حضرت ابو بکرصدیق(رضی اللہ عنہ ) کا اشاعت اسلام میں کردار

حضرت ابو بکرصدیق(رضی اللہ عنہ ) کا اشاعت اسلام میں کردار

حضرت ابو بکرصدیق(رضی اللہ عنہ ) کا اشاعت اسلام میں کردار

مصنف: سبینہ عمر دسمبر 2025

اشاعتِ اسلام محض دعوت یا تبلیغ کا نام نہیں، بلکہ یہ نورِ نبوت کے اثر سے انسانی باطن میں ایمان کی بیداری کا وہ لمحہ ہے جب شعورِ انسان اپنے خالق کو پہچاننے کے قابل ہوتا ہے- تاریخِ اسلام میں اس باطنی انقلاب کی پہلی جھلک اس وقت ظاہر ہوئی جب نگاہِ مصطفےٰ (ﷺ) نے ایک دل کو ایسا منور کیا کہ وہ خود چراغِ ہدایت بن گیا- وہ دل حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کا تھا-رسولِ اکرم (ﷺ) کی صحبت اور قرب نے ان کے باطن میں وہ بصیرت پیدا کی جو عقل و منطق کی دسترس سے ماورا تھی- انہوں نے لا الٰہ الا اللہ، محمدرسول اللہ کو دلائل کے ترازو میں نہیں تولا، بلکہ چہرۂ مصطفےٰ (ﷺ) سے جھلکنے والی صداقت کے نور میں پہچانا یہی وہ لمحہ تھا جہاں ایمان نے استدلال سے آگے بڑھ کر مشاہدہ کرنےکی راہ اختیار کی یہ محض قبولِ اسلام نہیں بلکہ شعورِ انسانی کی وہ بلند سطح ہے جو نبوت کی معرفت سے مستنیر ہے - ان کے ایمان میں وہ سوز تھا جو قربِ مصطفےٰ(ﷺ) کے فیضان سے پیدا ہوا اور وہی سوز بعد میں ایمان کی اشاعت کا مرکز بنا- گویا حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کا ایمان دراصل نبوت کے نور کا پہلا انعکاس تھا- رسولِ اکرم (ﷺ)  کی نگاہ نے ان کے دل کو آئینہ بنایا اور اس آئینے سے حق کی وہ روشنی پھوٹی جو مکہ کی وادیوں سے نکل کر پوری انسانیت کے افق پر پھیل گئی-اسلام کی پہلی اشاعت کسی منبر یا میدان میں نہیں ہوئی، بلکہ ایک ایسے دل میں ہوئی جو مصطفوی محبت سے روشن تھا- حضرت ابوبکرؓ کی ذات وہ نقطۂ آغاز ہے جہاں رسالت کا نور ایمان میں ڈھل گیا اور یہی وہ لمحہ ہے جس نے تاریخِ انسانیت کا رخ ہمیشہ کے لیے بدل دیا-حضرت ابوبکر صدیق(رضی اللہ عنہ) کا شمار ان جلیل القدر ہستیوں میں ہوتا ہے جنہوں نےمردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا-ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) سے روایت ہے کہ :

’’حضرت عمربن خطاب (رضی اللہ عنہ)نے فرمایا کہ حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) حضور نبی کریم (ﷺ) کو ہم سب سے زیادہ محبوب تھے اور ہم سے بہتر اور ہمارے سردار تھے- آپ (رضی اللہ عنہ) گفتگو کرتے رہے یہاں تک کہ فرمایا: مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے حضرت ابو بکر (رضی اللہ عنہ) تھے-[1]

ابتدائی اسلامی مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) اسلام کے اولین مبلغ اور ’’دعوتِ نبوی (ﷺ) کے فکری ترجمانِ اول‘‘ تھے- آپؓ کے قبولِ ایمان اور کردار نے مکہ کے سماجی طبقے میں اسلام کے لیے وہ دروازے کھولے جو محض نظری دلائل سے ممکن نہ تھے-

حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کی دعوت و اشاعتِ اسلام کی بنیاد تین اساسی اصولوں پر استوار تھی:

1-کردار پر مبنی تبلیغ:

(Character-based Propagation)

حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کی دعوت و تبلیغ اسلام کی تاریخ میں ایک ایسی روشن مثال ہے جہاں الفاظ سے زیادہ کردار کی قوت کارفرما نظر آتی ہے- آپؓ نے اسلام کے پیغام کو دلوں تک پہنچانے کے لیے کبھی جبر، مناظرے یا قوت کا سہارا نہیں لیا- ان کا سب سے مؤثر ذریعہ اُن کی سیرت، امانت، صداقت اور نرم گفتاری تھی- یہی خصوصیات اُن کی دعوت کو نہایت مؤثر اور دل نشین بناتی ہیں- آپؓ کے اخلاق نے اَن گِنَت دلوں کو متاثر کیا اور ایمان کی چنگاری کو شعلۂ یقین میں بدل دیا-

اسلام کے ابتدائی مبلغین پر حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کی دعوت کے اثرات:

حضرت ابو بکر (رضی اللہ عنہ) کی دعوت نے مکہ کے ان معزز اور ذی فہم افراد کو متاثر کیا جنہوں نے بعد میں اسلام کی اشاعت اور استحکام میں بنیادی کردار ادا کیا- ان میں حضرت عثمان بن عفان، عبدالرحمن بن عوف، زبیر بن عوام، طلحہ بن عبیداللہ، ابو حذیفہ بن عتبہ، سعید بن زید اور ابو موسیٰ اشعریؒ جیسے جلیل القدر اصحاب شامل ہیں-ان سب کا اسلام لانا اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت ابو بکرؓ کی دعوت کی بنیاد منطق یا مجادلے پر نہیں بلکہ کردار کی صداقت اور اخلاقی اثر پذیری پر تھی- ان کی شخصیت ایمان کا ایک ایسا مرکز بن گئی جس سے روحانی روشنی دوسرے قلوب تک منتقل ہوتی گئی-

غلاموں کی آزادی اور اشاعتِ اسلام:

حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) نے اسلام کی روح کو عمل کے ذریعے پھیلایا-مکہ میں کمزور اور مظلوم مسلمانوں پر جب ظلم ہوا تو حضرت ابوبکرؓ نے اپنے مال سے کئی غلام آزاد کیے،جن میں حضرت بلال، عامر بن فہیرہ اور نہدیہ(رضی اللہ عنھم) شامل ہیں نیز حضور نبی کریم (ﷺ)  سیدنا ابو بکر صدیق کے مال میں یوں تصرف فرماتے جیسے کوئی اپنے ذاتی مال میں تصرف کرتا ہے- انہوں نے اسلام کے اخلاقی پیغام کو ’’کردار کے ذریعے‘‘ ظاہر کیا-ان کے یہ اقدامات اسلام کی دعوت کو طبقاتی حدود سے نکال کر انسانیت کے دائرے میں لے آئے[2]

مالی و سماجی لحاظ سے اشاعت اسلام میں معاونت:

حضرت ابوبکر(رضی اللہ عنہ)کی سخاوت ایمان کے عملی مظاہر میں سے ایک تھی- متعدد مقامات پر بہت سی ایسی احادیث ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کی سماجی لحاظ سے کیا معاونت رہی-حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ)نے فرمایا:

’’مجھے کسی کے مال سے کبھی اتنا نفع نہیں پہنچا، جتنا ابوبکر کے مال سے پہنچا ہے-یہ سن کر ابوبکر (رضی اللہ عنہ) رو پڑے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اور میرا مال سب آپ ہی کے لیے ہیں‘‘-[3]

امام حسن بصریؒ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ)نے ارشاد فرمایا:

’’مجھے اسلامی ضروریات میں ابوبکر صدیق کامال سب سے بڑھ کر نفع مند ثابت ہوا‘‘-[4]

حضرت ابو یحییٰ (رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں کہ:

’’مَیں  نے حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کو قسم اُٹھا کر کہتے ہوئے سُنا کہ حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کا لقب ’’صدیق‘‘ اﷲ تعالیٰ نے آسمان سے نازل فرمایا‘‘-[5]

بین الاقوامی سطح پر اشاعت:

دور صدیقی میں اسلام پہلی بار جزیرۂ عرب سے باہر پھیلنے لگا-انہوں نے شام اور عراق کی سرحدوں کی طرف لشکر بھیجے تاکہ اسلام کی دعوت کو بیرونی دنیا میں منتقل کیا جائے-یہ مہمات محض فتوحات نہیں تھیں بلکہ دعوتی توسیع کا فکری تسلسل تھیں- انہوں نے دعوتِ اسلام کی بین الاقوامیت کی بنیاد رکھی ، رسول اللہ (ﷺ) کے پہلے خلیفہ ہونے کے ناطے اسے نظری و عملی سطح پہ مستحکم کیا   -ان کی قیادت نے اسلام کو صرف ایک مذہبی پیغام نہیں رہنے دیا بلکہ اسے عقلی، اخلاقی اور اجتماعی تحریک بنا دیا-

2-قرآن کریم کےمتن کا تحفظ:

(Codification of Revelation)

جب جنگ یمامہ میں حفاظ کی بڑی تعداد شہید ہوئی،تو انہوں نے زید بن ثابت (رضی اللہ عنہ) کی سربراہی میں قرآن کے تمام اجزاء کو ایک مصحف میں جمع کروایا-یہ اقدام محض کتابت نہیں بلکہ اسلام کے فکری تسلسل کا ضامن تھا-کیونکہ کوئی بھی پیغام اس وقت تک پھیل نہیں سکتا جب تک اس کا ماخذ محفوظ نہ ہو- قرآن  کریم کی جمع بندی سے اسلام کو فکری تسلسل عطا ہوا گویا حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) نے وحی کو تحریر میں منتقل کر کے اسلام کی ابدیت کو علم کی صورت عطا کی-

حرف آخر:

حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) وہ عظیم المرتبت شخصیت ہیں جنہوں نے اسلام کے ابتدائی دور میں فکری استحکام، نظریاتی وحدت اور عملی نظم کی بنیاد رکھی- اگرچہ ان کی خلافت کا عرصہ صرف دو برس اور چند ماہ پر محیط تھا، لیکن انہی مختصر برسوں میں اسلام نے نہ صرف داخلی انتشار پر قابو پایا بلکہ ایک منظم دینی، فکری اور تمدنی نظام کی صورت اختیار کر لی-اسلام کی اشاعت میں ان کا کردار ناقابلِ فراموش ہے- ان کی شخصیت آج بھی امت کیلئے ہدایت، قیادت اور فکری وحدت کی علامت ہے، جو یہ سکھاتی ہے کہ ایمان کی روشنی سے ہی فرد اور معاشرہ حقیقی اصلاح اور ارتقا کی راہ پا سکتا ہے-

٭٭٭


[1](صحیح ابن حبان،کتاب المناقب)

[2](فضائل صحابہ، امام ابو عبد اللہ احمد بن حنبل، مترجم:نوید احمد بشار، ص:30)

[3](سنن ابن ماجہ، الكتاب في الإيمان وفضائل الصحابة والعلم)

[4](فضائل صحابہ، امام ابو عبد اللہ احمد بن حنبل، مترجم:نوید احمد بشار، ص:29)

[5](المستدرک للحاکم، کتاب معرفۃ الصحابہ)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر