سائوتھ ایشیا میں مزدوروں کی دگرگوں صورت حال اورعالمی قوانین

سائوتھ ایشیا میں مزدوروں کی دگرگوں صورت حال اورعالمی قوانین

سائوتھ ایشیا میں مزدوروں کی دگرگوں صورت حال اورعالمی قوانین

مصنف: طاہرمحمود مئی 2015

دنیا کے کسی بھی معاملے یامسئلے پر اگرگفتگو کی جائے تواس کا آغاز انسان سے ہوگا اوراختتام بھی انسان پر ہی ہوگا-گویا انسان ہی اس دنیا کامحور ہے - اگر ہم عالمی ماحول کی بات کریں وہ بھی انسان کی ضرورت ہے اور اس کو بہتر بنانے کی ذمہ دار ی بھی انسان پر ہی عائد ہوتی ہے - (Water resources)کی بات کریں تو وہ بھی انسان کے لئے ہیں اوران کا Protection  and  Consumptionدونوں کی ذمہ داری بھی انسان پر ہی عائد ہوتی ہے- اسی طریقے سے اگر معاشی پہلووں کی بات کی جائے جیسے غربت، افلاس،ذرائع کی غیر منصفانہ تقسیم ،امیر اورغریب میں بڑھتا ہوا فرق ،انسان کی بے بسی اور اس کے گرد جکڑی ہوئی معاشی غلامی کی زنجیری -ان تمام پہلوں میں انسان ہی نشانے پر ہے اورنشانے بنانے والا کوئی اورنہیں بلکہ انسان ہے - اِنسانوں میں بھی مختلف امور کو سر انجام دینے کیلئے مختلف طبقات ہیں جو اپنی اپنی بساط میں اپنا پیٹ پالنے اور سانس پورے کرنے کی تگ و دو کرتے ہیں کوئی عزت میں تو کوئی ذِلّت میں ، سرفرازی میں تو کوئی سربزیری میں ، کوئی امارت میں تو کوئی غربت کی اسفل السافلینی میں - اِن جُملہ طبقات میں ایک طبقہ ایسا ہے جو (کم و بیش ) ہر اِنسانی ضرورت میں آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنے کے باوجود ظُلم و ستم اور جور و جبر کی چکّی میں پِستا رہتا ہے - اور وہ ہے مزدور ! زمانۂ قدیم سے لیکر آج کے جدید دور تک اگر کسی کی حالت نہیں بدلی کوئی غُلامی کی زنجیروں سے آزاد نہیں ہوا تو وہ مزدور ہی ہے - ترقی یافتہ ممالک میں بھی مزدور کمپیریٹیو لی پسماندہ زندگی گزارتا ہے - جس کی کئی وجوہات ہیں - جبکہ ایشیا میں بھی مزدورں کی حالت زار کی وجہ باقی دنیا سے کچھ مختلف نہیں، ایشیا میں مزدورتیں چیزوں کاسامناکررہاہے،جبری مشقت ،انسانی اسمگلنگ اورغلامی ،جبری مشقت کی مختلف صورتیں ہیں جن میں قرض غلامی (debt bondage)سمیت دیگر جدیدغلامی کی اقسام ہیں-

ILO(۱) کے مطابق دنیا میں تقریباً 21ملین افراد جبری مشقت کاشکار ہیں- 11.4ملین (55فی صد)خواتین اورلڑکیاں اور9.5ملین (45فی صد)مرد اورنوجوان ہیں -تقریباً 19ملین(90فی صد) متأثرین نجی افراد ،یاانٹرپرائیزز کی طرف سے استحصال،اورریاست یاباغی گروپوں کی جانب سے دو ملین سے زائد ہیں-ان متاثرین میں سے جن کااستحصال افراد یاانٹرپرائزز کرتے ہیں ،4.5ملین مجبور ہوکرجنسی استحصال (Sexual Exploitation)کاشکار ہیں -نجی معیشت میں ہر سال 150ارب ڈالر کاغیر قانونی منافع جبری مشقت کے ذریعے حاصل کیا جاتاہے-(۲)

غیرقانونی منافع سب سے زیادہ ایشیا میں( 51.8ارب ڈالر) ہے - اورترقی یافتہ معیشتوں اوریورپی یونین (Developed Economies & EU )  میں (46.9ارب ڈالر)ہے -اس کی دوبنیادی وجوہات ہیں (i)ایشیا میں سب سے زیادہ جبری مشقت اور(ii)ترقی یافتہ معیشتوں میں فی کس شرح منافع(per Victim profitability)ہیں -اورجبری مشقت سے کمایاجانے والا سالانہ فی کس( PVP)-(۳)

فی کس جبری مشقت سے کمائے جانے والا سالانہ منافع کاتناسب ترقی یافتہ معیشتوں میں ($34800 profit per victim)اورمشرق وسطیٰ میں فی کس سالانہ منافع ($15000 PPV)ایشیا میں ($5000 PPV)جو کہ افریقہ میں سب سے کم  3900ڈالر سالانہ ہے سب سے زیادہ جبری مشقت 19ملین میں سے 14.2ملین(68فی صد)گھریلو کام،زراعت ،تعمیر ،مینوفیکچرنگ ، انٹرٹینمنٹ کے شعبوں میں ہے اس کے علاوہ وہ لوگ جو دوسرے ممالک میں مہاجرین ہیں-ILOکے مطابق بچوں کے مقابلے میں بالغ زیادہ متاثر ہیں 15.4ملین(74فی صد)18سال اوراس سے اوپر کے نوجوان ہیں اور5.5ملین(26فی صد)17سال اور اس سے کم عمر کے بچے شامل ہیں -دنیا کی سب سے زیادہ جبری مشقت Asia Pacificمیں ہے جو کہ تناسب کے لحاظ سے 56فی صد بنتا ہے اور11.7ملین لوگ اس جبری مشقت کانشانہ بن رہے ہیں-(۴)

دنیابھر میں جبری مشقت کاسب سے زیادہ حصہ ایشیا کاہے -2005ء میں 1.7ارب جو کہ دنیا کے کل مزدوروں کا57.3فی صد ایشیا سے ہے اورجنوبی ایشیا میں دنیاکی آبادی کا 23فی صد جو کہ دنیا کا21فی صد افرادی قوت  (Labour Force)ہے - ایک اندازے کے مطابق 2015ء تک جنوبی ایشیا میں افرادی قوت 24فی صداور2030ء تک 51فی صد اضافہ ہوجائے گا-2005ء تک ایشیا میں جنوبی ایشیا کی افرادی قوت کاحصہ -34.79 فی صد تھا جو کہ 2030ء میں 42.34فی صد ہوجائے گا-(۵)

جنوبی ایشیا میں مزدورں کے دگرگوں صورتحال باقی دنیاسے مختلف نہیں اوراس کی کئی جوہات ہیں جن میں ،بین الاقوامی تجارت کاحجم اوردنیا بھر کے پیداواری مراحل کے پھیلائو - مزدوروں کی دگرگوں صورت حال ترقی پذیر ممالک سے ترقی یافتہ ممالک کے طرف رخ کیے ہوئے ہے-اسکی ایک اور وجہ خوشحال اورمال دار رعلاقوں کے امیر لوگوں کاطرز زندگی ہے جن کی اشیائِ ضرروت کی پیداوار کم آمدنی والے ممالک کے مزدور کواستعمال کرکے پوری کی جاتی ہے - مزدور کوجن مسائل کاسامنا ہے اس میں پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کے دوران صحت وجان کاعدم تحفظ غیر محفوظ روزگار ،صنفی عدم مساوات ،غیر ہنر مند اورکم ہنر مند افرادی قوت میں عدم مساوات ،بچوں کی مشقت، اورجبری مشقت - جبری مشقت کااورمزدورں کی حالت زار کی کچھ اوروجوہات بھی ہیں-جن میں سے دیہاتوں کی پسماندگی اوراس کے شہری علاقوں سے زیادہ فاصلہ ،کم آمدنی والی معشیت اورکم ترقی یافتہ مارکیٹ -گھروں کے حالات اورآمدنی اوران کے پاس کا م کرنے کی مہارت بھی کم ہیں-اس کے علاوہ صحت کے ہنگامی حالات ،جہیز ،خوراک کی قلت یا ملازمت یاایک آمدنی کمانے والے شخص سے اچانک نوکری کاچھوٹ جاناجیسی وجوہات ،ایک غریب مزدور کوقرضہ لینے پر مجبور کرتی ہیںلیکن کچھ اورعوامل جیسے تعلیم تک رسائی ،مقامی سرمایہ داروں اورآجروں کی اجارہ داری اورسماج پراشرافیہ کابڑھتا ہواغلبہ-

جنوبی ایشیا کے ممالک میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ تقریباً تمام ممالک استعماریت کے زیراثر رہے ہیں- برصغیر میں زیادہ سے زیادہ موجودہ قانون کے ماخذ1726ء میثاق ایکٹ ہے -انیسویں صدی کے وسط تک ،برطانیہ نے موجودہ بھارت،پاکستان،بنگلہ دیش اورسری لنکاپرغلبہ حاصل کرلیا (۶)- اور1856ء میں ایک قانونی کیمشن لارڈ میکالے کی سربراہی میں بنایاگیاجس نے بہت سارے قوانین بنائے جن میں سے اکثر آج بھی کسی نہ کسی صورت میں ان ممالک کا حصہ ہیں (۷) - ان میں سے آقا اورغلام کاقانون ہی موجودہ مزدور قوانین کی بنیاد ہیں (۸) - جنوبی ایشیا کے ممالک میں لیبر قوانین توموجود ہیںلیکن ان کادائرہ کار محدود ہے-اوران کااطلاق یکساں نہیں -یہ قوانین بہت سے مزدور گروپوں اوراداروں کااحاطہ نہیں کرتے خاص طور پر چھوٹے ادارے (۹)- ان کادائرہ کارعام طور پربڑے پیمانے پرپیداواری ادارے اورسروس سیکٹر ہیں-(۱۰)

دوسرا بڑا مسئلہ لیبر قوانین میں یکسانیت کافقدان ہے -مثال کے طور پر وفاقی سطح پر،صوبائی سطح پر اوراسی طرح مختلف سیکٹرز کے حوالے سے مختلف قوانین ہیں-(۱۱)

2000ء کے آغاز میں، قومی،علاقائی یا عالمی سطح پر جبری مشقت کے حوالے سے کوئی بھی ٹھوس اعداد وشمار موجود نہیں تھے-بعض بین الاقوامی تنظیموں ،حکومت ،میڈیا اورغیرسرکاری تنظیموں کے پاس جو معلومات تھیں وہ بھی مبہم اورمختلف اندازوں پر مبنی تھیں -2007ء سے2012ء کے درمیان ILO  کوجبری مشقت کے تاریخی شواہد کاحوالا دیا-ILOکے قائم ہونے کے بعد جنوبی ایشیا میں لیبر قوانین میں اصلاحات کیں اوربنیادی کنونشنز کی توثیق کی بنگلادیش کنونشن نمبر(138 or 182)کے علاوہ تمام توثیق کی ہے،انڈیا نے کنونشن نمبر(87,98,100,138 or 182)تمام کی توثیق کی پاکستان اورسری لنکا نے تمام بنیادی کنونشنز کی توثیق کی- (۱۲)

ILO کولیبر کے جن مسائل پرتشویش ہے ان میں تین بہت اہم ہیں-(۱۳)

(i)جنوبی ایشیا میں طویل عرصے سے جاری قانون سازی کے باجود جبری مشقت کاتسلسل.

(ii)بچوں اورنوجوانوں کی وسیع پیمانے پرسمگلنگ اوران کے جنسی (Sexual)اورمحنتی(Labor)استحصال.

(iii)ریاستی اورسرکاری اداروں کی طرف سے جبری مشقت کامسلسل استعمال :خاص طور پر میانمار (برما) میں.

اس آرٹیکل میں کچھ عناصر کاذکر ہوا کہ وہ جبری مشقت کاتذکرہ ہواILOکے مطابق جبری مشقت کااطلاق ہر اس کام اورخدمت پرہوتا ہے جو وہ اپنی مرضی سے نہیں دیتا بلکہ وہ کسی ڈر یاسزا کے ڈر سے مشقت کاسامنا کرتاہے-(۱۴)

اس آرٹیکل میں اس کاذمہ دارجنوبی ایشیا کے ممالک کے اندر امراء کاطبقہ شامل ہے -لیکن جنوبی ایشیا کے امراء کے سروں پرجن کا دست شفقت ہے وہ مہاامراء کاطبقہ ہے ان کاتعلق کسی سلطنت سے نہیں بلکہ دنیا کے مختلف ممالک کے اشرافیہ ہیں-اورغریب ممالک کے یہ اشرافیہ ان مہاامراء کے بیچوان کاکردار اداکرتے ہیں وہ ممالک جن کی معیشت بہت کم ہے اورآبادی زیادہ ہے جیسا کہ جنوبی ایشیا یہاں مزدورں کودوہری جبری مشقت کاسامناہے ایک وہ جو مہامراء کی وجہ سے اوردوسرا ان امراء کی وجہ جو مقام استحصالی ہیں - ان مہاامراء کادستور نرالا ہے ان کی لاٹھی ٹوٹتی تونہیں لیکن غریب مزدور کی کمر توڑ دیتی ہے -اوربیچارے مزدور کواس کااحساس تک نہیں ہوتا -

علامہ اقبال نے ’’ پیامِ مشرق‘‘ میں مزدور کی حالتِ زار کو اس طرح بیان فرمایا :

زِمُزْدِ بندۂ کرپاس پوش ومحنت کش

نصیبِ خواجۂ ناکردہ کار، رختِ حریر

زخَوے فشانی من لعلِ خاتم والی

زِ اشکِ کودکِ من گوہرِ ستامِ  امیر

کھردرے لباس اورمحنت کرنے والے مزدور کی مزدوری سے نااہل سرمایہ دار کوریشمی لباس ملا-غریب مزدور کاپسینہ حاکم کی انگشتری میں یاقوت بن کرسجاہے اورمزدور کے بچے کاآنسو سرمایہ دار کے گھوڑے کی زین کاموتی بنا ہے -

اقبال مزدور کی تکلیف کومحسوس کرتے ہوئے یہ فرماتے ہیںکہ- (۱۵)

بندۂ مزدور کو جا کر مرا پیغام دے

خضر کا پیغام کیا، ہے یہ پیام کائنات!

اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دارِ حیلہ گر

شاخ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات !

دستِ دولت آفریں کو مُزدیوں ملتی رہی

اہل ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکات !

اقبال یہ فرماتے ہیں کہ مزدور کی محنت کاپھل توسرمایہ دار کھاجاتے ہیں -اوراس کابرائے نام معاوضہ مزدور کوایسے دیاجاتا ہے جیسے زکوٰۃ دی جاتی ہے -سرمایادارمزدورکوقومیت ، نسل ،سلطنت ،تہذیب ،اوررنگ کے ایسے ایسے نشے ایجا دکررکھے ہیں اورمزدور ان کودیکھ کرسرشار ہوجاتا ہے -حالانکہ یہ سب عناصر سرمایہ دارکے استحصالی نظام کے ستونوں کی حیثیت رکھتے ہیں -جب کہ مزدور انہی عناصر کے نشے کے سبب اپنے ذاتی اثاثے سے بھی محروم رہتا ہے -لیکن مزدوروں کے لئے ایک اورپیغام ہے جِسے اقبال نے اِس انداز میں پیش کیا کہ ’’لینن خُدا کے حضور‘‘ عرض کر رہا ہے :

توقادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں

ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے حالات

(۱۶)

جِس کے جواب میں فرشتوں سے یہ کہا جاتا ہے کہ :

اُٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو

کاخِ امراء کے در و دیوار ہلا دو

جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی 

اُس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو

 (۱۷)

سرمایہ دارانہ نظام اور اِس کی لوازمات مثلاً جاگیرداری و وڈیرہ شاہی کے اسیروںاور غلاموں کی خدمت میں عرض ہے کہ سیّد الانبیا حضرت محمد الرسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ مزدور کو اس کی اُجرت پسینہ خشک ہونے سے پہلے اداکردی جائے -

٭٭٭

حوالہ جات:

(1) International labour Organization(ILO)

(2) http://www.ilo.org/global/topics/forced-labour/lang--en/index.htm

(3) ILO, Profits and poverty: The economics of forced labour, available at:

http://www.ilo.org/wcmsp5/groups/public/---ed_norm/---declaration/documents/publication/wcms_243027.pdf

(4) Smita Premchander, V. Prameela and M. Chidambaranathan, "PREVENTION AND ELIMINATION OF BONDED LABOUR: The potential and limits of microfinance-led approaches", ILO available at: http://www.ilo.org/wcmsp5/groups/public/---ed_norm/---declaration/documents/publication/wcms_334875.pdf

(5) http://panossouthasia.org/pdf/Labour_Globalisation.pdf

(6)  1923 ء میں ایک معاہدے کے تحت نیپال برطانیہ کے استعماری تسلط کا براہِ راست حصہ نہیں رہا-

(7)  مثال کے طور پر 1860ء کا تعزیراتِ ہند(Penal Code) جو ہندوستان اور 562ریاستوں سمیت زیادہ تر لاگو تھا -اور تقسیمِ ہند کے بعد یہ قانون پاکستان میں (Pakistan Penal Code) اور انڈیا میں (India Penal Code)  اور 1971ء میں بنگلہ دیش کی علیحدگی کے بعد (Bangladesh Penal Code) اور سری لنکا میں 1833کا (Penal Code) رائج ہے یہ قوانین کچھ ترامیم کے علاوہ تقریبا تمام ممالک میں ایک جیسے ہیں اسی طرح 1898ء کا فوجداری قانون بھی ہے-

(8)  Anderson, M. 2004. "India 1858-1930: The illusion of free labour" in D. Hay; P. Craven (eds.): Masters, servants, and magistrates in Britain and the Empire, 1562-1955 (Chapel Hill, N.C. University of North Carolina Press).

(9) Afzal, A. 2006."Pakistan, WTO and labor reform", in Boston College Int'l & Comp. L. Rev.Vol. 29, pp. 107-122.  Also See the Industrial Employment (Standing Orders) Act, 1946 and the Industrial Disputes Act,1947 India.

(10) Factories Act, 1934 of Pakistan, the Factories Act, 1965 of Bangladesh, Factories Act, 1948 of India, Factories Ordinance, 1950 of Sri Lanka, the Labour Act, 1992 of Nepal apply to factories and other specified establishments, but not to all establishments were workers are engaged or employed.

(11) In India at the Central level there are the Factories Act, 1948; Mines Act, 1952, Plantations Labour Act, 1951, Bangladesh has the Road Transport Workers Ordinance, 1961; Tea Plantations Labour Ordinance, 1962; Factories Act, 1965, similarly in Pakistan and Sri Lanka as well.

(12) The Forced Labour Convention, 1930 (No. 29), the Freedom of Association and Protection of the Right to Organise Convention, 1948 (No. 87); the Right to Organise and Collective Bargaining Convention, 1949 (No. 98); the Equal Remuneration Convention, 1951 (No. 100); the Abolition of Forced Labour Convention, 1957 (No. 105); the Discrimination (Employment and Occupation) Convention, 1957 (No. 111); the Minimum Age Convention, 1973 (No. 138); the Worst Forms of Child Labour Convention, 1999 (No. 182)

(13) ILO, Forced Labour: Facts & Figures; available at

http://www.ilo.org/wcmsp5/groups/public/@ed_norm/@declaration/documents/publication/wcms_106391.pdf

(14) This is according the Forced Labour Convention no 29 (1930) (ILO 2001a:9).

(15)  Allama Iqbal, "Capital & Labour, Bang e Dara 162, Khizr's Reply" Stanza 7

(۱۶)علامہ اقبال لینن خدا کے حضور’’بال جبریل‘‘

(17) Allama Iqbal, GOD'S COMMAND (To His Angels), Bal-e-Jibril-131

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر