افغانستان کی حالیہ صورتحال اور پاکستان کے لیے ممکنہ پالیسی آپشنز

افغانستان کی حالیہ صورتحال اور پاکستان کے لیے ممکنہ پالیسی آپشنز

افغانستان کی حالیہ صورتحال اور پاکستان کے لیے ممکنہ پالیسی آپشنز

مصنف: اُسامہ بن اشرف جنوری 2020

بیسویں صدی میں امریکہ و سوویت یونین کی سرد جنگ میں تباہ ہونے والا افغانستان ابھی تک امن کیلیے کوشاں ہے- 11 ستمبر 2001ء کو امریکہ میں ہونے والے دہشتگردانہ حملے میں کم و بیش 3000 امریکی شہری مارے گئے جس کے بعد امریکی افواج و نیٹو نے القاعدہ اور افغانستان کی طالبان حکومت سے حملہ آوروں کی مبینہ پشت پناہی کا بدلہ لینے کیلیے افغانستان میں عسکری کاروائی شروع کی- اس 18سالہ جنگ میں صرف افغانستان میں کم و بیش 147,000 لوگ ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ پاکستان میں75,000سے زائد لوگ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جان کی بازی ہار چکے ہیں- اسی طرح امریکی انتقامی جنگ عراق میں 2003ء سے اب تک کم و بیش 3 لاکھ انسانی اموات کا باعث بن چکی ہے- المختصر! نائن الیون سے اب تک افغانستان، پاکستان اور عراق میں کم و بیش 5 لاکھ سے زائد انسان  دہشتگردی کے خلاف جنگ میں مارے جا چکے ہیں-[1]حالیہ رپورٹ کے مطابق پچھلے 18 سالوں میں کم و بیش 2400 امریکی فوجی مارے جا چکے ہیں اور امریکہ افغان جنگ میں تقریباً ایک ٹریلین ڈالر خرچ کر چکا ہے-جبکہ مجموعی طور پر افغانستان، عراق اور پاکستان میں لڑی جانے والی اس جنگ کے اخراجات کم و بیش 6 ٹریلین ڈالر ہیں اور اگر امن قائم نہ کیا جا سکا تو 2050ء تک یہ قیمت 8 ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر جائے گی-[2] ایک اندازے کے مطابق صرف 30 بلین ڈالر سے دنیا بھر میں غربت سمیت کئی مسائل کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے- البتہ 14000 امریکی فوجیوں، 250000 افغان سکیورٹی اہلکاروں اور ایک ٹریلین ڈالر سے زائد رقم خرچ کرنے کے باوجود اس وقت افغانستان میں طالبان کا اثر و رسوخ اتنا زیادہ ہے جتنا پچھلے 20 سالوں میں کبھی نہیں تھا-

اس جنگ میں پاکستان 75000 سے زائد جانوں 123 بلین ڈالر کی خطیر رقم کا خسارہ براداشت کر چکا ہے - پاکستان میں کم و بیش 3 لاکھ افغان مہاجرین قیام پذیر ہیں -اس کے علاوہ پاکستان کو بلا واسطہ ہونے والے سیاسی،ثقافتی، معاشی، معاشرتی، سفارتی اور مذہبی نقصانات پر ایک مکمل مضمون تحریر کیا جا سکتا ہے-پاکستان نے ہمیشہ سے یہی مؤقف اپنا رکھا ہے کہ افغان مسئلہ کا حل صرف امن مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے-گو کہ ماضی میں امن کی مختلف کوششیں کی گئیں لیکن کوئی بھی کامیاب نہیں ہو سکی-آج سے تقریباً 18 سال قبل 2001ء  میں جرمنی کے شہر بون میں افغانستان امن معاملے پر ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا-اس کے دس سال بعد 2011ء میں دوبارہ جرمنی کے شہر بون میں افغان امن کے متعلق ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا گیاجس میں اس وقت کے افغان صدر حامد کرزئی، امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن اور اس وقت اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون سمیت کئی ممالک کے نمائندگان نے شرکت کی -البتہ نیٹو فورسز کی جانب سے پاکستان کے علاقے مہمند پر حملوں کے احتجاج میں پاکستانی کابینہ نے اس کانفرنس میں شمولیت سے انکار کیا تھا-اس کانفرنس میں افغانستان میں مستقل امن کے متعلق ممکنہ اقدامات پر بحث کی گئی-2013ء میں افغان طالبان نے قطر کے شہر دوحہ میں اپنا سیاسی دفتر کھولا تاکہ وہاں سے تمام سیاسی مذاکرات کیے جاسکیں-2019ء میں روس کے شہر ماسکو میں افغانستان کے متعلق کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں افغان طالبان کے ایک وفد نے شرکت کی اور افغانستان کے سیاسی وفود اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات ہوئے- 2019ء  کے اوائل میں لاکھوں جانوں کے ضیاع اور اربوں ڈالر کے نقصان کے بعد امریکہ نے پاکستانی مؤقف کی تائید کرتے ہوئے افغان طالبان سے امن مذاکرات کا آغاز کیا- وینسٹن چرچل نے بالکل ٹھیک کہا تھا کہ :

“You can always count on Americans to do the right thing- after they've tried everything else”.

’’آپ ہمیشہ امریکیوں کو اس وقت ٹھیک کام کرتے دیکھیں گے جب وہ بقیہ تمام طریقے آزما چکے ہوں گے‘‘-

ستمبر 2018ء کے اوائل میں افغان نژاد امریکی زلمے خلیل زاد کو افغانستان میں امریکہ کا خصوصی ایلچی مقرر کیا گیا جنہوں نے پاکستان کی مدد سے افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان امن مذاکرات میں کلیدی کردار ادا کیا- پاکستا ن کی بھر پور مدد سے افغان طالبان اور امریکہ کے مابین 2019ء کے اوائل میں شروع ہونے والے مذاکرات کا نواں دور اگست میں دوحہ میں جاری تھا اور دونوں فریقین کے درمیان ایک امن معاہدہ تقریباً طے پاچکا تھا کہ ان مذاکرات کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یہ کَہ کر معطل کر دیا گیا کہ افغان طالبان امریکی فوجیوں پر حملے کر رہے ہیں-البتہ دونوں فریقین نے مکمل طور پر مذاکرات کے خاتمے کا اعلان نہیں کیا اور بات چیت کے امکانات موجود رہے-اس تمام معاملے میں پاکستان نے دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات دوبارہ شروع کروانے کے لیے بھر پور کردار ادا کیا-پاکستان کی ثالثی پر گزشتہ ماہ باہمی اعتماد سازی کیلیے امریکہ اور طالبان نے قیدیو ں کا تبادلہ کیا تھا -طالبان نے 2016ء میں کابل سے اغوا کیے جانے والے امریکی اور آسٹریلوی پروفیسروں کو رہا کیا جس کے بدلے میں امریکہ نے طالبان کے 3 مرکزی رہنماؤں کو رہا کیا- امریکہ کے ساتھ امن مذاکرات کی معطلی کے بعد افغان طالبان کی مرکزی قیادت پر مشتمل وفد نے روس، ایران، چائنہ اور پاکستان کا دورہ بھی کیا- طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ ملا عبد الغنی برادر کی قیادت میں آنے والے وفد نے پاکستان کے کہنے پر امریکہ کے ساتھ امن مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا- گزشتہ ماہ 28 نومبر کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ’’تھینکس گیونگ‘‘ دن کے موقع پر افغانستان میں امریکا کے سب سے بڑے فضائی اڈے بگرام ایئر فیلڈ کا دورہ کیا اور امریکی فوجیوں سے ملاقات کی-امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان کے صدر اشرف غنی کے ساتھ بھی ملاقات کی اور افغان امن مذاکرات کے متعلق تبادلہ خیال کیا-ٹرمپ نے اس مختصر دورے کے دوران اعلان کیا کہ امریکہ افغان طالبان کے ساتھ امن مذاکرات دوبارہ شروع کر نے کا خواہشمند ہے اورٹرمپ نے یہ اعلان بھی کیا کہ افغانستان میں موجود 14000 امریکی فوجیوں میں سے صرف 8600 افغانستان میں رہیں گئے جبکہ بقیہ امریکی فوجی واپس بلوا لیے جائیں گئے- دسمبر کے پہلے عشرے میں امریکہ اور افغان طالبان نے قطر کے شہر دوحہ میں باقاعدہ امن مذاکرات شروع کر دیے ہیں- صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کوشش ہو گی کہ آئندہ سال نومبر میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات سے قبل افغانستان سے زیادہ سے زیادہ امریکی فوجیوں کا انخلا کیا جائے تاکہ اپنی الیکشن کمپین میں کیے گئے وعدوں کو عملی جامہ پہنا سکے-

یہ بات قابلِ غور ہے کہ دسمبر کے دوسرے ہفتے میں امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے افغان جنگ کے متعلق خفیہ دستاویزات شائع کیں جن میں انکشاف کیا گیا ہے کہ امریکہ نے 18 سالہ افغان جنگ میں حقائق کو عوام سے ہمیشہ چھپائے رکھا-کم و بیش 2 ہزار صفحات پر مشتمل ان خفیہ دستاویزات میں600 سے زائد سینئر امریکی فوجی افسروں اور اہلکاروں کے انٹرویوز شامل ہیں جن میں تقریباً سبھی کا کہنا ہے کہ اس جنگ کے بارے میں وہ ہمیشہ سچ کو چھپا کر یہ اعلانات کرتے رہے کہ وہ جنگ جیت رہے ہیں-ان دستاویزات میں یہ انکشاف کیا گیا کہ امریکی حکام یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ افغانستان جنگ نہیں جیت سکتے دل بہلانے والے اعلانات کرتے رہے- امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ایک افسر کے مطابق افغانستان میں موجودہ حال کے پیشِ نظر امریکہ کو مضبوط وفاقی حکومت بنانے میں سو سال لگیں گے- اس کا مزید کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے جیسے افغانستان میں ہمارا (امریکہ) کا مقصد کرپشن کا بڑے پیمانے پر فروغ تھا-ایک تھری سٹار امریکی جنرل ڈگلس لیوٹ جو صدر جارج ڈبلیو بش کے دورِ حکومت میں عراق اور افغانستان میں مرکزی کردار ادا کر چکے ہیں نے 2015ء میں انٹرویو کرنے والوں کو بتایا کہ:

’’ہم افغانستان کی بنیادی سمجھ سے لاعلم تھے، ہمیں پتہ نہیں تھا کہ ہم کیا کر رہے ہیں‘‘-

یہ معلومات ویت نام جنگ کے بارے میں پینٹاگان کی دستاویزات سے ملتی جلتی ہیں جو اُس وقت واشنگٹن پوسٹ نے شائع کی تھیں اور ملک بھر میں عوامی احتجاج شروع ہوگئے تھے جس کی وجہ سے امریکہ کو اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے ویت نام جنگ کا خاتمہ کرنا پڑا تھا-بلا شبہ اس وقت امریکی حکومت شدید دباؤ کا شکار ہے اور ان کی چاہت ہے کہ وہ جلد از جلد باعزت طریقے سے افغانستان سے اپنی فوج نکال سکیں - [3]

المختصر!افغان امن عمل میں پاکستان کا ہمیشہ کلیدی کردار ادا کیا ہے جس کا ناصرف امریکی قیادت بلکہ افغان طالبان کے رہنما بھی اعتراف کر چکے ہیں-لیکن بدقسمتی سے پاکستان اس بین الاقوامی گریٹ گیم میں ہمیشہ بری طرح متاثر ہوتا چلا آیا ہے- اس وقت پاکستان ایک مضبوط کردار کی حیثیت رکھتا ہے اس لیے پاکستان کو چاہیے کہ وہ افغانستان میں مستقل امن و استحکام کی ضمانت کے ساتھ ساتھ پاکستان کے امن و استحکام اور ترقی و خوشحالی کو بھی یقینی بنائے- پاکستان کو چاہیے کہ وہ امریکہ، افغانستان کی موجودہ حکومت اور طالبان سمیت تمام سیاسی فریقین سے پاکستان کے جائز مفادات کے تحفظ کی ضمانت لے-ڈیورنڈ لائن کے مسئلے کو مستقل طور پر حل کروایا جائے-پاک افغان بارڈ کی فول پروف سکیورٹی اور افغان مہاجرین کی جلد از جلد وطن واپسی کی ضمانت بھی شامل ہونی چاہیے-اسی طرح تمام افغانی فریقین سےترکمانستان، افغانستان، پاکستان، انڈیا پائپ لائن (TAPI Pipeline)کی سکیورٹی کی ضمانت بھی لی جانی چاہیے اور افغانستان میں پاکستان مخالف انڈیا کے اثر و رسوخ کو مکمل طور پر ختم کروایا جانا چاہیے-پاکستان کو افغانستان کے ساتھ معاشی شراکت داری کو بھی مضبوط بنانا ہوگا اور افغانستان سے غیر قانونی تجارت کو روکنے کیلیے مؤثر اقدامات کرنے ہوں گئے- افغانی سر زمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ کیے جانے کی ضمانت بھی لینی ہو گی- پاکستان کو چاہیے کہ وہ روس اور چائنہ کے ساتھ مل کر ایک بین الاقوامی معاہدے کے ذریعے افغانستان کے مسئلے کا مستقل حل نکالے-امریکہ ایک مخصوص مدت تک افغانستا ن کو ترقیاتی فنڈ دینے کا پابند رہے تاکہ 40 سالہ جنگ کے شکار ملک کی ترقی و مستقل استحکام کو یقینی بنایا جا سکے- پاکستان کا اس جنگ میں ناقابل تلافی نقصان ہوچکا ہے لہٰذا اب وقت ہے کہ پاکستان اپنے وسیع تر مفاد کے پیشِ نظر تمام ممکنہ اقدامات کرے-

٭٭٭


[1]https://watson.brown.edu/costsofwar/files/cow/imce/papers/2018/Human%20Costs%2C%20Nov%208%202018%20CoW.pdf

[2]https://www.dawn.com/news/1444744

[3]https://www.washingtonpost.com/graphics/2019/investigations/afghanistan-papers/afghanistan-war-confidential-documents/

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر