آزادیٔ اظہار پہ شائع شدہ رپورٹ کی لندن میں تقریبِ رونمائی

آزادیٔ اظہار پہ شائع شدہ رپورٹ کی لندن میں تقریبِ رونمائی

آزادیٔ اظہار پہ شائع شدہ رپورٹ کی لندن میں تقریبِ رونمائی

مصنف: مسلم انسٹیٹیوٹ ستمبر 2015

  تحقیقی ادارہ مسلم انسٹیٹیوٹ کے آن لائن ڈیبیٹ فورم ’’دی مسلم ڈیبیٹ‘‘ کے زیرِ اہتمام منعقد کردہ حالیہ ڈیبیٹ ’’کیا آزادی اظہارِ رائے، توہین کا حق دیتی ہے؟ ـ‘‘کی رپورٹ ۳۰جولائی ۲۰۱۵ء کو کنگز کالج لندن کے گریٹ ہال میں تقریبِ رونمائی میں پیش کر دی گئی - تقریب میں مغربی دانشوروں ، محققین ، یونیورسٹیز کے پروفیسرز ، طلبہ، وکلاء ، صحافیوں اور سول سوسائٹی کے نمائندگان نے شرکت کی-مسلم انسٹیٹیوٹ کے ریسرچ ایسوسی ایٹ علی اصغر شیخ نے ما ڈریٹر کے فرائض انجام دیے- تقریب کا احوال درج ذیل ہے-

افتتاحی کلمات (بذریعہ ویڈیو لنک)

صاحبزادہ سلطان احمد علی

چئیر مین، مسلم انسٹیٹیوٹ

میں تمام شرکاء کا تہہ دل سے مشکور ہوں کہ وہ مسلم انسٹیٹیوٹ (یوکے چیپٹر) کی دعوت پر اس پروگرام میں تشریف لائے- حال ہی میں ہونے والی آن لائن ڈیبیٹ ’’کیا آزادی اظہارِ رائے، توہین کا حق دیتی ہے ‘‘نے بہت سے نئے دلچسپ خیالات کے ساتھ ساتھ محققین اور پالیسی سازوں کے لیے خاصا مواد جمع کیا ہے- اس ڈیبیٹ میں دیئے گئے دلائل اور شرکاء کے بیانات اور ووٹنگ کی شرح سے اندازہ ہوتا ہے کہ زیادہ تر لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ آزادی اظہار رائے کسی کی توہین کا حق نہیں دیتی - چنانچہ یہ صرف مشرقی اقدار اور روایات کا ہی مطالبہ نہیں بلکہ بہت سے مغربی دانشوروں کی رائے میں بھی معاشرے میں امن اور بھائی چارہ قائم رکھنے کیلئے توہین کا حق، آزادی اظہارِ رائے کا حصہ نہیں ہے- انٹرنیشنل کانوینٹ آن سول اینڈ پولیٹیکل رائیٹس (ICCPR)  کے آرٹیکل ۱۹، ۱۲۰ور ۲۱ آزادی اظہارِ رائے کی مکمل آزادی دیتے ہیں لیکن اسی میں اس کی کچھ حدود بھی بیان کی گئی ہیں- گزشتہ ماہ اسلام آباد میں ہونے والی تقریبِ رونمائی میں زیادہ ترشرکاء نے یہ تجویز کیا تھا کہ آزادی اظہارِ رائے اور توہین کے حق کے معاملہ پر عالمی سطح پر مفاہمت ہونی چاہئے تا کہ ایسی پالیسی بنائی جا سکے جو سب کیلئے قابلِ قبول ہو ،معاشروں اورتہذیبوں میں صدیوں سے قائم اور پروان چڑھنے والے عقائد او روایات کی توہین اور تحقیر کرنے سے معاشروں میں نفرت جنم لیتی ہے جس سے بے چینی کی فضاء قائم ہوتی ہے- چنانچہ ایک دوسرے کی سمجھ بوجھ اور دوسروں کے خیالات اور نظریات کی برداشت ہی سے ہم آگے بڑھ سکتے ہیں- 

تعارفی پریزنٹیشن

جناب ایم علی افتخار

پروگرام مینیجر، دی مسلم ڈیبیٹ

مسلم انسٹیٹیوٹ کاآن لائن ڈیبیٹ پروجیکٹ ’’دی مسلم ڈیبیٹ‘‘آکسفورڈ سٹائل فارمولہ کے تحت مختلف موضوعات پر ڈیبیٹ کا انعقاد کرتا ہے- یہ فورم آزادانہ دلائل اور منطقی سوچ کے نظریہ پر قائم ہے- حالیہ ڈیبیٹ سے قبل ’’دی مسلم ڈیبیٹ ‘‘نے گزشتہ سال دو موضوعات ’’ کیا اسلامی معاشی نظام ایک ریاست کے نظام کو چلانے کیلئے تیار ہے؟‘‘اور’’مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے حالیہ بحران کی جڑیں یورپی نو آبادیاتی نظام میں ہیں؟‘‘کے موضوعات پر ڈیبیٹ کا انعقاد کیا- آزادی اظہارِ رائے اور توہین کے حق پر ہونے والی حالیہ ڈیبیٹ کا مقصد اس موضوع سے متعلق دُنیا بھر میں پائے جانے والے مختلف سوالات کے جوابات تلاش کرنا تھا مثلاً، اس حق کی حد کیا ہے اور توہین کب شروع ہوتی ہے ؟ کیا آزادی اظہارِ رائے کو مسلسل دوسروں کے ذاتی یا مذہبی حقوق پر فوقیت رکھنی چاہئے ؟ کیا اس پر کسی قسم کی پابندی عائد کرنے اور اس کے اطلاق سے معاشرہ اور افراد کی نشونما کو نقصان ہوگا؟ کیا یہ صرف کسی خاص طبقے کا غیر معمولی ردِ عمل اور بنیادی انسانی حقوق کی برداشت سے انکار ہے؟ وغیرہ

اس ڈیبیٹ میں ستر (۷۰) سے زائد ممالک کے افراد نے اپنے ووٹ اور اظہارِ خیال کے ذریعے حصہ لیا اور اکاسی فیصد81% افراد نے موضوع کی مخالفت میں ووٹ دیئے- مس ہیلری سٹافر نے یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ چارلی ہیبڈو کے توہین آمیز خاکے انتہائی ذاتی سطح پر توہین آمیز تھے، کہا کہ اس کا حل یہ ہے کہ اس میگزین کوخریدنا بند کردیا جائے اور اس کی ویب سایٹ کا بھی استعمال روک دیا جائے- جبکہ ڈاکٹر جیمسن ڈبلیو ڈوئیگ نے کہا کہ یہ خاکے نفرت انگیز تقریر کے زمرے میں آتے ہیں او امریکی معیار Brandunburgاور کنیڈین معیار Brian Dicksonکے مطابق غیر قانونی قرار دیئے جا سکتے ہیں-

خِطاب

محترمہ ہیلری سٹافر

وزٹینگ فیلو ہیومن رائیٹس اینڈ انٹرنیشنل لأ ؛ لندن اسکول آف اکنامکس

ڈیبیٹ میں ہارنے کے باوجود اس تقریب میں مدعو کئے جانے پر مَیں مسلم انسٹیٹیوٹ کا شکریہ ادا کرتی ہوں- باوجود اس کے کہ ہارنے کا احساس اچھا نہیں ہوتا لیکن مَیں اپنے مؤقف پر فخر محسوس کرتی ہوں اور اس کا دفاع کرتی رہوں گی ایک انسانی حقوق کی وکیل کے طور پر میں کئی ایسے کیس دیکھتی ہوں جن میں مذہبی اور سیاسی افراد کی جانب سے آزادی اظہارِ رائے کو نا انصافی سے دبایا جاتا ہے-اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس موضو ع سے متعلق میری سوچ کا بڑا حصہ میری امریکہ میں ہونے والی پرورش سے متأثر ہے جہاں آزادی اظہارِ رائے کا ہر روز بھر پوردفاع کیا جاتا ہے- مَیں یہ ہر گز نہیں کہنا چاہتی کہ اس متنازعہ موضوع پر امریکی نقطۂ نظر سب سے اچھا ہے ، لیکن میر ے نظریات میں میر ی ملکی شناخت اور ثقافت شامل ہیں- کوئی بھی شخص اپنی توہین نہیں چاہتا، مَیں بھی اپنی توہین نہیں دیکھنا چاہتی- مَیں نے اپنے کیریئر کا زیاد تر حصہ اپنی ہی حکومت کی دہشت گردی کے خلاف بنائی گئی پالیسیوں کے خلاف کیس کرنے میں اور بے سہارا بچوں کی مد د کرنے میں گزارا ہے- یہ ایک بہت خطرناک اور دشوار راستہ ہے کہ جو لوگ اقتدار میں موجود ہیں ، وہ ہمیشہ اقتدار میں ہی رہنا چاہتے ہیں اور آزادی اظہار رائے پر قدغن کے ذریعے ہمارے معاشرے کی آواز کو دبا کر اپنا ایجنڈا مسلط کرنا چاہتے ہیں- اگر آج ہم نے انہیںاس بنیادی انسانی حق پر پابندی میں سپورٹ کیا تو کل وہ ہمیں ان چیزوں سے روک دیں گے جو وہ خود نا پسند کرتے ہیں- مَیں اس حق پر سرنڈر کرنے کو تیار نہیں ہوں ، جس کے لئے پچھلی نسلوں نے جدوجہد کی ہے-

خِطاب

ڈاکٹر پیٹر ڈینس

سینئیر فیلو فلاسفی اینڈ لاجک ؛ لندن سکول آف اکنامکس

مَیں اس آن لائن ڈیبیٹ کو پڑھ کر بہت متأثر ہو ا اور مسلم انسٹیٹیوٹ کی اس تقریب میں آکر انتہائی خوشی محسوس کر رہا ہوں - اس ڈیبیٹ سے اٹھنے والے نقاط میں سے ایک نقطہ یہ ہے کہ ایسا کوئی غیر جانبدار سیاسی راستہ تلاش کیا جائے جس سے قابلِ قبول اور

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر