں استقامت اختیار کرنا

پہلے حصہ ﴿لیس البر﴾ سے لیکر ﴿ولکن البر﴾ تک اِس بات کا بیان ہے کہ دین فقط و فقط عبادات کے مرقع کا نام نہیں ہے اور نہ ہی انفرادی و ذاتی معاملہ - دوسرے حصہ میں ﴿من اٰمن﴾ سے لیکر ﴿النبیّین﴾ تک ایمان کا اصول بیان ہوا - تیسرے حصہ میں ﴿آتی المال﴾ سے لیکر ﴿و فی الرقاب﴾ تک معاملات و معاشرت کو بیان فرمایا ﴿﴿الرقاب﴾ سے مراد زیادہ تر مفسرین نے غلاموں کو آزاد کرنا لیا ہے جبکہ بعض مفسرین اور کئی فقہا نے اِ س سے مراد قیدی بھی لئے ہیں کہ قیدیوں کو قید سے آزاد کروانے کیلئے مال خرچ کیا جائے ﴾ - چو تھے حصہ میں صلوٰۃ و زکوۃ کا ذکر فرمایا - جبکہ پانچویں حصہ میں ﴿و الموفون﴾ سے لیکر ﴿المتقون﴾ تک اخلاقیات کے تقاضے بتائے

اَخلاق کے حصہ میں تین چیزوں پہ بالترتیب فرمایا گیا ہے کہ صبر کرنے والے ہوں ﴿البأسا﴾ یعنی غربت ، تنگدستی ، افلاس ، بے مائیگی، فاقہ کشی ﴿الضرّأ﴾ یعنی مرض ، مصیبت ، دُکھ ، رنج ، تکلیف اور تیسرا ﴿حین البأْس﴾ یعنی راہِ جہاد میں قتال کے وقت - اِن تینوں میں ایک سے بڑھ کر ایک ہے ، شدتِ فاقہ و غریبی میں صبر بے حد مشکل ہے لیکن اس مرض اور دُکھ میں صبر کرنا اُس سے بھی زیادہ مشکل ہے جبکہ وقتِ قتال میدانِ کار زار میں صبر کرنا مرض پہ صبر کرنے سے بھی زیادہ مشکل ہے اس کا یہ مفہوم بھی ہے کہ قتال میں شدّت نہ اختیار کی جائے تا کہ بوڑھے ، بچے ، خواتین ، بے گناہ اور معصوم لوگ محفوظ رہیں - جہاں یہ بات قوانینِ جنگ و جدال کا حصہ ہے وہیں اللہ تعالیٰ نے اِس کو اخلاقیات کا حصہ بھی بنا دیا ہے کہ قوانینِ جنگ سے تجاوز کرنا اسلام کے اخلاقی تصور کے منافی ہے - نیز قتال میں شدت نہ کرنے والے کو دُہرا ثواب ملے گا ، جس طرح کہ ﴿ذوی القربیٰ﴾ کے متعلق آقا ﷺ کے فرامین بکثرت موجود ہیں کہ اس بات پہ صدقہ کرنے والے کو دوہرا اجر ملتا ہے - ایک تو صدقہ کا اجر ملتا ہے اور دوسرا اقربا کو دینے کا اجر ملتا ہے ، اِسی طرح اِس حدیث پاک کو اگر قتال والے حصہ پہ لاگو کیا جائے تو جہاں جہاد فی سبیل اللہ کا اجر مجاہد کو ملے گا وہیں معصوم ، بے گناہ ، عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں کو اپنی تلوار کی کاٹ سے محفوظ رکھنے کا اجربھی ملے گا -

 

آج آقا پاک ﷺ کے میلاد مبارک پہ اگر ہم بیٹھے ہیں ،اس میں ہمارے لئے سب سے اہم اور سب سے ضروری ترین عمل یہ ہے ، ہمارے اوپر لازم اور واجب یہ ہے کہ ہم نے اپنا احتساب کرنا ہے کہ جس ہستی کی آمد کی خوشی ہم منارہے ہیں اس سے ہمارے تعلق کی بنیادیں کہاں تک پختہ ہیں؟

 

چوں می گویم مسلمان بلرزم

کہ دانم مشکلاتِ لاالٰہ را

’’جب مَیں یہ کہتا ہوںکہ مَیں مسلمان ہوں تو مَیںلرز اٹھتا ہوں کیونکہ مَیں لاالٰہ کی مشکلات کوجانتا ہوں -‘‘

یہ شہادت گہہ اُلفت میں قدم رکھنا ہے

لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا

میرے نوجوان ساتھیو! مَیں آخری گزارش کررہا ہوں، آقا پاک ﷺ سے اگر ہمیں محبت ہے تو اس محبت کی ہمارے پاس دلیل کیاہے؟ کیا آقا ﷺ سے محبت کی یہ دلیل ہے کہ حضور کے دین کواہلِ دُنیا مذاق بنا دے اور ہم ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں ؟کیا یہ حضور کے دعویٰٔ محبت کی دلیل ہے ؟آقا پاک ﷺ نے جس دین کی خاطر اپنا وطن چھوڑا،ہجرت کی، جس دین کے لئے پتھر کھائے ،لہو لہان ہوئے ،حضور کے بدن اطہر سے لہو ٹپکتا رہا،نیزے کھائے ،تلواریں کھائیں ،رخصار زخمی ہوئے ،پیشانی زخمی ہوئی ،سر مبارک پہ چوٹ آئی ،دندان مبارک شہید ہوئے ،کائنات کی عظیم ترین وہ نفیس ترین اور لطیف ترین ہستی جس سے بڑھ کوئی لطیف نہیں ہوگا، جس سے بڑھ کے کوئی حسین نہیں ہوگا، جس سے بڑھ کو ئی نفیس نہیں ہوگا، آج اُسی دین پہ جس کے لئے یہ سارا کچھ کیا ہے، آج اس پہ مشکل وقت ہے اورہم اس دین کے رکھوالے نہیں بن رہے کیا یہ حضورکیساتھ محبت کے دعوےٰ کی دلیل ہے ؟جس دین پہ آقا پاک ﷺنے یہ فرمایا تھا کہ اگر تم میرے ایک ہاتھ پہ سورج اور دوسرے پہ چاند رکھ دو، مال دولت کے انبارلگا دو،مَیں اِس دین کی دعوت سے نہیں رکوں گا- آج ہم اس دین کو اپنی چند دُنیاوی خواہشات کی خاطر ترک کر کے بیٹھے ہیں ،دعویٰ ٔ محبت کی دلیل کیا ہے ہمارے پاس؟ حضور کے چچا ،حضور کے قریبی رفقائ ،حضور کے قریبی ساتھی بے دردی سے شہید کئے جاتے رہے، ان کے مثلے کئے گئے ،ان کے کلیجے ان کے سینے سے نکال کے چبائے گئے، آقا پاک ﷺ نے یہ سارے غم کس کے لئے برداشت کئے؟ اس دین کے لئے، آج اس دین پہ مشکل وقت طاری ہے تو ہم دین پہ اپنی ذات کو، دین کے معاملات میں اپنے ذاتی معاملات کو ترجعیح دیتے ہیں کیا یہ حضور سے محبت کے دعویٰ کی دلیل ہے؟ ہمارے پاس کیا دلیل ہے حضور سے محبت کی، حضور سے عشق کی،؟

 

میرے بھائیومیرے ساتھیو !اگر حضور سے محبت ہے، اگر حضور سے عشق ہے، اگر حضور سے پیار ہے ،تو اس عشق کی ،اس محبت کی ،اس پیار کی دلیل دیں، یہ زندگی کتنی ہے، یہ کتنی اور رہ جائے گی، کسے معلوم ؟کیا اس دنیا میں صرف اَسی ﴿۰۸﴾سال کی عمر کے لوگ مرتے ہیں،اٹھاراں﴿۸۱﴾ سال کے نہیں مرتے ؟ہم جتنے بھی یہاں بیٹھے ہیں کسی کو یقین ہے کہ اس کے بعد مَیں کب تک زندہ ہو ں اور میں اپنے گھر بھی خیریت سے پہنچوں گا یانہیں ،کسی کو یقین ہے اپنی موت کا اور اپنی موت کے نہ آنے کا؟ وقت اس کے ہاتھ میں ہے وہ جب آواز دے گا یہ بدن جاتا رہے گا- حضرت سلطان باھُورحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ

لوگ قبر داکرسن چارا لحدبناون ڈیرا ھُو

جب تو مر جائے گا ناں تولوگوں کو پھر تیری فکر نہیں ہوگی ،جب رُوح نکل جائے گی لوگوںکو تیری فکر نہیں ہوگی،لوگ قبر کی طرف بھاگیںگے، دفناؤ اِسے میت بدبو چھوڑ جائے گی،’’ میت ترک ویسی پورو اینو ں جلدی‘‘ تعفن پھیلائے گی، بیماریاں پھیلائے گی ،خراب ہو جائے گی، لے جاؤ ،اسے دفناؤ، مٹی میں لے جاؤ ،قبر میںلے جاؤ،چاہے والد ہے، چاہے بھائی ہے، چاہے والدہ ہے، چاہے بچے ہیں، چاہے بہنیں ہیں جو بھی ہو، سب کو جلدی ہوگی-پھر تیرا گھر تیری قبر ہوگی 

چٹکی بھر مٹی دی پاسن کرسن ڈھیر اُچیرا ھُو

ایک چٹکی مٹی کی اس پہ ڈال دیں گے، وہ چٹکی کس کا صلہ ہے؟ تیرے ساتھ ساری زندگی کی محبت کا، تیرے ساتھ ساری زندگی کے یارانے کا، تیرے ساتھ ساری زند گی کی دوستی کا، تیرے ساتھ ساری زندگی کے تعلق کا صلہ تمہیں لوگ آخرمیں کیا دیتے ہیں ؟مٹی ایک مٹھی بھر کے تیری قبر پہ ڈل دیتے ہیں-

مٹھیوں میں خاک لے کے دوست آئے بعد ازاں

زندگی بھر کی محبت کا صلہ دیتے ہیں

اس دُنیا سے محبت کرتے ہوجو تجھے جاتے ہوئے مٹی پھینکتے ہیں جاؤ اب

 پڑھ درود گھراں نوں جاسن کوکن شیراشیراھُو


جس نے فاتحہ درود پڑھنا ہوگا وہ پڑھے گا اور ایک بار روتا ہوا جائے گااور کہے گا تُو بڑا شیر تھا، بڑا شیر تھا -

بے پرواہ درگا رب باھو  نہیں فضلاں باہجھ نبیڑا ھُو

وہ بڑا بے نیاز ہے، وہ بڑا بے پرواہ ہے، کسی کی نہ اونچی ذات دیکھتا ہے ،نہ اونچا منصب دیکھتاہے ،نہ اونچی شان دیکھتا ہے، اس کی عدالت میں جب جاتے ہیں تو میاں محمد رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں:

عدل کریں تے تھر تھر کنبن اُچیاں شاناں والے

فضل کریں تے بخشے جاون مَیں ورگے منہ کالے

حضرت عمر (رض) کا فرمان ہے کہ لوگو! اپنے اعمال کو تول لو اس سے پہلے کہ تمہارے اعمال اللہ کے ترازو میں رکھے جائیں، اپنے اعمال کا احتساب کرلو اس سے پہلے کہ اللہ تمہارا حساب لے ،اور ہمارے بزرگوں نے ،ہمارے اسلاف نے کہا ہے:

در جوانی توبہ کردن شیوۂ پیغمبری

وقت پیر ی گُرگ ظالم می شود پرہیز گار

جوانی میں توبہ کرنا ،جوانی میں اپنی لَواللہ سے لگانا، جوانی میں اپنی چاہت کو اللہ کی چاہت کے سپرد کرنا، اپنی جوان دھڑکنوںکو اللہ کی رضا پہ قربان کرنا، اپنی جوان سانسوں ،اپنے جوان جذبات ،اپنے جوان احساسات کو اللہ کی راہ میں لگانا، اللہ کی رضا میں لگانا ،یہ شیوہ ٔپیغمبری ،یہ انبیائ کی سنت ہے، یہ پیغمبروں کا شیوہ ہے- تُو چاہتا ہے مَیں بڑھاپے میں جاکے سُدھر جاؤں گا- اوہ خدا کے بندے بڑھاپے میں تو بھیڑیا بھی ظلم کرنا چھوڑ دیتا ہے، بندہ سُدھر جائے توکون سی بڑی بات ہے-

 آج میرے نوجوان ساتھیو !تمہیں اللہ نے جوان دھڑکنے دی ہیں، جوان جذبے دیے ہیں، ہم اللہ کے دین کی حفاظت، اپنے جوان بازوئوں سے کر سکتے ہیں ،اپنی جوان زبان سے کرسکتے ہیں، اپنے جوان لفظوں سے کر سکتے ہیں، اپنی جوان دھڑکنوں سے کر سکتے ہیں، اپنے جوان جذبوں سے کر سکتے ہیں، جب یہ سارا کچھ نحیف ہو جاتا ہے،جب یہ سارا کچھ ضیف ہو جاتاہے، سوائے حسرت اور سوائے ہاتھ مَلنے کے کچھ نہیں آتا، خدا کی بارگاہ میں حسرت کرتے ہوئے نہ لوٹو بلکہ اس کی طرف یوں لوٹو کہ

نشان مردِ مومن با تو گویم

چو مرگ آید تبسم بر لبِ اُو ست

آجا کہ مَیں تجھے بتاؤں کہ مردِ مومن کی نشانی کیا ہے؟ جب اُس پہ موت آتی ہے تواس کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ کھیل جاتی ہے، وہ حسرت لے کر نہیں جاتا ہے کہ مَیں کچھ کر نہیں سکا بلکہ وہ خوش جاتا ہے یا اللہ تیرے توکل پہ، تیرے بھروسے پہ اس دنیا کے سامنے تیرا نام بلند کرتا رہا ،تیرے دین کی اِقامت کی جدوجہد کرتارہا، تیرے دین کے اِحیائ کی جدوجہد کرتا رہا، تیرے دین کے نفاذکی جدوجہد کرتا رہا ،تیرے نبی کے ادب، تیرے نبی کی عظمت کو سَربلند کرتا رہا-حضرت علامہ اقبا ل رحمۃ اللہ علیہ جب حضرت ٹیپو سلطان کی مزار پہ گئے تو بڑے روئے، وہاںپہ مراقبہ کیا ،قرآن کی دعوت پڑھی ،جب باہر آئے تو لوگوں نے پوچھا کہ ٹیپوسلطان سے کیا مکالمہ ہوا؟ ٹیپوسلطان بھی ایک فقیر آدمی تھا، ایک فقیر بادشاہ تھا اور بہت اللہ کا نیک آدمی تھا، علامہ اقبال نے کہا کہ مجھے ٹیپو سلطان نے کچھ باتیں کی ہیں یہ کلام حضرت علامہ کے کسی شعر ی مجموعے میں نہیں لیکن حیاتِ اقبال کی کتب میں موجود ہے ،’’ زندہ رُود‘‘ جو جاوید اقبال نے لکھی ہے اس میں بھی موجود ہے، علامہ اقبا ل نے ان لوگوں کو کہا کہ مجھے ٹیپو سلطان نے یہ بات کہی ہے کہ

درجہاں نتواں اگرمردانہ زیست

ہمچوں مرداں جاں سپرد ن زندگیست

اقبال! مسلمانو ں کو یہ پیغام دو کہ اگر زندگی میں وہ مَردوں کی طرح زندگی بسر نہیں کر سکتے، اگر مومن کی طرح زندگی گزارنا ممکن نہیںپھر مَردوںکی طرح جان پہ کھیل جانا یہ زندگی ہے، جان سے گزر جانا یہ زندگی ہے-

 اس لئے ہمارے پاس یہ وقت ہے جو چند سانسیں ہمیں اللہ نے مہلت دی ہیں اس کے نام پہ صَرف کریں ،اس کے ساتھ یہ عہد کریں ،اس عہد کے متعلق ہم سے پوچھا جائے گا-

 اصلاحی جماعت یہی دعوت لے کے سلطان العارفین کی درگاہ سے آئی ہے، جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمدعلی صاحب یہی پیغام لے کے آئیں ہیں کہ خدارا آپ آئیں اور اللہ کے دین کو نافذ کرنے کیلئے، اللہ کی کتاب کو نافذ کرنے کیلئے، سنتِ رسول ﷺ کو مروج کرنے کیلئے ہمیں اپنی کوششیں ،اپنی کاوشیں بروئے کار لانی چاہئیں- حضرت ہاجرہ کاکام سعی کرنا تھا،ہمارا کام سعی کرنا ہے، یہ اللہ کا کام ہے کہ وہ ننھے اسماعیل کے قدموں سے پانی کا چشمہ جاری کردے ،ہم سعی کریں گے، خلوص سے کریں گے ،اللہ پانی کا چشمہ جاری فرمائے گا، وہی قادرِ مطلق ہے ،وہی سب کچھ عطا کرنے والا ہے -

اللہ تعالی ہمیں عمل کی توفیق عطائ فرمائے -

﴿۱۱﴾ ناپ تول میں کمی و بیشی کی مُمانعت:-

اور گیارہواں حکم اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا:

﴿وَاَوْفُوا الْکَیْلَ اِذَا کِلْتُمْ وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِط ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلًا﴾ ﴿سورۃ الاسرائ، آیت:۵۳﴾

’’ ناپ پورا رکھا کرو جب ﴿بھی﴾ تم ﴿کوئی چیز﴾ ناپو اور ﴿جب تولنے لگو تو﴾ سیدھے ترازو سے تولا کرو، یہ بہتر ہے اور انجام کے اعتبار سے ﴿بھی﴾ خوب تر ہے-‘‘

اللہ تعالیٰ نے فر مایا کہ جب پیمانہ بھرو، جب ناپ تول کرنے لگو تو پورا پورا ناپ تول کرو، ناپ تول میں کمی نہ کرو اور اس کی تشریح میں متعدد مفسرین نے فرمایا کہ ناپ تول میں کمی کرنا یا چیزوں میں ملاوٹ کرنا یہ سخت ترین گنا ہ ہے یہ ایک ہی طرح کی دو چیزیں ہیں -اہلِ ٹوبہ ٹیک سنگھ مَیں ڈیمانڈ کرتا ہوں کہ مجھے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں کو ئی دکان بتا دیجئے جہاں پہ ملاوٹ کے بغیر دودھ ملتا ہو، جہاں ناپ تول میں کمی نہ کی جاتی ہو، اس سے بڑھ کے ہماری بد قسمتی اورکیا ہو سکتی ہے؟ پٹرول پمپوں کے پیمانے دیکھ لیں، اپنے گریبان میں جھانک کر اپنی کون کونسی غلطی ، اپنے کون کون سے جرم کا اعتراف کروں کہ بطور اجتماعی ،بطورِ معاشرہ مجھ میں، میرے اندر کیا کیا خرابیاں ہیں؟ مَیں معاشرہ ہوں اور کوئی مانتا ہے یا نہیں ہم سب معاشرہ ہیں ، ہم اپنے اندر جھانکیں، اپنے اندر دیکھیں کہ خدا نے جو یہ آفاقی احکامات مقرر کئے ہم ان پہ کس حد تک عمل پیرا ہیں - ملاوٹ بھی ناپ تول میں کمی کی ایک صورت ہے کہ جب آپ کسی چیز میں ملاوٹ کرتے ہیں تو گویا اس کی اصل مقدار کو کم کر کے فروخت کر رہے ہوتے ہیں- اس سے اگلی ڈگر ی جعل سازی کی ہے جو ملاوٹ کی ہی ترقی یافتہ شکل ہے کہ ایک چیز جو اصل میں ہے ہی نہیں اس کی جگہ کسی اور گھٹیا اور نقصان دہ چیز کو اس اصل کا نام دے کر فروخت کرنا یا استعمال میں لانا جعل سازی کہلاتا ہے-

اگر ملاوٹ کی بات کی جائے تو آج کس کس چیز میں ملاوٹ نہیں ہے- ہماری اشیائے خورد و نوش میں ملاوٹ ہے- مثلا کھانے پینے کی اشیائ میں ملاوٹ، ادویات میں ملاوٹ، اشیائے ضرورت میں ملاوٹ، پیٹرول میں ملاوٹ حتی کہ گندے نالوں کے پانیوں سے جو سبزیاں اگائی جاتی ہیں یہ بھی ایک قسم کی ملاوٹ ہے- اب تو زرعی ادویات اور کھاد وغیرہ میں بھی ملاوٹ ہوتی ہے- دودھ ، ہلدی، مرچ وغیرہ خریدتے وقت وسوسے پیدا ہوتے ہیں- کچے پھلوں کو وقت سے پہلے مختلف کیمیکلز اور ادویات سے پکانا یہ بھی ایک قسم کی ملاوٹ ہے- مثلا کاربائیڈ کے ذریعے کچے کیلے کو پکانے کی وجہ سے یہ کئی بیماریوں کا سبب بن جاتا ہے-

ایک سروے کے مطابق آج ہر دوسرا پاکستانی زہر خورانی ﴿Food Poisoning﴾ کا شکار ہے تو اس کا بنیادی سبب ہی ملاوٹ شدہ کھانے اور اشیائے خورد و نوش ہیں- ۱۱۰۲ئ میں ہونے والے نیشنل نیوٹریشنل سروے ﴿NNS﴾ کے مطابق پاکستان میں آدھی سے زیادہ آبادی غذائی عدمِ تحفظ کا شکار ہے - ہر سال سات کروڑ پاکستانی فوڈ پوائزننگ کی وجہ سے بیمار ہوتے ہیں- جب چائے کی پتی میں چھلکے پیس کر ملا دیئے جائیں، مرچوں میں چوکر ڈال دی جائے، ہلدی میں میدہ اور چاولوں کا آٹا شامل ہو، ٹماٹروں کی بجائے گندے آلوئوں ، کدو اور اَراروٹ کا کیچپ تیار ہو - گوشت کا وزن بڑھانے کے لیے جانور کی شہہ رگ میں

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر