پاکستان ترکی تعلقات : دوطرفہ تعاون بڑھانےکےمواقع

پاکستان ترکی تعلقات : دوطرفہ تعاون بڑھانےکےمواقع

پاکستان ترکی تعلقات : دوطرفہ تعاون بڑھانےکےمواقع

مصنف: مسلم انسٹیٹیوٹ دسمبر 2020

مسلم انسٹیٹیوٹ نے ’’پاکستان ترکی تعلقات: دو طرفہ تعاون بڑھانے کے مواقع‘‘ کے موضوع پر ویبینار کا اہتمام کیا- ڈاکٹر حمزہ افتخار (سینئر ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹیٹیوٹ) نے ویبینار کی ماڈریشن کے فرائض سر انجام دیئے- محققین، طلباء، یونیورسٹیز فیکلٹی، تھنک ٹینکس کے نمائندگان، صحافیوں، سیاسی رہنماوں اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے ویبینار میں شرکت کی-

ویبینارمیں شامل ماہرین:

  1. تعارفی و اختتامی کلمات، صاحبزادہ سلطان احمد علی  چئیرمین مسلم انسٹیٹیوٹ
  2. معزز مہمان، سائرس سجاد قاضی، پاکستان کے سفیر برائے   ترکی
  3. معزز مہمان، احسان مصطفیٰ یردکل، ترکی کے سفیر برائے پاکستان 
  4. معزز مہمان، خان ہشام بن صدیق ، وائس ایڈمرل  (ر)
  5. معزز مہمان  ، سابق سفیر عارف کمال
  6. ڈاکٹر سیف الرحمٰن ملک ڈائریکٹر انڈیا سٹڈی سنٹر،  انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈی، اسلام آباد
  7. معزز مہمان، پروفیسر ڈاکٹر احمد اویسال، ڈائریکٹر مڈل ایسٹرن سٹڈیز سنٹر ، ترکی
  8. معزز مہمان،  پروفیسر ڈاکٹر ضمیر اعوان، سکول آف سوشل سائیسز اینڈ ہیومینٹیز ، نسٹ
  9. معزز مہمان، ڈاکٹر شبانہ فیاض، ڈیفنس اینڈ سٹریٹیجک سٹڈی ، قائد اعظم یونیورسٹی ، اسلام آباد

مقررین کی جانب سے کیے گئے اظہارِ خیالات مختصر صورت میں پیش کیے جاتےہیں:

پاکستان اور ترکی کے مابین مثالی تعلقات عرصہ دراز سے استوار ہیں- عالمی سطح پر یہ پاکستان کے اہم ترین تعلقات میں سے ایک ہے خاص کر گزشتہ چند برسں میں بہت بڑی ڈویلپمنٹس ہوئی ہیں- دونوں برادر اسلامی ممالک مشترکہ معاشرتی، ثقافتی اور مذہبی اقدار کے حامل ہیں- دونوں ممالک کی عوام مشکل وقت میں ہمیشہ ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑی رہی ہے- 1915ء میں جب ترک افواج درہ دانیال کے دفاع کے لیے شاندار مزاحمت کا مظاہرہ کر رہی تھی ان کی اخلاقی حمایت کیلیے 6000 کلومیٹر دور لاہور میں ریلی نکالی گئی- بعد میں تحریک خلافت کی شکل میں ہندوستانی مسلمانوں نے ترک بھائیوں کیلیے انمول محبت اور قربانی کا اظہارکیا-

قیام پاکستان کے فوراً بعد، صدیوں سے قائم روایات کا پاس کرتے ہوئے دونوں ممالک نے مشکل اوقات میں ایک دوسرے کی ہر ممکن مدد کی، دشمن کے خلاف ایک دوسرے کی ڈھال بنے اور قدرتی آفات سے نمٹنے کیلیے شانہ بشانہ کھڑے ہوئے- تعلقات کی بنیادوں کو مستحکم رکھنے کیلیے دونوں ممالک کے رہنما ایک دوسرے سے قریبی رابطہ رکھتے ہیں- 2009ء میں قائم کی جانے والی اعلیٰ سطحی رابطہ کونسل اور بعد ازاں اس کونسل کو اعلیٰ سطحی سٹریٹیجک رابطہ کونسل میں ڈھالنا اس بات کا ثبوت ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے مابین زندگی کے ہر شعبے میں پائیدار تعلقات کے  قیام کے لیے کوشاں ہیں-

فروری 2020ء میں اعلیٰ سطحی سٹریٹیجک کونسل کی 6 میٹنگز کے بعد دونوں ممالک نے ایک مشترکہ اعلامیہ سمیت مفاہمت کی  13 یاداشتوں پر دستخط کیے جس میں ایک سٹریٹیجک اکنامک فریم ورک کی منظوری بھی دی گئی تاکہ مزید گہرے اقتصادی روابط کے ذریعے تعلقات کو مضبوط بنایا جا سکے-اس اکنامک فورم کا مقصد باہمی تجارت کو موجودہ 800 ملین ڈالر کے تجارتی حجم سے بڑھا کر 2023ء تک 5 ارب ڈالر تک پہنچانا ہے- دونوں ممالک کے وزرائے اعظم نے سٹریٹیجک اکنامک فورم اور 71 نکات پر مشتمل لائحہ عمل کو مضبوط اقتصادی تعاون کی جانب روڈمیپ قرار دیا- ترک صدر نے پاکستان کی قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان کے ساتھ اپنے ملک کے تعلقات کو کاروبار اور تجارت کے لحاظ سے مثالی بنانا چاہتے ہیں- دونوں حکومتوں کے مابین طے پانے والی مفاہمت کی یاداشتوں کا تعلق تکنیکی معیار و مطابقت کی چھان بین اور اس کی تربیت، شہریوں کی ایکسچینج پالیسی، سیاحت کے فروغ، تجارت کے لیے سہولیات اور کسٹمز کے حوالے سے تعاون، ریلویز، پوسٹل سروسز، فوجی تعاون اور توانائی کے امور سے تھا-

ترکی کے چین سے بڑھتے ہوئے تعلقات نے پاک چین سٹریٹیجک شراکت داری کیلیے نئے دروازے کھولےہیں جس میں ون بیلٹ ون روڈ اور سی پیک سر فہرست ہیں- دونوں ممالک ان منصوبوں سے بے پناہ فوائد حاصل کر سکتے ہیں- اس سے نہ صرف دو طرفہ تجارت میں اضافہ ہوگا بلکہ اقتصادی خوشحالی بھی حاصل ہوگی-

دونوں ممالک کی خواہش ہے کہ تاریخی اور خوشگوار تعلقات کو مضبوط سٹریٹیجک شراکت داری میں بدلا جائے- دفاعی پیداوار کی صنعتوں میں دونوں ممالک کا گہرا تعاون ایک بہت بڑا سرمایہ ہے- گزشتہ دس سال میں اس شعبہ میں بہت زیادہ ترقی دیکھنے کو ملی ہے- ترکی پاکستان کے ساتھ مل کر بکتر بند گاڑیاں، ٹینکس، فوجی مواصلاتی نظام اور بحری گشت کے لیے استعمال ہونے والی کشتیاں بنانے کے لیے مل کر کام کررہا ہے- دونوں ممالک میں خلائی نظام سے متعلق صنعتوں کے حوالے سے تعاون پر بھی غور کیا جا رہاہے-

دونوں ممالک کے لوگوں میں تصوف کے حوالے سے بھی گہرا رجحان پایا جاتا ہے- مولانا رومیؒ اور علامہ محمد اقبالؒ نہ صرف دونوں ممالک کے سافٹ امیج ہیں بلکہ دونوں ممالک کے لوگوں کے درمیان ایک مضبوط قلبی تعلق کی وجہ بھی ہیں- دونوں ممالک کے لوگوں کا آپس میں شخصی تعلق مثالی ہے- جب بھی پاکستان یا ترکی کا باشندہ دوسرے ملک کا دورہ کرتا ہے تو برادر ملک کی مہمان نوازی اور محبت دیدنی ہوتی ہے-مسلم تاریخ اور معاشرت پر بنائے جانے والے ترکی کے ڈرامے پاکستان میں بہت زیادہ پسند کئے گئے ہیں-اس کی ایک بہت بڑی مثال ترک ڈرامہ سیریل’’ارطغرل‘‘ کی پاکستان میں مقبولیت ہے-

ہمیں اس بات پر غورو فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح ہم اس مضبوط بنیاد پر مثالی تجارتی روابط کے ذریعے برادرانہ تعلقات کی ایک عالیشان عمارت تعمیر کر سکتے ہیں- پاکستان کی آبادی 220 ملین اور ترکی کی آبادی 82 ملین نفوس سے زیادہ پر مشتمل ہے- دونوں ممالک کی مشترکہ آبادی 300 ملین ہے جو کہ تمام دنیا کا 5 سے 6 فیصد ہے- لیکن بدقسمتی سے دو طرفہ تجارت ابھی تک بہت کم ہے- دونوں ممالک کا تجارتی حجم صرف 600 سے 800 ملین ڈالر ہے- کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے اس میں مزید 30فیصد کمی آئی ہے- دونوں ممالک کو ایک دوسرے کی ترقی و خوشحالی میں حصہ لینا چاہیے- کورونا اور ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے استعمال نے دنیا بھر میں کاروباری تکنیک کو بدل کر رکھ دیا ہے- چونکہ ترکی مصنوعی ذہانت اور سوشل سیکورٹی کے میدانوں میں ٹیکنالوجی کے لحاظ سے بہت آگے ہے تو وہ باہمی مفادات کے حصول کے لیے پاکستان کے ساتھ تعاون کر سکتا ہے-

تجارتی لحاظ سے ترکی نے گزشتہ چند دہائیوں میں بہت ترقی کی ہے- برآمدات اور درآمدات کے لحاظ سےاس کا تجارتی حجم 400 ارب ڈالر ہے- پاکستان بدقسمتی سے تجارتی لحاظ سے بہت پیچھے ہے- حکومت کے ساتھ ساتھ یہ نجی کاروباری طبقے کی بھی ذمہ داری ہے کہ تجارت کے فروغ میں اپنا کردار ادا کریں- موجودہ حکومت اس سلسلہ میں سنجیدہ نظر آتی ہے اور اس نے اس سلسلہ میں کچھ شعبہ جات کو ترجیحی بنیادوں پر فوکس کیا ہے جس میں 50 ملین ڈالر کی لاگت سے کم آمدنی والے خاندانوں کے لیے گھروں کی تعمیر ہے- اس لیے کنسٹرکشن کی صنعت میں اس وقت سرمایہ کاری کے کافی مواقع موجود ہیں- اسی طرح سیاحت پر بھی کافی توجہ دی جا رہی ہے- پچھلے سال عالمی جرائد جیسا کہ فوربز نے پاکستان کو سیاحوں کیلیے پسندیدہ ملک قرار دیا-پچھلے سال 40 ملین سے زیادہ سیاحوں نے ترکی کا رخ کیا جس سے تیس ارب ڈالر سے زیادہ کا زر مبادلہ پیدا ہوا- کراچی سے گوادر تک پاکستان کے ساحلی مقامات دنیا کے خوبصورت ترین ساحلی مقامات میں سے ہیں- اس ضمن میں اگر ہم ترکی کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں تو پاکستان کثیر زرمبادلہ حاصل کر سکتا ہے- پاکستان کو گراس روٹ لیول پر کام کرنا چاہیے جس طرح ترکی نے پچھلے تیس سال میں اپنی سیاحت کی صنعت کو استوار کیا-

تجارت کے فروغ کے لیے دونوں ممالک کے درمیان آزاد تجارتی معاہدہ کافی عرصہ سے زیر غور ہے- اپنی مثالی ترقی کے باوجود، ترکی کی ابھی تک ٹیکسٹائل کے شعبے میں صرف 10 سے 15 ملین ڈالر کی برآمدات ہیں- اسی طرح پاکستان کو بھی اپنے کمزور شعبوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ترکی کے ساتھ مشترکہ تجارتی پروجیکٹس پر کام کرنا چاہیے-

بہت سے مواقع کے ساتھ پاکستان اور ترکی کے سامنے دو مرکزی چیلنجز ہیں- ایک تجارت اور دوسرا اقتصادی سرمایہ کاری- 100 سے زیادہ ایسی ترک کمپنیاں ہیں جو پاکستان میں کام کرنا چاہتی ہیں- پاکستان کے پاس اس ضمن میں سیکھنے اور تعاون کے لیے بہت کچھ ہے- ہائیڈرو پاور پراجیکٹس میں پہلے ہی بہت سی ترک کمپنیاں پاکستان میں کام کر رہی ہیں اس لیے تجارت کی نسبت سرمایہ کاری پر مبنی تعاون زیادہ ہے- پاکستان میں ترکی کی سرمایہ کاری نہ صرف ترکی بلکہ پوری دنیا سے پاکستانی کاروباری تعاون کو فروغ دے گی-

پاکستان اور ترکی کے باہمی مفادات میں سے ایک افغانستان میں امن کا قیام ہے اور دونوں ممالک پُر امن افغانستان کے حامی ہیں- ترکی، پاکستان اور افغانستان سہ طرفہ تعلقات کے قیام پر کام کر رہے ہیں جو افغانستان کی ترقی کیلئے معاون ہوں گے- ترکی افغانستان کے بارے میں علامہ اقبال کے ویژن کا پیروکار ہے کہ افغانستان ایشیاء کا دل ہے اور ایشیاء میں امن صرف افغانستان میں امن کے قیام سے ہی ممکن ہے-

حالیہ دنوں میں آذربائیجان کے ایشو پر دونوں ممالک نے آذربائیجان کے اصولی مؤقف کی حمایت اور آرمینیائی بربریت کی مذمت کی- اسی طرح کشمیر کے ایشو پر ترک حکومت اور عوام نے ہمیشہ مظلوم کشمیریوں کی حمایت کی ہے اور اقوامِ متحدہ کی قراردادں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل پر زور دیا ہے- مسئلہ فلسطین پر بھی دنوں ممالک نے اسرائیلی مظالم اور فلسطین پر ناجائز قبضہ کی شدید مذمت کی ہے- اس مادی دنیا میں دو ممالک کے مابین اس قدر برادرانہ تعلقات اپنی مثال آپ ہیں-

دونوں ممالک دہشتگردی اور جنگ سے متاثر مہاجرین کے چیلنج کا شکار رہے ہیں- تعاون اور تجربات سے فائدہ اٹھانے کے لیے دونوں ممالک کے پاس وسیع پیمانے پر مواقع موجود ہیں- تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے میں مسلم اُمہ کیلیے چیلنجز دن بدن بڑھ رہے ہیں- اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمانوں کے مابین باہمی اعتماد اور وحدت کو فروغ دیا جائے-

او آئی سی 56 اسلامی ممالک پر مشتمل تنظیم ہے لیکن ایک مؤثر کردار ادا کرنے سے قاصر ہے- ترکی اس تنظیم کو متحرک کرنے کیلیے پوری کوششیں کر رہا ہے- اس حوالے سے ایک اور اہم ایشو اسلامو فوبیا ہے جس کو حل کرنے کے لیے دونوں ممالک مل کر کام کر رہے ہیں-

وقفہ سوال و جواب:

وقفہ سوال و جواب میں کی جانے والی ڈسکشن کا خلاصہ درج ذیل ہے:

دونوں ممالک کے مابین مضبوط تعلقات قائم ہیں- ترکی اقتصادی اور معاشی لحا ظ سے ایک مستحکم ملک ہے جبکہ دوسری جانب پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے- اگلی دہائی میں دونوں ممالک کو مل کر ہر شعبے میں کام کرنا چاہیے- آج کل ترکی کے پانچ بڑے ایشوز لیبیا، آذربائیجان، عراق، شام اور سب سے اہم مشرقی بحیرہ روم میں توانائی کے حوالے سے تنازعہ ہے- اس کے علاوہ ترکی بھی پاکستان کی طرح دہشت گردی کے مسائل کا شکار ہے اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کیلیے وہ پاکستان کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکتا ہے- دونوں ممالک کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدانوں میں تعاون کو وسیع کرنا چاہیے- پاکستان ترکی سے جدید ٹیکنالوجی خصوصاً زراعت اور تعلیم کے شعبے میں بہت کچھ سیکھ سکتا ہے-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر