حضرت ابوبکرصدیق(رضی اللہ عنہ) اردو شاعری کے آئینے میں

حضرت ابوبکرصدیق(رضی اللہ عنہ) اردو شاعری کے آئینے میں

حضرت ابوبکرصدیق(رضی اللہ عنہ) اردو شاعری کے آئینے میں

مصنف: مستحسن رضا جامی دسمبر 2025

 حضرت ابوبکر صدیق  (رضی اللہ عنہ) شخصیت اورعظمت کے حوالے سے بہت سی زبانوں میں آپ (رضی اللہ عنہ) کو خراج تحسین پیش کیا گیا- اسی طرح اردو ادب میں بھی آپ کو خراج تحسین احسن اور نمایاں انداز میں پیش کیا گیا- جس کی روایت ہمیں بڑی جامع نظر آتی ہے- شعراء نے اپنی بساط سوچ اور وسعت نظر کے مطابق خلیفہ اول سیدنا صدیق اکبرؓ کی شان میں محبت و عقیدت کا نذرانہ پیش کیا- یہ مناقب حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی سیرت کے حوالے سے بھی تذکرہ کرتے ہیں- حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو بارگاہ رسالت (ﷺ)میں جو مقام ملا وہ بیان سے باہر ہے- اردو ادب کی روایت میں اگر ہم مناقب کو دیکھیں تو حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کے مناقب ہمیں مفصل ملتے ہیں ان میں سے چند مناقب کو ہم پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں -

کلاسیک اردو ادب کے عظیم شاعر مومن خاں مومن نے سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) کا قصیدہ لکھا جو کہ عشق و محبت کے جذبات میں لپٹا ہوا ہے- اُن کے قصیدہ ’’منقبت امیر المومنین سیدنا صدیق اکبرؓ‘‘ سے کچھ اشعار دیکھئے:

مسند آرائے محفل تقدیس
اولیں جانشین پیغمبر
سینہ سردارِ مہرِ یزدانی
چشم لبریز جلوۂ محشر
کیا گنے کوئی خوبیاں اس کی
اک سخاوت شمار سے باہر
خُلق ایسا کہ ذکر میں جس کے
بھولے عاشق حکایتِ دلبر
تُو وہ عادل کہ ذکر کسری میں

عدل کی تجھ سے داد چاہے عمر

مولانا احمد رضا خاں کا ہدیہ عقیدت کیف و سرور میں ڈوبا ہوا ہے- حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ)کی شان اور شمائل پر منفرد انداز میں بات کی گئی ہے-

خاص اُس سابقِ سیرِ قربِ خدا
اوحدِ کاملیت پہ لاکھوں سلام
سایۂ مصطفٰی، مایۂ اِصْطَفٰی
عزّ و نازِ خلافت پہ لاکھوں سلام
یعنی اس افضلُ البشر، بعد الرُّسُل
ثَانِیَ اثْنَیْنِ ہجرت پہ لاکھوں سلام
اصدقُ الصَّادِقیں، سیِّدُ المُتَّقِیں
چشم وگوشِ وزارت پہ لاکھوں سلام

حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے بانگِ درا میں حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کے حوالے سے جو نظم لکھی وہ اردو ادب میں مناقب کے باب میں ایک خوبصورت اضافہ ہے- فنی فکری اور علمی تینوں حوالوں سے یہ نظم اپنی مثال آپ ہے- حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کی زندگی و سیرت کا جامع انداز میں جس طرح اس میں احاطہ کیا گیا ہے ایسی مثال حضرت ابوبکر صدیق کے حوالے سے لکھے گئے مناقب میں بہت کم ملتی ہے- معرفت عشق اور کیف کا ایک الگ ہی جہان اس نظم میں نظر آتا ہے- بالخصوص نظم کے آخری مصرعے میں جس نقطہ کی طرف اشارہ کیا گیا وہ نہایت باکمال ہے- نظم کا آخری حصہ دیکھئے:

اتنے میں وہ رفیق نبوت بھی آگیا
جس سے بنائے عشق و محبت ہے استوار
لے آیا اپنے ساتھ وہ مرد وفا سرشت
ہر چیز، جس سے چشم جہاں میں ہو اعتبار
ملک یمین و درہم و دینار و رخت و جنس
اسپ قمر سم و شتر و قاطر و حمار
بولے حضور، چاہیے فکر عیال بھی
کہنے لگا وہ عشق و محبت کا راز دار
اے تجھ سے دیدۂ مہ و انجم فروغ گیر!
اے تیری ذات باعث تکوین روزگار!
پروانے کو چراغ ہے، بلبل کو پھول بس
صدیق کے لیے ہے خدا کا رسول بس

حضرت علامہ حسن رضا بریلوی لکھتے ہیں کہ :

’’خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق کا مقام و مرتبہ کیسے بیاں کیا جائے- کیونکہ آپ (رضی اللہ عنہ) آقا کریم (ﷺ) کے یارِ غار ہیں- جو مقام و مرتبہ قربِ رسول (ﷺ) میں آپ کو ملا وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آیا‘‘-

بیاں ہو کس زباں سے مرتبہ صدیق اکبر کا
ہے یار غار محبوب خدا صدیق اکبر کا
گدا صدیق اکبر کا خدا سے فضل پاتا ہے
خدا کے فضل سے میں ہوں گدا صدیق اکبر کا
ضعیفی میں یہ قوت ہے ضعیفوں کو قوی کر دیں
سہارا لیں ضعیف و اقویا صدیق اکبر کا

مظفر الدین کی عقیدت و محبت سے لبریز منقبت کے کچھ اشعار ذیل میں پیش کئے جاتے ہیں:

خبر بھی ہے تجھے اے دل کہاں صدیق اکبر ہیں
جہاں میں سرورِ عالم وہاں صدیق اکبر ہیں
شجاعت بھی سخاوت ہی کا اک اور نام ہے گویا
زمانے میں صداقت کا نشاں صدیق اکبر ہیں

مبارک مونگیری کے نزدیک حُضور نبی کریم (ﷺ) سے حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کی رفاقت محض دنیا تک محدود نہ تھی بلکہ آج اپنی لحد مبارک میں بھی وہ حضور سرور کونین (ﷺ)  کے پہلو نشین ہیں-

امین دولتِ دنیا و دیں صدیق اکبر ہیں
محمد مصطفیٰ کے جانشیں صدیق اکبر ہیں
محبت سرورِ عالم کی تاحد لحد پہنچی!
رفاقت دیکھیے پہلو نشیں صدیق اکبر ہیں
ہوا ہے ختم جن پر جذبۂ ایثار و قربانی
وہی شیدائے ختم المرسلیں صدیق اکبر ہیں

میر اعظم علی شائق لکھتے ہیں کہ:

بھلا کیا ہو سکے ہم سے بیاں صدیق اکبر ‏کا
فدائی جب کہ ہے سارا جہاں صدیق اکبر کا
خدا نے ثانی اثنین اذ ھما فی الغار فرمایا
کرے کیا وصف پھر میری زباں صدیق اکبر کا

مولانا عبد القدیر حسرت نے اپنی عقیدت اور محبت کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے-

محمد مصطفیٰ ؐ کا جانشیں صدیق اکبر ہے
بجز پیغمبروں کے سب سے اعلیٰ سب سے برتر ہے
خدا نے شان میں صدیق کی اتقیٰ ہے فرمایا
وہ اتقیٰ ہے وہ عند اللہ اکرم اور بہتر ہے

ہادی قادری ہمہ وقت صداقت کا دامن تھامے رہنے کا درس دیتے ہیں- کیونکہ ہمیشہ سچ بولنا اور سچ کا ساتھ دینا اُسوۂ صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ)ہے-وہ لکھتے ہیں:

کبھی دامن اگر چھوٹے تمہارے سے صداقت کا
معاً تم اسوۂ صدیق ِ اکبر یاد کر لینا

شاہ عبد القادر بدایونی لکھتے ہیں کہ :

حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) راز دارِ نبی اکرم (ﷺ) تھے- یارِ غار کا رُتبہ بھی حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ)کو میسر آیا -

ابوبکر تھے راز دارِ محمد
ابوبکر تھے غم گسارِ محمد
یہ رتبہ کہاں دوسرے کا کہ ان کو
خدا نے کہا یار غارِ محمد
نبی نے خلیل ان کو اپنا کیا ہے
زہے فخر خلعت شعارِ محمدؐ

ماہر القادری کا کہنا ہے کہ صداقت کی جان سیدنا ابوبکر صدیق ہیں-آپ کی سیرت پاکیزہ و پُرنور ہے- آقا کریم (ﷺ) کی صداقت کی پہلی گواہی آپ نے دی-

ابوبکر صدیق جانِ صداقت
وہ پُر نور صورت، وہ پاکیزہ سیرت
وہ خود ذات سے اپنی خیر و سعادت
اور اس پر رسولِ خدا کی رفاقت
وہ ایماں سراپا، یقینِ مجسم
نبی کی رسالت کی پہلی شہادت

جناب عبد الستار نیازی لکھتے ہیں:

حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) نے سب کچھ بارگاہ رسالت مآب (ﷺ) میں پیش کر دیا- آپ ہمہ وقت آقا کریم (ﷺ) کی رفاقت و معیت میں رہے- قُربِ رسول (ﷺ) کا یہ عالم بہت کم صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)کو میسر آیا-

حقیقت کی زباں صدیق اکبر
صداقت کا بیاں صدیق اکبر
کبھی نہ ساتھ چھوڑا مصطفٰی کا
جہاں آقا وہاں صدیق اکبر
نبی کے نام پر سب کچھ فدا ہے
محبت کا نشاں صدیق اکبر

جناب ذوالفقار علی دانش کا عاجزی و انکساری سے لبریز کلام کچھ یوں ہے کہ معراجِ نبوی (ﷺ) کے واقعہ کی سب سے پہلے تصدیق حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ)نے کی- آپؓ کی شان اور عظمت پر سلام ہو-

اَلسَّلام! اے سیرتِ احمد سراپا! اَلسَّلام
اَلسَّلام! اے عائشہ کے پیارے بابا! اَلسَّلام!
سب سے پہلے آپ نے معراج کی تصدیق کی
اَلسَّلام! اے مصدرِ صِدق و ہدایہ ! اَلسَّلام!
’’اِذْ ھُمَا فِی الْغَار‘‘ سے ثابت فضیلت آپ کی
بعدِ ختمی مرتبت یکتا یگانہ اَلسَّلام!

پیر سید نصیر الدین نصیر لکھتے ہیں کہ:

آقا کریم (ﷺ) سے حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کی وفا زمانے پر مسلّم ہے-اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کے اوصاف کا تذکرہ فرمایا-

مُسّلَم ہے محمدؐ سے وفا، صدّیقِ اکبر کی
نہیں بُھولی ہے دُنیا کو ادا، صدّیقِ اکبر کی
کلامُ اللہ میں ہے تذکرہ اُن کے محامد کا
زمانے سے بیاں ہو شان کیا صدّیقِ اکبر کی
نجابت میں، شرافت میں، رفاقت میں، سخاوت میں
ہوئی شہرت یہ کس کی جابجا؟ صدیقِ اکبر کی

جناب حفیظ تائب کا نذرانہ عقیدت اس انداز میں ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ)کے دور میں قرآن کریم کو ایک جامع شکل میں جمع کیا گیا- آپ (رضی اللہ عنہ)کی گفتگو بلیغ اور اثر آفریں تھی-

پائی جس صاحبِ صدق نے خلعتِ اصدق الصادقیں
وہ ابوبکر ہے بعد نبیوں کے لوگوں میں افضل تریں
جس کے عہد خلافت میں قرآن کو شکلِ مُصحف ملی
قول جس کا تھا سب سے زیادہ بلیغ و اثر آفریں

ایک اور منقبت میں آپ نے کچھ اس کیفیت میں اپنے عشق کا اظہار کیا ہے-

پائی نہ اس نے آپ کے اخلاص کی مثال
چشمِ فلک نے دیکھے ہیں کتنے ہی جزر و مد
حکمت سے ارتداد کا فتنہ کیا فرو
ہر کذب اس کے نُورِ یقیں سے ہے مسترد

عہد حاضر کے نمایاں اور ممتاز شاعر جلیل عالی کا حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ)کی شان میں پیش کیا گیا ہدیہ عقیدت جس میں حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کی خلافت اور صداقت کے حوالے سے کمال نکات موجود ہیں -

ایک معیار عدالت ہے دیانت اُس کی
ایک شہکارِ نیابت ہے خلافت اُس کی
وہ کہ معراج کی تصدیق سے صدیق ہوا
تا ابد زندہ و پائندہ صداقت اُس کی
نعمتِ حق کا تشکر کوئی اس سے سیکھے
وقف اسلام کی خاطر ہوئی دولت اُس کی
کتنے بحران تھے کیسا وہ ظفر مند ہوا
ہو گئی عقدہ کشا جرأت و حکمت اُس کی

جناب صادق جمیل کا حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ)کی بارگاہ میں نذرانہ محبت کچھ اس انداز میں ہے کہ شاعر دعا گو ہے کہ کاش حضرت ابوبکر صدیق کا دور واپس آجائے اور میں آپ کے ایثار و قربانیوں کی زیارت کر لوں:

یاد کرتا ہے تجھے ثور صدیق اکبر
تیرے بعد آیا نہیں اور صدیق اکبر
ہم بھی ایثارِ مجسّم کی زیارت کر لیں
کاش لوٹ آئے ترا دور صدیق اکبر

جناب پیر سید معین الحق گیلانی کا شان حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ)میں لکھا گیا کلام کچھ یوں ہے-

دل و جاں سے فدائےمصطفٰیؐ، صدیق اکبرؓ ہیں
رفیقِ خلوتِ خیرالورٰیؐ، صدیق اکبرؓ ہیں
تجلی ریز ہے مینار دنیا میں صداقت کا
ریاضِ خُلد کی بادِ صبا، صدیقِ اکبرؓ ہیں

جناب سرور حسین نقشبندی یوں اظہارکرتے ہیں کہ جب بھی میری محبت میں کمی ہونے لگتی ہے تو میں بارگاہ رسالت (ﷺ) میں جنابِ صدیق کا واسطہ دیتا ہوں-

جب ہے قرآن مبیں میں تذکرہ صدیق کا
ذکر ہوتا ہی رہے گا اب سدا صدیق کا
دیں کی خاطر مال دینے میں کہا فاروق نے
کوئی ہو سکتا نہیں ہم مرتبہ صدیق کا
جب کبھی میری محبت میں کمی آنے لگے
صرف دیتا ہوں نبی کو واسطہ صدیق کا
عرش والوں نے بھی کی تقلید ان کی ایک دن
قدسیوں نے بھی ہے پہنا بوریا صدیق کا

جناب ریاض احمد قادری لکھتے ہیں کہ آج بھی کائنات میں فیضِ حضرت ابوبکر صدیق رواں دواں ہے-

سرورِ کونینؐ کے دلدار یارِ غارؓ ہیں
اس لئے ہی منبعِ انوار یارِ غارؓ ہیں
گنبدِ خضریٰ میں بھی ہیں وہ رفیقِ مصطفیٰؐ
غار میں بھی مونس و غمخوار یارِ غارؓ ہیں
فیضِ صدیقی رواں ہے دوجہاں میں آج بھی
معرفت کے نور کا مینار یارِ غارؓ ہیں

عہد حاضر کے عمدہ منقبت گو نادر صدیقی کا شان حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) میں لکھا گیا کلام نہایت عمدہ ہے- کلام میں فنی و فکری دونوں خوبیاں نمایاں ہیں-

اک شبِ تار ہے

اور اک غار ہے

اور اس غار میں

ایک سَچّا ہے اور ایک سچّائی ہے

اک محبت ہے اور ایک حُبدار ہے

بے پنہ پیار ہے

بے پنہ پیار ہے ، جس پہ شاہد ہے نورانی فرمان بھی

رب کا قرآن بھی

نوجوان شاعر فائق ترانی کا نمونۂ منقبت:

دم سازِ آنحضور! مرے آسماں جناب
اسلام پر ہیں آپ کے احسان بے حساب
مَیں کج شعور آپ کی کیا کیا ثنا کروں
تسلیم بے مثال ہے تصدیق لاجواب
تاریکیوں میں نور بھرے آپ کا چراغ
صحرا کو گلستان کرے آپ کا سحاب

جناب یونس تحسین لکھتے ہیں کہ ہر مقام پر آقا کریم (ﷺ) کے ہمراہ حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ)موجود رہے-

چہرہءِ رونقِ عالم کے طلب گار ہوئے
عشق میں حضرتِ صدیق ثمر بار ہوئے
انتخاب آپ کا اللہ نے ہر بار کیا
صاحبِ غار ہوئے صاحبِ دربار ہوئے
حشر تک آپ کے احسان رہیں گے باقی
آپ سرکارِ مدینہ کے مددگار ہوئے

منقبت نگاروں کی یہ فہرست کافی طویل ہے- قدیم و معاصر بیشتر شعرائے کرام نے مناقب حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کے ذیل میں اپنا ہدیہ عقیدت پیش کیا ہے- مناقب کے حوالے سے لکھی گئی کچھ کتابوں پر اگر بات کی جائے تو سب سے پہلی کتاب ڈاکٹر عبد العزیز خالد کی ’’ثانی لاثانی‘‘ سامنے آتی ہے- جو کہ 786 اشعار پر مشتمل ہے- یہ تمام کلام حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کی شان میں لکھا گیا ہے- قیاس ہے کہ یہ کتاب 1980ء کے آس پاس لکھی گئی ہے- انجم نیازی کی کتاب ’’مناقب خلفائے راشدین‘‘ کے نام سے ہے جو راولپنڈی سے شائع ہوئی-ایک کتاب ’’حق چاریار‘‘ جو مولانا علم الدین کوکب صاحب نے مرتب کی ہے یہ اپریل 2013ء میں مکتبہ اہل سنت جہلم سے شائع ہوئی جس کے 72 صفحات ہیں- ’’مناقب خلفائے راشدین اور شعرائے کراچی‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب فضلی سنز نے چھاپی ہے جس کو منظر عارفی نے ترتیب دیا ہے اور یہ 432 صفحات پر مشتمل ہے-

تمام گفتگو کا لب لباب یہ ہے کہ آقا کریم (ﷺ) کے عشق اور وفا کے بارے میں اگر سیکھنا ہو تو حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ)کی زندگی مبارکہ ہمیں راستہ فراہم کرتی ہے-

٭٭٭ 

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر