ذکرِ صدیق اکبر(رضی اللہ عنہ) در تعلیمات حضرت سلطان باھوؒ: مختصر مطالعہ

ذکرِ صدیق اکبر(رضی اللہ عنہ) در تعلیمات حضرت سلطان باھوؒ: مختصر مطالعہ

ذکرِ صدیق اکبر(رضی اللہ عنہ) در تعلیمات حضرت سلطان باھوؒ: مختصر مطالعہ

مصنف: لئیق احمد دسمبر 2025

سیدنا ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کا گھرانہ وہ منفرد شرف رکھتا ہے جو اس کے سوا کسی اور کے نصیب میں نہیں آیا[1]-آپ کی ذاتِ گرامی، آپ کے والد ابو قحافہ، آپ کے فرزند ارجمند عبدالرحمٰن اور آپؓ کے پوتے ابو عتیق محمد بن عبد الرحمن(رضی اللہ عنہ)ان تمام کو جناب رسول اکرم (ﷺ) کے دیدار اور شرفِ صحابیت کا اعزاز حاصل ہوا- آپ (رضی اللہ عنہ) کی صاحبزادیاں اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت اسماء (رضی اللہ عنہا)کو بھی یہ شرف حاصل ہے-

ذکرِ صدیقِ اکبر (رضی اللہ عنہ) در تعلیماتِ حضرت سلطان باھوؒ :

آپؒ نے اپنی نثری اور منظوم (فارسی و پنجابی) تصانیف میں اہل بیت اطہار اور صحابہ کرام(رضی اللہ عنہ)سے اپنی غیر متزلزل عقیدت کا کھل کر اظہار فرمایا ہے- آپؒ کی تمام کتب کا منہج یہ ہے کہ آغاز میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی جاتی ہے، اس کے بعد حضور نبی کریم (ﷺ) کی نعت اور مدحت میں نثری کلمات پیش کیے جاتے ہیں- پھر آپؒ آقا کریم (ﷺ)، اہل بیت اطہار اور صحابہ کرام(رضی اللہ عنھم)پر عموماً جامع الفاظ میں درود و سلام بھیجتے  ہیں- تین مقامات ملاحظہ کیجیئے:

  1. لا محدود درود ہو اشرف المخلوقات ابو القاسم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ و اہل بیتہ اجمعین پر-[2]
  2. صلوٰۃ و سلام ہو اللہ کے آخری نبی حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ)پر، ان کی آل اور ان کے جملہ اصحاب پر جو سب کے سب اہل مغفرت اور اہل رضوان ہیں- [3]
  3. جو آدمی اسمِ اللہ ذات و قرآن و حضور علیہ الصلوٰة والسّلام اور صحابۂ کرام و شریعت وعلماء و فقراء کا ادب و احترام نہیں کرتا وہ ملعون و بے دین ہے- مَیں اِس سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں- [4]

اس مضمون میں تعلیماتِ سلطان العارفین میں ذکرِ صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ)کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے-

آپ(رضی اللہ عنہ) کا قبول ِ اسلام کرنا:

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا)سے مروی ہے کہ فاروقِ اعظم (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ سیدنا صدیقِ اکبر (رضی اللہ عنہ) حضور نبی کریم(ﷺ) کو ہم سب سے زیادہ محبوب تھے، اور ہم سے بہتر اور ہمارے سردار تھے- آپ (رضی اللہ عنہ) گفتگو کرتے رہے یہاں تک کہ فرمایا : مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے حضرت ابو بکر تھے[5]-

حضرت سلطان باھوؒ اپنی تصنیف ’’عین الفقر‘‘ میں ’’السابقون الاولون‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’حدیثِ قدسی میں فرمانِ الہٰی ہے: ”اے محبوب (ﷺ) ! اگر آپ نہ ہوتے تو مَیں اپنی ربوبیت ہی ظاہر نہ کرتا“- حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر جس نے سب سے پہلے کلمہ طیب پڑھا وہ خود اللہ تعالیٰ نے پڑھا پھر حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کی روح مبارک نے پڑھا اور پھر حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ کی روح مبارک شکم مادر ہی میں مسلمان ہوئی اور اُس نے کلمہ طیب ”لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ“ پڑھا- اِس کے بعد دیگر صحابۂ کرام(رضی اللہ عنھم)معجزۂ ایمان سے مشرف ہوئے‘‘- [6]

(نوٹ:یہاں کلمہ پڑھنے سے مراد اس  طرح کلمہ پڑھنا  نہیں ہے، جس طرح آدمی پڑھتا ہے  کیونکہ اس  طرح کلمہ پڑھنے   سے اللہ  تعالی پاک ہے ، بلکہ  اس مراد حضور نبی کریم (ﷺ) کی نبوت و رسالت کی گواہی دینا  ہے  اور سب سے پہلے آپ (ﷺ) کی نبوت و رسالت کی گواہی  اللہ تعالیٰ نے دی ہے ، جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’لٰکِنِ اللہُ یَشْہَدُ بِمَآ اَنْزَلَ اِلَیْکَ اَنْزَلَہٗ بِعِلْمِہٖ ج وَالْمَلٰٓئِکَۃُ یَشْہَدُوْنَط وَکَفٰی بِاللہِ شَہِیْدًا‘‘[7]

’’لیکن اے محبوب! اللہ اس کا گواہ ہے جو اس نے تمہاری طرف اتارا ،وہ اس نے اپنے علم سے اتارا ہے اور فرشتے گواہ ہیں اور اللہ کی گواہی کافی   ہے‘‘-

اس آیت  کریمہ میں اللہ تعالیٰ کی شہادت (گواہی) موجود ہے کہ جو کچھ محمد (ﷺ) پر اتارا گیا وہ حق ہے، اور یہی رسالت و نبوت  کی تصدیق ہے-

اسی طرح ’’سورۃ المنافقون ‘‘  میں ہے :

’’ وَ اللہُ یَعْلَمُ  اِنَّکَ لَرَسُوْلُہٗ‘‘[8]

’’اور اللہ جانتا ہے کہ تم اس کے رسول ہو ‘‘-

یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کی رسالت کی تصدیق کی ہے-قرآن  کریم کی نصِّ قطعی یہی بتاتی ہے کہ رسالت کی اصل گواہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے-یعنی اللہ  تعالیٰ نے رسول اللہ (ﷺ) کو نبوت عطا کی، آپ (ﷺ) پر وحی اتاری، اور وحی کے ذریعے خود اعلان کیا کہ آپ (ﷺ)اس کے رسول ہیں- انسانوں اور جنّات کی تصدیق بعد میں ہوئی-

جس طرح  الاحزاب کی  آیت : 56 میں ،درود شریف پڑھنے کی نسبت اللہ تعالی کی طرف کی  گئی   ہے، تو اس  سے ایسا پڑھنا مراد نہیں ہے ،جس طرح آدمی درود شریف پڑھتا ہے ، بلکہ  اللہ  تعالیٰ کے پڑھنے سے مراد   رحمت اور سلامتی   ہوتا ہے -)

راہِ فقر میں اسمِ حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کی برکت:

حضرت ابو یحیٰی سے مروی ہے کہ:

’’انہوں نے حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ)کو قسم اُٹھا کر کہتے ہوئے سُنا کہ حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کا لقب ’صدیق‘ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے نازل فرمایا‘‘- [9]

امّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ :

’’جسے آگ سے آزاد محفوظ شخص دیکھنا پسند ہو وہ ابوبکر (رضی اللہ عنہ)کو دیکھ لے اور آپ (رضی اللہ عنہ) کا نام گھر والوں نے عبد اﷲ بن عثمان بن عامر بن عمرو رکھا تھا پھر اِس پر عتیق کا لقب غالب آگیا‘‘-[10]

 سلطان باھو قدس اللہ سرّہٗ فرماتے ہیں کہ :

’’جو سالک راہِ فقر میں قدم رکھتا ہے اور اس کے وجود میں ’’اسم اللہ ذات یا ننانوے اسمائے باری تعالیٰ یا کلمہ طیب لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ یا اسمِ حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) یا اسمِ حضرت عمر فاروق(رضی اللہ عنہ) یا اسمِ حضرت عثمان غنی (رضی اللہ عنہ) یا اسمِ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہٗ یا حروفِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم تاثیر کرتے ہیں، اُسے نفع و جمعیّت بخش کر لایحتاج کر دیتے ہیں اور اُسے مراتبِ حضوری سے مشرف کردیتے ہیں‘‘- آپؒ فرماتے ہیں کہ ان اسمائے پاک کی برکت سے سالک ’’معرفتِ الہٰیہ حاصل کر لیتا ہے اور اُس کا قلب و قالب نوربن جاتا ہے‘‘- [11]

اسی طرح ایک مقام پر آپؒ فرماتے ہیں کہ:

’’عامل جب کامل ہوجائے یعنی کامل باشرع اور ظاہر و باطن میں ہوشیار و خبردار ہوجائے تو’’ حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمرؓ بن خطاب، حضرت عثمانؓ، حضرت علی المرتضٰی کرم اللہ وجہہٗ، حضرت امام حسنؓ، حضرت امام حسینؓ، حضرت شاہ محی الدین قدس سرہ العزیز، حضرت امام اعظمؒ، حضرت امام شافعیؒ، حضرت امام مالکؒ، حضرت امام حنبلؒ کے اسمائے مبارکہ کی حاضرات کے ذریعے اُن سے ملاقات کرسکتا ہے‘‘- [12]

پیکرِ صدق و عین شریعت :

حضرت سیدنا ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ آقا کریم  (ﷺ) نے حضرت جبریلؑ سے ارشاد فرمایا کہ :

’’اے جبریل! میری قوم (واقعہ معراج میں) میری تصدیق نہیں کرے گی- جبریلؑ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ(ﷺ)، ابوبکر (رضی اللہ عنہ)آپ کی تصدیق کریں گے اور وہ صدیق ہیں‘‘-[13]

حضرت سلطان باھو قدس اللہ سرّہٗ بیان فرماتے ہیں کہ :

’’جناب سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) کو بارگاہِ رسالت (ﷺ)  سے صدق کی دولت نصیب ہوئی‘‘-

صدق صديق و عدل عمر پُر حيا عثمان بود
گوئی فقرش از محمدؐ شاهِ مردان می ربود

”صدیقؓ نے صدق،عمرؓ نے عدل ،عثمانؓ نے حیا اور شاہِ مرداں حضرت مولیٰ علیؓ نے حضور علیہ الصلوٰۃُ والسلام سے فقر کی دولت پائی“ -[14]

حضرت سلطان باھوؒ کی تعلیمات میں مقامِ فقر کو اظہر من الشمس کرکے بیان کیا گیا ہے- آپؒ کے نزدیک صاحبِ فقر کی پہچان کن صفات سے ہوتی ہے،اس اقتباس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے- آپؒ فرماتے ہیں:

’’فقیر میں چارصفات اصحابِ کبار کی پائی جاتی ہیں: ایک صدیقِ اکبر (رضی اللہ عنہ) کی صفتِ صدیق، دوسری حضرت عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) کی صفتِ محاسبٔہ نفس، تیسری حضرت عثمانِ غنی (رضی اللہ عنہ) کی صفتِ حیا اور چوتھی حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کی صفتِ علم و جود وسخا‘‘- [15]

حضرت سلطان باھو قدس اللہ سرّہٗ نے اپنی تصنیف میں طالبِ مولیٰ کی یہ نشانی بیان فرمائی ہے کہ اس کا وجود صدق و عدل و حیاء و رضا سے متصف ہوتا ہے - فرمانِ سلطان باھوؒ ملاحظہ ہو:

’’طالبِ مولیٰ کے کیا معنی ہیں؟ طواف کنندۂ دل، اہل ِ ہدایت کہ جس کے دل میں صدق ہو جیسے کہ صاحبِ صدق حضرت ابو بکر صدیق(رضی اللہ عنہ)، جیسے کہ صاحبِ عدل حضرت عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ)، جیسے کہ صاحبِ حیا حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ)، جیسے کہ صاحبِ رضا حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کہ یہ تمام طالبانِ مولیٰ مذکر ہیں‘‘ - [16]

اسی طرح ایک اور مقام پر حضرت سلطان باھو قدس اللہ سرّہٗ نے جب ’’حق چار یار‘‘  کا پرچار فرمایا تو خصائل و فضائل کو انِ بیش بہا موتیوں میں پرویا:

’’جان لے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) شریعت ہیں، حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) طریقت ہیں، حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) حقیقت ہیں، حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم معرفت ہیں اور حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام سرّ ہیں- حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) صدق ہیں، حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) عدل ہیں، حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) حیا ہیں، حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم جودو کرم ہیں اور حضور علیہ الصلوٰة والسلام فقر ہیں-

بیت: ”صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) صاحبِ صدق ہوئے، حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) صاحبِ عدل ہوئے، حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) صاحبِ حیا ہوئے اور شاہِ مردان حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فقر کی بازی جیتی‘‘ -[17]

آپؒ اپنی تعلیمات میں اسم اللہ ذات کے خاص الخاص علم کی منتقلی پر بحث فرماتے ہوئے صدقِ حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کا ذکریوں فرماتے ہیں :

’’حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے:’’ہر مکتوب کا اسم اُس کی گٹھلی اور علم اُس کا مغز ہوتا ہے‘‘- اِسی طرح یہ علمِ کل قرب بقرب، حضور بحضور، نور بنور، غفور بغفور، توفیق بتوفیق، تحقیق بہ تحقیق اور تصدیق بتصدیق منتقل ہوتا رہتا ہے، جیسا کہ صدقِ حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ)، عدلِ حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ)، حیائے حضرت عثمان غنی (رضی اللہ عنہ)، علمِ حضرت علی (رضی اللہ عنہ) اور فقر و خُلقِ محمدی (ﷺ)  منتقل ہوتا چلا آرہا ہے- اسمِ اللہ ذات کی تاثیر سے دل روشن ہوتا ہے اور طالب اللہ کے وجود میں ایسا لامتناہی و لاریب ہدایت بخش علمِ غیب الغیب پیدا ہوجاتا ہے جو فیض وفضل کا نعم البدل اور عطائےالٰہی ہوتا ہے‘‘- [18]

سید کی پہچان اور صدقِ ابوبکر(رضی اللہ عنہ):

اس میں کسی کو کوئی شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ حضور نبی اکرم (ﷺ) کی آل پاک سادات ہر نسل سے فضیلت والی نسل اور قابلِ تقدیس ہے-سلطان باھُو صاحبؒ اصل سید کی پہچان کتنے ہی خوب انداز سے کراتے ہیں، ملاحظہ ہو:

’’سیّد کی پہچان یہ ہے کہ وہ شریعت کا عامل ہو، قدمِ محمدی (ﷺ) پر گامزن ہو،خُلقِ محمدی (ﷺ) سے آراستہ ہو، صدق میں صدیقِ اکبر (رضی اللہ عنہ)، جیسا صاحبِ صدق ہو، عدل میں حضرت عمر (رضی اللہ عنہ)، جیسا صاحبِ عدل ہو، حیا میں حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ)، جیسا با حیا ہو اور شجاعت میں حضرت علی (رضی اللہ عنہ)، جیسا شجاع ہو، جہاد میں حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) جیسا مجاہد ہو، ترکِ دنیا میں حضرت فاطمۃ الزہرہ (رضی اللہ عنہا) جیسا تارکِ دنیا ہو اور سعادت ورضا وارادت میں حضرت امام حسن و حضرت امام حسین (رضی اللہ عنھم) کا نمونہ ہو- سن! آدمی کے وجود میں روح بایزیدؒ ہے، نفس یزید ہے اور قلب شہیدِ کامل حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) ہے- اے حق شناس! خود سے انصاف کر اور توحید (اسمِ اللہ ذات) کی تلوار سے نفسِ یزید کوقتل کر دے‘‘- [19]

صدیقِ اکبر (رضی اللہ عنہ)کی نگاہِ کاملہ کی برکت:

علمِ تصوف کی قندیلوں کےآشنا پرست اس راز سے محروم نہیں ہیں کہ باطن میں مجلسِ محمدی (ﷺ)  تک رسائی حاصل کرنا ممکن ہے-بشرطیکہ طالب کے وجود میں ماسویٰ اللہ کچھ باقی نہ رہے-حضرت سلطان باھوؒ اس باطنی طیر و سیر کی روحانی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’جب کوئی طالب اللہ حضور علیہ الصلوٰة والسلام کی مجلس میں داخل ہوتا ہے تو اُس پر چار نظروں کی تاثیر وارد ہوتی ہے ، حضرت صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) کی نظر سے اُس کے وجود میں صدق پیدا ہوتا ہے اور جھوٹ و نفاق اُس کے وجود سے نکل جاتا ہے- حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) کی نظر سے عدل اور محاسبۂ نفس کی قوت پیدا ہوتی ہے اور اُس کے وجود سے خطراتِ ہوائے نفسانی کا خاتمہ ہو جاتا ہے- حضرت عثمانِ غنی  (رضی اللہ عنہ) کی نظر سے ادب و حیا پیدا ہوتا ہے اور اُس کے وجود سے بے ادبی و بے حیائی ختم ہو جاتی ہے اور حضرت علی (رضی اللہ عنہ)کی نظر سے علمِ ہدایت و فقر پیدا ہوتا ہے اور اُس کے وجود سے جہالت اور حُبِّ دنیا کا خاتمہ ہو جاتا ہے‘‘ - [20]

دوسرے مقام پر  مجلسِ محمدی (ﷺ) کے احوال اور مقامِ فقر کے متعلق حضرت سلطان باھو قدس اللہ سرّہٗ نے یوں بیان فرمایا:

’’آنحضرت (ﷺ) تصّور اسم اللہ ذات کی کُنہ کی تلقین عطا فرماتے ہیں - بعد ازاں حضرت صدّیق اکبرؓ ( نگاہ سے) صدق بخشتے ہیں اور حضرت عمرؓ عدل بخشتے ہیں- پھر حضرت عثمانؓ حیا بخشتے ہیں اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہاتھ پکڑ کر سلطان الفقر کے حوالے کر دیتے ہیں اور حضرت محمّد (ﷺ)خُلق بخشتے ہیں - (پھر) فقر کا مرتبہ نصیب ہوتا ہے‘‘ - [21]

حرفِ آخر:

حضرت حسان بن ثابت (رضی اللہ عنہ) ذکرِ صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ)  اس شان سے کرتے ہیں:

إذا تذکّرت شجوا من أخي ثقة
فاذکر أخاک أبابکر بما فعلا
خير البريّة أتقاها و أعدلها
بعد النّبيّ و أوفاها بما حملا
ألثّاني ألتّالي المحمود مشهده
و أوّل النّاس منهم صدّق الرّسلا

’’جب تم کسی قابل اعتماد بھائی کا تپاک سے ذکر کرو تو ضرور ابوبکر کے کارناموں کی وجہ سے انہیں یاد کرو- حضور (ﷺ) کے بعد وہ تمام مخلوق سے بہتر، اللہ سے زیادہ ڈرنے والے، عدل کرنے والے اور اپنے فرائض کو کماحقہ سر انجام دینے والے ہیں- آپ (رضی اللہ عنہ) (دو ہجرت کرنے والوں میں سے) دوسرے ہیں، حضور (ﷺ) کے پیروکار ہیں، محفل میں ان کی موجودگی پسند کی جاتی ہے، وہ لوگوں میں سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے سب رسولوں کی تصدیق کی‘‘-

الغرض!سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) کا ذکرخود ہمارے آقائے نامدار رحمۃ اللعالمین جناب محمد رسول اللہ (ﷺ) نے بلند فرمایا-

٭٭٭


[1](صحیح بخاري، رقم الحدیث:392)

[2](نور الھدٰی، ص:23)

[3]( شمس العارفین، ص:23)

[4]( محک الفقر کلاں،ص:134)

[5](صحیح ابن حبان، رقم الحدیث:6862)

[6](عین الفقر، ص:73)

[7](النساء:166)

[8](المنافقون : 1)

[9](المستدرک، کتاب معرفۃ  الصحابہ )

[10](ایضاً)

[11](عقلِ بیدار، ص:223)

[12]( عقلِ بیدار ، ص: 321-323)

[13](المعجم الاوسط للطبرانی، رقم الحدیث:7173)

[14](محک الفقر کلاں،ص:564-565)

[15](اسرار القادری، ص:199)

[16]( عین الفقر ، ص: 171)

[17](عین الفقر، ص : 331-333)

[18]( نور الہدی، ص:137)

[19]( نور الہدیٰ ، ص: 497)

[20](کلید التوحید کلاں، ص:383-385)

[21]( تیغ برہنہ، ص: 59-61)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر