سیلاب اور اس کی تباہ کاریاں

سیلاب اور اس کی تباہ کاریاں

سیلاب اور اس کی تباہ کاریاں

مصنف: ادارہ نومبر 2014

ملکی معیشت و سالمیت جہاں دیگر ناپید مسائل سے دو چار ہے وہاں سیلاب کی سالانہ بنیاد تباہ کاریاں بھی جاری ہیں گزشتہ سالوں کی طرح اِمسال بھی سیلاب ملک میں تباہی کا پیغام لے کر آیا ہے اس سال بھی سیلاب کی تباہ کاریسے زرعی فصلیں اور ملکی معیشت کو شدید دھچکا پہنچا ہے محکمہ موسمیات اور نیشنل ڈیزاسٹر سیل نے متاثرہ اضلاع میں قبل از وقت آگاہی کی بگل بجا دی تھی لیکن افسوس ناک عمل یہ ہے کہ سالانہ بنیاد پر آنے والے سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچائو کیلئے تاحال کوئی مؤثر حکمت عملی مرتب نہیں کی گئی ہمیشہ کی طرح قصے کہانیاں سننے کو ملتے ہیں کہ سیلاب کا سبب ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے دشمنی کی بنا پر واٹر وار کے تحت ڈیموں سے اضافی پانی پاکستان کے دریائوں میں چھوڑا جس سے دریائوں میں پانی کی حد تناسب خطرناک حد تک بڑھ جاتی ہے جس سے یہ تباہی پھیلتی ہے - ہمارے ملک میں ڈیموں کی تعداد انتہائی کم ہے جس کی وجہ سے پانی کے اضافی بوجھ کو روکنا ممکن نہیں-

کالاباغ ڈیم کا منصوبہ بھی تاحال کسی نتیجہ تک نہیں پہنچ سکا - مختلف سیاسی ، لسانی ، سماجی علاقائی اختلافات کی زد میں آکر یہ منصوبہ تعطل کا شکار ہے بھارت نے ہمارے حق پر ڈاکہ ڈالنے کی پاداش میں لا تعداد ڈیم قانونی اور غیر قانونی بنا ڈالے- OICاور عالمی اداروں کی خاموشی پاکستان کیلئے خاموش پیغام ہے کہ اپنے وسائل بروئے کار لا کر اس’’ واٹر وار‘‘ کا سامنا کرنا ہوگا - جب بھی پاکستان میں مون سون کی بارشوں کا موسم آتا ہے تو بھارت ہمیشہ کی طرح اپنی منافقانہ دشمن سوچ کے تحت مثال کے طور پر ’’بغل میں چھری منہ میں رام رام‘‘- اوپر سے دوستی اور ہمدردی جتاتا ہوا نظر آتا ہے اندر سے دشمن کی طرح موقع کی تلاش میں کوئی وار خالی نہیں جانے دیتا اور بارشوں کے اس موسم میں وہ اپنے ڈیموں سے اضافی پانی چھوڑ دیتا ہے جس سے دریائوںمیں پانی کی حدِ تناسب خطرناک حد تک بڑھ جاتی ہے جس سے سیلاب کی صورت میں تباہی پھیلتی ہے - شہری اور دیہی علاقے اس لیے متأثر ہوتے ہیں کہ ایک دریاکے ہیڈ میں پانی کے گزرنے کی گنجائش 4.5لاکھ کیوسک ہے اور اگر اس میں پانی کی حد 9لاکھ کیوسک فٹ آجائے تو پھر اس ہیڈ و دریا کو محفوظ رکھنے کیلئے کم آبادی والے علاقوں میں دریائوں اور بندوں پر شگاف ڈالاجاتا ہے تاکہ پانی کے اخراج اور خطرناک حدِ تناسب کو کم کیا جائے ، اس شگاف سے اخراج شدہ پانی اور اُس کی زد میں آنے والے علاقوں، بستیوںاور فصلوں کو شدید نقصان پہنچتا ہے-

ملک میں جاری دہشت گردی، معیشت کی بدحالی اور سیاسی گرما گرمی، احتجاج ،جلسے جلوس، لوڈ شیڈنگ، بجلی کے نرخوں میں آئی ایم ایف کی ایماء پر بے جا بوجھ، مختلف ٹیکسز کے ادراک نے پہلے ہی عوام کا جینا دو بھر کردیا ہے ان حالات میں قدرتی آفات کا آنا عوام کیلئے قیامتِ صغرٰی سے کم نہیں ہے  - آفات دو طرح کی ہوتی ہیں ایک خالصتاً اللہ پاک کی طرف سے جس کا حفاظتی تدابیر و بچائو کے سوا کوئی سدِباب نہیں ہوسکتا ، دوسری قدرتی آفات کی قسم ہماری اپنی کوتاہی ، ہٹ دھرمی عدم تحفظ کی منصوبہ بندی سے وابستہ ہے کہ پانی کی نکاسی کیلئے سیوریج سسٹم بناسکتے ہیں ، ڈیم بنا سکتے ہیں اور نہ بنائے یعنی آبیل مجھے مار کے کلیہ کے تحت قدرتی آفات کا سامنا کرنا جس کی مثال موجودہ سیلاب کی تباہ کاری بھی ہے اگر ڈیم ہوتے، پانی کے معقول اخراج و استعمال کا منظم انتظام ہوتا تو شاید یہ تباہی نہ پھیلتی -

سیلاب ہر سال ملک میں آتا ہے ،اس پر اربوں روپے کے فنڈ صَرف کیے جاتے ہیں اور اس کے نقصانات کا باریک بینی کی عینک سے تخمینہ لگایا جائے تو اربوں ڈالر کا نقصان ہوتا ہے- ریلیف آپریشن پر آنے والے اخراجات سے کم بجٹ میں ڈیم کی تعمیر ممکن ہے ،جب سیلاب آتا ہے تو ہنگامی بنیادوں پر امدادی کام بھی کیے جاتے ہیں اور آئندہ کیلئے سیلاب سے بچنے کی ممکنہ پالیسی بھی وضع کی جاتی ہے روایتی انداز اور روایتی عمل کے تحت چند دنوں کے بعد ہم سیلاب اور اُس کی تباہ کاریوں کو تاریخ کا حصہ سمجھ کر بھول جاتے ہیں لیکن یاد رکھیں جو قومیں اپنی تاریخ سے راہِ فرار اختیار کرتی ہیں وہ ہمیشہ ناکامی و رسوائی کا سامنا کرتی ہیں ، تاریخ انہیں مٹا دیتی ہے ، بھلا دیتی ہے ، ایسا ہی کچھ سیلاب کے آنے اور چلے جانے کے بعد ہمارے ملک و عوام کے ساتھ ہوتا ہے جہاں حکومتی مشینری سیلاب متأثرین کیلئے ریلیف آپریشن میںسر گرم عمل نظر آتی ہیں وہاں فلاحی ادارے، این جی اوزبھی اس موقع پر اپنی مدد آپ کے تحت جذبۂ ہمدردی و خیر سگالی پر عمل پیر ا ہوتے ہوئے سیلاب سے متأثرین کی بھر پور مدد کرتے نظر آتے ہیں - اپنی مدد آپ کے تحت کرنے والے ادارے ، جماعتیں محدود وسائل میں لامحدود کام منظم پلاننگ و حکمتِ عملی سے سر انجام دیتے ہیں -

اس سال بھی ان فلاحی اداروںو تنظیموں میں سرِ فہرست ’’اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین‘‘ کے رضا کاروں نے متأثرہ علاقوں میں ریلیف آپریشن کیا جو تاحال گھروں کی تعمیر کیلئے جاری ہے - سیلاب کی تباہی سے جو گھر مسمار ہوگئے ان کی تعمیر کیلئے’’ اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین‘‘ چادر و چاردیواری کے تقدس کو بحال رکھنے کیلئے فی الفور نقد رقم کیونکہ سردیوں کی آمد آمد ہے ، سردیوں میں اُن افراد کو ڈھانپنے کیلئے چھت جلد از جلد فراہم کی جائے،جمع کروائی- اصلاحی جماعت کے ریسکیو عملے اور خدمت خلق پر مامور رضا کاروں نے متأثرہ علاقوں میں حق داروں تک اعلیٰ تقسیم کاری نظام کے تحت امدادی اشیاء و نقد رقومات تقسیم کیں - گزشتہ دنوں ملتان میں کشتی کے ڈوبنے کے حادثے میں جاں بحق افراد کے لواحقین و وُرثا ء سے ملاقات کر کے ’’اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین ‘‘کے سرپرستِ اعلیٰ حضرت سلطان محمد علی صاحب مدظلہ العالی کے حکم سے ایک لاکھ نقد کا چیک پیش کیا گیا-

 اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین فلڈ ریلیف آپریشن بورڈ کے ذمہ داران نے ضلعی سطح پر سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا جائزہ لینے کے بعد اپنے وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے متأثرین کو فی گھرانہ قومی شناختی کارڈ نمبر اور الیکشن کمیشن کی 4.cیوسی گھرانہ کی فہرست کی تصدیق کے بعد فی خاندان ایک مَن سے تین مَن گندم اورچاول، آٹا ، صابن ، دالیں، ماچس، بسکٹ،پانی، کپڑے، چادریں،مردانہ و زنانہ ، پچوں کئے کپڑے ، کمبل، رضائیاں، بستر و دیگر بنیادی ضروریات اشیاء کا سامان اور گھروں کی تعمیر کیلئے نقد رقم کی ادائیگی سینکڑوںخاندانوں کوکی گئیں اور تاحال ریلیف آپریشن جاری ہے- حافظ آباد ضلع میں پنڈی بھٹیاں، بلال بھٹیاں اور اس کے اردگرد کی ملحقہ بستیوں میں کئی خاندانوں کو امدادی اشیاء فراہم کی گئیں-

جھنگ ضلع میں ضلعی دفتر اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین سے 200خاندانوں کو امدادی اشیاء اور گھروں کی تعمیر کیلئے نقد رقوم ادا کی گئی- جھنگ شہر سے ملحقہ آبادیوں،چنڈ بھروانہ، نیکوکارہ، باٹیاں پُل، لاشاری، ٹبہ گیلی، قائم والا اور اٹھارہ ہزاری بند میں شگاف ڈالنے سے آبادیوں کو شدید نقصان پہنچا ، کئی ہزار ایکڑ زمین زیرِ آب آ گئی ان میں اٹھارہ ہزاری اور اس سے ملحقہ بستیاں روڈو سلطان ، شریف آباد، موضع سلطان باھُو اوراس سے ملحقہ بستیاں آرے والی بستی، پرانی بستی اورموضع سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کے دیگر علاقے میں 400خاندانوں کو اندراج کر کے بنیادی ضروریات زندگی مسلسل فراہم کی جا رہی ہیں-

ضلع مظفر گڑھ میںہیڈ محمد والا ،رنگپورمیں شگاف سے ہیڈ پچنند کو محفوظ بنانے کیلئے شگاف ڈالا گیا جس سے ملحقہ آبادیوں کو شدید نقصان پہنچا- مظفر گڑھ میں بستی گاگرہ ، واجووالا، شہر سلطان ، رانجھن چوک، رنگ پورو دیگر چھوٹی چھوٹی بستیوں میں نقصان ہوا جس کے ازالہ کیلئے اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین نے ہنگامی بنیادوں پرکام شروع کیے ہوئے ہیں- حافظ آباد ، جھنگ، مظفر گڑھ و دیگر متأثرہ علاقوں میں فلڈ ریلیف آپریشن تیزی سے جاری ہیں اس امدادی کام میں اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین کی میڈیکل ٹیم ، آبزرور ٹیم، ریسکیو ٹیم، ایڈمن ٹیم متأثرہ علاقوں میں کام جاری رکھے ہوئے ہیں-

****

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر