اے مرے پاک وطن تجھ سے محبت ہے مجھے تیری خُوشبو تیری مٹی کی ضرورت ہے مجھے
تیری اُلفت میرے سینے میں اگر باقی ہے میں یہ سمجھوں گا کہ جینے کا ہُنر باقی ہے
دیس اک خاص امانت ہے سبق یاد رہے گوشہ گوشہ میری دھرتی تیرا آباد رہے
اس سے ارفع کوئی دولت کوئی سوغات نہیں تجھ پہ قرباں ہو اگر جان بڑی بات نہیں؟
یہ زمینیں یہ سمندر یہ جزیرے شاداب ہنستے پھرتے ہوں کبوتر ، تیرے رقصاں سُرخاب
تیرے دشمن کو رعایت نہ کسی طور ملے تیرا شملہ تابہ افلاک سدا اونچا رہے
جو ترا نقش مٹا دے وہ قلمدان نہیں تیرے ذروں سے الجھنا کوئی آسان نہیں
اپنے اذہان تعصب سے بچائے جائیں تمغے احساس کی دولت کے سجائے جائیں
تیرے ہونے سے ہے موجود فسانہ میرا تُو سلامت تو سلامت ہے گھرانہ میرا
نفرتیں پھیلتی جائیں تو پریشانی ہے ایک ہو جانے سے آسانی ہی آسانی ہے آخری سانس تلک رُوح وفادار رہے آرزو ہے کہ رضاؔ تیرا طلب گار رہے
|