حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) جماعت صحابہ میں آفتاب کی حیثیت رکھتے ہیں آپ کو افضل البشر بعد الانبیاء کا خطاب بھی حاصل ہے- آپ وہ واحد صحابی ہیں جن کی صحابیت قرآن مجید سے ثابت ہے-آپ کی فضیلت و شان اور کردار کا تذکرہ احادیث مبارکہ میں تو آیا ہی ہے لیکن ان کے اوصاف وکمالات کاتذکرہ قرآن مجید کے کئی ایک مقامات پر بھی ملتا ہے-جن کی بنا پر آپ کے مقام و مرتبہ کا اعتراف کئے بغیر انسان کے پاس کوئی چارہ نہیں رہ جاتا-زیر نظر مضمون میں ہم قرآن و حدیث سے چند ان مقامات کی نشاندہی کریں گے جہاں آپ کا تذکرہ ملتا ہے-
سیدنا صدیق اکبر(رضی اللہ عنہ) کو یہ اعراز حاصل ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) جو دین بر حق لے کر آئے آپ سب سے پہلے اس کی تصدیق کرنے والے ہیں اور آپ کی اس تصدیق کا اشارہ ہمیں اس آیت کریمہ سے بھی ملتا ہے:
’’وَالَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِہٖٓ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُوْنَ ‘‘[1]
’’ اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جنہوں نے ان کی تصدیق کی یہی ڈر والے ہیں‘‘-
امام ابو جعفر محمد بن جریر طبریؒ اس آیت کے تحت مختلف اقوال بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ ایک قول یہ بھی ہے کہ :
’’حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا سچے دین کو لانے والے رسول اللہ (ﷺ) ہیں اور اس کی تصدیق کرنے والے حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) ہیں‘‘-[2]
امام فخر الدین رازی اس آیت کے تحت لکھتے ہیں کہ:
’’حضرت علی (رضی اللہ عنہ)اور مفسرین کی ایک جماعت سے منقول ہے کہ صدق لانے والے محبوب کریم (ﷺ) ہیں اور تصدیق کرنے والے حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) ہیں‘‘-[3]
آقا کریم (ﷺ)نے جب سے اعلان نبوت کیاتھا تب سے کفار نے آپ پر اور آپ کے متبعین پر زمین تنگ کر دی تھی یہاں تک کہ وہ آپ کی جان کے دشمن ہو گئے توآپ (ﷺ) کو ہجرت کا حکم ہوا محبوب کریم (ﷺ) نے حضرت ابوبکر صدیق کو ساتھ لیا اور غار ثور میں پناہ لی -اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر اپنی لاریب کتاب میں یوں کیا:
’’اِلَّا تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللہُ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ ہُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللہَ مَعَنَاج فَاَنْزَلَ اللہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلَیْہِ وَاَیَّدَہٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْہَا وَجَعَلَ کَلِمَۃَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا السُّفْلٰیط وَکَلِمَۃُ اللہِ ہِیَ الْعُلْیَا ط وَاللہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ ‘‘[4]
’’ اگر تم نے رسول کی مدد نہیں کی تو بیشک اللہ ان کی مدد کرچکا ہے- جب کافروں نے ان کو بےوطن کردیا تھا- درآں حالیکہ وہ دو میں سے دوسرے تھے، جب وہ دونوں غار میں تھے جب وہ اپنے صاحب سے فرما رہے تھے، غم نہ کرو، بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے، سو اللہ نے ان پر طمانیت قلب نازل کی اور ان کی ایسے لشکروں سے مدد فرمائی جن کو تم نے نہیں دیکھا اور کافروں کی بات کو نیچا کردیا اور اللہ کا دین ہی بلند وبالا ہے، اور اللہ بہت غلبہ والا بڑی حکمت والا ہے‘‘-
یہ آیت مبار کہ سید ناصدیق اکبر(رضی اللہ عنہ) کی فضیلت و شان پر بڑی واضح اور روشن دلیل ہے- اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آیت میں ’’ ثَانِیَ اثْنَیْنِ‘‘ اور ’’لِصَاحِبِہٖ‘‘ سے مراد صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) کی ذات ہے- لصاحبہ کے الفاظ صحابیت صدیق اکبر پر واضح دلیل ہیں-
اسی لیے تو امام سمعانی، امام بغوی، امام قرطبی اور دیگر کئی مفسرین نے لکھا ہےکہ حضرت ابوبکر صدیق(رضی اللہ عنہ) کا صحابی ہونا قرآن کریم سے ثابت ہے-
مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کو ’’ ثَانِیَ اثْنَیْنِ‘‘ (دو میں سے دوسرا ) فرمایا ہے اگر ہم غور کریں تو دین کے اکثر مناصب میں حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) آپ (ﷺ) کے ثانی تھے-پہلے نبی پاک نے حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ)کو اسلام کی دعوت دی اور وہ مسلمان ہو گئے پھر حضرت ابوبکر صدیق نے حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور حضرت عثمان بن عفان (رضی اللہ عنہ) کو اسلام کی دعوت دی اور وہ مسلمان ہو گئے تو اس طرح اسلام کی دعوت دینے میں اول حضور نبی کریم (ﷺ) کی ذات اور ثانی صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ)تھے- اسی طرح ہر غزوہ میں آپ رسول الله (ﷺ)کے ساتھ اور آپ (ﷺ) کی خدمت میں حاضر رہے اس طرح وہ غزوات میں بھی ’’ ثَانِیَ اثْنَیْنِ‘‘ ہیں -جب رحمت دو عالم(ﷺ) بیمار ہوئے تو آپ (ﷺ)نے سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) کو امام مقرر فرمایا- پس امامت میں بھی حضرت ابوبکر ’’ثَانِیَ اثْنَیْنِ‘‘ ہیں اور جب حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کا وصال ہوا تو وہ آپ کے پہلو میں دفن ہوئے تو قبر میں بھی صدیق اکبر ’’ ثَانِیَ اثْنَیْنِ‘‘ہیں -
حدیث مبارکہ میں ہے کہ سب سے پہلے قبر سے رسول (ﷺ)اٹھیں گے اور آپ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) اٹھیں گے -[5]
جنت میں بھی سب سے پہلے آقا کریم (ﷺ) داخل ہوں گے اور امت میں سب سےپہلے حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ)داخل ہوں گے -[6]
خلا صہ یہ ہے کہ تبلیغ دین، ہجرت، مغازی، امامت، امارت،قبر، حشر، دخول جنت اور تمام اہم دینی مناصب میں اول رسول اکرم (ﷺ) کی ذات ہے اور ثانی حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ)ہیں-
حضرت ابوبکرصدیق(رضی اللہ عنہ) ہمیشہ رضائے الٰہی کے متلاشی رہتے تھے آپ اس کے حصول کیلئے بڑی سےبڑی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے-لہذا ’’انفاق فی سیبل اللہ‘‘ نہ صرف اُن کا جذبہ تھا بلکہ وہ ایک معمول بن چکا تھا- آپ نے کئی ایسے غلاموں کو خرید کر اللہ تعالیٰ کی رضاکیلئے آزاد کردیا کہ جن کو محض اس لیے سزائیں اور تکلیفیں دی جاتی تھیں کہ وہ مسلمان ہو چکے تھے -اُ ن غلاموں میں حضرت بلال اور حضرت عامر بن فہیرہ سرفہرست ہیں-
آپؒ کا غلاموں کو خرید کر آزاد کرنے کا مقصد صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور تقوی تھا- اللہ تعالیٰ نے آپ کے اس وصف کو سورۃ اللیل کی چندآیات میں یوں بیان فرمایا ہے:
’’فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَ اتَّقٰیۙ وَ صَدَّقَ بِالْحُسْنٰی فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْیُسْرٰی‘‘[7]
’’ پس جس نے ( اللہ کی راہ میں) دیا اور اللہ سے ڈر کر گناہوں سے بچتا رہا-اور نیک باتوں کی تصدیق کرتا رہا- پس عنقریب ہم اس کو آسانی ( جنت) مہیا کریں گے ‘‘-
امام ابو للیث سمرقندی ،امام سمعانی ،امام قرطبی اور امام خازن(رضی اللہ عنہ) نے اپنی تفاسیر میں اس آیت کریمہ کے تحت لکھا ہے کہ:
’’جب حضرت ابوبکرصدیق نے حضرت بلال کو امیہ بن خلف اور ابی بن خلف سے ایک چادر اور دس اوقیہ سونے کے عوض خرید کر اللہ کی رضا کیلئےآزاد کردیا تو اُس وقت یہ آیات نازل ہوئیں‘‘-[8]
تو ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے آپ کی بالکل واضح شان بیان فرمائی ہے کہ انہوں نے اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کیا اور حضرت بلال کو امیہ بن خلف سے مہنگی قیمت پر خرید کر آزاد کیا ان کو ہم جنت عطا فرمائیں گے -
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے سورۃ اللیل کی آخری چند آیات میں بھی اُن کی شان اور اُن کے انفاق فی سبیل کے مقصد کو بیان کیاہے-ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَ سَیُجَنَّبُہَا الْاَتْقَی الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَہٗ یَتَزَکّٰی وَ مَا لِاَحَدٍ عِنْدَہٗ مِنْ نِّعْمَۃٍ تُجْزْٓی اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْہِ رَبِّہِ الْاَعْلٰی وَ لَسَوْفَ یَرْضٰی ‘‘[9]
’’اور عنقریب اس دوزخ سے سب سے زیادہ ڈرنے والے کو دور رکھا جائے گا - جو اپنا مال اپنے باطن کو پاک کرنے کے لیے دیتا ہے -اور اس پر کسی کا کوئی ( دنیاوی) احسان نہیں جس کا بدلہ دیا جائے- مگر اس کا مال دینا صرف اپنے رب اعلیٰ کی رضا جوئی کے لیے ہے- اور عنقریب اس کا رب ضرور راضی ہوگا‘‘-
امام سمعانی ،امام بغوی اور امام فخرالدین رازی(رحمتہ اللہ عنھم) فرماتے ہیں کہ اس بات پر اجماع ہےکہ یہ آیات حضرت ابوبکر صدیق کے بارے نازل ہوئی ہیں -
ان آیات میں بالکل واضح کردیاگیا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) پر کسی کا کوئی دنیاوی احسان نہیں تھا کہ جس کی وجہ سے وہ اُن پر اپنا مال خرچ کررہے تھے بلکہ ان کے مال خرچ کرنے کا مقصد صرف باطن کی پاکیزگی اور رضائے الٰہی تھا -
سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) کی ایک منفرد فضلیت اور خصوصیت یہ بھی ہےکہ آپ مہاجرین اور انصار میں سے وہ واحد صحابی ہیں کہ جو خود بھی اسلام لائے اُن کے والدین بھی اسلام لائے اور اُن کے بیٹے اور بیٹیاں بھی اسلام لائے ، آپ اس نعمت کے عطا ہونے پر اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بھی ہُوئے تو مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کی اس شکر گزاری کا ذکر قرآن مجید کی اس آیت مبارک میں کیا ہے:
’’حَتّٰٓی اِذَا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَ بَلَغَ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً ۙ قَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِیْٓ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَ عَلٰی وَالِدَیَّ وَ اَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰہُ وَ اَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْج اِنِّیْ تُبْتُ اِلَیْکَ وَ اِنِّیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ‘‘[10]
’’ حتیٰ کہ جب وہ اپنی پوری قوت کو پہنچا اور چالیس برس کا ہوگیا تو کہا اے میرے رب ! مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ کو اور میرے ماں باپ کو عطا فرمائی ہے اور میں ایسے نیک کام کروں جن سے تو راضی ہو اور تو میری اولاد میں بھی نیکی رکھ دے، بیشک میں نے تیری طرف رجوع کیا اور بیشک میں اطاعت گزاروں میں سے ہوں‘‘-
اکثر مفسرین نے کہا ہے کہ اس آیت میں جس شخصیت کا ذکر ہو رہا ہے اس کا مصداق ابوبکرصدیق (رضی اللہ عنہ) ہیں- مُلّا جار اللہ زمخشری فرماتے ہیں کہ:
یہ آیت حضرت ابوبکر اُن کے والد ابو قحافہ ان کی والدہ اُم الخیر اور ان کی اولاد کے متعلق نازل ہُوئی ہے اور اُن کی دُعا کے مقبول ہونے کے بیان میں ہے کیونکہ مہاجرین اور انصار میں کوئی صحابی ایسا نہیں تھا جو خود بھی اسلام لایاہو اور اُس کے والدین، بیٹے اور بیٹیاں بھی اسلام لائے ہوں ماسوا حضرت ابوبکر صدیق کے-[11]
اسی طرح امام بغوی، امام فخر الدین رازی، امام ابن جوزی، امام بیضاوی،امام نسفی، امام خازن اور مفتی بغداد علامہ سید محمود آلوسی (رحمتہ اللہ علیھم)نے اپنی اپنی تفاسیر میں لکھا ہےکہ یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ)کے بارے نازل ہُوئی ہے-
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر سیدنا صدیق اکبر کی افضلیت اور اُن کے مقدم ہونےکو بیان کیا ہے-فرمان باری تعالیٰ ہے :
’’وَ مَا لَکُمْ اَلَّا تُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَ لِلہِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ط لَا یَسْتَوِیْ مِنْکُم مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قٰتَلَ ط اُولٰٓئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَ قٰتَلُوْا ط وَکُلًّا وَّعَدَ اللہُ الْحُسْنٰی ط وَ اللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْر‘‘[12]
’’ اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے حالانکہ اللہ ہی کے لیے آسمانوں اور زمینوں کی وراثت ہے، ( اے مسلمانو ! ) تم میں سے کوئی بھی ان کے برابر نہیں ہوسکتا جنہوں نے فتح (مکہ) سے پہلے ( اللہ کی راہ میں) خرچ کیا اور (کافروں سے) قتال کیا، ان کا (ان مسلمانوں سے) بہت بڑا درجہ ہے جنہوں نے بعد میں (اللہ کی راہ میں) خرچ کیا اور (کافروں سے) قتال کیا، اللہ نے ان سب سے اچھے انجام کا وعدہ فرمایا ہے، اور اللہ تمہارے تمام کاموں کی خوب خبر رکھنے والا ہے‘‘-
اما ثعلبی،امام واحدی،امام بغویؒ اپنی تفاسیر میں امام کلبیؒ کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ:
’’یہ آیت مبارکہ حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ)کے بارے نازل ہوئی ہے‘‘-[13]
امام فخر الدین رازیؒ فرماتےہیں کہ علامہ کلبیؒ نے فرمایا کہ:
’’یہ آیت کریمہ حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ)کی فضلیت میں نازل ہوئی ہے کیونکہ وہ پہلے شخص ہیں کہ جنہوں نے آپ کی ذات مبارکہ پر اپنا مال خرچ کیا -یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے جو شخص پہلے اسلام لے آیا اور جس نے پہلے جہاد کیا اور فتح مکہ سے پہلے اسلام کی راہ میں خرچ کیا وہ بعد والوں سے افضل ہے کیونکہ اس کو آقا کریم (ﷺ) کی مدد کا عظیم موقع نصیب ہُوا-اُس نے اُس وقت مال خرچ کیا جب مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی اور کفار کی تعداد بہت زیادہ تھی اور اُس وقت مسلمانوں کو مدد اور معاونت کی بہت ضرورت تھی اس کے بر خلاف فتح مکہ کے بعد اسلام قوی ہوچکا تھا اور کفر بہت ضعیف تھا ‘‘-[14]
اب صاف ظاہر ہے سب سے پہلے اسلام لانے والے، قتال کرنے والے اور فتح مکہ سے پہلے بہت زیادہ مال خرچ کرنے والے حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ)ہیں تو لہذا اُن کیلئے اعظم درجہ اور الحسنی کا وعدہ کیا گیا ہے -
سیدنا صدیق اکبر کا اپنے محبوب کریم (ﷺ) کا ادب و احترام کمال درجے کا تھا اُن کے ادب مصطفے(ﷺ) کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایاجاسکتاہے کہ جب سورۃ الحجرات کی یہ آیت کریمہ نازل ہوئی جس میں اللہ تعالیٰ نے مؤمنین کو محبوب(ﷺ) کے سامنے اپنی آواز وں کو پست رکھنے کا حکم فرمایا تو اُس کے بعد آپ رسول اکرم (ﷺ)کے سامنے اپنی آواز اتنی پست رکھتے تھے کہ جیسے سرگوشی کی جاتی ہے اللہ تعالیٰ کو یہ ادااتنی پسند آئی کہ یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی :
’’اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَہُمْ عِنْدَ رَسُولِ اللہِ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللہُ قُلُوْبَہُمْ لِلتَّقْوٰی ط لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ ‘‘[15]
’’بیشک جو لوگ رسول اللہ (ﷺ) کے سامنے اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں، بیشک یہ وہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لیے پرکھ لیا ہے، ان ہی کے لیے مغفرت اور اجر عظیم ہے‘‘-
امام بغویؒ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ)سے مروی ہے کہ:
’’جب یہ فرمان مبارک نازل ہُوا کہ تم اپنی آوازوں کو نبی پاک(ﷺ) کی آواز سے بلند نہ کرو تو حضرت ابوبکر صدیق بہت دھیمی آواز میں آپ سے کلام کرتے تھے تو اُس وقت یہ آیت مبارکہ (آوازیں دھیمی کرنے والوں کی تحسین میں ) نازل ہُوئی ‘‘- [16]
امام نسفی، امام زمخشری اور امام قرطبیؒ فرماتےہیں کہ آیت مبارکہ حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمرفاروق کے بارے نازل ہُوئی ہے کیونکہ یہ دونوں حضرات اپنی آوازوں کو پست رکھتے تھے ،اس آیت مبارکہ کے تحت مفتی احمد یار خان نعمییؒ نےخوبصورت تبصرہ فرمایاہے کہ:
’’یہ آیت مبارکہ حضرت ابوبکرصدیق اور حضرت عمر فاروق کے حق میں نازل ہُوئی کیونکہ یہ حضرات پچھلی آیت اترنے کے بعد نہایت ہی دھیمی آواز سے گفتگو کرتے تھے - جب اس کے بعد والی آیت مباک نازل ہوئی تو معلوم ہُوا کہ تمام عبادات بدن کا تقوٰی ہیں اور ادب مصطفے (ﷺ) دلوں کا تقوی ہے -
اس سے یہ بھی معلوم ہُوا حضرت ابوبکر صدیق اور عمرفاروق کی بخشش ایسی ہی یقینی ہے جیسے اللہ کا ایک ہونا یقینی ہے کیونکہ رب تعالیٰ نےاُن کی بخشش کا اعلان فرمادیا ، یہ بھی معلوم ہُوا کہ ان دونوں بزرگوں کا ثواب واجر ہمارے خیال ووہم سےبھی بالاتر ہے کہ رب تعالیٰ نے اُسے عظیم فرمایا تما م دنیا قلیل ہے مگراُن کا ثواب عظیم ہے‘‘-[17]
اب چند احادیث مبارکہ پیش کرتےہیں کہ جو آپ کی شان و مقام اور کردار کے بارے آئی ہیں- سیدنا صدیق اکبر نے اپنا تن ،من ،دھن محبوب کریم (ﷺ) کی ذات پر ایسا قربان کیا کہ خود آقائے دوجہاں (ﷺ)نے اُس احسان کا ذکر فرمایا-حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ:
’’ ہم پر کسی کا احسان نہیں مگر ہم نےاُس کا بدلہ دے دیا سوا ئےابوبکر کےکہ ہم پر اُن کا احسان ہے اللہ انہیں اس کا بدلہ قیامت کے دن عطا فرمائے گا مجھے کسی مال نے اتنا نفع نہیں دیا جتنا ابوبکر کے مال نے نفع دیا اگر میں کسی کو دوست بناتا تو ابوبکر کو دوست بناتا- خیال رکھو تمہارے صاحب اللہ کے دوست ہیں‘‘-[18]
حضرت ابو بکر صدیق(رضی اللہ عنہ) نےآقا کریم (ﷺ) کے ساتھ ایسی دائمی سنگت و رفاقت اختیار کی اور اُن کے ساتھ ایسا تعلق مضبوط کیا کہ آقاکریم (ﷺ) نے بھی دنیا و آخرت میں انہیں اپنا ساتھی قراردیا -
حضرت عمرفاروق (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم(ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’ اے ابوبکر تم میرے غار کے بھی ساتھی ہو اور حوض پر بھی میرے ساتھی ہو‘‘-[19]
حضرت ابوبکر صدیق کا اخلاص اور توکل علی اللہ کمال درجے کا تھا آپ اس وصف میں اتنے نمایاں تھے کہ کوئی بھی شخص اس وصف میں آپ سے سبقت نہیں لے سکتا تھا - آپ متوکلین کیلئے مشعل راہ ہیں-
حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ)محبوب کریم (ﷺ) کے ساتھ دائمی صحبت رکھنے کی وجہ سے صحابہ میں سب سے زیادہ صاحب علم تھے اور آقاکریم(ﷺ) کے صاحب راز تھے- بعض اوقات آقاکریم (ﷺ)کے اشارات وکنایات دوسرے صحابہ نہ سمجھ پاتے لیکن صدیق اکبر اُن کو سمجھ جاتے تھے- جیسا کہ امام مسلم نے ایک حدیث پاک نقل فرمائی ہے کہ حضرت ابو سعید خُدری سے روایت ہے کہ محبوب کریم (ﷺ) منبرپر جلوہ افروز ہُوئے اور فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ نے ایک بندے کو اختیار دیاہے کہ وہ دنیا کی نعمتیں لےلے یا اللہ کے پاس رہے تو اُس بندے نےاللہ کے پاس رہنا اختیار کرلیا ہے- یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق روئے اور عرض کی کہ ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں جب رونے کی وجہ پوچھی گئی تو فرمایا جس شخص کو اختیا ر دیاگیاہے وہ آپ کی ذات ہے ،راوی فرماتےہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق ہم میں سے سب سے زیادہ علم والے تھے ‘‘-[20]
سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) حقوق اللہ اورحقوق العباد کا بہت زیادہ اہتمام کرتے تھے -مسکینوں کو کھانا کھلانے اور مریضوں کی عیادت کرنے میں پیش پیش رہتے تھے -جس کی بنا پر ھادی برحق نے انہیں جنت کی بشارت بھی عطا فرمائی -
حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہےکہ رسول اکرم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ :
’’تم میں سے آج کون روزے دار ہے؟ حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) نے عرض کی مَیں- آپ (ﷺ)نے فرمایا: تم میں سے آج کس نے مسکین کو کھانا کھلایا؟آپ (رضی اللہ عنہ)نے عرض کی میں نے- پھر حضور(ﷺ) نے فرمایا تم میں سے آج کس شخص نے مریض کی عیادت کی؟آپ (رضی اللہ عنہ)نے پھر عرض کی میں نے تو اُس وقت محبو ب کائنات (ﷺ) نے ارشاد فرمایا جس شخص میں یہ اوصاف جمع ہوں گے وہ شخص جنتی ہوگا‘‘- [21]
آپ (رضی اللہ عنہ)حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں اس قدر ڈوبے ہُوئے تھے کہ آپ (ﷺ)نے نہ صرف انہیں جنت کی بشارت دی بلکہ یہ بھی انعام عطا فرمایا کہ تم جنت کے سارے دروازوں سے بلائے جاؤگے -
امام بخاری حضرت ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو یہ فرماتے ہُوئے سنا ہے کہ:
’’ جو شخص اللہ کی راہ میں ایک چیز کا جوڑا خرچ کرے تو اُسے جنت کے سب دروازوں سےبلایا جائے گا - اے اللہ کے بند ے یہ بہت بڑی خیر ہے جو نمازی ہے اُسے باب الصلوٰۃ سے پکاراجائے گا ،جو مجاہد ہے اُسے باب الجہاد سے پکارجائے گا، جو خیرات کرتا ہے اُسے باب الخیرات سے اور جو روزہ رکھے اُسے باب الصیام اور باب الریان سے بلایاجائے گا-حضرت ابوبکر صدیق نے عرض کی جو ان سارے دروازوں سے بلایا جائے اُسے ڈر ہی کیا پھر عرض گزار ہُوئے یارسول اللہ (ﷺ) کیا کوئی ایسا بھی ہے جس کو تمام دروازوں سےبلایا جائے گا فرمایا ہاں اے ابوبکر مجھے امید ہے کہ تم ایسے لوگوں میں سے ہو ‘‘-[22]
ایک اور حدیث مبارکہ سے بھی ہوتی ہے -حضرت جبیر بن مطعم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ:
’’ ایک عورت نے کسی چیز کے متعلق آپ سے سوال کیا آپ نےفرمایا پھر آنا اُس نے عرض کی یارسول اللہ (ﷺ) یہ بتلائیں اگر میں آؤ ں اور آپ (ﷺ) کو نہ پاؤں حضرت جبیر کے والد فرماتےہیں ،اس سے اُس کی مراد آپ کا وصال تھا تو آپ نے ارشاد فرمایا اگر تو مجھے نہ پاسکے تو پھر ابوبکر کے پاس آنا ‘‘-[23]
خلاصہ کلام یہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کی ذات مبارکہ عشق و محبت صدق و وفا، ادب، حیا، اخلاق و کردار اور پاسبان اسلام کی پیکر اتم ہے-آپ کی عظمت و برتری کی طرف قرآن کریم نے ہماری رہنمائی فرمائی ہے، اس لئے روح قرآن کا تقاضا یہ ہے کہ آپ کے شرفِ بزرگی کو دل و جان سے قبول کرتے ہوئے اور آپ کے اوصاف سے متصف ہوتے ہوئے ایک صادق کے طور پر معاشرے میں اپنا کردار ادا کریں ، کیونکہ اس وقت معاشرہ کذب بیانی میں اپنی مثال بن چکا ہے -چاہئے وہ پرنٹ میڈیا ہو، الیکٹرانک میڈیا ہو، یا سوشل میڈیا ہو -معاشرے میں کذابوں کی کثرت ہے، قرآن کریم کی صدا یہ ہے کہ صدیق اکبرؓ سے محبت کرنے والے صدق و سچائی کو فروغ دیں- جھوٹے آدمی کا صدیق اکبرؒ سے کوئی تعلق نہیں ہے- آیئے حضور جانشین الفقر حضرت سلطان محمدعلی صاحب کے قافلے کا ہم سفر بن کر صدق کو فروغ دیا جا ئے ، صدیق پیدا کئے جائیں کیونکہ اس وقت معاشرے میں صدیقوں کی ضرورت ہے -
٭٭٭
[1](الزمر:33)
[2](تفسیر طبری، زیر آیت الزمر:33)
[3](تفسیر کبیر، زیر آیت الزمر:33)
[4](التوبہ:40)
[5](سنن ترمذی، باب فی مناقب عمر بن خطاب)
[6](سنن ابی داؤد، باب فی لخلفاء)
[7](اللیل:5-7)
[8](تفسیر سمرقندی، زیر آیات اللیل:5-7)
[9](اللیل :17-21)
[10](الاحقاف:15)
[11](تفسیر کشافہ، زیر آیت الاحقاف:15)
[12](الحدید:10)
[13](تفسیر الثعلبی، زیر آیت الحدید:10)
[14](تفسیر کبیر، زیر آیت الحدید:10)
[15](الحجرات:3)
[16](تفسیر بغوی، زیر آیت الحجرات:3)
[17](نور العرفان، زیر آیت الحجرات:3)
[18]( سنن ترمذی، باب مناقب ابی بکر الصدیق)
[19](ایضاً)
[20](صحیح مسلم، باب من فضائل ابی بکر الصدیق)
[21](ایضاً)
[22](صحیح بخاری، باب قول النبی (ﷺ) لوکنت متخذ اخلیلاً)
[23](صحیح مسلم، باب من فضائل ابی بکر الصدیق)